اللہ تعالیٰ کے حکم سے کھڑا ہوجا
غوث
العالم محبوب یزدانی حضرت سلطان سید اشرف جہانگیرسمنانی قد س سرہ کے علم ، نشانوں ،ماہی اور مراتب کا نزول جامع
مسجد دمشق میں ہوا ۔ آپ صحن مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک خوبصورت عورت لاچینی
ترک بار سال کے بچہ کو جس کی صورت نہایت حسین تھی آکر رونے لگی ۔ جب حضرت نے دیکھا
تو اس کی حیات سے ذرہ بھی باقی نہ تھا فرمایا کہ عجب کا م ہے مُردوں کو زندہ کرنا
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا معجزہ تھا اور مجھ کو ہرگز یہ کام نہیں پہونچتا۔ عورت
چوں کہ بے حد بے قرار تھی ۔
عرض کیا
کہ اولیاء اللہ جاں بخشی اور عطائے حیات میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور حضرت
خضرعلیہ السلام کے مظہر ہیں۔ جب اسکی
بے چینی حد سے بڑھ گئی اور مایوس انتہا کو پہونچی تو حضرت غوث العالم محبوب
یزدانی نے دریائے مراقبہ میں سرڈالا اور
صحرائے مشاہدہ کی راہ اختیار فرمائی ۔ تھوڑی دیر کے بعد سراٹھایا اور کیفیت
وجد کی حالت میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے
حکم سے کھڑا ہوجا۔ کیوں کہ تیری ماں مرے جاتی ہے۔ اس کا لڑکا کھڑا ہوا اور چلنے
لگا۔گویا اس کی روح جسم سے بالکل علاحدہ تھی ہی نہیں۔ اس بات کا شہرہ دمشق میں
ہوگیا۔ لوگ ہر طرف سے ٹوٹ پڑے جب ہجوم زیادہ ہوگیا تو آپ نے اپنے ہمراہیوں سے
فرمایا کہ سامان سفر باندھو اور کوچ کرو یہاں رہنے سے ہماری اوقات میں خلل واقع ہوگا۔
سفید داغ والامرید
غوث
العالم محبوب یزدانی حضرت سلطان سید اشرف جہانگیرسمنانی قد س سرہ کے ایک مرید جوہر نامی تھے ان کے بد ن میں
سفید داغ ظاہر ہوا اور سب سے بڑا بیمار
سفید داغ والا ہوتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس بلا سے محفوظ رکھے۔ ملک خراسان
میں جس کے سفید داغ ظاہر ہوتا ہے اس کو شہر سے باہر نکال دیا جاتا ہے۔ جوہر نے
حضرت کی خدمت میں عرض کیا کہ اگر اجازت ہوتو ان
لوگوں کے مجمع سے باہر نکل جاؤں اور عالم گمنامی میں چلا جاؤں ۔ اگر
اٹھارہ ہزارعالم کی بلائیں مجھ پر اتر تیں تو آسان معلوم ہوتیں لیکن
حضور کے قدموں سے جدائی اور آپ کے کلام لطیف سننے سے محرومی کے لئے نہایت
دشوار ہے۔
جوہر کے
اوپر حضرت نہایت مہربانی فرماتے تھے ۔ یہ شخص بڑا قابل شاعر اور شیریں زبان تھا ۔
جب اس نے حضرت کے سامنے اپنی بے قراری ظاہر کی تو حضور کے خاظر نازک پر اس نے اثر
کیا ۔
حضرت
اور آپ کے ہمراہیوں کو جوہر کی آہ وازی سے رقت آگئی فرمایا تھوڑا پانی لاؤ۔ لوگ لے
آئے۔ آپ نے لعاب، دہن مبارک سے نکال کر اس میں ڈال دیا ۔ جوہر نے تھوڑا سا پی لیا
اور بقیہ بدن پر ملا ۔ اسی وقت سفید داغ مٹ گیا
گویا کہ تھا ہی نہیں ۔
اپنی حالت کسی سے نہ کہو
غوث
العالم محبوب یزدانی حضرت سلطان سید اشرف جہانگیرسمنانی قد س سرہ نماز
جمعہ اداکرکے قصبہ سجھولی سے آتے تھے جب موضع سکندر پور پہونچے ۔ فرمایا کہ اس
گاؤں سے سیادت کی بو آرہی ہے۔ میر سید جمال الدین خورد سکندر پوری جو موضع مذکور
کے زمیندار تھے۔ حضرت کی زیارت کے لئے آئے، فرمایا کہ سیادت کی خوشبو زیادہ آرہی
ہے۔ایک مدت کے بعد بوئے سیادت دماغ میں پہونچی ۔ سید جمال الدین خورد کو حضرت کی
زیارت سے پوری حسن عقیدت اور اصلی نیاز مندی ان کے دل میں جم گئی۔ اکثر اوقات خدمت
بارگاہ عالی میں آتے تھےاور سید جمال الدین خورد کی دوتین پشتیں گزر چکی تھی کہ ہر
پشت میں ایک ہی لڑکا پیدا ہوتا تھا ۔ اسی بنا پر حضرت سے عرض کیا اور دل میں ارادہ
کر رکھا کہ کسی دوسرے بزر گ سے بھی اس
