حضرت سیدنا امام حسن مثنی بن حسن مجتبیٰ رضی اللہ عنہ


 

اسم  مبارک:

حضرت سید ابو محمد حسن المثنیٰ

 شجرہ نسب:

سیدنا حسن مثنیٰ بن  خلیفہ  راشد پنجم سیدنا امام حسن المجتبیٰ بن سیدنا امام علی المرتضیٰ کرم اللہ  وجہہ الکریم

ولادت باسعادت:

 آپ  رضی اللہ عنہ کی ولادت ۱۲ رمضان المبارک کو مدینہ منورہ میں ہوئی۔ آپ رضی اللہ عنہ کی شادی سید الشہدائے  حضرت امام حسین  رضی اللہ عنہ کی بیٹی سیدہ فاطمہ صغری رضی اللہ عنہاسے ہوئی۔ آپ علویوں کے بزرگ سمجھے جاتے تھے۔ حضرت سیدنا  حسن مثنیٰ  رضی اللہ عنہ کربلا کے میدان میں زخمی ہوئے اور اپنے ماموں اسماء بن خارجہ فزاری کے توسط سے اس معرکے سے نجات حاصل کر سکے۔ کوفہ میں اپنے ماموں کے زیر نگرانی صحت یاب ہوئے۔ اس کے بعد کوفہ سے مدینہ واپس آگئے۔

حجاج بن یوسف کے خلاف عبد الرحمان بن محمد بن اشعث کی شورش میں آپ نے عبد الرحمٰن کا ساتھ دیا۔ آپ رضی اللہ عنہ   اپنے زمانِ حیات میں حضرت امیر المؤمنین امام علی المرتضیٰ کرم اللہ  وجہہ الکریم کے موقوفات کے متولی تھے۔

نام و نسب:

آپ رضی اللہ عنہ   کے والد کا نام حضرت سیدنا امام حسن المجتبیٰ رضی اللہ عنہ   ہے۔ آپ کی والدہ کا نام "خولہ بنت منظور بن زبان فزاری ہے۔ محمد بن طلحہ بن عبید اللہ کا جنگ جمل میں قتل ہونے کے بعد حضرت امام حسن کے عقد میں آئیں۔

کنیت:

آپ رضی اللہ عنہ   کی کنیت "ابو محمد" تھی۔

ازدواج:

حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی سیدہ فاطمہ صغری رضی اللہ عنہاآپ کی زوجہ تھیں۔ امام حسین رضی اللہ عنہ نے واقعۂ عاشورا سے پہلے اپنی صاحبزادی کا عقد امام حسن مثنیٰ رضی اللہ عنہ سے کیا۔ آپ رضی اللہ عنہ نے حضرت  سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ سے ان کی بیٹیوں میں سے ایک بیٹی کا رشتہ مانگا تو سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ نے فرمایا میری بیٹیوں فاطمہ صغری، فاطمہ کبری اور سکینہ میں سے جسے چاہو انتخاب کر سکتے ہو۔ آپ رضی اللہ عنہ خاموش ہو گئے اور کچھ نہ کہا۔لیکن امام حسین رضی اللہ عنہ نے سیدہ فاطمہ صغری رضی اللہ عنہاکا عقد حسن مثنیٰ رضی اللہ عنہ سے کر دیا۔یہ شادی حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کے سال انجام پائی۔حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت 61 ہجری قمری کی 10 محرم کو ہوئی۔ اس لحاظ سے زیادہ احتمال یہی ہے کہ عاشورا سے کچھ مدت پہلے 60 ہجری میں ہی مکہ میں انجام پائی۔ پس اس بنا پر حسن مثنی رضی اللہ عنہ اپنی زوجہ سیدہ فاطمہ صغری بنت امام حسین کے ہمراہ کربلا میں موجود تھے۔

علامہ ابن کثیر نے بھی حضرت سیدہ فاطمہ صغری رضی اللہ عنہاکی کربلا میں موجودگی کا ایک واقعہ نقل کیا علامہ ابن کثیر لکھتے ہیں کہ جب مستورات اہلبیت کو یزید کے دربار میں لایا گیا تو سیدہ فاطمہ صغری بنت حسین جو سیدہ سکینہ بنت حسین سے بڑی تھی نے کہا کہ اے یزید !رسولﷺ کی بیٹیاں قیدی؟

