ہر پھل کے گٹھلی میں
سوراخ
حضرت
مولانا ابراہیم سرہندی نے لکھا ہےکہ محبوب یزدانی حضرت سلطان سید اشرف
جہانگیرسمنانی قد س سرہ کے دست مبارک میں کھجور کی گٹھلیوں کے دانہ کی تسبیح تھی ۔
ایام تعمیر روضہ مبارک میں ایک دن حضرت عمارت روضہ منورہ ملاحظہ فرمارہے
تھے کہ دفعتاً نماز مغرب کا وقت آگیا ۔ مؤذن نے آذان کہی ۔ حضرت تیز قدم جماعت کے لئے چلے ۔ حضرت کے ہاتھ میں جو
تسبیح تھی اس کاڈورا ٹوٹ گیا ۔ دانے منتشر ہوگئے۔ بعد مغرب حضرت کے مرید نے تلاش
کرکے تسبیح کے دانے جمع کئے۔ جب شمار کیا ایک دانہ کم تھا ۔ ان کو ڈورے پر پر وکر
گرہ دے دی ۔ تھوڑی دیر کے بعد حضرت کےمریدوں میں سے ایک صاحب وہ ایک گم شدہ دانہ
بھی تلاش کرکے لائے ۔حضرت نے فرمایا کہ اب تو تسبیح کے دانوں پر گرہ لگ چکی ۔ مگر
آپ نے ایک دانہ کو متصل روضہ مبارک بودیا اور فرمایا کہ میری تسبیح کی یادگار رہنا
چنانچہ اس سے کھجور کا درخت پیدا ہوا ۔ جب پھل لانے لگا تو ہر پھل کے گٹھلی میں
سوراخ نظر آتا تھا۔ (سنوات الاتقیاء)
حضرت مولانا ابراہیم سرہندی لکھتے ہیں کہ جب میں
آستانہ عالی حضرت محبوب یزدانی پر حاضر ہوا تو دیکھا کہ وہ درخت کھجور موجود تھا
اور ہردانہ کی گٹھلی میں قدرتی طور سے سوراخ ہوتا تھااوراس کو حضرت کے اولاد اور
دیگر معتدین تبرک سمجھ کر کھاتے تھے۔معلوم ہوا کہ مصنف سنوات الاتقیاء کے
زمانہ تک وہ درخت موجود تھا ۔
بہیڑے میں پھول لگتا اورنیب میں بہیڑہ پھلتا
محبوب
ربانی اعلی حضرت اشرفی میاں کچھوچھوی قد س سرہ فرماتے ہیں کہ محبوب یزدانی حضرت سلطان سید اشرف
جہانگیرسمنانی قد س سرہ کی یہ کرامت عام طور پر بہت مشہور ہے کہ آپ کے آستانہ روح
آباد میں ایک درخت بہیڑے کا لگایا تھا اور اپنی خانقاہ جائس (ضلع رائے بریلی
اترپردیش ہند) میں ایک درخت نیب کا نصب کیا تھا جو کچھوچھہ
شریف سے چھ منزل کے فاصل پرواقع ہے۔ یہاں
بہیڑے میں پھول لگتا وہاں نیب میں بہیڑہ پھلتا۔ جب سے آستایہ عالیہ درگاہ کچھوچھہ
شریف پر بہیڑے کا درخت خشک ہوگیا تب سے جائس کے نیب میں بہیڑے نہیں پھلتے ۔
شاذونادر کبھی کبھی ایک دو پھل اب بھی نیب میں پھل جاتے ہیں ۔
وہ سید اشرف جہانگیر سمنانی کے فرزند ہیں
قتلغ خاں
خاص محل نے مخدوم زادہ حضرت نورالعین
پاک کی نسبت کوئی بات جو ان کی دل
ماندگی کا سبب بنی اور قتلغ خاں کو یہ توفیق نہ ہوئیں کہ کدورت رفع کرتا۔ ایک رات
اپنےمکان کے بالا خانے پر سویا ہوا تھا کہ تین قلندر چھری ہاتھ میں لیے ہوئے داخل
ہوئےاور قتلغ خاں کو پکڑ لیا اور کہتے جاتے تھے کہ ہاں تو تو نے حضرت نورالعین کے بارے میں ناروا بات کہی
ہے۔ کیا تو نہیں جانتا کہ وہ سید اشرف جہانگیر سمنانی کے فرزند ہیں
۔ قتلغ خاں نے معذرت کی اور ان قلندروں کے ہاتھ سے رہائی پائی صبح ہوئی تو قتلغ
