باقر کی وجہ تسمیہ : باقر بقرہ سے مشتق ہے اور اسم فاعل ہےاس کے
لغوی معنیٰ کھولنے، چیڑنے، پھاڑنے ، اور وسعت دینے کے ہیں۔ (المنجد فی اللغۃ / لوئیس معلوف/ الطبعۃ ثالث وثلاثون/ مطبوعہ
دارالمشرق بیروت لبنان)
یہ مسلمہ حقیقت ہے اور اس کی شہرت عامہ ہے کہ آپ علم و زہد اور شرف میں
ساری دنیا سے فوقیت لے گئے ہیں آپ سے علم القرآن، علم الآثار، علم السنن اور ہرقسم
کے علوم، حکم، آداب وغیرہ کے مظاہرہ میں کوئی نہیں ہوا، بڑے بڑے صحابہ اور نمایاں
تابعین، اور عظیم القدر فقہاء آپ کے سامنے زانوئے ادب تہ کرتے رہے۔آپ کے القاب
کثیر تھے ، جن میں باقر ، شاکر، ہادی زیادہ مشہور ہیں ۔(مطالب السؤل صفحہ 269 ، نورالابصار 3/55،مراۃ الاسرار 208) احمد یعقوبی(غالباً مسلم دنیا کے قرون وسطی کے
پہلے مورخ)رقمطراز ہے: آپ کو اس سبب سے باقر کا نام دیا گیا کہ آپ نے علم کو
شکافتہ کیا۔ (تاریخ یعقوبی، 2/289)
آپ کا نام اپنے جد بزرگوار حضور اکرم صلی اللہ
علیہ وسلم کےنام پر محمد تھا اور باقر لقب۔ اسی وجہ سے محمد
باقر کے نام سے مشہور ہوئے۔بارہ اماموں میں سے یہ آپ ہی کو خصوصیت تھی کہ آپ کا
سلسلہ نسب ماں اور باپ دونوں طرف سے حضرت حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچتا ہے۔ دادا آپ کے سید الشہداء حضرت سیدنا
امام حسین رضی اللہ عنہ تھے اور والدہ آپ کی ام عبد اللہ فاطمہ حضرت سیدنا امام
حسن مجتبیٰ رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی تھیں ۔اس طرح حضرت محمد باقر حضور اکرم صلی اللہ
علیہ وسلم کے بلند کمالات اور علی و فاطمہ کی نسل کے پاک خصوصیات کے باپ اور ماں
دونوں سے وارث ہوئے۔
صحابی رسول حضرت جابر
بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کی خدمت میں اہلبیت اطہار کے روشن چشم و چراغ امام
باقر رضی اللہ عنہ بچپن شریف میں حاضر ہوئے چونکہ آخری عمر میں آپ کی
بینائی شریف کمزور ہوگئی تھی اس لئے آپ نے پوچھا :آپ کون ہیں؟
تو حضرت امام باقر رضی اللہ
عنہ نے جواب دیا :محمد بن علی بن حسین بن علی المرتضیٰ (رضی
اللہُ عنہم)۔ یہ سنتے ہی آپ رضی اللہ عنہ نے آگےبڑھ کر امام باقر رضی
اللہ عنہ کے ہاتھوں کو چوم لیا اور فرمایا:
حضور اکرم ﷺ نے آپ کو سلام اِرشادفرمایا ہے۔ وہاں موجود حاضرین نے آپ سے
عرض کیا :حضور! یہ کیسے ہو سکتا ہے ؟ (کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم اُس وقت ظاہری طور پر پردہ فرماچکے تھے)۔ اس پر
حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے بیان فرمایا: ایک مرتبہ میں حضور اکرم ﷺ کی خدمت
میں حاضر تھا اورآپ ﷺکی مبارک گود میں نواسۂ رسول ، جگرگوشۂ بتول، حضرتِ امام
حسین رضی اللہ عنہ کھیل رہے تھے۔ نانائے حسین صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے
ارشاد فرمایا:اے جابر! میرے اس بیٹے کے ہاں ایک بیٹا پیدا ہوگا جس کا نام علی (زین
العابدین) ہوگا جب قیامت کا دن ہوگاتو ایک آواز لگانے والا آواز لگائے گا :
سیدالعابدین کھڑے ہوں ! تو وہ کھڑاہوگا ۔ پھر اس کے ہاں ایک بیٹا پیدا ہوگا جس
کانا م محمد ہوگا ۔اے جابر! تم اُن کو دیکھو گے، جب اُن سے ملو تو میرا سلام
کہنا۔(صواعق المحرقہ،ص 201)
حضرت امام محمد باقر رضی اللہ عنہ کے علمی فیوض و برکات اور کمالات و
احسانات سے اس شخص کے علاوہ جس کی بصیرت زائل ہوگئی ہو، جس کا دماغ خراب ہوگیاہو
اور جس کی طینت و طبیعت فاسد ہوگئی ہو،کوئی شخص انکارنہیں کرسکتا،اسی وجہ سے آپ کے
بارے میں کہا جاتا ہے کہ آپ ”باقرالعلوم“ علم کے پھیلانے والے اورجامع العلوم ہیں،
آپ کادل صاف، علم و عمل روشن و تابندہ نفس پاک اورخلقت شریف تھی، آپ کے کل اوقات
اطاعت خداوندی میں بسرہوتے تھے۔ عارفوں کے قلوب میں آپ کے آثار راسخ اور گہرے
نشانات نمایاں ہوگئے تھے، جن کے بیان کرنے سے وصف کرنے والوں کی زبانیں گونگی اور
عاجز وماندہ ہیں آپ کے ہدایات و کلمات اس کثرت سے ہیں کہ ان کااحصاء اس کتاب میں
ناممکن ہے۔)صواعق محرقہ 667(
حضرت سیدنا امام ابوجعفرمحمد باقر رضی اللہ عنہ نے
صحابہ کرام علیہم الرضوان میں سے حضرت سیدنا جابر بن عبداللہ انصاری، حضرت سیدنا عبد
اللہ بن عباس، حضرت سیدنا ابو ہریرہ، حضرت سیدنا ابو سعید خدری، حضرت سیدنا انس بن
مالک، حضرت سیدنا امام حسین اور حضرت سیدنا امام حسن مجتبیٰ رضی اللہ عنہم سے احادیث
روایت کی ہیں۔ تابعین میں سے حضرت سیدنا سعید بن مسیب اورحضرت سیدنا عبیداللہ بن
ابورافع سے احادیث روایت کیں ہیں۔ جب کہ آپ سے حضرت سیدنا عمرو بن دینار ، حضرت سیدنا
عطاء بن ابورباح، حضرت سیدنا ابان بن تغلب جیسے تابعین کرام اور جابر جعفی سے
احادیث روایت کیں ہیں۔ ائمہ
کرام میں سے حضرت سیدنالیث بن ابوسلیم، حضرت سیدناابن جریح اور حضرت سیدنا حجاج بن
ارطاء رضی اللہ عنہم نے آپ سے احادیث روایت کی ہیں۔ (حلیۃ الاولیاء و طبقات الاصفیاء 3 /271)
علامہ حافظ ابوالفداعماد الدین دمشقی علیہ الرحمہ
لکھتے ہیں کہ جن لوگوں نے آپ سے روایات نقل کیں ہیں ان میں آپ کے فرزند جعفر
الصادق ، الحکم بن عینہ ، ربیعہ، الاعمش، ابو اسحاق السبعی، الاوزاعی بھی جو عمر
میں ان سے بڑے تھے شامل ہیں ۔ ان کے علاوہ ابن حریح، عطاء بن رباح، عمروبن دینار
اور الزہری بھی ان سے روایت کرنے والوں میں شامل ہیں ۔ (البدایہ والنہایہ 9/267)
امام ابونعیم احمد اصفہانی الشافعی علیہ الرحمہ حضرت
سیدنا عبداللہ بن عطاء رضی اللہ عنہ کے حوالے سے فرماتےہیں کہ میں نے حضرت سیدنا
محمد بن علی باقر رضی اللہ عنہ کے علاوہ علماء میں سے ایسا کوئی نہیں دیکھا جس کے
پاس علماء کا علم بھی کم پڑ جائے ۔ میں نے حکم بن عیینہ کو ان کی خدمت میں اس طرح
