حضرت مخدوم سید شاہ رکن الدین شہباز حسینی اشرفی علیہ الرحمہ


 قدوۃ السالکین شہباز لامکانی حضرت مخدوم سید شاہ رکن الدین شہباز حسینی اشرفی   علیہ الرحمہ

(خلیفہ حضور مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی علیہ الرحمہ)

آپ کا اسم مبارک سید شاہ رکن الدین بن سید شاہ علاؤ الدین بن سید شاہ سراج الدین اور لقب 'شہباز' ہے ۔ آپ نسبتاً حسینی سید ہیں ۔ اکیس واسطوں سے آپ کا سلسلہ نسب حضرت امام عالی مقام امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ تک پہونچتا ہے آپ اتراک لاچین سے تھے آپ کے خاندان نے ایک لمبے عرصے تک عراق اور اس کے گرد ونواح میں حکومت کی ہے بچپن ہی سے طبیعت تصوف کی جانب مائل تھی ۔ حضرت مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی علیہ الرحمۃ والرضوان جب اپنے دوسرے دورۂ وطن سے فارغ ہو کر واپس ہندوستان تشریف لانے لگے تو آپ اور آپ کے صاحبزادے سید شاہ قیام الدین علیہ الرحمہ حضور مخدوم اشرف علیہ الرحمہ کے ہمراہ ہندوستان آ گئےچونکہ آپ اور حضور مخدوم اشرف علیہ الرحمہ کا سلسلہ نسب مادری رشتہ سے حضرت خواجہ احمد یسوی تک پہونچ کر متحد ہو جاتا ہے اور آپ دونوں حضرات کا خاندانی سلسلہ ابراہیمیہ،امیہ،سمنانیہ،سامانیہ، بھی ایک ہی ہے اس لیے آپ کی ذات حضور مخدوم اشرف علیہ الرحمہ کا خاص مرکز توجہ تھی۔ آپ حضور مخدوم اشرف علیہ الرحمہ کے چہیتے خلیفہ بھی تھے ۔حضرت کے خلفاء کے درمیان آپ کو ایک امتیازی شان حاصل تھی آپ صاحب طیر وسیر تھے چنانچہ اپنے پیر و مرشد حضور مخدوم پاک کے اشارہ پر چشم و زون میں روضہ مخدوم اشرف علیہ الرحمہ میں لگانے کے لئے پتھر اور نیر شریف میں ڈالنے کے لئے آب زمزم لیکر حاضر ہوگئے۔حضور مخدوم اشرف علیہ الرحمہ نے آپ کو شہباز لقب عطا فرمایا۔ دین و تبلیغ کی اشاعت کے لئے ایک فرحت بخش مقام نبی پورہ میں قیام کا حکم دیا ۔اطراف کچھوچھہ مقدسہ میں ایک جگہ نبی پورہ نام کی ہے جو اب "نئی پورا "سے مشہور ہے قصبہ ٹانڈا سے تقریبا 16کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے ۔یہ جگہ گھاگرا (سرجو) ندی کے کنارے ہونے کی وجہ سے سرسبز و شاداب ہے جب غوث العالم محبوب یزدانی سلطان سید  مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی قد س سرہ کا گزر اس جگہ سے ہوا تو آپ قد س سرہ  نے اسے پسند فرمایا اور یہی قیام کرنے کا ارادہ ظاہر کیا لیکن پھر یہ ارادہ کسی وجہ سے بدل دیا اور شیخ رکن الدین شہباز علیہ الرحمہ کو یہاں بسایا۔ نئی پورہ سے متصل مقام میں آپ کی درگاہ زیارت گا عام و خاص ہے۔آپ علیہ الرحمہ غوث العالم محبوب یزدانی سلطان سید  مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی قد س سرہ کی حیات طیبہ کے بہت سے واقعات کے مشاہد ہیں۔ لطائف اشرفی میں کئی مقامات پر آپ علیہ الرحمہ کا ذکر ہے مکتوبات اشرفی مرتبہ مخدوم الآفاق سید عبدالرزاق نورعین اشرفی علیہ الرحمہ  جو الرحمہ غوث العالم محبوب یزدانی سلطان سید  مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی قد س سرہ کے مکاتیب کا مجموعہ ہے کل 42 مکاتیب پر مشتمل ہے ان میں  33 واں مکتوب حضرت مخدوم سید شاہ رکن الدین شہباز حسینی کے نام ہے ۔حضرت مخدوم سید شاہ رکن الدین شہباز حسینی علیہ الرحمہ کے مزار اقدس کو گھاگرا ندی کی تباہ کاریوں کی وجہ سے دوبارہ منتقل کیا گیا ۔ایک بار وصال کے تقریبا 200 سال کے بعد یہ واقعہ رونما ہوا جس کا ذکر صاحب بحر ذکار مولانا وجیہ الدین لکھنوی نے کیا ہے۔ دوسری بات 1916 میں جب شدید سیلاب آیا تو متولیان وصاحبزادگان  نے اس کی اطلاع اپنے پیر و مرشد مخدوم المشائخ محبوب ربانی اعلی حضرت اشرفی میاں کچھوچھوی علیہ الرحمہ کو دی اور انہوں نے اپنے پیر و مرشد اشرف الصوفیاء  حاجی ابو محمد حسین اشرف اشرفی الجیلانی  قد س سرہ کی خدمت میں تذکرہ کیا آپ نے مراقبہ کے بعد جسد خاکی  نکال کر باغ کے قریب دفن کرنے کا حکم صادر فرمایا ۔اس کے علاوہ خود مخدوم المشائخ محبوب ربانی اعلی حضرت اشرفی میاں کچھوچھوی علیہ الرحمہ کو بحالت خواب صاحب مزار کی طرف سے اس کام پر مامور کیا گیا اس واقعہ کا پوری تفصیل صحائف اشرفی میں درج ہے۔آپ علیہ الرحمہ کا عرس مبارک 23 محرم الحرام کو نہایت ہی تزک و اہتما م سے ساتھ منایا جاتا ہے اور  آج بھی آپ کا فیضان جاری ہے۔ (صحائف اشرفی /اعلیٰ حضرت اشرفی میاں کچھوچھوی علیہ الرحمہ ) 

