محسن کشمیرحضرت میر سید علی ہمدانی قد س سرہ


کاشف اسرار ربانی واقف رازہائے نہانی حضرت میر سید علی ہمدانی قدس سرہ کا شمار ان اکابرین طریقت میں ہوتا ہے جوعلم ظاہری و باطنی دونوں کے جامع تھے ۔

ولادت باسعادت:

آپ علیہ الرحمہ 12 رجب 714 ھ بمطابق 12 اکتوبر 1314ء کو ایران کے شہر ہمدان میں پیداہوئے۔ اسی لئے آپ کا نام کے ساتھ ہمدانی لکھا جاتا ہے۔

حضور صلی االلہ علیہ وسلم کی پیشن گوئی:

آپ علیہ الرحمہ  کی ولادت کی پیشن گوئی حضور صلی االلہ علیہ وسلم نے ان مبارک الفاظ میں فرمائی ۔ ” یعنی میری ہجرت کے بعد سات سو تیرہ سال گزر کر وہ ستارہ عراق کے شہر ہمدان میں طلوع کرے گا ۔ حضرت شاہ ہمدان  علیہ الرحمہ کے بارے میں حضرت امام ابو حامد محمد الغزالی نے یوں فرمایا ” کہ حضرت میر سید علی ہمدانی علیہ الرحمہ کا جھنڈا یعنی علم تمام بڑے بڑے اولیاء اللہ کے جھنڈوں سے اونچا ہو گا۔ حضرت شیخ ابو سید حبشی علیہ الرحمہ اپنے وقت کے بہت بڑے متقی اور ولی کامل تھے ۔ آپ نے بڑی لمبی عمر پائی اور اپنی زندگی میں بڑے بڑے بزرگان دین کی بھی زیارت کی ۔

روایات میں ہے کہ آپ کے پاس نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا خرقہ مبارک تھا جس کو آپ اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز رکھتے تھے ۔ بوڑھاپے میں وہ دن رات اسی فکر میں رہتے تھے کہ اپنے انتقال سے پہلے میں یہ خرقہ مبارک کس کے حوالے کردوں ؟

 آخر کار آپ علیہ الرحمہ نے اس سلسلہ میں اپنے خالق اللہ سے رہنمائی کی دعا کی جو بعد میں قبول ہوئی اور حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آپ کو خواب میں جلوہ گر ہوئے۔

 تو فرمایا:ہمارا فرزند ہجرت کے ٧١٣ سال گزر جانے کے بعد تولد ہوگا ۔ یہ خرقہ انہی کے حوالے کر دینا ۔

 ابو سید حبشی علیہ الرحمہ نے عرض کیا : آپ کا وہ فرزند کہاں تولد ہوگا ؟

 فرمایا: عراق کے شہر ہمدان میں اور اس کا نام سید علی ہمدانی ہو گا۔

 چنانچہ ١٢ ماہ رجب المرجب ٧١٤ہجری  کو حضرت امیر کبیر میر سید علی ہمدانی علیہ الرحمہ دنیا میں تشریف لائے ۔ چند سال بعد ہی شیخ ابو سید حبشی علیہ الرحمہ نے وہ خرقہ مبارک آپ کے حوالے کر دیا ۔

شیخ نظام الدین نوری الخراسانی علیہ الرحمہ نے حضرت شاہ ہمدان  علیہ الرحمہ کے شب تولد دیکھا کہ حضرت خضر علیہ السلام اور حضرت الیاس علیہ السلام نہایت ہی خوبصورت ملبوسات ہاتھوں میں لئےسید شہاب الدین کے گھر جارہے ہیں اور فرماتے ہیں کہ ‘ آج رات سید شہاب الدین کے گھر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک فرزند بلند مرتبت تولد ہوگا ہم‌ یہ کپڑے لےکر وہیں جا رہے ہیں’ ۔

حضرت علاؤ الدین سمنانی  علیہ الرحمہ حضرت امیر کبیر کے تولد ہوتے ہی فرماتے ہیں کہ ہمارے گھر آج جو فرزند تولد ہوا ہے وہ حسبی اور نسبی فرزند نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہے اور جو نبی کریم کے نقش قدم پر چلے گا اور اسلام کا نور مشرق و مغرب میں پھیلائے گا ۔

