Karamaat e Syed Makhdoom Ashraf Jahangir Simnani Part 22

آپ لوگ کون ہیں؟؟؟
حضرت سلطان سید اشرف جہانگیرسمنانی قد س سرہ   جب روم میں تشریف رکھتے تھے ۔ ایک شخص آپ کی مخالفت کرتا تھا ۔ پس پشت آپ کی غیبت کرتا تھا ۔ جب آپ کی مجلس میں آیا تو حضر ت شیخ رومی نے اس کی نسبت حکایت فرمائی کہ کل رات میں نے یہ خواب دیکھا کہ بہت سے فرشتے آسمان سے زمین کی طرف پاتھ میں پھاوڑا لئے ہوئے پکارہے ہیں۔"دور ر ہنا  ، دور رہنا " اور زمین کی طرف چلے آرہے ہیں ۔ میں نے پوچھا کہ آپ لوگ کون ہیں اور کہاں جارہے ہیں ؟
ان لوگوں نے کہا کہ ہم لوگ فرشتے ہیں  اور اسی شخص کے گھر جاتے ہیں جس نے حضرت محبوب یزدانی کی غیبت کی ہے اور آپ سے انکار رکھتا ہے اور اس لئے جاتے ہیں کہ اس کے ایمان کی جڑ کو زمین سے کھودکر پھینک دیں اور اس کی حیات کی جڑ کودنیا سے کاٹ دیں۔

ایک پاگل  ہاتھی زنجیروں میں
ایک دن حضرت سلطان سید اشرف جہانگیرسمنانی قد س سرہ    کا گزر باراز دہلی میں ہوا ۔ آپ عالم کیف میں تھے ۔ سامنے سے ایک پاگل  ہاتھی زنجیروں میں بندھا ہوا اور پانچ مادہ فیل ہر فیل بان بیٹھے ہوئے اس کے گرد تھے اور برچھی اور گرجیاں سے پاگل ہاتھی کو مارمار کر چلارہے تھے ۔ حضرت کے ہمراہیوں پر عجب خوف کی حالت پیدا ہوئی ۔ یہ جرأت نہ تھی کہ حضرت سے عرض کریں ۔ بازار والوں نے ہائے ہائے کرکے شور مچایا یہاں تک کہ حضرت ہاتھی کے پاس پہونچ گئے ۔ اسی عالم کیف میں چلے جاتے تھے۔ ہاتھی نے ذرا بھی آپ کی طرف رخ  نہ کیا اور آپ بے باک چلے گئے ۔ آپ کا یہ تصرف دیکھ کر اہل باراز اور شہر والے متحیر ہوگئے۔