 یزید کہنے لگا کہ میں اسے پسند نہیں کرتا ہوں۔

اولاد وامجاد:

حضرت سیدہ فاطمہ صغری بنت امام حسین سے امامزادہ حسن مثنیٰ رضی اللہ عنہ کی اولاد عبدﷲالمحض ، ابراہیم الغمر ، حسن مثلث تھے۔ ان تینوں فرزندوں کی وفات عباسی خلیفہ ابو جعفر منصور کے زندان میں ہوئی۔پھر ان کے بعد عبداللہ المحض بن حسن رضی اللہ عنہ ایک عالم اور ادیب شخص تھے جنہوں نے عباسیوں کے خلاف تحریکوں کی قیادت کی۔ نفس زکیہ رضی اللہ عنہ کے نام سے مشہور ہونے والے محمد  اور قتیل باخمرا کے نام سے مشہور ابراہیم بھی  ان کی نسل میں سے ہیں۔امامزادہ سید حسن مثنیٰ  رضی اللہ عنہ سے دو اور صاحبزادے داؤد اور جعفر بھی ہوئے جو آپ کی دوسری زوجہ ام داؤد حبیبہ سے ہوئے آپ حسن مثنی رضی اللہ عنہ کی زوجہ اور امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ کی رضاعی ماں ہیں۔ آپ کی کنیت آپ کے بیٹے داؤد بن حسن رضی اللہ عنہ کی وجہ سے ام داؤد مشہور ہوئی۔ آپ کے نام میں اختلاف پایا جاتا ہے، بعض نے آپ کا نام حبیبہ جبکہ بعض نے فاطمہ لکھا ہے۔ آپ کی حالات زندگی کا تذکرہ کرنے والے تمام مورخین نے ایک واقعے کو ذکر کیا ہے جس میں ام داؤد اپنے بیٹے کو منصور دوانیقی کے جیل سے آزاد کرانے کیلئے امام جعفر صادق سے مدد مانگتی ہیں اس موقع پر امام انہیں ایک مخصوص عمل انجام دینے کا حکم دیتے ہیں جو بعد میں عمل ام داؤد سے مشہور ہو گیا ۔

واقعۂ عاشورا:

امام حسن مثنیٰ رضی اللہ عنہ واقعۂ کربلا میں موجود تھے ابو مخنف احمد بن ابراہیم حسنی سے منقول روایت کے مطابق اس وقت آپ کی عمر 19 یا 20 سال تھی۔ روز عاشورا آپ رضی اللہ عنہ نے بڑی بہادری کے ساتھ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی معیت میں جنگ کی اور زخمی ہو کر اسیر ہوئے۔ لیکن اپنے ماموں اسماء بن خارجہ فزاری کے توسط سے نجات پائی اور کوفہ میں ان کی زیر نگرانی آپ کا علاج ہوا۔ صحت یاب ہونے کے بعد مدینہ واپس آگئے۔

نقل حدیث:

حسن  مثنیٰ رضی اللہ عنہ اپنے والد حضرت امام حسن المجتبیٰ اور دوسرے افراد سے روایت نقل کرتے ہیں کہ حضرت سیدنا امام علی المرتضٰی کرم اللہ وجہہ کریم کی وصیت کے مطابق حسن مثنیٰ مدینے میں حضرت امام علی المرتضیٰ   موقوفات کے شرعی متولی تھے۔ حجاج بن یوسف ثقفی جب مدینے کا حاکم تھا تو اس نے حسن مثنیٰ  رضی اللہ عنہ سے تقاضا کیا کہ وہ اس کے چچا عمر بن علی کو ان موقوفات کی تولیت میں شریک قرار دے لیکن چونکہ یہ تولیت حضرت سیدہ فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہاکی اولاد سے مخصوص تھی اس لئے آپ نے انکار کیا اور شام میں عبد الملک بن مروان کے پاس گئے جہاں اموی خلیفہ نے بھی حجاج کو اس کام سے منع کیا۔امامزادہ سید حسن مثنیٰ رضی اللہ عنہ نے اپنے بعد ان موقوفاتِ کی تولیت اپنے فرزند امامزادہ سید عبد اللہ المحض رضی اللہ عنہ کے سپرد کی لیکن منصور عباسی نے امامزادہ سید عبدﷲ المحض رضی اللہ عنہ کو زندانی کر دیا اور ان موقوفات کی تولیت اپنے اختیار میں لے لی۔