حضور شعیب الاولیاء الشاہ محمد یارعلی چشتی علیہ الرحمہ

Mazar Sharif 


حضور شعیب الاولیاء الشاہ محمد یارعلی  چشتی علیہ الرحمہ

حضرت شعیب الاولیاء شیخ المشائخ حضرت سیدنا شاہ محمد یارعلی رحمہ اللہ تعالی بانی دارالعلوم فیض الرسول براؤں شریف کی شخصیت اسلامیان ہند کے لئے محتاج تعارف نہیں۔آپ علیہ الرحمہ   سلسلۂ چشتیہ کے مشہور بزرگ ہیں، آپ مظہر شعیب الاولیاء، غلام عبدالقادر علوی جیسے عظیم الشان پیرانِ طریقت کے مرشد ہیں۔ مہانوں بالخصوص طالبان علوم نبویہ کی مہمان نوازی کرنے کے عوض دور کے عوام وخواص نے آپ کو شعیب الاولیاء کا لقب دیا جو آج بھی زبان زدِ عام ہے۔آپ کی پیدائش 1307ھ بمطابق 1887 عیسوی میں ہندوستان کے شمالی مشرقی صوبہ اترپردیش کے ضلع (بستی (موجودہ سدھارتھ نگرکے ایک گاؤں براؤں شریف (براؤں نانکار)  میں ہوئی۔یہ گاؤں قصبہ بانسی سے اٹوا کے راستے پر تقریبا 14 کلومیٹر پر ایک چوراہا گولہورا سے دکھن کی جانب ایک کلومیٹر کی دوری پر واقع ہے۔آپ علیہ الرحمہ  کا نام محمد یار علی ہے اور لقب شیخ المشائخ اور شعیب الاولیاء ہے۔ آپ کے والد گرامی کا نام محمد فجر علی ہے۔ آپ کا تعلق علوی سادات سے ہے۔سلسلہ نسب حسب ذیل ہے: شعیب الاولیاء محمد یار علی علیہ الرحمہ بن محمد فجر علی بن خورشید علی بن خان محمد بن عبد المنان بن عبد الرحمن بن خدا بخش بن سالار بخش بن محمد علی بن ہدایت علی بن جان محمد بن تاج محمد غازی بن محمد داؤد بن محمد قاسم بن سالار محمد تاج بن سالار محمد بن سالار سیف الدین سرخرو بن عطاء اللہ غازی بن طاہر غازی بن طیب غازی بن اشرف غازی بن عمر غازی بن ملک آصف غازی بن شاہ بطل غازی بن عبد المنان غازی عرف فریدالدین بن محمد بن حنفیہ بن سیدنا علی بن ابی طالب کرم اللہ وجہہ الکریم۔

