حضرت شاہ عبد الرزاق محبوب بیکمر قادری بانسوی علیہ الرحمہ


آپ علیہ الرحمہ سلسلہ قادریہ رزاقیہ کے بانی ہیں۔

ولادت:

سید عبد الرزاق علیہ الرحمہ کی ولادت کا سال 1048ھ بمطابق 1638ء ہے

نسب:

شاہ عبد الرزاق علیہ الرحمہ کا سلسلہ نسب 25 واسطوں سے امام محمد الباقررضی اللہ عنہ  تک پہنچتا ہے آپ کے مورث اعلیٰ بدخشاں سے ہندوستان آئے تھے۔

مولد:

سید سید عبد الرزاق علیہ الرحمہ کا ننہال وطن ہانسہ(بانسہ) ضلع بارہ بنکی اور ددھیال دریاباد ضلع بارہ بنکی سے متصل ایک قصبہ محمودآباد کا ایک گاؤں رسول پور میں تھا۔

ہجرت:

آپ علیہ الرحمہ کی ولادت دریاباد ضلع بارہ بنکی میں ہوئی جہاں سے ان کے والد سید عبد الرحیم ترک وطن کرکے اپنے سسرال چلے آئے

تعلیم و تربیت:

شاہ عبد الرزاق علیہ الرحمہ کم عمری میں اپنے وطن ہانسہ ضلع بارہ بنکی سے برائے تعلیم رودلی ضلع بارہ بنکی بھیجے گے راستہ میں ایک درویش شاہ عنایت اللہ سے ملاقات ہوئی جس کی وجہ سے سفر کی سمت سے دستبردار ہوکر اس منزل کی طرف قدم بڑھا دیے جہاں سے ان کو فرائض انجام دینا تھا جو انھیں تفویض کیا گیا ملا نظام الدین علیہ الرحمہ مناقب رزاقیہ میں فرماتے ہیں بچپن میں حروف وخط ( لکھائی پڑھائی) سے شناسائی نہیں ہو سکی سوائے اس کے خورد سالی میں قرآن شریف پڑھا تھا اور زبان فارسی سے اس طرح شناسائی پیدا کی جیسا کہ ہند میں رواج تھا کہ بچوں کو فارسی زبان سے صرف مانوس کراتے ہیں یوں کے پہلے حروف کے تلفظ اور نقوش سے واقف کراتے ہیں اور جب سمجھ اس سے مانوس ہو جاتی ہے تو جو اس سے نقوش کے معنی بتاتے ہیں

بیعت:

شاہ عنایت اللہ علیہ الرحمہ کی تلاش میں احمد آباد گجرات گئے اور وہاں جاکر میرسید عبد الصمد خدا نما سے قادریہ سلسلے میں مرید ہوئے۔سلسلہ قادریہ رزاقیہ کے بانی بھی آپ ہیں۔

ملازمت:

ملازمت کے سلسلے میں کچھ حصہ فوج کی ملازمت میں بھی گزارا جب گھر میں واپس آئے تو بھائیوں نے شادی کرلی تھی والدین فوت ہو گے اس لیے گھر کو خیر باد کہا

وفات:

شاہ عبد الرزاق ہانسوی علیہ الرحمہ کی بدھ 6 شوال 1136ھ بمطابق 17 جون 1724ء کو 86 سال کی عمر میں ہوا ۔

 

حضرت شیخ سعدی شیرازی سہروردی علیہ الرحمہ

 

نام و وطن:

حضرت دانائے شیراز کا اصل نام "شرف الدین" اور لقب "مصلح الدین" والد کا نام عبداللہ تھا۔ایران کے مردم خیز شہر شیراز کو آپ کی جائے پیدائش ہونے کا شرف حاصل ہے، وہی شیراز جو صدیوں ایران کا پایہ تخت اور علوم و فنون کا مرکز رہ چکا ہے۔

ولادت باسعادت:

غالباً ۵۸۹ھ بمطابق 1184ء اور وفات ۶۹۱ھ بمطابق 1292ء میں ہوئی، ایک مقام جس کا نام "دلکشا" تھا وہاں مزار بنا، جو سعدیہ کہلاتا ہے۔

 تعلیم و تربیت :

شیخ علیہ الرحمہ نے ابتدائی تعلیم شیراز میں ہی حاصل کی، شعور و آگہی کی منزل میں قدم رکھا تو شیراز میں علما و فضلا اور مشائخ کا ہجوم تھا، علم و فضل کے اس ماحول میں ولولہ شوق بڑھا، مگر اس وقت ملک ابتری اور طوائف الملوکی کا شکار تھا، چنانچہ شیخ نے ترک وطن کی ٹھان لی اور بغداد پہنچ گئے، اس وقت دنیائے اسلام کی سب سے بڑی دینی درسگاہ دارلعلوم نظامیہ تھا اس کی شہرت پوری اسلامی دنیا میں گونج رہی تھی، اس زمانے میں عالمِ اسلام میں بہ کثرت مدارس تھے۔ ان میں سب سے زیادہ شہرت مدرسۂ نظامیہ بغداد کو حاصل تھی، جسے خواجہ نظام الملک طوسی نے 459ہجری میں تعمیر کروایا تھا۔ ہزاروں جلیل القدر علماء و حکماء نے اس مدرسے سے اکتساب کیا۔ شیخ سعدی بھی اسی سبب یہاں تعلیم حاصل کرنا چاہتے تھے۔ ایک اور وجہ یہ بھی تھی کہ اُن کے ہم وطن، شیخ ابو اسحاق شیرازی جو علم و فضل میں آفاقی شہرت کے حامل تھے، اس مدرسے کے اوّلین متولّی رہے تھے۔ اس وجہ سے اہلِ شیراز کو اس مدرسے سے خاص نسبت، اُنسیت اور قلبی لگائو تھا، لہٰذا اُس مدرسے میں داخلہ لیا، جس کے سبب کچھ وظیفہ بھی مقرر ہوگیا۔ 

بغداد میں جن لوگوں سے شیخ سعدی نے تعلیم حاصل کی، اُن میں علامہ ابوالفرج عبدالرحمٰن ابنِ الجوزی علیہ الرحمہ کا نام قابلِ ذکر ہے۔ زمانۂ طالب علمی میں شیخ سعدی کے اساتذہ، ہم عصر طلبہ اور دیگر اُن کی خوش بیانی اور حُسن تقریر کو بہت سراہتے تھے۔ یہ شیخ کی جوانی کا آغاز تھا۔ ایک بار سعدی علیہ الرحمہ نے اُستاد سے شکایت کی کہ فلاں طالب علم مجھے رشک و حسد کی نگاہ سے دیکھتا ہے، جب میں مسائلِ علمیہ بیان کرتا ہوں، تو وہ گویا حسد سے جل جاتا ہے۔ 

اُستاد یہ سُن کر شیخ پر برہم ہوئے اور کہا۔ ’’اوروں کے رشک و حسد کی تو شکایت کرتے ہو اور اپنی بدگوئی اور غیبت کو بُرا نہیں سمجھتے۔ تم دونوں اپنی عاقبت خراب کرتے ہو۔‘‘ شیخ سعدی کی طبیعت پر شروع سے تصوّف کا رنگ غالب تھا، لیکن اپنے مرشد و رہنما کے لیے انہوں نے حضرت شیخ شہاب الدین سہروردی کا انتخاب کیا۔ خود فرماتے ہیں۔’’جب میں بیعت ہوا، تو میرے شیخ نے مجھے دو نصیحتیں کیں۔ ’’ایک تو اپنی ذات کا پُجاری مت بننا۔ دوم، کسی کو اپنے علاوہ بُرا نہ سمجھنا۔‘‘