حاجت بر آوری کے لئے عرض گروں گا۔
ایک دن
حضرت کو ایک قوی حالت پیداہوئی ۔ سید جمال الدین خورد ایک پیر پر
کھڑے ہوگئے اور نیاز مندانہ عرض کیا۔
فرمایا
کہ اے میر تم کو مبارک ہو بال بچے بہت ہونگے ۔ آئندہ کسی کے پاس تم نہ جاؤ اور
اپنی حالت کسی سے نہ کہو اور مال بھی بہت ہوگا۔
حضرت
محبوب یزانی نے فرمایا کہ سید جما ل الدین خورد بالکل ہم شکل حضرت نبی
آخرالزماں صلی اللہ علیہ وسلم تھے ۔ جو آپ کو دیکھتا گو یا کہ زیارت جمال بنی ﷺ سے
مشرف ہوتا۔
د س برس تیر
ا لڑکا زندہ رہے گا
موضع
سکندر ہو رمیں ایک بوڑھی عورت نے اپنے جاں بلب لڑکے کو لا کر غوث العالم محبوب
یزدانی حضرت سلطان سید اشرف جہانگیرسمنانی قد س سرہ کے
قدم پکڑ لئے کہ اس کے سوا میرے کوئی نہیں ہے ۔ اللہ کی مرضی سے یہ مررہا ہے۔ یہ
لڑکا سب خوبیوں سے آراستہ تھا اللہ کے واسطے اس کے لئے دعا کیجئے۔فرمایا کہ مادر
مہربان میں اعیان ثابتہ( لوح محفوظ) میں دیکھا ہے تیرے بچے کی عمر کچھ بھی باقی
نہیں رہی۔ اس نے کہا اگر میرا لڑکا جی اٹھتاہے تو خیرورنہ اپنی جان کو فرزند کے
لئے حضرت کی خدمت میں نذر کرتی ہوں ۔
حضرت نے
فرمایا کہ مجھ کو اللہ تعالیٰ نے ایک سو بیس برس کی عمر دی ہے ۔ دس سال اپنی عمر سے
تیرے فرزند کو میں دیتا ہوں ۔ آج کی تاریخ لکھ لے کہ دس برس تک تیر ا لڑکا زندہ
رہے گا اس کے بعد دنیا سے رحلت کرے گا ۔
اسے کوئی نہیں کھول سکتا
حضرت شیخ
اصیل الدین سفید باز فرماتے ہیں کہ غوث العالم محبوب یزدانی حضرت سلطان سید اشرف
جہانگیرسمنانی قد س سرہ کا ایک مرید پیر علی نام کا جو ہزارہ کا رہنے
والاتھا ۔سلوک میں شغل رکھتا تھا ۔ بہت سے اعلیٰ مقامات اور بلند منازل کو طے چکا
تھا لیکن ابھی اپنے اعیان ثابتہ کی
سرحد تک نہ پہونچا تھا اور اس کے انجام کا
نور انوار کے خاتمہ تک نہیں ہوا تھا ۔
ایک دن حضرت
کے بارے میں اور کچھ دل میں ایسا تردد لاحق ہوا جو بے اعتقادی اور نافرمانی
کے سبب ا س کے لئے ہوگیا اور کچھ بے ادبیاں بھی اس سے ہوئیں ۔ ایک شخص نے اس کو
حضور کے کان تک پہونچادیا کہ پیر علی سے ایسا ناگوار امر ظاہر ہوا ہے۔ حضرت نے
فرمایا کہ وہ اس بزرگ خانوادۂ اور قدیم سلسلہ سے راندہ ہوا ہے اس کو اس دائرہ سے نکال پھینکیں۔
حضرت کو
جس وقت جلال و قہرو ملال کا ظہور ہوتا تو کسی کی مجال نہیں رہتی کہ بارگاہ حضور کا
محرم ہوتا۔ جب پیر علی نے معلوم کیا تو بعض مریدوں سے التجا کی کہ اس بارگا ہ عالم
پناہ میں میری خطاکی معافی چاہیں۔ ہرچند
لوگوں نے کوشش کی تکدر کے بجائے صفائی
ہوگی ۔ بالآخر سفر کے لئے کمر بستہ ہوا اور ہمدان کی طرف رخ کیا ۔ جب میرسید علی ہمدانی کے پاس پہونچا اپنی حالتوں
سے مطلع کیا تو فرمایا کہ جس دروازہ کو فرزند سید اشرف جہانگیر سمنانی نے بند
کردیا ہے ہم اس کو نہیں کھول سکتے ۔ یہاں بھی عروس مقصود نے خلوت خانۂ تقدیر سے
رونمائی نہ کی تو مایوس ہو کر پلٹا اور جہاں گیا کچھ عزت نہ پائی۔ آخر کار مکہ
معظمہ کی طرف متوجہ ہوا محنت و کلفت کی منزلوں اور مرحلوں کو قطع کرنے کے بعد حضرت
شیخ نجم الدین اصفہانی قد س سرہ النورانی
کے پا س پہونچا ۔ عرصہ تک حضرت شیخ کی خدمت میں مشغول رہا ۔ پوری کوشش کرنے
پر حضرت شیخ نے فرمایا کہ اے مردود ! جس دروازہ کو میرے بھائی سید اشرف جہانگیر
سمنانی نے بندکر دیا ہے اسے کوئی نہیں کھول سکتا۔ آج روئے زمین پر کوئی نہیں ہے جو
ان کے سامنے کھڑا ہوسکے ۔ آخرپیر علی اپنی گردش تقدیر سے پھر خدمت عالی میں بغرض
عفو تقصیر نہ حاضر ہوسکا اور دنیا سے
نامراد روسیاہ گیا۔
No comments:
Post a Comment