قطب عالم حضرت شیخ نورالحق پنڈوی علیہ الرحمہ

حضرت شیخ نورالحق پنڈوی قدس سرہ حضرت سید اشرف سمنانی کے پیرومرشد قدوۃ العارفین زبدۃ السالکین راہنمائے اہل یقین پیشوائے بزرگان دین حضرت شیخ علاؤ الحق گنج نبات قدس سرہ (آپ کا سلسلہ نسب صحابی رسول حضرت سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ سے ملتاہے)کے فرزند تھے۔

 آپ کا نام احمد اور لقب نورالحق تھا آپ کو شاہ نورقطب عالم بھی کہاجاتا ہے کیونکہ آپ قطبیت کےمرتبے پر فائز تھے۔آپ علیہ الرحمہ حضرت پانڈوہ کے شہر میں ایک بنگالی مسلمان گھرانے میں پیدا ہوئے تھے جو خالد بن الولید ، ایک عرب کمانڈر اور حضور اکرم ﷺ کے ساتھی تھے، جن کا تعلق قریش کے قبیلہ بنو مخزوم سے تھا۔ عالم کے کزن، چچا اور دادا سبھی سلطانی بنگال کےخاص میں سے تھے، ان کے بھائی اعظم خان کے ساتھ، وزیر (وزیر اعظم) کے طور پر خدمات انجام دے رہے تھے۔ ان کے والد علاء الحق بنگال کے درباری عالم تھے اور سکندر شاہ کے دور حکومت میں اس کے خزانے کی ذمہ داری انھیں سونپی گئی تھی۔ ان کے دادا، شیخ اسد خالدی، لاہور سے بنگال ہجرت کر گئے اور سلطنت کے وزیر خزانہ کے طور پر خدمات انجام دیں۔ عالم غیاث الدین اعظم شاہ کے ہم جماعت تھے، راج نگر، بیر بھوم میں قاضی حمید الدین ناگوری علیہ الرحمہ کے زیرِ تعلیم تھے۔

نور قطب عالم ہر طرح کی دستی مزدوری کیا کرتے تھے۔ وہ ذاتی طور پر اپنے والد اور خانقاہ میں آنے والے فقیروں کے کپڑے دھو کر، پانی اور ایندھن لے کر، وضو کے لیے پانی کو مسلسل گرم رکھنے اور بیت الخلاء کی صفائی کرکے ان کی خدمت کرتا تھا۔ اپنے بچوں کے علاوہ شیخ رفیق الدین ( شیخ زاہد کے والد) اور شیخ انور عالم حسام الدین مانک پوری اور شاہ کاکو کے استاد بھی تھے۔ 

آپ علیہ الرحمہ نے اپنے آپ کو روحانیت میں مصروف رہنے کو ترجیح دی، جس کا ثبوت ان کے بھائی وزیر اعظم خان کی حکومت کی طرف سے ملازمت کرنے کی درخواست کو مسترد کرنے سے ہے۔ آپ نے کئی بار حج ( مکہ کی زیارت) کی۔

راجا گنیش کی بغاوت کے بعد بنگالی مسلمانوں کے ظلم و ستم کے ساتھ، نور قطب عالم نے جونپور کے سلطان ابراہیم شرقی کو بنگال کو آزاد کرنے کے لیے ایک خط لکھا۔ اس نے اپنے والد کے شاگرد اشرف جہانگیر سمنانی کو بھی ایک خط بھیجا، جو جونپور میں تھے، شرقی سے بھی درخواست کی۔ درخواست کا جواب دیتے ہوئے، ابراہیم شرقی بنگال کی طرف بڑھے، جس سے گنیش کی حکمرانی کو خطرہ تھا۔ گنیش نےآپ علیہ الرحمہ سے حملہ روکنے کی درخواست کی، لیکن عالم کی شرط یہ تھی کہ وہ اسلام قبول کرے۔ تاہم، گنیش کی بیوی نے اپنے شوہر کو مذہب تبدیل کرنے سے منع کیا اور اس کی بجائے انھوں نے اپنے بیٹے جادو کو شیخ کو پیش کیا۔ عالم کی رہنمائی کے ساتھ، جادو محمد نام کے ساتھ مسلمان ہوا اور جلال الدین محمد شاہ کے طور پر تخت پر بیٹھا۔ اس کے بعد آپ علیہ الرحمہ نے شرقی سے بنگال واپس جانے کی درخواست کی، حالانکہ اس نے انکار کر دیا، اس طرح بنگال ،جون پور تصادم جاری رہا۔

تصنیف و تالیف :

آپ علیہ الرحمہ نے 121 سے زائد کتابیں لکھی ہیں، جو ان کے مرید حسام الدین مانک پوری نے مرتب کی ہیں۔ ان کی دو عظیم تصانیف مغیث الفقرہ اور انیس الغرباء ہیں ۔ سابق کا ایک مخطوطہ خلیفہ باغ، بھاگلپور ، بہار کی ایک نجی لائبریری میں محفوظ ہے۔ ایک اور نامکمل نسخہ کلکتہ میں ایشیاٹک سوسائٹی آف بنگال کی لائبریری (مجموعہ نمبر 466) میں مؤخر الذکر کتاب (مجموعہ نمبر 1212 اور 1213) کے دو نسخوں کے ساتھ محفوظ ہے۔ آپ علیہ الرحمہ نے مختلف اہم شخصیات کو کئی خطوط بھی لکھے۔ ان میں سے تیرہ کو شیخ عبد الحق دہلوی علیہ الرحمہ نے مکتوبات نور قطب عالم (نور قطب عالم کی تصانیف) کے عنوان سے مرتب کیا تھا اور دہلی کے نیشنل آرکائیوز آف انڈیا میں محفوظ ہیں۔

آپ نے راہ سلوک طے کرنے کے دوران بڑے سخت ریاضت اور مجاہدے کئے جو عام انسان کے لئے ناممکن ہے حضرت شیخ علاؤ الحق گنج نبات قدس سرہ نے تکمیل سلوک کے بعد آپ کو اجازت و خلافت عطافرماکر اپنا جانشین مقرر فرمایا۔

 "سید مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی کچھوچھوی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ ہمارے شیخ حضرت علاؤ الحق گنج نبات علیہ الرحمہ کے وفات کے بعد آپ کے دوسرے لڑکوں نے حضرت شیخ نور الحق علیہ الرحمہ سے خلافت وسجادگی کے بارے میں جھگڑا ہوگیا اور یہ قصہ بہت طویل ہوگیا اتفاقاً ان ایام میں سید مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی کچھوچھوی علیہ الرحمہ اپنے شیخ کے فاتحہ کے خاطر وہاں تشریف لے گئے ان کو معلوم تھا کہ حضرت شیخ علاؤ الحق پندوی علیہ الرحمہ کے وصیت کے مطابق شیخ نورالحق ہی حق پر تھے اس لئے ایک دن آپ شیخ نورالحق کو باہر لے گئے اور ایک پہاڑ کے قریب جاکر فرمایا کہ یہ لوگ آپ کی مخالفت ہرگز نہیں چھوڑیں گے مصلحت یہ ہےکہ کل آپ ان کو یہاں لے آئیں اور ان سے کہیں کہ جو شخص اس پہاڑ کو بلاوے والد بزرگوار کے سجاد ہ کا وہی مستحق ہوگا آپ نے ابھی بات ختم نہ فرمائی تھی کہ پہاڑ ہلنے لگا سید مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی کچھوچھوی علیہ الرحمہ نے فرمایا میں ابھی مخدوم زادہ سے بات کررہاہوں تم فی الحال ساکن رہو پہاڑ ساکن ہوگیا دوسرے دن فریقین مع خلقت پہاڑ کے قریب پہونچ گئے دوسرے فریق کے لوگوں نے جس قدر کوشش کی اور مراقبے کئے پہاڑ میں کوئی جنبش نہ ہوئی لیکن جونہی شیخ نورالحق نے اشارہ کیا پہاڑ کو جنبش ہوئی اور چلنے لگا اسی دن سے مخالفت ختم ہوگئی اور آپ تربیت مریدین میں مشغول ہوگئے۔(حوالہ:مراۃ الاسرارصفحہ169)

مراۃ الاسرار کی اس عبارت سے حضرت شاہ نورالحق کی ولایت اور آپ کی روحانی عظمت کا اندازہ ہوتا ہے کہ آپ کے اشارے سے پہاڑ اپنی جگہ سے ہل گیا آپ ایسے مقبول بارگاہ تھےکہ جو آپ کی زبان سے نکل جاتا وہی ہوجاتا تھا جس پر بھر پور نظر ڈالتے اسے منزل مقصود پر پہونچادیا کرتے تھے آپ کی زبان اور نگاہ میں بہت تاثیر تھی ہمہ وقت آپ کے گرد عقیدت مندوں کا ہجوم تھا آپ ہر ایک استعداد کے مطابق اس کی تربیت فرماتے تھے آپ کے خلفاء مریدین بڑے کمال بزرگ گزرے ہیں جو آپ ہی کی تربیت اور نگاہ کرم سے اس مقام پر پہونچے۔

آپ فرماتے تھے کہ مجھ میں سجّادہ شیخ پر بیٹھنے کی قابلیت نہیں ہے، اس پروہ بیٹھے جو داہنے بائیں نہ دیکھے، آپ کمبل نہیں پہنتے تھے، فرماتے تھے کہ گلیم پوشی اس فقیر کو رواہ ے جو تمام خواہشات نفسانی سے پاک ہو، کوئی شخص اگراپنی حاجت لے کر آپ کے پاس آتا تو پہلے فاتحہ اس کے بعد بعد یہ مصرعہ پڑھتے ؎"قفل مہمات رافاتحہ آمد کلید" یعنی فاتحہ مشکل کشا ئی کی چابھی ہے۔

سلطان غیاث الدین بنگال کا بادشاہ آپ کا بڑا معتقدتھا۔ اوراس صوبے کے تمام لوگ آپ کے نیاز مند تھے۔

ایک دن آپ ایک بڑھیا کے مکان پر تشریف لے گئے۔ بڑھیا نے دین کے بارے میں کچھ سوالات کیے، بڑھیا کے گھر سے آپ روتے ہوئے نکلے اور فرمایا کہ میری بخشش اس بڑھیا کے طفیل سے ہو گی۔

آپ فرما تے تھے کہ مشائخ نے سلوک کی تکمیل کے لیے نناوے منازل اسمائے الٰہی کے اعداد کے مطابق قرار دی ہیں۔ پیروں نے پندرہ معین کی ہیں؛لیکن اس فقیر نے صرف تین منازل اختیار کی ہیں۔ اول: حَاسِبُوْا قَبْلَ أَنْ تُحَاسَبُوْا یعنی سالک رات دن میں حساب کرے کہ کتنے اعمال نیک اس نے کئے ہیں اور کتنی غفلت ہوئی؟ اور کوشش کرے کہ ہر گھڑی عنایت میں اضافہ ہو اور برائیاں ختم ہوں۔

دوم: من استوى يوماه في الدين فهو مغبون یعنی جس کے دو دن یکساں گذرجائیں اور کارخیر میں پہلے دن سے زیادتی نہیں ہوئی ہوتو وہ نقصان میں ہے۔

سوم: عبادۃ الفقيرففى الخواطر یعنی ہر ساعت دل کا نگراں رہیکہ غیر کا تصوربھی اس میں نہ آئے اور کوئی ساعت ذکر و فکر اور یاد خدا سے خالی نہ ہو اور ہمہ وقت خواب و بیداری میں خدا کی طرف ہی مائل رہے۔

ایک دن حضرت پالکی پر سوار تھے۔ لوگوں کا ہجوم آپ کے ساتھ تھا۔ لوگ عقیدت ومحبت سے آپ کے قدم مبارک کوچومتے تھے۔ یکایک آپ کی آنکھوں سے آنسوؤں کا سیلاب جاری ہوگیا اورروتے روتے بے ہوش ہو گئے، آپ کے مرید خاص حضرت شیخ حسام الدین قریب گئے اور رونے کا سبب پوچھا تو حضرت نے فرمایا کہ پروردگار عالم نے اپنی مخلوق کو ہمارے لیے مسخر کردیا ہے وہ ہمارے قدم چومتی ہے، ایسا نہ ہو کہ کل قیامت کے دن ہمارا سران کے قدموں سے پامال ہو۔

آپ ۸۰۴ ؁ھ میں اپنے عزیز مرید شیخ حسام الدین مانکپوری کوخرقہ عطا فرمایا اور اجازت و خلافت سے سرفراز فرماکر قصبۂ مانکپور کا صاحب ولایت بنایا اور رخصت کے وقت وصیت فرمائی کہ”سخاوت میں آفتاب، تواصنع میں پانی، تحمل میں زمین کے مثل رہو،اورجفائے خلق برداشت کرو“۔

آپ اپنے مکتوب میں فرماتے ہیں کہ:بیچارہ نورمسکین عمرازشصت گذشتہ تیر از شست جستہ و ازشر نفس یک ساعت نہ رستہ باد بر دست آتش درجگر آب در دیدہ خاک بر سر

ترجمہ: بیچارہ نور مسکین جس کی عمرساٹھ سال سے زیادہ ہوچکی ہے۔ تیرکمان کے حلقے سے نکل چکا ہے اور سانس لینے سے ایک لمحہ بھی چھٹکارا نہیں ہے۔ ہاتھ پر ہوا، جگر میں آگ اور سر پرخاک۔

یہ بھی فرمایا کہ:۔"قرار در ویش دربے قراری عبادت در ویش از غیر حق یعنی فقیرکا آرام بے چینی میں ہے اورفقیر کی عبادت غیرخدا
بیزاری مشغول بغیر حق گرفتاری ظاہرآراستن بدکاریسے بیزاری میں ہے اوراس کے لیے خدا کے سوا کسی جانب لو لگانا قید ہے اور ظاہر کو سنوارنا بُرا کام ہے۔

وصال مبارک :

 قطب عالم حضرت شیخ نورالحق پنڈوی نے اپنے والد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے آخری وقت تک رشدوہدایت کے سلسلے کو جاری رکھا اور بندگان خدا کو راہ ہدایت دیکھائی معتبر روایات کے مطابق آپ نے 10 ذی القعدہ 818 ہجری کو وصال فرمایا تاریخ وصال ان الفاظ سے نکالی گئی نوربانورشید یعنی نورنور سے مل گیا۔

 


No comments:

Post a Comment