The Biography of Makhdoom Ashraf Jahangir Simnani Kichhauchha Sharif

 

Imaan e Abu Talib (Urdu)

Ashrafi Dulha (Roman Urdu)

Hayat e Syed Sultan Makhdoom Ashraf (Urdu)

 

Aala Hazrat Ashrafi Miyan (English)

Huzoor Ka Saya Na Tha (Hindi)

Hazrat Imam Hussain Aur Yazeed Paleed (Urdu)

Haji Syed Abdur Razzaq Noorul Ain Ashrafi (Urdu)

Aala Hazrat Aur Radd e Bid’at (Roman Urdu)

 

Mufti Azam Hind Ki Namaz Janazah (Udru)

Nafs ka Pujari Wahabi Deobandi

 

Sultan Salah Uddin Ayyubi Al Shafai

Khanwada e Ashrafia Ki Aalmi Darsagahen

 

Kamaat e Sultan Syed Ashraf Jahangeer Simnani Kichhauchha Sharif

Shajra Qadria Chishistiya Ashrafia

 

Deobandiyon ki Rasool Dushmani (Hindi)

Aala Hazrat Ashrafi Miyan Kichhauchhawi Alahirrahmah

Aala Hazrat Radde BidAt

Hazrat Khwaja Muhammad Nabi Raza Shah Lucknow

 

آپ  علیہ الرحمہ  سلسلہ ابو العلا ئیہ جہانگیریہ کے عظیم رہنما گزرے ہیں ۔

حسب و نسب: آپ کے جد امجدحضرت حاجی الحرمین شریفین محمد الف خان صاحب قبلہ قدس سرہ ابن حضرت محمد جان صاحب قبلہ ابن حضرت عبد اللہ خاں صاحب قبلہ علیہ الر حمہ ۔جو ولایت افغانستان قصبہ شیخ جاناں ضلع پشاور سے ترک سکونت کرکے قصبہ بھینسو ڑ ی شریف ضلع رام پور یو پی میں آباد ہوئے۔

حضرت محمد الف خان صاحب قبلہ حسن میں لاثانی علم و فضل میں یکتا۔اخلاق و انکساری استقلال و سخاوت میں بے نظیر اوقات کے پابند۔اور مرید و خلیفہ حضرت شاہ نواز خان صاحب قبلہ رحمۃ اللہ علیہ (حضرت شاہ نواز خان صاحب قبلہ رحمۃ اللہ علیہ کا مزار موضع گو گئی تحصیل میر گنج ضلع بریلی میں بے) بڑے صاحب کرامت بزرگ تھے۔

حضرت محمد الف خان صاحب رحمۃ اللہ علیہ کو اپنے پیر و مرشد سے انتہائی عشق تھا۔اور آپ کو اپنے پیر و مرشد کی طرف سے خلافت و اجازت بھی حاصل تھی۔حضرت محمد الف خان صاحب کے خاص مرید حضرت سید کرامت علی صاحب رحمۃ اللہ علیہ باشندہ نگریا سادات و حضرت وارث علی شاہ قدس سرہ باشندہ قصبہ بھینسوڑ ی قابل ذکر ہیں۔آپ کی کرامتیں بہت مشہور ہیں۔

حضرت دادا جا ن محمد الف خان صاحب کے تین صاحبزادے تھے۔(1) حضرت شاہ زماں خاں صاحب(2) حضرت محمد زماں خاں صاحب(3) حضرت مولانا حسن رضا خاں صاحب (والد محترم حضرت خواجہ نبی رضا شاہ المعروف دادا میاں لکھنؤ) اور دو لڑکیاں چھوڑ کر 1869 عیسوی میں عازم ملک بقا ہوئے۔

قبلہ دادا میاں لکھنؤ کے والد محترم حضرت مولانا حسن رضا خاں صاحب رحمۃ اللہ علیہ ابن حضرت محمد الف خان صاحب رحمۃ اللہ علیہ قصبہ بھینسوڑ ی کے ممتاز شرفا سے تھے۔سلسلہ معاش آپکا زمینداری سے تھا۔آپ نہایت خلیق منکسر المزاج متقی پرہزگار۔ہمدرد و رحم دل انسان تھے۔ہر نیک صفات میں یکتائے زمانہ تھے۔ہمیشہ شبہ کے غذا سے پرہیز فرماتے۔رزق حلال اور صدق مقال کے انتہائی پابند تھے۔

آپ کی چار اولادیں ہوئیں۔(1) حضور قطب العارفین اسد جہانگیر حضرت خواجہ محمد نبی رضا شاہ المعروف دادا میاں قدس سرہ لکھنؤ(2) حضرت محمد علی حسن خاں صاحب قبلہ(3) حضرت خواجہ محمد یوسف حسن خان صاحب شہید قدس سرہ(4) حضور سلطان العاشقین حضرت خواجہ محمد عنایت حسن خاں صاحب قبلہ قدس سرہ مرید و خلیفہ وسجادہ نشین دادا میاں لکھنؤ۔) چھوڑ کر 21 جمادی الاولی 1304 ھ کو و صال فرمایا۔قبرستان بھینسوڑی میں آسودہ ہیں۔

حضرت دادا میاں شاہ رضا علیہ الر حمہ کی والدہ ماجدہ نہایت پرہیزگار بی بی تھیں۔بہت منتظم پابند صوم و صلوٰۃ درود و وظائف۔اور آپ حضرت سید محمد مشتاق شاہ صاحب قبلہ قدس سرہ رامپوری کی مریدہ تھیں۔حضرت سید محمد مشتاق میاں صاحب قبلہ اپنے مریدوں میں اکثر آپکے انتظام امور خانہ داری و تقویٰ طہارت کی تعریف فرمایا کرتے تھے۔ آپ حضرت محمد حیات خاں صاحب رئیس اعظم قصبہ داتا گنج ضلع بدایوں کی دختر نیک اختر تھیں۔آپکا وصال پاک 26/جمادی الاولی 1345 ھ کو بعمر 80 سال ہوا۔قبرستان بھینسوڑ ی شریف میں آسودہ ہیں

ولادت اور تعلیم: آپ کی ولادت شریف 25/ ربیع الاول 1284 ھ بروز دو شنبہ کو بھینسوڑی شریف ضلع رام پور یو پی میں ہوئی۔ آپکی والدہ ماجدہ مخدومہ کا ارشاد ہے کہ جب آپ قدس سرہ اس عالم میں تشریف لائے تو کمال خیر و برکت ہر معاملے میں ہو گئی۔اور آپ کے حسن و جمال سے سارا گھر روشن و منور ہو گیا۔

صغیر سنی ہی سے ترقی کے آثار نمایاں تھے۔لہو و لعب سے شروع سے نفرت رہی۔جب عمر شریف چار سال چار ماہ کی ہوئی تو والد ماجد نے بسم اللہ شریف کی رسم ادا کی۔اور صدھا مساکین کو طعام تقسیم فرمایا۔اور قرآن پاک کی تعلیم شروع کرادی۔قرآن پاک کی تعلیم کے بعد علوم عربی۔فارسی۔ریاضی۔تاریخ۔جغرافیہ وغیرہ کی تعلیم مولوی جمشان خان صاحب و مولوی محمد حسین صاحب ولایتی میاں صاحب قبلہ سےحاصل کی۔

آپ رضی اللہ عنہ نہایت ذہین متین زود فہم اور قوی الحفظ تھے۔بہت جلد تمام علوم کی تکمیل ہوگئی۔بعد ازاں آپکو ورزش جسمانی کا شوق ہوا۔والد بزرگوار نے ورزش کے لئے خاص انتظام فرمایا۔والد صاحب آپ سے بے حد محبت فرماتے تھے۔اچھی اور مقوی غذا کا آپ کے لئے خاص طور پر اہتمام رہتا تھا۔آپ ماشاء اللہ جوان بھی ایسے تھے کہ ہزاروں لاکھوں میں یکتا اور پہلوان بھی ایسے ہوئے کہ لاثانی جو دیکھتا وہ یہی کہتا کہ ہم نے ایسا خوبصورت جوان دیکھے نہ سنے۔

عقد نکاح: 1886عیسوی میں والد صاحب نے اپنے عزیزوں میں قصبہ در آؤ ضلع نینی تال خان بہادر خان صاحب تحصیلدار و زمیندار کی صاحبزادی کے ساتھ نہایت ہی تزک و احتشام کے ساتھ آپ کی شادی کی۔

ملازمت: شادی کے ایک سال بعد والد صاحب کی مرضی کے مطابق رجمنٹ سکنڈ بنگال لانسر زمیں آپنے ملازمت اختیار فرمائی۔آپکے ساتھ آپ کے بھائی تہور علی خاں صاحب اور آپ کے ماموں علی رضا خاں صاحب بھی ملازم ہوئے تھے۔ایک سال بعد 21 جمادی الاولی 1304 ھ کو حضرت والد صاحب قبلہ قدس سرہ کی اچانک وفات ہو گئی۔جس کا آپ کو بیحد صدمہ ہوا۔وفات کی خبر سن کر پردیش سے مکان تشریف لائے اور اپنے والد صاحب قبلہ کے ایصال ثواب و فاتحہ میں شریک ہوئے پھر ملازمت پر واپس تشریف لے گئے۔تھوڑے عرصے میں آپ ترقی پاکر عہدے دار ہوگئے۔یوروپین لوگ آپکا انتہائی لحاظ کرتے تھے۔رجمنٹ میں آپ سے زیادہ طاقتور خوبصورت جوان اسوقت کوئی نہ تھا۔کرنل صاحب نے خاص طور پر مضبوط ویلر گھوڑا آپکی سواری کے لئے منتخب کیا تھا۔