عبد الرحمٰن بن محمد کی معاونت:

جب عبد الرحمٰن بن محمد بن اشعث کندی نے حجاج بن یوسف ثقفی کے خلاف علم بغاوت بلند کیا اور اپنے آپ کو خلیفہ نامزد کرنے کا ارادہ کیا تو چونکہ لوگ اس وقت خلافت صرف قریشی شخص کی نسبت قبول کرنے کو تیار تھے،اس نے اس کے متعلق علویوں کے بزرگوں حضرت امام سجاد رضی اللہ عنہ اور امامزادہ حسن مثنیٰ رضی اللہ عنہ سے خط و کتابت کی ۔ امام سجاد رضی اللہ عنہ نے اس کے اس تقاضے کو رد کر دیا اور امامزادہ حسن مثنیٰ رضی اللہ عنہ نے بھی حکومت کے خلاف بغاوت کرنے والوں کے بیعت توڑنے کے احتمال کی بنا پر اسے رد کیا لیکن عبد الرحمان بن محمد کے مسلسل اسرار کی بنا پر اسے قبول کر لیا اور اس کے ساتھ بعنوان خلیفہ انکی بیعت ہوئی ۔ عراق کے مشہور علماء عبدالرحمان بن‌ابی لیلی، شعبی، محمدبن سیرین و حسن بصری نے ان کی بیعت کی اور حسن مثنیٰ رضی اللہ عنہ الرضا کے نام سے ملقب ہوئے ۔

وصال پر ملال:

85 ہجری میں ابن اشعث کے قتل کے بعد امامزادہ سید حسن مثنی رضی اللہ عنہ مخفی ہو گئے لیکن آخرکار ولید بن عبد الملک بن مروان کے ساتھیوں نے انہیں زہر دے کر شہید کیا۔ آپ رضی اللہ عنہ کی شہادت ۱۷ رجب المرجب کو ہوا۔ صحیح بخاری میں روایت منقول ہے جس کی بنا پر سیدہ  فاطمہ صغری بنت امام حسین نے ان کے مزار پر قبہ کی تعمیر کروائی۔(صحیح بخاری، البدیہہ والنہایہ، انساب‌الاشراف، المصابیح، تاریخ مدینہ )

 

 

 

حضرت سیدنا ابوالفضل عباس رضی اللہ عنہ

 

آقا کریم(ﷺ) کے قرابت داروں میں جن لوگوں کے دلوں میں رب تعالیٰ کی بندگی کا ذوق راسخ ہوا انہوں نے محبتِ رسول (ﷺ) سے سرشار ہو کر ترک و توکل اختیار کرتے ہوئے دین اسلام کی نصرت میں بھرپور حصہ لیا۔آقا کریم (ﷺ) کی صحبت نے ان کو نئی فکر اور ایسے اصول و ضوابط سے آشنا کیا جس کے مطابق زندگی گزار کر وہ لوگ فقید المثال بن گئے ۔ ان شریف النسب و اعلیٰ حسب لوگوں میں خاتَم المہاجرین، حضرت سیدنا عباس بن عبدالمطلب کی ذاتِ اقدس ایک منفرد ونمایاں مقام رکھتی ہے۔آپ رضی اللہ عنہ سرور کائنات (ﷺ) کے عم بزرگوار (محبوب چچا ) ہیں۔ آپ رضی اللہ عنہ کا شمار جلیل القدر صحابہ کرام   میں ہوتا ہے ۔

اسم مبارک و کنیت:

آپ رضی اللہ عنہ  کا اسم گرامی عباس بن عبدالمُطلب بن ہاشم بن عبد مناف ہے۔آپ رضی اللہ عنہ  کی کنیت ابو الفضل ہے۔

ولادت باسعادت وبچپن:

حضرت عباس بن عبدالمطلب  رضی اللہ عنہ عام الفیل سے تین سال پہلے پیدا ہوئے ۔ آپ رضی اللہ عنہ آقا کریم (ﷺ) سے تین سال بڑے ہیں۔ مغیرہ بن ابی رزین فرماتے ہیں کہ:

’’حضرت عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا کہ آپ رضی اللہ عنہ بڑے ہیں یا حضور نبی کریم (ﷺ) ؟آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:عمر میری زیادہ ہے لیکن حضور نبی کریم (ﷺ) مجھ سے بڑے ہیں ۔آپ رضی اللہ عنہ کے بچپن کے بارے میں ایک روایت منقول ہےکہ:"حضرت عباس  رضی اللہ عنہ بچپن میں لاپتہ ہو گئے؛ آپ رضی اللہ عنہ کی والدہ ماجدہ"نتیلہ بنت جناب"نے منت مانی کہ انہیں حضرت عباس مل جائیں تو بیت اللہ شریف کو لباس پہنائیں گی۔ جب آپ رضی اللہ عنہ مل گئے تو آپ رضی اللہ عنہ کی والدہ نے نذر پوری کی۔ یوں آپ رضی اللہ عنہ کی والدہ ماجدہ وہ پہلی عربی خاتون ہیں جن کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ انہوں نے کعبۃ اللہ پر ریشمی پردے لٹکائے اور مختلف اقسام کے قیمتی کپڑوں (حریر و دیباج ) سے بیت اللہ شریف کو مزین کیا ‘‘۔

آپ رضی اللہ عنہ کی حیاتِ مبارکہ کے ابتدائی حالات :

آپ رضی اللہ عنہ دراز قد، سفید رنگ والے، بہت خوبصورت تھے۔ اللہ پاک نے آپ رضی اللہ عنہ  کو حسن و جمال سے نوازا تھا یہی وجہ ہے کہ اہل قریش نے آپ رضی اللہ عنہ کے علم، شجاعت، سخاوت، سیادت اور خاندانی صلہ رحمی دیکھ کر آپ رضی اللہ عنہ کو بیت اللہ شریف کا محافظ منتخب کیا ۔ جیسا کہ ابو عمر یوسف بن عبداللہ القرطبی  رقم طراز ہیں کہ:

’’ حضرت عباس مکہ کے سردار اور بہت بڑے رئیس تھے۔ آپ رضی اللہ عنہ کی اطاعت کی جاتی تھی مسجد حرام کی تعمیر اور آب زم زم کے پلانے کا اہتمام آپ رضی اللہ عنہ کے سپرد تھا۔بیت اللہ شریف کی تعمیر اس لیے آپ رضی اللہ عنہ کے سپرد ہوئی کیونکہ آپ اخلاق حسنہ کے مالک تھے اور کعبۃ اللہ کی حرمت کا اس قدر پاس تھا کہ تعمیر کے وقت فضول گفتگو نہ فرماتے تھے۔ نیز آپ رضی اللہ عنہ کے احسن نظم کو دیکھ کر قریش نے اس بات پر اتفاق کر لیا کہ یہ کام صرف حضرت عباس ہی سر انجام دیں گے اور قریش آپ رضی اللہ عنہ کے معاون و مددگار ہوں گے‘‘۔

قبول اسلام:

بلاشبہ تاجدارِ انبیاء (ﷺ) کے معجزات کا اظہار تخلیقِ کائنات سے پہلے ہی شروع ہوگیا تھا اور ہر دور میں آپ (ﷺ) کا نورنبوت اپنی تابانیاں دیکھاتارہا،اس لیے اللہ پاک نے اہل کتاب کے بارے میں ارشادفرمایا کہ وہ اس نبی (ﷺ) کو ایسا پہچانتے ہیں جیسے آدمی اپنے بیٹوں کو پہچانتا ہے۔

اسی طرح مکہ والوں پہ بھی آپ (ﷺ) کے اوصافِ حمیدہ کسی طرح بھی مخفی نہ تھے۔ امام بیہقی نے روایت فرمایا کہ حضرت سیدنا  عباس  رضی اللہ عنہ   عرض کرتے ہیں: یا رسول اللہ!(ﷺ) مجھے تو آپ (ﷺ) کی نبوت کی نشانیوں نے آپ (ﷺ) کے دین میں داخل ہونے کی دعوت دی تھی۔مَیں نے دیکھا کہ آپ (ﷺ) بچپن میں گہوارے میں چاند سے باتیں فرماتے اور اپنی انگلی سے اس کی طرف اشارہ فرماتے اور جس طرف اشارہ فرماتے چاند اسی طرف جھک جاتا تھا۔ حضور نبی کریم (ﷺ) نے فرمایا میں چاند سے باتیں کرتا تھا اور چاند مجھ سے باتیں کرتا تھا اور وہ مجھے رونے سے بہلاتا تھا اور اس کے عرش الٰہی کے نیچے سجدہ کرتے وقت میں اس کی تسبیح کرنے کی آوازکو سنا کرتا تھا۔

