Panjum Khalifa e Rashid Hazrat Imam Hasan Mujtaba RadiAllah Anhu The

 

پنجم خلیفہ راشد حضرت سیدنا امام حسن  مجتبیٰ رضی اللہ عنہ  تھے

وعن سفينة قال سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول الخلافة ثلاثون سنة ثم تكون ملكا عضوضاً . ثم يقول سفينة أمسك خلافة أبي بكر سنتين وخلافة عمر عشرة وعثمان اثنتي عشرة وعلي ستة . (رواه أحمد والترمذي وأبو داود )

ترجمہ: حضرت سفینہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آزاد کردہ غلام تھے۔ کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا۔ خلافت کا زمانہ تیس سال کا ہوگا ۔ اس کے بعد وہ خلافت بادشاہت میں بدل جائے گی  جو کاٹنے والی بادشاہت ہوگی ۔حضرت سفینہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ حدیث بیان کرنے کے بعد راوی سے یا عام لوگوں کو خطاب کر کے کہا کہ حساب کر کے دیکھو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو تیس سال کی مدت بیان فرمائی ہے وہ اس طرح ہوتی ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت کا زمانہ دو سال۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت کا زمانہ دس سال، حضرت عثمان کی خلافت کا زمانہ بارہ سال اور حضرت علی کی خلافت کا زمانہ چھ سال اس کے بعد امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام کے کچھ مہینے (رضی اللہ عنہم ورضوا عنہ)۔ (احمد، ترمذی، ابوداؤد/ مشکوۃ شریف جلد چہارم باب: فتنوں کا بیان1326-1328)

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کے وصال کے بعد حضرت سیدنا ابوبکر صدیق، حضرت سیدنا عمر فاروق ، حضرت سیدناعثمان غنی ، حضرت مولائے کائنات سیدنا علی ، حضرت سیدنا امام حسن مجتبیٰ (رضوان اللہ علیہم اجمعین) عہد خلافت خلافت راشدہ کہلاتا ہے۔ اس عہد کی مجموعی مدت تیس سال ہے جس میں ابوبکر صدیق اولین اور خلیفہ پنجم  امیر المؤمنین  حضرت سیدنا امام حسن مجتبیٰ  علیہ السلام آخری خلیفہ ہیں۔ اس عہد کی نمایاں ترین خصوصیت یہ تھی کہ یہ قرآن و سنت کی بنیاد پر قائم نظام حکومت تھا۔

خلافت راشدہ کا دور اس لحاظ سے بہت اہم ہے کہ اس زمانے میں اسلامی تعلیمات پر عمل کیا گیا اور حکومت کے اصول اسلام کے مطابق رہے۔ یہ زمانہ اسلامی فتوحات کا بھی ہے۔ اور اسلام میں جنگ جمل اور جنگ صفین جیسے واقعات بھی پیش آئے۔ جزیرہ نما عرب کے علاوہ ایران ، عراق، مصر، فلسطین،  شام ،فارس، تونس اور اس کے علاوہ کئی ممالک بھی اسلام کے زیر نگیں آگئے۔

 حضرت محمد مصطفیٰ علیہ الصلواۃ والسلام کے ظاہری وصال کے بعد  پانچ خلفاء کو مجموعی طور  خلفائے راشدین کہا جاتا ہے۔

٭  خلیفہ اول امیر المؤمنین  حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ بن ابو قحافہ   (632-634 عیسوی )

٭ خلیفہ دوم  امیر المؤمنین  حضرت سیدنا عمر  فاروق اعظم رضی اللہ عنہ بن خطاب ( 634-644 عیسوی)

٭ خلیفہ سوم  امیر المؤمنین  حضرت سیدنا عثمان  غنی رضی اللہ عنہ  بن عفان( 644-656 عیسوی)

٭ خلیفہ چہارم امیر المؤمنین  حضرت مولائے کائنات  سیدنا علی کرم اللہ وجہہ الکریم (656-661 عیسوی )