طاقت و قوت: الہ آباد چھاؤنی کا واقعہ ہے کہ ایک روز دس بارہ جوان آپکے ہمراہ تفریح کے لیے ایک باغ میں تشریف لے گئے۔باغ کے کنوئیں پر آب پاشی کا چرس تھا جس کو بہت مضبوط بیلوں سے نکالا جاتا تھا ہمراہیوں نے کئی کئی مل کر زور آزمائی کی مگر نہ نکال سکے جب سب عاجز ہوگئے تو آپنے تنہا بسم اللہ پڑھ کر بھرے ہوئے چرس کو کوئین سے باہر کھینچ لیا۔سب متعجب ہوئے۔اسوقت لوگوں کو آپکی طاقت خداداد کا حال معلوم ہوا۔کچھ عرصہ بعد الہ آباد سے رجمنٹ کا تبادلہ کلکتہ چھاؤنی کو ہو گیا۔کلکتہ میں ان دنوں کوئی باہر کا پہلوان بہت مشہور اور طاقتور آیا ہوا تھا۔اس پہلوان سے کشتی کے لئے کوئی آمادہ نہیں ہوتا تھا۔فوج میں بھی یہ خبر پہنچی اس زمانہ میں آپ کی طبیعت ناساز رہتی تھی۔مگر آپنے بکمال جرات اس نووارد پہلوان سے کشتی لڑنے کا اعلان فرمادیا۔یہ خبر تمام شہر کلکتہ میں مشہور ہوگئی۔ہزارہا عوام و خواص دنگل دیکھنے جمع ہو گئے۔نواب سر سلیم اللہ خاں صاحب بہادر نواب ڈھاکہ اس وقت کلکتہ میں مقیم تھے۔وہ بھی کشتی دیکھنے آئے۔اللہ کے فضل و کرم سے آپ نے اس باہر کے پہلوان کو زیر کر لیا۔اس پر فوج میں بڑی خوشی منائی گئی۔کرنل صاحب اور دیگر سرداران فوج نے اس خوشی میں بہت روپیہ خرچ کیا۔نواب صاحب ڈھاکہ آپکا جمال جہاں آراء دیکھ کر گرویدہ ہو گئے۔اور ہر امکانی کوشش کے ساتھ آپ کو فوج کی ملازمت سے سبکدوش کراکر اپنے ہمراہ ڈھاکہ لے گئے۔اور نہایت ہی اعزاز و اکرام کے ساتھ مصاحبت میں رکھا۔نواب صاحب آپ سے اسقدر محبت کرتے تھے کہ کسی وقت آپکو جدا کرنا گوارا نہیں کرتے تھے۔

تذکرہ بیعت: آپ حضرت فخر العارفین حضرت خواجہ علامہ سید شاہ عبد الحی شاہ جہانگیر ثانی۔قدس سرہ متوفی 1339 ھ مرزا کھل شریف۔چاٹ گام بنگلہ دیش۔کے مرید خاص و خلیفہ اعظم ہیں۔

حضور فخر العارفین خود ارشاد فرماتے ہیں کہ جب ہم ہندوسان کے سفر پر نکلے اور کلکتہ میں قیام ہوا تو دوسرے روز تہجد کی نماز کے بعد یہ معلوم ہوا کہ سارا مکان جنبش میں بے۔دریافت سے یہ پتہ چلا کہ ہمارے قیام گاہ کے برابر دوسرے کمرے میں حضرت نبی رضا شاہ صاحب اس وقت ورزش کر رہے تھے جس کی وجہ سے یہ معلوم ہوتا تھا کہ وہ منزلہ مکان جنبش کر رہا ہے۔ہم نے خدا سے التجا کی کہ ان(حضرت نبی رضا شاہ) کو ہمیں بخش دے۔اللہ تعالیٰ نے ہماری دعا قبول فرما لی اور اسی روز شام کو حضرت نبی رضا شاہ صاحب بكمال آرزو و محبت ہمارے پاس آکر مرید ہوگئے۔ہم نے خدا کا شکر ادا کیا۔رات کو غیبی توجہ ہوئی اور بہت دیر تک کمرے میں بے چینی اور بيقراری سے تڑپتے رہے۔خدا نے ان کے حال پر بہت کرم فرمایا۔اور نوازدیا۔ہم نے بھی ان کو ضروری تعلیم و تلقین کرکے خدا کے سپرد کیا۔

مجاہدہ: حضرت خواجہ نبی رضا شاہ المعروف دادا میاں نےمرید ہونے کے بعد تقریبآ ایک سال تک نواب صاحب کی مصاحبت کی پھر آپ پر اللہ کا عشق اس قدر غالب آگیا کہ نواب صاحب کی رفاقت ترک کرنے پر مجبور ہوگئے۔ترک ملازمت کے بعد بہت زیادہ ریاضت و مجاہدہ آپنے کیا۔جس کی مثال اس زمانہ میں ملنا دشوار ہے۔عرصہ دراز تک آپکا قائم اللیل و صائم النہار رہنے کا معمول شریف رہا۔اکثر عشا کے وضو سے فجر کی نماز ادا فرماتے تھے۔ہمیشہ ذکر و فکر میں مشغول رہتے تھے۔

اعتکاف اور چلے

آپنے ایک چلہ مرزا کھل شریف میں مرشد کی بارگاہ میں کیا۔چالیس روز برابر دن کو روزہ رکھتے شام کو افطار کے وقت قدرے قلیل کیلے کے پتوں کی بھاجی تناول فرماتے۔اور آپنے دوسرا چلہ ڈھاکہ میں کیا۔اس میں بھی بوقت افطار کیلے کے پتوں کی بھاجی چالیس روز تک تناول فرمائی۔تیسرا چلہ بھینسوڑی شریف کی مسجد کے حجرے میں کیا۔اسوقت افطار کے لئے کھانا پہونچانے کی خدمت آپکے چھوٹے بھائی مرید و خلیفہ و سجادہ نشین حضور سلطان العاشقین حضرت خواجہ محمد عنایت حسن شاہ قدس سرہ کے سپرد تھی۔افطار کے لئے مونگ کی دال کا پانی اور ایک ہلکی چپاتی پیش کی جاتی تھی۔اس میں سے بھی چلہ ختم ہونے پر آدھی سے زیادہ روٹیاں حجرہ شریف میں پائی گئیں۔ایام چلہ میں کسی کو بات کرنے کی اجازت نہ تھی۔چلہ کے بعد نقاہت و کمزوری حد سے زیادہ بڑھ گئی۔مگر چہرہ مبارک مثل چودھویں کے چاند کی طرح روشن اور تابناک نظر آتا تھا۔

چوتھا چلہ بھی آپنے قصبہ بھینسوڑی شریف میں مسجد کے حجرے میں کیا۔جس میں افطار کے لئے صرف ایک خرما اور ایک چھٹانک پانی مقرر فرمایا تھا۔تین سال تک آپنے صرف کفنی پہنی بغیر سلا ہوا کپڑا زیب تن فرمایا۔جب آپ مرشد کی بارگاہ مرزا کھل شریف تشریف لے گئے تو مرشد کے حکم پر لباس دوبارہ پہننا شروع کیا۔

سفر: حضور خواجہ نبی رضا شاہ المعروف دادا میاں قدس سرہ چار سال تک دور دراز ملکوں۔حیدر آباد۔گلبرگہ شریف۔خلد آباد۔اورنگ آباد۔جھانسی۔اجمیر شریف۔وبنگال۔کا سفر فرماتے رہے۔سفر میں سامان بہت مختصر ہوتا تھا۔اور کمبل کا کرتا اور تہبند و کلاہ غوثیہ زیب تن رہتا تھا۔بزمانہ سفر سرمبرک کے بال دوش مبارک تک دراز رہے۔بعد ازاں مدت العمر کان کی لو تک موئے سر رہے۔

آپکا ارشاد مبارک ہے کہ ہم سفر کرتے ہوئے جب خلد آباد پہونچے تو شب کو ایک شکستہ مسجد میں قیام کا اتفاق ہوا۔سردی کا موسم تھا۔کمبل کے ساتھ چٹائی ملاکر سردی کا بچاؤ کیا۔کچھ دیر بعد بچھو نے تکلیف پہنچادی۔جس کی وجہ سے رات بھر مسجد کے صحن میں ٹہلتے رہے۔فجر سے پیشتر خون کے دست ہوئے۔بعد نماز فجر امام مسجد نے دوا پیش کی۔جس سے تکلیف میں کچھ کمی ہوگئی۔مگر ہم اسی حالت میں آگے روانہ ہوگئے۔اور مختلف مقامات کی سیاحت کرتے ہوئے۔گلبرگہ شریف حضرت خواجہ بندہ نواز گیسو دراز قدس سرہ کے مزار اقدس پر حاضری دی۔