حضرت  بابا کمال  الدین کی بلی
حضرت سلطان سید اشرف جہانگیرسمنانی قد س سرہ   فضائل و کمالا ت شیخ نجم الدین کبریٰ فرمارہےتھے کہ انکی نگاہ تصرف سے کتا ولی ہوگیا تھا ۔ حضرت کے خلیفہ قاضی رفیع الدین کے دل میں خطرہ گزرا کہ آیا اس زمانہ میں بھی کوئی ایسا ولی ہوگا جس کی تاثیر نظر سے سے جانور ولی ہو جائیں۔
حضرت کے قلب مبارک پر ان کا یہ خطرہ ظاہر ہوگیا ۔ مسکرا کر فرمایا کہ شاید اس عالم میں ہو ۔
حضرت کے مرید کمال جوگی  کے یہاں ایک بلی پلی ہوئی تھی ۔ کبھی کبھی حضرت کی نظر اس پر پڑجاتی تھی۔ فرمایا کہ کمال جوگی کی بلی کہاں ہے۔میرے سامنے لاؤ۔
جس وقت اس بلی کو حضرت کے سامنے لائے۔ حضرت محبوب یزدانی کچھ اسرار معرفت بیان فرمارہے تھے ۔ کہتے کہتے ایک حالت گرم پر جوش طاری ہوگئی اورچہرۂ مبارک کا رنگ بدل گیا ۔ حاضرین پر ایک ہیبت چھا گئی ۔ معلوم ہوتاتھا کہ حضور کے قلب مبارک سے روح پرواز کیا چاہتی ہے۔ کمال جوگی کا بلی کان لگا کر حضرت کے کلمات معرفت کو سن رہی تھی  یہاں تک کہ اس کی حالت یہ ہوگئی کہ زمین سے قدآدم اچھل گئی اور ازخود رفتہ ہو گئی۔ ایک پہر تک بیہوش  پڑی رہی ۔ جب ہوش میں آئی حضرت محبوب یزدانی کے قدموں پر بوسہ دنیے گی اور آپ کے اردگرد گھومنے لگی  اس کے بعد جب کچھ کلام معرفت بیان فرماتے تو حضور کی مجلس میں آکر بیٹھتی اور سنتی  اور جب کوئی مہمان خانقاہ عالی میں آتے تو ان کی تعداد کے موافق آواز دیتی۔ باورچی اسی قدر مہمانوں کا کھانا پکاتا اور بی بی گربہ کو باقاعدہ دسترخوان بچھاکر ہر قسم کا کھانا پیش کیا جاتا۔ حضرت اگر کسی اصحاب کو بلانا چاہتے تو بلی سے فرمادیتے ۔ وہ ان کے مکان  ہر جاکر آواز دیتی ۔ وہ سمجھ جاتے کہ حضرت نے بلایا ہے۔
ایک دن حضورکی حضور کی خانقاہ میں جماعت درویشاں مسافر آئے ۔ بلی نے بعادت معمولہ تعداد درویشاں کے موافق آواز دی ۔ مگر کھانا  بھیجنے کے وقت ایک شخص زیادہ نکلا۔
حضرت محبوب یزدانی نے بلی کی طرف دیکھ کر فرمایا کہ آج بلی نے کیوں کر خطاکی اور ایک مہمان زیادہ کی خبر  کیوں نہیں کی ؟
بلی فوراً باہر گئی ان مہمانوں کی جماعت میں پہونچی ۔ ہر شخص کو سونگھتی تھی اور چھوڑ دیتی تھی۔ ایک شخص اس جماعت کا سرحلقہ تھا جب اس کو سونگھا تو اس کے زانوں پر جاکر بیٹھی اور پیشاب کردیا۔
حضرت نے جب معائنہ کیا تو فرمایا  کہ غریب بلی کا کچھ قصور نہیں ۔ یہ مرد بے گانہ تھا ۔ وہ درویش کھڑا ہوا اور حضرت کے قدموں پر گرپڑا اور عرض کرنے لگاکہ بارہ سال سے میں مذہب دہریہ رکھتا ہوں اور مسلمانوں کے لباس میں رہتاہوں اور بزرگوں کی خانقاہوں میں پھرتا ہوں اس نیت سے کہ کوئی میر ا نفاق ظاہر کرے تو میں اس کے ہاتھ مسلمان ہوجاؤں ۔ آج حضرت کی بلی نے مجھے پہچان لیا ۔ اب میں توبہ کرتا ہوں اور مسلمان ہوجاتا ہوں ۔
سبحان اللہ ! کیا فضل و کمال حق تعالےٰ نے حضرت  غوث العالم محبوب یزدانی سلطان  سید اشرف جہانگیر سمنانی قد س سرہ  کوعطا فرما یا تھا کہ جس کی تاثیر نظر سے بلی ولیہ ہوگئی اور حق و باطل میں فرق کردیتی تھی۔
حضرت نے اس دہریہ کو کلمہ پڑھاکر مسلمان کیا اس کے بعد اس کو ضیافت اور مجاہدہ میں مشغول رکھا ۔ جب تصفیہ  باطن میں کامل ہوگیا تو تاج خلافت دے کر بندگان خدا کی ہدایت کے واسطت شہر استنبول بھیج دیا ۔ بعد وصال حضرت  محبوب یزدانی کے چند سال بی بی گربہ حضرت نورالعین صاحب سجادہ مخدوم زادہ کی خدمت میں رہی۔
 ایک دن باورچی خانہ میں دیگ میں دودھ گرم ہورہا تھا اس کی بھاپ جو چھت تک پہونچی ایک کالاسانپ دیگ میں میں گرگیا ۔ باورچی کو اس کی خبر نہ تھی ۔ بی بی گربہ باربار دیگ کے کنارے پھر کر اشارہ کرتی۔ بارورچی کہتا کہ جب دودھ تیار ہوگا تجھے ملے گا تو کیوں گھبراتی ہے۔ یہاں تک کہ باورچی نے بی بی گربہ کو جھڑک دیااوروہ سمجھی کہ باروچی میرا اشارہ نہیں سمجھتا۔ اگر یہ دودھ فقراء میں تقسیم ہوگا اس کے زہر سے لوگوں کی ہلاکت ہوگی ۔ اس لئے  ایک ہی مرتبہ میں کودکر دیگ میں جاگری اور شہید محبت ہوگئیں۔ جب دودھ پھینکا گیا تو کالا اور زہریلا سانپ نکلا۔
حاجی الحرمین حضرت سید عبدالرزاق نورالعین  رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اس غریب بلی نے اپنی جان فقیروں پر قربان کردی ۔ اس کو ایک قبر کے اندر دفن کردواور اس کا روضہ تیار کردو۔
چنانچہ مزار بی بی گربہ آستانۂ عالیہ سے پورب جانب مقام دارالامان میں موجود ہے اور ا ن کی مزار پر یہ تصرف ہے کہ اگر کسی کو جن یا شیاطین ستائے اور بی بی گربہ کے مزار پر جائے تو وہ آسیب زدہ چیختا ہے اور شور کرتا ہے کہ بی بی گربہ  مجھ کو پنچہ مارتی ہے ۔میں توبہ کرتا ہوں کہ اب اس کو نہیں ستاؤں گا۔