بیٹھے دیکھا گویا طالب علم ہو۔ (حلیۃ
الاولیاء و طبقات الاصفیاء 3/268/3757)
علامہ حسن بن مومن شبلنجی حنفی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ علم دین، علم
احادیث،علم سنن اور تفسیر قرآن و علم السیرت و علوم وفنون ،ادب وغیرہ کے ذخیرے جس
قدر امام محمد باقر رضی اللہ عنہ سے ظاہر ہوئے اتنے امام حسین اور امام حسین علیہم
السلام کی اولاد میں سے کسی سے ظاہرنہیں ہوئے ۔ (کتاب الارشادصفحہ 286، نورالابصار صفحہ 131)
حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں کہ وسمی الباقر لبقرہ العلوم واستنباطہ
الحکماور آپ کا باقر نام اس لئے رکھا گیا ہے کہ آپ نے علوم کو کھولا اور ظاہر کیا اور
احکام کو استنباط کیا۔ آپ رفیع النسب اور عالی نسب تھے۔ چنانچہ آپ کا نسب یہ ہے محمد
بن علی بن الحسین بن علی بن ابی طالب بن عبدالمطلب بن ہاشم بن عبد مناف۔ آپ جلیل القدر
تابعی تھے۔ آپ سے روایت کرنے والے امام جعفر صادق، حکم بن عتیبہ، ربیعہ، امام اعمش،
ابواسحاق، امام اوزاعی، ابن شہاب زہری (رضوان اللہ علیہم اجمعین )وغیرہم ہیں۔
سفیان نے امام جعفر صادق سے روایت کی ہے کہ امام جعفر نے کہا کہ میرے باپ اپنے
زمانے میں روئے زمین پر تمام سے بہتر تھے۔ (البدایہ والنہایہ 9/268) علامہ سیوطی الشافعی (متوفیٰ 911 ہجری ) نے آپ
کا ذکر طبقات رابعہ میں کیا ہے۔
علامہ شمس الدین ابن خلکان نے لکھا ہے کہ امام باقر (رضی اللہ عنہ ) علامہ زمان
اور سردار کبیر تھے آپ علوم میں بڑے متبحر اور وسیع الاطلاع تھے۔ (الوفیات الاعیان و انباء انباء الزمان صفحہ 450)
حافظ امام ذہبی حضرت سیدنا باقر ( رضی اللہ عنہ ) کے بارے میں لکھتے ہیں کہ
آپ بنو ہاشم کے سردار اور متبحر علمی کی وجہ سے باقر مشہور تھے آپ علم کی تہہ پہنچ
گئے تھے اور اپنے علم کے دقائق کو اچھی طرح سمجھ لیا تھا۔ (تذکرۃ
الحفاظ1/111،سیر اعلام النبلاء 4/402)
علامہ شبراوی لکھتے ہیں کہ امام محمد باقر کے علمی تذکرے دنیامیں مشہور ہوئے
اورآپ کی مدح وثناء میں کثرت سے قصائد اور اشعار لکھے گئے ہیں۔ چنانچہ مالک بن
اعین جہنی ایک قصیدہ میں آپ کی مدح کرتا ہے۔
اذا طلب الناس علم القران
کانت قریش علیہ عیالا
جب لوگ علم قرآن سمجھنے کا مطالبہ کریں تو قریش اس پر ہی محتاج تھے۔ یعنی
قریش علم قرآن بتانے سے عاجز رہے کیونکہ امام باقر کے محتاج ہیں۔ اگر فرزند رسول (محمد
باقر) کے منہ سے کوئی بات نکل جائے تو وہ بے شمار مسائل اور تحقیقات کے ذخیرہ جمع کر
دے۔ یہ وہ ستارے ہیں جو ہر قسم کی تاریکیوں میں چلنے والوں کے لیے چمکتے ہیں اور ان
کے انوار سے لوگ راستے پاتے ہیں۔ (الاتحاف
صفحہ 51، نورالابصار 251)
علامہ ابن حجر مکی
الشافعی علیہ الرحمہ رقمطراز ہے: ابو جعفر محمد باقرنے اس قدر علوم کے پوشیدہ
خزانے، احکام کے حقائق اور حکمتوں و لطائف کو آشکار کیا ہے کہ آپ کا یہ کردار