خاں حضرت قاضی حجت کو درمیان میں ڈال کر حاضر خدمت ہوا اور ابتدا میں بہت سے عذر
پیش کیے۔
بتاتاچلوں
کہ حضرت سلطان سید اشرف جہانگیر سمنانی قدس سرہ النورانی کی مجلس میں کبھی کبھی
شیخ زادگی سے متعلق گفتگو ہوتی تھی تو آپ فرماتے تھے کہ شیخ زادہ بہت کم راستے پر
چلتا ہے ۔ میں بھی شیخ زادہ رکھتاہوں لیکن وہ شیخ کا جنا نہیں ہے اس کا کام شیخ
جننا ہے دوسرے حضرات اپنے صلب سے پیدا کرتے ہیں میں نے عبدالرزاق نورالعین
کو آنکھ سے پیدا کیا ہے حالانکہ میں اوربھی نسبتیں رکھتاہوں ۔
جیساکہ لطائف اشرفی میں ہےکہ جب حضرت محبوب یزدانی نے نورالعین پاک کو اپنے ساتھ
سمنان لے گئے اور وہاں اپنی بڑی بہن حضرت خدیجہ کا دودھ پلوایا جو طرح طرح کے
فضائل واخلاق سے آراستہ تھیں تاکہ ظاہری نسبت بھی ظاہر ہوجائے ۔جب سید عبدالرزاق
نورالعین کے دہن مبارک میں بہن کا دودھ ڈالا گیا تو حضرت نے فرمایا مجھے اس
فرزند سے یہ نسبت اس سے زیادہ پیاری ہے کہ میری خالہ زادہ بہن حضرت حسن گیلانی
کی زوجہ ہے اور اس کے بطن سے یہ فرزند پیدا ہوا
اور اب ہمارے اور اس کے درمیان جو
نسبتیں ہیں اس کی شرح قطعی ناممکن ہے۔
دعائیں اور بشارتیں
حضرت
مخدوم شیخ علاؤ الحق گنج نبات پنڈوی قد س سرہ نے مخدوم سمناں کو خوشخبری سنائی کہ اے فرزندسید اشرف
مبارک ہو! ہم نے تمہارے لئے حضرت پروردگار
سےفرزنددینی عنایت کرنے کے لئے درخواست کی ہے۔جو سلسلہ کا سرحلقہ اور تمہارے
خاندان کا پیشوا ہوگا۔ اس کے باعث تمہاری بزرگی
کا شہر ہ جب تک زمانہ اور اوراد ختم نہ ہوجائیں روئے زمیں پر باقی رہے گا اور وہ
فرزند تمہارے خاندان سے ہوگا نیز زبان مبارک سے یہ اشعار پڑھے:
تا رود بر صفحۂ گیتی نشان
از تقاضائے قضایت اے اٰلہ
یا
اللہ جب تک تیری تقدیر کے مطابق دنیا کے صفحے پر نشان باقی رہے
باد بر روئے زمیں آثار تو
دُر فشان و جاوداں چوں مہروماہ (لطائف
اشرفی56/619)
روئے
زمیں پر تیرے آثار باقی رہے اور ہمیشہ چاند اور سورج کا مانند موتی برساتے رہیں
حضرت
سلطان سید اشرف جہانیاں جہانگیرسمنانی قد
س سرہ فرماتے ہیں:
میں نے
سید عبدالرزاق کی اولاد کو خزانۂ الہی میں شریک کیا ہے اور حق تعالیٰ سےدرخواست کی
ہے کہ اگرنورالعین کی اولاد قانع ہو تو ان کو کسی کا محتاج نہ کرنا ان کی
ادنیٰ سی توجہ سے لوگوں کے کام بن جائیں گے ۔اور فرمایا کہ میں حیات و ممات میں
اپنی اولاد کے ساتھ ہوں وہ ہرگزہرگز مجھ سے جدا نہیں ہے ۔(مکتوبات اشرفی)
اللہ تعالیٰ
نے ہمیں دوانعامات عطافرمائے ہیں ایک سَر اور دوسراسِر یہ دونوں فرزند عبدالرزاق پر نثار
ہوگئے۔ (لطائف اشرفی)
اے فرزند نورالعین ! میں نے اللہ تعالیٰ
سے تمہاری اولاد کے لئے دعاکی ہے ہمیشہ مسعود اور مقبول رہیں اور تمہاری اولاد میں