٭ خلیفہ پنجم  امیر المؤمنین  حضرت سیدنا امام حسن مجتبیٰ  علیہ السلام (661-661 عیسوی )

شاہ عبدالحق حق محدث دہلوی لکھتے ہیں کہ امام حسن علیہ السلام نے خلافت کو اس لیے ترک کیا تھا کہ آپ بادشاہوں میں داخل نہ ہونا چاہتے تھے کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا الخلافۃ بعدی  ثلاثون سنتھ ثم یصیر ملکا عضو ضا  کہ میرے بعد تیس سال خلافت رہے گی اور اس کے بعد کٹھنہ کھنی بادشاہت آجائے گی اور یہ مدت خلافت حضرت ربیع الاول اکتالیس ہجری میں ختم ہوگئی۔جب کہ امام حسن مجتبی علیہ السلام  حضرت معاویہ کے حق میں خلافت سے دستبردار ہو گئے۔

 حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں کہ امام حسن علیہ السلام بھی  خلفائے راشدین سے ہیں کیوں کہ حضور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا  الخلافۃ یہ ثلاثون سنتھ ثم تکون ملکا کہ خلافت میرے بعد تیس سال ہوگی پھر بادشاہت ہوگی اور یہ خلافت تیس سال اس وقت مکمل ہوتی ہے جبکہ کے امام حسن کی خلافت کو بھی اس میں شامل کیا جائے کیوں کے حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کی وفات ریبع الاول 11 ہجری میں ہے  اور امام حسن حضرت معاویہ کے حق میں اکتالیس ہجری میں دستبردار ہوئے جب تک امام حسن کی خلافت کو شمار نہ کیا جائے اس وقت تک تیس سال مکمل نہیں ہوتے جس سے ثابت ہوا کہ امام حسن بھی خلیفہ راشد ہیں  اور خلفائے راشدین میں سے ہیں ۔ اور خلفائے راشدین میں حضرت ابوبکر صدیق کی خلافت کی مدت دو سال تین ماہ تھی اور حضرت عمر فاروق کی خلافت کی مدت دس سال اور 6 ماہ تھی اور حضرت عثمان غنی کی خلافت کی مدت بارہ سال مگر چند دن کم تھی اور اور حضرت علی شیر خدا کی مدت4 سال اور نو ماہ تھی اور اور حضرت امام حسن علیہ السلام کی خلافت کی مدت سے چھ ماہ اور کچھ دن تھی۔ ( منح الروض الأزہر شرح الفقہ الأكبر /ملا علی القاری  صفحہ ،68، شرح العقائد النسفیۃ/سعد الدين التفتازانی صفحہ 150، النبراس / علامہ نورالدين علی ، مفتی الدیار المصریہ  صفحہ 308،  المسامرۃ /شیخ قاسم بن قطلوبغا  الحنفی صفحہ 316)

صدرالشریعہ حضرت علامہ مفتی امجدعلی اعظمی علیہ الرحمہ اپنی مشہور کتاب بہار شریعت میں لکھتےہیں کہ نبی صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے بعد خلیفہ برحق و امامِ مطلق حضرت سیّدنا ابو بکر صدیق، پھر حضرت عمرِ فاروق، پھر حضرت عثمان غنی، پھر حضرت مولیٰ علی پھر چھ مہینے کے لیے حضرت امام حسن مجتبیٰ رضی اﷲ تعالیٰ عنہم ہوئے۔ اِن حضرات کو خلفائے راشدین اور اِن کی خلافت کو خلافتِ راشدہ کہتے ہیں کہ انھوں نے حضور (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) کی سچی نیابت کا پورا حق ادا فرمایا۔( بہار شریعت/حضرت علامہ مولانا مفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ الرحمہ 1/241، قانون شریعت (تخریج شدہ) /قاضی شمس الدین جونپوری علیہ الرحمہ صفحہ 70/مجلس مدینۃ العلمیہ دعوت اسلامی، فیض القدیر شرح جامع صغیر/ جلال الدین السيوطی الشافعی علیہ الرحمہ/شارح: علامہ عبدالرؤوف مناوی علیہ الرحمہ 4/664)

