لشکرروم کو فتح ہوئی
غوث العالم محبوب یزدانی حضرت سلطان سید اشرف
جہانگیرسمنانی رضی اللہ عنہ مع
اپنے خلفاء اور اصحاب مثل شیخ نجم الدین صغریٰ اور شیخ نجم الدین کبریٰ اور بابا
قلی ترک مع دیگر جماعت خلفاء اور بعض ساکنان شہر بلخ میں بیٹھے تھے اور اسرار
معرفت بیان فرمارہے تھے۔ حاضرین گوش دل سے سن رہے تھے۔ ناگاہ حضرت نے اپنا عصا
مبارک اٹھایا اور چندبار غضب کے ساتھ جامع مسجد کی دیوار پر مارا ۔ اس حالت غریب اور جلالت عجیب
کو دیکھ کر اصحاب کو حیرت ہوئی ۔ جب یہ حالت فرو ہوگئی تو حضرت نورالعین نے سامنے
آکر دریافت کیا ۔ بہت ٹال بال کے بعد حضرت نے فرمایا کہ اس وقت میدان موصل میں دریائے کے کنارے تھوڑی سے رومی
فوج اور حبشیوں کی بڑی فوج کے ساتھ جنگ
ہورہی ہے اور اس لڑائی میں میراایک رومی مرید شریک تھا اس نے مجھ سے مدد طلب کی
تومجھ کو اس کی دستگیری کرنی پڑی اور آپس میں نہایت دلیر انہ لڑائی ہوئی اور
فرنگیوں کے ایک سو سوار میدا ن میں مارے گئے ۔ ان میں سے ایک ابلق گھوڑے پر سوارتھا
۔ اس کا بایاں ہاتھ تلوار کے ضرب سے کٹ کر گرپڑا ۔ حق تعالیٰ نے لشکرروم کو فتح
نصیب فرمائی اور دوسرے کو شکست ہوگئی۔
بعض
مریدوں نے تسکین خاطر کے واسطے اس واقعہ کی تاریخ لکھ لی ۔ چند روز کے بعد ایک
زخمی آدمی اس لڑائی سے نکل کر اس جگہ آیا تو اس ماجرا کی تطبیق اور تصدیق ہوگئی۔
یہ واقعہ بعینہٖ ایسا ہی تھا جیسا کہ یہاں دیکھا گیا۔
بائیں پیر کی چھنگلیاں
ایک شخص
امراء لاچین سے حضرت غوث العالم محبوب یزدانی حضرت سلطان سید اشرف جہانگیرسمنانی قد س
سرہ سے کچھ انکار رکھتا تھا ۔ ایک دن حضرت کی دعوت
کی اور دسترخوان پر طرح طرح کے کھانے چنے گئے۔ دوپیالہ میں چوزۂ مُرغ پکا ہوا حضرت
کے سامنے کیا ایک پیالے میں چوزۂ مُرغ جو وجہ حلال سے خرید کر پکوایا تھا اور دوسرے
پیالے میں چوزۂ مُرغ جو بلاقیمت بظلم وجہ حرام سے لیا تھا ۔ آپ نے وہ پیالہ چوزۂ
مُرغ جو وجہ حلال سے پکا ہوا تھا اپنے سامنے رکھا ۔ دوسرا پیالہ جس میں چوزۂ مُرغ
وجہ حرام سے تھا ۔ دعوت کرنے والے کے سامنے بڑھا دیا اور فرمایا کہ یہ تمہارا حق
ہے اور تمہارے لئے مناسب ہے۔
حضرت
مولانا ابوالفضائل نظام الدین یمنی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ حضرت کی خدمت میں
بارہا دیکھا کہ جب کسی وقت کسی نے طعام مشکوک کو حضرت کے سامنے پیش کیا تو آپ کی
بائیں پیر کی چھنگلیاں خود بخود حرکت کرتی ۔
زبان منہ سے باہر نکل پڑی
ایک مرتبہ
کچھ ہندؤ نے قول و فعل کے لئے درگاہ عالیہ اشرفیہ پر حاضر ہوئے اور آستانہ کی پہلی سیڑھی