بغداد سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد شیخ نے مطالعۂ کائنات کا قصد کیا اور بے چین رُوح کا سامان کرنے کے لیے دنیا کے سفر پر نکل پڑے۔ تذکرہ نگاروں نے شیخ کی زندگی کو چار ادَوار میں تقسیم کیا ہے۔ پہلا دَور حصولِ علم، دوسرا، سیر و سیّاحت، تیسرا تصنیف و تالیف اور چوتھا، خلوت نشینی۔ شیخ سعدی سیر و سیّاحت میں بغداد، شام، فلسطین، عراق، مصر، یمن، ہندوستان اور مکّہ معظمہ سے شمالی افریقا تک صحرا نوردی میں مصروفِ عمل رہے۔ 

اس دوران آپ علیہ الرحمہ نے14بار پیدل حج کیا اور یہ خود شیخ کے کلام سے بھی ثابت ہے۔ سیر و سیّاحت میں مختلف ممالک اور ان کی تہذیبوں کو قریب سے دیکھنے، مختلف خطّوں کے لوگوں کے رہن سہن، اخلاق و عادات، رسومات، روزمرّہ کی زبان، حکایات، کہاوتوں اور واقعات سے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا۔ بعد ازاں، یہی تجربات و مشاہدات اُن کی کتب کی زینت بنے۔ 

مولانا الطاف حسین حالی ’’حیاتِ سعدی‘‘ میں لکھتے ہیں۔’’سعدی نہایت دشوار گزار اور چٹیل میدانوں میں پا پیادہ سیکڑوں میل چلے جاتے تھے۔ رات بھر کی مسلسل پیادہ روی سے تھک کر چُور ہوجاتے اور بسا اوقات عین راستے میں پتھریلی زمین ہی پر سو جاتے۔ کبھی مجاہدہ اور نفس کشی کے لیے بیت المقدس میں مشک کاندھے پر رکھ کر سقائی کرتے۔ لوگوں کو پانی پلاتے پھرتے، کبھی کسی درویش کے کشف و کرامات کا سُن کر اُن کی زیارت کے لیے روم چلے جاتے۔ 

کبھی انبیاء کے مزارات پر اعتکاف کرتے۔‘‘سعدی، مشرق میں خراسان، تُرکستان اور تاتار تک گئے، بلخ و کاشغر میں مقیم رہے۔ جنوب میں سومنات تک آئے اور ایک مدّت تک یہاں ٹھہرے اور بھارت سے ہوتے ہوئے سرزمینِ عرب چلے گئے۔ شمال اور مغرب کی طرف، عراق، عجم، آذربائیجان، شام، فلسطین اور ایشیائے کوچک سے بارہا اُن کا گزر ہوا۔ اصفہان، تبریز، بصرہ، کوفہ واسط، بیت المقدس، طرابلس الشرق، دمشق، دیارِ بکر اور اقصائے روم کے شہروں اور قریوں میں مدتِ دراز تک اُن کی آمد و رفت رہی۔ مغرب کی جانب عرب اور افریقا میں بار بار جانا ہوا۔ 

ہندوستان سے مراجعت کے وقت یمن اور صفا میں ایک مدّت تک قیام رہا۔ حجاز مقدّس پہنچے، اسکندریہ، مصر اور حبش کے واقعات اُن کے کلام میں مذکور ہیں۔ شیخ سعدی نے متعدّد بار سمندری سفر بھی کیا۔ خلیج فارس، بحرِ عمان، بحیرئہ عرب، بحیرۂ قلزم اور بحرِ روم میں اُن کے متعدّد اسفار ثابت ہوتے ہیں۔ چیمبرز انسائیکلو پیڈیا میں لکھا ہے کہ وہ یورپ کے اکثر ممالک بھی گئے۔ ان ممالک کی سیّاحت دل کی آنکھیں کھول کر کی، دماغ میں تلخ و شیریں یادوں کو بسایا اور پھر وقت گزرنے کے ساتھ گہری سوچ بچار کے بعد جو نتائج اخذ کیے، اُنہیں نہایت شیریں نثر اور دل فریب اشعار کے ذریعے عوام النّاس تک پہنچایا۔