فرماتے ہیں جب ہم گلبرگہ شریف حاضر ہوئے تو ہمارے پاس کمبل پرانا اور شکستہ تھا۔حاضر ہونے کے کچھ دیر بعد ایک صاحب نے بہتر اور قیمتی کمبل لاکر ہمارے پاس بہت اصرار کیا کہ اس کو قبول کرلیا جائے۔ہم نے جواب دیا کہ آج تو نہ لیں گے۔اگر آپ کا دل چاہے تو کل لے آنا۔رات کو ہم نے مزار شریف پر حاضر ہوکر عرض کیا کہ حضرت ہم یہاں کمبل لینے نہیں آئے ہیں۔جو چیز لینے آئے ہیں۔وہ دے دیجئے۔کہ دفعتا ہمارے سینے سے دریا جاری ہوگیا۔دوسرے دن وہ صاحب کمبل لے کر پھر آئے۔ہم نے کہا لائیے اب ضرور لیں گے۔کچھ دیر بعد مزار شریف کے احاطہ میں محفل سماع ہوئی۔ہم نے وہ نیا کمبل قوالوں کو نذر کردیا۔اور وہاں سے رخصت ہو گئے۔اور مختلف دیار و امصار کی سیاحت کرتے ہوئے۔اجمیر شریف حاضر ہوئے۔

المختصر یہ بیعت سے چند سال بعد آپ کے تعلقات روحانی اور قابلیت دیکھ کر حضرت مخدوم العالم شیخ احمد عبد الحق شاہ ردولوی قدس سرہ کے عرس شریف کے موقع پر با شارت غیبی آپکے پیر و مرشد حضور فخر العارفین حضرت خواجہ علامہ سید محمد عبد الحی شاہ جہانگیر قدس سرہ سجادہ نشین دربار جہانگیر ی مرزا کھل شریف۔چاٹ گام بنگلہ دیش نے خلافت و اجازت عطا فرمائی۔اور ارشاد فرمایا کہ اپنے اور بندگان خدا کے فائدہ کے لئے کوشش اور مجاہدہ کے ساتھ خدا اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی رضا مندی میں مشغول رہیں۔خلافت و اجازت کے بعد مرزا کھل شریف سے مراجعت فرماکر آپ اجمیر شریف حاضر ہوئے۔بارگاہ خواجہ غریب نواز قدس سرہ کے سجادہ نشین کے ذریعہ عمامہ شریف عطا ہوا۔

آپ کے ماموں حضرت محمد علی رضا خان صاحب قبلہ باشندہ شہر رامپور جو کہ پولیس انسپکٹر تھے۔بیان فرماتے ہیں کہ ایک صاحب نور محمد نامی گوالیار کے باشندہ تھے نور محمد صاحب کا معمول تھا کہ ہر سال عرس خواجہ کے موقع پر اجمیر شریف حاضر ہوا کرتے تھے۔ایک سال نور محمد صاحب نے اجمیر شریف سے واپس آکر مجھ سے یہ واقعہ بیان کیا کہ میں 6 اور 7 رجب کی درمیانی شب میں نماز تہجد کے بعد خواجہ غریب نواز کے روضہ منورہ کے مشرقی دروازہ کے سامنے مولسری درخت کے سائے میں وظیفہ پڑھ رہا تھا۔میں نے بیداری میں دیکھا کہ ایک بزرگ طویل القامت خوبصورت مزار شریف کے مشرقی دروازہ پر آئے اور بلند آواز سے سلام عرض کیا۔اسی وقت ایک دروازہ خود بخود کھل گیا۔اور اندر سے ایک ہاتھ بر آمد ہوا۔اور کوئی چمکتی ہوئی چیز ان بزرگ کے ہاتھ میں دیکر غائب ہو گیا۔اور خود بخود بند ہوگیا۔بزرگ صاحب نے اجازت طلب کی اور چند ہمراہیوں کے نام لیکر رخصتی کی اجازت چاہی۔بعد ازاں وہ بزرگ آستانہ بوسی کرکے میری طرف سے گزرے۔میں یہ عجیب و غریب حالت دیکھ کر حیرت زدہ ہو رہا تھا۔جلدی سے قدمبوس ہوکر نام اور مقام دریافت کیا۔اور دعا کا طالب ہوا۔ان بزرگ نے اپنا نام نبی رضا اور وطن رامپور بتایا۔اور فرمایا ہم دعا کرتے ہیں اور درگاہ سے باہر تشریف لے گئے۔

جب ماموں نے یہ سب سنا تو فرمایا وہ میرے بھانجے حضرت خواجہ نبی رضا شاہ ہیں جنہیں اپنے مرشد کی بارگاہ سے اسد جہانگیر کا خطاب عطا ہوا ہے۔

رشد و ہدایت و مریدین: مرشد کی بارگاہ سے خلافت عطا ہونے کے بعد آپنے رشد وہدایت کا کام شروع کیا۔اور دیکھتے دیکھتے بند گان خدا آپ سے مرید ہوکر فیضیاب ہونے لگے۔

خصوصی طور پر ریاست رامپور۔ضلع بریلی۔مراد آباد۔بجنور اور نگینہ وغیرہ کے بکثرت بندگان خدا آپ دست حق پرست پر داخل سلسلہ جہانگیریہ ابو العلائیہ ہو کر حلقہ بگوش اور فائز المرام ہوئے۔اسی دوران آپ کے چھوٹے بھائی و مرید و خلیفہ و سجادہ نشین حضرت خواجہ محمد عنایت حسن شاہ قدس سرہ بھی بیعت ہوئے۔اور رام پور و نگریہ سادات کے بے شمار اہل سادات داخل سلسلہ ہوئے۔

دوسرے سال پھر حضرت نے دربار عالی مرزا کھل شریف کا سفر اختیار فرمایا۔ڈھاکہ و بہار۔کلکتہ و چاٹ گام بنگلہ دیش سے ایک سال بعد واپسی ہوئی۔پیران کلیر شریف سرکار صابر پاک کے عرس مبارک میں ہر سال تشریف لے جاتے۔اور جب بھی کلیر شریف جاتے تو رڑکی سے کلیر شریف تک پیدل تشریف لے جاتے۔عرس کے موقع پر روزہ رکھتے اور ایام عرس میں ہمیشہ حضرت مخدوم صابر پاک کے سرہانے مراقب رہا کرتے تھے۔

حضرت علامہ سید سکندر شاہ جہانگیر ی بنارسی قدس سرہ سیرت فخر العارفین میں تحریر فرماتے ہیں کہ حضرت شاہ نبی رضا خان صاحب کے پیر و مرشد حضور فخر العارفین قدس سرہ جب اجمیر مقدس تشریف لے جاتے تو عوام کے ساتھ کھڑے ہو کر سماع سنتے۔درویشی و فقیری کا اظہار کرنا پسند نہ فرماتے۔ایک بار پیرومرشد عوام کے ساتھ کھڑے ہو کر سماع سنتے میں مشغول تھے۔اور آپ خلیفہ حضرت خواجہ نبی رضا شاہ المعروف دادا میاں مشائخ کے ساتھ مسند نشین تھے۔ناگاہ آپکی نظر پیر و مرشد پر پڑی کہ بیتاب ہو کر مرشد تک پہونچے اور قدموں میں گر پڑے۔حضرت خواجہ محمد نبی رضا شاہ قدس سرہ کو اللہ تعالیٰ نے ہر دل العزیز بنایا تھا۔اور مرشد کی دعا کی برکت سے عوام ہی نہیں بڑے بڑے مشائخ ان کی تعظیم و تکریم کرتے تھے۔اور مشائخ انہیں اصرار و التجا کے ساتھ جائے ممتاز پر بٹھاتے تھے۔اب جب اتنے بڑے شیخ کو لوگوں نے آپ کے قدموں پر دیکھا تو حیرت میں رہ گئے۔کہ اس دنیاوی لباس میں پوشیدہ یہ کون بزرگ ہیں کہ ایسے بڑے بڑے مشائخ زمانہ جن کی تعظیم بجا لاتے ہیں۔حضرت خواجہ نبی رضا شاہ صاحب نے فرمایا لوگو۔میں ان ہی کا غلام ہوں اور یہی میرے آقا و مولا ہیں۔

مریدین و خلفاء:  اجمیر مقدس و نصیر آباد و غیرہ میں بھی بے شمار لوگ سلسلے میں داخل ہو کر فیضیاب ہوئے تھے۔

جن میں چند حضرات کو آپنے خلافت و اجازت بھی عطا فرمائی۔

(1) حضور سلطان العاشقین حضرت خواجہ محمد عنایت حسن شاہ قدس سرہ برادر اصغر و سجادہ نشین دربار عالیہ لکھنؤ۔

(2)حضور تاج الاولیا حضرت خواجہ عبد الشکور شاہ جہانگیر ی نصیر آباد ی قدس سرہ مزار اقدس پاکستان۔