آپ رضی اللہ عنہ کے باقاعدہ اظہارِ اسلام کے بارے میں امام شمس الدين محمد بن احمد ذہبی فرماتے ہیں کہ:

’’جب حضرت سیدنا  عباس  رضی اللہ عنہ   سے فدیے کا مطالبہ کیا گیا تو آپ رضی اللہ عنہ نے عرض کی میرے پاس تو کوئی رقم نہیں حضور نبی کریم (ﷺ) نے ارشاد فرمایا کہ چچا! وہ مال کہاں ہے جو مکہ میں (جنگ کے لیے روانہ ہوتے وقت ) چچی اُم فضل کو دے آئے ہو ( اس میں سے فدیے کی رقم ادا کر دو) ۔آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: قسم ہے اس ذات پاک کی جس نے آپ (ﷺ) کو حق کے ساتھ بھیجا ہے اس کے علاوہ لوگوں میں سے کسی ایک کو بھی اس بات کا علم نہیں تھا اور بے شک میں ضرور جانتا ہوں کہ آپ (ﷺ) اللہ تعالیٰ کے رسول (ﷺ)ہیں ‘‘۔

فضائل ومناقب:

آقا کریم (ﷺ) نے حضرت سیدنا  عباس  رضی اللہ عنہ   کے فضائل و مناقب میں کثیر ارشادات فرمائے جن میں آپؓ کو بشارتوں اور دعاؤں سے نوازا ہے ۔ان میں کچھ فرامین مبارکہ پیش کرتے ہیں :

1۔ حضرت سیدنا  عباس  رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) نے ارشادفرمایا:

’’عباس مجھ سے ہیں اور میں عباس سے ہوں‘‘۔

2۔حضرت عباس بن عبدالمطلب سےمروی ہے کہ میں نے بارگاہ رسالت میں عرض کی:

’’یا رسول اللہ(ﷺ)! جب قریش آپس میں ملتے ہیں تو حسین مسکراتے چہروں سے ملتے ہیں اور جب ہم سے ملتے ہیں تو ایسے چہروں سے ملتے ہیں جنہیں ہم نہیں جانتے (یعنی بیزاری کا اظہار کرتے ہیں )حضرت عباس ؓ فرماتے ہیں:حضور نبی کریم (ﷺ) یہ سن کر شدید جلال میں آگئے اور ارشادفرمایا:اس ذات کی قسم! جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے کسی بھی شخص کےدل میں اس وقت تک ایمان داخل نہیں ہو سکتا جب تک اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول (ﷺ) اور میری قرابت کی خاطر آپ سے محبت نہ کرے ‘‘۔

3۔حضرت عبداللہ بن حضرت سیدنا  عباس  رضی اللہ عنہ   فرماتے ہیں کہ :

’’رسول اللہ (ﷺ) حضرت سیدنا  عباس  رضی اللہ عنہ   کا احترام ایسے کیا کرتے تھے جیسے کوئی بیٹا اپنے باپ کا احترام کرتا ہے۔ حضور نبی کریم (ﷺ) ان کو یہ تخصیص اس لیے دیا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو لوگوں میں سے خاص کیا تھا‘‘۔

4۔حضرت ابو رافعؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) نے حضرت سیدنا  عباس  رضی اللہ عنہ   سے ارشاد فرمایا :

’’اے ابو الفضل آپ کو اللہ تعالیٰ کی اتنی رحمتیں ملیں گی حتٰی کہ آپ راضی ہو جائیں گے‘‘۔

5۔حضرت ابو ہریرہ  فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) باہر تشریف لے گئے آپ (ﷺ) حضرت سیدنا  عباس  رضی اللہ عنہ   سے ملے اور ارشاد فرمایا:’’کیا میں آپ کو خوشخبری نہ سناؤں، آپ رضی اللہ عنہ نے عرض کی ہاں کیوں نہیں! رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا: بے شک اللہ تعالیٰ نے مجھ سے اس کام (حکومت و سلطنت )کی ابتدا فرمائی اور آپ کی اولاد پر اس کو ختم فرمائے گا‘‘۔

