حضرت شرف الدین خواجہ ابو اسحاق شامی چشتی علیہ الرحمہ

 

معروف اسم گرامی:

 حضرت شرف الدین خواجہ ابو اسحاق شامی چشتی علیہ الرحمہ

 ولادت باسعادت:

ابو اسحٰق شامی چشتی ملک شام میں پیدا ہوئے، اسی لحاظ سے شامی کہلائے۔ قصبہ چشت میں تعلیم و تربیت ہوئی۔

شیخ طریقت:

 ( پیرو مرشد) حضرت خواجہ ممشاد علو دینوری علیہ الرحمہ

خلیفہ اکبر:

حضرت خواجہ ابو احمد ابدال ابن سلطان فرسنافہ چشتی علیہ الرحمہ۔06 محتشم و مکرم واسطوں سے آپ نائب رسول فی الہند، سلطان الہند، عطائے رسول، غریب نواز، ہندالولی، خواجہ خواجگان، خواجہ اجمیر، سلطان سنجرحضرت معین الدین حسن چشتی اجمیری رحمتہ اللہ تعالٰی کے شیخ طریقت ہیں۔

علوم ظاہری و باطنی:

علوم ظاہریہ و باطنیہ کے جامع تھےآپ نے خرقہ خلافت حضرت خواجہ ممشاد علو دینوری رحمتہ اللہ علیہ سے پایا تھا۔ ظاہری اور باطنی علوم میں ممتاز تھے اور زہد و ریاضت میں بے مثال۔ خلق سے بے نیاز اور خالق سے ہمراز، درویشوں سے محبت کرتے۔ ’’معراج الفقراء الجوع‘‘ کے مصداق ہمیشہ روزہ سے رہتے اور سات دن بعد افطار کیا کرتے۔ بہت کم کھانا کھاتے تھے فرمایا کرتے تھے کہ بھوک میں جو لذت پاتا ہوں وہ کسی کھانے میں نہیں پاتا۔

 پیرو مرشد حضرت خواجہ ممشاد علو دینوری رحمتہ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضری

مرید ہونے سے پہلے چالیس دن تک استخارہ کرتے رہے۔ ہاتف غیبی نے حضرت خواجہ ممشاد علو دینوری علیہ الرحمہ کی خدمت میں حاضری کا اشارہ دیا تو ان کے خدمت میں حاضر ہوئے۔بغداد پہنچ کرخواجہ ممشاد دینوری نے بیعت کی۔ سات سال بعد تکمیل کو پہنچے اور خلافت عطا ہوئی۔

سلسلہ چشتیہ کے حقیقی بانی:

درویشوں اور فقراء کے مسلک "سلسلہ چشتیہ" کے بانی ہیں۔ آپکے ( پیرو مرشد) حضرت خواجہ ممشاد علوی دینوری رحمتہ اللہ علیہ نے جب نام پوچھا تو ابو اسحٰق شامی بتایا۔ ( پیرو مرشد) حضرت خواجہ ممشاد علوی دینوری رحمتہ اللہ علیہ نے کہا آج سے لوگ تمہیں ابواسحٰق چشتی کہیں گے اور جو بھی تمہارے سلسلے میں داخل ہوگا، "چشتی" کہلائے گا۔ اسی نسبت سےسلسلہ کی ابتدائی شہرت میں چشتیہ انہی کی وجہ سے ہوئی۔ آپ کے پیرو مرشد نے آپ کو یہ بشارت دی کہ اہل چشت کے امام بنو گے۔ چنانچہ آپ اپنے وطن چشت واپس آئے تو ’’قطب چشتیہ ‘‘کے لقب سے مشہور ہوئے۔

چشت جس کی جانب اس سلسلہ کو منسوب کیا جاتا ہے وہ خراسان میں ہرات کے قریب ایک مشہور شہر ہے جہاں اللہ تعالی کے کچھ نیک بندوں نے انسانوں کی روحانی تربیت اور تزکیۂ نفس کے لیے ایک بڑا مرکز قائم کیا۔ ان حضرات کے طریقۂ تبلیغ اور رشد و ہدایت نے پوری دنیا میں شہرت و مقبولیت حاصل کر لی اور اسے اس شہر چشت کی نسبت سے ’’چشتیہ‘‘ کہا جانے لگا۔ چشت موجودہ جغرافیہ کے مطابق افغانستان میں ہرات کے قریب واقع ہے۔

