Shabe Qadr Ki Fazilat


شبِ قدْر کےفضائل


حمدِ باری تعالیٰ:

    سب خوبیاں اللہ عزَّوَجَلَّ کے لئے ہیں جس نے دلو ں کو پا ک اور منو ر کیا، ستا رو ں کو رو شنی دی، ہو ا ؤ ں کو مسخر کیا، بادَلوں کو پھیلا یا پھر ان کو برسا دیا، با غا ت میں با ر ش بھیج کر در ختوں کو ز ندگی بخشی، پھلو ں کو پیدا کیا ۔اس نے عبادات کے دنوں کو دیگرتمام اوقات پر فضیلت دی، خیر ا ت و بر کا ت کے حصول کو آسا ن فرما دیا اور ما ہِ رمضا ن کو تما م مہینو ں پر شر ف بخشا اور اس کی را تو ں کو فضیلت عطا فرمائی اور اس مہینے کو شب ِ قدر کے ذریعے ممتا ز فرمادیا جو ہزارمہینوں(یعنی تراسی سال اور چار ماہ) سے بہتر ہے۔ اللہ عزَّوَجَلَّ کاارشادِ رحمت بنیاد ہے: اِنَّاۤ اَنۡزَلْنٰہُ فِیۡ لَیۡلَۃِ الْقَدْرِ﴿۱ترجمۂ  کنزالایمان:بے شک ہم نے اسے شب قدرمیں اتا ر ا۔(۱)(پ۳0، القدر:۱)
    حضرتِ سیِّدُنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہمافرماتے ہیں: ''اللہ عزَّوَجَلَّ نے لوحِ محفوظ سے بیتُ العزَّت کی طرف ایک ہی دفعہ پورا قرآنِ حکیم ماہِ رمضان، شب ِ قدرمیں نازل فرمایا۔''مفسرینِ کرام رحمہم اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:''بیت العزت آسمانِ دنیا میں ہے۔''


لیلۃُ القدْرکہنے کی وجہ:

    اسے لیلۃالقدر کہنے کی پانچ وجوہات ہیں:
(۱)۔۔۔۔۔۔قدر کامعنی عظمت ہے، اورچونکہ یہ رات بھی عظمت والی ہے اس لئے اسے لیلۃالقدر کہا جاتا ہے۔

مفسِّر شہیر، خلیفۂ اعلیٰ حضرت، صدرالافاضل، سیِّد محمد نعیم الدین مراد آبادی علیہ رحمۃ اللہ الہادی تفسیر خزائن العرفان میں اس آیتِ مبارکہ کے تحت فرماتے ہیں:'' شب ِ قدر شرف و برکت والی رات ہے۔ اس کو شب ِ قدر اس لئے کہتے ہیں کہ اس شب میں سال بھر کے احکام نافذ کئے جاتے ہیں اور ملائکہ کو سال بھر کے وظائف و خدمات پر مامور کیا جاتا ہے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس رات کی شرافت و قدر کے باعث اس کو شب ِ قدر کہتے ہیں۔ اور یہ بھی منقول ہے کہ چونکہ اس شب میں اعمالِ صالحہ منقول ہوتے ہیں اور بارگاہِ الٰہی میں ان کی قدر کی جاتی ہے اس لئے اس کو شبِ قدر کہتے ہیں۔ احادیث میں اس شب کی بہت فضیلتیں وارد ہوئی ہیں، بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے کہ جس نے اس رات میں ایمان و اخلاص کے ساتھ شب بیداری کرکے عبادت کی اللہ تعالیٰ اس کے سال بھر کے گناہ بخش دیتا ہے۔ آدمی کو چاہے کہ اس شب میں کثرت سے استغفار کرے اور رات عبادت میں گزارے۔ سال بھر میں شب ِ قدر ایک مرتبہ آتی ہے اور روایاتِ کثیرہ سے ثابت ہے کہ وہ رمضانُ المبارک کے عشرۂ اخیرہ میں ہوتی ہے۔ اور اکثر اس کی بھی طاق راتوں میں سے کسی رات میں۔ بعض علماء کے نزدیک رمضانُ المبارک کی ستائیسویں رات شب ِقدر ہوتی ہے۔ یہی حضرت امام اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے۔ ''

