مخدوم الملک شیخ شرف الدین احمد یحیی منیری علیہ الرحمہ


ہندستان کے تاریخی و مذہبی مقامات میں صوبہ بہار کا قدیم قصبہ "منیر شریف" خاص اہمیت کا حامل ہے، جو پٹنہ سے 28ٍ کلو میٹر پچھم دریاے گنگا اور سون کے سنگم پر صدیوں سے آباد ہے۔ یہ شہر عہد وسطیٰ میں بھی خصوصی اہمیت کا حامل رہا ہے۔ اسے بہار میں اولیا و مشائخ کا اولین مرکز ہونے کا شرف حاصل ہے۔ عہد قدیم میں یہ شہر علم و ادب کا مرکز تھا ۔ زبان سنسکرت کے قواعد کے واضع "پانی نی" کی پیدائش اور تعلیم و تربیت یہیں ہوئی۔

اس شہر کی بنیاد فیروز راے (ولد کیشور راج ولد مہراج ولد کشن ولد پورب ولد ہند بن حام بن حضرت نوح علیہ السلام) نے ڈالی تھی۔ بلندی پر واقع ہونے کی وجہ سے یہ جگہ خوب صورت اور آب و ہوا کے اعتبار سے صحت بخش اور پر فضا ہے۔

چھٹی صدی ہجری میں حضرت تاج فقیہ ہاشمی علیہ الرحمہ جو ایک جلیل القدر بزرگ تھے، 570ھ میں بیت المقدس سے اس دیار میں تشریف لائے اور شمع اسلام روشن فرمائی، جس کی ضیا نے پورے صوبے کو منور کیا۔ آپ کے پوتے مخدوم منیری حضرت کمال الدین یحییٰ منیری (570ھ/1147ء – 690ہجری /1291ء)، خواہرزادۂ غوث اعظم حضرت خطیر الدین ابدال منیری، برادر مصنف ہدایہ حضرت علامہ رکن الدین مرغینانی (م:669ہجری ) اور جلیل القدر یمنی بزرگ حضرت مومن عارف یمنی منیری علیہم الرحمہ کی درگاہیں اسی شہر میں ہیں۔ علاوہ ازیں مخدوم دیوان دولت منیری علیہ الرحمہ (898ہجری /1492ء – 1017ہجری /1608ء) کا تاریخی مقبرہ بھی یہیں ہے، جسے آپ کے مرید اور شہنشاہ ہند سلطان اورنگ زیب محی الدین عالم گیر علیہ الرحمہ (1027ہجری /1618ء – 1118ہجری /1707ء) کے گورنر ابراہیم خاں کاں کر (م:1208ہجری ) نے اپنے مرشد برحق کی عقیدت میں تعمیر کروایا تھا، جو مشرقی ہندستان میں بے نظیر اور مغل فن تعمیر کا اعلیٰ شاہ کار ہے۔

اسی تاریخی و مذہبی شہر میں ساتویں صدی ہجری میں ایک ایسی شخصیت کی ولادت ہوئی جس پر زمانے کو ناز ہے، جسے دنیا سلطان المحققین مخدوم جہاں حضرت شرف الدین احمد یحییٰ منیری قدس سرہ القوی کے نام سے یاد کرتی ہے۔

ولادت با سعادت:

آپ کی ولادت شہنشاہ ہندستان سلطان ناصر الدین بن شمس الدین التمش کے زمانے میں 29 شعبان المعظم 661ہجری / اگست 1263ء میں ہوئی۔ جس حجرے میں اور جس تخت پر آپ تولد ہوئے وہ آج بھی منیر شریف میں موجود ہے اور منبع فیوض و برکات ہے۔آپ کی ولادت کا تذکرہ کرتے ہوئے آپ کے عاشق و ترجمان ڈاکٹر پاؤل جیکسن نے یوں لکھا ہے:ترجمہ: آپ (مخدوم جہاں) اگست 1263ء میں پٹنہ سے تقریباً 20 میل پچھم بہار کے ایک قصبہ "منیر " میں پیدا ہوئے۔

نام و نسب:

آپ علیہ الرحمہ کا اسم گرامی شرف الدین احمد ہے منیر شریف کی جانب نسبت کرتے ہوئے آپ کو "منیری" کہا جاتا ہے۔ آپ کا پدری نسب رسول اعظم ﷺ کے عم محترم حضرت زبیر رضی اللہ عنہ سے ملتا ہے، اور مادری سلسلہ شہید اعظم حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ تک پہنچتا ہے۔ آپ کا پدری نسب نامہ درج ذیل ہے: شرف الدین بن کمال الدین بن مخدوم اسرائیل بن امام تاج فقیہ بن ابو بکر بن ابو الفتح بن ابو القاسم بن ابو دہر بن ابو اللیث بن ابو سہمہ بن ابو دین بن ابو مسعود بن ابو ذر بن حضرت زبیر رضی اللہ عنہم۔

مادری سلسلۂ نسب یہ ہے:

بی بی رضیہ بنت شہاب الدین پیر جگ جوت سہروردی عظیم آبادی بن محمد سلطان بن محمد تاج بن سلطان احمد بن سلطان ناصر الدین بن سلطان یوسف بن سلطان حسن بن سلطان قاسم بن سلطان موسیٰ بن سلطان حمزہ بن داؤد بن رکن الدین بن قطب الدین بن اسحاق بن امام جعفر صادق بن امام باقر بن امام حسین رضی اللہ عنہم۔

پاؤل جیکسن نے لکھا ہے:ترجمہ: حضرت مخدوم جہاں کا پورا نام شرف الدین ابن یحیی منیری ہے۔

القابات:

آپ علیہ الرحمہ کے القاب سلطان المحققین، قدوۃ العارفین، حجۃ اللہ فی الارضین، شیخ الاسلام والمسلمین ، مخدوم جہاں، قطب زماں، مخدوم الملک، مرشد الملک، شرف الحق اور شرف الملت وغیرہ ہیں۔ (7) ان میں مخدوم الملک کا تذکرہ پاؤل جیکسن نے بھی کیا ہے۔ چناں چہ انہوں نے لکھا ہے:ترجمہ: بعد میں آپ (مخدوم جہاں) کو مخدوم الملک کے لقب سے جانا گیا۔

خاندانی پس منظر:

آپ کے جد اعلیٰ حضرت تاج فقیہ ہاشمی علیہ الرحمہ بیت المقدس کے محلہ قدس خلیل الرحمن سے بشارت نبوی ﷺ کے مطابق خواہر زادۂ غوث اعظم مخدوم خطیر الدین ابدال منیری (مدفون منیر شریف)، سالار لشکر مخدوم علم بردار ربانی (مدفون مہداواں، منیر شریف)، مخدوم تاج الدین ، میر جعفر، میر مظفر، میر علی ترک اور ان جیسے متعدد بزرگان دین رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ہم راہ عازم ہند ہوئےاو ر بتاریخ 27 رجب المرجب 576ہجری بروز جمعہ منیر شریف کے ظالم راجا کے ظلم و ستم سے عاجز آ کر اس پر فوج کشی کی، اور اسے شکست فاش دے کر اطراف و اکناف میں حق و صداقت، رشد و ہدایت اور عدل و انصاف کی پر بہار فضا قائم کی۔ اس معرکۂ حق و باطل میں کثیر تعداد میں مجاہدین اسلام جاں بحق بھی ہوئے، جن کی آخری خواب گاہیں منیر شریف میں بہ کثرت موجود ہیں۔ حضرت تاج فقیہ نے منیر شریف میں چند دن اقامت فرماکر صوبۂ بہار کی سب سے پہلی خانقاہ کی بنیاد ڈالی اور اپنے فرزندوں کو مفتوحہ علاقہ سپرد کیا، اور اسلام کی تبلیغ و اشاعت کی تلقین فرماکر مدینہ منورہ چلے گئے۔

بڑے شہزادے مخدوم اسرائیل ہاشمی نے آپ کی مسند سجادگی کو زینت بخشی اور چھوٹے بھائی عبد العزیز ہاشمی کو والد ماجد کے حکم کے مطابق اپنے پاس رکھا۔ جب کہ منجھلے بھائی اسماعیل ہاشمی نے شمالی بہار کو رشد و ہدایت کا مرکز بنزیز۔ چنا ں چہ شمالی بہار مین آپ ہی کی اولاد آباد ہیں اور آپ ہی ان کے مورث اعلیٰ ہیں۔