آقا کریم (سے آپ رضی اللہ عنہ کا اظہارِ عقیدت:

حضور نبی کریم (ﷺ) سے آپ رضی اللہ عنہ کے تعلق و نسبت کے بے شمار واقعات کتب احادیث میں مذکور ہیں یہاں صرف ایک روایت رقم کرنے کی سعادت حاصل کرتے ہیں۔ خریم بن اوس بن حارثہ بن لام رضی اللہ عنہ  فرماتے ہیں:

’’ رسول اللہ (ﷺ) جب تبوک سے واپس لوٹے میں آپ (ﷺ) کی بارگاہ میں حاضر ہوا اور اسلام لے آیا، میں نے سنا کہ حضرت عباس بن عبد المطلب رضی اللہ عنہ  کہہ رہے تھے:یا رسول اللہ (ﷺ) میں آپ (ﷺ) کی تعریف کرنا چاہتا ہوں، رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا اللہ تعالیٰ تمہارے منہ کو کبھی خالی نہ کرے ( یعنی آپ (ﷺ)نے اجازت فرمائی  ‘‘۔

پھر آپ رضی اللہ عنہ  نے حضور نبی کریم (ﷺ) کی شان میں اشعار پڑھے ۔

تنقل من صالب الٰی رحم

اذا مضٰی عالم بدا طبق

’’آپ (ﷺ )پاک پشتوں سے پاک رحموں میں منتقل ہوتے رہے زمانہ گزرتا رہا اور صدیا ں بیت گئیں‘‘۔

حتٰی احتوٰی بیتک المھیمن من
خندف علیاء تحتھا النطق

’’آپ (ﷺ ) کی شرافت جو کہ آپ کے فضل وکمال پر شاہد ہے بڑے بڑے خاندانوں پر غالب آ گئی کہ باقی تمام خاندان اس بلند مرتبہ کے نیچے ہیں‘‘۔

و انت لما و لدت اشرقت الارض
 و ضاءت بنورک الافق

’’جب آپ( ﷺ) کی ولادت با سعادت ہوئی تو زمین روشن ہو گئی اور آپ(ﷺ ) کے نور سے آسمان چمک اٹھا‘‘۔

فنحن فی ذٰ لک الضیاء و فی النور
و سبل الرشاد نخترق

’’ہم اسی نور اور اس کی روشنی میں نیکی کے راستوں میں چلتے ہیں‘‘۔(المستدرک الحاکم، باب:ذکر اسلام العباس)

علمی و فقہی مقام :

حافظ صفی الدین احمد بن عبدا للہ الخزرجی  علیہ الرحمہ لکھتے ہیں کہ:حضرت عباس بن عبد المطلب رضی اللہ عنہ  سے 35 احادیث مروی ہیں جن میں سے ایک حدیث پر امام بخاری و امام مسلم متفق ہیں؛ اور امام بخاری ایک حدیث کے ساتھ اور امام مسلم تین حدیثوں کے ساتھ منفرد ہیں۔

صحابہ کرام کی نظر میں حضرت عباس  رضی اللہ عنہ کا مقام :

صحابہ کرام آپ رضی اللہ عنہ کا بے حد ادب و احترام کرتے اور اپنی ذات پر آپ رضی اللہ عنہ کو فضیلت دیتے تھے ۔بوجہ اختصار ذیل میں صرف دو روایات پر اکتفاء کرتے ہیں:

ابن ابی الزِنادفرماتے ہیں کہ:’’جب حضرت عباس رضی اللہ عنہ  حضرت عمر رضی اللہ عنہ  اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ  کے پاس سے گزرتے تو وہ (دونوں) اپنی سواری سے نیچے اتر آتے یہاں تک کہ آپ رضی اللہ عنہ ان کے پاس سے گزر جاتے اس حال میں کہ آپ (دونوں) رسول اللہ (ﷺ) کے چچا کی تعظیم کرتے‘‘۔ 

عز الدین ابن الاثیرلکھتے ہیں کہ:’’صحابہ کرام حضرت عباس رضی اللہ عنہ  کو آپ رضی اللہ عنہ  کی فضیلت کی وجہ سے پہچانتے، ہمیشہ مقدم رکھتے، مشورہ فرماتے اور آپ رضی اللہ عنہ سے رائے لیتے تھے ‘‘۔ 

