وصال مبارک
حضرت
سید اشرف جہانگیر سمنانی نے اپنی زندگی سیاحت و تبلیغ دین میں گزاری اور سیاحت کے
دوران کئی سو بزرگان دین سے فیض حاصل کیا ۔ سن
808 ہجری میں ہندوستان میں ہندؤں کے مقدس مقام اجودھیا کے قریب پہنچے اور
کچھوچھہ شریف میں اپنی خانقاہ قائم کی ۔محرم الحرام کا چاند دیکھ کر آپ نے بڑی
طمانیت کا اظہار فرمایا اور ارشاد فرمایا’’ کاش جد مکرم حضرت سیدنا امام حسین
رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی موافقت جلد نصیب ہوتی اسکے بعد آپ کی طبعیت ناساز ہوگئی تو
ان ہی ایام میں مخدوم زادہ نورقطب عالم سیر وسیاحت کرتے ہوئے وہاں پہونچے ۔ ان کے
علاوہ اس علاقے دوسرے مشائخ بھی آ پہونچے ۔ جب حضرت نور قطب عالم پنڈوی قد س سرہ نے ازراہ شفقت دعاکی کہ حق
تعالیٰ ہمارے بھائی کو شفا عطا فرمائے کیونکہ آپ باعث ہدایت خلق ہیں۔ تو آپ نے
فرمایا ۔ اب مخدوم زادہ کی عمر زیادہ ہو کیونکہ میرے اور محبوب کے درمیان اب زیادہ
حجاب حائل نہیں ہے کیا مخدوم زادہ یہ نہیں چاہتے کہ دوست دوست سے جاملے
۔
یہ بات
سن کر خلقت میں شور برپا ہو ا، ماہ مذکورہ
کی پندرہ کو تمام اقطاب ، ابرار ، اخیار، ابدال، اوتاد اور سب رجال غیب
طبع پرسی کے لئے حاضر ہوئے اور صحت جسمانی کے لئے دعاکی تو آپ نے فرمایا تم
لوگ بہتر جانتے ہو کہ حق تعالی نے اپنے فضل وکرم سے مجھے اپنا محبوب کہا ہے اور
بارہ سال ہوئے ہیں کہ اس نے زمین و آسمان کے خزانوں کی چابیاں میرے ہاتھ میں دی
ہیں کہ اس میں تصرف کروں لیکن ادب کے خاطر میں نے کوئی تصرف نہیں کیا ۔ حق تعالیٰ
نے زندگی کااختیار بھی میرے ہاتھ میں دیا ہے کہ اگر چاہوں تو زندہ رہ جاؤں لیکن اس
خاکدان سفلی میں کب تک رہوں گا اب میری خواہش ہے کہ گلزار علوی کی
طرف پرواز کروں ۔ ( مراۃ الاسرار صفحہ 1056)
صاحب
مراۃ الاسرار فرماتے ہیں کہ سلطان سید اشرف جہانگیر سمنانی قدس سرہ نے فرمایا کہ
جو شخص خلوص دل کے ساتھ میری قبر پر آئیگا ۔ ان شاء اللہ ہرگز خالی نہیں جائےگا
اور اس مقام پر ولایت ظاہری اور باطنی کے عزل و نصب کے لئے اکثر
رجال اللہ کا مجمع رہے گا چنانچہ یہ بات آج تک اہل بصیرت پر ظاہر ہے ۔ واضح
رہے کہ جب اس فقیر کاتب حروف (
عبدالرحمٰن چشتی صابری عباسی)کے دل
میں حضرت خواجہ خضر علیہ السلام اور دوسرے رجال اللہ کی زیارت کی خواہش
ہوئی اور بے قرار ہوا تو حضرت خواجہ معین الدین والدین چشتی قد س
سرہ نے مجھ سے فرمایا کہ میرسید اشرف جہانگیرسمنانی کے مزار پر جاؤ
۔ وہاں تمہاری مرادپوری ہوجائے گی ۔ بندہ نے عرض کیا کہ وہاں جانا ضروری ہے ۔
فرمایا ، ہاں بابا۔ حضرت حق سبحانہ تعالے نے ہر جگہ کو ایک خاص برکت اور
خاصیت بخشی ہے اور ہرکام کے لئے ایک وقت مقرر
فرمایا ہے ۔ پس اسی وقت ہر اس جگہ جانا چاہیے تاکہ مراد حاصل ہو ۔ پس یہ
فقیر 1034 ہجری میں وہاں پہونچ کر محرم کے آخری عشرے میں معتکف ہوا۔ ایک رات حضرت
خضر علیہ السلام کو دیکھا کہ حوض میں غسل کررہے ہیں لیکن ان کے ساتھ
گفتگو کا سلسلہ شروع نہ ہوا ۔
ایک
دفعہ دوسرے عشرےماہ محرم میں حضرت خضرعلیہ السلام کو تمام رجال وقت کے ساتھ
دیکھا اور قسم و قسم کے فیوض حاصل کئے اسی جگہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی
روحانیت پاک ، بعض صحابہ کرام اور اکثر مشائخ چشت مثل خواجہ بزرگ و خواجہ قطب