(3) حضرت شیخ المشائخ سیدنا احمد شاہ صاحب قدس سرہ۔

(4) حضرت شیخ المشائخ حضرت سید محمد سخاوت حسین شاہ صاحب قدس سرہ۔نگريا سادات ضلع بریلی یو پی۔

(5) حضرت شیخ المشائخ حافظ احمد علی شاہ صاحب قدس سرہ گھسیاری منڈی شہر لکھنؤ۔

(6) حضرت شیخ المشائخ مولانا عبد الحمید شاہ صاحب قدس سرہ۔صدر بازار لکھنؤ۔

(7) حضرت شیخ المشائخ سیدنا غلام نبی شاہ صاحب قدس سرہ قصبہ بھینسوڑی شریف رامپور۔یو پی۔

(8) حضرت شیخ المشائخ میر سید حافظ محمد اسماعیل صاحب بریلی شریف یو پی۔

ان خلفاء کے ذریعہ سلسلے کو کافی عروج ہوا۔اور بے شمار بندگان خدا فیضیاب ہوکر خود بھی آفتاب ہدایت بن کر چمکے۔

حلیہ شریف: حضرت قطب العارفین حضرت شاہ رضا قدس سرہ۔نہایت شکیل و جمیل ہزاروں لاکھوں میں یکتا آپ طویل القامت نہایت خوبصورت۔چہرہ مبارک گول آفتابی روشن و نورانی۔رخسارے بھرے ہوئے۔پیشانی اقدس فراخ روشن و درخشاں۔بینی پاک لمبی و خوبصورت۔سر اقدس بزرگ و کلاں۔رنگ گورا نہایت صبیح و ملیح۔چشمان مبارک کلاں و خوبصورت۔دہن پاک متوسط موزوں۔دندان پاک بزرگ۔سامنے کے دانتوں میں کھڑکی۔سینہ اقدس فراخ اسپر ناف تک بالوں کی ایک لہر تھی۔شانوں پر بھی بال تھے۔دست مبارک مائل بہ طویل۔پائے اقدس متوسط اور بیحد نرم۔ریش مبارک مشروع گھنی اور گول خوب بھری ہوئی۔آواز بلند و شیریں۔رفتار شاہانہ ہر قدم قوت کے ساتھ جما ہوا۔وضع میں سادگی۔خلوت و جلوت میں یکساں۔لبوں پر مسکراہٹ۔محض چہرہ مبارک سے آثار بزرگی و سرداری نمایاں تھے۔

معاشرت: رات کو جس وقت دیکھا گیا آپ مصلی پر ہوتے۔کبھی لیٹ کر آرام فرماتے تو خواب غفلت کی نیند نہ سوتے۔اگر کوئی آواز دیتا تو جاگنے والے کی طرح جواب دیتے۔اور برابر ذکر قلبی کی اونچی آواز آتی رہتی تھی۔کھانے کا خوش ذائقہ ہونے نہ ہونے کا مطلق خیال نہ تھا۔جو پیش کردیا گیا تناول فرمالیا۔سنت کے مطابق ہر عمل ہوا کرتا تھا۔

قبول دعوت: ہر داعی متقی و پابند شرع کی دعوت خواہ وہ کیسا ہی غریب ہو تا قبول فرما لیتے۔اور اس کے گھر تشریف لے جاتے۔مشتبہ (جس کے حرام یا حلال ہونے میں شک ہو) طعام قبول نہ فرماتے۔احیانا اگر اس قسم کا کھانا کبھی تناول فرما لیتے تو ہضم نہ ہوتا تھا۔

صفائی پسندی: طہارت اور صفائی میں بلیغ اہتمام فرماتے۔مزاج مبارک ازحد صفائی پسند تھا۔اکثر سرد پانی سے غسل فرماتے۔لباس عمدہ اور ہمیشہ صاف ستھرا ہوتا تھا۔فرائض و واجبات کی پابندی صحت ہو مرض ہر حالت میں فرماتے۔نماز کسی حالت میں بھی قضاء نہ ہوئی۔سفر ہو یا حضر اذان اقامت و جماعت سے نماز ادا کرنے کا ہمیشہ معمول شریف رہا۔جمعہ کے دن سفر نہ فرماتے۔اگر سفر میں ہوتے اور جمعہ واقع ہوتا تو جمعہ کی نماز کے لیے سفر میں وقفہ فرماتے۔اور نماز جمعہ کی ادائیگی کے بعد اجرائے سفر فرماتے تھے۔ بزرگان دین کے معمولات شریف کی آپ نے پابندی ہر حالت میں فرمائی ہے۔آخر حصہ عمر میں تو عالم ہی دوسرا تھا۔آفتاب نصف النہار کے مانند آپ کے انوار و برکات حاضرین کو مستفیض فرماتے تھے۔آپ ہمہ تن محبت تھے۔آپ کے فیضان صحبت سے دلوں میں درد اور محبت پیدا ہو جاتی تھی۔

حضور خواجہ محمد عنایت شاہ سرکار قدس سرہ اعجاز جہانگیر ی میں تحریر فرماتے ہیں کہ۔حضور دادا میاں قدس سرہ متوفی 1329 ھ کے پیر و مرشد حضور فخر العارفین حضرت خواجہ علامہ سید محمد عبد الحی شاہ جہانگیر قدس سرہ متوفی 1339 ھ اپنے مرید خاص دادا میاں کی توصیف بیان فرماتے ہوئے اکثر آبدیدہ ہو جاتے۔(ایک بات اور بتا دیں کہ حضور دادا میاں کا وصال 1329 ھ میں ہوا اور آپکے پیر و مرشد حضور فخر العارفین کا دس سال بعد 1339 ھ میں و صال ہوا۔)

ارشاد مبارک حضرت فخر العارفین ۔

(1)حضور فخر العارفین فرماتے ہیں کہ حضرت محمد نبی رضا شاہ رحمۃ اللہ علیہ کا قیام لکھنؤ میں حضرت مخدوم عالم شاہ شیخ احمد عبد الحق صابری ردولوی قدس سرہ اور حضرت مخدوم شاہ مینا صاحب لکھنوی قدس سرہ کی مرضی سے ہوا ہے۔

(2) حضرت خواجہ محمد نبی رضا شاہ صاحب لکھنؤ کے قطب ہیں۔

(3) حضرت خواجہ محمد نبی رضا شاہ کے پاس دولت خواجگان کا خزانہ ہے۔

(4) حضرت خواجہ محمد نبی رضا شاہ صاحب کو مرتبہ قطب و خواجگی حاصل ہے۔

(5) ہم نے خواب میں دیکھا کہ لکھنؤ میں عالیشان شاہی عمارت تعمیر ہو رہی ہے دریافت سے معلوم ہوا کہ یہ مکانات حضرت خواجہ محمد نبی رضا شاہ صاحب کے واسطے تیار ہوئے ہیں۔تو ہم سمجھ گئے کہ محمد نبی رضا شاہ اودھ کے بادشاہ ہیں۔

(6) ہمارے یہاں جو جس ارادے سے آیا وہ لے گیا۔دیکھو حضرت نبی رضا شاہ جھولا بھر فقیری لے گئے۔اب لوگ یہاں آتے ہیں کھانا کھاکر چلے جاتے ہیں۔

(7) اور ہمار ی باتوں کو جس طرح محمد نبی رضا شاہ صاحب نے سمجھا اس طرح اور کسی مرید کی سمجھ میں نہیں آیا۔ان کو ہماری فنائیت کامل حاصل ہوگئی۔اگر ان کو چیرا جائے تو ہم نکلیں گے۔اور اگر ہم کو چیرا جائے وہ نکلیں گے۔

 (8) حضور فخر العارفین نے ارشاد فرمایا حضرت خواجہ نبی رضا شاہ المعروف دادا میاں کامیاب ہوگئے۔

(9) ایک مدت تک حضرت نبی رضا شاہ نے موئے سر کندھوں تک اس لئے دراز رکھتے تھے کہ سر کے بالوں سے وہ ہمارے والد و پیر و مرشد (حضور شیخ العارفین غوث زماں حضرت علامہ سید محمد مخلص الرحمٰن شاہ جہانگیر قدس سرہ مرزا کھل شریف بنگلہ دیش)کے روضہ منورہ کی صفائی کیا کرتے تھے۔

(10) حضرت نبی رضا شاہ صاحب کو حضرت مخدوم الملک شیخ احمد عبد الحق شاہ ردولوی قدس سرہ۔حضرت مخدوم شاہ مینا صاحب لکھنوی قدس سرہ۔و حضرت مخدوم علاء الدین علی احمد صابر کلیری قدس سرہ۔و قطب دکن حضرت سید محمد خواجہ بندہ نواز گیسو دراز قدس سرہ۔و حضرت خواجہ خواجگان عطائے رسول سلطان الہند خواجہ غریب نواز قدس سرہ کے آستا نہ پاک سے بے تعداد فیضان باطنی عطا ہوا ہے۔

فرمان حضور فخر العارفین کی روشنی میں حضرت خواجہ محمد نبی رضا شاہ المعروف دادا میاں کے عظیم مرتبہ کا پتہ چلتا ہے۔پھر یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ آپکو اپنے مریدصادق سے کتنا عشق تھا اور مرید صادق کو اپنے پیر و مرشد سے کتنا گہرا تعلق تھا۔

