شیخ الحدیث حضرت علامہ مفتی عبد المصطفیٰ اعظمی علیہ الرحمہ


 

ولادت باسعادت:

حضرت الحاج مولانا عبدالمصطفیٰ اعظمی رحمۃاللہ علیہ ذیقعدہ ۱۳۳۳؁ھ کو اپنے آبائی وطن گھوسی ضلع اعظم گڑھ میں پیداہوئے ۔

شجرہ نسب:

شجرہ نسب یہ ہے:محمد عبدالمصطفیٰ بن شیخ حافظ عبدالرحیم بن شیخ حاجی عبدالوہاب بن شیخ چمن بن شیخ نور محمد بن شیخ مٹھوبابارحمہم اللہ تعالیٰ۔

والد ماجد:

آپ کے والد گرامی حضرت حافظ عبدالرحیم صاحب حافظ قرآن، اردو خواں، واقف مسائل دینیہ ، متقی، پرہیزگارتھے ۔ گاؤں کے مشہور بزرگ حافظ عبدالستار صاحب سے شرف تلمذ حاصل تھا جو محبوب ربانی ہم شبیہ غوث الاعظم اعلی حضرت اشرفی میاں کچھوچھوی علیہ الرحمہ کے بڑے بھائی اشرف الصوفیا ء حضرت شاہ سید اشرف حسین الجیلانی کچھوچھوی رحمۃ اللہ علیہ کے مرید تھے چند سال ہوئے انتقال فرماگئے ۔

تعلیم وتربیت:

علامہ اعظمی صاحب قرآن مجید اوراردو کی ابتدائی تعلیم اپنے والد ماجد سے حاصل کر کے مدرسہ اسلامیہ گھوسی میں داخل ہوئے اوراردوفارسی کی مزید تعلیم پائی۔ چند ماہ مدرسہ ناصر العلوم گھوسی میں بھی تعلیم حاصل کی۔ اس کے بعد مدرسہ معروفیہ معروف پورہ میں میزان سے شرح جامی تک پڑھا۔ پھر ۱۳۵۱؁ھ میں مدرسہ محمدیہ حنفیہ امروہہ ضلع مرادآباد (یوپی)کا رخ کیا اوروہاں شیخ العلماء حضرت مولانا شاہ اویس حسن عرف غلام جیلانی اعظمی علیہ الرحمہ (شیخ الحدیث دارالعلوم فیض الرسول براؤں شریف متوفی ۱۳۹۷؁ھ)اورحضرت مولانا حکمت اللہ صاحب قبلہ امروہی اورحضرت مولانا سید محمد خلیل صاحب چشتی کاظمی امروہی کی خدمت میں ایک سال رہ کر اکتساب فیض کیا۔اس کے بعد ۱۳۵۲؁ھ میں حضرت صدرالشریعہ مولانا حکیم محمد امجد علی صاحب اعظمی علیہ الرحمہ کے ہمراہ بریلی شریف تشریف لے گئے اورمدرسہ منظر اسلام محلہ سوداگران بریلی میں داخل ہوکر تعلیمی سلسلہ شروع فرمایا ۔ ملا حسن، میبذی وغیرہ چند کتابیں حضرت محدث اعظم پاکستان مولانا محمد سرداراحمد صاحب چشتی گورداسپوری علیہ الرحمہ سے پڑھیں باقی کتابیں حضرت صدرالشریعہ علیہ الرحمہ سے پڑھیں۔

ا س دوران حجۃ الاسلام حضرت مولانا شاہ حامدرضا خان صاحب علیہ الرحمہ (خلف اکبرسرکاراعلیٰ حضرت امام احمد رضا قدس سرہ )کی خدمت میں حاضری دی اور شرفیاب ہوئے۔موصوف آپ پر بڑا کرم فرمایا کرتے تھے۔ اعلیٰ حضرت قدس سرہ کے برادرخورد حضرت مولانا محمد رضا خان صاحب عرف ننھے میاں علیہ الرحمہ سے فرائض کی مشق کی اورحضور مفتی اعظم ہند مولانا شاہ مصطفی رضا خان نوری علیہ الرحمہ (زیب سجادہ عالیہ قادریہ رضویہ بریلی شریف، خلف اصغرحضور اعلیٰ حضرت قدس سرہ)کے دارالافتاء میں بھی حاضری دی۔

بریلی شریف میں دوران طالب علمی آپ کی اقتصادی حالت اچھی نہیں تھی ۔ مسجدکی امامت اورٹیوشن سے اخراجات پورے کرتے تھے۔ جب حضرت صدر الشریعہ مولانا امجد علی صاحب علیہ الرحمہ بریلی سے رخصت ہوکر مدرسہ حافظیہ سعیدیہ دادوں ضلع علی گڑھ میں مسند تدریس پر جلوہ فرما ہوئے تو مولانا اعظمی صاحب بھی بریلی شریف نہ رہ سکے اور۱۰شوال ۱۳۵۵؁ھ کو علی گڑھ حضرت صدرالشریعہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اورمدرسہ حافظیہ سعیدیہ میں داخلہ لیا اور امتحانات میں اچھی پوزیشن سے کامیاب ہوکر انعامات بھی حاصل کئے ۔

علی گڑھ کے دورانِ قیام حضر ت مولانا سید سلیمان اشرف بہاری پروفیسر دینیات مسلم یونیورسٹی علی گڑھ (خلیفہ اعلیٰ حضرت قدس سرہ)کی خدمت میں بھی حاضری دیتے اورعلمی اکتساب فرماتے رہے ۔

۱۳۵۶؁ھ میں مدرسہ حافظیہ سعیدیہ دادوں سے سند فراغ حاصل کیا۔ حضرت مولاناسید شاہ مصباح الحسن صاحب چشتی علیہ الرحمہ نے سر پردستار فضیلت باندھی۔

بیعت:
۱۷صفرالمظفر۱۳۵۳؁ھ میں حضرت قاضی ابن عباس صاحب عباسی نقشبندی علیہ الرحمہ کے پہلے عرس میں حضرت الحاج حافظ شاہ ابرارحسن خان صاحب نقشبندی شاہ جہانپوری (جو قاضی صاحب موصوف کے پیر بھائی تھے )سے مرید ہوئے ۔

۲ذیقعدہ ۱۳۷۰؁ھ کو حضر ت شاہ ابرار حسن صاحب نقشبندی علیہ الرحمہ کا انتقال ہوگیا تو اس کے بعدآپ کے خلیفہ برحق الحاج قاضی محبوب احمد صاحب عباسی نقشبندی سے بھی اکتساب فیض کیا۔چونکہ شروع ہی سے موصوف کا رجحان سلسلہ نقشبندیہ کی طرف زیادہ تھا اسی لیے اس سلسلے میں مرید ہوئے مگر دیگر سلاسل کے بزرگوں سے بھی اکتساب فیض وبرکات کا سلسلہ جاری رکھا۔
۲۵صفرالمظفر ۱۳۵۸؁ھ میں عرس رضوی کے مبارک ومسعود موقع پر حضرت حجۃ الاسلام مولانا حامد رضا خان علیہ الرحمہ (م۱۳۶۳؁ھ) نے سلسلہ عالیہ قادریہ رضویہ کی خلافت واجازت سے سرفرازفرمایا۔

سلسلہ تدریس:

فارغ التحصیل ہونے کے بعد سب سے پہلے مدرسہ اسحاقیہ جودھ پور (راجھستان)میں مدرس ہوئے ۔درس نظامی کا افتتاح فرمایااورمدرسہ ترقی کی راہ پر چل نکلا تھا کہ اچانک جودھ پور میں ہندو مسلم فساد ہونے کی و جہ سے بہت سے بیرونی علماء کے ساتھ آپ علیہ الرحمہ کو گرفتار کیا گیا اوربعد میں اشتعال انگیز تقریر کرنے کا الزام لگا کر حکومت نے شہر بدرکردیا جس سے مدرسہ کوبھی نقصان ہوا اورمولانا موصوف کو بھی وہاں سے آنا پڑا۔

ستمبر ۱۹۳۹؁ء میں حضرت قاضی محبوب احمد صاحب کی دعوت پر امروہہ تشریف لے گئے اوروہاں مدرسہ محمدیہ حنفیہ میں تدریسی خدمات انجام دیں جس کا سلسلہ تین سال تک رہا۔ اس وقت وہاں پر مولانا سیدمحمد خلیل صاحب کاظمی امروہی صدر مدرس تھے اس دوران بھی موصوف سے استفادہ کیا۔ اس کے بعد ۱۹۴۲؁ میں دارالعلوم اشرفیہ مبارکپور میں تدریسی خدمات کا آغاز فرمایا اور گیارہ سال تک یہاں بھی درس دیتے رہے اور اس کی تعمیر وترقی میں بھرپور حصہ لیا۔

۱۹۵۲؁ء میں آپ کا احمد آباد گجرات بسلسلہ تقریردورہ ہوا۔ متعدد تقاریر کے سبب لوگ گرویدہ ہوئے اورجب وہاں پر ایک دارالعلوم کا قیام عمل میں آیا تو احمد آباد کے عمائد اہل سنت نے باصرار مبارک پورسے بلواکر دارالعلوم شاہ عالم میں مدرس رکھا۔ اس سلسلے میں حضرت مولانا ابراہیم رضا خاں صاحب نبیرہ اعلیٰ حضرت اورحضورمفتی اعظم ہند مدظلہ الاقدس نے بھی دارالعلوم کے قیام اورترقی میں بھر پور حصہ لیا۔

مولانانے اس دارالعلوم کی ترقی اوربقا میں بھر پور اورجان توڑکر کوشش کی اور اس کو عروج تک پہنچا کر دم لیا۔
بعض ناگفتہ بہ حالات اورارکان میں سے بعض کے درپے آزار ہونے کی و جہ سے استعفا دے کر ۱۷شعبان ۱۳۷۸؁ھ کو وہاں سے وطن آگئے ۔ اس کے بعد حج بیت اللہ کو روانہ ہوئے ۔ واپسی پر دارالعلوم صمدیہ بھیونڈی (مہاراشٹر)کی طلبی پر مارچ ۱۹۶۰؁ کو طلبہ کی ایک جماعت کے ساتھ مدرسہ مذکور میں تشریف لے گئے اورچار برس تک جم کر وہاں تدریسی خدمات کو انجام دیا اور مدرسہ مذکور کی تعمیر میں بھی بھرپورکوشش فرمائی ، جس کے طفیل ایک شاندار عمارت آج بھی موجود وشاہد ہے ۔مگر جب وہاں کے بھی بعض حضرات سے تعلقات معمول پر نہ رہے تو خاطر برداشتہ ہوکر ۱۹۶۴؁ میں مستعفی ہوگئے۔ اس کے بعد فوراً دارالعلوم مسکینیہ دھوراجی گجرات سے طلبی آگئی اورمولانا حکیم علی محمد صاحب اشرفی کے اوردوسرے لوگوں کے اصرار پر وہاں مع جمعیۃ طلبہ تشریف لے گئے مگر وہاں بھی زیادہ دنوں قیام نہ کرسکے اور بالآخردارالعلوم منظر حق ٹانڈہ فیض آباد (یوپی)میں بعہدہ صدرالمدرسین وشیخ الحدیث تشریف لے گئے جہاں تقریباًدس سال سے علوم و معارف کے گوہر لٹارہے ہیں ۔ خدا نے تفہیم کی خوب خوب صلاحیت بخشی ہے ۔ تمام متداول کتابوں پر یکساں قدرت رکھتے ہیں اورپوری مہارت سے درس دیتے ہیں اورطلبہ خوب مانوس ہوتے ہیں۔ تدریس کی اس طویل مدت میں طلبہ کی ایک تعدادتیار ہوگئی اور آج ملک وبیرون ملک آپ کے تلامذہ تدریس و تقریراور مناظرہ و تصنیف کی خدمات انجام دے رہے ہیں۔

درس و افتاء:

تدریس کے ساتھ ساتھ فتوی نویسی کا کا م بھی کرتے رہے ہیں ۔ تحریر کردہ فتووں کی نقلیں کم محفوظ ہیں پھر بھی چھ سوسے زیادہ فتاوے منقول ہیں جو کبھی شائع کیے جاسکتے ہیں۔

وعظ ونصیحت:

مولیٰ تعالیٰ نے وعظ ونصیحت کی بھی خوب صلاحیت بخشی ہے۔ملک کے گوشے گوشے میں آپ کے مواعظ حسنہ کی دھوم مچی ہوئی ہے اوربہت سے مواعظ تو مطبوعہ بھی ہیں جن سے عوام ہمیشہ فائدہ حاصل کرتے رہیں گے۔

ذوقِ سخن:

زمانہ طالب علمی ہی سے شعر وشاعری کا ذوق ہے ۔ نعت شریف، قومی نظمیں اورغزل میں بھی طبع آزمائی فرمائی ہے ۔ کوئی مجموعہ کلام مطبوعہ نہیں ہے۔

تصنیف وتالیف:

تدریس، افتاء، وعظ وغیرہ کے ساتھ آپ نے تصنیف وتالیف کا بھی بہت اچھا اورخوب ذوق پایا ہے ۔ اوراس کی طرف خاصی توجہ مبذول فرمائی ہے ۔ مختلف موضوعات پر آپ کی مطبوعہ اردو تصانیف مندرجہ ذیل ہیں:

 (1) موسم رحمت (سب سے پہلی تصنیف جومتبرک راتوں اورمبارک ایام کے فضائل پرمشتمل ہے(

(2)معمولات الابراربمعانی الآثار(تصوف کے بیان میں (

(3)اولیاء رجال الحدیث(اولیائے محدثین کی سوانح(

(4)مشائخ نقشبندیہ(نقشبندی بزرگوں کا سلسلہ وارتذکرہ(

(5)روحانی حکایات (دوحصے(

(6)ایمانی تقریریں

(7)نورانی تقریریں

(8)حقانی تقریریں

(9)عرفانی تقریریں

(10)قرآنی تقریریں

(11) سیرۃ المصطفیٰ

(12) نوادرالحدیث (چالیس حدیثوں کی عمدہ اورمفید شرح (

(13) کرامات صحابہ

(14) جنتی زیور

(15) قیامت کب آئے گی

(16) عجائب القرآن

(17) غرائب القرآن

(18) جہنم کے خطرات

(19) مسائل قرآن

(20) بہشت کی کنجیاں

(21) جواہر الحدیث

(22) سامان آخرت

(23) آئینہ عبرت

(24) اسلام میں عورت کا مقام

(25) خواتین کی نماز

(26) مسلمانوں کے عقیدے

کتاب ' سیرۃ المصطفیٰ ﷺ' سیرت کے موضوع پر قلمبند فرمائی گئی ہے جو تقریباً آٹھ سو صفحات پر مشتمل ہے اورخوب ہے۔ اس کے علاوہ تمام کتابیں متعدد بار طبع ہوکر اہل ذوق کے لیے تسکین کا سامان بن چکی ہیں اورخاص بات یہ ہے کہ اس وقت بھی آپ کی تمام کتابیں بآسانی مل جاتی ہیں ۔ کوئی بھی کتاب نایاب اورمشکل الحصول نہیں، خود ہی اپنے اہتمام سے طبع کراتے اورشائع فرماتے ہیں ۔کتابت وطباعت کا معیار بھی عام کتابوں سے بہتر ہے جوکہ مقبولیت کی ایک خاص و جہ ہے ۔ آپ کی تقریروتصنیف میں مفید لطائف کی خاصی آمیزش ہوتی ہے جو عوامی دلچسپی کا باعث ہے۔

حج وزیارت:

۱۳۷۸؁ھ مطابق ۱۹۵۹؁ء میں حج کعبہ وزیارت مدینہ طیبہ کا عزم کیا اورشاد کام ہوئے اورپوری صحت وتوانائی کے ساتھ تمام ارکان کی ادائیگی سے سرفراز ہوئے ۔جدہ میں آپ کے برادرطریقت الحاج عبدالحمیدکے مکان پر محفل وعظ کا انعقاد ہوا جس میں آپ نے نہایت ہی رقت انگیز تقریر فرمائی ۔ اس محفل میں قائد اہلسنت مولانا الحاج شاہ احمد نورانی علیہ الرحمہ (خلف الصدق حضرت مولانا عبدالعلیم میرٹھی قدس سرہ)نے بھی شرکت فرمائی تھی ۔دونوں مقامات متبرکہ میں کثیر علماء ومشائخ سے ملاقات فرمائی اوربہتوں نے آپ کو اپنے سلاسلِ طریقت، دلائل الخیرات، حزب البحراور اورادووظائف نیز حدیث کی سندیں واجازتیں مرحمت فرمائیں ۔ حضرت شیخ مفتی محمد سعداللہ المکی نے باوجود ضعف پیری کے آپ کو خود لکھ کر سندیں عطاکیں اوردیگرتبرکات وآثار سے بھی نوازا مولانا الشیخ السید علوی عباس المکی مفتی المالکیہ ومدرس الحدیث بالحرم شریف سے بھی ملاقات کا شرف حاصل کیا۔

حج کو جاتے وقت مولانا موصوف نے حضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمہ سے شیخ مذکور کے نام ایک تعارفی خط لکھوالیا تھا جس سے توجہات عالیہ کو منعطف کرانے میں مدد ملی ۔ شیخ کی بارگاہ میں پہنچ کر جب آپ نے خط پیش کیا اورشیخ اس جملہ پر پہنچے ھذا تلمیذ تلمیذ الشیخ مولانا احمد رضا خاں الھندی ۔تو فرمایا:عبدالمصطفیٰ آپ ہی ہیں؟آ پ نے عرض کیا :ہاں میں ہی ہوں !پھرتو بڑی ہی گرم جوشی سے معانقہ فرمایا اوردعائیں دیں اورکچھ دیر تک سرکار مرشدی حضور مفتی اعظم ہند دامت برکاتہم القدسیہ کا ذکر کرتے رہے اور سرکاراعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کا تذکرہ فرمایا پھر اپنے گھر بلایا۔جب آپ انکے گھر پہنچے تو وہ آپ کے ساتھ بہت ہی توجہ اورمہربانی سے پیش آئے اور اپنی تمام تصانیف کی ایک ایک جلد عنایت فرما کر صحاح ستہ کی سند حدیث عطافرمائی۔
مولانا الشیخ محمد بن العربی الجزائری کے نام بھی سرکارمفتی اعظم ہند علیہ الرحمہ کا خط لے کر حاضر ہوئے تو آپ کی مسرت کی انتہانہ رہی، بڑے تپاک سے ملے اورصحیح بخاری شریف اورموطاکی سند حدیث عطافرمائی اورحضرت امام احمد رضا خاں فاضل بریلوی علیہ الرحمہ کا تذکرہ جمیل ان الفاظ میں فرمایا:ہندوستان کا جب کوئی عالم ہم سے ملتا ہے تو ہم اس سے مولانا شیخ احمد رضا خاں ہندی کے بارے میں سوال کرتے ہیں اگر اس نے تعریف کی تو ہم سمجھ لیتے ہیں کہ یہ سنی ہے اوراگر اس نے مذمت کی تو ہم کو یقین ہوجاتا ہے کہ یہ شخص گمراہ اور بدعتی ہے ہمارے نزدیک یہی کسوٹی ہے ۔مولانا الشیخ ضیاء الدین مہاجر مدنی (خلیفہ اعلیٰ اشرفی میاں کچھوچھوی قدس سرہ )حضرت سے بھی ملاقات کا شرف حاصل کیا اورآپ کی صحبت سے فیض یاب ہوئے ۔ آپ ہی نے دیگر حضرات سے بھی ملاقات کرائی جن میں شیخ الدلائل حضرت سید یوسف بن محمد المدنی بھی ہیں ۔ان متعدد شیوخ کی اسناد کی نقلیں حضرت علامہ اعظمی صاحب نے اپنی کتاب "معمولات الابرار" میں نقل فرمائی ہیں جو کئی صفحات پر پھیلی ہوئی ہیں

وصال مبارک:

 وصال سے چھ ماہ قبل شدید بیمار ہوئے، بالآخر 15 رمضان المبارک 1406ھ مطابق 15 مئی 1985 ء بروز جمعرات بوقت عصر، علم و حکمت اور فضل و کمال کا یہ مہر درخشاں ہمیشہ کے لیے غروب ہو گیا۔

No comments:

Post a Comment