دستور کے مطابق ایک فرد رجال الغیب میں سے اور ایک مجذوب ہوگا بلکہ ایک فرد پیدا
ہوگا جس میں میرے احوال پیوست ہونگے۔ (مکتوبات
اشرفی)
جو
ہمارے فرزندوں کا دوست ہے وہ ہمارا دوست ہے اور جو ہمارے فرزندوں کا دشمن ہے وہ
ہمارا دشمن ہے اور جو ہمارادشمن وہ جملہ خاندان چشت اوردودمان اہل بہشت کا
دشمن ہے۔ (لطائف اشرفی)
مٹی سونا بن گئی
ایک بار
حضرت شیخ الاسلام والمسلمین الحافظ سید عبدالرزاق نورالعین الحسنی الحسینی
رضی اللہ عنہ کو کیمیا بنانے کا شوق ہوا ۔ آپ درگاہ روح آباد میں ایک کیمیا گر کے
ساتھ صحرا میں نکل گئے ۔ غوث العالم محبوب یزدانی حضرت سلطان سید اشرف
جہانگیرسمنانی قد س سرہ نے حضرت نورالعین
کے متعلق دریافت کی کہ نورالعین کہاں گئے
ہیں؟
خادم نے جواب دیا : حضور وہ کیمیا گر کے ساتھ
کیمیا بنانے کے شوق میں صحرا گئے ہوئے ہیں۔
حضرت نے
نورالعین پاک علیہ الرحمہ کو بلوایا ۔ جب نورالعین پاک حاضر ہوئے تو آپ نے دریافت
کیا کہ نوالعین کہاں گئے تھے ؟
نورالعین
پاک علیہ الرحمہ نے کہا کہ حضور میں علم
کیمیا کے شوق میں ایک کیمیا گر کے ساتھ روح آباد کے جنگل میں گیا تھا ۔
حضرت قد
س سرہ نے اسی وقت ایک مشت مٹی زمین سے لی اور پوچھا کہ نورالعین یہ کیا ہے ؟
نورالعین
پاک علیہ الرحمہ نے فرمایا : حضور مٹی ہے۔
آپ نے
مٹھی میں بند کرکے اس پر تصرف کی نظر ڈالی
اور مٹھی کھول دی اور پھر پوچھا کہ نورالعین دیکھو اب یہ کیا ہے؟
حضرت نورالعین
پاک علیہ الرحمہ نے کہا کہ حضور سونا ہے۔
حضرت قد س سرہ نے فرمایا کہ نورالعین اپنے
اندر وہ کشش اور خوبی بیدار کرو کہ جس چیز پر نظر ڈال دو سونا بن جائے۔ ( کراما ت محبوب یزدانی)
ایک نظر میں
عالم دین بن گئے
امیر
تیمور کے سرداران افواج میں ایک شخص امیر
علی بیگ تھے ۔ ترکستان کے سفر میں حضرت سلطان سید اشرف جہانگیرسمنانی قد س سرہ ان کے یہاں مقیم ہوئے ۔ حضرت کے کمالات فقر کو
دیکھ کر یہ ایسے مست ہوئے کہ ترک امارت و ملازمت کرکے حضرت کے خدمتی بن کر سفر و
حضر میں ساتھ رہنے لگے تھے ۔ فوجی آدمی علوم ظاہر سے بے بہرہ تھے لیکن عشق الہی کی
آگ جو حضرت کے فیض صحبت سے سینے میں فروزاں ہوگئی تھی اسرار لدنی کھلنے لگی ۔ یہ
حضرت کے ساتھ بارہ سال تک رہے ایک روز حضرت محبوب یزدانی نے حضرت نورالعین پاک سے فرمایا کہ امیر علی مدت سے ریاضت
کررہے ہیں ان پر کوئی تصرف نہیں کیا گیا تم آج توجہ ڈالوتاکہ مجھے تمہارے تصرف کا
اعتماد ہو ۔ حضرت عبدالرزاق نورالعین قد س سرہ نے تعمیل ارشاد کے لئے مراقب
ہوئے تھوڑی ہی دیر نہ گزری تھی کہ امیر
علی کے چہرے پر جلال درویشی اور آثار ولایت نمایاں ہونے لگے اور ان پر خروش کی
کیفیت پید ا ہوگئی اور اسی عالم کلمات توحیدان کی زبان پر جاری ہوگئے ۔ اتفاقاً اس
