اسمِ گرامی:علامہ محمد عبد المصطفیٰ الازہری۔
لقب: شیخ الحدیث، نائبِ صدر
الشریعہ
تخلص: ماجد۔
سلسلہ
نسب اس طرح ہے: حضرت علامہ عبدالمصطفیٰ الازہری بن صدر الشریعہ مفتی
محمد امجد علی اعظمی (صاحبِ بہارِ شریعت) بن علامہ جمال الدین بن مولانا خدا بخش (رحمہم
اللہ)
تاریخِ
ولادت: آپ کی ولادت باسعادت ابتداءِ ماہِ محرم الحرام 1334ھ مطابق ماہِ
نومبر1915ء کو ’’بریلی شریف‘‘ انڈیا میں ہوئی۔
بارگاہِ
اعلیٰ حضرت میں: جب آپ کی ولادت ہوئی اس وقت حضرت صدر الشریعہ ’’منظرِ اسلام‘‘
بریلی میں مدرس تھے۔ولادت کے ساتویں دن عقیقے کے موقع پر حضرت صدرالشریعہ آپ کو
اعلیٰ حضرت کی خدمت میں لے گئے، نام تجویز کرنے اور دعا کی درخواست کی۔ اعلیٰ حضرت
نے نومولود کو دیکھ کر مسرت کا اظہار کیا۔ آپ نے بچے کی پیشانی پر بوسہ دیا اور دم
فرمایا۔ بچے کےنام میں ’’عبد المصطفیٰ‘‘ کا اضافہ تجویز فرمایا، اور حضرت
صدرالشریعہ کو پیش گوئی فرمائی کہ تمھارا یہ بیٹا بہت ہی ذہین اور بہت ہی عظیم
ہوگا، اور ان شاء اللہ یہ تمہارا نائب، عالم وفاضل بنے گا، اور جہاں تک نام کا
تعلق ہے تو میں اپنا نام آپ کے بیٹے کو دیتا ہوں۔(شیخ الحدیث علامہ عبد المصطفیٰ
الازہری: 105)
تحصیلِ
علم: آپ نے قرآن مجید اپنے مولِد بریلی شریف کے دارالعلوم منظرِ اسلام
میں مولانا احسان علی مظفر پوری سے پڑھا۔ پھر والد ماجد علیہ الرحمہ کے جامعہ
عثمانیہ اجمیر شریف میں مدرس مقرر ہونے پر علامہ ازہری نے اپنے آبائی وطن قصبہ
گھوسی اعظم گڑھ میں محلہ کریم الدین کے مکتب میں اُردو سیکھی۔ حضرت علامہ ازہری
علیہ الرحمہ کو 1926ء میں آپ کے والد مکرم نے جامعہ عثمانیہ (اجمیر شریف) بلالیا۔
جہاں آپ نے کتب فارسی مولانا عارف بدایونی سے پڑھیں۔ علومِ عربیہ اسی مدرسہ میں
مولانا حکیم عبدالمجید، مفتی امتیاز احمد اور مولانا عبدالحئی سواتی سے حاصل کیے،
اور اکثر علوم و فنون ابتدا سے انتہا تک اپنے والد مکرم سے پڑھے۔ جب حضرت صدر الشریعۃ
علیہ الرحمہ دوبارہ بریلی شریف جانے لگے تو علامہ ازہری علیہ الرحمہ کو اعلیٰ
تعلیم کے لیے جامعہ ازہر قاہرہ (مصر) بھیج دیا۔ چنانچہ حج کی ادائیگی اور زیارت
روضۂ رسول علیٰ صاجہا الصلوٰۃ والسلام سے فراغت کے بعد جامعہ ازہر تشریف لے گئے،
اور تین سال جامعہ ازہر میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد آپ نے جامعہ کی طرف سے دو
سندیں ’’شہادۃ الاہلیۃ، و شہادۃ العالیہ‘‘ حاصل کیں۔(مفتیِ اعظم اور ان کے
خلفاء:462)
بیعت
وخلافت: علامہ ازہر ی نے بچپن میں اعلیٰ حضرت امام اہلسنت مولانا احمد رضا
خان محدث بریلوی نور اللہ مرقدہ کے دست پاک پر بیعت ہونے کا شرف حاصل کیا تھا اور