(۲)۔۔۔۔۔۔قدر کا معنی تنگی ہے، چونکہ اس رات زمین اپنی وسعت کے باوجود فرشتوں کی کثرت کی وجہ سے تنگ ہوجاتی ہے،اس لئے اسے لیلۃالقدر کہا جاتاہے۔
(۳)۔۔۔۔۔۔قدر کا معنی حکم ہے،چونکہ اس رات اشیاء کے متعلق ان کی حقیقتوں کے مطابق فیصلے کئے جاتے ہیں اس لئے اسے لیلۃ القدر کہا جاتاہے۔
(۴)۔۔۔۔۔۔قدر کامعنی عزت ہے یعنی جس کی کوئی قدر و قیمت نہ ہو وہ بھی اس رات کی برکت سے صاحب ِ قدر ہوجاتاہے۔ اس لئے اس کانام لیلۃالقدر ہے۔
(۵)۔۔۔۔۔۔یا اس کی وجہ یہ ہے کہ اس میں قدر والی کتاب نازل ہوئی،یایہ کہ اس میں قدر والے فرشتے نازل ہوتے ہیں۔

کیا لیلۃُ القدراب بھی باقی ہے ؟

    اس میں علماء کا اختلاف ہے کہ کیا شب ِ قدر اب بھی باقی ہے یا یہ صرف حضور نبئ کریم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے زمانے کے ساتھ خاص تھی؟اس بارے میں دو ا قوال ہیں جن میں سے صحیح ترین یہی ہے کہ یہ اب بھی باقی ہے اور ماہِ رمضان میں آتی ہے۔


کون سی رات لیلۃُ القدر ہے ؟

    اس میں اختلاف ہے کہ شب ِ قدر کون سی رات ہے، اس کے متعلق چھ اقوال ہیں:(۱)۔۔۔۔۔۔رمضان المبارک کی پہلی رات (۲)۔۔۔۔۔۔ اکیسویں رات(۳)۔۔۔۔۔۔ تیئسویں رات(۴)۔۔۔۔۔۔ پچیسویں رات(۵)۔۔۔۔۔۔ ستائیسویں رات اور(۶)۔۔۔۔۔۔انتیسویں رات۔ اور بعض کا قول ہے کہ شب ِ قدر ماہِ رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں منتقل ہوتی رہتی ہے۔


شب ِ قدرہزار مہینوں سے بہترہے:

    ارشادِ باری تعالیٰ ہے :

 (1) وَ مَاۤ اَدْرٰىکَ مَا لَیۡلَۃُ الْقَدْرِ ؕ﴿2﴾لَیۡلَۃُ الْقَدْرِ ۬ۙ خَیۡرٌ مِّنْ اَلْفِ شَہۡرٍ ؕ﴿3﴾

ترجمۂ  کنزالایمان :اور تم نے کیا جانا کیا شب قدر، شبِ قدرہزار مہینوں سے بہتر۔(۱) (پ30،القدر: 2۔3)

مفسِّر شہیر، خلیفۂ اعلیٰ حضرت، صدرالافاضل، سیِّد محمد نعیم الدین مراد آبادی علیہ رحمۃ اللہ الہادی تفسیر خزائن العرفان میں اس آیتِ مبارکہ کے تحت فرماتے ہیں: '' (یعنی ایسے ہزار مہینے) جو شب ِ قدر سے خالی ہوں۔ اس ایک رات میں نیک عمل کرنا ہزار راتوں کے عمل سے بہتر ہے۔ حدیث شریف میں ہے کہ ''نبی کریم صلَّی اللہ علیہ وآلہ وسلَّم نے اُمَمِ گذشتہ کے ایک شخص کا ذکر فرمایا جو تمام رات عبادت کرتا تھا اور تمام دن جہاد میں مصروف رہتا تھا۔ اس طرح اس نے ہزار مہینے گزارے تھے۔ مسلمانوں کو اس سے تعجب ہوا تو اللہ تعالیٰ نے آپ صلَّی اللہ علیہ وآلہ وسلَّم کو شب ِقدر عطا فرمائی اور یہ آیت نازل کی کہ شب ِ قدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے یہ اللہ تعالیٰ کا اپنے حبیب صلَّی اللہ علیہ وآلہ وسلَّم پر کَرَم ہے کہ آپ صلَّی اللہ علیہ وآلہ وسلَّم کے اُمَّتی شب ِ قدر کی ایک رات عبادت کریں تو ان کا ثواب پچھلی اُمت کے ہزار ماہ عبادت کرنے والوں سے زیادہ ہو۔''


