حضور حافظ ملت حضرت علامہ مولانا شاہ عبد العزیز اشرفی محدث مبارک پوری علیہ الرحمہ

 


نام ونسب: اسم گرامی ، عبد العزیز اور لقب حافظ ملت ہے ۔

سلسلہ نسب: عبد العزیز بن حافظ غلام نور بن ملا عبد الرحیم۔ آپ کا یہ نام آپ کے دادا ملا عبد الرحیم صاحب نے شیخ عبد العزیز محدث دہلوی کی نسبت سے رکھا اور فرمایا کہ میرا یہ بیٹا بڑا عالمِ دین بنے گا۔ وقت ولادت پاس پڑوس کی بڑی بوڑھیوں نے ’’پیرا‘‘ کہا، دنیائے اسلامیان ہند میں استاذ العلماء جلالۃ العلم اور حافظ ملت کے لقب سے یاد کیے جاتے ہیں۔

تاریخ ولادت: آپ ۱۳۱۲ھ بمطابق ۱۸۹۴، قصبہ بھوج پور (ضلع مراد آباد، یو پی ہند ) بروز پیر صبح کے وقت پیدا ہوئے۔

تحصیل علم:  آپ نے ابتدائی تعلم اپنے والد ماجد  حضرت  محمد غلام نور اورمولانا عبدالحمید بھوجپوری  سے حاصل کی۔ کچھ عرصہ حکیم محمد شریف حیدر آبادی صاحب سے علم طب پڑھا۔ اس کے علاوہ جامعہ نعیمیہ ( مراد آباد) میں حضرت مولانا عبد العزیز خان فتح پوری، حضرت مولانا اجمل شاہ سنبھلی، حضرت مولانا وصی احمد سہسرامی اور جامعہ معینیہ عثمانیہ(اجمیر شریف) میں حضرت مولانا مفتی امتیاز احمد ، حضرت مولانا حافظ سید حامدحسین اجمیری اور صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی جیسے جلیل القدراساتذہ سے اکتساب علم بالخصوخ صدرالشریعہ کی نگاہ فیض سے آسمان علم کے درخشاں ستارے بن کر چمکے۔

بیعت و ارادت: آپ کو شرف بیعت محبوب ربانی ہم شبیہ غوث الاعظم  اعلیٰ حضرت حضرت  مولانا سید علی حسین صاحب اشرفی میاں کچھوچھوی قد س سرہ النورانی  سے حاصل ہے۔ انہوں نے مرید کرکے خلافت سے نوازا۔

اخلاق و کردار: حضور حافظ ملت علیہ الرحمہ  ایک عظیم مفسر و محدث بہترین مدرس، مصنف، مناظر اور منتظم اعلی تھے۔ آپ کاسب سے عظیم کارنامہ الجامعۃ الاشرفیہ مبارک پور ضلع اعظم گڑھ یوپی ہندکو پروان چڑھانا ہے آپ علیہ الرحمہ نے اس جامعہ کے لئے ناقابل فراموش قربانیاں دی ہیں ۔ جہاں سے فارغ التحصیل علماء ہند کی سرزمین سے لیکر پوری دنیا میں دین اسلام کی سربلندی اور مسلک اعلیٰ حضرت کی ترویج واشاعت میں مصروف عمل ہیں۔ آپ نے زندگی کے قیمتی لمحات انتہائی خوبی سے دین ومسلک کی خدمت و اہتمام میں گزارے۔ آپ کے پاکیزہ اور روحانی کیفیات سے سرشار وجود میں بھی اخلاق کریمانہ اور اوصاف بزرگانہ کا ایک جہاں آباد تھا۔ آپ اخلاق، جہد مسلسل، استقلال، ایثار، ہمت، کردار، علم، عمل، تقوی، تدبر، اسلامی سیاست، ادب، تواضع، استغناء، توکل، قناعت اور سادگی جیسے بے پناہ اوصاف سے بھی مزین تھے۔

آپ کی تصانیف: آپ علیہ الرحمہ  تحریر وتصنیف میں بھی کامل مہارت رکھتے تھےآپ نے مختلف موضوعات پر کتب تحریر فرمائیں جن میں سے چند کے نام یہ ہیں:
 (1)معارف حدىث  (احادىثِ کرىمہ کا ترجمہ اور اس کى عالمانہ تشرىحات کا مجموعہ )

(2) ارشاد القرآن۔

(3) الارشاد (ہند کی سیاست پر ایک مستقل رسالہ )۔

(4) المصباح الجدىد (بد مذہبوں کے عقائد سے متعلق30سوالوں کے جوابات بحوالہ کتب،یہ رسالہ  مکتبۃ المدینہ سے ”حق و باطل میں فرق “کے نام سے شائع ہوچکا ہے )۔

(5) العذاب الشدىد (المصباح الجدىدکے جواب ’’مقامع الحدىد‘‘کا جواب)

(6)  انباء الغىب (علم غىب کے عنوان پر اىک اچھوتا رسالہ)

(7)   فرقۂ ناجىہ(اىک استفتاکا جواب)

