ملک العلماء کا خطاب
حضرت
ملک العلماء قاضی شہاب الدین دولت آبادی علیہ الرحمہ ( المتوفی 848 ہجری) اپنے وقت
کے عالم جلیل اور فاضل بے عدیل تھے ۔ سلطان ابراہیم شرقی حضرت ملک العلماء کے علمی
جلال وکمال سے اس قدر متاثر تھا کہ عہدۂ قضاۃ کو ان کے سپرد کردیا تھا اور انتظامی
معاملات میں ان کے گراں قدر مشوروں کا محتاج بنتا گیا ایک روایت ہے کہ حضرت ملک
العلماء سخت علیل ہوگئے اور امید زیست منقطع ہونے لگی تو سلطان ابراہیم شرقی نے
جوش عقیدت اور فرط محبت میں حضرت ملک العلماء علیہ الرحمہ کے سر سے نچھاور کرکے
ایک پیالہ پانی پی لیا اور دعا مانگی کہ اے پروردگار عالم! ملک العلماء کو شفائے
کاملہ عطا فرما اور ان کے بدلے میں مجھے
مریض بنادے ۔ سلطان کی دعا بارگاہ صمدیت میں قبول ہوئی اور ملک العلماء
علیہ الرحمہ کی وفات کے دوسال قبل ہی 864 ہجری میں سلطان ابراہیم شرقی کا
انتقال ہوگیا۔ (تاریخ شیراز ہند جون پور صفحہ 118، 602)
حضرت
ملک العلماء علیہ الرحمہ کی تصانیف میں حواشی کافیہ ، کتاب الارشاد، بدیع
البیان ، بحرمواج ، رسالہ تقسیم علوم ، رسالہ صنائع اور رسالہ مناقب السادات کے
نام مختلف تذکروں میں ملتا ہیں۔
حضرت
ملک العلماء کو حضرت سلطان سید اشرف جہانگیر سمنانی کےساتھ بے حد عقیدت پیدا ہوئی
۔ مصروفیت کے وجہ سے اگر روزانہ نہ پہونچ سکتے تو دوسرے تیسرے دن ضرور حاضر خدمت
ہوا کرتے اور ایک ایک اپنی تصانیف حضرت کی خدمت میں لاکر پیش کرتے، تصدیق حاصل
کرتے اور آپ سے قبولیت کی دعاچاہتے۔ سلطان سید اشرف جہانگیر سمنانی السامانی قد س سرہ نے دوسری آمد میں ملک العلماء حضرت قاضی
شہاب الدین علیہ الرحمہ کو خرقہ خلافت اور مثال ارشاد عطا کرکے کتاب شرح ہدایہ جو
آپ نے تصنیف کی تھی اور ولایت سے ہمراہ آئی تھی عنایت فرمائی۔ ملک العلماء
کا خطاب آپ ہی کا عطا کردہ ہے جیساکہ
......
صحائف
اشرفی میں حضور شیخ المشائخ اعلیٰ حضرت حضرت سید علی حسین اشرف اشرفی میاں قدس سرہ
سجادہ نشین کچھوچھہ شریف لکھتے ہیں کہ سنوات الاتقیاء جو تصنیف شیخ ابراہیم سرہندی
کی ہے اس کو حضرت مولانا سید اسماعیل حسن صاحب قادری مارہروی قدس سرہ نے مجھے (اعلی
حضرت اشرفی میاں کو ) دکھلایا ۔اس میں
لکھا ہے کہ ایک دن قاضی شہاب الدین ملک العلماء خدمت عالی حضرت محبوب
یزدانی میں اس خیال سے حاضر ہوئے کہ حضور محبوب یزدانی مجھ کو میرے لائق
خطاب عطا فرمائیں اور وہ چیز کھلائیں۔جو میں نے کبھی نہ کھائی ہو۔جیسے ہی خیمے
مبارک کے قریب آئے طناب خیمہ سے الجھ کر قاضی صاحب کی پگڑی گر پڑی۔
حضرت
محبوب یزدانی نے فرمایا ۔ملک العلماء دستار سرپر رکھو ۔جب خدمت عالی میں حاضر ہوئے
تو حضرت نے باورچی سے فرمایا کہ طعام ماحضر قاضی صاحب کے لئے لاؤ۔باورچی نے ایک
پیالہ کھیر کا قاضی صاحب کے سامنے پیش کیا۔قاضی صاحب دل میں سوچنے لگے کہ کھیر
کوئی نایاب کھانا نہیں ۔میں نے تو بارہا کھیر کھائی ہے۔
حضور
محبوب یزدانی نے فرمایا کہ فقیر کے ساتھ گائے بھینس نہیں رہتی ہیں ۔جہاں فقیر جاتا
ہے جنگل کے ہرن ،نیل گاؤ آکر دودھ دے جاتے ہیں ۔بھلا ایسی کھیر آپ کو کب میسر ہوئی
ہوگی۔یہ سن کر قاضی صاحب دل ہی دل میں پشیمان ہوئے ۔
نادرالعصر
تحفہ
حضور
محبوب یزدانی مقام پنڈوہ شریف سے جب رخصت ہوکر چلے اور خطہ جونپور میں قیام فرمایا۔حضرت
قاضی شہاب الدین ملک العلماء دولت آبادی قدس سرہ خدمت عالی میں تین باتوں کا خیال
کرکے حاضر ہوئے۔ایک تو یہ کہ اپنا جوٹھا عنایت فرمائیں ۔دوسرے ایسا تحفہ دیں جو کہ
نادرالعصر ہو۔تیسری وہ بات کریں کہ آپ کی طرف سے گمان شیعت کا میرے دل سے اٹھ
جائے۔
جس وقت
حاضر خدمت ہوئے حضور محبوب یزدانی وضو فرمارہے تھے۔جیسا کہ طریقہ اہل سنت کا ہوتا
ہے۔جب مبارک عضو دھوئے تو قاضی صاحب کی
طرف ہنس کر فرمایا ۔
ظن المؤمنين خيرا مسلمانوں کی طرف نیک گمان کرنا چاہیئے ۔
ہندوستان
کے آدمی عجیب قسم کے شبہ کرنے والے ہوتے ہیں ۔بقیہ وضو کا پانی اول حضرت نے خود
پیا ۔تھوڑا سا بچا ہوا پانی قاضی صاحب کو عنایت فرمایا کہ پی جاؤاس میں آب زمزم
ہے۔
جب حضرت
نے رخصت کیا تو کتاب ہدایہ جو ولایت سے تصحیح کرکے ہمراہ لائے تھے۔اور اس پر حاشیہ
قلم مبارک مولانا برہان الدین مرغینانی ہروی قدس سرہ کا تھا۔اور بعض حاشیہ حضرت سلطان
سید اشرف جہانگیرسمنانی نے اپنی طرف سے اس پر لکھا تھا ۔قاضی صاحب کو عنایت فرمایا
۔اور فرمایا کہ اس راہ کا علم مشکل ہے۔کم سے برادر شہاب الدین کے علم کے برابا
ہونا چاہیے ۔ (صحائف اشرفی)
آئینہ
ہوتاہے اہل دل کا دل
کشف ہو
تجھ پر کسی کامل سے مل
ایک ادنیٰ خادم کے خادم
حضرت
سلطان سید اشرف جہانگیرسمنانی قد س سرہ
مسجد جونپور میں نزول فرما تھے اور آپ کی خدمت میں شیخ محمد کبیر عباسی ،
حضرت حضرت رفیع الدین اودھی ، حضرت شیخ
ابوالمکارم ، حضرت خواجہ ابوالوفا خوارزمی
یہ سب لوگ لوگ حاضر تھے حضرت
شطحیات مشائخ بیان فرمارہے تھے ۔ اسی اثنا میں آپ پر ایک حالت پر جوش پیدا ہوئی
اسی حالت میں فرمایا:
قال الاشرف الناس کلھم عبد لعبدی
تمام
آدمی میرے ایک ادنیٰ خادم کے خادم ہیں
حاضرین اس کو سن رہے تھے لیکن اس کا افشا کرنا مناسب
نہیں سمجھتے تھے کہ اگر بعض علماء ظاہر جو اسرار باطنی سے مطلع نہیں ہیں ۔سنیں گے
تو اعتراض و انکار کریں گے۔ جب اس پر ایک مدت گزر گئی حاجی صدرالدین علماء مجلس
میں بیٹھے ہوئے تھے اتفاقیہ ان کے منہ سے یہ بات نگل گئی کہ حضرت محبوب یزدانی نے
ایسا فرمایا ۔ حاجی صاحب سے یہ بات سن کر بعض حاسدوں کو حسد پیدا ہوا اور اعتراض
کرنے لگے اس کے کیا معنی ٰ ہے ۔ چنانچہ حضرت شیخ میرصدرجہاں اور قاضی شہاب الدین دولت آبادی اس
مجمع میں موجود تھے اس بات کے سنتے ہی قاضی صاحب نے فرمایا کہ درویشوں کا حال
معلوم نہیں ہوسکتا کہ وہ کس حالت میں تھے بلکہ بہتر یہ ہے کہ خود حضور سے دریافت
کریں کیوں کہ اس پر اعتراض نہ کریں اور انکار سے پیش نہ آئیں بلکہ بہتر یہ ہے کہ خود
حضور سے دریافت کریں کہ کیوں کہ وہ ایک سید عالی حال صاحب کمال ہیں ۔ تصرف تمام رکھتے ہیں ۔ کسی کو آج تک میں نہیں دیکھا
کہ ان کا مقابلہ کرے اور کس کے بازو میں یہ قوت ہے۔
ایک
وحشی مزاج شخص کہنے لگا کہ ہمارا شہر علماء سے بھرا ہوا ہے ۔ تعجب معلوم ہوتا ہے
کہ کوئی شخص ایسی غرور بھری ہوئی اور حیر ت انگیز بات کہےاور کوئی اس کے جواب میں
اور استفسار میں لب نہ ہلائے۔ ملامحمود ایک جلیل القدر عالم تھے اور بڑے بحاث تھے
ان کو سب نے حضرت محبوب یزدانی کی خدمت میں بھیجاکہ استفسار معنی ٰ کریں ۔ حضرت قاضی شہاب الدین دولت آبادی نے
فرمایا کہ محمود بھیا آداب مجلس مشائخ
نہیں جانتا مبادا ایسی بات کہے کہ باعث گرانی خاطر سید ہو ۔ کل میں حاضر سید کی
ملازمت میں جاؤں گا اور اس کے معنی ٰ کی تحقیق کروں گاجو اول گزرا اور اس طرح عض
کروں گا کہ حضرت محبوب یزدانی کو ناگوار خاطر نہ ہوگا کیوں کہ حضور کا مزاج بہت
نازک ہے۔
حضرت
محبوب یزدانی بعد ادائے وظائف معہودہ اپنے اصحاب کے مجمع میں بیٹھے تھے کہ قاضی
شہاب الدین تشریف لائے ۔ حضرت نے حسب معمول چند قدم ان کا استقبال کیا اور بکمال
تعظیم لاکر بٹھلایا ۔ چند مسائل فقہ حضرت محبوب یزدانی حل کرکے سب کو سمجھا رہے
تھے۔ رفتہ رفتہ معرفت و تصوف اور لطائف
عرفان کی باتیں درمیاں میں آئیں جب حضرت محبوب یزدانی حقائق بیان فرمانے لگے تغیر
چہرۂ مبارک پر ظاہر تھا۔نکات صوفیہ اس طرح بیان فرمارہے تھے کہ سامعین کے ذہن میں
کوئی بات نہیں آرہی تھی ۔ حاضرین اس قدر متاثر و مسرور ہوئے کہ اپنے شعور سے بےخود
ہوگئے ۔ اس قدر مجلس کے حاضرین پر کیفیت و جدا ور حال پیدا ہوئی کہ کسی کو شعور نہ
رہا۔
حضرت
محبوب یزدانی ایک پہر کے بعد عالم شعور میں آئے اور قاضی صاحب سے اخلاق و مدارت کی
باتیں کرنے لگے ۔ حضرت قاضی صاحب چاہتے تھے کہ رخصت ہوں ، حضرت نے نور باطن سے
دریافت کیا اور فرمایا کہ بسبب نزول اقدام شریف شاید کسی بات کے استفسار پر مبنی
ہو۔
حضرت
قاضی کمال دہشت اور ادب سے عرض کرنے لگا کہ ہاں اگر اجازت ہوتو عرض کروں
کہ اس قسم کی باتیں حضرت سید کیا فرماتےہیں ۔
فرمایا
کہ اس کا سمجھنا بہت آسان ہے ۔ کلمہ الناس کلھم عبدلعبدی
الناس
پر الف لام صادر ہوا ہے اور الف لام عہد کے واسطے بھی آیاہے اس واسطے کہ اکثر زمانے
کے آدمی بندۂ ہواؤہوس ہوتے ہیں اور حق تعالیٰ نےہواؤہوس کو میرا بندہ اور محکوم بنایا ہے اور چوں کہ اہل
عالم محکوم ہوائے نفسانی ہوئے تو میرے بندے کے بندے ہوئے اور میرے محکوم
کے محکوم ہوئے باعتبار کثرت احکام نچسانی اس قسم کی بات ہوئی۔
حضرت
قاضی شہاب نے جب یہ مفہوم حضرت محبوب یزدانی کا سمجھا خوشی خوشی خدمت عالی سے رخصت
ہوئے ۔ قاضی صاحب کے جانے کے بعد حضرت محبوب یزدانی نے فرمایا کہ کس سیاہ رونے اس
راز درویشانہ کو مجلس علماء میں نقل کیا ہے ۔
حاجی
صدرالدین بھی مجلس عالی میں بیٹھے ہوئے تھے حضرت کی بات کا اثر ان پر ظاہر ہوا اور
ان کا چہرہ سیا ہ ہوگیا۔
No comments:
Post a Comment