چشت شریف (افغانستان) کے مرکز روحانیت سے ایسی نامور ہستیاں پیدا ہوئیں جن کی اتنی عزت و توقیر تھی کہ انتہائی ظالم و سفاک تاتاری ان کے اصطبل کے گھوڑوں کے سموں پر بوسے دیتے تھے۔ آپکے بعد مزید چار مشائخ کا تعلق بھی چشت شریف سے ہی تھا۔

ان میں

 حضرت خواجہ ابو احمد ابدال ابن سلطان فرسنافہ چشتی علیہ الرحمہ

حضرت خواجہ ابو محمد چشتی علیہ الرحمہ

حضرت خواجہ ابو یوسف چشتی علیہ الرحمہ

حضرت خواجہ سید قطب الدین مودود چشتی علیہ الرحمہ کےاسمائے گرامی مشہور ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ چاروں بزرگ سلسلۂ چشتیہ کے ستون مانے جاتے تھے۔

سلسلۂ چشتیہ کے بانی حضرت ابو اسحاق شامی رحمۃ اللہ علیہ ہیں۔ سب سے پہلے لفظ ’’چشتی‘‘ ان ہی کے نام کا جز بنا لیکن حضرت خواجہ معین الدین چشتی حسن سنجری رحمۃ اللہ علیہ کی شخصیت نے اس سلسلہ کے پرچم تلے دعوت حق کا جو کام انجام دیا اور آپ کو جو شہرت و مقبولیت حاصل ہوئی اس سے لفظ’’ چشتی‘‘ دنیا بھر میں بے پناہ مشہور و مقبول ہوا۔ طریقت کے دیگر سلاسل کی طرح یہ سلسلہ بھی حضرت علی مرتضی کرم اللہ تعالا وجہہ سے ملتا ہے۔

سلسلہ چشتیہ کی وجہ تسمیہ

فرمایا آج سےتم ابو اسحاق چشتی کہلاؤ گے اور چشت کی خلقت تم سے ہدایت حاصل کرے گی اور جو شخص تمہارا مرید ہوگا اسے بھی قیامت تک چشتی کہا جائے گا۔ چنانچہ تربیت کے بعد حضرت ابو اسحاق چشتی کو حضرت اقدس نے خلافت دے کر چشت کی طرف روانہ کیا۔ اسی دن سے خواجگان چشت وجود میں آئے۔ ان کے سر حلقہ پنجتن یعنی پانچ بزرگ ہیں حضرت ابو اسحاق چشتی، خواجہ ابو احمد چشتی، خواجہ ابو محمد چشتی، خواجہ ناصر الملۃ والدین ابو یوسف چشتی اور خواجہ قطب الدین مودود چشتی قدس اسرارہم۔ یہ پانچ حضرات چشت میں رہتے تھے۔ اسی طرح ان کے خلفاء بھی ملک ہندوستان میں پنج تن ہیں، حضرت خواجہ معین الدین چشتی، حضرت خواجہ قطب الدین بختیار چشتی حضرت خواجہ فرید الدین گنج شکر، حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء، حضرت خواجہ نصیر الدین چراغ دہلوی قدس اسرارہم جس شخص کا شجرہ ان پنج تن کے ذریعے سابقہ پنج تک جا پہنچتا ہے وہ چشتی ہے۔لکھا ہے کہ چشت دو ہیں۔ ایک شہر ملک خراسان میں ہے۔ جو ہرات کے نواح میں ہے دوسرا ہندوستان میں ہے جو ملتان اور اوچ کے درمیان ہے۔ ہمارے خواجگان کا تعلق ملک خراسان کے چشت سے ہے چنانچہ میر سید علاو الدین چشتی فرماتے ہیں کہ گرزہندوستان شدیم چہ باک-سبزہ، گلشن، خراسانیم(اگر ہم ہندوستان میں پیدا ہوئے تو کیا ہوا اوراصل تو ہم خراسان کے باغ کا سبزہ ہیں)۔

واقعہ خلافت:

حضرت خواجہ ابو اسحاق چشتی چھ سات دن کے بعد افطار کرتے تھے اور وہ بھی تین لقموں سے زیادہ نہیں۔ جب آپ حضرت علو ممشاد دینوری قدس سرہٗ کی خدمت میں پہنچے تو آپ کے حکم کے مطابق سات سال تک خلوت میں ذکر لا الہ الا اللہ میں مشغول رہے۔ ان ایام میں آپ ساتویں طے کےبعد افطار کرتے تھے یعنی اکیس دن کے بعد چند لقمے روٹی اور تھوڑا سا پانی لیتے تھے۔ حتیٰ کہ غیب سے آوازآئی کہ اے علو! ابو اسحاق کا کام بن چکا ہے اور وہ اعلیٰ مرتبہ پر پہنچ گیا ہے اسے اپنا خرقہ خلافت پہناؤ اور اپنا جانشین بناؤ اور تم ہمارے پاس آجاؤ۔ چنانچہ حضرت شیخ نے ان کو خرقہ خلافت عطا فرمایا اور اپنا جانشین بنایا۔اسی وقت یہ آواز آئی کہ ابو اسحاق ‘‘تو مقبول حضرت ماشدی’’(تم ہماری بارگاہ میں مقبول ہو چکے ہو) چنانچہ یہی ہوا اور بہت لوگ آپ کے حسن تربیت سے منزل کمال و تکمیل کو پہنچے۔

حضرت خواجہ ابو اسحاق چشتی قدس سرہٗ سماع کثرت سے سنتے تھےاور علمائے وقت میں کسی کو مجال نہ تھی کہ اعتراض کرے۔ جو شخص آپ کی مجلس سماع میں شریک ہوتا تھا۔ پھر کبھی اس سے گناہ سرزد نہ ہوتا تھا۔ حضرت شیخ کے وجد کے اثر سے حاضرین مجلس پر بھی وجد اور ذوق طاری ہوجاتا تھا اور جب آپ پر وجد میں کھڑے ہوتے تھے تو ایسا معلوم ہوتا تھا کہ درو دیوار وجد میں ہیں اور ان سے پسینہ بہتا تھا۔ نیز جس مرض کا مریض آپ کی مجلس سماع میں شریک ہوتا تھا اسے شفائے کامل حاصل ہوجاتی تھی۔ لیکن آپ دنیاہ داروں اور دولت مندوں کو مجلس سماع میں شریک ہونے کی اجازت نہیں دیتے تھے۔ اگر اتفاق سے کوئی ایسا شخص شریک مجلس ہوتا تو تارک الدنیا ہوجاتا۔ جب آپ سماع کا ارادہ کرتے تھے تو دو تین دن پہلے اپنے اصحاب کو خبردار کرتے تھے اور خود طے کا روزہ رکھتے تھے اور قوالوں کو بھی توبہ کراتے تھے۔

 سلسلۂ چشتیہ اور سرزمین ہند:

اللہ تعالا نے ہندوستان میں لوگوں کی روحانی تربیت اور اسلام کی تبلیغ و اشاعت اور تحفظ و استحکام کے لیے طریقت کے جس خاندان کو منتخب فرمایا وہ سلسلۂ چشت ہے ۔اس سلسلہ کی نام ور اور بزرگ ہستی خواجہ غریب نواز حضرت معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ کو ہندوستان میں اسلامی حکومت کی بنیاد سے پہلے ہی اس بات کا غیبی طور پر اشارہ مل چکا تھا کہ وہ سرزمین ہند کو اپنی تبلیغی و اشاعتی سرگرمیوں کا مرکز بنائیں۔ہندوستان میں چشتیہ سلسلہ کی بنیاد حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ کے ہاتھوں سے رکھی گئی۔

 شغف سماع:

آپ کو سماع سے بے حد لگاؤ تھا۔ آپ کی مجلس میں جو شخص ایک بار حاضر ہوتا پھر گناہ سے دور رہتا، آپ کی مجلس کی برکات سے ہر شخص وجد میں رہتا، اگر کوئی مریض ایک بار مجلس میں آجاتا تو شفا پاتا، دنیا کا پجاری آتا تو تارک الدنیا ہوجاتا تھا

 کیفیات وجد:

ایک با ر قحط پڑ گیا ۔ بادشاۂ وقت بذات خود دیگرہزاروں لوگ حضرت شیخ ابو اسحق شامی رحمتہ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور باران رحمت کےلیے دعا طلب کی ۔ حضرت شیخ ابو اسحق شامی رحمتہ اللہ علیہ نے محفل سماع کا اہتمام فرمایاجب آپ وجد میں آئے تو آسمان پر بادل گھر آئے اور اس قدر بارش ہوئی کہ لوگ اس کے روکنے کی دعا ئیں مانگنے لگے۔لوگ دوبارہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور بارش روکنے کی استدعا کی۔ حضرت شیخ ابو اسحق شامی رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا اگر دل بھر گیا ہے تو بارش رک جائے گی۔ جس کے بعد بارش رک گئی۔۔
 
آپ کے ہم عصرمشائخ عظام

حضرت ابو بکر شبلی علیہ الرحمہ

حضرت خواجہ حسن بن منصور حلاج علیہ الرحمہ

حضرت خواجہ ابو العباس ابن عطاء علیہ الرحمہ

سیرالاولیاء میں ہے کہ

حضرت خواجہ ابو اسحاق شامی چشتی رحمتہ اللہ علیہ مکاشفات کے پوشیدہ رکھنے میں بے حد کوشش فرماتے تھے اس لئے آپ نے صورت صحو اختیار کر رکھی تھی تاکہ عوام آپ کے کمال حال سے مطلع نہ ہوں اور صوفیاء کے نزدیک یہ مقام بہت بلند ہے ۔

کتاب سرالعارفین میں لکھا ہے منقول ہے کہ حضرت خواجہ ابو اسحاق شامی چشتی رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا الفقر طریق الاولیاء یعنی فقراء اللہ تعالی کے دوستوں کی راہ ہے جو درویشی کی راہ چلا اور فقر اختیار کیا ۔ وہ کسی مرتبے کو پہنچ گیا تمام انبیاء اور اولیاء اور ہمارے پیر فقیر تھے اور فقر کو عزیز جانتے تھے اور سب کے سب اہل مجاہدہ اور اہل مشاہدہ تھے ۔

حضرت خواجہ ابو اسحاق شامی چشتی رحمتہ اللہ علیہ علوم ظاہری و باطنی کے عالم اور صاحب وجد و سماع تھے آپ فرمایا کرتے تھے سماع ہم پر جائز ہے کیونکہ زخم دل کی آلودگی اسی سے صاف ہوتی ہے ۔حضرت خواجہ ابو اسحاق شامی چشتی رحمتہ اللہ علیہ کے بے شمار خلفاء تھے لیکن ہمارا سلسلہ چشتیہ آپ کے مشہور خلیفہ حضرت خواجہ ابو احمد ابدال چشتی رحمتہ اللہ علیہ سے جاری ہوا ۔

کتاب اقتباس الانوار میں ہے کہ ایک دفعہ خشک سالی ہوئی بادشاہ وقت تمام ائمہ کرام سمیت حضرت خواجہ ابو اسحاق شامی چشتی رحمتہ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور دعا کی درخواست کی۔ آپ نے قوالوں کو بلاکر سماع شروع کرایا۔ لیکن بادشاہ کو کہہ دیا کہ واپس چلے جاؤ۔ بادشاہ نے بعض فقراء کے ذریعے عرض کرابھیجا کہ اس احقر کو بھی سماع میں شریک کی اجازت دی جائے۔"آپ نے فرمایا کہ اگر تم شریک ہوئے تو سماع کا کوئی اثر نہ ہوگا لہذا بارش کیسے ہوگی۔ تم چلے جاؤ اور عنایت ایزدی کے منتظر رہو۔ انشاء اللہ تعالیٰ بارش ہوجائے گی بادشاہ حسب الحکم گھر چلا گیا۔ جونہی سماع شروع ہوا۔ آپ پر حال طاری ہوگیا اور وجد کرنے لگے۔ اس کے ساتھ ایسی بارش ہوئی خلق خدا خوش ہوگئی۔ دوسرے دن بادشاہ شکریہ ادا کرنے کے لیے حاضر ہوا۔ اسے دیکھ کر آپ رونے لگے۔ اس سے حاضرین مجلس پر بھی گریہ طاری ہوگیا۔ بادشاہ نے دریافت کیا کہ حضور کس وجہ سے روتے ہیں فرمایا نا معلوم مجھ سے کیا گناہ سرزد ہوا ہے کہ بادشاہ متواتر میرے پاس آرہا ہے۔ اور مجھے فقراء کی صحبت سے باز رکھ رہا ہے ۔ مجھے ڈر لگ رہا ہے کہ شاید میرا حشر قیامت کے دن امراء کے ساتھ ہو۔ اس کے بعد آپ نے نعرہ لگایا اور بیہوش ہوکر گر پڑے۔ جب آپ ہوش میں آئے تو یہ حدیث زبان پر تھی اللہم احیینی مسکیناً دامتنی مسکیناً واحشرفی فی زمرۃ المساکین (یا الٰہی مجھے مسکین زندہ رکھو۔ مساکین کے ساتھ مجھے مارو اور مساکین کے زمرہ میں مجھے قیامت کے دن اٹھاؤ) یہ حالت دیکھ کر بادشاہ شرمندہ ہوا اور گھر چلا گی ۔