ابتدائی تعلیم:

ابتدائی تعلیم اپنے خالوسید علاؤ الدین  علیہ الرحمہ اور اس وقت کے بزرگ شرف الدین مزدقانی  علیہ الرحمہ سے حاصل کی۔

میر سید علی ہمدانی بن شہاب الدین بن محمد الہمدانی علیہ الرحمہ علوم باطنی و ظاہر ی کے جامع گزرے ہیں آپ شیخ شرف الدین محمود بن عبداللہ المزوقانی کے مرید ہیں اور وہ شیخ علاؤ الدولہ سمنانی کے مرید ہیں اور وہ مرید شیخ نورالدین عبدالرحمن کے وہ مرید ہیں شیخ احمد خرقانی کے جو شیخ لالاکے مرید ہیں ۔(حوالہ: لطائف اشرفی لطیفہ 15 صفحہ 587)

آپ جب اپنے پیرو مرشد شرف الدین مزدقانی علیہ الرحمہ کے پاس آئے چونکہ آپ حاکم ہمدان کے بیٹے تھے تو مرشد نے کہا اگر آپ بحیثیت آقا آئے ہیں تو میں خدمت کرنے کو تیار ہوں اور اگر بحیثیت خادم آئے ہیں تو پھر اس خانقاہ کے خاکروب کی حیثیت وقف کر دیں آپ کو مرشد نے دنیا کی سیر اور مختلف اولیاء سے فیض حاصل کرنے کی اجازت مرحمت فرمائی۔

آپ علیہ الرحمہ نے اپنے شیخ کی اجازت سے تین مرتبہ ساری دنیا کی سیر کی اور ایک ہزار چارسو اولیا ء اللہ کی صحبت حاصل کی چار سو اولیا ء اللہ کوایک مجلس میں دیکھا اور سب مشائخ سے کسب فیض کیا ۔جیساکہ غوث العالم محبوب یزدانی سید اشرف جہانگیر سمنانی قدس سرہ النورانی فرماتے ہیں کہ سید علی ہمدانی علم ظاہری و باطنی کے جامع تھے شیخ شرف الدین محمود سےانہوں نے پوچھا کیا حکم ہے انہوں نے مراقبہ کیا اور اس کے بعد فرمایا حکم یہ ہے کہ دنیا کا سفر کرو۔ تین بار انہوں نے دنیا کا سفر کیا اور ایک بار آفتاب کی طرح زمین کر گرد گھومے یہ فقیر اشرف ان کی رکاب میں ذرہ کی طرح گھومتا رہا اور سلوک کے بہت سے فائدے حضرت سید سے حاصل کئے اگر جسم کا ہربال زبان ہوجائے اور ان کے احسانات کا شکریہ اداکرے تو ہزار بال بھی ان کے ایک احسان کا شکریہ ادا نہ کرسکیں۔حوالہ: لطائف اشرفی حصہ اول فارسی 54)

ایک مرتبہ سید علی ہمدانی علیہ الرحمہ نے غوث العالم محبوب یزدانی سید اشرف جہانگیر سمنانی علیہ الرحمہ  سے فرمایا میں نے ایک ہزار چار سو اولیاء اللہ کی صحبت دریافت کی اور ہر ایک سےمیں نے فائدہ اٹھایا ان فوائد میں فرزند اشرف ! تمہارا بھی حصہ ہے۔ اس ارشادسے پتہ چلتا ہے کہ آپ نے غوث العالم محبوب یزدانی سید اشرف جہانگیر سمنانی  السامانی علیہ الرحمہ پر بھر پور توجہ دی اور انہیں روحانیت سے وافر حصہ عطافرمایا۔

