تخت و حکومت
اپنےوالد
صاحب سلطان سید ابراہیم سمنانی نوربخشی
السامانی علیہ الرحمہ کے اس دارفانی سے
رحلت کے بعد سترہ سال کی عمر میں ریاست سمناں کے وارث بنے اور تخت حکومت پر متمکن
ہوئے مگر چونکہ ان کا طبعی میلان فقر و
فاقہ و درویشی کی طرف تھا اس لئے تھوڑے ہی عرصہ کے بعد ابوالعباس حضرت خضر علیہ
السلام کی ترغیب سے اپنے بھائی سید اعرف
محمدسمنانی نوربخشی السامانی کو تخت حکومت سپر د کرکے سلطنت سے دستبردار
ہوگئے۔
حضرت
نظام الدین بندگی میاں امیٹھوی قدس سرہ
فرماتے ہیں کہ "حضرت امیر کبیر سید اشرف جہانگیر علیہ
الرحمہ رابخلاف پیران وے سلطان جی مطلق گویند زیر اکہ سلطنت ظاہری ہم میداشت"
۔
بتاتا چلوں کہ حضرت نظام الدین بندگی میاں امیٹھوی قدس سرہ کا شمار قصبہ امیٹھی (لکھنؤ) کے مقتدر اولیاء
اللہ اور عظیم المرتبت علماء میں ہوتا ہے ۔آپ قدوۃ الواصلین حضرت شیخ سری
سقطی کی نسل سے ہیں۔ علم ظاہری اور باطنی
سے مالامال اس بزرگ نے امیٹھی کو اطراف ہند میں مشہور کیا اور اپنے علم و روحانیت
سے خلق کثیر کوفائدہ پہونچایا ۔ آپ ملااحمد جیون رحمۃ اللہ علیہ (استاذشہنشاہ ہندوستان اورنگزیب عالمگیر علیہ
الرحمہ) کے
مورث اعلیٰ مخدوم بہاء الحق خاصہ خدا کے دامادتھے اور اپنے وقت کی رابعہ بصری بی بی مخدومہ جہاں بنت خاصہ خدا آپ کی پاک باز
اور نیک طینت شریک حیات تھیں ۔آپ کو اجازت و خلافت شیخ مبارک بودلے قد س سرہ سے حاصل تھی ۔ آپ شیخ مبارک بودلےکے قابل فخر خلفاء میں سے ہیں اور شیخ
مبارک حاجی الحرمین شیخ الاسلام عبدالرزاق
نورالعین رضی اللہ عنہ کے پرپوتے ہیں ۔شجرہ نسب یہ ہیں: شیخ مبارک بودلے بن جلال اول
بن حاجی قتال بن سیداحمد (بندگی میاں) بن سید شاہ عبدالرزاق
نورالعین الحسنی الحسینی
رضی اللہ عنہ۔ (ملااحمد جیون امیٹھوی حیات او رخدمات صفحہ 191)
حضرت
بندگی میاں علیہ الرحمہ کا وصال 28 ذی القعدہ 979 ہجری کو ہوا اور امیٹھی ہی میں
مدفون ہوئے اور امیٹھی (ضلع لکھنؤ) کو بندگی میاں کی نام سے جانا جاتاہے۔
ملک محمد
جائسی کا قول ہے : کہ "در صدیقین
امت محمد یہ ﷺ دوکس بسبب ترک سلطنت بر جمیع اولیاء اللہ فضیلت دارنداول سلطان
التارکین خواجہ ابراہیم بن ادہم رضی اللہ عنہ دوم سلطان سید اشرف جہانگیر
سمنانی علیہ الرحمہ ۔"
امت محمدیہ کے صدیقین میں دو شخص ترک سلطنت کے لحاظ سے تمام
اولیاء پر فضیلت رکھتے ہیں۔ ایک سلطان التارکین خواجہ ابراہیم بن ادہم رضی اللہ عنہ ،دوم
تارک السلطنت سلطان سید اشرف
جہانگیر سمنانی علیہ الرحمہ ۔(صحائف اشرفی ۱۱۳(
واضح کردوں کہ ہندوستان کے مشہورقدیم ہندی
وفارسی ادیب ملک محمد جائسی کا نام تین بڑے شاعروں کے ناموں
میں سے ایک ہے ۔ تلسی داس، سورداس اور ملک محمد جائسی۔آپ اودھ کے جائس نامی قصبہ میں پیدا ہوئے۔آپ کا
سلسلہ ارادت سید اشرف جہانگیر سمنانی قد س
سرہ النورانی کے گھرانےسے تھا۔ آپ کے پیرومرشد سید شاہ مبارک
بودلے اشرف اشرفی الجیلانی جائسی علیہ
الرحمہ (متوفی 976ہجری) تھے جن کے فیوض و برکات سے ملک محمد جائسی کو تصوف اور خداپرست میں وہ مراتب حاصل
ہوئے جن کا انہوں نے تصور بھی
نہیں کیا تھا ۔
آپ نے
اپنی مشہور ترین ہندی کتاب "پدماوت"کے باب اکھراوٹ میں سلسہ چشتیہ
نظامیہ سے متعلق دو خانقاہوں کا ذکر کیا ہے ایک خانقاہِ اشرفی کچھوچھہ شریف اور دوسری خانقاہِ حسامی
مانک پور شریف اور ان خانوادوں سے اپنی عقیدت کا اظہار کیا ہے۔(پدماوت
صفحہ 6-7)
No comments:
Post a Comment