دس ننگی تلواریں
حضرت
سلطان سید اشرف جہانگیرسمنانی قد س سرہ
جب روم میں مقیم تھے ۔ شیخ الاسلام روم کے دل میں خدام والاکی طرف سے
مخالفانہ خیال پید ا ہوا اور پس شپت حضور پر نکتہ چینی کی ۔ رکاب حضرت اقدس کے
ہمراہیاں سے کوئی بات خلاف شریعت نہیں
صادر ہوتی تھی مگر وہ لوگوں سے یہی بیان کرتے تھے کہ فلاں شخص سے ایسی اورایسی
باتیں صادر ہوئیں۔ اکثر اس قسم کی غیبت کی مجلسیں قائم کیں ۔ حضرت کے بعض معتقد لو
گ اس خبر کو گوش مبارک تک پہونچاتے تھے مگر حضور یہی فرماتے تھے کہ خیر کہنے دو
جلد تنبیہہ ہوجائے گی۔
ایک دن
حضرت نماز فجر پڑھ کر وظیفہ میں مشغول تھے کہ اچانک شیخ الاسلام نگے سر آئے اور معافی
مانگتے ہوئے قدم مبارک پر سر رکھ دیا ۔
حضور نے
فرمایا کہ یہ تو بتاؤ کہ یہ تمہاری معذرت کس سبب سے ہے۔
عرض کیا
حضور پہلے معاف فر مادیں اس کے بعد مجھ پر جو گذرا ہے عرض کروں ۔ مجھ پر جو گزرا
ہے کہ خدانہ کرے کسی مخلوق پر گزرے ۔ میں اپنے کوٹھے پر تھا اور جاگ رہا تھا ۔ کوٹھا ایسا تھا کہ جس میں
چیونٹی کا بھی گزر نہ تھا ۔ یکایک دس آدمی ننگی تلواریں لئے ہوئے پہونچےاور
میری نسبت کہا کہ یہی وہ شخص ہے جو میرے سید اشرف جہانگیر کی غیبت کرتا ہے ۔ابھی ا
س کا سر تن سے جدا کروں گا۔ مجھ کو زمین پر دے مارا اور چھاتی پر چڑھ گئے۔ مجھ کو
ذبح کرنا چاہتے تھے کہ اسی وقت ایک سفید داڑھی والے بزرگ ایک طرف سے آئے اور مجھ کو ان لوگوں کے ہاتھ سے ہزاروں خوشامدیں کرکے
چھڑایا اور فرمایا کہ آپ لوگ چلے جائیں کیونکہ اس کے گناہ کی معافی میں نے حضرت سے
مانگ لی ہے۔
وہ لوگ
چلے گئے تب وہ بررگ مجھ پر بہت بگڑے کہ مردان خدا کے متعلق ہرگز ہر گز نکتہ
چینی نہیں کرنا چاہیے۔ فوراً جاؤ اور حضرت
کے قدم پاک کو اپنا سرتاج بناؤ۔ میں نے تمہاری خطاکی معافی حضور سے مانگ لی
ہے۔
حضرت مسکرا
پڑے اور فرمایا کہ تیرا دادا مرد باخدا تھا ۔ یہ اسی کی روحانیہ دیکھی گئی ہے
جس نے تیری شفارش کی ۔ اب کسی درویش کے خلاف خیال بھی نہ کرنا ۔
آگ بھڑک اٹھی
سفر
دکھن کے دوران آپ نے گجرات کے قصبے دمرق میں نزول فرمایا ۔ یہ مقام رہنے کے لائق
اور دلکش تھا، چنانچہ چند روز یہاں مقیم رہے ۔ قصبے کے کسی شخص نے حضرت کےبارے میں
نامناسب بات کہی ۔ جب یہ بات آپ کے سمع مبارک میں آئی تو فرمایا کہ حیرت ہے جس جگہ اس قسم کے لوگ رہتے ہیں وہا
ں ہرماہ آگ نہ لگے ۔ آپ یہ کلمات فرما ہی رہے تھے کہ آگ بھڑک اٹھی اور سارے قصبے
کو جلاڈالا۔ اللہ تعالیٰ کی قدرت سے وہاں ہر ماہ آگ لگ جاتی تھی ۔ جب وہاں کے
لوگوں نے یہ آفت دیکھی تو لکڑی اور پتھر سے اپنےمکان تعمیر کیے۔
قاضی صاحب کے نیا ہاتھ پیدا ہوگیا
حضرت