پر ہاتھ رکھ کر عہد کیا کہ اگراپنے وعدے منحرف ہوں تو مہاراج مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی کی مار
پڑے۔ چنانچہ وہ لوگ درگاہ شریف سے قریب ہی واقع گاؤں "بریانواں" پہنچے
تو ان میں سے ایک ہندو نے اپنا قول توڑ دیا جس کے نتیجے میں اسکی زبان منہ سے باہر
نکل پڑی ۔ بہت کوشش کے باوجود زبان منہ میں نہ گئی اسی حالت میں اسے درگاہ شریف
لایا گیا ، درگاہ شریف پہنچتے ہی اس نے دم
توڑ دیا ، اس روز کے بعد سے اس علاقے کے
ہندو پرماتما کی قسم کھاکر تو پھرتے ہیں لیکن سلطان سید اشرف جہانگیر سمنانی کی
قسم کھا کر نہیں پھرتے۔ (معارف اشرفیہ)
ایک لمحہ میں منازل سلوک طے کرلی
غوث
العالم محبوب یزدانی حضرت سلطان سید اشرف جہانگیرسمنانی قد س
سرہ جس وقت شیراز بغرض زیارت مقابر
بزرگان قیام پزیر ہوئے اور قیام گاہ میں بیٹھے ہوئے تھت کہ ایک درویش حضور کی
ملازمت کے لئے حاضر ہوا اور عرض کرنے لگا کہ بارہ سال سے مجاہدہ اور ریاضت میں
مشغول رہتا ہوں اور فلاں فلاں بزرگ کی خدمت میں حاضر رہا لیکن مجھ کو کچھ حاصل نہ
ہوا۔
جب وہ
درویش خدمت عالی میں بکمال عجرو نیاز و اظہار انکسار بصد مبالغہ عرض حال کرنے لگا۔
توحضرت محبوب یزدانی نے فرمایا خاطر جمع رکھو اور ان کی کشود کے لئے فاتحہ پڑھا
ایک گھڑی بھی نہیں گزری تھی کہ حضرت کی توجہ سے ابتدا سے انتہاتک منازل سلوک
اسکےطے ہوگئے اور تمام اسرار معرفت اس پر کھل گئے۔ چنانچہ اس شخص کے اثر حالت سے
تمام حاضرین بہت مؤثر ہوئے۔
جس کو چاہوں
فتحمند
کروں
غوث
العالم محبوب یزدانی حضرت سلطان سید اشرف جہانگیرسمنانی قد س
سرہ مع بعض اصحاب مثل حضرت نورالعین اور
حضرت شیخ ابوالقاسم اور شیخ علی سمنانی اور بابا حسین خادم اور مولانا
عزیزالدین شجرہ نویس کے جنگ صاحبقراں گیتی ستاں میں بہادر پہلوانوں کے
معرکہ کا تماشہ کرنے کے واسطے تشریف لے گئے ۔ ایک پہاڑ کی چوٹی پر چڑھ کر دیکھا
دونوں طرف کے پہلوان باہم مشغول کارزار ہیں ۔ جب دونوں لشکروں کے بہادروں نے
تلواریں کھینچ لیں تو حضرت نے فرمایا کہ یہ دونوں لشکر میرے ہاتھ میں ہیں جس کو
چاہوں فتحمند کروں اور جس کو چاہوں مغلوب کروں۔ یہ کہتے ہوئے آستین
مبارک کا جھٹکا دیا اور اپنے دوسرے بازو کو ایک فوج کے مقابل کیا اور جس ہاتھ کے
پنجے کو اٹھاتا دیتے تھے اس طرف کا لشکرغالب ہو جاتا تھا اور دوسری طرف کا لشکر
مغلوب ہو جاتا تھا ۔ پانچ بار اسی طرح کیا جس ہاتھ کے پنجے کو اٹھادیتے تھے اس طرف
کا لشکر مظفر و منور ہوجاتا تھا اوریہ واقعہ نہایت عجیب و غریب تھا ۔ حضرت خواجہ