چلہ چہل کاف

سیرت فخر العارفین میں حضرت سید سکندر شاہ بنارسی علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں۔کہ ایک روایت کے مطابق حضرت خواجہ نبی رضا شاہ صاحب قدس سرہ نے ایک وضو سے چالیس روز کا چلہ پورا فرمایا۔نہ کھایا۔نہ پیا۔صرف مصری کا ایک کوزہ رکھ لیا اسی کو سحر و افطار کے وقت چکھ لیا کرتے تھے۔پندرہ۔بیس روز کچھ نہ کھانا یہ آپکے لئے معمولی بات تھی۔

سیرت فخر العارفین میں حضور فخر العارفین کا یہ قول نقل ہے کہ سلسلہ قادریہ میں چہل کاف کا چلہ چالیس دن میں سوا لاکھ بار پڑھنے کا معمول ہے۔مگر ہمارے خلیفہ حضرت نبی رضا خان صاحب نے صرف نو دن میں چہل کاف سوا لاکھ بار پڑھا اور چلہ پورا کیا۔فرماتے ہیں خان صاحب مرتاض آدمی تھے۔اسلاف کے خاص پیروکار تھے۔

اعجاز جہانگیر ی میں لکھا ہے کہ جناب محمد خان صاحب (جو حضرت خواجہ نبی رضا شاہ قدس سرہ کے مرید تھے) کہتے ہیں کہ حضرت میں چار باتیں عجیب و غریب دیکھی گئیں۔آپ جیسا خوبصورت کسی کو نہیں دیکھا۔جب آپ راستہ چلتے تو سب سے زیادہ بلند و بالا نظر آتے۔اگر کوئی شخص تحفہ یا نذر پیش کرتا تو اس کو اسی وقت تقسیم فرما دیتے۔توجہ آپکی ایسی زبردست کہ اگر ایک مرید کو توجہ دیتے۔مگر حال سب حاضرین پر وارد ہوتا تھا۔اس جلسہ میں مرید غیر مرید جس قدر لوگ موجود ہوتے ضرب کی آواز سے سب مسحور و مست ہوجاتے اور تڑپنے لگتے تھے۔

ایک مرتبہ مریدوں کو توجہ دیکر مسجد سے باہر نکلے۔مسجد کے دروازہ کے قریب ایک ہندو جارہا تھا۔آپکا دامن اس کے جسم سے مس ہو گیا۔فورا وہ ہندو رقص کرنے لگا۔بہت دیر تک اس میں جوش و خروش رہا۔جب آپ نے اس کے سينه پر دست شفقت لگایا تب حواس بجا ہوئے۔

جب محفل سماع منعقد ہوتی تو فرط محبت سے سے غیر مسلم بھی محفل کے کنارے آ بیٹھتے۔اور جس وقت جوش و خروش و کیف شروع ہوتا تو غیر مسلم بھی حضرت کے دریائے فیض سے سیراب ہوتے۔ان پرکیف پیدا ہوجاتا اور تڑپنے لگتے۔جب حضرت دست شفقت لگاتے تو حواس بجا ہوتے۔ایک بار مولانا فرزند محمد صاحب کے مکان پر محفل سماع منعقد ہوئی۔دو اجنبی نوجوان مذاق اڑانے کے غرض سے محفل میں حاضر ہوئے۔حضرت کو ان کا خیال نور باطن سے منکشف ہوگیا۔حضرت نے ایک نظر ان کی طرف دیکھ لیا۔اسی وقت ان میں ایسی تڑپ پیدا ہوئی کہ بہت دیر تک اچھلتے رہے۔ان کے کپڑے بھی پھٹ گئے۔جب خستہ و ماندہ ہو گئے۔تو حضرت نے دست مبارک مس کیا پھر ہوش میں آکر حلقہ بگوش ہوئے اور اپنے خیالات سے توبہ کی۔

یہ تھی حضرت کی توجہ نگاہ کی تاثیر کہ جس پر نگاہ ڈال دی۔بیخود و تڑپتا نظر آیا۔

تیرے سامنے ہے سب کچھ تجھ سے چھپا ہی کیا ہے۔

میرے دل کی کیفیت سے تو خوب آشنا ہے۔

ملفوظات

سرکار دادا میاں حضرت خواجہ نبی رضا شاہ قدس سرہ ارشاد فرماتے ہیں۔

حضور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مبعوث رسالت ہونے کے بعد تمام مزاہب کی تنسیخ ہوچکی ہے۔اس معرفت خداوندی کے لئے بھی بجز راہ محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کے کوئی راستہ نہیں ہے۔دوسرے مزاہب کی فقیری کا عالم ناسوت کے سوا عالم جبروت۔ملکوت۔وغیرہ یعنی عالم غیب میں کوئی فائدہ نہیں ہے۔اور بلا اقرار تصدیق رسالت حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نجات کا بھی انسان کے لئے کوئی ذریعہ نہیں ہے۔پس انسان کو چاہئے کہ دین اسلام اختیار کرے اور ارکان اسلام کی پابندی کرے۔فرمایا گو مزاہب اربعہ مذہب اسلام ہیں۔حنفی۔شافعی۔مالکی۔حنبلی۔برحق ہیں مگر بڑی جماعت اہل اسلام حنفی فقہ کی پابند ہے۔اور ہمارا بھی یہی مذہب ہے۔اولیاء اللہ بھی اکثر اسی جماعت سے ہوئے ہیں۔

مزاہب اربعہ مذکورہ کے سوا اور جتنے فرقے مذہب اسلام میں ہوگئے ہیں۔وہ سب افراط و تفریط سے پر ہیں۔اور حسد کا مادہ اس میں ہے۔اس لئے اولیاء اللہ ان میں نہیں ہو سکتے۔ایسے بد عقیدہ لوگوں کی صحبت سے پرہیز کرنا چاہئے۔

ایک روز فضیلت شیخین صحابہ کبار رضي اللہ عنہم اجمعین کے بارے میں ایک سائل نے دریافت کیا۔حضرت نے ارشاد فرمایا کہ ہمارے عقید ہ میں ہر خلفاء راشدین ایک جان چار قالب ہیں۔فضیلت کا حال خدا بہتر جانتا ہے۔البتہ ترتیب خلافت کا معاملہ ظاہر ہے۔

فرمایا فرما نبرداری خدا وند کریم و اطاعت رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم ہر حال و ہر مقام و ہر کار میں ہروقت و ہر لحظ ہر انسان پر لازم و واجب ہے۔اور فرائض و واجبات کا ترک کسی حالت میں جائز نہیں۔

فرمایا حتی الامکان نماز باجماعت ادا کی جائے۔اور قرآن شریف کی تلاوت میں کمال برکت ہے۔فرمایا محبت و ارادت و عقیدت و تصدیق حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم و صحابہ کرام و اہلبیت اطھار و اولیائے عظام کی جناب میں چست و مضبوط رکھے۔اور ہر کام میں ان حضرات کا وسیلہ اختیار کرے۔فرمایا ہر کام میں نیک نیتی زاد راہ ہو اور ہر وقت دل ونیت اللہ کی طرف رکھے۔اور گناہ و کدورت و برے کاموں سے دور رہے۔

فرمایا باوضو رہنے کی حالت میں آدمی نفس و شیطان کے فریب سے محفوظ رہتا ہے۔فرمایا مرد کو لڑکوں اور نامحرم عورتوں کی صحبت سے پرہیز و احتیاط رکھنا چاہیے۔بلکہ ان کے قریب نہ جائے۔اس میں اگر احتیاط نہ ہوگی۔تو فساد کا قوی احتمال ہے۔فرمایا کم کھانے۔کم بولنے۔کم سونے کی عادت ہونی چاہئے۔راستوں اور بازاروں میں کھانے پینے سے بے حیائی پیدا ہوتی ہے۔اور جو کام شریعت کے خلاف ہیں ان سے دور رہنا چاہیے۔اور کھیل تماشے کے کام سے بچنا چاہیے۔

۔فرمایا جہاں تک کوشش ہو جمعہ کی نماز ترک نہ کیجائے۔فرمایا سچائی اختیار کی جائے کیونکہ صدیقین کا بڑا مرتبہ ہے۔اور اگر کوئی لغزش ہو جائے تو فورا عاجزی کے ساتھ توبہ کرے۔کہ عا صی بندوں کا یہی کام ہے۔اور جو گناہ کرکے توبہ نہیں کرتا وہ شیطان ملعون کے زمرے سے ہے۔اللہ تعالیٰ محفوظ رکھے۔

فرمایا۔ہوس و شہرت و دنیا کی دولت کی محبت کسی حال میں دل میں نہ رکھے۔فرمایا دنیا بقدر ضرورت دنیا نہیں ہے۔جس میں بندہ یاد خدا سے غافل نہ ہو جائے۔رزق حلال کی تلاش کرے۔بخیل نہ بنے۔زیادہ دنیا طلبی کی طرف قدم نہ بڑھائے۔قناعت و توکل اختیار کرے۔