مخدوم اسرائیل ہاشمی کے بعد آپ کے صاحب زادے مخدوم منیری حضرت کمال الدین احمد یحییٰ منیری قدس سرہ القوی آپ کے جانشیں ہوئے۔ آپ نے اپنے جد اعلیٰ کا مفتوحہ علاقہ بخت یار خلجی کے سپرد کیا اور پوری زندگی عبادت و ریاضت، تبلیغ و اشاعت اور رشد و ہدایت کے لیے وقف کر دی۔ آپ کا رشتۂ مناکحت آپ کے مرشد گرامی مخدوم شہاب الدین پیر جگ جوت سہروردی عظیم آبادی (539ھ/1124ء – 632ہجری /1234ء) کی بڑی شہزادی بی بی رضیہ سے ہوا۔ اسی پاک باز خاتون کے بطن سے بیش بہا مرجان اور گراں قدر گوہر نایاب عالم وجود میں آیا، جس پر انسانیت اور روحانیت کو فخر ہے۔

تعلیم و تربیت:

آپ مادرزاد ولی تھے، عہد طفلی ہی سےمحیر العقول کرامات ظہور پذیر ہونے لگی تھیں۔ حضرت خضر علیہ السلام کے دست مقدس سے جھولا جھولنے کا شرف حاصل تھا۔ پھر بھی آپ کے بزرگوں نے آپ کو ظاہری علوم و فنون سے آراستہ و پیراستہ کرنا ناگذیر سمجھا، چناں چہ متوسطات تک کی تعلیم اپنے والد ماجد حضرت مخدوم کمال الدین یحییٰ منیری علیہ الرحمہ اور برادر صاحب ہدایہ علامہ رکن الدین مرغینانی منیری (مدفون قاضی محلہ منیر شریف) سے منیر شریف میں رہ کر حاصل کی ۔ اسی دوران علامہ شرف الدین ابو توامہ بخاری علیہ الرحمہ دہلی سے سنار گاؤں (ڈھاکہ، بنگلہ دیش)جاتے ہوئے آپ کے پدر بزرگ وار کی شہرت و ولایت سے متاثر ہو کر منیر شریف میں اقامت فرماکر ملاقی ہوئے۔ وہیں حضرت مخدوم جہاں سے ملاقات ہو گئی، آپ نے اپنی بصیرت علمی سے پہچان لیا کہ فرزند ارجمند منبع فیوض و برکات اورمرکز خواص ہو گا۔ چناں چہ آپ کے والدین کریمین کی اجازت سے مزید تحصیل علم کے لیے اپنے ساتھ سنار گاؤں لے گئے اور اپنی خانقاہ و درس گاہ میں مسلسل بائیس (22) سال رکھ کر تمام مروجہ علوم و فنون سے مزین فرمایا۔ اس کا تذکرہ پاؤل جیکسن نے یوں کیا ہے:ترجمہ: آپ (مخدوم جہاں) نے ابتدائی تعلیم اپنے علاقے کے مدرسے میں حاصل کی۔ اس کے بعد سونار گاؤں (ڈھاکہ ، بنگلہ دیش) کے علامہ ابو توامہ حنبلی بخاری کی صحبت اختیار کی، جہاں آپ کچھ دن رہے اور اس وقت کے مشائخ عظام سے تعلیم حاصل کی۔

عقد مناکحت:

دور طالب علمی ہی میں آپ کے استاذ و مربی علامہ ابو توامہ بخاری نے اپنی دختر نیک اختر سے نکاح کا بہ اندازۂ محبت اظہار فرمایا۔ اولاً تو آپ نے تامل کیا، لیکن بعد میں راضی ہو گئے۔ وہیں آپ کو ایک سعادت مند بیٹے کی دولت نصیب ہوئی، جنھیں مخدوم ذکی الدین کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔

پاؤل جیکسن نے لکھا ہے:ترجمہ: آپ کی شدی آپ کے استاذ ہی کی صاحب زادی سے ہوئی، جن کے بطن سے ایک لڈکا پیدا ہوا۔

تعلیمی انہماک:

 آپ تحصیل علم کے دوران گھر سے آئے تمام خطوط و مکتوب بغیر پڑھے ایک خریطے میں اس خیال سے ڈالتے جاتے کہ کہیں کوئی ایسی بات نہ ہو جس کے سبب حصول علم میں خلل واقع ہو۔ تعلیم سے مکمل فراغت کے بعد جب آپ نے پہلا خط پڑھا تو اس میں آپ کے والد ماجد کے وصال کی خبر تھی۔ فوراً اپنے صاحب زادے کو لے کر 690ہجری میں منیر شریف میں پہنچے اور والدہ ماجدہ کی خدمت میں مصروف ہو گئے۔

بیعت و خلافت:

حضرت خواجہ نجیب الدین فردوسی دہلوی علیہ الرحمہ (متوفیٰ: 490ہجری ، مدفون: قریب بہ حوض شمسی ، پرانی بستی ، مہرولی شریف، دہلی) سے آپ کو بیعت و خلافت حاصل ہے۔ چناں چہ آپ کے سوانح نگاروں نے لکھا ہے:آپ والدہ ماجدہ سے اجازت لے کر پیر و مرشد کی تلاش میں اولیا و مشائخ کی آماج گاہ دہلی نکلے۔ اس مبارک سفر میں آپ کے برادر کبیر مخدوم جلیل الدین منیری بھی آپ کے ہم رکاب تھے۔ دہلی اور اس کے اطراف و جوانب میں مقیم مشائخ عظام سے فرداً فرداً ملاقات کی اور کہا:" شیخے این ست من ہم شیخم"(اگر یہ شیخ ہیں تو میں بھی شیخ ہوں) حتیٰ کہ محبوب الٰہی حضرت نظام الدین اولیا دہلوی علیہ الرحمہ (636ہجری – 725ء) سے بھی ملاقات کی۔ محبوب الٰہی نے فرمایا: "سیمرغے ست اما نصیبے دام ما نیست" (یہ بلند پرواز شاہین ہے مگر افسوس میری قسمت میں نہیں)۔ آپ ہی کے ایما و اشارے پر حضرت خواجہ نجیب الدین فردوسی علیہ الرحمہ کے کاشانۂ ولایت پر حاضر ہوئے۔ جب خواجہ فردوسی کی عرفانی نظر آپ پر پڑی تو آپ کے رونگٹے کھڑے ہو گئے، دل دہل گیا، خواجہ فردوسی نے فرمایا: "در دہن برگ، و دستار برگ، و گفتار ایں کہ من ہم شیخم" (منہ میں پان، پگڑی میں پان اور دعویٰ یہ کہ میں بھی شیخ ہوں) آپ نے فوراً پان پھینک دیا اور با ادب کھڑے ہو گئے، پہر خواجہ فردوسی نے فرمایا: میں برسوں سے تمھارا منتظر تھا کہ امانت تمھارے سپرد کر دوں، پھر آپ کو سلسلۂ ارادت میں داخل فرماکر وہ خلافت نامہ جسے بارہ برس قبل بہ حکم رسول اعظم ﷺ تحریر فرمایا تھا، عنایت فرمایا اور واپسی کا حکم دیا۔ آپ نے بارگاہ مرشد میں عرض کی: حضور! تعلیم و تربیت کے بغیر رخصت فرما رہے ہیں؟ تو خواجہ فردوسی نے فرمایا: تمھاری تعلیم خود بارگاہ رسالت ﷺ سے ہوگی، واپس لوٹ جاؤ اور اپنے کام مین مشغول ہو جاؤ۔ بادل ناخواستہ بہ حکم مرشد منیر شریف کے لیے رخت سفر باندھا۔ راستے میں خبر ملی کہ خواجہ فردوسی کا وصال ہو گیا۔ شرکت کا ارادہ کیا مگر ممانعت مرشد سد راہ بنی، لہٰذا سفر جاری رکھا۔

اس کا تذکرہ پاؤل جیکسن نے یوں کیا ہے:ترجمہ: غالباً 1280ء کے اخیر میں آپ روحانی پیشوا کی تلاش میں دہلی گئے، وہاں آپ نے وقت کے مشہور بزرگ حضرت نظام الدین اولیا دہلوی اور بے شمار اولیا و مشائخ سے ملاقات کی، لیکن ان میں سے کسی سے مرید نہ ہوئے۔ آپ مایوس ہو کر بہار لوٹنے ہی والے تھے کہ آپ کی ملاقات خواجہ نجیب الدین فردوسی سے ہوئی۔ چناں چہ آپ خواجہ نجیب الدین فردوسی سے مرید ہو گئے۔

عبادت و ریاضت:

آپ علیہ الرحمہ بارہ برس تک "بہیا" کے جنگل میں اور تیس سال تک "راج گیر" کے صحرا و بیابان میں مشغول عبادت رہے۔ چناں چہ دہلی سے واپسی پر دوران سفر جب صوبہ بہار، ضلع بھوج پور کے گاؤں بہیا پہنچے تو عجیب کیفیت طاری ہو گئیاور بہیا کے خوف ناک جنگل میں گم ہو گئے۔ برادر اکبر مخدوم جلیل الدین کی تلاش بسیار کے باوجود نہ ملے تو آخرکار آپ وصیت نامہ اور خلافت نامہ لے کر والدہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور سارا واقعہ سنایا۔

