صاحبزادگان
اعلیٰ حضرت اشرفی میاں نے زوجہ اولی کی وفات
کے بعد دوسرا عقد کیا زوجہ اولیٰ سے حضرت
مولانا ابوالمحمود سید شاہ احمد شرف پیدا ہوئے تھےاور ثانیہ سے (بنت سید شاہ تجمل
حسین اشرف اشرفی الجیلانی) سے سید شاہ مصطفے اشرف اشرفی الجیلانی۔ بڑے صاحبزادے
سید احمد اشرف اشرفی الجیلانی جید عالم
اور بے مثل خطیب تھے۔ آپ نے انہیں بھی روحانی تربیت کے بعد خلافت عطافرمائی تھی
اور وہ آپ کے جانشین تھے لیکن مشیت ربانی کچھ اور ہی تھی وہ آپ کے سامنے ہی ایک
مہلک مرض میں مبتلا ہوکر 15 ربیع الآخر 1347 ہجری بعمر 61 سال وصال
فرماگئے۔سلطان الواعظین حضرت سید شاہ محمد احمد اشرف علیہ الرحمہ کے وصال کے بعد
اعلیٰ حضرت اشرفی میاں اپنے پوتے مولانا سید محمد مختار اشرف اشرفی الجیلانی کو اپنا جانشین مقرر فرمایا۔
چنانچہ اعلیٰ حضرت اشرفی میاں نے 1355 ہجری میں جب وصال فرمایا تو ان کے
حکم کے مطابق سید شاہ مختار اشرف اشرفی الجیلانی خانقاہ اشرفیہ حسنیہ سرکارکلاں کے
سجادہ نشین مقرر ہوئے۔
اعلیٰ حضرت مخدوم المشائخ سرکارکلاں رحمۃ اللہ
علیہ نے ارشاد فرمایا کہ اعلیٰ حضرت اشرفی میاں قدس سرہ نے وصال سے تین دن پیشتر
ارشاد فرمایا :
"جس کو جو مانگنا ہے مانگ لے"۔
فیض عام کی منادی سن کر لوگوں کی بھیڑ لگ گئی
، کوئی اولادمانگ رہا ہے، کوئی دولت وحشمت مانگ رہا ہے ۔ کوئی عزت و وقار کا طالب
تھا کوئی ولایت کے مراتب و مقام کا طلبگار تھا ۔حضرت مصطفی چچا میاں نے نظر مانگی
۔ میں اس دن حاضر خدمت نہ ہوا دوسرے دن اعلیٰ حضرت نے طلب فرمایا اور فرمایا کہ سب
نے کچھ نہ کچھ مانگا۔ لیکن تم نے کچھ بھی نہیں مانگا ۔
میں نے عرض کیا کہ :
حضورلوگوں کو مسلسل عطافرما رہے ہیں ، کچھ بچا
بھی ہے یا سب کچھ دے چکے۔
اعلیٰ حضرت قبلہ جدی ومرشدی نے فوراً فرمایا :
"ایک طرف سے آتا ہے دوسری طرف چلا جاتا
ہے ،تم جو مانگنا چاہتے ہو لیکن ایک ہی چیز مانگنا"۔
میں سوچ میں پڑ گیا کہ کیا چیز مانگوں، اگر
مسجد مانگتا ہوں تو خانقاہ جاتی ہے ، خانقاہ مانگتا ہوں تو مدرسہ جاتا ہے ، اسی شش
و پنج میں پڑگیا کہ سوال ذہن میں آگیا عرض کیا کہ پہلے آپ وعدہ فرمائیں کہ دیدوں
گا۔ باردیگر پھر میں نے وعدہ لیا حضورسرجھکاکر دعدہ فرمایا ۔ تب میں نے عرض کیا۔
"میں آپ سے آپ کو مانگتاہوں"
تب حضور نے اپنی تسبیح منگوائی اور میرے گلے
میں ڈال دی ، پھرجو بھی مانگنے والا آیا حضور نے فرمایا:
"سب میں نے محمد میاں (سرکارکلاںسید مختار اشرف اشرفی الجیلانی ) کو دیدیا ہے اب انہیں سے مانگو پھر مانگنے
والوں کی بھیڑ لگ گئی۔
رجب المرجب کا مہینہ تھا آپ کے وصال کرنے سے کچھ دن پہلے کا واقعہ ہے کہ
حضرت مولانا الحاج سید شاہ ابوالفتح مجتبٰی اشرف صاحب نے بیان فرمایا :
ایک دن ایک ایسا شخص عیادت کے لئے حاضر ہوا جو
شادیوں کے موقع پر دولھا کی سواری کے لئے ڈولا بنایا کرتا تھا، حضور پرنور قدسی