کشمیر میں تبلیغ اسلام

سید علی ہمدانی قدس سرہ النورانی نے پوری دنیا کا سفر کیا اور اس دوران تبلیغ کا سلسلہ جاری رکھا بطورخاص آپ نے جس علاقے کواپنے تبلیغ کا مرکز بنایا وہ شہر کشمیر ہے آپ کے آنے سے قبل کشمیر کی حالات بہت ابتر تھی یہاں کفر کی تاریکی پھیلی ہوئی تھی ۔ لوگ اسلام سے دور تھے اور جہالت کے اندھیروں میں بھٹک رہے تھے۔ان کے نام اسلامی تھے لیکن کام کافروں جیسے تھے ۔لیکن کشمیر میں آج جو اسلام نظر آرہا ہے وہ آپ ہی کی کوشش اور تبلیغ خدمات کا نتیجہ ہے اگرچہ کشمیر میں بہت سارے بزرگان دین نے تبلیغ فرمائی لیکن اس سلسلے میں اولیت میر سید علی ہمدانی  قدس سرہ النورانی کو ہی حاصل ہےکیونکہ مؤرخین کے مطابق تبلیغ اسلام کی غرض سے کشمیر میں داخل ہونے والے پہلے بزرگ ہیں۔

تصنیف و تالیف:

آپ علیہ الرحمہ  ایک درویش، صوفی اور مبلغ اسلام ہونے کیساتھ مصنف بھی تھے۔ آپ نے عربی اور فارسی میں تقریباَ 1000کے آس پاس کتابچے لکھے۔ "تحائف الابرار" میں آپ کی تصنیف کردہ کتب کی تعداد ایک سو ستر 170 بیان کی گئی ہے۔ ان میں سے کئی کتب برصغیر پاک و ہند پر مغلیہ دورحکومت میں شامل درس رہی ہیں۔ تقریباً ستر70 کتب موجود ہیں جبکہ باقی نایاب ہیں، بہت سی کتب کے قلمی نسخے، برٹش میوزیم لندن، انڈیا آفس لائبریری، ویانا، برلن، پیرس، تہران، تاشقند، تاجکستان، پنجاب یونیورسٹی لائبریری، بہاولپور، ایشیاٹک سوسائٹی بنگال، میسور اور بانکی پورہ انڈیا میں موجود ہیں۔ جن میں آپ کی مشہور کتاب 'ذخیرۃ الملوک' کے کئی زبانوں میں ترجمے بھی ہو چکے ہیں۔ کچھ دوسری مشہور تحریریں ذیل میں دی گئی ہیں:

ذخیرۃ الملوک، رسالہ نوریہ،رسالہ مکتوبات،در معرفت صورت و سیرت انسان، در حقائق توبہ، رسالۃ الاصطلاحات،حل النصوص عل الفصوص، علم الکیفیہ ،اوراد الفتیحہ،اسرار النقطہ شرح اسماء اللہ ،شرح فصوص الحکم ،شرح قصیدہ خمریہ فارضیہ،مشارب الاذواق، اوراد فتحیہ شریف،سر الطالبین ،ذکریہ،مجموعہ مکاتیب ،عقلیہ، داؤدیہ (اداب سیر اہل کمال)،بہرام شاہیہ ،موچلکہ ،واردات امیریہ ،دو قاعدہ ،ہمدانیہ ،مقامیہ ،اعتقادیہ ،چہل مقام صوفیہ، مصطلعات صوفیہ ،رسالہ عقبات ،مشیت ،حقیقت ایمان،مشکل حل،سیر و سلوک،حل الفصوص ،فقریہ،درویشہ،آداب مریدین ،انسان نامہ ،رسالہ نوریہ درعبادات،تلقیہ،آداب سفر ،حقیقت نور ،طائفہ ہائے مردم،اسناد حلیہ مبارک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ،اقرب الطریق اذلم یوجد الرقیق ،قنوت نامہ ،معاش السالکین ،فی السواد اللیل ولبس الاسود ،منہاج العارفین، سوالات، مرادات دیوان حافظ، شرح اسماء الحسنی ، اسرار النقطہ ، منازل السالكين في فضل الفقر و بيان حالات الفقراء، فی علماء الدين، صفۃ الفقراء، (ذکر یہ صغری ) ، الانسان كامل، طالقانیۃ، الناسخ والمنسوخ فی القرآن المجيد، تفسیر حروف العجم ، فی الخواص اہل باطن، روضۃالفردوس، اربعین الامیریہ، خطبہ الامیرید، خواطریہ، اسرار وحی، سلسلہ نامہ، کشف الحقائق  اس کے علاوہ آپ علیہ الرحمہ  اکتالیس غزلیں بھی کہیں ہیں جن کا نام چہل اسرار رکھا، المودة فی القربی، الاربعين فی فضائل امیر المومنین علی واہل بیت، السبعين  وغیرہ ۔