الاسلام ، خواجہ گنج شکر اور سلطان المشائخ وغیرہ کی زیارت ہوئی۔ نیر اس
مجمع میں بہت سے بزرگان دین ظاہر و باطن کی زیارت کی ۔ یہ بھی دیکھا کہ حضرت
خضرعلیہ السلام اور امیر المومنین حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے ایک خوبصورت
اور کوتاہ قد نوجوان کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں ڈالا اور عرض کیا
کہ جہانگیر بادشاہ والئی ہندوستان بیمار ہے اور چند ایام میں اس دنیا سے چل
بسے گا ۔ اس کے لڑکوں میں سے یہ نوجوان سلطنت کے قابل نظر آتاہے ۔ آنحضرت صلی اللہ
علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ مبارک اس کی پیٹھ
پر پھیر کر فرمایا کہ باپ کے قائم مقام ہو جاؤ۔ اس وقت معلوم ہوا کہ وہ جوان شاہ
جہان بن جہانگیر بادشاہ ہے۔ اس کے بعد رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے کمال
مہربانی سے شاہ جہاں کو خواجگان چشت کے حوالہ فرمایا تاکہ اسکی حفاظت کریں
۔ نیز کمال ذرہ پروری سے اس فقیر کو ( خواجہ عبدالرحمٰن چشتی) بھی معنوی
خدمت سپرد ہوئی۔ اس وقت خواجگان چشت نے اس
نوجوان کے جاہ وملک کی محافظت اس فقیر کے سپرد کی اور قسم وقسم کی
نوازشات کی بارش ہوئی ۔ (مراۃ الاسرار صفحہ
1057)
صاحب
مراۃ االاسرار خود ہی فرماتے ہیں کہ اس حکایت کا مقصد یہ ہے کہ ولایت جہانگیری
کے تصرف کی وجہ سے آج تک ولایت صوری و معنوی کا عزل و نصب میر سید اشرف
جہانگیر قدس سرہ کے مزار پر جاری ہے اور اکثر رجال اللہ کا مجمع رہتاہے۔
حضرت سلطان
سید اشرف جہانگیرسمنانی قد س سرہ نے
ستائیس محرم الحرام سال مذکورہ کو تمام بزرگان دین کو رخصت کرکے فرمایا کہ دائیں
طرف کے قطب نے میری جگہ لے لی ہے اور بائیں جانب کے قطب دائیں جانب آگئے ہیں ۔اسی
طرح باقی رجال اللہ کا بھی ایک دوسرے کی جگہ تبادلہ ہوگیا ہے ۔ اب اس دنیا میں
میراکام ختم ہوگیا ہے ۔ آپ نے ماہ مذکورہ
کی اٹھائیس تاریخ کو اپنے مرید حاجی سید عبدالرزاق نورالعین کو جو حضرت غوث
الاعظم قد س سرہ کی اولادتھے ۔ خرقۂ خلافت عطافرماکر اپنا جانشین مقرر کیا اور
تمام خلفاء کو تبرکات عطاکرکے حاجی الحرمین حضرت سید عبدالرزاق نورالعین قد س سرہ کے تابع کردیا ۔ظہر کے وقت آپ
نے نورالعین پاک کو امامت کا حکم
دیا اور خود انکی اقتداء میں نماز پڑھی ۔نماز کے بعد آپ خانقاہ میں رونق افروز
ہوگئے اور سماع کا حکم فرمایا قوالوں نے شیخ سعدی کے اشعار پڑھے ایک شعرپر
آپ کو کیفیت طاری ہو گئی اور اسی وجد کی کیفیت میں خالق حقیقی کے دربار
اقدس میں پہنچ گئے ۔ انا
للہ وانا الیہ راجعون
سلطان
سید اشرف جہانگیر سمنانی قد س سرہ کے چند اسمائے خلفائے کرام
آپ کے
خلفائے کرام کا ذکر تحریر میں لانا آسان
نہیں ہے۔ اس لئے چند خلفائے کرام کا نام لکھتا ہوں
اگر حضرت کے کل خلفاء کے محض نام ہی درج کئے جائیں تو بھی ایک دفتر ہوجائے
یہ چند نام ان خلفائے کے لکھے جاتے ہیں جن کا تذکرہ لطائف اشرفی اور مکتوبات اشرفی
کے مختلف مقامات میں درج ہیں۔ حق تعالیٰ نے حضرت سلطان سید اشرف جہانگیر سمنانی قد
س سرہ کی شان یہ بلند بنائی کہ آپ غوث
العالم اولیائے روئے زمین کے سردار اورافسر تھے ۔ آپ نے تین بارساری دنیا کا سفر
فرمایا پھر آپکے مریدان اور خلفاء کا کب شمار ہوسکتا ہے ۔ اللہ ہی جانے۔
آپ کے