 امام الموحدین ابوسعیدحضرت سیدنا خواجہ حسن بصری(المتوفی 111ہجری)  قد س سرہ فرماتے ہیں کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی قسم ! آپ کی خلافت میں ایک قطرہ بھی خون کا نہیں بہا۔ (مسند امام احمد بن حبنل 5/44)

خلافت راشدہ کا مفہوم ومطلب : خلافت راشدہ سے مراد یہ ہے کہ خدا اور رسول نے جو حکمرانی کے اصول بیان فرمائے ہیں اور رسول اللہ کی تربیت و تعلیم اور عملی رہنما سے جو معاشرہ وجود میں آیا ہے طریق  پر خلافت وحکومت کرنا خلافت راشدہ ہے۔ گویا کہ منہاج نبوت کے مطابق جو خلافت ہے وہ خلافت راشدہ ہے اور یہ خلافت صرف تیس سال تک ہے اور یہ مدتِ خلافت اس وقت پوری ہوگئی جبکہ امام حسن علیہ السلام نے خلافت کو ترک کیا۔ تیس سال بعد ملوکیت اور بادشاہت شروع ہوگئی۔ اس بنا پر حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ بادشاہ  ہیں خلیفہ نہیں ہیں چنانچہ حضرت سعد بن وقاص رضی اللہ عنہ  جب حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی بیعت ہو جانے کے بعد ان سے ملے تو اسلام علیک ایھا الملک کہ کر کا خطاب کیا۔ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا اگر آپ مجھے  امیر المومنین کہتے تو کیا حرج تھا؟

انہوں نے جواب دیا خدا کی قسم! جس طرح آپ کو حکومت ملی ہے اس طریقہ پر  اگرمجھے مل رہی ہوتی ہو  تو میں اس کا لینا ہرگز پسند نہ کرتا۔ حضرت حضرت معاویہ  خود بھی اس کو حقیقت سمجھتے تھے۔ ایک مرتبہ انہوں نے خود کہا تھا انا اول  الملوک ملک میں مسلمانوں کا پہلا بادشاہ ہوں۔  (خلافت و ملوکیت صفحہ 148، بارہ امام /علامہ غلام رسول جماعتی نقشبندی علیہ الرحمہ صفحہ 293)

ابن تیمیہ(المتوفیٰ728ہجری)  لکھتے ہیں کہ حضرت معاویہ بادشاہ تھے۔ (منہاج السنہ 3/ 185)

قاضی ابوبکر بن العزنی  (المتوفی534 ہجری)  لکھتے ہیں کہ بادشاہی کی ابتداء حضرت معاویہ سے ہوئی ہے۔(العواصم من القواصم صفحہ 207)

 حافظ ابن کثیر(المتوفی 774ہجری)  لکھتے ہیں کہ  السنۃ ان یقال لہ ملک ولا یقال لہ خلیفۃ لحدیث سفینۃ الخلافۃ بعدی ثلاثون ثم تکون ملکا عضوضاً سنت یہ ہی ہے کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو بادشاہ کہا جائے خلیفہ نہ کہا جائے بوجہ حدیث سفینہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ  خلافت میرے بعد 30سال ہوگی پھر کاٹنے والی بادشاہت ہوگی۔ نیز حافظ ابن کثیر اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ  و اول مرک الاسلام معاویہ بن ابی سفیان (تفسیر ابن کثیر 2/14) کہ اسلام میں پہلا بادشاہ امیر معاویہ ابن ابی سفیان تھا۔