    حضرتِ سیِّدُنامجاہدعلیہ رحمۃ اللہ الواحد فرماتے ہیں کہ شب ِ قدر میں عبادت اور نیک عمل ایسے ہزار مہینوں کی عبادت اور نیک عمل سے بہتر ہے جس میں شب ِ قدر نہ ہو۔
    حضرتِ سیِّدُنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہماسے مروی ہے کہ حضور نبئ کریم، ر ء ُ وف رحیم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے پاس بنی اسرائیل کے ایک شخص کا تذکرہ ہوا، جس نے ایک ہزار ماہ اللہ عزَّوَجَلَّ کی راہ میں جہادکیا۔صحابۂ  کرام علیہم الرضوان کو اس سے بہت تعجب ہوا اورتمنا کرنے لگے: ''کاش! ان کے لئے بھی ایسا ممکن ہوتا۔'' توآپ صلَّی  اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے عرض کی: ''اے میرے رب عَزَّوَجَلَّ! تو نے میری امت کو کم عمر عطا فرمائی اب ان کے اعمال بھی کم ہوں گے۔'' تو اللہ عزَّوَجَلَّ نے آپ صلَّی  اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کو شب قدر عطا فرمائی اور ارشاد فرمایا: ''اے محمد(صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم)! شب قدرہزار مہینوں سے بہترہے جومیں نے تجھے اور تیری امت کو ہر سال عطا فرمائی ہے۔ یہ رات ماہِ رمضان میں تمہارے لئے اور قیامت تک آنے والے تمہارے امتیوں کے لئے ہے جو ہزارمہینوں سے بہتر ہے۔'' اللہ عزَّوَجَلَّ ارشاد فرماتا ہے:

تَنَزَّلُ الْمَلٰٓئِکَۃُ وَ الرُّوۡحُ فِیۡہَا بِاِذْنِ رَبِّہِمۡ ۚ مِنۡ کُلِّ اَمْرٍ ۙ﴿ۛ4﴾سَلٰمٌ ۟ۛ ہِیَ حَتّٰی مَطْلَعِ الْفَجْرِ ٪﴿5﴾

  (صحیح البخاری ، کتاب فضل لیلۃ القدر باب فضل لیلۃ القدر ، الحدیث ۲0۱۴،ص ۱۵۷)

آخری سات راتوں میں تلاش کرو:

    حضرتِ سیِّدُناعبداللہ بن عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ'' کچھ صحابۂ  کرام علیہم الرضوان نے آخری سات راتوں میں خواب میں شب ِقدر دیکھی تو حضورنبئ پاک، صاحبِ لَوْلاک، سیّاحِ اَفلاک صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: '' میں دیکھتا ہوں کہ تمہار ے خواب رمضان کی آخری سات راتوں میں متفق ہو گئے ہیں پس جو اِسے تلاش کرنا چاہے وہ آخری سات راتوں میں تلاش کرے۔''

  (صحیح البخاری ، کتاب فضل لیلۃ القدر ، باب التماس لیلۃ القدر۔۔۔۔۔۔الخ، الحدیث ۲0۱۵، ص۱۵۷)

    ام المؤمنین حضرتِ سَیِّدَتُنا عا ئشہ صدیقہ رضی اللہ تعا لیٰ عنہاسے مروی ہے کہ '' نبئ مُکَرَّم،نُورِ مُجسَّم، رسولِ اَکرم، شہنشاہ ِبنی آدم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم رمضا ن المبارک کے آخر ی دس دنوں میں عبادت کے لئے کمر بستہ ہوجاتے ،خود بھی تمام را تیں جاگ کر گزارتے اور گھر وا لو ں کو بھی جگا تے ۔''

 (صحیح البخاری،کتاب فضل لیلۃ القدر،باب العمل فی العشرالاواخرمن رمضان،الحدیث۲0۲۴،ص۱۵۸۔صحیح ابن خزیمۃ،کتاب الصیام،باب استحباب احیاء لیالی العشر الاواخرمن شھر رمضان۔۔۔۔۔۔الخ،الحدیث۲۲۱۴،ج۳،ص۳۴۱)

شب قدر کی علامات :