مولانا قاضی محمد روؔ می کو جب فیض صحبت حضرت سلطان سید اشرف جہانگیرسمنانی قد س
سرہ حاصل ہوا ۔ حضرت کےدست حق پر ست پر
بیعت کی اور اپنے عہدۂ صدارت اور قضا کو ترک کردیا اور حضور کی ملازمت میں حاضر ہونے
لگے ۔ حضرت محبوب یزدانی بظاہر قاضی صاحب کی طرف کم توجہی اور تغافل فرماتے تھے ۔
سات برس تک جب حضرت کی نظر قاضی صاحب پر پڑتی ارشاد فرماتے کہ ہماری مجلس سے ان کا
نکال دو اور سخت باتیں ان کے حق میں
فرماتے کہ قاضی زادہ عجیب پست ہمت ہے کہ وہ روزکھا نا کھانے کے لئے میرے پاس آیا
کرتا ہے اور کبھی ایسا اتفاق ہوتا کہ حضرت محبوب یزدانی ایک دومنزل کہیں تشریف لے
جاتے تو قاضی محمد رومی آپ کے پیچھے پیچھے چلے جاتے تھے ۔ کبھی پیادہ پا چلتے چلتے
قاضی صاحب کو ضعف آجاتا تھا اور زمین پر گر پڑتے تھے مگر جب ذوق و شوق دل کا جوش مارتا تھا پھر چل
کھڑے ہوتے۔
ایک
مربتہ حضرت قاضی محمد رومی اپنے حجرہ میں منہ لپیٹے پڑے تھے اور اپنے دل میں یہ
کہتے تھے کہ اے محمد رومی بہت اللہ کے بندے ایسے ہیں کہ دولت ولایت سے محروم ہیں
تو بھی اپنے آپ کو ان میں سے ایک سمجھ لے۔ محنت و مشقت اس راہ میں جس قدر کرنا
چاہیئے تھی کہ اس حالت فکر و تردد میں ایک لحظہ نہیں گزراتھا کہ آپ کو آدمی کے پیر
کی آواز معلوم ہوئی مگر کچھ ملتفت نہ ہوئے ۔ یکایک کیا دیکھتے ہیں کہ حضرت محبوب
یزدانی تشریف لائے ہیں اور فرماتے ہیں کہ محمدرومی فراغت آرام سے کرو کہ تمہار
اکام درست ہوگئے۔
حضرت
قاضی محمد رومی حالت اضطراب میں اٹھ بیٹھے اور دل میں یہ کہنے لگے کہ یا اللہ یہ
جو کچھ میں دیکھ رہا ہوں محل بیداری ہے یا عالم خواب ہےکہ اپنے کو اس قدر عذاب کے
بعد ایسی نعمت سے مشرف پاتا ہوں ۔ پھر جب حسب معمول خدمت محبوب یزدانی میں بہ
آرزوئے تمام حاضر ہوئے حضرت نے بکمال توجہ جملہ مقامات و منازل تصوف کے ایک چشم
زدن میں طے کرادئے۔
اسی
اثنا میں حضرت حاجی الحرمین سید عبدالرزاق نورالعین فرزند صاحب سجادہ حضرت محبوب
یزدانی علیل ہوگئے۔ آپ کے جسم مبارک میں کسی مقام پر ایسا دردہوتا تھا کہ تمام
اطباء اس کے علاج سے قاصر رہے۔ اتفاقا ایک طبیب یونان سے آئے تھے ۔ انہوں نے کہا
کہ اگر آدمی کا تھوڑا ساگوشت مل جاتا تو میں اس سے ایک روغن تیارکروں ۔ اس کے
استعمال سے صاحبزادہ کا درد جاتا رہے گا۔
حضرت
محبوب یزدانی نے فرمایا کہ تم نے ایسی دوا
بتلائی ہے جس کو میں کسی طرح پورا نہیں
کرسکتا نہ کسی زندہ کو تکلیف دوں گا اور نہ کسی مردے کو۔
حضرت
قاضی محمد رومی بعد تکمیل معرفت حضرت محبوب یزدانی کے سارے مریدوں میں
اعلیٰ مرتبہ رکھتے تھے ۔ یہ بات سن کر چپکے سے جنگل چلے گئےاور حالت جوش عشق میں
بے تکلفانہ اپنے ہاتھ سے بازؤِراست کو