وصال مبارک:

آپ علیہ الرحمہ کے وصال کے متعلق صاحب مراہ الاسرار فرماتے ہیں کہ آپ زیارت بیت اللہ شرفاو تعظیما کے لے روانہ ہوئے راستے میں 6 ذی الحجہ 786 کو وفات پائی وہاں سے آپ کے مریدین جسم اطہر کو ختلان لے گئے ۔ آپ کا مزار ختلان میں قبلہ حاجات ہے۔

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

آفتاب سلسلئہ عالیہ سہروردیہ حضرت سیدمخدوم جہانیاں جہاں گشت سہروردی علیہ الرحمہ کے قول مبارک کے مطابق

  حضرت شیخ الشیوخ سیدنا الشیخ ابوحفص شہاب الدین  عمر سہروردی علیہ الرحمہ کے خلفاۓکرام کی تعداد700 سے

    زائد ہے جنہوں نے سلسلئہ عالیہ سہروردیہ کی ترویج و اشاعت میں ایک اہم کردار ادا کیا اور چہار دانگ عالم میں اسلام کی نورانی شعاؤں کو روشن کیا۔برصغیر ( ہند و پاک ) کےعلاوہ چند اکابرخلفاۓکرام کے اسماۓگرامی درج ذیل ہیں

=====================================

 مؤرخ عراق حضرت ابوعبداللہ محمدبن سیعد یحیٰ الدبیثی

                          سہروردی علیہ الرحمہ

 

   محدث شام حضرت ابو عبداللہ محمد بن یوسف البرزائی

                          سہروردی علیہ الرحمہ

 

   مؤرخ عصر حضرت محمد بن محمود ابن بخاری بغدادی

                          سہروردی علیہ الرحمہ

 

محدث عصر حضرت قطب الدین محمد بن احمد بن قسطائی

                          سہروردی علیہ الرحمہ

 

 محدث عراق حضرت ابن نقطہ ابوبکر محمد بن عبدالغنی

                     بغدادی سہروردی علیہ الرحمہ

 

حضرت شیخ نجیب الدین بن علی برغش شیرازی سہروردی

                                 علیہ الرحمہ

 

حضرت علامہ قطب الدین قسطلانی سہروردی علیہ الرحمہ

 

حضرت ظہیرالدین محمود بن عبداللہ سہروردی علیہ الرحمہ

 

       حضرت شیخ محمد الیمنی سہروردی علیہ الرحمہ

 

سلطان العارفین حضرت سیدمحمد شجاع مشہدی سہروردی

                                 علیہ الرحمہ

 

 حضرت شیخ ظہیرالدین عبدالرحمٰن سہروردی علیہ الرحمہ

 

  حضرت شیخ شمس الدین صفی الدین سہروردی رحمہ اللہ

 

   حضرت شیخ تاج الدین اصفہانی سہروردی علیہ الرحمہ

 

   حضرت شیخ امین الدین گازرونی سہروردی علیہ الرحمہ

 

     حضرت شیخ شرف الدین سعدی شیرازی سہروردی

                              علیہ الرحمہ

 

      خلاق المعانی حضرت کمال الدین اسماعیل اصفہانی

                          سہروری علیہ الرحمہ

 

     حضرت شیخ محمود تستری سہروردی علیہ الرحمہ

 

   حضرت شیخ جمال الدین مطری سہروردی علیہ الرحمہ

 

   حضرت شیخ نجم الدین تفلیسی سہروردی علیہ الرحمہ

 

حضرت شیخ عمادالدین ابوطاہرعبدالسلام شیرازی سہروردی

                                علیہ الرحمہ

   حضرت شیخ سراج الدین حسین بن عبدالسلام عزالدین

          مودود زرکوب شیرازی سہروردی علیہ الرحمہ

 

مفتئ اعظم مصر حضرت عز بن عبدالسلام مصری سہروردی

                                  علیہ الرحمہ

 

   حضرت مخدوم نظام الدین غزنوی سہروردی علیہ الرحمہ 

 