    حضرتِ سیِّدُناجابربن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ نور کے پیکر، تمام نبیوں کے سَرْوَر، دو جہاں کے تاجْوَر، سلطانِ بَحرو بَر صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ رحمت نشان ہے: ''میں نے شب قدر کو دیکھاپھرمجھے بھلا دی گئی۔ لہٰذا تم اسے رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں تلا ش کرو اور(اس کی پہچان یہ ہے کہ)یہ ایک خوشگوار را ت ہے، نہ گرم، نہ سرد، اس رات چا ند کے ساتھ شیطان نہیں نکلتایہا ں تک کہ فجر طلو ع ہو جاتی ہے ۔''

 (صحیح ابن خزیمۃ ،کتاب الصیام ،باب صفۃ لیلۃالقدر بنفی الحرو البرد ۔۔۔۔۔۔الخ، الحدیث۲۱۹0، ج۳، ص۳۳0، مختصر)

لیلۃ القدرکی دعا:

    حضرتِ سَیِّدَتُناعائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہانے عرض کی: ''یارسول اللہ عزَّوَجَلَّ وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم! اگرمجھے شب ِ قدر کا علم ہو جا ئے تو میں کیا دعا کروں؟'' توحضور سیِّدُالْمُبَلِّغِیْن، جنابِ رَحْمَۃٌ لِّلْعٰلَمِیْن صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: تم یہ دعا کرو: '' اَللّٰھُمَّ اِنَّکَ عَفُوٌّ کَرِیْمٌ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّیْ یعنی اے اللہ عزَّوَجَلَّ! تو بہت معاف کرنے والا، کرم فرمانے والا ہے۔ معاف کرنے کو پسندفرماتا ہے پس مجھے معاف فرمادے۔''

 (جامع الترمذی ،کتاب الدعوات،باب فی فضل سؤال العافیۃ والمعافاۃ، الحدیث۳۵۱۳، ص۲0۱۳)

ستائیسویں رات شبِ قدر ہے:

    حضرتِ سیِّدُنا محمد بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ حضرتِ سیِّدُنا عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ مہاجرین صحا بہ کے گروہ میں تشریف فرما تھے۔ حضرتِ سیِّدُنا ابن عبا س رضی اللہ تعالیٰ عنہما بھی مو جو د تھے کہ شب ِقدر کا تذکرہ ہو ا،پس ان حضرات نے شب ِقدر

کے متعلق جوکچھ سن رکھا تھا، کہہ دیا لیکن حضرتِ سیِّدُنا ابن عبا س رضی اللہ تعالیٰ عنہما خا مو ش رہے۔ حضرتِ سیِّدُنا عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے استفسار فرمایا:''اے عبداللہ بن عباس! آپ گفتگوکیوں نہیں کر رہے؟ آپ بھی کچھ بولئے! بولنے پر پابندی نہیں۔''تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کچھ یوں گویاہوئے: ''بے شک اللہ عزَّوَجَلَّ طاق ہے اور طاق کو پسند فر ما تا ہے ۔اس نے ایّامِ دنیا کو اس طرح بنایا کہ وہ سات کے گردچکرلگا رہے ہیں (یعنی ہفتہ میں سات دن ہیں)، انسان کوبھی سات چیزوں سے پیدا کیا۔ ہمارے رزق کوبھی سات چیزوں سے پیدا کیا ،ہمارے اوپرسات آسمان بنائے اورنیچے سات زمینیں بچھائیں، سات سمندر بنائے، سجدے میں زمین پر لگنے والے اعضاء سات بنائے، قرآنِ مجیدمیں سات قسم کے رشتہ داروں سے نکاح حرام فرمایا اور سات قسم کے ورثاء پروراثت تقسیم فرمائی، حضور نبئ کریم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کوسورۂ فاتحہ کی سات آیات عطا فرمائیں اور شیاطین کو بھی سات کنکریاں ماری جاتی ہیں۔لہٰذا میرا خیال ہے کہ شب ِ قدر رمضا ن کی ستا ئیسو یں را ت ہے ۔ اور اللہ تعالیٰ زیادہ بہتر جانتا ہے۔'' امیر المؤمنین حضرتِ سیِّدُنا عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ متعجب ہوئے اور ارشاد فرما یا : ''اے لوگو! ابن عبا س کی طر ح کون روایت بیا ن کرسکتا ہے؟۔''         (حلیۃ الاولیاء،عبداللہ بن عباس، الحدیث۱۱۲۳،ج۱،ص۳۹۲،بتغیرٍ)