فرمایا۔قوت حلال۔صدق مقال۔سلوک میں ضروری چیزیں ہیں۔اور دنیا کا اختصار بہتر ہے۔اور دنیا کو رفع حاجت کی جگہ سے زیادہ وقعت نہ دی جائے۔اور پاکدامنی کاہر وقت خیال رہے۔فرمایا مرید کو چاہئے اول صدق اختیار کرے۔اور برتاؤ اہل شریعت کے ساتھ محبت کا رکھے۔شریعت و طریقت کو ہر آن نگاہ میں رکھے۔شریعت ظاہری و اقوال و افعال اپنے پیران عظام کا اختیار کرے۔اگر کوئی مرید اس کے خلاف کرے گا اس کے زمہ دار ہمارے پیران عظام نہیں۔فرمایا تمہارا یہ کام ہے کہ اپنے پیران عظام کی مستقل طور سے پیروی کرتے رہو۔البتہ بے شرع فقیر کی صحبت سے مجتنب رہنا چاہیے۔فرمایا درویش میں استقلال۔سخاوت۔انکساری۔حسن خلق۔یہ چار باتیں ہونا ضروری ہیں۔جس میں یہ باتیں نہ ہوں۔وہ فقیر کہلانے کا مستحق نہیں ہے۔فرمایا عرفان خداوندی حاصل کرنے کے لئے پیرومرشد کی گرفت مضبوط ہونا چاہیے۔بغیر اس کے چارہ نہیں۔جیسی گرفت ویسا ہی جلد یا بدیر فائدہ معلوم ہوگا۔اور راہ سلوک میں ذکر قلبی و مراقبہ دو راہبر ہیں۔دونوں لازم و ملزوم ہیں۔

وصال مبارک : حضور قطب العارفین اسد جہانگیر حضرت خواجہ محمد نبی رضا شاہ المعروف دادا میاں قدس سرہ۔و صال سے ڈیڑھ ماہ قبل اپنے وطن بھینسوڑی شریف تشریف لے گئے اور دو ہفتہ وہاں قیام فرما کر لکھنؤ تشریف لائے۔وطن سے نکلتے وقت آپ بار بار قصبہ کی طرف مڑ مڑ کر دیکھتے جاتے جس سے یہ ظاہر ہوتا تھا کہ آپ ہمیشہ کے لئے رخصت ہو رہے ہیں۔لکھنؤ پہونچ کر فاتحہ خوانی و محفلوں میں شرکت فرماتے رہے۔ایک دن۔اچانک آپکو بخار آیا اور سینے میں درد شروع ہوا۔علاج اور دوا کا استعمال برابر ہوتا رہا۔مگر تکلیف برابر بڑھتی گئی۔حالت بیماری میں بھی نماز پنج گانہ ادا فرماتے رہے۔ایک دن آپ نے فرمایا اب ہمارا آخری وقت ہے۔آپکی ایسی نازک حالت کی وجہ سے لوگ جوق درجوق آنے لگے تاکہ آپکی آخری زیارت سے مشرف ہوں۔شنبہ کی شب نمازِ عشاء سب لوگوں سے فرمایا۔کہ آج شب کو کوئی ہمارے پاس نہ رہے۔ہم کو اب آرام ہے۔خدام کمرہ سے باہر رہیں۔بروز یکشنبہ بعد نمازِ فجر پھر درد میں بہت زیادتی ہوگئی۔بخار بھی بہت شدت سے تھا۔صبح دس بجے تک نہایت کرب و بیچینی سے کروٹیں بدلتے رہے۔اسی حالت میں فرمایا ہم کو حضرت خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ اجمیر شریف بلا رہے ہیں۔مگر حضرت مخدوم شاہ مینا علیہ الرحمہ نے جانے نہ دیا۔اس کے بعد آپ نے انگشت شہادت اٹھا کر آسمان کی طرف اشارہ کیا اور دونوں لب کو جنبش ہوئی۔اسی حالت میں بیک چشم آپ جان بحق و و اصل با للہ ہوئے۔انا للہ و انا الیہ راجعو ن۔ بروز یکشنبہ وقت صبح ساڑھے دس بجے 24/ربیع الاول 1329 ھ آپ نے و صال فرمایا۔زمین سے آسمان تک ایک شور آہ و بکا اٹھا۔دلوں سے آہیں اور آنکھوں سے اشک نکل پڑے۔صدمہ جانکاہ سے خداموں مریدوں کی عجیب حالت تھی۔وصال کی خبر سے خلق کا از دھام ہوا۔بعد تجہیز وتکفین جنازہ شریف نہر کے قریب میدان میں لایا گیا۔نمازِ جنازہ میں بے شمار مخلوق خدا شریک تھی۔لوگوں کا چشم دید بیان ہے کہ نمازِ جنازہ میں شریک اشخاص کا تخمینہ لاکھ آدمیوں سے زیادہ تھا۔جن میں اکثر بزرگ تھے جن کی شناخت بھی نہیں ہو سکی کہ وہ کون حضرات کہاں سے تھے۔اور جب جنازہ لیکر چلے تو آسمان سے زمین تک ایک ستون نوری معلوم ہوتا تھا۔کہ اندھیری رات میں روز روشن کی طرح سب طرف روشنی معلوم ہوتی تھی۔چونکہ مکان کو تار بھیجا گیا تھا۔اور وہاں سے عزیز و اقارب کی آمد کا انتظار تھا۔تار دیر سے پہونچا اور مکان سے کوئی وقت پر نہ آسکا۔اس لئے یکشنبہ و دو شنبہ کی درمیانی شب میں بارہ بجکر پچیس منٹ پر آپ حجلہ ناز میں آسودہ ہوئے۔آپ کی خواہش کے مطابق اسلامیہ قبرستان صدر بازار لکھنؤ میں آپ کی تدفین ہوئی۔اور مزار پاک اسی مقام پر مرجع خلائق ہے۔

کرامت: محمد احمد عرف منے صاحب مرادآبادی جو حضور سلطان العاشقین حضرت خواجہ محمد عنایت حسن شاہ قدس سرہ کے مرید تھے۔ان کے پیر میں درد ہو کر پیر با لکل خشک ہو گیا۔عرصہ تک ڈاکٹری و یونانی علاج کرتے رہے کچھ فائدہ نا ہوا۔پیر بے کار ہو چکا تھا۔جب اطباء نے لا علاج کہدیا تو مزار شریف پر لکھنؤ حاضر ہوئے۔مزار شریف کی روشنی کے چراغ کا تیل لاکر چند روز استعمال کیا۔اللہ تعالیٰ نے حضرت دادا میاں کی برکت سے ان کو شفاء عطا فرمائی۔درد جاتا رہا اور پیر بدستور سابق صحیح و سالم ہو گیا۔اور حضرت کی دعا کی برکت سے خدا نے ان کے رزق میں بھی برکت عطا فرمائی۔

(2) مسمی قمر الدین صاحب پنجابی خواجہ عنایت حسن سرکار کے مرید تھے۔ان کی آنکھ میں درد ہوا اور چھ ماہ تک آنکھ دکھتی رہی۔جس کی وجہ سے آنکھ با لکل بند ہو گئی۔صدہا علاج کئے کچھ فائدہ نہ ہوا۔ڈاکٹروں نے لاعلاج بتا کر علاج کرنے سے انکار کردیا۔تو مجبور ہو کر مزار پاک پر حاضر ہوئے۔دعا مانگی۔خاک آستانہ کو سرمہ کی جگہ استعمال کیا۔چار روز میں خدا نے شفاء عطا فرما دی۔آنکھ کھل گئی اور بینائی بالکل صحیح بدستور سابق کے ہو گئی۔

(3) مراد آباد ضعیفہ جو حضرت خواجہ عنایت حسن سرکار کی مریده تھیں۔جب مرض الموت ہوا تو نزع سے پہلے ا پنے لڑکے سے کہا کہ ابھی ایک بزرگ تشریف لائے تھے اور مجھ کو تسلی و تشفی دیکر چلے گئے۔حلیہ و شبیہ بزرگ کی بیان کی اور کہا کہ وہ میرے دادا پیر حضرت خواجہ نبی رضا شاہ قدس سرہ تھے۔کچھ دیر بعد وہ ضعیفہ جاں بحق ہوگئیں۔انتقال ہوا تو رات کا وقت تھا۔برسات کا موسم مسلسل بارش ہو رہی تھی۔ضعیفہ کا لڑکا فکر مند ہوا کہ دوسرے پیر بھائی میت میں شریک نہیں ہو سکیں گے۔کیوں کہ دور دراز علاقوں میں رہتے ہیں۔ادھر یہ معاملہ ہوا کہ اسی شب محلہ مقبرہ وغیرہ میں بہت سے مریدوں کو عالم رویا میں حضرت قبلہ دادا میاں نے زیارت سے مشرف فرمایا۔اور ضعیفہ کے انتقال کی خبر دیکر ہدایت فرمائی کہ کل صبح اس کی میت میں سب شریک ہوں۔چنانچہ صبح کو یہ سب لوگ تلاش و جستجو کے بعد میت میں شریک ہوئے۔