چھری سے کاٹ کر علیحدہ کیا اور ایک برتن میں رکھ کر ڈھانک کر طبیب کے پاس لائے اور
کہا کہ اس میں سے جس قدر گوشت کی ضرورت ہو تراش کردو ا بنائیےاور خود اسی حالت میں
اپنے گھر تشریف لے گئے ۔ جب وہ حالت آپ کی فرو ہوگئی اور عالم شعور میں آئے تو پھر
بدن کو جنبش دینے کی طاقت نہ رہی۔ صاحب فراش ہوگئے۔ حاضری خدمت محبوب یزدانی سے
معزول رہے۔ عرض کیا گیا کہ طبیب نے روغن تیار کیا اور صاحبزادہ کی مالش ہوئی
اس کے استعمال سے صحت کامل ہوگئی۔
حضرت
سلطان سید اشرف جہانگیرسمنانی قد س
سرہ نے حکیم سے بطیریق تجاہل عارفانہ پوچھا کہ تم تو کہتے تھے کہ بغیر آدمی
کے گوشت کے روغن نہیں بن سکتا پھر بتلاؤ کیوں کر روغن بنا اور کہاں سے گوشت ملا؟
عرض کیا
کہ حضور کے خادموں میں سے ایک صاحب اس صورت کے میرے پاس آئے اور آدمی کا ایک ہاتھ
کٹا ہوا کپڑے میں لپیٹ کر لائے اور کہا جس قدر گوشت کی ضرورت ہے اس میں سے تراش
کردوابنائیے۔ میں نے جو اس کو دیکھا تو معلوم ہوتا تھا کہ کسی زندہ آدمی کا ہاتھ
ہے کیوں کہ بوٹیاں پھٹک رہی تھی اور سیلان خون بھی ہو رہا تھا۔
حضرت
محبوب یزدانی نے فرمایا کہ یہ کام سوائے قاضی محمد رومی کے دوسرے سے ہونا ممکن
نہیں ۔ ان کو بلاؤ ۔ جب خادم قاضی محمد رومی کو بلانے گئے اور کہا کہ چلئے
حضور آپ کو بلارہے ہیں تو قاضی صاحب کے دل میں یہ خیال گزرا کہ بفرمان ان الذین یبایعونک-
الیٰ آخرہ ٖ میں نے حضور اپنے ہاتھ پیر اور سارے اعضاء کو حضرت
محبوب یزدانی کے ہاتھ بیع کردیا تھا اگر حضور مجھ سے سوال کریں گے کہ ہماری ہاتھ
ہماری ملک میں تھا بغیر اجازت تم نے اس میں تصرف کیوں کیا اور کاٹ ڈالا تو میں کیا
جواب دوں گا۔اس فکر میں ہاپنتے کانپتے آہستہ آہستہ خراماں خراماں حضرت کی خدمت میں
حاضر ہوئے ۔ جیسے ہی حضور کی نظر قاضی صاحب پر پڑی افسو س کے ساتھ فرمایا کہ فرزند
قاضی محمد رومی تم نے پیر کے ساتھ عشق و محبت کو بدرجہ انتہا پہونچا دیا ۔ افسو س
ہاتھ کاٹنے میں تم نے بڑی تکلیف اٹھائی ۔ یہ فرماتے فرماتے آپ پر ایک کیفیت پیدا
ہوئی اور ارشاد فرمایا کہ حضرت جنید بغدادی کے بھی مریدان بااخلاص
ایسے ہی ہوتے تھے۔ جیسے تم ہو اور آپ کی حالت پر جوش ہوئی اور تو فرمایا"کہاں
ہے قاضی زادہ" اور قاضی زادہ سامنے کھڑے ہیں اور آپ اسی طرح اپنی حالت میں
پکاررہے ہیں ۔
حاضرین نے عرض کیا کہ حضور سامنے قاضی
زادہ حاضر ہے۔
فرمایا
قریب آؤ اور زخم کی پٹی کھلواکر ایک مرتبہ آیۂ کریمہ قا ل من یحیی العظام وھی رمیم پڑھ کر دم کردیا ۔
فی
الفور قاضی صاحب کے نیا ہاتھ پیدا ہوگیا۔ زخم کا وجو د بھی نہ رہا ۔
سبحا ن
اللہ ! حضرت غوث العالم محبوب یزدانی کی کیا شان تھی ۔ ان کے خوارق و طوارق
عجائب و غرائب ہوتے تھے۔
No comments:
Post a Comment