Syed Makhdoom Ashraf Jahangir Simnani Part 07

تربیت شیخ
حضرت شیخ علاؤ الحق گنج نبات قدس سرہ کی یہ عادت تھی یا یوں کہیے کہ یہ ان کی تربیت کا طریقہ تھا کہ جب کوئی ان کے پاس سلوک کی تعلیم حاصل کرنے کے لئے آتا تو آپ اس سے سخت امتحان  لیا کرتے تھے اور اس کااندازہ اس بات سے لگایا جاسکتاتھا کہ آپ کے فرزند حضرت شاہ نورقطب عالم قدس سرہ کے ذمہ جو کام تھی ان میں جنگل سے لکڑیاں کاٹ کر اپنے سر پر رکھ کر لانا ،کنوئیں سے پانی بھر کر دوسروں کے گھر تک پہنچانا ، خانقاہ صاف کرنا،پانی کو لاکر مسافروں اور نمازیوں کو مہیاکرنا ، درویشوں کے کپڑے دھوناوغیرہ شامل تھا جیساکہ لطائف اشرفی میں ہے کہ ایک دن اعظم خان جو شیخ نورالحق قطب عالم کے بڑے بھائی تھےاس وقت وزیر سلطنت تھے حضرت مخدومی کےخانقاہ میں بیٹھے ہوئے تھے کہ ان کی موجودگی میں حضرت نورقطب عالم قدس سرہ لکڑیوں کا گٹھر لادکر لائے اور باورچی خانہ میں لاکر ڈال دیا حضرت اعظم خان یہ منظر دیکھ کر تڑپ گئے اور کہنے لگے بھائی نورعالم کب تک خانقاہ کی لکڑیاں اٹھاتے رہوگے ؟    آؤ!  میں تمہیں کسی شاہی اعلیٰ منصب پر لگادیتا ہوں ۔ جہاں تم آرام سے زندگی بسرکرسکو۔
حضرت نورقطب عالم نے فر مایا  تمہارا منصب اور آرام عارضی اور وقتی مگر میری خدمات ہمیشہ ہمیشہ یادگار رہیں گی۔ میں ان خدمات کو چھوڑ کر منصب شاہی قبول کرنے کو تیار نہیں۔
  آپ نے اپنے صاحبزادہ نورقطب عالم قد س سرہ  سے بارہ سال تک  ہیزم کشی اور سقہ کا کام لیا۔ایک دن حضرت مخدومی تشریف فرماتھے ۔ آپ کے سامنے ہی مخدوم زادہ لکڑیوں کا گٹھا لارہے تھے کہ حضرت مخدومی کی نظر مبارک ان پر پڑی تودیکھا کہ لکڑیوں کا گٹھا مخدوم زادہ کے سر سے ایک گز کی بلند ی سے ان کے ساتھ ساتھ چلاآرہا ہے ۔ اس روز سے حضرت مخدومی نے ان کی  یہ خدمت  موقوف کردی اور حکم دیا کہ جس مقام پر ضعیف عورتیں  پانی بھرتی ہیں وہاں زمین خراب ہے اور ان بے چاروں کے پاؤں پھسل جاتے ہیں اور ان کے برتن گرکر ٹوٹ جاتے ہیں ۔ تم وہاں جاکر ان کے پانی کے برتن پنگھٹ سے اٹھاکر صاف ستھری سخت زمین پر رکھ دیا کرو۔ وہاں سے وہ اٹھاکر لیا کریں گی۔ چار سال تک وہ اس خدمت کو انجام دیتے رہے ۔ حضرت مخدومی فرمایا کرتے تھے کہ تعجب ہوتا ہے آجکل اس قسم کے لوگ پائے جاتے ہیں کہ بغیر خدمت کے ہی چاہتے ہیں کہ نعمت حاصل کرلیں۔ (لطائف اشرفی 6/251)
جب سلطان سید اشرف  جہانگیر سمنانی نے جب دیکھا تو عرض کیا حضور میرے لئے کوئی کام متعین فرمادیں یہ سن کر فرمایا :
