Karamaat e Syed Makhdoom Ashraf Jahangir Simnani Part 18

ہاتھ پر ولایت کا داغ
حضرت سلطان سید اشرف جہانگیر سمنانی  قد س سرہ   جب اجودھیا تشریف لائے اور حضرت مولانا الشیخ شمس الدین  صدیقی فریادرس کی خانقاہ میں  قیام فرمایا ۔ شیخ شمس الدین نے اہتمام مہمانداری کی حد کردی ۔ حضرت کو شوربا پسند تھا ۔ عقیدت کیش مرید نے اس کو خود پکایا اتفافقیہ ان کا ہاتھ جل گیا ۔ انہوں نے اس پر پٹی باندھ لی ۔ جب دسترخوان بچھانے کے وقت وہ حضرت کے سامنے آئے تو آپ نے پوچھا : شمس الدین یہ پٹی کیسی ہے ؟ وہ چپ ہی رہے لیکن حاضرین میں سے کسی نے واقعہ بتادیا ۔ آپ نے تاسف کیا اور فرمایا کہ فرزند شمس الدین اور قریب آؤ اور پھرزخم پر آپ نے اپنا لعاب دہن لگادیا جس سے زخم کی شوزس فوراً جاتی رہی اور جلد ہی زخم بھی اچھا ہوگیا اور فرمایا کہ تمہارے ہاتھ پر ولایت کا داغ لگایا گیا ہے۔ (محبوب یزدانی)