    منقول ہے کہ اس سو ر ت کے کلما ت کی تعدا د تیس ہے اور حَتّٰی مَطْلَعِ الْفَجْرپراس کا اختتام ہے اور ''ھِیَ'' ستائیسواں کلمہ ہے، یہ اس بات پر دلیل ہے کہ شب قدر ستا ئیسو یں رات ہے۔

 (تفسیر ابن کثیر، سورۃ القدر، تحت الآیۃ۵، ج۸، ص۴۳۱)

شب ِ قدر کے نور کے متعلق مختلف اقوال:

     ایک قو ل یہ ہے کہ اس رات کو نو ر کے ساتھ خاص کیاگیااور فضلیت دی گئی ہے جو آسما ن سے اللہ عزَّوَجَلَّ کے نو ر ی جھنڈے کی مثل نا ز ل ہو تا ہے۔ ایک قو ل یہ ہے کہ وہ نور بڑے خیمے کی مثل ہے ، بعض نے کہا کہ وہ طو بیٰ در خت کا نو ر ہے، بعض نے کہاکہ رحمت کا نو ر ہے، بعض نے کہا کہ حمد کے جھنڈے کا نو ر ہے، بعض کا قو ل ہے کہ ملا ئکہ کے پروں کا نو ر ہے،ایک قو ل یہ بھی ہے کہ عبادتِ الہٰی عَزَّوَجَلَّ کا نو ر ہے،ایک قول یہ ہے کہ اہلِ معرفت کے اسرارکا نو ر ہے ۔ایک قول یہ ہے کہ یہ ہیبت کا نو ر ہے۔
    پھر شبِ قدر ایسی پسندیدہ رات ہے جوتما م را تو ں سے افضل ہے ۔بعض علماء کرام رحمہم اللہ تعالیٰ نے اللہ عزَّوَجَلَّ کے اس فرمان ''لَیْلَۃُ الْقَدْرِخَیْرٌ مِّنْ اَلْفِ شَہْرٍ'' کی یہ تفسیر کی ہے کہ اس سے مرادہے کہ اس ایک را ت میں ہزار مہینوں سے زیادہ رحمت ہوتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے (گویا اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے کہ ) اس ایک را ت میں نا فر ما نو ں اور گناہگاروں پر میری اس سے زیادہ رحمت ہوتی ہے جتنی ہزارمہینوں میں اُن پر ہو تی ہے۔اس رات کو شب ِقدر کہنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اللہ عزَّوَجَلَّ کے ہا ں اسکی قد ر و منز لت اور عظمت بہت زیادہ ہے۔ حضرتِ سیِّدُنا ابو الفضل رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ کا قو ل ہے کہ شب ِ قدر میں رزق ،مو ت، امراض ، مصا ئب ،بلا ئیں، عافیت، فرحت ، سرور،نفع و نقصا ن اور آئندہ سال کی شب ِ قدر تک کی تمام باتیں لکھ دی جاتی ہیں۔

شب ِ قدر فرشتے جھنڈے لے کر اُترتے ہیں:

    حضرتِ سیِّدُنا ابوہریر ہ اورعبداللہ بن عبا س رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے مروی ہے کہ شہنشاہِ خوش خِصال، پیکرِ حُسن وجمال، دافِعِ رنج و مَلال، صاحب ِجُودو نوال، رسولِ بے مثال، بی بی آمنہ کے لال صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم ورضی اللہ تعالیٰ عنہاکا فرمانِ جنت نشان ہے: ''جب شب ِ قدر آتی ہے تو سِد رۃُالمنتہیٰ میں رہنے وا لے فر شتے اپنے ساتھ چارجھنڈ ے لے کر اُترتے ہیں۔ حضرت جبرائیل (علیہ السلا م )بھی ان کے سا تھ ہوتے ہیں۔ ان میں سے ایک جھنڈا میرے دفن کی جگہ پر، ایک طو رِ سینا پر، ایک مسجد ِ حرام پر اور ایک بیتُ المقدَّس پر نصب کرتے ہیں ،پھر وہ ہر مؤمن اور مؤمنہ کے گھر داخل ہو کر انہیں سلام کہتے ہیں :''اے مؤ من مرد اور عورت ! اللہ عزَّوَجَلَّ تمہیں سلام بھیجتاہے۔''  (تفسیرقرطبی،سورۃالقدر،تحت الآیۃ۵،الجزء العشرون،ج۱0،ص۹۷) اور جب فجر طلو ع ہوتی ہے تو سب سے پہلے حضرتِ جبرائیل (علیہ السلا م )زمین وآسماں کے درمیان بلندی پر چلے جاتے ہیں اور اپنے بازو پھیلا دیتے ہیں۔ اور سورج بغیر شعاعوں کے طلوع ہوتا ہے، پھر جبرائیلِ امین (علیہ السلام)فرشتوں کو ایک ایک کرکے بلاتے ہیں اور فرشتوں کا نور اور جبرائیل کے پروں کا نور اکٹھا ہو جاتا ہے اور بغیر شعاعوں کے دُودھیا سورج طلوع ہوتا ہے پس جبرائیلِ امین اور دیگر فرشتے مؤ منین و مؤمنات کے لئے دعائے مغفرت کرنے کے لئے زمین وآسماں کے درمیان ٹھہر جاتے ہیں۔ جب شا م ہو تی ہے تو آسما نِ دنیاپر جاتے ہیں توآسما ن کے فر شتے ان سے پوچھتے ہیں:''ہمارے قابل احترام فرشتوں کو مرحبا! کہا ں سے آرہے ہو؟'' تو یہ کہتے ہیں: '' ہم امتِ محمدیہ(علٰی صاحبہا الصلٰوۃ والسلام) کے پاس سے آرہے ہیں۔''
    آسمانِ دنیا کے فرشتے پوچھتے ہیں: ''اللہ عزَّوَجَلَّ نے ان کے ساتھ کیا معاملہ فرمایا ہے؟'' تو وہ جواب دیتے ہیں: ''امتِ محمدیہ (علٰی صاحبہا الصلٰوۃ والسلام) کے نیک لوگوں کوبخش دیاگیا اور گنہگاروں کے حق میں اُن کی شفا عت قبو ل کر لی گئی ۔'' تو وہ فرشتے صبح تک اس نعمت کے شکر میں اللہ عزَّوَجَلَّ کی تسبیح وتحمید اور پاکی بیان کرتے رہتے ہیں جواس نے امتِ محمدیہ (علٰی صاحبہا الصلٰوۃ والسلام)کو عطافرمائی۔ پھرآسمانِ دنیا کے فرشتے اُن سے ایک ایک مر د و عورت کے متعلق پوچھتے ہوئے کہتے ہیں: ''فلا ں مرد نے کیا کیا ؟فلا ں عورت نے کیا کیا ؟''تو وہ کہتے ہیں : ''ہم نے فلا ں شخص کو گذشتہ سال عبا دت کرتے ہوئے پا یا تھا اور اس سال بد عت پر عمل کرتے پا یا۔''تو آسمانِ دنیا کے فر شتے اس کے لئے استغفا ر کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔پھروہ کہتے ہیں: ''گذشتہ سال ہم نے فلاں شخص کو بد عتی پایا تھا مگر اس سا ل عبا دت کر تے ہو ئے پا یا۔'' تو فر شتے اس کے لئے دعا و استغفا ر کرنےلگتے ہیں۔ پھر کہتے ہیں: ''ہم نے دیکھا کہ کوئی ذِکْرِ الٰہی کر رہا ہے، کوئی رکوع میں ہے، کوئی سجدے میں ہے، کوئی تلاوتِ قرآن میں مگن ہے اور کوئی رو رہا ہے۔'' تو فرشتے ان کے لئے بھی دعا و استغفا ر شروع کر دیتے ہیں ۔