خلفاء میں پہلا نام قدوۃ الآفاق شیخ
الاسلام والمسلمین حاجی الحرمین حضرت الحافظ القاری مولانا ابوالحسن سید عبدالرزاق نورالعین
الحسنی الحسینی قد س سرہ کا آتا ہے جو
آپ کی خالہ زاد بہن کے صاحبزادے ، مرید صادق، خلیفہ اعظم اور نسبًا خانوادۂ غوثیہ
کے چشم چراغ تھے۔
حضرت
مولانا نظام الدین غریب یمنی حضرت شیخ محمد عرف دریتیم
سید حسام الدین زنجانی ثم پونوی حضرت
مولانا الشیخ کبیرالعباسی
حضرت
شیخ شمس الدین صدیقی فریادرس حضرت شیخ معروف الدیموی
اجل السادات سید عثمان بن سید خضر
حضرت شیخ احمد قتال اعظمی
قدوۃ
المحدثین حضرت شیخ سلیمان محدث حضرت شیخ قیام الدین
حضرت شیخ
رکن الدین شہباز حضرت شیخ اصیل الدین جرہ باز
حضرت مولانا
شیخ جمیل الدین سپید باز حضرت
مولاناشیخ قاضی حجت
حضرت مولانا شیخ عارف مکرانی حضرت
مولانا شیخ ابوالمکارم خجندی
حضرت
مولانا شیخ ابوالمکارم ہروی حضرت مولانا شیخ
مُلاَّ کریم
حضرت
شیخ صفی الدین رودولوی حضرت
شیخ سماء الدین ردولوی
حضرت
شیخ خیرالدین سدھوری حضرت
شیخ قاضی ابومحمد سدھوری
حضرت
مولانا ابوالمظفر محمد لکھنوی علام
الہدیٰ مولاناعلام الدین جائسی
حضرت
شیخ کمال جائسی حضرت
الشیخ سید عبدالوہاب
حضرت
سید رضا عرف شاہ راجا حضرت
جمشید بیگ قلندر ترک
حضرت
قاضی شہاب الدین دولت آبادی حضرت
مولانا شیخ حاجی فخرالدین
حضرت مولانا شیخ داؤد حضرت شیخ قاضی رکن
الدین
حضرت
مولانا شیخ آدم عثمان حضرت
شیخ تاج الدین
حضرت شیخ نورالدین حضرت شیخ الاسلام احمدآبادی
حضرت شیخ
مبارک گجراتی حضرت
شیخ حسین دونیروی
حضرت
شیخ سیف الدین مسند عالی سیف خاں حضرت شیخ محمود کنتوری
حضرت
شیخ سعداللہ کیسہ دراز حضرت شیخ عبداللہ
دیار بنارسی
حضرت
مولانا شیخ درالبحر مدینۃ الاشرف حضرت سید مولانا نورالدین
ظفرآبادی
حضرت مولانا ملک محمود حضرت بابا حسین کتابدار
حضرت سید
حسین علم بردار حضرت
شیخ جمال الدین راوت
حضرت
مولانا عزیزالدین شجرہ نویس حضرت
رفیع الدین اودھی
حضرت خواجہ ابوالقاسم حضرت مولانا شیخ خواجگی
حضرت ابوالوفا خوارزمی حضرت
شیخ ابوالواصل
حضرت شیخ ابابکر حضرت
شیخ سیف الدین جونوی
حضرت
شیخ صفی الدین اردیلی حضرت
مولانا شیخ عمر
حضرت
سید علی لاہوری حضرت
شیخ ابوسعید خزری
حضرت
شیخ لدھن تاج پوری حضرت شیخ نظام الدین بریلوی
حضرت خواجہ
عبداللہ حضرت
سید سیدی
حضرت خواجہ
حسن حضرت
شیخ علی دوستی سمنانی
حضرت عبدالرحمن حضرت
قاضی بیگ
حضرت
سعدالدین خالدی حضرت
شیخ قطب الدین یحییٰ
حضرت
مولانا قاضی سدھااودھی حضرت
خواجہ نظام الدین علاء
حضرت شیخ
زاہد بن نور حضرت
شیخ محی الدین
حضرت
محی الدین ثانی حضرت
امیر تنگر قلی
حضرت میر علی حضرت شیخ عثمان مشکوری
حضرت
شیخ پیر علی ارلات ترکی حضرت
محمد حاجی قنوجی
حضرت
شیخ زین الدین خواہر زادہ حضر
ت قل علی قلندر ترکی لاچینی
حضرت شیخ
ابوالقاسم حضرت
شیخ نجم الدین صغیر
حضرت
شیخ نجم الدین کبیر حضرت
بابا قلی ترک
حضرت شیخ
علی سمنانی حضرت
شیخ طٰہٰ سمنانی
حضرت شیخ
گوہر علی سمنانی حضرت
سید علی قلندر
حضرت نقی الدین حضرت
قطب الدین کرکری
حضرت
شرافت اللہ امام حضرت
سید حمید الدین محمد آبادی
حضرت
نجم الدین عرف شاہ رمضان حضرت
شیخ عبدالرحمن خجندی
حضرت
شیخ پیارے رودولوی حضرت
امیر علی بیگ ترکی
(رضوان اللہ تعالی علیھم اجمعین)
No comments:
Post a Comment