جوانی میں مفتی اعظم ہند علامہ مصطفی رضا خان بریلوی اور صدر الشریعہ علامہ مفتی
امجد علی اعظمی کی طرف سے سلسلہ عالیہ قادریہ میں اجازت و خلافت حاصل کی(ایضا:463)
سیرت
وخصائص: فقیہ ابنِ فقیہ، عالم ِباعمل، مردِ حق، صاحبِ محاسنِ کثیرہ، جامع
علوم عقلیہ و نقلیہ، شیخ الحدیث حضرت علامہ مولانا عبد المصطفیٰ الازہری۔
آپ
یادگارِ اسلاف، اور شریعتِ محمدیہ کا نمونہ تھے۔ آپ کے تمام امور سنتِ مصطفیٰﷺ کے
سانچے میں ہوتے تھے۔ عظیم باپ کے عظیم فرزند ارجمند تھے۔ آپ نے حضرت صدرالشریعہ
بدرالطریقہ مفتی محمد امجد علی اعظمی نور اللہ مرقدہ کی نیابت و جانشینی کا صحیح
حق ادا کیا۔ حضرت شیخ الحدیث مملکتِ پاکستان کے بطلِ جلیل، اسلام کے عظیم سپاہی،
دین ومسلک کے شاندار قائد، قرآن وحدیث، فقہ، علوم عربیہ، اور فنونِ اسلامیہ کے
بحرِ ذخار، صوفی و درویش صفت، مدینہ، بغداد، اجمیر، بریلی اور جامعہ ازہر کی
بارگاہوں اور درسگاہوں کے طالب علم و خوشہ چیں، سلفِ صالحین کے کردار کا عکسِ
جمیل، عاشقِ محبوبِ خدا، شیدائے غوث اعظم، و امام ِ اعظم،محبِ اعلیٰ حضرت، محبوبِ
مفتیِ اعظم تھے۔
پچاس
سال تک مسندِ درس وتدریس پر قال اللہ و قال الرسول کی صدائیں بلند کرتے رہے۔ اسی
طرح آپ دارالعلوم امجدیہ کے شیخ الحدیث، جماعتِ اہل سنت پاکستان کے صدر،جماعتِ اہل
سنت اور جمعیت علماء پاکستان کے بانی رکن، ممبر قومی اسمبلی، رکن مجلس شوریٰ، اور
بے شمار دینی ومذہبی انجمنوں، اداروں کے سرپرستِ اعلیٰ تھے۔ آپ کی پوری زندگی ہوش
سنبھالنے سے حیاتِ مستعار کی آخری سانس تک ایک تحریک، ایک انجمن، انقلابِ مصطفوی،
عشقِ محمدی، اور ترویج و اشاعت مذہبِ حق کی ایک عظیم کاوش اور جہد ِ مسلسل سے
عبارت ہے۔
عادات
و خصائل : خوش مزاج، ظریف الطبع، سادگی، تواضع، وقار علمی، مگر درویشی و
استغنا لئے ہوئے، قناعت پذیر، ہر دم مسلک کی اشاعت کی دھن، کوہِ استقامت، باہمت،
اور بڑے باحوصلہ،خود نمائی سے گریز مگر علم کی بے عزتی ناگوار۔ گھریلو معاملات کے
ہر جز سے با خبر رہتے اور اہل خانہ کی ضروریات کا انتظام خود فرماتے، مہمان نواز،
بات میں بات پیدا کرنا اور وہ بھی ندرت کے انداز میں حاضر جوابی کے ساتھ ان کی
ذہانت کا زندہ ثبوت تھا۔
بہت
ہی با اخلاق شریف النفس، بڑوں میں بڑے، چھوٹوں میں چھوٹے، لیکن خود دار ایسے کہ
اپنے علم و کردار، فضل وکمال، اور دین ومسلک کو کبھی چند ٹکوں میں فروخت نہیں
کیا۔آپ علماء کے قدردان، چھوٹوں پر مشفق و مہربان، سادگی میں سلفِ صالحین کے نقش
قدم پر تھے۔ مساکین کے دکھ درد، خوشی و غمی میں ساتھی تھے۔ حقوق العباد کی فکر تھی