میرا نام کؔیکل ہے
غوث العالم محبوب یزدانی حضرت سلطان سید اشرف جہانگیرسمنانی قد س سرہ    باارادۂ سفر حج روانہ ہوئے ۔ حضور کے خدام مصاحبین جیسے مخدوم زادہ سید عبدالرزاق نورالعین ، حضرت شیخ ابوالوفا خوازمی ، حضرت خواجہ ابوالمکارم ، شیخ الاسلام، بابا حسین ، تنگر قلی ترکی، اور ابوالفضائل حضرت نظام الدین یمنی حضور کے ہمراہ تھے۔ بندرگاہ روم میں جب جہاز پر بیٹھے کسی قدر دریا کا راستہ طے کیا تھا کہ باد مخالف چلنے لگی۔ تین دن ہوگئے اور باد مخالف اسی طرح چلتی رہی ۔ حضرت غوث العالم کو ایک عجیب و غریب حالتِ وجد و حال کی تھی بالکل حواس کی خبر نہ تھی مگر وہ پنج وقتہ نماز اور وظائف معمولی ادافرماتے تھے لیکن ہمراہیوں کے دل میں یہ بات جمتی تھی کہ آپ آپے میں نماز ادا نہیں فرماتے ہیں بلکہ بے خودی میں ۔جہاز والوں کی بے چینی بادمخالف سے حد سے زیادہ بڑھی ۔ حضرت کی خدمت میں لوگوں نے عرض کیا ۔ آپ مسکراکر فرمایا کہ مجذوب شیرازی کا شعر پڑھنا چاہیے اور زبان مبارک سے یہ  فرمایا :۔
کشتی کشتگا نیم اے  باد شرطہ  برخیز
باشد کہ باز  بینم آں  یار آشنا را
ابھی یہ شعر زبان مبارک نہیں نکلا تھا کہ ہوا موافق چل پڑی اور جہاز تیزی کے ساتھ چلنے لگا۔ جب جہاز زیادہ راہ طے کرچکا تو حضرت نظام الدین یمنی کے دل میں یہ خطرہ پید اہوا کہ معرفت دل کی شرائط سے ایک شرط یہ ہے کہ دنیا کے ظاہر وپوشیدہ حالتوں سے خبردار ہو ۔ یہ بارہا حضرت محبوب یزدانی کے دل پر کھل چکا ہے لیکن کوئی عارف اس زمانہ میں ایسا ہے جو دریا کے رہنے والوں اور عارفوں کی خبر دے۔
اس خطرہ کے پیدا ہوتے ہی حضرت نے اس خادم کی طرف خطاب فرمایا کہ فرزند نظام الدین  ! اس قدر جان لینا عارفان خدا کے نزدیک گھاس کے جاننے سے بھی کم ہے ۔ ہم اسی گفتگومیں تھے کہ دریا کا پانی پھٹا اور ایک مرد ظاہر ہوا  اور بولا کہ اے نظا م الدین ! میں ان مردوں میں  سےہوں جو دریا میں عبادت کرتے ہیں۔
آپ نے پوچھا کہ تمہارا نام کیا ہے اور کہاں رہتے ہو اور تمہارے طریقے میں مرید اور خلیفہ ہونے کا دستور ہے جیسا کہ خشکی کے اولیا میں ہے؟
بولاکہ : دریا میں ایک شہر ہے اس کو مدینۃ الاشرف کہتے ہیں  اس میں ایک بزرگ ہیں جن کو شیخ درالبحر کہتے ہیں اور اپنے کو کمترین خلفاء اشرفی سے کہلاتے ہیں ۔ دس ہزار آدمی ان کے مرید ہیں ۔ جو طالبان صادق سے ہیں ان میں سے ایک میں ہوں  اور میرا نام کؔیکل ہے۔
حضرت نظام الدین یمنی نے کہا کہ تمہارے پیر جن حضرت سے اپنے  کو نسبت کرتے ہیں وہ اسی جہاز پر تشریف فرما ہیں۔

اس بات کے سنتے ہی وہ دریا سے نکلا او رایسا لباس پہنے ہوئے تھے کہ جو پریوں کے لباس سے مشابہ تھا۔ شرف قدمبوسی سے مشرف ہوا ۔ حضرت محبوب یزدانی سے بہت سی باتیں کیں ۔ قریب ایک پہر کے باہمی گقتگو رہی ۔ حضرت کے ہمراہیوں میں سے کوئی بھی ان کی بات نہیں سمجھتا تھا۔ 

No comments:

Post a Comment