 فرزند اشرف !حضرت خواجہ خضرت علیہ السلام نے تمہاری اتنی تعریف کی ہے کہ مجھے تم سے کوئی خدمت لیتے ہوئے شرم آتی ہے ۔ سلطان سید اشرف جہانگیر سمنانی  نوربخشی السامانی سے  خدمت نہ لینے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ آپ ترک سلطنت کرکے آئے تھے کیونکہ خدمت تو ان سے لی جاتی ہے جن کی اصلاح مقصود ہوتا ہے کہ ریاضت مجاہدے کےذریعے ان کے غرور تکبر اور انانیت کو ختم کیا جائے تزکیہ نفس اور تصفیہ قلب کیا جائے تو جس نے سلطنت ترک کرکے پہلے ہی درویشی اختیار کرلی ہو اور اپنے نفس امارہ کو مارلیا ہو اس کو پھر کسی مجاہدے کی ضرورت نہیں ہوتی اس کو تو صر ف ایک کامل نگاہ کی ضرورت ہو تی ہے۔اسی لئے شیخ کامل نے آپ کے ذمہ کوئی خدمت نہیں لگائی ۔ جب سلطان سید اشرف جہانگیر سمنانی نے یہ دیکھا تو آپ خود بڑھ کر خدمت کیا کرتے تھے ، جب شیخ جانے کے لئے کھڑے ہوتے تو آپ جوتیاں سیدھی کرکے ان کے سامنے رکھتے جب وہ وضو کا ارادہ کرتے تو آپ ان کے لئے وضو کا پانی لاکر رکھتے اور اکثر انہیں وضو بھی کرایا کرتے تھے اور اسی قسم کی دیگر خدمات خود ہی انجام دیا کرتے تھےکیونکہ وہ جانتے تھے کہ شیخ کی خدمت سے ہی مقام و مرتبہ حاصل ہوگا صوفیا ء اسی لئے ریاضت مجاہدہ کرتے ہیں انہیں اس مجاہدے سے مشاہدہ حاصل ہوتا ہے۔
800 ہجری میں مرشد برحق حضرت مخدوم علاؤ الحق پنڈوی  گنج نبات قد س سرہ اس دار فانی سے عالم جاویدانی کی طرف کوچ فرمایا۔ مزار مبارک  صوبہ مغربی بنگال کے شہر پنڈوہ   شریف (جو کچھوچھہ شریف کے ریلوے اسٹیشن اکبرپور سے  پندوہ شریف 848 کیلومیٹر کا فاصلہ ہے) میں مرجع خلائق ہے۔
ہم شبیہ غوث الاعظم محبوب ربانی اعلیٰ حضرت  اشرفی میاں کچھوچھوی علیہ الرحمہ بعد زیارت آستانہ عالیہ مرشد برحق حضرت شیخ  علاؤ الحق والدین پنڈوی  گنج نبات قد س سرہ  میں یوں  عرض کرتے ہیں :
آیا ہوں تیرے در پر غمگین  اےشاہ علاؤ الحق والدیں
کردے دل نالاں کی تسکین اے شاہ علاؤالحق والدیں
ہو  نگاہ سراج الدیں  فرزند نظام و  فرید الدیں
گل گلشن قطب و معین الدیں اے شاہ علاؤالحق والدیں
اشرف کے دربار سے آیا ہوں لاکھوں ہی تمنا لایا ہوں
مَلتاہوں  تری چوکھٹ پہ جبیں اے شاہ علاؤالحق والدیں
جو مانگوں گا سو پاؤنگا محروم یہاں سے نہ جاؤں گا
دلمیں ہے میرے اسکا یقین اے شاہ علاؤالحق والدیں
اے خدام درگاہِ علاء مری عرض تمنا سن کے ذرا
سب لوگ کہیں آمیں آمیں اے شاہ علاؤالحق والدیں
حاضر ہے اب دردولت پر پھیلائے ہوئے دامان طلب
                                                               بیچارہ اشرفی مسکیںاے شاہ علاؤالحق والدیں

No comments:

Post a Comment