وقت حضرت کی محفل میں چند علماء بھی موجود تھے ۔ آپنے ان سے فرمایاکہ امیرعلی جاہل
محض ہے مگر اس وقت معرفت الہی کے سمندر میں غوطہ زن ہے آپ حضرات جس علم وفن کے مشکل سوالات اس سے کریں میں ضمانت دیتا
ہوں کہ یہ صحیح جواب دیگا۔ چنانچہ علماء نے بے حد مشکل سوالات ہیئت و منطق کے پوچھے اور امیر علی تسلی نے بخش جواب
دیا ۔حضرت نے امیر علی بیگ کو اس واقعے کے بعد ابوالمکارم کا خطاب مرحمت فرمایا ،
یہ کچھ دنوں اور حضرت کے ساتھ تھے جب ریاضت و مجاہدے سے قابلیت پیدا ہوگئی تو حضرت
نے انہیں خلافت سے ممتاز فرمایا اور خراسان کا صاحب ولایت بناکر بھیجا۔ (محبوب یزدانی)
ایک قدرتی چشمہ جاری
ہو ا
حضرت
سلطان سید اشرف جہانگیرسمنانی قد س سرہ
محمد آباد گہنہ سے لوٹتے ہوئے ایک
قریہ میں اترے جس کا نام آپ کے نام سے منسوب ہوکر اشرفپور ہوا یہ موضع شہراعظم
گڑھ سے تین کوس سمت شمال واق ہے ۔ اسی
موضع کے کنارے دکھن جانب لب سڑک ایک چھوٹا سا چشمہ جاری ہے ۔ یہ مقام حضرت کوپسند
آیا ۔ ایک چلہ قیام کرکے یادالہی میں مشغول رہے ۔ اسی موضع کاز میندار اجپوت تھا ۔
اس کا بیٹا ہنکار سنگھ نامی جنگل میں لب چشمہ جہاں حضرت چلہ کش تھے آپ کی
زیارت کو آیا ۔ آپ نے ارشاد فرمایا کچھ کھائے گا۔
اس نے
عرض کیا کہ اگر آپ کا پرشاد ( تبرک) ملےگا ضرور کھاؤں گا۔
حضرت نے
ایک جھاڑی کی طرف اشارہ کرکے فرمایا کہ وہاں جو کچھ کھانا ملے کھا لینا ۔
وہاں
جاکر دیکھا کہ عمدہ عمدہ قسم کے کھانے پُلاؤ ، زردہ ، بریانی ، قورمہ ، کباب ۔ طرح
طرح کے کھانے لذیذ چنے ہیں۔ خوب سیر ہوکر کھا یا اوریہ کرامت حضرت کی دیکھ کر صدق
دل سے ایمان لایا اور مسلمان ہوکر شرف بیعت سے مشرف ہوا ۔ جب اپنے گھر گیا وہاں
بھی معمولی گوشت جھٹکے کا پکاہوا تھا ۔ اس کو ناپسند کیا اور کہنے لگا کہ بابا جی
کے پاس جو سگوتی( گوشت) کھایا یہاں وہ کب میسر ہوسکتا ہے ۔ اس کے گھر والے سب سمجھ
گئے کہ یہ بابا جی کے پاس سے کھا نا کھا کر مسلمان ہوگیا۔ ان کو حضرت کی طرف سے اس
قدر خوف غالب ہو اکہ گھر چھوڑ کر کہیں نکل گئے۔ ہنکار سنگھ نے خدمت عالی میں حاضر
ہوکر گھر کا حال عرض کیا حضرت نے فرمایا غم مت کھاؤ۔ یہ موضع تم کو دئے جاتا ہوں ۔
آج سے تمارا نام ہنکار خان ہو ا۔ ایک دن ہنکار خان نے حضرت عالی میں عرض کیا کہ یہ
چشمہ جو ہمارے موضع کے کنارے جاری ہے ۔ بسبب زمین عمیق کے اس کا پانی ہمارے کھیتوں
کو سیراب نہیں کرتا ۔
حضرت
سلطان سید اشرف جہانگیرسمنانی قد س سرہ
نے اپنا انگوٹھا داہنے ہاتھ کا زمین پر رکھ دبایا ۔ وہاں سے ایک قدرتی چشمہ
جاری ہو ا جو آبپاشی آراضی موضع کے لئے کافی ہوگیا۔ حضرت نے اس کا نام اشرف الماء
رکھا ۔ اب بہ شکل تالاب وہ مقام موجود ہے۔ اس کو گاؤں والے اشرف پوکھری
کے نام سے موسوم کرتے ہیں۔
No comments:
Post a Comment