حضرت نے ہمیشہ کرامت پر استقامت کو ترجیح دی۔پھر بھی بے شمار کرامتوں کا ظہور وقتا فوقتاً آپ کی ذات پا ک سے ہوتا رہا۔آج بھی زمانہ آپ کی بارگاہ سے فیض یاب ہو رہا ہے۔

اولاد: آپکے ایک ہی صاحب زادے۔حضرت سلطان حسن میاں۔پیدا ہوئے جن کا وصال رضائے الٰہی سے سولہ سال کی عمر میں ہوگیا۔آپکی تدفین بھینسوڑی شریف کی آبائی قبرستان میں ہوئی۔آپکی اہلیہ محترمہ یعنی دادی ماں صاحبہ جو زبردست ولیہ کاملیہ تھیں۔آپکی درگاہ شریف سرکار دادا میاں کے آستانہ پاک کے قریب لکھنؤ شریف میں ہے۔آپ کے بعد آپ کے سجادہ نشین آپکے چھوٹے بھائی اور مرید و خلیفہ حضور سلطان العاشقین حضرت خواجہ محمد عنایت حسن شاہ قدس سرہ ہوئے۔ آپکا و صال پاک 4 شوال المکرم 1360 ھ بعمر 58 سال ہوا۔ مزار پاک بھینسوڑی شریف رامپور یوپی میں مرجع خلائق ہے۔خواجہ عنایت حسن سرکار کے بعد آپکے سجادہ نشین حضرت خواجہ محمد راحت حسن شاہ قدس سرہ۔ہوئے۔آپکا و صال پاک 4 ذیقعدہ 1395 ھ میں ہوا۔آپ کا مزار پاک بھی بھینسوڑی میں بے۔سرکار راحت پاک کے بعد آپ کے صاحبزادے حضور سند الاولیاء حضرت خواجہ محمد فصاحت حسن شاہ قدس سرہ سجادہ نشین ہوئے۔آپکا و صال 28 جمادی الثانی 1422 ھ بعمر 46 سال ہوا۔ آپ بھی بھینسوڑی شریف میں آسودہ ہیں۔ اسوقت موجودہ سجادہ نشین صاجزادہ خواجہ محمد صباحت شاہ صاحب ہیں

 


عارفؔ بالله حضرت شاہ عبدالعلیم آسی رشیدی سکندری پوری ثم غازی پوری علیہ الرحمہ



سرکار  آسی غازی پوری علیہ الرحمہ کی  ذات محتاج تعارف نہیں۔آپ ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھےآپ  کی پیدائش 21 دسمبر 1834ءکو سکندر پور ضلع بلیا (یوپی) میں ہوئی۔ نام محمد عبدالعلیم تھا۔ پہلے عاصی تخلص اختیار کیا پھر آسی۔آپ علیہ الرحمہ  کی ابتدائی تعلیم وتربیت قطب الہندحضرت مولاناشاہ غلام معین الدین رشیدی سجادہ نشین خانقاہِ رشیدیہ جون پور کی آغوشِ شفقت میں ہوئی اوربیعت وارادت کاشرف بھی انہیں سےحاصل ہے۔ یہ حضرت مولانا غلام معین الدین حضرت آسؔی کےوالد ماجد حضرت شیخ قنبر حسین کےپیربھائی تھے۔ابوالحسنات مولانا عبدالحئی فرنگی محلی لکھنؤی کےوالدِماجد حضرت مولانا عبدالحلیم فرنگی محلی سےحضرت آسؔی نےمدرسہ حنیفہ جون پور میں کتبِ منقول ومعقول کی تکمیل فرمائی۔ اورفنِ شاعری میں حضرت شاہ غلام اعظم افؔضل الہ آبادی سجادہ نشین دائرہء شاہ اجمل الہ آباد کی شاگردی اختیارکی۔ آپ نے علم و فن دین و مذہب اخلاق وروحانیت سلوک و تصوف ،قوم وملت سماج معاشرہ شعر و ادب زبان و بیان فکر و تحقیق و تصنیف وتالیف غرض کہ ہر شعبے میں نمایاں اور قابل فخر خدمات پیش فرمائی ہیں۔کیونکہ آپ عالم، فقیہ ، عارف،مصلح،صوفی، واعظ، مصنف، طبیب ، حکیم، شاعر، اور خانقاہ رشیدیہ جونپور کے آٹھویں سجادہ نشین تھے۔آپ کے مشاہیرمعاصرین : شیخ المشائخ  مخدوم الاولیاءمولاناسید شاہ علی حسین اعلیٰ حضرت اشرفی میاں کچھوچھوی، اعلی حضرت امام احمد رضا خان فاضل بریلوی، حضرت مولانا فضل الرحمن گنج مراد آبادی، حضرت مولانا شاہ عبدالقادر عثمانی بدایونی، مولانا شاہ انواراللہ فاروقی حیدرآبادی شاہ حفیظ الدین لطیفی رحمن پوری کٹیہاری بہار،سید شاہ شہودالحق اصدقی بہاری،حضرت خواجہ الطاف حسین حالی، نواب مرزا خان داغ دہلوی، ڈاکٹر اقبال، شاہ سراج الدین وارثی  تھے۔ سوانح اشرفی میاں کچھوچھوی بنام”حیات مخدوم الاولیاء ” میں مرقوم ہے۔ کہ شیخ المشائخ مولانا سید شاہ علی حسین اعلیٰ حضرت اشرفی میاں کچھوچھوی،خانقاہ رشیدیہ جونپور شریف بحرالاسرار قطب العرفاء والعشاق حضرت مولانا شاہ عبدالعلیم آسی رشیدی سکندری ثم غازی پوری کی دیدو ملاقات کے لیےتشریف لائے۔ حضرت آسی علیہ الرحمہ نےاستقبال کیا اور معانقہ و مصافحہ کے بعد فرمایا کہ: آپ میرے لیے دعا فرمائیں کہ اللہ تعالی میرا خاتمہ بالخیر فرمائے آپ حضرت غوث پاک اور مخدومِ کچھوچھہ کی اولاد ہیں سید ہیں، حضور اشرفی میاں تاجدار کچھوچھہ نے بھی فرمایا کہ : آپ میرے لیے دعا فرمائیں کہ "حق تعالی میرا خاتمہ بالخیر فرمائے۔ آپ اللہ والے ہیں ۔” (حیات مخدوم الاولیاء ص140)

آپ علیہ الرحمہ 2جمادی الاولیٰ1335ہجری کو پچاسی برس کی عمر میں وابستگان سلسلہ رشیدیہ سے ہمیشہ کے لئے پردہ فرما کر واصل بحق ہوگئے اور آپ کا مزار پاک محلہ نور الدین پورہ، غازی پور ضلع بلیا یوپی میں مرجع انام ہے جس سے فیوض وبرکات ہمہ دم جاری و ساری ہیں۔

سُلطان التارکین حضرت قاضی صوفی حمید الدین چشتی ناگوری علیہ الرحمہ

 

آپ کے اسم گرامی محمد عطا لقب قاضی حمید الدین ،سُلطان التارکین صوفی سعید ناگوری کے نام سے مشہور تھے۔ آپ کے والد ماجد حضرت عطااللہ محمود بخاری سلطان شہاب الدین غوری کے عہدِ حکومت میں کرمان سے ہندوستان تشریف لائے تھے ۔ آپ کی ولادت ۵۹۰ ہجری میں ہوئی ۔ سلطان غوری نے ۱۱۲۹ء میں پرتھوی راج چوہان کو شکست دیکر جب دہلی پر اپنی فتح کا پرچم لہرایا اس کے بعد مسلم گھرانوں میں جو بچہ سب سے پہلے پیدا ہوا وہ صوفی حمیدالدین ناگوری تھے۔ آپ کا سلسلۂ نسب حضرت سعید بن زیدسے ملتا ہے، جو عشرہ مبشرہ میں سے تھے۔ آپ کی والدہ حضرت بی بی خدیجہ حسینی سیدہ تھیں۔آپ کی والدہ محترمہ بھی اپنے زمانے کی نہایت بزرگوار ، صالح، نیک اور پاکباز خاتون تھیں۔آپ کی ابتدائی تعلیم آپ کے والد محترم کی سرپرستی میں ہوئی۔بعدہٗ آپ کے استاذ مولانا شمس الدین حلوائی تھے جن سے آپ نے علوم شریعت وطریقت کا وافر حصہ اور درجۂ کمال حاصل کیا۔ انہوں نے مولانا حلوائی کے علاوہ شیخ حمیدالدین خوئی اور حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری سے بھی استفادہ کیا۔ یوں تو انہوں نے کئی خدارسیدہ بزرگان دین کی صحبت اٹھائی اور علوم ظاہری وباطنی حاصل کئے۔آپ نے ایک لمبی مدت تک ریاضت ومجاہدے کئے۔حضور خواجہ غریب نواز رضی اللہ عنہ  کی صحبت میں رہ کر تصوف و معرفت کے راز ہائے سربستہ کا مشاہدہ کیا اور عشق الٰہی سے اپنے سینے کو منور کیا یہاں تک کہ آپ سلطان الہند کے منظور نظر ہوگئے۔اور اس کے بعد خواجہ ؒنے خرقہ خلافت عطا کیا۔ اپنے مرشد کے حکم سے ناگور گئے جہاں بندگان خدا کی خدمت میں مصروف رہے۔ آپ اپنے وقت کے ایک عالی مرتبت اور بلند نظر کثیراللسان عالم تھے انہیں عربی ،فارسی اور ہندی تینوں زبانوں پر عبور حاصل تھا۔ آپ کو مطالعہ کا بے حد ذوق وشوق تھا۔ قرآن پاک کی مختلف تفسیر یں اور مستند مشائخ کی تحریر کردہ حدیث کی بلند پایہ کتابیں آپ کے زیر مطالعہ رہتی تھی۔آپ خود بھی کئی معتبر اور مستند کتابوں کے مصنف ہیں۔ تصوف وسلوک ،شریعت وطریقت تفسیر وحدیث فقہ اور علم الفرائض (میراث کے اسلامی قوانین) آپ کی دلچسپی کے خاص موضوعات تھے۔ آپ کے حق آگاہ قلم کی چند نگارشات جنہیں آج بھی علماء وصوفیاء کے درمیان نہایت قدر کی نگاہوںسے دیکھا جاتا ہے ۔ سُلطان التارکین کی زندگی یکجہتی،باہمی اتحاد ،میل ملپ ایک دوسروں کا پاس و خیال کا وہ نمونہ ہے جو حضرت خواجہ معین الدین چشتی کی تربیت کی دین ہے ۔آپ علیہ الرحمہ  ۲۹ ربیع الثانی ۶۷۳ھ کو اس جہانِ فانی کو الوداع کیا۔ ناگور شریف راجستھان میں آپ کا آستانہ مبارک زیارت گاہ خاص و عام ہے ۔