    پھر وہ دو سر ے آسما ن کی طر ف جا تے ہیں اور اس طر ح وہ ہر آسما ن میں ایک دن رات امت محمدیہ کے لئے استغفار کرتے رہتے ہیں یہاں تک کہ اپنے قیام کی جگہ سدرۃ المنتہیٰ میں پہنچ جاتے ہیں۔سد ر ۃ المنتہیٰ ان سے پوچھتاہے: ''آج کل کہاں غائب ہو ؟'' تو وہ کہتے ہیں : ''ہم شب ِ قدرمیں اللہ عزَّوَجَلَّ کی رحمت کے نزول کے وقت اہلِ زمین کے پا س تھے۔'' سدرۃ المنتہیٰ کہتا ہے: ''رب عَزَّوَجَلَّ نے ان کے سا تھ کیا معا ملہ فرمایا ؟'' کہتے ہیں: ''نیکوں کوبخش دیا گیا اور بر و ں کے حق میں ان کی شفا عت قبو ل کرلی گئی ۔''تو سدرۃالمنتہیٰ خو شی سے جھُو منے لگتاہے اور اللہ عزَّوَجَلَّ کی تسبیح اور ہر عیب سے اس کی پاکی بیان کرتا ہے، اور اس پر شکر کر تا ہے جو اللہ عزَّوَجَلَّ نے امتِ محمديہ (علٰی صاحبہا الصلٰوۃ والسلام) کو عطا فرمایا۔ توجنت الما ویٰ جھانک کر پوچھتی ہے: ''اے سد ر ۃ المنتہیٰ! کیوں جھو م رہا ہے ؟ ' ' وہ جواب دیتا ہے:'' مجھے میرے رہنے والوں نے حضرتِ جبرائیل علیہ السلام کے حوا لے سے خبر دی ہے کہ اللہ عزَّوَجَلَّ نے امتِ محمديہ علٰی صاحبہاالصلٰوۃوالسلام کو بخش دیا اور بروں کے حق میں نیکوں کی شفاعت قبول فرمالی ہے۔''تو جنت الما ویٰ بلند آوا ز سے اللہ تعالیٰ کی تسبیح و تحمید اور تقدیس کر تی ہے، اور اس پر شکر ادا کرتی ہے جو اللہ عزَّوَجَلَّ نے اس امت کو عطا فرمایا۔
     جب''جنتِ نعیم'' سنتی ہے توجھا نک کرپوچھتی ہے:'' اے جنتُ الماویٰ! کیا ہو ا ؟ '' تو وہ کہتی ہے:''مجھے سد ر ۃُ المنتہیٰ نے اپنے رہنے والو ں کے حو ا لے سے حضرتِ جبرائیل علیہ السلا م سے سن کر خبر دی ہے کہ ''اللہ عزَّوَجَلَّ نے امتِ محمدیہ علی صاحبہا الصلوٰۃ والسلام کو بخش دیا اور گنہگاروں کے حق میں نیکوں کی شفا عت قبول فرما لی ہے۔'' تو جنتِ نعیم بھی اسی طرح پکارتی ہے پھر جنتِ عد ن، پھر اس سے کرسی سنتی ہے تو اسی طرح کہتی ہے پھر عر ش سنتا ہے تو پوچھتا ہے: ''اے کرسی کیا ہوا؟'' تو کرسی کہتی ہے: ''مجھے جنتِ عد ن نے جنتِ نعیم کے حو ا لے سے ،جنت ُ الما ویٰ سے سن کرکہ اس نے سِدْرۃُ المنتہیٰ سے، اس نے اپنے رہنے والو ں سے، انہو ں نے حضرتِ جبرائیل(علیہ السلا م )سے سن کر خبر دی کہ اللہ عزَّوَجَلَّ نے امتِ محمدیہ (علٰی صاحبہاالصلٰوۃوالسلام) کو بخش دیا اور نافرمانوں کے حق میں نیکو ں کی شفا عت قبو ل فر ما لی ہے۔''یہ سن کر عرش بھی خو شی سے جھومنے لگتاہے تو اللہ عزَّوَجَلَّ پوچھتا ہے: ''کیا ہوا؟''حا لا نکہ وہ جا نتا ہے۔ عرش کہتا ہے :''یا رب عَزَّوَجَلَّ ! مجھے کر سی نے حضرتِ جبرائیل علیہ السلا م کے حو ا لے سے خبر دی کہ تونے امتِ محمد يہ علٰی صاحبہا الصلٰوۃوالسلام کو بخش دیا اوربر و ں کے حق میں نیکوں کی شفا عت قبول فرما لی ہے ۔'' تو اللہ عزَّوَجَلَّ فرما تا ہے جبرائیل نے سچ کہا ،سد ر ۃُ المنتہیٰ نے سچ کہا، جنت الما ویٰ نے سچ کہا ، جنت نعیم ، جنت عدن، کرسی اوراے عرش! تو نے بھی سچ کہا ۔میں نے امتِ محمد يہ(علٰی صاحبہاالصلٰوۃوالسلام)کے لئے وہ اجر و ثواب تیا ر کیا ہے جونہ تو کسی آنکھ