آپ علیہ الرحمہ نے سلسلہ عالیہ قادریہ کے مسلم الثبوت بزرگ حضور شاہ محبوب علی علیہ الرحمہ ڈھلمؤ شریف (فیض آباد) کے دست حق پرست پر بیعت کی اور ان سے اجازت و خلافت بھی حاصل کی۔ ایک عرصہ تک حضرت محبوب علی علیہ الرحمہ کی خدمت میں رہ کر روحانی وعرفانی فیوض وبرکات حاصل کی۔ بعد ازاں انہیں کی نشان دہی پر آپ سلسلہ چشتیہ کے عظیم ترین بزرگ قطب الاقطاب حضرت شاہ عبداللطیف علیہ الرحمہ (سرکار ستھن شریف) کے پاس تشریف لے گئے جہاں حضرت شاہ عبداللطیف علیہ الرحمہ  نے آپ کو سلسلہ چشتیہ کی اجازت و خلافت سے نوازا۔ سلسلہ نقشبندیہ سہروردیہ میں آپ کو حضرت شاہ عبد الشکور علیہ الرحمہ (جھونسی شریف) نے اجازت و خلافت سے نوازا۔ اس طرح آپ نے تین سلسلوں؛ سلسلہ قادریہ، سلسلہ چشتیہ اور سلسلہ نقشبندیہ سہروردیہ سے اجازت و خلافت حاصل کی۔

آپ علیہ الرحمہ  نے اپنی حیات مستعارمیں بہت سے عظیم الشان اورمحیر العقول کارنامے انجام دیئے ہیں، آپ کے انھیں زریں خدمات اور فقید المثال کارناموں میں آپ کا ایک عظیم الشان کارنامہ ایسے معتبر ادارے کی تاسیس ہے جسے دار العلوم فیض الرسول براؤں شریف کے نام سے جانا اور پہچاناجاتاہے۔آپ   علیہ الرحمہ نے اپنا روحانی مشن پورا کر کے اور انتہائی ضعف نقاہت اور شدید مرض کی حالت میں بھی زندگی کے آخری  نماز عشاء باجماعت تکبر اولیٰ کے ساتھ ادا کر کے 23 محرم الحرام 1387 بمطابق4 مئی 1967 عیسوی شب جمعرات ایک بج کر 25منٹ پر دنیا فانی سے عالم جاودانی کی طرف رحلت فرمائی۔آپ علیہ الرحمہ  کا مزار مبارک جو براؤں شریف، سدھارتھ نگر یوپی انڈیا میں زیارت گاہ خلائق ہے۔

عاشق رسول حضرت سیدنا بلال حبشی رضی اللہ عنہ

عاشق رسول حضرت سیدنا بلال حبشی رضی اللہ عنہ

حضرت ابوعبداﷲ بلال کا شمار دربارِ رسالت ﷺ کے ان عظیم المرتبت ہستیوں میں ہوتا ہے جن کا اسم گرامی سُن کر ہر مسلمان کی گردن فرطِ احترام و عقیدت سے جُھک جاتی ہے۔ آپ رضی اللہ عنہ  کے والد کا نام رباح اور والدہ ماجدہ کا نام حمامہ تھا۔ آپ رضی اللہ عنہ  کے والدین غلام تھے۔ والد اُمیہ بن خلف کا غلام تھا اور والدہ حبشہ کے شاہی خاندان سے تعلق رکھتی تھیں جو ابرہہ کے بیت اﷲ پر حملہ آور ہونے کی مہم میں شریک تھیں۔جب اصحابِ الفیل کا لشکر عبرت آموز شکست سے دوچار ہوا تو شہزادی کنیز بن گئی اور بعد میں ایک غلام کی شریکِ حیات بنی۔اسی غلامی کی حالت میں بعثت سے تقریباً آٹھائیس برس پہلے ایک بچے نے جنم لیا جس کو تاریخ بلال حبشی رضی اللہ عنہ کے نام سے جانتی ہے۔