  حضرت شیخ شمس الدین ثمرقندی سہروردی علیہ الرحمہ

 

    حضرت شیخ عبدالغنی بغدادی سہروردی علیہ الرحمہ

 

       حضرت شیخ احمد یوسف سہروردی علیہ الرحمہ

 

        حضرت شیخ رشید الدین سہروردی علیہ الرحمہ

 

حضرت شیخ صفی الدین علی بن رشید سہروردی رحمہ اللہ

 

    حضرت شیخ نصیرالدین بغدادی سہروردی علیہ الرحمہ

=====================================

                 ( نفحات سہروردیہ , شہاب معرفت )

=====================================

طالب دعا: آستانئہ عالیہ غوثیہ سہروردیہ داہود شریف

 

حضرت سید مخدوم جہانیاں جہاں گشت سہروردی علیہ الرحمہ

 

اسم گرامی : سید جلال الدین بخاری ،

کنیت: ابوعبداللہ،

 لقب :جہانیاں جہاں گشت، سیاح عالم

آپ علیہ الرحمہ کی باسعادت 14 شعبان المعظم 707 ہجری بروز جمعرات مدینۃ السادات اوچ شریف میں سید احمد کبیر کے گھر پر ہوئی ۔ آپ کی جبین مبارک سے سعادت مندی اور رشدوہدایت کے آثار واضح تھے۔ حضرت محبوب یزدانی سلطان سیداشرف جہانگیرسمنانی رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ آپ کی پیدائش کے بعد آپ  کے والد گرامی آپ کو جمال الدین خنداں علیہ الرحمہ کی خدمت میں لے گئے اور ان کے قدموں میں ڈال دیا ۔ حضرت جمال الدین خندہ نے فرمایا کہ اس فرزند کی عظمت و بزرگی دنیا میں ایسی ہوگی جیسے آج کی شب (شب برات کی ہے۔ (یادگار سہروریہ 206)

آپ  رحمۃ اللہ علیہ (متوفی 785 ہجری) المعروف "مخدوم جہانیاں جہاں گشت" اکابر اولیا ء میں سے تھے ۔ ریاضت ومجاہدہ اور بزرگان دین سے کسب فیض میں اپنے معاصرین میں منفرد مقام رکھتے تھے کیونکہ کثیرتعداد میں بزرگوں سے فیض حاصل کیا تھا آپ کا نام سید جلال الدین بخاری اور لقب مخدوم جہانیاں ہے۔ صاحب خزینۃ الاصفیاء لکھتے ہیں کہ "سید جلال الدین کا لقب شیر شاہ تھا آپ کے بہت سے خطاب تھے جیسے :

·      میر سرخ 

·      شریف اللہ

·      ابوالبرکات                            

·      ابواحمد

·      میر بزرگ                                                          

·      مخدوم اعظم

·      جلال اکبر                                                          

·      عظیم اللہ  (خزینۃ الاصفیاء صفحہ 63)

لیکن سب سے مشہور لقب "مخدوم جہانیاں "ہے یاد رہے کہ" مخدوم جہاں" شیخ شرف الدین یحیٰ منیری قدس سرہ کو کہاجاتا ہے وصیت ِمخدوم جہاں بہت مشہور ہے کہ حضرت مخدوم جہاں شیخ شرف الدین احمد یحییٰ منیری قدس سرہ النورانی کے روح پرواز کرنے کاوقت تھا تو آپ نے اپنے اصحاب سے وصیت کی تھی کہ خبردار کوئی میرے جنازے کی نماز نہ پڑھائے کیوں کہ ایک سید صحیح النسب، تارک سلطنت ،ساتویں قرات کا حافظ ، چودہ علوم کا عالم عنقریب یہاں آئے گا وہی میری نماز جنازہ پڑھائے گا۔آپ کے اصحاب بموجب وصیت تجہیز وتکفین کرکے حضرت محبوب یزدانی کا انتظار کررہے تھے ۔ جب تاخیر ہوئی تو حضرت شیخ چولھائی خادم حضرت مخدوم الملک شیخ شرف الدین یحیی ٰ منیری شہر سے باہر تلاش کے واسطے نکلے ادھر سے حضرت محبوب یزادانی سلطان سید اشرف جہانگیر سمنانی علیہ الرحمہ  تشریف لارہے تھے شیخ چولھائی اپنی نورفراست باطنی سے پہچان گئے ۔ پوچھا آپ سید ہیں؟