شاہ ولی اللہ محدث دہلوی لکھتے ہیں انقضت الخلافۃ بشھادۃ علی کرم اللہ وجہہ وخلع الحسن ومعاویہ کا ن علی سیرۃ الملوک لا علی سیرۃ الخلفاء  حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم  کی شہادت اور امام حسن کی دستبرداری سے خلافت ختم ہوگئی اورمعاویہ بادشاہوں کی سیرت پر تھا خلفاء راشدین کی سیرت پر نہ تھا۔ (حجۃ اللہ البالغہ 4/212)

 علامہ تفتازانی  (المتوفیٰ ہجری 792) لکھتے ہیں کہ فمعاویۃ ومن بعدھم لو یکونوا خلفاء ملوکا والامراء پس معاویہ اور ان کے بعد حکمران خلفاء نہیں تھے۔ بلکہ بادشاہ و امراء تھے۔  ( شرح عقائد 109)  

سید شریف جرجانی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرے بعد خلافت تیس سال ہوگی اور جو ان تیس سال کے درمیاں ہوئے ہیں وہ خلفاء ہیں تیس  سال کے بعد ہوئے بادشاہ ہیں۔ (شرح مواقب صفحہ 740)

دیوبندی عالم  علامہ خلیل احمد انبیٹھوی (المتوفیٰ 1346ہجری)  لکھتے ہیں بل علی وحسن خلفاء و بعد ھا ملک وامارۃ بذل الجھود ۔(شرح ابو داؤد جلد5)

شیخ امام علی بن سلطان محمد ہروی معروف بہ ملا علی قاری حنفی(المتوفیٰ 1016ہجری)  لکھتے ہیں کہ واول ملوک المسلمین معاویۃ مسلمانوں کا پہلا بادشاہے۔ (شرح فقہ اکبرصفحہ 183)

ابو الحسنات عبد الحی  الحنفی لکھنوی فرنگی محلی (متوفی 1304 ہجری)  لکھتے ہیں فکان الحسن آخرخلفاء الراشدین نبص جدہ صلی اللہ علیہ وسلم امام حسن آخری خلیفہ راشد تھے آپ کے خلاف پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے نص فرمائی ہے۔(فتاویٰ عبدالحئی2/65) 

 حافظ ابن عبدالبر (المتوفیٰ 463 ہجری)  یقول معاویۃ انا اول الملوک کہ حضرت معاویہ خود کہتے تھے کہ میں پہلا بادشاہ ہوں ۔(الاستیعاب 3/380)

قاضی شمس الدین جونپوری علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اول ملوک اسلام ہیں۔(قانون شریعت (تخریج شدہ) صفحہ 70/مجلس مدینۃ العلمیہ دعوت اسلامی)

اس سے ثابت ہوا کہ خلافت راشدہ تیس سال تھی وہ موت اس وقت پوری ہوگئی جب امام حسن علیہ السلام حضرت معاویہ کے حق میں دستبردار ہوگئے تھے اس کے بعد بادشاہت شروع ہوگئی اس بنا پر حضرت معاویہ بادشاہ تھے خلیفہ نہیں تھے۔

) اقبتاس: بارہ امام /ملفوظات غوث العالم محبوب یزدانی سلطان سید اشرف جہانگیر سمنانی قد س سرہ النورانی)


خلافت راشدہ۱۱  ہجری سے ۴۱ ہجری تک (632-662)

خلافت بنو امیہ۴۱ ہجری سے ۱۳۲ ہجری تک(662-750)

خلافت بنو عباسیہ: 132 ہجری سے 656ہجری تک(750-1258)

 خلافت عثمانیہ : ۶۹۸ ہجری سے ۱۳۴۲ہجری تک (1299-1924) غرضیکہ ۱۹۲۴ میں تقریباً ۱۳۵۰ سال بعد مسلمانوں کی ایک مرکزی خلافت /حکومت ختم ہوگئی۔

تخریج و تحشیہ

ابومحامد آل رسول احمد الاشرفی القادری