حضرت سیدنا بلال رضی اللہ عنہ مؤذنین کے سرخیل، قدیم الاسلام، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے گہرے دوست اور اصحابِ صفہ میں سے تھے۔ آپ رضی اللہ عنہ ظاہری شکل کے لحاظ سے ایک سیاہ فام حبشی تھے۔ آئینۂ دل شفاف تھا۔ اس کو نورِ ایمان نے اس وقت منور کیا، جب کہ معدودے چند بزرگوں نے آپ ﷺ کی دعوتِ اسلام پر لبیک کہا تھا۔ اسلام لانے کی پاداش میں آپ رضی اللہ عنہ کو تپتی ہوئی ریت، جلتے ہوئے سنگ ریزوں اوردہکتے ہوئے انگاروں پر لٹایا گیا تاکہ وہ اپنی رائے بدلیں، لیکن ان تمام روح فرسا آزمائشوں کے باوجود آپ نے توحید و آزادیٔ رائے کی مضبوط رسی کو ہاتھ سے نہ چھوڑا۔ ایک روز حضرت  سیدنا بلال رضی اللہ عنہ حسبِ معمول مشقِ ستم بنائے جا رہے تھے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اس طرف سے گزرے اور یہ عبرت ناک منظر دیکھ کر آپ رضی اللہ عنہ کا دل بھر آیا۔ آپ رضی اللہ عنہ نے ایک گراں قدر رقم معاوضے میں دے کر حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو آزاد کردیا۔ حضور اکرم ﷺ نے جب یہ سنا تو فرمایا: ’’ابوبکر! تم مجھے اس میں شریک کرلو‘‘، عرض کیا: یا رسول اللہﷺ! میں آزاد کراچکا ہوں۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت عمرفاروق فرمایا کرتے تھے: ’’ابوبکر ہمارے سردار ہیں اور انھوں نے ہمارے سردار یعنی بلال کو آزاد کیا‘‘۔

حضرت بلال رضی اللہ عنہ مکہ مکرمہ سے ہجرت کر کے مدینہ منورہ پہنچے تو آپ ﷺ نے ان کے اور عبیدہ بن حارث مطلبی رضی اللہ عنہ کے درمیان یا ایک روایت میں ابو عبیدہ بن الجراح کے درمیان مواخات  ( ایک شخص کا دوسرے کو بھائی بنانا ) کرائی۔ حضرت بلال رضی اللہ عنہ  سب سے پہلے وہ بزرگ ہیں جو اذان دینے پر مامور ہوئے۔ آپ رضی اللہ عنہ  کی آواز نہایت بلند وبالا اور دِل کش تھی۔ وہ فصیح و بلیغ تھے۔ ان کی ایک صدا توحید کے متوالوں کو بے چین کردیتی تھی۔ لوگ اپنے کام چھوڑ کروالہانہ وارفتگی کے ساتھ ان کے ارد گرد جمع ہوجاتے۔

آپ رضی اللہ عنہ  سفروحضر میں ہر موقع پر رسول اللہ ﷺکے مؤذنِ خاص، آپ ﷺ کے اہل و عیال کے نان و نفقہ کے نگران اور آپ ﷺ کے خزانچی تھے۔ عیدین و استسقا کی نمازوں میں بلال رضی اللہ عنہ  آپ ﷺ کے آگے لاٹھی لے کر چلتے ۔ راستہ میں کوئی پتھر ہوتا تو اس کو لاٹھی سے ہٹا دیتے۔ سامنے سے آنے والوں پر نظر رکھتے، تاکہ کہیں سامنے سے کوئی دشمن نہ آجائے اور آپﷺ کوکوئی تکلیف پہنچے۔ حضرت بلال رضی اللہ عنہ  غزوات بدر، اُحد، خندق اور تمام مشاہد میں رسول اللہ کے ساتھ حاضر رہے۔ فتح مکہ پر آپ ﷺ نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ  کو کعبۃ اللہ کی چھت پر چڑھ کر اذان دینے کا حکم دیا تاکہ سابقہ ظالمانہ طبقاتی نظام کی شکست اور کمزور پسے ہوئے طبقوں کی عزت اور قانونِ الٰہی کی بلندی کا اظہار ہو۔ گویا حضرت سیدنا  بلال رضی اللہ عنہ  مظلوم عوام کی ترقی اور عزت کا استعارہ بن گئے۔ حضور اقدس ﷺ کی وفات کے بعد حضرت بلال رضی اللہ عنہ  جہاد کے لیے شام کے محاذ پر گئے اور پھر وہیں قیام پذیر ہوگئے۔ آپ  رضی اللہ عنہ  دمشق میں ٦٠ سال سے زائد عمر۲۰ محرم الحرام  سن۲۰ہجری عہد ِفاروقی میں فوت ہوئے۔