ادھر مخدوم جہاں قدس سرہ مشغول ریاضت و مجاہدہ تھے کہ جگ دیش پور کا راجا ایک دن وہاں سے گذرا، آپ کو دیکھا کہ درخت پر ہاتھ رکھ کر عالم حیرت میں کھڑے ہیں، پورا بدن ساکت اور خشک ہے، جس پر چیونٹیاں رینگ رہی ہیں اور حلق و ناک میں داخل ہو رہی ہیں۔ اس نے مردہ گمان کیا مگر ناک پر ہاتھ رکھ کر تمیز کی تو سانس چل رہی تھی، اپنے گھر لایا اور خاطر کواہ تیمارداری کی، جب افاقہ ہوا تو رخصت ہونے لگے۔ راجا مانع ہوا، مگر آپ رکنے کو تیار نہ ہوئے تو مجبوراً گھر پہنچانے کے لیے ساتھ چلا۔ ہر منزل پر ممانعت کے باوجود منیر شریف تک پہنچانے پر مصر تھا، جب موضع "سرودہ"میں پہنچے تو فرمایا: اب چلے جاؤ یہاں سے میرے فرزندوں کا حق ہے۔ مجبوراً واپس ہوا، جہاں تک آپ کے ہم راہ آیا تھا، آپ کی برکت سے وہاں تک اس کی جاگیر داری ہو گئی۔

آپ بارہ برس تک بہیا کے جنگل میں سخت خدا طلبی کی زندگی گذار کر راج گیر کے جنگل میںمنتقل ہوئے اور وہاں تیس سال تک مشغول ریاضت و مجاہدہ رہے۔ اسی جنگل میں براہ راست بارگاہ معلم کائنات ﷺ سے آپ کی تعلیم و تربیت ہوئی۔ یہ وہ عظیم الشان صفت ہے جو آپ کو دیگر اولیا و مشائخ سے ممتاز و منفرد کرنے کے لیے کافی و وافی ہے۔ ذلک فضل اللہ یوتیہ من یشاء

آپ کی عبادت و ریاضت کے متعلق پاؤل جیکسن نے لکھا ہے:ترجمہ: منیر شریف آتے وقت مخدوم جہاں "بہیا" کے جنگل میں (بغرض عبادت) روپوش ہو گئے، پھر وہاں سے کوہ راج گیر کی طرف منتقل ہو گئے۔

آپ کی حیات مبارکہ کا وہ حصہ جو بہیا اور راج گیر کے جنگل مین گذرا بیالیس سال ہےاور اس عرصے کی حقیقت و کیفیت کما حقہ بیان کرنے سے ہر مورخ قاصر و عاجز ہے، مگر جو کچھ خود مخدوم جہاں نے بیان فرمایا ان میں سے چند احوال و کوائف ملاحظہ فرمائیں:

مولانا مظفر بلخی (م:788 ہجری ) نے عرض کی: حضور آپ جنگلوں مین کیا تناول فرماتے تھے؟ فرمایا: بہ قدر ضرورت گھاس اور پتیاں کھا لیتا تھا۔ راج گیر کے جنگل میں میری خاص غذا صرف درخت کی پتیاں تھیں۔

قاضی زاہد نے پوچھا: آپ کو کیا ذوق حاصل ہوا؟ فرمایا: جب میں راج گیر کے جنگل مین تھا، ایک گوشالے کی طرف گذرا، گائیں اچھی لگیں، چرواہا سو رہا تھااور گائیں بھی چر رہی تھیں، ہندو عورتیں گوبر لینے آئیں، ان میں سے ایک ڈائن تھی، جس کے سحر سے ایک گاے تڑپنے لگی، چرواہے نے مجھے ساحر سمجھااور غصے سے ایک لاٹھی میرے سر پر دے ماری۔ مجھے عجیب ذوق حاصل ہوا کیوں کہ میرا نفس کچلا گیا تھا۔

کوہ راج گیر کی کیفیت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: مین کسی مباح چیز کی تلاش میں نکلا، دامن کوہ میں ایک شخص کھانا کھا رہا تھا، قریب پہنچ کر التوفیق شیء عظیم کہا۔ اس نے کھانے کی اجاززت دے دی، بہ قدر ضرورت لقمہ اٹھایا ہی تھا کہ اس کے اصحاب مجھے دیکھ کر جھڑکنے لگے کہ تمھیں شرم نہیں آتی؟ ایسے کے ساتھ کھانا کھاتے ہو؟ مجھے بڑا مزہ آیا۔ پہاڑ پر چڑھا اور تین دن اس اسی خوشی میں وجد کرتا رہا کہ میرے نفس پر ملامت کی گئی۔