 آپ علیہ الرحمہ کا مقبول شاہکار: بلغ العلی بکمالہ کشف الدجیٰ بجمالہ - حسنت جمیع خصالہ صلوا علیہ وآلہ

 لفظی حصہ رسول اللہ ﷺ

یاد رہے کہ حضرت شیخ سعدی نے مذکورہ نعتیہ رباعی کے تین مصرعے لکھ لیے لیکن چوتھا بن نہیں رہا تھا کہ خواب میں آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت نصیب ہوئی آپ نے حکم فرمایا جو نعت تم نے لکھی ہے مجھے سناؤ شیخ سعدی نے دست بستہ عرض کیا ابھی تین مصرعے ہوئے ہیں۔ چوتھا مصرع بن نہیں رہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ تین ہی سناؤ شیخ سعدی نے عرض کیا۔

بلغ العلی بکمالہ  کشف الدجیٰ بجمالہ حسنت جمیع خصالہیہ کہہ کر شیخ سعدی خاموش ہو گئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہتے کیوں نہیں "صلوا علیہ وآلہ"اس طرح یہ مبارک نعتیہ رباعی مکمل ہوئی۔

شیخ سعدی شیرازی رحمۃ اللہ علیہ شافعی تھے یعنی آپ سیدنا امام شافعی علیہ رحمہ کے مقلد تھے۔آپ شیخ شہاب الدین سہروردی علیہ الرحمہ سے بیعت تھے۔

 ندا و نیاز مندی:

 حضرت شیخ سعدی علیہ الرحمہ بارگاہ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم میں عرض کرتے ہیں۔

من گدائے تو یارسول اللہ ﷺ-جان فدائے تو یارسول اللہ ﷺ

یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں آپ کی درگاہ عالیہ کا ایک بے دام فقیر ہوں اور میری یہ جان حقیر آپ پر قربان ہے۔
گر بیابم بہ دیدہ سرمہ کشم-خاک پائے تو یارسول اللہ ﷺ

یارسول اللہ ﷺ میرے دل میں یہ حسرت موجزن ہے کہ مجھ کو حضور والا کے قدم ناز کی خاک میسر آ جائے تو میں اس کو اپنی آنکھوں میں سرمہ بنا کر لگاؤں۔

کاش ہر موئے من زباں بودے-در ثنائے تو یارسول اللہﷺ

یارسول اللہ ﷺ کیا اچھا ہوتا کہ میرے رونگٹے آپکی تعریف و توصیف بیان کرنے کے لیے زبان بن جاتے۔
ارحم الراحمین نہ ھم بخشد-بے رضائے تو یارسول اللہ ﷺ

یارسول اللہ ﷺ میرا اس بات پر ایمان ہے کہ جس شخص سے آپ راضی نہیں ہوں گے اس کو اللہ تعالیٰ بھی معاف نہ فرمائے گا۔
سر نہاد است بر درت سعدی-در ہوائے تو یارسول اللہ ﷺ

سعدی نے نہایت عاجزی وانکساری کے ساتھ اپنا سر آپ کی چوکھٹ پر رکھ دیا ہے اس امید پر کہ اس ناچیز سے راضی ہو جائیں۔
 
توسل:
حضرت شیخ سعدی شیرازی علیہ الرحمہ بارگاہ خداوندی میں دعا اور طلب حاجت میں محبوبان خدا کا وسیلہ اختیار کرنے کے بھی قائل اور عامل تھے چنانچہ آپ بارگاہ خداوندی میں یوں عرض کرتے ہیں۔

خدایا بحق بنی فاطمہ-کہ بر قول ایماں کنم خاتمہ

 اگر دعوتم رد کنی ور قبول - من و دست و دامان آل رسول

ترجمہ:اے خدا سیدہ فاطمہ کی اولاد کے صدقے،ایمان کے کلمہ پر میرا خاتمہ فرمانا،اگر میری دعا تو در کردے یا قبول فرمائےمیں، میرا ہاتھ اور آل رسول ﷺ کا دامن ہوگا۔

 روحانی تصوف:

شیخ سعدی کی روحانی پرواز و مقام کا اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی فرماتے ہیں کہ حضرت والد ماجد عبد الرحیم محدثِ دہلوی علیہ الرحمہ نے فرمایا کہ ایک دفعہ درس سے واپسی پر میرا ایک لمبے کوچے سے گزر ہوا اس وقت میں خوب ذوق میں سعدی علیہ الرحمہ کے یہ اشعار گنگنا رہا تھا۔

 جز یاد دوست ہر چہ کنی عمر ضائع است - جز سر عشق ہر کہ بخوانی بطالت است

 سعدی بشو لوح دل از نقش غیر حق - علمے کہ راہ حق ننماید جہالت است

اتفاق کی بات ہے کہ چوتھا مصرعہ میرے ذہن سے اتر گیا یاد نہ رہا اچانک ایک فقیر منش پیر نمودار ہوا اور اس نے مجھے لقمہ دیا کہ چوتھا مصرعہ یہ ہے (علمے کہ راہ حق ننماید جہالت است)

میں نے کہا جزاک اللہ خیرا الجزاء آپ نے مجھے پریشانی سے نجات دلائی پھر میں نے انکی خدمت میں پان پیش کیا مسکراتے ہوئے فرمایا کیا یہ بھولا ہوا مصرعہ یاد دلانے کی مزدوری ہے میں نے عرض کیا نہیں یہ تو بطور ہدیہ و شکریہ پیش کر رہا ہوں فرمایا میں پان استعمال نہیں کرتا یہ کہہ کر انہوں نے لمبا قدم اٹھایا اور کوچہ کے آخر میں رکھا میں نے جان لیا کہ یہ کسی اہل اللہ کی روح مبارک انسانی شکل میں جلوہ گر ہے میں نے آواز دی کہ اپنے نام سے تو اطلاع دیتے جائیے تاکہ فاتحہ پڑھ لیا کروں فرمایا یہی فقیر سعدی ہے۔
شیخ سعدی علیہ الرحمہ نے علوم وفنون کی تحصیل کے بعد تیس سال سیر و سیاحت کی شیخ شاعر تھے، صوفی تھے، واعظ تھے، رند تھے اور شوخ طبع تھے غرض کہ مختلف حیثیتیں ان کے اندر جمع تھیں، اس لیے انہوں نے دنیا کے ہر رنگ کو ہر زاویہ سے خوب دیکھا بھالا، جانچا پرکھا۔

سعدی کی شہرۂ آفاق کتابیں: گلستان، بوستان

اگرچہ سعدی نے باقی زندگی خاموشی سے بسر کرنے کی قسم کھا لی تھی، لیکن عُمر کی رائیگانی کے احساس کے باعث اور ایک دوست کے اصرار پر انہوں نے اپنی قسم توڑ دی۔ شیراز میں بہار کا موسم اپنے عروج پر تھا۔ ہر جگہ در و دیوار پر سبزہ و گل نمایاں تھے۔ دونوں دوست باغ کی سیر کے لیے نکلے تھے۔ اُن کے دوست نے رنگ رنگ کے پھول توڑ لیے۔ 

جب سعدی نے اُن شگفتہ پھولوں کی طرف دیکھا، تو شاعر اور فلسفی خیام کے انداز میں اُن کی بے ثباتی اور ناپائیداری کا ذکر کرتے ہوئے اپنے دوست سے کہا ’’میں ایک ایسی کتاب لکھوں گا، جو علم سے بھرپور اور دل چسپ ہوگی اور اُس میں دانش کے پھول کبھی مُرجھا نہیں پائیں گے، اُس کے اوراق بادِ خزاں کی دستِ برد سے محفوظ رہیں گے اور اُس کا نام ’’گلستان‘‘ ہوگا۔‘‘

پھر سعدیؒ نے ’’گلستان‘‘ میں لکھا ہے کہ قسم توڑنے کے بعد یہ اُن کی پہلی کتاب ہے، جو انہوں نے تصنیف کی، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ’’بوستان‘‘ اس سے ایک سال پہلے کی تصنیف ہے۔ اس کتاب کو فارسی ادب کا شاہ کار تسلیم کیا جاتا ہے۔ پرانے نسخوں میں اس کا نام ’’سعدی نامہ‘‘ درج ہے۔ سعدی نے بوستان کو اپنے اسفار کے دوران تصنیف کیا اور شیراز واپس آکر دوستوں کے سامنے پیش کی۔ یہ مکمل طور پر شعر و شاعری یعنی مثنوی میں لکھی گئی۔ اس کے دس ابواب میں 14000اشعار شامل ہیں۔ اخلاقیات، تعلیم، سیاست اور معاشرت پر مبنی اس کتاب کو شیخ سعدی نے حاکمِ وقت ،ابوبکر سعد زنگی سے منسوب کیا۔’’بوستان‘‘ کی طرح شیخ سعدی کی دوسری کتاب ’’گلستان‘‘ کو بھی فارسی ادب کی ایک بلند پایہ کتاب تسلیم کیا جاتا ہے کہ یہ نظم و نثر کا مرقّع ہے۔ اس کے آٹھ ابواب ہیں، جن میں سعدی نے اپنے تجربات و مشاہدات کو حکایات کی صُورت قلم بند کیا ہے۔ کچھ واقعات ایسے ہیں، جو انہوں نے دورانِ اسفار لوگوں سے سُنے۔ کتاب کی جادو بیانی اور شہرت کا چرچا شیخ سعدی کی زندگی ہی میں چار دانگِ عالم پھیل گیا تھا۔ شیخ سعدی جہاں بھی جاتے اُنہیں ’’گلستانِ سعدی‘‘ کے نام سے جاننے والے پہلے سے موجود ہوتے۔ سلیس اور سادہ زبان میں لکھی گئی کتاب، گلستان، فارسی کی پہلی کتاب ہے، جو کسی پرنٹنگ پریس میں شائع ہوئی۔ یہ کتاب بھی شیخ سعدی نے حاکمِ وقت، ابوبکر سعد زنگی کے نام کی؎ کہ سعدی کہ گوئی بلاغت ربود.....در ایّام بوبکر بن سعد بود۔ ترجمہ:(’’سعدی جو بلاغت کے میدان کا شہ سوار تھا، وہ بادشاہ، ابوبکر سعد کے زمانے میں تھا۔‘‘اُس وقت سعدی نے نہایت کسرِ نفسی سے کام لیتے ہوئے یہ الفاظ کہے تھے، مگر آج گردشِ زمانہ نے ثابت کر دیا کہ سعد زنگی کا نام سعدی کی وجہ سے زندہ ہے۔

امریکا و یورپ میں شیخ سعدی کے اثرات:

ڈیوڈ روزن بام نے 19ویں صدی میں ’’گلستان‘‘ کے ترجمے کے تعارف میں لکھا ہے کہ’’ سعدی قارئین کو یہ بُھلا دیتے ہیں کہ انہیں کچھ سِکھایا جا رہا ہے۔ سعدی کے اشعار شہد میں ڈوبی ادویہ ہیں۔‘‘یورپ میں شہرت حاصل کرنے والے اوّلین فارسی شعراء میں سعدی نے فرانس اور دیگر جگہوں پر والٹیر، ڈیڈرو، گوئٹے اور وِکٹر ہیوگو جیسے روشن خیال اور رومانوی مصنّفین پر واضح اثرات مرتّب کیے۔ امریکا میں سعدی نے رالف والڈو ایمرسن کو بہت زیادہ متاثر کیا ہے۔ 

ایمرسن نے اپنی نظم میں شیخ سعدی علیہ الرحمہ کو ’’انسانی دِلوں کا دل دار‘‘ اور اُن کی حکیمانہ باتوں کو ’’آفاقی‘‘ قرار دیا۔ گلستان کے فرانس گالڈون کے ترجمے کے تعارف میں ایمرسن نے لکھا ہے کہ’’اگرچہ اُن کی زبان فارسی تھی، لیکن وہ ہومر، شیکسپیئر، سروینئیس اور مونٹین کی طرح تمام اقوامِ عالم سے مخاطب ہیں اور وہ ہمیشہ کے لیے تازہ کار ہیں۔‘‘بعض کا خیال ہے یورپ، فارسی ادب کو سعدی کی نظموں کی وجہ سے جانتا ہے، جب کہ بعض مصنّفین نے سعدی کو ’’مشرق کا شیکسپیئر‘‘ بھی کہا ہے۔ الطاف حسین حالی ’’حیاتِ سعدی‘‘ میں لکھتے ہیں۔

’’گلستان کی عظمت اور بزرگی زیادہ تر اس بات سے معلوم ہوتی ہے کہ جس قدر غیر زبانوں کا لباس اس کتاب کو پہنایا گیا ہے، ایسا فارسی زبان کی کسی اور کتاب کو نصیب نہیں ہوا۔‘‘ سعدی کو ’’گلستان‘‘ اور ’’بوستان‘‘ تحریر کیے ہوئے بہت سے خزاں کے موسم گزر چکے ہیں، لیکن جیسا کہ صدیوں پہلے شیراز سے واپس آنے کے بعد انہوں نے پیش گوئی کی تھی کہ اُن کی حکمت و دانش سے بَھری یہ کتابیں وقت کی آزمائش پر پوری اُتریں گی، تو وہ صد فی صد سچ ثابت ہوئی۔ سعدی کے بقول؎ گل ہمین پنج روز و شش باشد.....وین گلستان ہمیشہ خوش باشد

وصال مبارک:

شیخ ۶۵۸ھ میں شیراز واپس آئے یہ درویش صفت جہاں دیدہ شاعر و فقیہ تجربات معنوی اور افکار عالیہ کا مالک مرد خدا ارغوں خان کے زمانے کے بعد 102 برس کی عمر پا کر ۶۹۱ھ بمطابق 1292 میں وصال کر گئے۔

شیخ سعدی کے چند اقوال و حکایات

شیخ سعدی کی حکایات و اقوال دنیا بھر میں زبان زدِ عام ہیں۔ خصوصاً بچّوں کی تربیت کے حوالے سے چند اقوال ایسے ہیں، جن کے ذریعے بچّوں کی بہترین تربیت کی جاسکتی ہے۔ 

·       جس بچّے کی عُمر دس سال سے زیادہ ہوجائے، اُسے نامحرموں اور ایروں غیروں میں نہ بیٹھنے دو۔

·       اگر تُو چاہتا ہے کہ تیرا نام باقی رہے، تو اولاد کو اچھے اخلاق کی تعلیم دے۔

·       اگر تجھے بچّے سے محبّت ہے، تو اُس سے زیادہ لاڈ، پیار نہ کر۔

·       بچّے کو استاد کا ادب سکھاؤ اور استاد کی سختی سہنے کی عادت ڈالو۔

·       بچّے کی تمام ضروریات خُود پوری کرو اور اُسے ایسے عمدہ طریقے سے رکھو کہ وہ دوسروں کی طرف نہ دیکھے۔

·       شروع شروع میں پڑھاتے وقت بچّے کی تعریف اور شاباش سے اُس کی حوصلہ افزائی کرو، جب وہ اس طرف راغب ہوجائے، تو اُسے اچھے اور بُرے کی تمیز سکھانے کی کوشش کرو، ضرورت پڑے تو سختی بھی برتو۔

·       بچّے کو دست کاری یعنی کوئی نہ کوئی ہُنر سکھاؤ۔ وہ ہنرمند ہوگا، تو بُرے دِنوں میں کسی کے سامنے ہاتھ پھیلانے کے بجائے، اپنے ہُنر سے کام لے گا۔

·       بچّوں پر کڑی نظر رکھو، تاکہ وہ بُروں کی صحبت میں نہ بیٹھیں۔

·       کوئی شخص اپنی لیاقت اور طاقت سے روزی حاصل نہیں کرتا۔ اللہ سب کا رازق ہے۔

·       بڑے بڑے متکّبروں اور سرکشوں کا بھی اللہ کے سامنے جُھکے بغیر چارہ نہیں۔

·       خداوند تعالٰی متحمّل بھی ہے اور رحیم و کریم بھی۔ وہ گناہ گاروں کو توبہ کے لیے مہلت دیتا ہے اور توبہ کرنے والوں کو دامنِ رحمت میں ڈھانپ لیتاہے۔

·       نطفے سے خُوب صُورت انسان بنا دینا، اللہ تعالیٰ ہی کی قدرت کا اعجاز ہے۔ پانی کی بوند پر ایسے نقش و نگار کوئی نہیں بناسکتا۔

·       جب تُو خدا سے مغفرت و عطا کا طالب ہے، تو جن لوگوں کی اُمیدیں تیری ذات سے وابستہ ہیں، انہیں بھی محروم و مایوس نہ کر۔

·       جیسا سلوک تو مخلوقِ خدا سے کرے گا، ویسا ہی سلوک اللہ تیرے ساتھ کرے گا کہ حقیقی بڑا تو وہ ہے، جو اپنے ہر چھوٹے کو پہچانتا ہو، اور اس کی ضروریات کا خیال رکھتا ہو۔

·       جس مظلوم کو بادشاہ سے انصاف نہ مل سکے، اُسے اللہ تعالیٰ انصاف دیتا ہے۔

·       آخرت میں نیکیوں کے مطابق مرتبے ملتے ہیں، اس لیے نیکی کرو۔

·       جو شخص کوشش اور عمل میں کوتاہی کرتاہے، پیچھے رہنا اس کا مقدر ہے۔

·       مصیبت میں حوصلہ نہیں ہارنا چاہیے، ہمّت سے اس کامقابلہ کرنا چاہیے۔ ہمت طاقت سے زیادہ کام کرتی ہے۔

·       احساس کیا ہے؟ دوسروں کی تکلیف کو اپنی تکلیف سمجھنا۔

·       منصف اور عادل کو اللہ اپنے عرش کے نیچے سایہ دے گا۔

·       آدمی وہ ہے، جس کی ذات سے دوسروں کو فائدہ پہنچے، وگرنہ وہ پتھر ہے۔

·       نیکی کرنے والا نیکی کا صلہ ضرور پاتا ہے۔

·       بے رحم انسان نہیں، درندہ ہے۔

·       مظلوم کی تکلیف تو چند ساعت کی ہوتی ہے، مگر ظالم ابدی مصیبت میں مبتلا ہوجاتا ہے۔

·       نصیحت اگرچہ ناخوش گوار لگتی ہے، لیکن اس کا انجام خوش گوار ہوتاہے۔

·       ظالم جب تک ظلم نہیں چھوڑتا، اُس کے حق میں کوئی دُعا قبول نہیں ہوتی۔

·       دنیا بے وفا اور انتہائی ناقابلِ اعتبار ہے، اس سے فائدہ وہی شخص اٹھاتاہے، جو اسے مخلوقِ خدا کی اصلاح اور فلاح میں لگا دیتا ہے۔

·       دولت کو صدقۂ جاریہ میں لگاؤ ،آخرت سنور جائے گی۔