منزلت نے اس سے فرمایا تم فلاں دن دولھا کے بیٹھنے کا ڈولا لیکر آنا اس نے عرض کیا
کہ حضور ڈولا کیا کریں گے ؟
جواب کہ " فلان دن میری شادی ہوگی اس میں دولہا بن کر سوار
ہونگے"
اس جواب ہر اس شخص نے عرض کیا کہ حضور یہ عمر
اور علامت اور شادی کی بات، آپ مجھ سے مزاح کررہے ہیں ۔
ارشاد فرمایا۔
" نہیں تم اس دن ڈولا لے کر آنا میری
شادی ہوگی"
تاریخ و یوم پر جب وہ شخص آیا تو دیکھا کہ
عقیدت مندوں کا ہجوم ، ماننے والوں کا سیلاب ، مریدوں کا ٹھاٹھیں مارتا مجمع اور
اپنے اور غیروں کا جم غفیر ہے جنکی نگاہیں فرقت کے آنسوؤں سے لبریز اورجن کے چہرے
حزن وملال کے ترجمان تھے اس نے سمجھ لیا کہ حضور پرنور قدسی منزلت نے جو فرمایا
تھا، فلاں دن میری شادی ہے وہ یہی شادی دائمی خانہ آبادی ہے۔
مرقد پاک کی تیاری کا حکم
صحائف اشرفی میں ہے
کہ..............................
اعلی حضرت اشرفی میاں کی خانوادہ اشرفیہ میں
واحد شخصیت تھے جنہوں نے سلسلہ اشرفیہ کو عرب و عجم کے دیار و امصار میں متعارف
کرایا اور اس سلسلہ کی ترویج و اشاعت فرمائی اور یہ حق ہے کہ آپ سلسلہ اشرفیہ کا
مبین و مظہر کہاجائے۔ اور آپ نے اپنے جد کریم حضرت مخدوم سلطان سید اشرف علیہ
الرحمہ والرضوان کا سیرۃ کامل جانشین اور متبع کی حیثیت ہونے سے آپ بے شک اکبر
الوقوہ کے مصداق تھے ۔ آپ کی ظاہری و باطنی دونوں زندگیاں حضرت مخدوم سمناں کی
اتباع کی آئینہ دار تھیں ۔ اتباع کا یہ مفہوم صرف حیات ظاہری سے متعلق ہے بعد ممات
اتباع کا یہ تصور ممکن ہی نہیں لیکن آپ نے حضرت مخدوم سمناں قدس سرہ کے پائیں اپنی
قبر کے لئے تاکید فرماکر لفظ اتباع کو ایک نیامفہوم بخش دیا تاکہ صبح قیامت کو بھی
اپنے محبوب کے پائیں اس انداز میں پڑا رہنا کہ کبھی کروٹ نہ بدلی یہ اتباع کا
انوکھا انداز ہے اعلیٰ حضرت اشرفی میاں نے حضرت سید شاہ مصطفی اشرف اشرفی الجیلانی
علیہ الرحمہ سے فرمایا :
فرزند پیر مصطفی اشرف مجھے فرزند مولانا سید
احمد اشرف علیہ الرحمہ والدہ سید محمد محدث علیہاالرحمہ ( جو اشرفی میاں کی
بڑی صاحبزادی تھیں) کے مابین دفن کرنا۔ یہ اتنا حصہ باالکل میرے جد کریم مخدوم
سمناں علیہ الرحمہ کے پائیں ہے۔ حضور سید شاہ مصطفی اشرف نے عرض کیا کہ حضور وہاں
اتنی جگہ نہیں ہے کہ قبر بنائی جاسکے۔
اس وقت سرکار اعلیٰ حضرت مرشدالعالم محبوب
ربانی قدس سرہ نے خاص انداز اور ولولہ سے فرمایا۔
"میں نے ساری عمر اس کی چکی پیسی اور
ان کے نام کا جھنڈا لیکر دنیا جہاں میں
پھرا، اب وہ اتنی جگہ بھی نہ دے گا کہ دفن ہوسکیں ، جاؤ اور قبر وہیں تیار
کرو" ۔
چنانچہ اسی وقت کچھ حضرات اس مقام پر پہونچے
اور قبر شریف کی تیاری میں بلادغدغہ و
بلاتردد لگ گئے، تیاری کے بعد بھی اتنی گنجائش موجود پائی گئی کہ جسد مبارک
کورکھنے کے بعد بھی اطراف میں جگہ موجود تھی ۔
No comments:
Post a Comment