روز بھان قد س سرہ نے اس واقعہ کی نسبت بزبان فارسی میں رباعی تصنیف فرمائی ہے۔ صحائف اشرفی 1/258 ملاحظہ
کریں ۔
پچیس سالہ بوڑھا
بزرگ
حضرت
شیخ چراغ ہند قد س سرہ اس ولایت کے مالک
تھے پہلے پہلے تو آپ کو حضرت میر جہانگیر سمنانی کی یہ مقبولیت اور شہرت پسند نہ
آئی ۔ لیکن آپ کو اتنی ہمت نہیں تھی کہ آپ کے خلاف اٹھ کر کوئی ایسا کام کرسکیں ۔
حضرت کو تکلیف پہونچاسکیں ۔ حضرت مولانا شیخ محمد کبیر عباسی سرہر پوری جو ایک
خواب کی بنا پر سرہر پور سے ظفر آباد میں حضرت حاجی چراغ ہند کی خدمت میں آئے۔خواب
یہ تھا کہ جس کا سبب یہ پیدا ہوا۔یعنی جب حضرت مولانا محمد کبیر تحصیل علوم سے
فارغ ہوئے آپ کے دل میں شوق پیدا ہوا کہ کسی مرد کامل اور درویش صاحب دل سے بیعت
حاصل کرکے تکمیل سلوک حاصل کریں۔شب کو یہ خواب دیکھا کہ ایک صاحب نورانی صورت
،میانہ قد، ریش مبارک کے بال سرخ، تشریف لائے ہیں اور مجھ کو بیعت کیا ہے۔ شربت
پلایا اور روٹی بھی کھلائی ۔جب خواب سے بیدار ہوئے۔ شوق دل طلب سلوک میں حد سے
زیادہ بڑھا۔دل میں سوچنے لگے کہ اس دیار میں صاحب ولایت حضرت حاجی چراغ ہند ہیں
۔غالبا خواب میں اشارہ انہیں کی طرف سے ہوا ہوگا۔اسی خیال سے رواں دواں ظفر آباد
پہونچے ۔آپ کے ہمراہ شاگردوں کی بھی ایک جماعت تھی اور وہ سب آپ کے ساتھ بیعت کرنا
چاہتے تھے۔جب حضرت حاجی چراغ ہند کی صورت دیکھی تو جو شکل خواب میں نظر آئی تھی وہ
نہ پائی۔حضرت شیخ کبیر کا دل چراغ ہند سے بیعت کرنے پر راضی نہ ہوا۔مگر چندروز
وہاں ٹھہرے۔ اسی اثناء میں نسیم ولایت جہانگیری عالم میں چلنے لگی اور تجلیات
خورشید ہدایت چار سمت میں پھیل گئی ۔
حضرت سلطان
سید اشرف جہانگیر سمنانی قد س سرہ مسجد
ظفر خاں میں رونق افروز تھے۔اور فرماتے تھے کہ میرے دماغ میں ایک دوست کی خوشبو
آتی ہے۔اور تعجب ہے کہ وہ چلا کیوں نہیں آتا۔ جب حضرت کی شہرت عام طور سے ادنی
واعلی کو پہونچی۔تو حضرت شیخ کبیر کو بھی اشتیاق قدمبوسی ہوا۔کہ شرف دیدار حاصل
کروں ۔
حضرت
سلطان سید اشرف جہانگیر سمنانی قد س سرہ بعد
ادائے وظائف صبح اشراق کی نماز پڑھ کر مجمع یاراں میں بیٹھے ہوئے تھے۔کہ حضرت شیخ
کبیر حاضر ہوئے۔دور سے جیسے ہی نظر پڑی ۔حضور محبوب یزدانی نے فرمایا کہ وہ یار کہ
جس کو میں یاد کررہا تھا۔آگیا ۔ شیخ کبیر عباسی کے آنے سے پہلے ہی خادم کو روٹی اور شربت تیار
کرنے کا حکم دے چکے تھے۔جب شیخ کبیر نے دور سے جمال مبارک دیکھا جو صورت خواب میں
دیکھی تھی وہی نظر آئی ۔آیتہ كریمہ: انى وجهت وجهى للذى فطرالسموات والأرض پڑھتے ہوئے سر قدم مبارک پر رکھ دیا اور شرف
بیعت سے مشرف ہوئے ۔حضور محبوب یزدانی نے روٹی اور شربت اپنے دست مبارک سے کھلایا
پلایا ۔بیعت کا شرف حاصل کرنے کے بعد حضرت کے اصحاب سے مصافحہ کیا اور سب نے
مبارکباد دی۔
حضرت
شیخ کبیر عباسی کے مرید ہونے کی خبر جب
عام طور سے مشہور ہوئی۔حضرت حاجی چراغ ہند نے بھی ان کے مرید ہونے کا قصہ سنا یہ
بات آپ کے مزاج کے موافق نہ ہوئی۔کہ ایک آدمی کل میرے پاس مرید ہونے کے لئے آیا
اور جاکر مرید ہوگیا ۔ اس لئے ہر چند کہ آپ کے مناسب حال نہ تھا۔مگر انسانی تقاضا
کے تحت مزاج عالی میں تعصب پیدا ہوااور تجلی اسم جلال شیخ کے سر میں متجلی ہوئی۔فرمایا
کہ کبیر جوان مرجائے گا۔کہ یہاں سے جاکر وہاں مرید ہوگیا۔
چونکہ حضرت
شیخ کبیر حضرت سلطان سید اشرف جہانگیر
سمنانی قد س سرہ کے فیض نظر کیمیا اثر سے
کامل ہوچکے تھے۔حضرت حاجی چراغ ہند کا کہنا آپ پر ظاہر ہوگیا اور حضرت بھی اس حال
سے متاثر ہوئے۔فرمایا کہ اے فرزند کبیر تم غم نہ کھاؤ۔کہ کبیر تو بوڑھا ہوگا۔لیکن
جنہوں نے تم کو بدعا دی ہے تم بھی ان کے بارے میں کچھ کہو ۔جو تم کہوگے وہی ہوگا۔
حضرت
شیخ کبیر عباسی نے کمال عاجزی سے عرض
کیاکہ اب میں ان کو کیا کہوں جو کچھ کہ ان کی طرف سے صادر ہوا ہے انہی کی طرف لوٹ
جائے۔
حضرت سلطان سید اشرف جہانگیر سمنانی قد س سرہ نے جب یہ معائنہ کیا تو فرمایا کہ
درویشوں سے یہ بات آسان ہے۔مشیئت الہی یہی تھی۔دونوں بزرگوں کی بات اپنی اپنی جگہ
پر رہی۔حضرت شیخ کبیر پچیس برس کی عمر میں ایسے بوڑھے ہوگئے کہ جیسے سو سال کا
بوڑھا ہوتا ہے۔اور حضرت شیخ حاجی چراغ ہند کا شمع ہدایت شیخ کبیر کے انتقال سے
پانچ سال قبل گل ہوگیا۔ (مراۃ الاسرار )
اس مقام
پر یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ ایک ولی کی زبان سے جو کچھ نکل جائے دوسرا ولی اس کو
ٹال سکتا ہے ۔مگر حالت مشائخ دیکھنے سے یہ بات ثابت ہوئی کی سوائے غوث کے دوسرا
ولی کسی ولی کی زبان کو ٹال نہیں سکتا چونکہ غوث العالم محبوب یزدانی سلطان سید
اشرف جہانگیر سمنانی قد س سرہ اولیائے روئے زمین کے سردار تھے۔اس لئے آپ کےفرمانے سے حضرت
کبیر پچیس برس کی عمر میں بوڑھے ہوگئے ۔اب اگر جوان ہوتے تو اسی وقت انتقال کر
جاتے اسی لئے آپ کی حیات میں اسقدر خدانے برکت دی کہ حضرت چراغ ہند ظفر آبادی وصال
کے بعد پانچ برس اور زندہ رہے۔
روزانہ چار اشرفیاں ملیں گے
غوث العالم محبوب یزدانی سلطان سید اشرف جہانگیر
سمنانی قد س سرہ قد س سرہ جب سفر دکن میں تشریف لے گئے اور خانقاہ عالم
پناہ حضرت بندہ نواز گیسو دراز قد س سرہ میں قیام فرمایا محمود خان گجراتی جو وہاں
کے مشہور امیر و رئیس تھے ۔ حضرت کی ملازمت کے لئے حاضر خدمت ہوئے اور خدمت عالی
سے شرف پایا ۔ حضرت ان کی طرف کمال عنایت
اور توجہ دلی فرماتے تھے۔ جب حضرت کے فیض صحبت نے اثر کامل ڈالا یکبارگی محمود خان
نے تمام مال و اسباب دنیا جو کچھ ان کے پاس موجود تھا سب فقراء کو لٹا دیا یہاں تک
کہ قوت شبینہ کے محتاج ہوگئے ۔ حضرت محبوب یزدانی نے فرمایا کہ کس قدر خرچ عیال
روز مرہ تم کو چائیے؟
عرض کیا
کہ چار اشرفیاں خرچ روزانہ کوکافی ہوں گی۔
حضر ت نے فرمایا کہ ایک پہاڑ ہے جو خیال شاہی کے
نام سے موسوم ہے اس پہاڑ پر تم روز جانا چار اشرفیاں تم ملا کریں گے۔
اس کے
بعدمحمود خان روزوہاں جایا کرتے تھے اور
چار اشرفیاں حاصل کیا کرتے تھے۔
اسی مثل کےسو شکلیں
سلطان
سید اشرف جہانگیر سمنانی قد س سرہ دارالسلطنت
روم میں عرصہ تک قیا م فرماتے تھے اور ہمراہیوں کے لئے ایک خانقاہ بنائی تھی اور
اس کے پہلومیں ایک خلوت خانہ تیار کردیا تھا کہ وہاں خود آرام فرماتے تھے ایک دن
سلطان دلد کے صاحبزادے نے جو حضرت مولانا رومی کے سجادہ نشین تھے سلطان سید اشرف
جہانگیر سمنانی قد س سرہ کی دعوت
کی اور بہت سے مشائخ کو اس دعوت میں بلایا ۔ شیخ الاسلام نے جو بڑے عالم و فاضل
تھےاور کسی قدر حضرت کے بارے میں نقطہ چینی دل میں رکھتے تھے ، دل میں ٹھان لیا کہ
جب حضرت سید سمنانی اس مجلس میں تشرتف لائیں تو وہ مشکل مسئلہ ان سے پوچھوں کہ جس
کے جواب سے وہ عاجز ہوں ۔
جب حضرت
کے قدم مبارک نے محفل میں جانے کی راہ اختیار کی اور جب تک حضرت دروازہ پر پہونچیں
، ناگاہ شیخ الاسلام کی نگاہ میں ایسا نظر آیا کہ ایک صورت حضرت کی شکل میں حضرت
کے جسم سے باہر نکلی اور ایک صورت سے دوسری پیدا ہوئی ۔ اسی مثل کےسو شکلیں شیخ الاسلام کے نظر میں ظاہر ہوئیں۔ مخدوم زادہ
رومی استقبال کے لئے دروازے پر آئے اور بڑی عزت سے آپ کو لیا اور سب سے بلند تخت
پر آپ کو بٹھلایا۔
شیخ
الاسلام کی طرف رخ کرکے حضرت سلطان سید اشرف جہانگیر سمنانی رضی اللہ عنہ نے
فرمایا کہ ان میں سے کس صورت سے تم مسئلہ پوچھتے ہو ؟ اس بات کو سنتے ہی ان میں اس قدر ہیبت کا غلبہ
ہواکہ گویا آسمان و زمین ٹکر کھاگئے۔
شیخ
الاسلام بے اخیتار اٹھے اور حضرت مخدوم زادہ رومی کو اپنا مددگار اور شفیع بنایا
اور حضرت کے قدم پر سر ڈال دیا اور عرض کیا کہ عذر خواہ ہوںتقصیر معاف فرمائیے۔
فرمایا
چوں کہ مخدوم رومی کو درمیان میں لائے ہو تو اب نہ ڈرو ورنہ تمہیں بتادیا جاتا
لیکن اس کے بعد کسی شخص کو اس گروہ کے اور
کسی درجہ کے صوفی کو بھی نظر انکار سے نہ دیکھنا۔
No comments:
Post a Comment