(8)   فتاوىٰ عزىزىہ(ابتداءً دار العلوم اشرفىہ کے دارالافتاء سے پوچھے گئے سوالات کے جوابات کا مجموعہ،غىرمطبوعہ)

(9)حاشیہ شرح مرقات ۔

آپ کے تلامذہ: ملک اور بىرون ملک حضور حافظِ ملت علیہ الرحمہ کے تلامذہ کى تعداد پانچ ہزار سے زائد ہى ہوگى اور ان مىں اىسے اىسے ذى علم قابل قدر و فخر اور قائدانہ صلاحىت کے حامل افراد ہىں جن پر مذہبى ، سىاسى ، سماجى، علمى، روحانى، اصلاحى اور تبلىغى دنىا کو فخراور ناز ہے۔ آپ کے تراشے ہوئے چند انمول و نایاب ہیروں کے اسمائے گرامی یہ ہیں:

(1)عزىز ملت حضرت علامہ شاہ  عبدالحفىظ حفظہ اللہ   خلف اکبر حافظِ ملت و موجودہ سربراہ ِاعلىٰ الجامعۃ الاشرفىہ مبارک پور

(2)قائد اہلسنت رئیس  القلم حضرت علامہ ارشدالقادرى

(3)بحرالعلوم حضرت مفتى عبدالمنان اعظمى

(4)خطیب البراہین حضرت علامہ صوفی محمد نظام الدىن بستوی

(5)مصلح اہلسنت  حضرت علامہ قارى مصلح الدین  صدیقی قادری

(6)بانی دارالعلوم امجدیہ حضرت علامہ مفتى ظفر على نعمانی

(7) فقیہ اعظم ہندحضرت علامہ مفتی محمد شرىف الحق امجدى

 (8) بدراہلسنت حضرت علامہ مفتی بدرالدین احمد گورکھپوری

(9)شیخ القرآن حضرت علامہ عبداللہ خان عزیزی

(10)اشرف العلماءسید حامد اشرف اشرفی کچھوچھوی 

 (11)ادیب اہلسنت مفتی مجیب الاسلام نسیم اعظمی

 (12)شیخ اعظم مفتی سید محمد اظہاراشرف اشرفی کچھوچھوی

(13) نائب حافظ ملت علامہ عبدالرؤف بلياوی( رحمہم اللہ تعالیٰ اجمعین)۔

آپ علیہ الرحمہ  کےملفوظات

1.     بلاشبہ اىسى تعلىم جس مىں تربىت نہ ہو آزادى و خود سرى ہى کى فضا ہو ،بے سود ہى نہىں بلکہ نتىجہ بھی  مضر (نقصان دہ )ہے۔

2.     مىں نے کبھى مخالف کو اس کى مخالفت کا جواب نہىں دىا، بلکہ اپنے کام کى ر فتار اور تىز کردى ، جس کا نتىجہ ىہ ہوا کہ کام مکمل ہوا اور  مىرے مخالفىن کام کى وجہ سے مىر ے موافق بن گئے۔

3.     انسان کو مصىبت سے گھبرانا نہىں چاہىے، کامىاب وہ ہے جو مُصىبتىں جھىل کر کامىابى حاصل کرے مصىبتوں سے گھبرا کر مقصد کو چھوڑ دىنا بُزدلى ہے۔

4.      جب سے لوگوں نے خدا سے ڈرناچھوڑ دىا ہے، سارى دُنىا سے ڈرنے لگے ہىں۔

5.      کامىاب انسان کى زندگى اپنانى چاہىے، مىں نے حضرت صدرالشرىعہ علیہ الرحمہ  کو ان کے تمام معاصرىن مىں کامىاب پاىا، اس  لىے خود کو انہىں کے سانچے مىں ڈھالنے کى کوشش کى۔

6.      بزرگوں کى مجلس سے بلاوجہ اٹھنا خلاف ادب ہے۔

7.      جس کى نظر مقصد پر ہوگى اس کے عمل مىں اخلاص ہوگا اور کامىابى اس کے قدم چومے گى۔

8.      جسم کى قوت کے لىے ورزش اور روح کى قوت کے لىے تہجد ضرورى ہے۔

9.      کام کے آدمى بنو، کام ہى آدمى کو معز زبناتا ہے۔

10. ہر ذمہ دار کو اپنا کام  ٹھوس کرنا چاہىے، ٹھوس کام ہى پائىدارى کى ضمانت ہوتے ہىں۔

11. انسان کو دوسروں کى ذمہ دارىوں کے بجائے اپنے کام کى فکر کرنى چاہىے۔

12. احساس ذمہ دارى سب سے قىمتى سرماىہ ہے۔

13.     تَضْىىع اوقات(وقت ضائع کرنا) سب سے بڑى محرومى ہے۔ 

وصال مبارک : 84برس کی عمر پا کر یکم جمادی الآخرۃ 1396ھ مطابق 31 مئی 1976 ء بروز دوشنبہ کے دن وفات پائی۔

No comments:

Post a Comment