حضرت عباس رضی اللہ عنہ  کے وسیلے سے بارانِ رحمت ہوئی :

’’صحیح بخاری‘‘میں حضرت انس بن مالک سے روایت ہے کہ: ’’جب لوگوں پہ قحط پڑا تو حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ  نے حضرت عباس بن عبد المطلب رضی اللہ عنہ  کے وسیلے سے بارش طلب فرمائی اور آپ رضی اللہ عنہ نے عرض کی: اے اللہ بے شک ہم تیر ی بارگاہ ِ اقدس میں اپنے نبی مکرم (ﷺ) کا وسیلہ پیش کرتے  تھے پس تُو ہم پر بارش نازل فرماتا تھا اور اب ہم تیر ی طرف اپنے نبی پاک (ﷺ) کے چچا کا وسیلہ پیش کرتے ہیں سو تو ہم پر بارش نازل فرما، راوی فرماتے پھران پر بارش نازل ہوتی ‘‘۔

مزید روایات مبارکہ میں: ’’جب حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے بھی بارش کے لیے دعا فرمائی تو اسی وقت اس قدر بارش ہوئی کہ لوگ گھٹنوں گھٹنوں تک پانی میں چلتے ہوئے اپنے گھروں میں واپس آئے اور لوگ (جذبہ عقیدت اور جوش مسرت) سے آپ رضی اللہ عنہ کی چادر مبارک کو چومنے لگے اور کچھ لوگ آپ رضی اللہ عنہ کے جسم مبارک پر اپنا ہاتھ پھیرنے لگے‘‘۔

امام بخاری روایت فرماتے ہیں کہ حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ نے جو بارگاہِ رسالت مآب (ﷺ) کے منظورِ نظر شاعر تھے اس واقعہ کا ذکر اپنے اشعار میں یوں فرماتے ہیں:

سئل الامام و قد تتابع جدتنا
 فسقٰی الغمام بغرۃ العباس
 احیی الا لہ بہ البلاد فاصب
 مخضرۃ الاجناب بعد الیاس

’’امیر المؤمنین نے اس حالت میں دعا مانگی کہ لگاتار کئی سال سے قحط پڑا ہوا تھا تو بادل نے حضرت  عباس رضی اللہ عنہ کی روشن پیشانی کے طفیل میں سب کو سیراب کر دیا۔ معبود برحق نے اس بارش سے تمام شہروں کو زندگی عطا فرمائی اور نا امیدی کے بعد تمام شہروں کے اطراف ہرے بھرے ہو گئے‘‘۔

ایمان افروز واقعہ:

عبد الرحمٰن بن زید بن اسلم اپنے والد سے وہ ان کے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ: ’’حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے حضرت عباس بن عبد المطلب رضی اللہ عنہ سے  کہا کہ رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا: ہم مسجد کی توسیع کرنا چاہتے ہیں اور آپ رضی اللہ عنہ کا گھر مسجد کے قریب ہے ۔اس لیے آپ رضی اللہ عنہ اپنا گھر ہمیں دے دیجیے ہم مسجد کی توسیع میں اس کو شامل کر لیں گے اور اس کے بدلے میں آپ رضی اللہ عنہ کو اس سے بھی زیادہ وسیع گھر دیتے ہیں۔ حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے منع کر دیا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: (اگر آپ نے رضا مندی کے ساتھ یہ مکان ہمیں نہ دیا تو ) ہم آپ سےیہ مکان لے لیں گے۔حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا:آپ کو یہ حق نہیں پہنچتا، یہ لوگ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور ان کو پورا معاملہ سنایا۔حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اس سلسلے میں میرے پاس ایک حدیث موجود ہے ۔انہوں نے پوچھا : وہ کیا ؟

 حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: جب حضرت داؤد  علیہ السلام نے بیت المقدس کی توسیع کرنا چاہی اور مسجد کے قریب جو مکان تھا وہ ایک یتیم کا تھا۔ حضرت داؤد علیہ السلام نے وہ مکان مانگا لیکن اس نے دینے سے انکار کر دیا، حضرت داؤد علیہ السلام اس سے وہ مکان لینا چاہتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے وحی نازل فرمائی کہ میرے گھر کو دوسروں کے گھروں پر ناانصافی سے بچایا جائے تو حضرت داؤد علیہ السلام نے وہ ارادہ ترک فرما دیا۔