رشد و ہدایت: راج گیر کے جنگل میں مجاہدے کے دوران رفتہ رفتہ آپ کی شہرت ہو گئی اور خلق خدا جان خطرے مین ڈال کر خدمت کا شرف حاصل کرنے لگی۔ جس مین محبوب الٰہی حضرت نظام الدین اولیا دہلوی علیہ الرحمہ کے خلیفہ مولانا نظام الدین علیہ الرحمہ اور ان کے مریدین خصو صیت سے قابل ذکر ہیں۔ مخدوم جہاں نے لوگوں کی بے لوث عقیدت و محبت دیکھ کر فرمایا: جان خطرے ڈال کر اس خطرناک جنگل میں نہ آیا کرو، میں خود ہی ہر جمعہ کو بہار شریف آ جایا کروں گا۔ چناں چہ مخدوم جہاں خود ہی ہر جمعہ کو بہار شریف آ جایا کرتے اور نماز جمعہ پڑھ کر مشتاقان زیارت کو شربت دیدار پلا کر واپس جنگل چلے جاتے۔ ایک مدت تک یہ سلسلہ جاری رہا۔ بعد میں مولانا نظام الدین نے ایک جھونپڑی بنوائی، جہاں آج مخدوم جہاں کی خانقاہ ہے۔ آپ بعد نماز جمعہ قیام فرماتے، عقیدت کیشوں اور ارادت مندوں کی بھیڑ لگی رہتی، کچھ عرصے بعد مولانانظام الدین نے اس جھونپڑی کو پختہ کروایا اور مستقل اقامت کی درخواست کی۔ بالآخر مریدین و معتقدین کےاصرار پر راضی ہو گئے اور بہار شریف میں ہمیشہ رہنے لگے۔

پاؤل جیکسن نے اس بارے میں یوں لکھا ہے:ترجمہ: کئی سال بعد آپ کے مریدین نے جمعہ کی نماز کے لیے تقریباً بارہ میل دور بہار شریف آنے پر اصرار کیا۔ کافی اصرار کے بعد آخر کار وہاں جانے کے لیے تیار ہو گئے۔

جب آپ کی شہرہ آفاق عظمت و رفعت کا سراغ شہنشاہ ہند سلطان محمد تغلق کو لگا تو اس نے بہار کے گورنر کو حکم دیا کہ وہ حضرت کے لیے ایک خانقاہ تعمیر کرا دے، پرگنہ راج گیر کو ان کی نذر کر دے اور وظیفے کا سامان فراہم کر دے۔ صوبہ بہار میں یہ پہلی خانقاہ ہے جسے بادشاہ وقت نے مخدوم جہاں کے لیے تعمیر کروایا۔ آپ نے سلطان کی اس پیش کش کو قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ گورنر نے عاجزی سے التجا کی: حضور اگر شاہی نذرو وظیفے کو شرف قبولیت سے نہ نوازا گیا تو بادشاہ اسے میری کوتاہی سمجھے گا، پھر نہ جانے میرے ساتھ کیا معاملہ ہوگا۔گورنر کی خیر و عافیت کے لیے قبول تو کر لیا لیکن کچھ عرصے بعد سلطان محمد تغلق کی وفات ہو گئی اور سلطان فیروز تغلق اس کا جانشیں ہوا تو مخدوم جہاں نے دہلی جا کر راج گیر کے فرمان و دستاویزات واپس کر دیے اور فرمایا: یہ ہم فقیروں کی روش کے خلاف ہے۔

آپ نے باون(52) برس تک خانقاہ معظم کے سجادہ کو زینت بخش کر عالمی پیمانے پر رشدو ہدایت، بیعت و ارادت، ولایت و کرامت اور تصنیفات و تالیفات کی شمع روشن رکھی۔ ایک لاکھ سے زائد لوگوں نے آپ کے دست حق پرست پر بیعت ہو کر آپ کے حلقۂ ارادت میں داخل ہوئے۔

تصنیف و تالیف:

 آپ کی تصنیفات و تالیفات پچیس سو (2500) سے زائد ہیں۔ بڑی بڑی کتابوں پر آپ کے شروح و حواشی بہ زبان عربی و فارسی ملک عرب و شام میں موجود ہیں اور اور ملفوظات بھی اس بات کی شہادت دیتے ہیں کہ آپ کے علم کی کوئی حد نہ تھی۔ آپ کے مکتوبات و ملفوظات میں درج ذیل کتب کو غیر معمولی مقبولیت حاصل ہے:

·      مکتوبات صدی

·      مکتوبات دو صدی

·      مکتوبات بست و ہشت

·      ملفوظات زاد راہ

·      ملفوظات صغر

·      آداب المریدین (عربی شرح)

·      مونس المریدین

·      فوائد المریدین

·      ارشاد السالکین

·      ارشاد الطالبین

·      لطائف معانی

·      معدن المعانی

·      مغز المعانی

·      کنز المعانی

·      رسائل مکیہ

·      رسائل اجوبہ

·      رسائل و جودیہ

·      رسائل وصول الی اللہ

·      فوائد رکنی

·      فوائد غیبی

·      تحفۂ غیبی

·      گنج لا یفنی

·      رئیس العشاق

·      سبیل الرشاد

·      اسباب النجات

·      راحت القلوب

·      براءۃ المحققین

·      اشارات شرفی

·      ذکر فردوسی

·      اوراد خورد

·      خوان پر نعمت وغیرہ۔

احقاق حق و ابطال باطل:

آپ نے جہاں احقاق حق کے لیے دلائل و براہین کے انبار لگائے ہیں، وہیں ابطال باطل کا فریضہ بھی بہ حسن و خوبی انجام دیا ہے۔ چناں چہ آپ نے تمام مختلف فیہ عقائد و مسائل میں جماعت اہل سنت کے عقائد و معمولات کی حقانیت کو اجاگر فرمایا ہے اور بقیہ کی تردید شدید کہیں نام بنام تو کہیں کنایۃً فرمائی ہے۔ آج بھی آپ کی تحریروں سے موجودہ اکثر مذاہب باطلہ مثلاً اہل قرآن،و غیر مقلدین، خوارج و روافض، نجدیہ و ندویہ، اور وہابیہ و دیابنہ وغیرہم کی تردید ہوتی ہے۔ اس دعوے کی دلیل دلیل آپ کی کتابوں سے خوب ظاہر و باہر ہے۔ مثلاً رسول اعظم ﷺ بہ حیثیت مختار کل، رسول اعظم ﷺ بہ حیثیت شفیع اعظم، رسول اعظم ﷺ بہ حیثیت مطاع اعظم، رسول اعظم ﷺ منزہ عن العیوب، تقلید کی اہمیت، مشائخ سے توسل، معراج مع الجسد والروح، مناقب خلفاے اربعہ، عرس کا جواز اور سنت صدیقی، مزارات پر حاضری، مزار پر پھول کے فوائد اور فاتحہ خوانی وغیرہ ان جیسے بہت سارے مختلف فیہ عقائد و مسائل کو صدیوں پہلے مخدوم جہاں نے حق ثابت فرماکر آج کے تمام باطل فرقوں کے لیے موت کا سامان فراہم فرما دیا ہے۔

ہم عصر مشائخ:

آپ کے معاصر علما و مشائخ کی ایک لمبی فہرست ہے۔ ان میں سے چند ممتاز اہل فضو کمال کے اسماے گرامی درج ذیل ہیں:

·      حضرت امام یافعی علیہ الرحمہ، مکہ مکرمہ(م:768ہجری)

·      حضرت امیر کلائی علی الرحمہ، شام

·      حضرت بہاء الدین نقش بند علیہ الرحمہ، بخارا (م:791 ہجری)

·      حضرت صفی موسیٰ علیہ الرحمہ، ایران (م:735 ہجری)

·      حضرت امجد موسیٰ علیہ الرحمہ، ہمدان

·      حضرت وحی الدین علیہ الرحمہ، اصفہان

·      حضرت علاء الدین علیہ الرحمہ ، سمنان

·      حضرت جلال الدین بخاری علیہ الرحمہ، سیوستان (م:785 ہجری)

·      حضرت سلمان ساؤجی علیہ الرحمہ، ساؤج

·      حضرت راجو قتال علیہ الرحمہ، راجوہ

·      حضرت نصیر الدین چراغ دہلوی علیہ الرحمہ، دہلی (م:757 ہجری)

·      حضرت علی ہمدانی علیہ الرحمہ، کشمیر (م:786 ہجری)

·      حضرت سراج الدین اخی علیہ الرحمہ، پنڈوا (م:758 ہجری)