حضرت نے عاجزی سے فرمایا کہ ہاں ۔اسی طرح جوجو نشانیاں حضرت مخدوم الملک نے فرمائی تھی سب آپ میں پائی گئیں ۔ حضرت محبوب یزدانی حضرت محبوب یزادانی سلطان سید اشرف جہانگیر سمنانی علیہ الرحمہ  کو آگے کیا اور خود پیچھے ہولئے۔ جب حضرت محبوب یزدانی سلطان سیداشرف جہانگیرسمنانی علیہ الرحمہ خانقاہ عالی میں پہونچ کر حضرت مخدوم الملک کے خلفاء اور اصحاب سے ملے سب نے باتفاق صاحب میت بموجب وصیت امامت نماز جنازہ کا اشارہ کیا اول حضرت نے کچھ عاجزی کی آخر سب نے محبوب یزدانی حضرت محبوب یزادانی سلطان سید اشرف جہانگیر سمنانی علیہ الرحمہ  کو امامت کے لئے آگے بڑھایا ۔ (صحائف اشرفی صفحہ78)

حضرت مخدوم جہانیاں جہاں گشت عالم باعمل اور صوفی باصفا تھے علم سے گہرا شغف رکھتے تھے اورعلوم ظاہری وباطنی کے جامع تھے لیکن اس کے ساتھ ساتھ عبادت و ریاضت میں ہمہ وقت مشغول رہتے تھےاور نہایت متواضع شخصیت کے مالک تھے۔حدیث کے عالم اوراصول و فروع میں مسلکاً حنفی تھے فتوی ٰ بھی  امام اعظم حضرت  سیدنا ابو حنیفہ نعمان بن ثابت الکوفی رضی اللہ عنہ کے فقہ کے مطابق دیتے تھے۔

غوث العالم محبوب یزدانی مخدوم سلطان سیداشرف جہانگیر سمنانی نے آپ سے روحانی فیوض و برکات حاصل کئے جس کا ذکر لطائف اشرفی میں ہے۔ حضرت مولانا ابوالفضائل نظام الدین یمنی سید اشرف جہانگیر سمنانی کا یہ ارشاد نقل کرتے ہیں:   حضرت محبوب یزادانی سلطان سید اشرف جہانگیر سمنانی علیہ الرحمہ  فرماتے تھے کہ سادات بخاریہ کا سلسلہ نسب بہت بلند ہے اور متاخرین میں جتنے خوارق عادات اور علوم وحقائق حضرت مخدوم جہانیاں سے ظاہر ہوئے کسی سے نہیں آپ مظہر العجائب اور مصدرالغرائب ہیں جب کبھی حضرت قدوۃ الکبریٰ کے سامنے مخدوم جہانیاں جہاں گشت یا آپ کے سلسلے کا ذکر آجاتا تو آپ پر عجیب کیفیت طاری ہوجاتی کہتے تھے کہ کیسے مظہر العجائب ہیں اگرچہ بہت سے اکابرین ومشائخ وقت نے مختلف مرشدین کامل سے علوم ومعارف اور فیوض وبرکات حاصل کئے ہیں لیکن مخدوم جہانیاں کی کوئی مثال نہیں ہے روئے زمین پر کوئی ایسا درویش نہیں ہے جس کی ملازمت میں وہ نہ پہونچے ہوں اور ان سے استفادہ نہ کیا ہو جیساکہ چند مشہور ہستیوں کا ذکر کیا ہے ۔ حضرت    مخدوم جہانیاں  علیہ الرحمہ کو اول نعمت وخلافت اپنے ہی آباؤ اجداد سے ملی جس کا سلسلہ مسلسل حضرت علی علیہ الرضوان تک پہنچتا ہے۔ (لطائف اشرفی حصہ اول صفحہ390)