 وصال مبارک:

آپ علیہ الرحمہ نے 14 ربیع الثانی 329 ہجری کو وصال فرمایا۔بعض کے مطابق شام میں رہے وہیں وفات پائی اور وہیں دفن ہوئے۔

مزار شریف:

آپ کا مزار مبارک شہر عکہ شام میں ہے۔

 چراغ مقبولاں:

سیر الاقطاب کے مصنف نے لکھا ہے کہ آپ کے وصال سے لے کر آج تک آپ کے مزار پر ایک چراغ روشن ہے جو کبھی نہیں بجھا۔ وہ شام سے صبح تک روشن رہتا ہے باد و باراں کا کئی بار طوفان آیا۔ مگر رات کے وقت اس چراغ کو نہیں بجھا سکا۔ یہ چراغ اس شعر کی عملی تصویر ہے۔

اگر گیتی سراسر باد گیرد-چراغ مقبولاں ہرگز نمیرد

اگر پوری دنیا تیز و تند ہواؤں کے نرغے میں آ جائے پھر بھی اللہ کے ولیوں کا چراغ ہمیشہ جلتا رہے گا

حضرت خواجہ ابو اسحاق شامی چشتی علیہ الرحمہ کے اقوال

دنیا میں مکر و فریب جنم لیتے ہیں اور دنیا میں ہی عروج پا کر زوال پذیر ہوتے ہیں

علم حاصل کرو کہ یہ عمل کر سکو

علم زندگی کا سرمایہ ہے کبھی ضائع نہ ہونے دو کیونکہ علم کے بغیر عمل کی زندگی بے سود ہے

علم نور خدا بھی ہے اس کا حصول آسان ہو یا مشکل ہر صورت حاصل کرو

عارف لوگ خدا کے قریب ترین ہوتے ہیں اور خدا ان کے قریب ہوتا ہے

عارف کی زندگی زاہد کی زندگی سے اتنی مختلف نہیں ہوتی

متوکل زندگی بھر حق پر بیٹھ کر فخر محسوس کرتا ہے

صادق اپنے عہد پر پورا اترتے ہیں اور خدا کو راضی رکھتے ہیں

زندگی بھر ایسے کام کرو جو دوسروں کےلئے راحت جان ثابت ہو

ایک دوسرے کی مدد کرو بروقت کام آنا ہی عبادت ہے اور اطاعت خدا کو دعوت دینا ہے

خود کو کسی کامل کے سپرد کردے تاکہ تیری زندگی میں عجیب انقلاب برپا ہو

دل آئینہ دوست ہے جتنا بھی صاف رکھو گے اتنا ہی مزہ آئے گا

مسافروں ، غریبوں ، مساکین کی مدد کرو اور ان کو زندگی بہتر طور پر گزارنے کا موقع دو

آداب محفل برقرار رکھو کیونکہ ان کے بغیر اچھا معاشرہ تشکیل نہیں دیا جا سکتا ۔

(مناقب المحبوبین ، کتاب مخزن چشت ، کتاب سیرالاولیاء ، کتاب سرالعارفین ، کتاب مرآت الاسرار ، کتاب اقتباس)


No comments:

Post a Comment