بت نے بزبان فصیح پڑھا 
حضرت سلطان سید اشرف جہانگیر سمنانی  قد س سرہ  جب سفر جونپور سے بنارس میں تشریف لے گئے اور اپنے خلیفہ خاص مولانا عبداللہ بنارسی کو زیارت سے سرفراز فرمایا ۔ حضرت کا خیمہ ایک بت خانے کے متصل صحرا میں کھڑا ہو ا، جماعت کفار بکمال اخلاص بت پرستی کررہے تھے ، حضرت کو یہ اخلاص پرستش اُن کا ایسا دل پر اثر پذیر ہواکہ زبان مبارک سے یہ شعر نکلا...............
اگر عکس  رخ  و  الفت  نبودے   در ہمہ  اشیاء
مغاں ہرگز نہ کردند ے پرستش لات و عزّیٰ را
ایک دن حضرت بنظر سیر ورتماشہ معبد کفار میں سمت تشریف لے گئے  تمام گروہ کفرہ حضرت کی زیارت سے مشرف ہوئے ۔ اسی درمیاں میں تحقیقات مذہبی کا تذکرہ نکل آیا ۔ جس سے اپنے اپنےمذہب کی حقیقت کا اظہار ہونے لگااور اظہار قوت استدراجیہ کرنے لگے ۔ حضرت سلطان سید اشرف جہانگیرسمنانی قد س سرہ النورانی نے فرمایا کہ اگر بت سنگین ہمارے مذہب اسلام کی تصدیق کریں اور تمہارے مذہب کی تکذیب کریں تو اس صورت میں تم ایمان لے آؤگے۔ سب نے اقرار کیا ۔ حضرت نے ایک بت (مورتی) کو ہاتھ میں اٹھایا اور فرمایا کہ اگر مذہب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا حق ہے تو کہہ لاالہ الااللہ محمد رسول اللہ ۔ اسی وقت بت نے بزبان فصیح پڑھا  لاالہ الااللہ محمد رسول اللہ۔ایک لاکھ لوگوں نے اسی وقت کفر سے بیزار ہوکر مسلمان ہوگئے اور حضرت کے دست اقدس پر بیعت  کی ۔ (مراۃ الاسرار) 
محبوب یزدانی کا خطاب
27 رمضان المبارک 782 ہجری کی شب قدر تھی اور حضرت سلطان سید اشرف جہانگیرسمنانی قد س سرہ کچھوچھہ شریف ہی میں رونق افروز تھے ۔ مریدین و خلفاء قلندران اور ارباب صفہ کا جمگھٹ تھا ۔ آپ کے بھانجے حاجی الحرمین حضرت عبدالرزاق نورالعین اور خلیفہ ابن خلیفہ حضرت شیخ دریتیم ابن شیخ کبیر سرہرپوری اورخلفائے اصحاب خیر یعنی حضرت شیخ رکن الدین شاہباز حضرت شیخ اصیل الدین سفیدباز، حضرت شیخ جمیل الدین جرہ باز اور دیگر علماء و مشائخ مثلاً حضرت قاضی رفیع الدین اددھی ، حضرت شمس الدین ،  شیخ الاسلام حضرت شیخ عارف ، حضرت شیخ معروف  اور حضرت شیخ ملک محمود رحمہم اللہ تعالیٰ اس رات بیداری میں حاضر تھے ۔ مطلع فجر کے وقت سب لوگوں نے سنا کہ کوئی پکارنے والا (ہاتف غیب) پکارہا ہے کہ" اشرف ہمارا محبوب ہے " خانقاہ شریف میں جو لوگ حاضر تھے اس وقت ان کی تعداد سیکڑوں سے گزر کر ہزار کے قریب رہی ہوگی اسلئے کہ لکھاجاچکا ہے کہ آپ کے ساتھ جبکہ سفر میں 500 افراد کے قریب رہاکرتے تھے تو حضر( اقامت ) میں خانقاہ کے اندر کتنا اژدھام رہتا رہا ہوگا اور پھر ایسی متبرک شب میں قرب و جوار کے لوگ حضرت  کے سایہ اللہ کی یاد کے لئے آئے ہونگے ۔ ان تمام انسانوں نے اپنے کانوں سے اللہ کے پیارے محبوب ہونے کی غیبی آواز سنی اسی مژدۂ روح افزاسے خانقاہ اشرفیہ میں عید سے پہلے عید کا سما ں بندھ گیا اور نیاز منداں جہانگیری کے مسرتوں کی انتہا نہ رہی ۔ ہر طرف مبارکباد سلامت باد کے غلغلے بلند ہوئے اور اسی خوشی میں حضرت محبوب یزدانی نے ہر خانقاہی کو شب قدر کی نعمتوں سے بقدرظرف مالا مال کردیا ۔
حضرت سلطان سید اشرف جہانگیرسمنانی قد س سرہ کی روزمرہ کرامت تھی کہ نماز فجر مکہ معظمہ  زادہا اللہ تعالے تکریمًا تشریفاً میں ادا فرمایا کرتے تھے۔ حسب معمول  اس صبح کی نماز بھی آپنے حرم شریف میں اداکیا وہاں اس وقت حضرت شیخ نجم الدین بھی موجود تھے جنہوں نے آپ کو دیکھتے ہی فرمایا کہ محبوب یزدانی کا خطاب آپ کو مبارک ہو ۔ دونوں بزرگ نے وفور مسرت میں معانقہ کیا اور دیر تک ایک دوسرے کے گلے سے لگے رہے اس موقع پر حرم شریف میں  پانچ سو مشائخیں کرام موجود تھے ۔ سب نے باری باری آپ کو مبارکباد دی اور ہر ایک نے بھی آپ کے علوئے مرتبت پر اپنی دلی خوشی کا اظہار فرمایا ۔ اس کے بعد آپ جہاں کہیں بھی گئے مشائخ کرام آپ کو محبوب یزدانی کے نام سے یادکرتے تھے۔ ( محبوب یزدانی) 
اللہ سبحانہ تعالیٰ ارشاد فرماہے :
اِنَّ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ سَیَجْعَلُ لَہُمُ الرَّحْمٰنُ وُدًّا ﴿۹۶﴾
ترجمۂ کنزالایمان: بیشک وہ  جو ایمان لائے اور اچھے کام کئے عنقریب ان کے لئے رحمٰن محبّت کردے گا۔(سورہ طہ آیت 96)
دربار اشؔرفی کے" خسرو " صدرالافاضل،  فخرالاماثل،   استاذالعلماء ، امام اہلسنت مولانا الحاج حکیم سید نعیم الدین اشرفی  فاضل  مرادآبادی علیہ الرحمہ (خلیفہ محبوب ربانی اعلیٰ  حضرت اشرفی میاں کچھوچھوی قدس سرہ النورانی)  اس آیت کے تحت ارشاد فرماتے ہیں "یعنی اپنا محبوب بنائے گا اور اپنے بندوں کے دل میں ان کی مَحبت ڈال دے گا ۔ بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے کہ جب اللہ تعالٰی کسی بندے کو محبوب کرتا ہے تو جبریل سے فرماتا ہے کہ فلانا میرا محبوب ہے جبریل اس سے مَحبت کرنے لگتے ہیں پھر حضرت جبریل آسمانوں میں ندا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ فلاں کو محبوب رکھتا ہے سب اس کو محبوب رکھیں تو آسمان والے اس کو محبوب رکھتے ہیں پھر زمین میں اس کی مقبولیت عام کر دی جاتی ہے ۔
مسئلہ : اس سے معلوم ہوا کہ مومنینِ صالحین و اولیائے کاملین کی مقبولیتِ عامہ ان کی محبوبیت کی دلیل ہے جیسے کہ حضور غوثِ اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ (محبوب سبحانی)  اور حضرت سلطان نظام الدین دہلوی ( محبوب الٰہی)  اور حضرت سلطان سید اشرف جہانگیر سمنانی (محبوب یزدانی)  رضی اللہ تعالٰی عنہم اور دیگر حضرات اولیائے کاملین کی عام مقبولیتیں ان کی محبوبیت کی دلیل ہیں ۔"
(کنزالایمان  تفسیر سورہ طٰہٰ آیت 96)

No comments:

Post a Comment