حضرت عباس رضی اللہ عنہ  نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کہا: کیا اب بھی کوئی بات باقی رہ گئی ہے؟

حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا:نہیں۔

راوی کہتے ہیں: پھر حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ مسجد میں آئے، حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے پرنالے کا رخ مسجد نبوی (ﷺ) کی جانب تھا اور بارش کا پانی اس کے ذریعے مسجد میں گرتا تھا ۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے وہ پرنالہ اکھیڑ ڈالا اور کہا کہ یہ پرنالہ رسول اللہ (ﷺ) کی مسجد میں نہیں گر سکتا۔

حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کہا اس ذات کی قسم جس نے سیدنا محمد (ﷺ) کو حق کے ساتھ بھیجا ہے حضور نبی کریم (ﷺ) نے بذات خود یہ پرنالہ اسی مقام پر رکھا تھا اور اے عمر آپ نے (رسول اللہ (ﷺ) کا لگایا ہوا پرنالہ) اکھیڑ دیا ہے ۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا اب آپ رضی اللہ عنہ اپنے پاؤں میری گردن پر رکھ کر چڑھ جائیے اور یہ پرنالہ جہاں پر تھا وہاں لگا دیجیے۔

حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے ایسا ہی کیا پھر فرمایا میں نے یہ مکان آپ کو دیا۔

آپ مسجد نبوی (ﷺ) شریف کی توسیع کر لیں تب حضرت عمر  رضی اللہ عنہ نے ان کا مکان مسجد میں شامل کر لیا اور آپ رضی اللہ عنہ کو اس کے بدلے مقام زوراء پہ ایک وسیع و عریض مکان دیا‘‘۔ اس واقعہ کے بنظر غائر مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کرام کس قدر حضورنبی کریم(ﷺ) کی ذات بابرکات سے والہانہ محبت وعشق کرتے تھے اوران کے قلوب و اذہان میں کس قدر آپ (ﷺ) کے فرامین مبارکہ کا پاس و لحاظ تھا کہ حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ  باوجود امیرالمؤمنین ہونے کے جب آپ رضی اللہ عنہ کو ایک حدیث مبارک کاحوالہ پیش کیا جاتا ہے تو وہ اپنا فیصلہ واپس لے لیتے ہیں اور پرنالہ اکھیڑنے کے بعد معلوم ہوتاہے کہ اس کو تو میرے لجپال آقا (ﷺ)نے اپنے دستِ اقدس سے نصب فرمایاتھاتو حضرت عباس کو اپنے کندھوں پہ سوار کرکے دوبارہ اسی جگہ پہ لگواتے ہیں جہاں تاجدارِ مدینہ، سرور انبیاء (ﷺ) نے نصب فرمایاتھا۔

ازواج و اولاد :

آپ رضی اللہ عنہ کی ازواج میں’’حضرت اُم فضل ’’لبابہ بنت حارث ‘‘ اور ’’حجیلہ بنت جندب ‘‘ شامل ہیں ۔ 

بیٹیوں کےعلاوہ آپ  رضی اللہ عنہ کے دس بیٹے تھے جن میں حارث، عبداللہ، عبیداللہ، عبدالرحمٰن، عون، فضل، قثم، کثیر اورمعبدشامل ہیں ۔ 

وصال باکمال نماز جنازہ او رمزار پرانوار:

’’علی بن عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے اپنے وصال کے وقت 70 غلام آزاد کیے۔ آپ رضی اللہ عنہ نے مدینہ منورہ میں جمعہ کے روز 88 سال کی عمر میں 12رجب 32ہجری  کو وصال مبارک فرمایا ۔ امیر المؤمنین سیدنا حضرت عثمان غنی نے آپ رضی اللہ عنہ کی نماز جنازہ پڑھائی اور آپ رضی اللہ عنہ کا مزار پر انوار جنت البقیع مدینہ منورہ میں مرجع خلائق ہے ۔ (صفۃ الصفوۃ،مصنف ابن ابی شیبہ، فتح الباری لابن حجر،مرقاۃ المفاتیح ،البدایہ و النھایہ، الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب )