Mazar Sharif |
پیدائش
اور خاندانی حالات:
آپ علیہ الرحمہ کی پیدائش فیروز شاہ تغلق کے عہد میں ۱۰؍ محرم الحرام ۷۷۶ہجری مطابق ۱۳۷۲عیسوی کو جزیرۂ مہائم
(موجودہ نام ماہم)
میں ہوئی، مہائم اور تھانہ کا علاقہ اس زمانہ میں والی گجرات احمد شاہ جس کا عہد
حکومت ۸۱۴ھ سے ۸۴۳ھ تک رہا ہے کہ زیر
حکومت تھا، آپ کا نام علی (یا علاؤالدین) رکھا گیا، کنیت ابوالحسن اور لقب زین
الدین ہے، آپ کے والد کا نام شیخ احمد علیہ الرحمہ تھا، جو عالم دین، ولی
کامل اور کوکن کے دولت مند تاجروں میں سے تھے، والدہ ماجدہ کا نام فاطمہ بنت ناخدا
حسین انکولیا تھا، جو خود بھی متمول خاندان سے تعلق رکھتی تھیں، ان کے والد یعنی
حضرت مہائمی علیہ الرحمہ کے نانا ملک التجار کہلاتے تھے، آپ کا خاندان ’نائت‘ ہے،
جو نوائط کی بگڑی ہوئی شکل ہے، دراصل نوائط قبیلہ کے کچھ تاجر مدینہ منورہ سے آکر
خطہ کوکن میں مقیم ہوگئے تھے، انہی میں آپ کے مورث اعلیٰ بھی تھے۔ (بحوالہ سبحتہ المرجان
ماثر الکرام منصنفہ آزاد بلگرامی ا، بجد العلوم مصنفہ صدیق حسن خاں، تذکرۂ علماء
ہند مصنفہ رحمن علی وغیرہ)
تعلیم اور
بچپن:
تعلیم
وتربیت والد بزرگوار سے حاصل کی اور انہی سے فیضیاب ہوتے ہوئے، فقہ، منطق، فلسفہ
اور حدیث وتفسیر کے علوم کی تکمیل فرمائی، ایسی بھی روایات ہیں کہ والد کے انتقال
کے بعد بقیہ تعلیم حضرت خواجہ خضرعلیہ السلام سے حاصل کی۔ (بحوالہ: ضمیر الانسان
مصنفہ سید ابراہیم مدنی)
حضرت
مہائمی علیہ الرحمہ بچپن ہی سے انتہائی باادب، والدین کے فرمانبردار اور خدمت
گذار تھے، ان کی بزرگی کا ایک مشہور واقعہ ہے کہ ایک مرتبہ عشاء کے بعد آپ کی
والدہ نے پانی مانگا، جب آپ پانی لے کر گئے تو والدہ کو نیند آگئی تھی، آپ نے
والدہ کو بیدار نہیں کیا، بلکہ انتظار کرنے لگے، اسی طرح ہاتھ میں پیالہ لئے ہوئے
ساری رات گذرگئی، تہجد کے وقت جب آپ کی والدہ از خود بیدار ہوئیں اور آپ کو
پیالہ لئے ہوئے کھڑے پایا تو بے ساختہ دعا کے لئے ان کے ہاتھ اٹھ گئے، پھر انہوں
نے وضو کیا اور نماز کے بعد حضرت مہائمی علیہ الرحمہ کے حق میں ان کی دنیا
اور آخرت کی فوز وفلاح کے لئے انتہائی الحاح وزاری کے ساتھ بارگاہِ خداوندی میں دعائیں
کی، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت علیہ الرحمہ کی ولایت اور زبردست عوامی
مقبولیت میں آپ کی والدہ کی آہِ سحر گاہی کا بھی بڑا ہاتھ رہا ہے۔
عام حالات:
حضرت
مہائمی علیہ الرحمہ بے حد فیاض، سخی، دردمند دل رکھنے والے اور بلاتفریق مذہب
وملت حاجت مندوں کی دل کھول کر مدد کرنے والے تھے، دسترخوان پر ہمیشہ مہمانوں کا
ہجوم رہتا، مسلم اور غیر مسلم دونوں آپ کے عقیدت مندوں میں شامل تھے، علوم شریعت
وطریقت کے جامع ہونے کے ساتھ ساتھ عابد وزاہد اور اکثر اوقات میں مشاہدۂ حق اور
مراقبہ میں مصروف رہتے تھے، توحید وجودی کا آپ پر ازحد غلبہ تھا، حالت استغراق
میں دنیا ومافیہا سے بے خبر ہوکر مشاہدہ میں مصروف ہوجاتے، آپ کی بزرگی اور عبادت
وریاضت کی شہرت بادشاہِ وقت تک پہنچی اور اس نے اپنی بہن کا نکاح آپ سے کردیا،
ایک مرتبہ کچھ شاہی بیگمات بادشاہ کی بہن یعنی آپ کی اہلیہ سے ملاقات کے لئے آپ
کے گھر آئیں، اس وقت آپ اپنے گھر کی چوکھٹ پر حالت استغراق میں بیٹھے ہوئے تھے،
آپ کو دیکھ کر وہ بیگمات ٹھٹھک گئیں، حضرت کی والدہ نے ان بیگمات کو دیکھ لیا اور
انہیں اندر یہ کہہ کر بلایا کہ آجاو، علی تو اس وقت دوسری دنیا میں ہے، والدہ کے
کہنے پر وہ بیگمات اندر آگئیں اور پھر ان سے ثبوت مانگا تو والدہ نے حضرت مہائمی
کو ایک تہبند لاکر دیا اور کہا کہ لو بیٹا یہ تہبند پہن لو اور کپڑے دھونے کے لئے
دے دو، حضرت نے تہبند پہن کر بدن کے کپڑے والدہ کو دے دئے، جب کہ وہ صاف ستھرے
تھے، تھوڑی دیر بعد والدہ دوسرے میلے کپڑے لے کر آئیں اور کہا: لو اپنے کپڑے پہن
لو، شیخ نے وہی میلے کپڑے پہن لئے۔
عہدۂ قضا
اور درس وتدریس:
ممبئی
گزیٹر کے مطابق شیخ مہائمی علیہ الرحمہ نے جوانی کے کئی سال حصول علم کے لئے
سفر اور مطالعہ میں صرف کئے، پھر ان کو علاقہ ماہم کا قاضی مقرر کردیا گیا، نیز
برکات الاولیاء کے مطابق مہائم میں ایک مدرسہ تھا جہاں آپ علوم ظاہری اور باطنی
کا درس بھی دیتے تھے، اسی دوران آپ نے کئی کتابیں بھی تصنیف کیں، (جن کا ذکر آگے
آئے گا) آپ کے شاگردوں میں شیخ محمد سعید کوکنی علیہ الرحمہ اور علامہ بدرالدین
محمد ابن ابوبکر مخدومی علیہ الرحمہ کا ذکر بطورِ خاص برکات الاولیاء میں
ملتا ہے۔
سلسلۂ
تصوف:
مختلف
وجوہات کی بناء پر تصوف مسلمانوں میں مختلف فیہ بن گیا ہے، حالانکہ حقیقی تصوف
دراصل احسان اور تزکیۂ نفس کو کہتے ہیں، جس کے لئے قرآن مجید میں ’’قَدْ
اَفْلَحَ مَنْ زَکّٰھَا‘‘ فرمایا گیا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم نے حدیث جبرئیل میں احسان کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا تھا: ’’اَنْ
تَعْبُدَاللّٰہَ کَاَنَّکَ تَرَاہٗ وَاِنْ لَّمْ تَکُنْ تَرَاہٗ فَاِنَّہٗ
یَرَاکَ‘‘ تم اللہ کی عبادت ایسے کرو جیسے کہ تم اس کو دیکھ رہے ہو۔ (یہ تصوف کا
اعلی درجہ ہے) اور اگر تم اس پر قادر نہیں ہو تو کم از کم یہ تصور رکھو کہ وہ
تمہیں دیکھ رہا ہے۔ بس تصوف کی ساری حقیقت یہی ہے کہ انسان اپنا ہر عمل اس طرح
انجام دے جیسا کہ مالک کے حضور میں انجام دے رہا ہو۔ ورنہ کم از کم یہ تصور ضرور
رکھے کہ وہ ہر وقت مالک کے سامنے ہے اور مالک کی نظر ہمیشہ اس پر رہتی ہے۔
اسی
احسان کے اعلیٰ درجہ کو حاصل کرنے کے لئے صوفیاء نے اپنے اپنے طور پر کوششیں کی
ہیں اور اپنے تجربات کی روشنی میں شریعت کے مطابق اوراد ووظائف اور عبادت کے دوران
حضور قلب کے لئے ایسے طریقے مقرر کئے ہیںجو بندے کو اللہ کے زیادہ سے زیادہ قریب
کردیں، بعض بزرگانِ سلف کے پاس مریدین اور شاگردوں کا رجوع زیادہ ہوا تو ان کی
شہرت ہوگئی اور انہوں نے اپنے مسترشدین کے لئے جو اعمال ووظائف تلقین کئے تھے ان
کے مسترشدین نے آگے بھی اس کو جاری رکھا اور آئندہ نسلوں تک پہنچایا، اس طرح بعض
بزرگوں کے باضابطہ سلسلے قائم ہوگئے، ہندوستان میں بعض مشہور سلسلے قادریہ، چشتیہ،
سہروردیہ، نقشبندیہ اور رفاعیہ وغیرہ ہیں، پھر ان سلسلوں کے اندر بھی بہت سے ذیلی سلسلے
قائم ہوتے گئے۔ آگے چل کربعض کم علم لوگوں نے بہت سی غیر شرعی چیزیں بھی تصوف کے
نام پر رائج کردی ہیں، جن کا حقیقی تصوف سے کوئی تعلق نہیں اور ایسی ہی غیر شرعی
چیزوں کی وجہ سے کچھ لوگوں نے غلط فہمی کا شکار ہوکر سارے تصوف کو ہی غیر شرعی
قرار دے دیا ہے۔
بعض
بزرگ ایسے بھی ہوتے ہیں جن کا رسمی تعلق تصوف کے رائج سلسلوں سے نہیں ہوتا، بلکہ
انہیں براہِ راست اتباع شریعت وسنت کی برکت سے تزکیۂ نفس کی نعمت حاصل ہوجاتی ہے،
اس کو تصوف کی اصطلاح میں ’نسبت اویسی‘ کہتے ہیں، حضرت مخدوم مہائمی علیہ
الرحمہ بھی ایسے ہی بزرگوں میں تھے جنہیں نسبت اویسی کے ذریعہ حق تعالیٰ سے براہِ
راست فیض ولایت حاصل ہوا تھا، بعض بزرگوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ نسبت اویسی کے لئے
شریعت وسنت کی اتباع کے ساتھ ساتھ حضرت خضرؑ کی رہنمائی کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔
مخدوم
مہائمی علیہ الرحمہ اور ابن عربی علیہ الرحمہ :
حضرت مہائمی علیہ
الرحمہ شیخ محی الدین ابن عربی علیہ الرحمہ سے بہت زیادہ متأثر تھے، بلکہ
ابن عربی کے نظریات کے زبردست شارح وترجمان تھے۔ (بحوالہ: سبحتہ المرجان)
شیخ
محی الدین ابن عربی علیہ جنہیں شیخ اکبر بھی کہا جاتا ہے وہ بھی تاریخ اسلام
بعض عبقری شخصیات کی طرح اختلافی شخصیت سمجھے جاتے ہیں، وہ اسلام کے پہلے فلسفی
ہیں جنہوں نے ’وحدت الوجود‘ یعنی ’ہمہ اوست‘ کا نظریہ پیش کیا، فصوص الحکم اور
فتوحات مکیہ آپ کی مشہور کتابیں ہیں، شیخ اکبر کے فلسفۂ وحدت الوجود کو ماننے
والی تاریخ اسلام میں بہت سی عظیم شخصیات ہیں، اس نظریہ میں جو ابہام ہے اس سے
خالق کا مخلوق میں حلول اور اتحاد کا شبہ ہوتا ہے، مگر اسی کے ساتھ ساتھ خالق اور
مخلوق میں مغایرت بھی پائی جاتی ہے، ابن عربی علیہ الرحمہ کے سلسلہ میں علماء
کے تین گروہ ہیں: مجدالدین فیروزآبادی علیہ الرحمہ ، علامہ فخرالدین رازی علیہ
الرحمہ ، عبدالوہاب شعرانیٖٖعلیہ الرحمہ ، سراج الدین المخزومی علیہ الرحمہ وغیرہ
جیسے بہت سے اکابر علماء وصوفیاء انہیں امام الاولیاء اور قطب الاقطاب مانتے ہیں،
جب کہ علامہ ابن تیمیہ علیہ الرحمہ ، علامہ تفتازانی علیہ الرحمہ اور ملا علی قاری
علیہ الرحمہ ان کے ناقدین میں سے ہیں اور علامہ جلال الدین سیوطی علیہ الرحمہ اور
علامہ حصفکی علیہ الرحمہ وغیرہ آپ کو ولی اور بزرگ تو مانتے ہیں مگر یہ بھی کہتے
ہیں کہ آپ کی باتیں عام سطح سے بلند ہیں، الاشباہ فی سلاسل اولیاء اللہ کے مطابق
شاہ ولی اللہ محدث دہلوی علیہ الرحمہ نے شیخ اکبر محی الدین ابن عربی علیہ الرحمہ کے
طریقہ کو سلسلۂ قادریہ کی ایک شاخ بتایا ہے، مجدد الف ثانی علیہ الرحمہ ، شیخ
احمد سرہندی علیہ الرحمہ بھی آپ کو بزرگ اور ولی اللہ مانتے ہیں۔
شیخ
اکبرکے فلسفۂ وحدت الوجود کی سب سے بہتر تاویل اور تطبیق حضرت مولانا اشرف علی
تھانوی نے بھی فرمائی ہے: آپ نے ’ہمہ
اوست‘ (ساری کائنات میں حق تعالیٰ ہے) کو ’ہمہ از اوست‘ قرار دیا ہے کہ ساری
کائنات حق تعالیٰ ہی سے ہے، یعنی اسی کی بنائی ہوئی ہے، اس طرح کوئی اشکال نہیں
رہتا۔
بہر
حال شیخ مخدوم مہائمی علیہ الرحمہ کو شیخ اکبر سے بے پناہ عقیدت تھی، اور آپ
نے شیخ کے نظریات وافکار کی تشریح کو مقصد حیات بنالیا تھا، شیخ اکبر پر جو
اعتراضات کئے گئے ہیں آپ نے ان کے جوابات لکھے اور شیخ اکبر کے مسلک کے مطابق
تصنیفات کی شرحیں بھی لکھی ہیں۔
کرامات:
یہ
بات تو طے ہے کہ کسی شخص سے خرق عادت کے طور پر کسی چیز کا صادر ہونا اس شخص کی
بزرگی کا ثبوت نہیں ہوتا، اس کے لئے اتباع شریعت بھی ضروری ہے، ورنہ سحر، نظربندی
اور ہاتھ کی صفائی میں مہارت رکھنے والے سب سے بڑے بزرگ کہلاتے، اسی طرح ہر بزرگ
سے کرامت صادر ہو ایسا بھی ضروری نہیں ہے، کرامت کے سلسلے میں اسلامی عقیدہ یہ ہے
کہ کرامت دراصل اللہ تعالیٰ کا فعل ہوتا ہے جو کسی متبع شریعت بزرگ کے ہاتھ پر
ظاہرہوتاہے جس طرح معجزہ اللہ تعالی کا فعل ہوتاہے جو کسی نبی کے ہاتھ پر ظاہر
ہوتا ہے، کرامت کے سلسلے میں عقائد کی کتابوںمیں تصریح کی گئی ہے کہ ’کرامات
الاولیاء حق‘ اولیاء کی کرامتیں حق ہیں۔ علامہ ابن تیمیہ نے بھی کتاب النبوات میں
اولیاء کی کرامت کو دین کی صداقت کا ثبوت مانا ہے۔
شیخ
مخدوم مہائمی علیہ الرحمہ خود بھی صاحب کرامت بزرگ تھے آپ کی بہت سی کرامتیں
مشہور ہیں، اسی کے ساتھ ساتھ آپ کی فیض تربیت کے بدولت آپ کے ساتھ رہنے والے آپ
کے خدام بھی صاحبان کشف وکرامت تھے۔
ضمیر
الانسان میں آپ کی ایک مستند کرامت یہ لکھی ہے کہ ایک ہندو تاجر کا جہاز سامانِ
تجارت لے کر کسی بندرگاہ کے لئے روانہ ہوا تھا، مگر سات سال گذر جانے کے باوجود
منزل پر نہیں پہنچا، وہ تاجر بہت پریشان تھا، اس کی ساری کمائی اسی جہاز پر لگی ہوئی
تھی، اس نے بہت سے نجومیوں، پنڈتوں اور عاملوں سے رجوع کیا، سب نے یہ بتایا کہ
تمہارا جہاز ڈوب چکا ہے، اس کے کسی دوست نے اسے حضرت مخدوم صاحب علیہ الرحمہ سے
ملنے کا مشورہ دیا، چنانچہ وہ حاضر خدمت ہوا، آپ نے فرمایا: گھبرانے کی کوئی بات
نہیں ہے، ان شاء اللہ جہاز واپس آجائے گا، اس کو کچھ امید بندھی وہ ساحل پر کھڑے
ہوکر انتظار کرنے لگا، اسی دوران اس کو اپنا جہاز دور سے آتا ہوا دکھائی دیا، یہ
دیکھ کر وہ آپ کی بزرگی کا قائل ہوگیا اور اسی وقت بیوی بچوں سمیت اسلام قبول
کرکے آپ کے حلقۂ ارادت میں داخل ہوگیا۔
آپ
کے یہاں کام کرنے والی ایک نیک اور خدا رسیدہ خادمہ کی بھی ایک کرامت مشہور ہے:
ایک مرتبہ حضرت مخدوم صاحب علیہ الرحمہ کے ایک ملاقاتی جو خود بھی صاحب کرامت
بزرگ تھے، آپ سے ملاقات کے لئے تشریف لائے، مخدوم صاحب علیہ الرحمہ انہیں
مسجد میں بیٹھا کر ان کے لئے کھانا لانے گھر چلے آئے، مگر گھر میں آپ کی والدہ
نے روک لیا کہ کھانا میرے ساتھ کھاؤ! تو آپ نے ان مہمان کے لئے کھانا اپنی ایک خادمہ
کے ذریعہ بھجوایا، جب وہ خادمہ مسجد کے دروازے پر پہنچیں تو انہیں مسجد میں کوئی
نظر نہیں آیا، اِدھر اُدھر تلاش بھی کیا پھر بھی نہیں ملے وہ خادمہ خود بھی ولیہ
تھیں، انہوں نے مشرق سے لے کر مغرب، شمال سے لے کر جنوب زمین کے چاروں گوشوں میں
نظر دوڑائی تو انہیں وہ مہمان خانۂ کعبہ میں نظر آگئے، خادمہ نے فوراً ایک قدم
بڑھایا اور خانۂ کعبہ میں پہنچ گئیں، وہاں پہنچ کر ان کے سامنے کھانا رکھ دیا اور
کہا میرے آقا نے بھجوایا ہے اور پھر فوراً اُلٹے پاوں واپس آگئیں۔
معمولات،
علمی سرمایہ، تصانیف:
حضرت
مخدوم مہائمی علیہ الرحمہ کو کتابوں سے بہت دلچسپی تھی، تصنیف وتالیف کا
مشغلہ بھی تھا، آپ کے پاس ہر قسم کی کتابوں کا ذخیرہ تھا، جن میں بہت سی کتابیں
اب بھی باقی ہیں، انہی میں سے آپ کے دستِ مبارک سے لکھا ہوا ایک قرآن پاک کا
نسخہ بھی ہے جس کی ہر سال ۲۹؍ رمضان المبارک کو
زیارت کروائی جاتی ہے اور دور دور سے لوگ زیارت کے لئے آتے ہیں۔
وظائف
واوراد کے سلسلے میں آپ کی تحریروں میں سیدالاستغفار کا تذکرہ ملتا ہے جس میں
اللہ کی بڑائی، اس کی خالقیت، معبودیت اور اپنے عجز کا اظہار، سیئات اور گناہوں کی
معافی اور بخشش طلب کی گئی ہے، درود شریف کی کثرت بھی آپ کے معمولات میں شامل
تھی، اسماء حسنیٰ کا ورد بھی معمول تھا، اسماء حسنیٰ کی شرح میں آپ نے ایک
کتاب ’الوجود فی شرح اسماء المعبود‘ بھی لکھی ہے۔دیگر
تصانیف میں سب سے اہم اور مشہور تصنیف آپ کی تفسیر قرآن ’تبصیرالرحمن وتیسیرالمنان
بعض مایشیر الی اعجاز القراٰن‘ ہے، جو تفسیر مہائمی کے نام سے مشہور ہے،
اس معرکۃ الآراء تفسیر میں آپ نے ہر سورت کے آغاز میں درود شریف کا اہتمام کرتے
ہوئے قرآن مجید کے نظم وترتیب کو خاص طور پر موضوع بنایا ہے، اس تفسیر کو ریاست
بھوپال کے مدارالمہام جمال الدین دہلوی نے مطبع جولاق مصر سے چھپوایا ہے، یہ تفسیر
دو ضخیم جلدوں میں ہے، اس کے علاوہ تفسیر ہی کے موضوع پر آپ کی ایک اور حیرت
انگیز اور کرامتی کتاب ’’رسالہ عجیبہ‘‘ کے نام سے ہے، اس
کتاب سے آپ کے علوم ظاہری اور باطنی پر قدرت کا پتہ چلتا ہے، اس میں ’’المo ذٰلک الکتاب لاریب فیہ‘‘ کے اعراب کی چھ
لاکھ گیارہ ہزار چھ سو وجوہات بتائی گئی ہیں، آپ کے فتاویٰ کا مجموعہ ’’فتاویٰ مخدومیہ‘‘ بھی تھا، جو اب ناپید
ہے، فقہ شافعی میں ایک کتاب فقہ مخدومی علیہ
الرحمہ بھی آپ سے منسوب ہے، ایک کتاب ’’انعام الملک العلام باحکام حکم الاحکام‘‘ ہے، جس میں آپ نے
احکام شرع کی حکمتیں اسرار اور عقلی دلائل بیان کئے ہیں، اسرار شریعت کے سلسلے میں
کسی بھی ہندوستانی عالم کی یہ سب سے پہلی تصنیف ہے۔
ان
کے علاوہ فلسفہ خاص طور پر شیخ محی الدین ابن عربی علیہ الرحمہ کے وحدت الوجود کی
تشریح اور ان پر ہونے والے اعتراضات کے جواب کے لئے آپ کی متعدد تصانیف ہیں،
مثلاً: ادلۃ التوحید، شرح ادلۃ التوحید، النور الازہر فی کشف سرالقضاء
والقدر، الضوء الازہر، خصوص النعم فی شرح فصوص الحکم، ترجمہ وتشریح لمعات عراقی،
مرأۃ الحقائق، ازالۃ الدقائق وغیرہ۔ تقریباً ۱۹؍ کتابوں کا ذکر آپ کے
حالات میں ملتا ہے، ممکن ہے کچھ اور بھی رہی ہوں۔
وصال
مبارک:
آپ
کی وفات ۵۹؍ انسٹھ سال کی عمر میں ۸؍ جمادی الآخر ۸۳۵ھمطابق ۱۴۳۱ء کو ہوئی اور ماہم ہی
میں اپنے خاندانی قبرستان میں دفن ہوئے، آپ کی یادگار میں ایک مقبرہ اور ایک مسجد
تعمیر کی گئی جو آج بھی موجود ہے، ہر سال آپ کا عرس ہوتا ہے، جس میں ہر طبقے اور
ہرمذہب کے لوگ شریک ہوتے ہیں، عرس کے موقع پر شرکاء کی تعداد لاکھوں سے اوپر ہوتی
ہے، ویسے بھی روزانہ سینکڑوں افراد مزار پر حاضر ہوتے ہیں، عرس کے موقع پر سب سے
پہلا جلوس (صندل) ممبئی پولیس کا نکلتا ہے، جو شہر میں گشت کرتے ہوئے دوپہر تک
مزار پر پہنچتا ہے، اس میں ممبئی پولیس کے اعلیٰ افسران اور دیگر شہر کے ذمہ داران
شریک ہوتے ہیں۔