·      حضرت احمد چرم پوش علیہ الرحمہ، بہار (م:776 ہجری)۔

وصال پر ملال : علم و تحقیق اور رشد و ہدایت کا یہ آفتاب عالم تاب 6 شوال المکرم 782ھ / 2 جنوری 1381ء شب جمعرات ایک سو اکیس سال کی عمر میں خانقاہ معظم بہار شریف میں بعد نماز مغرب غروب ہو گیا۔ درج ذیل اشعار قبل وصال آپ کے زبان زد تھے۔جی مگن میں ہے کہ آئی ہیں سہانی رتیاں جن کے کارن تھے بہت دن سے بنائی گتیاں

شرفا گور ڈراؤنی نس اندھیاری رات واں نہ کوئی پوچھے کہ ہے کون توہاری جات

آپ کے وصال کا تذکرہ پاؤل جیکسن نے یوں کیا ہے: ترجمہ: پھر آپ مسلسل بہار شریف میں رہنے لگے، یہاں تک کہ 2 جنوری 1381ء میں بدھ کی شام کو دنیا سے رحلت فرما گئے۔

آپ علیہ الرحمہ کی نماز جنازہ وصیت کے مطابق محبوب یزدانی مخدوم اشرف جہاں گیر سمنانی کچھوچھوی علیہ الرحمہ (708ھ – 808ھ) نے پڑھائی اور چند روز مزار مبارک پر چلہ کش ہو کر بے انتہا فیوض و برکات حاصل کر کے یہ کہتے ہوئے رخت سفر باندھا ۔

دلا! ہر گز نہ یابی در جہاں ہم چو شرف پیرے کہ مالا مال زو شد سید اشرف جہاں گیرے۔

محبوب ربانی اعلیٰ حضرت اشرفی میاں کچھوچھوی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ جب محبوب یزدانی سلطان سید اشرف جہانگیر سمنانی قد س سرہ النورانی صوبہ بہار پہونچے تو یہاں حضرت مخدوم الملک شیخ شرف الدین احمد یحیی منیری قد س سرہ النورانی کی روح پرواز کرنے کا وقت تھا حضرت مخدوم الملک شیخ شرف الدین احمد یحیی منیری علیہ الرحمہ اپنے اصحاب سے وصیت کرتے ہیں خبردار کوئی بھی میرے جنازہ کی نماز نہ پڑھائے کیونکہ ایک سید صحیح النسب تارک سلطنت ساتوں قراء ت کا حافظ چودہ علوم و فنون کاعالم، عنقریب یہاں آئے گا اور وہی میری نماز جنازہ پڑھائے گا مخدوم الملک شیخ شرف الدین احمد یحیی منیری علیہ الرحمہ کا جنازہ تیار ہے۔ مریدین سارے لوگ حضرت مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی علیہ الرحمہ کا انتظار کر رہے ہیں جیسے ہی محبوب یزدانی سلطان سید اشرف جہانگیر سمنانی قد س سرہ النورانی خانقاہ میں نزول اجلال فرماتے ہیں حضرت مخدوم الملک شیخ شرف الدین احمد یحیی منیری علیہ الرحمہ کی بتائی ہوئی نشانیوں کو پاکر سارے لوگ آپ کی دست بوسی کے لیے ٹوٹ پڑتے ہیں۔ اذن کے اصرار پر نماز جنازہ کی امامت فرماتے ہیں پھر تدفین کے بعد دل میں خیال پیدا ہوا کہ بہار ولایت بنگال میں شامل ہے شائد میرے مرشد یہی تھے جو انتقال فرماگئے،فورا جواب ملتا ہے فرزند تمہارے پیر ابھی زندہ سلامت ہیں۔حضرت مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی علیہ الرحمہ حضرت مخدوم الملک شیخ شرف الدین احمد یحیی منیری قد س سرہ النورانی کے مزار پر انوارسے روانہ ہوتے ہیں اور سیدھے مقام جنت آباد پنڈواشریف بنگال کا رخ کرتے ہیں۔(صحائف اشرفی)

مزار مقدس: آپ علیہ الرحمہ کا مزار پر انوار صوبہ بہار ضلع نالندہ کے قصبہ بہار شریف میں مرجع خلائق ہے۔ آپ کا عرس سراپا قدس 4،5،6 شوال المکرم کو انتہائی تزک و احتشام کے ساتھ منعقد ہوتا ہے۔

 

No comments:

Post a Comment