حضرت مولانا اجمل شاہ سنبھلی اشرفی علیہ الرحمہ


 چودھویں صدی ہجری میں جن ارباب علم و فن اور اصحاب طریقت نے غیر منقسم ہندستان میں اپنے علم و عمل کے ذریعے سے دینی خدمات انجام دی ہیں، ان مقدس شخصیات میں ایک نام سند الفقہا، سلطان المناظرین، اجمل العلما مفتی اجمل شاہ سنبھلی بانی مرکزی مدرسہ اہل سنت اجمل العلوم علیہ الرحمہ کا بھی ہے، جو اپنے آپ میں ایک ماہر مدرس، عظیم فقیہ اور میدان مناظرہ کے شہسوار تھے۔مغربی اترپردیش کے تاریخی شہر سنبھل (مرادآباد ) کے باشندے عالی جناب حضرت مولانا حافظ محمد اکمل شاہ علیہ الرحمہ کے کوئی نرینہ اولاد نہ تھی، آپ نے بارگاہ خالق کائنات میں دعا کی "اے مولی تعالی؛ اگر تو مجھے بیٹا عطا فرمائے تو میں اسے خدمت دین کے لیے وقف کر دوں گا ،، بفضلہ تعالی دعا باب اجابت سے ٹکرائی اور ۱۵/ محرم الحرام ۱۳۱۸ھ بہ مطابق ۱۵ / مئی ۱۹۰۰ء بوقت صبح ایک سعادت مند فرزند کی ولادت ہوئی۔آپ علیہ الرحمہ کا نام محمد اجمل ہے، اہل علم آپ کو سند الفقہا، سلطان المناظرین، اجمل العلما جیسے عظیم الشان القاب سے یاد کرتے ہیں اور شہر سنبھل میں آپ کو شاہ صاحب کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔جب آپ کی عمر مبارک چار سال، چار ماہ اور چار دن کی ہوئی تو آپ کے جد امجد عارف باللہ حضرت شاہ جی غلام رسول صاحب علیہ الرحمہ نے بسم اللہ شریف پڑھائی، اور قرآن پاک ناظرہ، اردو کی ابتدائی کتابیں اور فارسی زبان کی کتب اپنے چچا حضرت مولانا محمد افضل شاہ اور والد ماجد حضرت مولانا حافظ محمد اکمل شاہ علیہما الرحمہ سے پڑھیں۔ ابتدائی عربی سے شرح جامی تک کی تعلیم اپنے چچا زاد بھائی جامع معقول و منقول حضرت مولانا عماد الدین صاحب سے حاصل کی۔ اس کے بعد آپ مولانا عماد الدین کی معرفت میں مرادآباد کی شہرہ آفاق دینی درس گاہ جامعہ نعیمیہ، مراد آباد تشریف لائے، اور شرح جامی کے بعد کی جملہ کتب تاج العلما حضرت مفتی محمد عمر نعیمی  اشرفی اور صدر الافاضل، مفسر قرآن حضرت علامہ مفتی سید محمد نعیم الدین اشرفی مراد آبادی علیہما الرحمۃ کے پاس پڑھیں۔ آپ کی تعلیم و تربیت کا سہرا آپ کے جد امجد، والد ماجد، چچا جان اور چچا زاد بھائی خصوصا صدر الافاضل علیہ الرحمہ کو جاتا ہے، جن کی توجہات اور نواز شات سے آپ نے یہ بلند پایہ علمی مقام حاصل کیا۔ اجمل العلما پر صدر الافاضل علیہ الرحمہ کی خصوصی نظر تھی اس لیے خود  صدرالافاضل آپ کو مرکز عقیدت بریلی شریف لے کر حاضر ہوئے، اور شیخ الاسلام والمسلمین، مجدد اعظم، اعلی حضرت، امام احمد رضا خان قادری حنفی بریلوی علیہ الرحمہ کے دست حق پرست پر بیعت کرائی۔ پیر و مرشد کے وصال کے بعد شہزادہ اعلی حضرت، حجۃ الاسلام، علامہ حامد رضا خان  علیہ الرحمہ نے سلسلہ رضویہ قادریہ کی اجازت و خلافت سے نوازا، اور خانوادہ اشرفیہ کچھوچھہ شریف کے عظیم بزرگ  محبوب ربانی حضرت مخدوم المشائخ، اعلی حضرت شاہ علی حسین اشرفی جیلانی کچھوچھوی نے بھی اجمل العلما کو سلسلۂ اشرفیہ چشتیہ کی خلافت و اجازت عطا فرمائی۔

آپ کا معمول تھا کہ بعد نماز عشا میاں صاحب والی مسجد میں پابندی کے ساتھ قرآن پاک کا ترجمہ و تفسیر بیان فرماتے اور درس قرآن کا یہ سلسلہ تقریباً دس سال تک چلتا رہا، جہاں پر کثیر تعداد میں سامعین شرکت فرماتے تھے۔: حضور اجمل العلما علیہ الرحمہ  کا معمول تھا کہ بعد ظہر آئے  ہوے خطوط کا جواب رقم کرتے. اگر فقہی سوالات ہوتے تو ان کا نہایت مدلل جواب لکھتے، آپ نے تقریبا چالیس سال تک فتویٰ نویسی فرمائی، آپ کے فتاویٰ کی تعداد دو ہزار سے زیادہ ہے جو آج فتاوی اجملیہ کے نام سے چار جلدوں میں اہل علم کی بیچ مقبول و متعارف ہے، اس کے علاوہ آپ نے باطل فرقوں کی سرکوبی اور عوام الناس کو اسلامی تعلیمات و راہ راست کی شناخت کرانے کے لیے متعدد کتب تصنیف فرمائی ہیں جو درج ذیل ہیں: (۱) فتاوی اجملیہ 4/ جلدیں، (۲) رد شہاب ثاقب بر وہابی خائب، (۳) رد سیف یمانی در جوف لکھنوی و تھانی، (۴)اجمل المقال لعارف رویت الہلال، (۵) عطر الکلام فی استحسان المولد والقیام، (۶) تحائف حنفیہ بر سوالات وہابیہ (۷) فوٹو کا جواز در حق عازمان سفر حجاز، (۸) اجمل الکلام فی عدم القرات خلف الامام، (۹) افضل الانبیاء والمرسلين (۱۰) فیصلہ حق و باطل، (۱۱) طوفان نجدیت وسبع آداب زیارت، (۱۲) بارش سنگی در قفاۓ دربھنگی، (۱۳) قول فیصل (۱۴) اجمل الارشاد فی اصل حرف الضاد ( ۱۵) کاشف سنیت و ہابیت (۱۶) سرمایۂ واعظین (۱۷) ریاض الشہدا منظوم (۱۸) نظام شریعت اول، دوم (۱۹) اسلامی تعلیم اول، دوم (۲۰) مذہب اسلام (۲۱) اجمل السیر في عمر سید البشر (۲۲) مضامین اجمل العلما (۲۳) نعتیہ دیوان حضرت اجمل العلما۔
وصال پر ملال : مسلسل علالت کے سبب ۶۳/ سال کی عمر میں یہ علمی ستارہ ۲۸/ ربیع الثانى ۱۳۸۳ھ بہ مطابق ۸/ ستمبر ، ۱۹۶۳ء بروز بدھ ۱۲/بج کر ۲۰ / منٹ پر ہمیشہ کے لیے روپوش ہوگیا۔