حضرت مخدوم سید جلال الدین جہانیاں جہاں گشت علیہ الرحمہ وخلافت و اجازت ایک سو چالیس سے زیادہ علمائے راسخین اور صاحبان ارشاد مشائخ سے حاصل تھی جن کی خرقہ اور سلسلہ کی نسبت عن فلاں عن فلاں کے واسطے سے رسول اکرم ﷺ تک پہونچتی ہے۔آپ نے علم شریعت و طریقت وحقیقت و علم تصوف ان سب سے حاصل کیا ۔

لطائف اشرفی میں ہے کہ جضرت مخدوم جہانیاں علیہ الرحمہ نے بے شمار بزگوں سے اجازت و خلافت اور دیگر فیوض وبرکات حاصل کئے پھر آپ نے ان تمام بزرگوں کے نام گن کر حضرت محبوب یزادانی سلطان سید اشرف جہانگیر سمنانی علیہ الرحمہ  کو بتائے اور ان سے حاصل کردہ وہ تمام روحانی نعمتیں عطافرمائیں اس لئے حضرت محبوب یزادانی سلطان سید اشرف جہانگیر سمنانی علیہ الرحمہ  بڑی عقیدت و محبت سے حضرت مخدوم جہانیاں جہاں گشت علیہ الرحمہ کا ذکر کرتے تھے اور ان کا ذکر کرتے وقت آپ ہر عجیب کیفیت طاری ہوجاتی تھی۔

خلفائے کرام:

آپ علیہ الرحمہ  کے چند مشہور خلفائے کرام کے اسمائے گرامی یہ ہیں:

·      سید علاؤ الدین جامع ملفوظ سید شرف الدین علیہ الرحمہ

·      سید مخدوم اشرف جہانگیر سمنا نی سامانی کچھوچھوی علیہ الرحمہ

·      شیخ صدرالدین راجو بخاری علیہ الرحمہ

·      سید اشرف الدین مشہدی علیہ الرحمہ

·      سید بابو تاج الدین بکہری علیہ الرحمہ

·      سید سکندر بن مسعود علیہ الرحمہ

·      سید محمود شیرازی علیہ الرحمہ

·      مولانامحمد عطاء اللہ علیہ الرحمہ

صاحب خزینۃ الاصفیاء آپ کی سیاحت کے بارے میں لکھتے ہیں " کہ جب سید جلال الدین نے بخارا سے سفر کا ارادہ کیا تو پہلے نجف اشرف تشریف لے گئے حضرت علی شیرخدا کرم اللہ وجہہ الکریم کے مرقد مبارک سے فیوض باطنی حاصل کرنے کے بعد مدینہ منورہ پہونچے اور روضہ رسول ﷺ کی زیارت کی وہاں سے شام گئے اور حضرت سلیمان علیہ السلام کے مقبرہ کے تابوت کے مجاور رہے وہاں سے مدینہ منورہ آئے مدینہ کے سادات کرام نے آپ کی سید ہونے سے انکا ر کیا اور صحیح النسب سید ہونے کی طلب کی بہت جھگڑا ہوا آخر فیصلہ یہ ہوا کہ اس سلسلے میں سید الابرار ﷺکے روضہ پر انوار پر جاکر استفسار کیا جائے چنانچہ سید جلال الدین سادات عظام کےساتھ روضہ عالیہ پر حاضر ہوئے آپ عرض کی" السلام علیکم یا والدی" روضہ رسول سے آواز آئی"یا ولدی قرۃ عینی وسراج کل امتی منی وعن اھل بیتی " یہ آواز سن کر تمام سادات نے آپ کی شرافت کی گواہی دی اور آپ کی بے حد تعظیم و توقیر کی۔( خزینۃ الاصفیاء صفحہ 64)

 وصال مبارک:

لطائف اشرفی میں ہے کہ آپ علیہ الرحمہ 78 سال قید حیات میں رہ کر بروز چہارشنبہ عیدالاضحیٰ 10 ذی الحجہ 785 ہجری غروب آقتاب کے وقت انتقال فرمایا۔(لطائف اشرفی حصہ اول صفحہ 610) اس طرح علم ومعرفت و طریقت کا آفتاب غروب آفتا ب کے وقت غروب ہوگیا لیکن اس کی پر نو ر شعائیں آج بھی اہل علم وعرفاں کے قلوب کو منور کررہی ہیں۔