، پڑوسیوں سے اخلاق و مروت سے پیش آتے تھے۔ سماجی فلاحی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ
لیتے تھے۔ تدریس کو عبادت سمجھتے تھے۔ لہذا طلبہ کی تعلیم و تربیت پر نہایت توجہ
فرماتے تھے۔ وقت کی قدر ٹائم کی پابندی رکھتے تھے ۔ درس تدریس میں ناغہ نہیں کرتے
روزانہ بلا نا غہ وقت سے پہلے پہلے پہنچ جاتے تاکہ پورا وقت طلبہ کی تعلیم پر صرف
کیا جائے ۔
سیاسی
کردار: آپ ساری زندگی نفاذِ نظامِ مصطفیٰﷺ کے لئے کوشاں رہے۔ عام علماء کی طرح صرف
مسجد ودرس گاہ تک اپنے آپ کو محدود نہ رکھا بلکہ رسول اللہ ﷺ کے دین کوتخت پر لانے
کے لئے مصروفِ عمل رہے۔
حضرت
مذہب کی طرح سیاست اور ملکی وبین الاقوامی حالات و معاملات پر گہری نظر رکھتے تھے۔
ایک مرتبہ دورانِ تقریر فرمایا: ’’سیاست ہمارے لئے کوئی اجنبی یا انوکھا شعبہ
نہیں، یہ تو دین ہی کا ایک شعبہ ہے، جس کی طرف ہم نے عملی توجہ کی ضرورت نہیں
سمجھی، لیکن اس شعبۂ زندگی کے جو قائد بنے تھے وہ دین سے بیزار ی اور دوری کے
باعث ناکام ہوچکے ہیں۔ لہذا اب ہمیں اس ذمہ داری کو پورا کرنا ہوگا، اور دستور ساز
اسمبلی میں پہنچ کر نظامِ مصطفیٰﷺ کا درس دینا ہوگا‘‘۔ قائدِ ملتِ اسلامیہ علامہ
شاہ احمد نورانی صدیقی نے 1978ء کی ملتان سنی کانفرنس میں خطاب کرتےہوئے علامہ
عبدا لمصطفیٰ الازہری کے متعلق فرمایا: ’’حضرت شیخ الحدیث،جانشین صدرالشریعہ،
سیاسی ہیں۔ شکل و صورت دیکھ لیں، لمبا کرتا دیکھ لیں، عمامہ دیکھ لیں، اگر دل
دیکھنا چاہتے ہیں تو وہ بھی دیکھ لیجئے،ان کے جسم کے ہر حصے سے عشقِ مصطفیٰﷺ نکلے
گا۔بلکہ ان کے خون کے ہر قطرے میں محبتِ مصطفیٰﷺ کی روانگی ہوگی۔ اگر یہ سیاست ہے
تو ہم اس الزام کو قبول کرتےہیں‘‘۔(روئداد سنی کانفرنس)۔
آپ
دومرتبہ قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے ملک و قوم کے لئے عظیم خدمات انجام دیں۔جن
میں سے قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قراردلوانے، قانون توہینِ رسالت،اور قانون
شہادت، اسی طرح جمعۃ المبارک کی تعطیل اہم ہیں۔سب سے اہم بات یہ ہے کہ ممبر قومی
اسمبلی بننے کے بعد بھی آپ کے رہن سہن میں کوئی فرق نہیں آیا۔ آج بھی لوگ گواہ
ہیں،جس مکان میں حضرت پہلے رہتےتھے ،بعد میں بھی اسے میں رہے۔اسی طرح آپ نے کسی
قسم کی رعایت، کسی قسم کا لین دین، اور نہ ہی مراعات حاصل کیں۔ہمیشہ کی طرح روزانہ
سعود آباد سے بذریعہ بس یا وگن دارالعلوم امجدیہ آیا کرتےتھے۔
تاریخِ
وصال: 16/ربیع الاول 1410ھ مطابق 18/اکتوبر 1989ء،بروز منگل،بوقتِ فجر،
یہ جلالۃ العلم واصل باللہ ہوئے۔دارالعلوم امجدیہ کراچی میں آپ کا مزار مقدس ہے۔
No comments:
Post a Comment