نے دیکھا ، نہ کسی کا ن نے سنا اور نہ ہی کسی کے دل میں اس کا خیال گزرا۔''
    پیارے اسلامی بھائیو!دیکھو! اللہ عزَّوَجَلَّ نے تم پر اپنا خاص انعا م و اکر ا م فرمایا اور بغیر کسی بدلے کے بڑی بڑی نعمتیں عطا فرمائیں او ر اپنے محبوب، نبئ رحمت صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم سے نوازااور ان کی برکت سے ہلا کت سے بچا یا اور گناہگا رو ں کو بخش کر نیکو ں میں شا مل فرمایا اور ہدا یت عطا فرمائی ۔اللہ تعالیٰ تم پر رحم فرمائے! اپنی زندگی کے ایام میں رحمتِ الٰہی عَزَّوَجَلَّ حا صل کرنے کی کو شش کر و کیونکہ موت کے فرشتے نے کُوچ کااعلا ن کر دیا ہے اور شب ِ قدر کو غنیمت جانو،شا ید! تم سعا د ت مند و ں کے گروہ میں شامل ہو جاؤ اس لئے کہ یہ را ت زمانے کی تمام را تو ں سے افضل ہے اورہزا ر مہینوں سے بہتر ہے۔جوبھی اس رات میں دعا کر تا ہے اللہ عزَّوَجَلَّ اس کی دعا قبول فرما تا اور اس کی آرزو اور مقصد پورا فرماتا ہے ۔ جو بھی کچھ مانگتا ہے اللہ تعالیٰ اس کو عطا کرتااور اس پرفضل وکرم فر ما تا ہے۔جس نے شب ِقدرکو عبادت میں گزارا وہ کامیاب ہوگیا ۔کتنا سعادت مند ہے وہ شخص جس نے اس کو دیکھ لیا بلاشبہ اس نے قابل فخر بھلائی کو پالیا۔صحیح سند کے ساتھ مروی ہے کہ شب ِ قدر طاق راتوں میں تلاش کی جاتی ہے پس اسے طاق راتوں میں تلاش کروتو کامیاب ہو جاؤ گے۔
    اے سیدھی راہ سے بھٹکنے وا لے! کیا تو ہلا کت کے انجا م سے نہیں ڈر تا؟کیا مو ت کی آوا ز نہیں سنتا؟کیا تو اب بھی سیدھے راستے کا سو ال نہیں کر ے گا؟ کیا تو شب ِ قدر کو غنیمت نہیں سمجھتا جو تیرے دل سے ز نگ کو دُورکردے۔
    اے اللہ عزَّوَجَلَّ! سوالی تیری رحمت کے دروازے پر کھڑے ہیں اور فقراء تیری بارگاہ میں حاضر ہیں اور مساکین کا سفینہ تیرے بحرِ کرم کے ساحل پر کھڑ اہے جو تیری وسیع رحمت کی اُمید رکھتے ہیں۔ یاا لہ العا لمین عَزَّوَجَلَّ ! اس مہینے اگر تو صرف ان لوگوں کی ہی عزت بلند کر ے گا جنہوں نے تیری رضاکے لئے روزے رکھے اور قیام کیا تو  گناہوں کے سمندر میں غرق لوگ کہاں جائیں گے؟ اگرتو صرف اطاعت کرنے والوں پررحم فرما ئے گا تو نافرمانوں کا کیا بنے گا؟ اگر تو صرف نیکوں کوقبول فرمائے گا تونافرمانوں کو کون سہارا دے گا؟ یا الٰہی عَزَّوَجَلَّ !روزے دارکامیاب ہو گئے، راتوں کوقیام کرنے والے کامیابی کی چوٹی پرپہنچ گئے اور اخلاص والے نجات پاگئے، یَا اَرْحَمَ الرَّاحِمِیْن عَزَّوَجَلَّ! ہم تیرے گنہگاربندے ہیں، ہم پررحم فرما اور ہمیں اپنے فضل و احسان سے نواز دے اورہم سب کواپنی رحمت کے ذریعے بخش دے۔(آمین)

اَللّٰہُمَّ صَلِّ عَلٰی سَیِّدِنَاوَمَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی اٰلِہٖ وَصَحْبِہٖ وَبَارِکْ وَسَلِّمْ