سوائے بے بصیرت اور بد سگال عناصر کے، کسی پر بھی پوشیدہ نہيں رہا ہے اسی بنا پر
آپ کو باقر العلم (علوم کو شقّ و شکافتہ والا)، علوم کو جمع کرنے والا اور علم و
دانش کا پرچم بلند کرنے والا، کہا گیا ہے۔ آپ نے اپنی عمر طاعت رب میں گذاری اور
عارفین کے مقامات و مراتب میں اس مقام پر فائز ہوئے جس کی توصیف سے بولنے والوں کی
زبان قاصر ہے۔ آپ سے سلوک اور معارف میں بہت سے کلمات نقل ہوئے ہیں۔ (الصواعق المحرقہ، ص667)
علامہ شبلی نعمانی اور شیخ ابن قیم لکھتے ہیں کہ امام ابوحنیفہ ایک مدت تک حضرت(
امام باقر رضی اللہ عنہ ) کی خدمت میں حاضر رہے اور انہوں نے انہیں سے فقہ و حدیث کے
متعلق بہت سی نادر باتیں حاصل کیں۔ شیعہ سنی دونوں نے ماننا ہے کہ امام اعظم ابو حنیفہ
کی معلومات کا ذخیرہ حضرت ہی کا فیض صحبت تھا۔ امام صاحب نے ان کے فرزند رشید حضرت
امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ کی فیض صحبت سے بھی بہت کچھ فائدہ اٹھایا ۔جس کا ذکر عموما
تاریخ میں پایا جاتا ہے ۔ (سیرت النعمان
واعلام الموقنین 1/93)
حضرت
امام باقر رضی اللہ عنہ کی پیشنگوئی
ایک ثقہ کے راوی کا بیان ہے کہ میں ایک دن حضرت امام باقر رضی اللہ عنہ کے
ساتھ تھا کہ امام زید ( آپ کے بھائی) ہمارے پاس سے گزرے تو امام باقر رضی اللہ عنہ
نے فرمایا بخدا یہ کوفی میں خروج( اظہار حق کے نکلنا) کرے گا اور لوگ اسے شہید
کردیں گے اور اس کا سر گلی کوچوں میں پھرائیں گے پھر یہاں لے آئیں گے۔ آخر میں اسی
طرح ہواکہ آپ کو شہید کیا گیا اور آپ کا سر مبارک مدینہ منورہ لایا گیا ۔
واقعہ یہ ہے کہ امام زید رضی اللہ عنہ اہل بیت اطہار میں سے ایک عظیم شخصیت
تھے۔ آپ ہمیشہ اپنے آپ کو خلافت کا اہل سمجھتے تھے اسی سلسلہ میں اہل کوفہ آپ کے پاس
جمع ہوگئے اور آپ کی بیعت کرنا شروع کی، نیز مدائن، بصرہ، واسطہ،
موصل،خراسان،جرجان وغیرہ کےلوگوں نے بھی بیعت کرلی تو آپ نے خلافت کا اعلان کیا
اور 122 ہجری میں شامل بن عبدالملک کے خلاف آپ نے خروج کیا ۔
ہشام بن عبدالملک نے آپ کے مقابلے کے لیے یوسف بن عمرثقفی کو روانہ کیا، جب
دونوں لشکر آمنے سامنے ہوئے تو امام زید رضی اللہ عنہ کے ساتھی (شیعہ/ رافضی) کہنے
لگے ہم آپ کا ساتھ اس وقت دیں گے جب آپ ابوبکر صدیق (رضی اللہ عنہ) اور عمر فاروق
(رضی اللہ عنہ) کے بارے میں اپنی رائے تبدیل کریں گے۔ (جنہوں نے آپ کے جد اعلیٰ
مولیٰ علی کرم اللہ وجہہ الکریم پر ظلم جائز رکھا تھا۔ معاذاللہ)
یہ سن کر امام زید رضی اللہ عنہ نے فرمایا ان دونوں (ابوبکر وعمر ) کے لیے میں
کچھ نہیں کہہ سکتا، میں تو بنو امیہ کے خلاف خروج(اعلان حق) کیا ہے۔ یہ میرے دادا (حسین
رضی اللہ عنہ ) کے خلاف ہیں۔ یہ سن کر کوفی شیعوں نے کہا کہ ہم نے آپ کے ساتھ جو بیعت
کی ہے وہ فسخ کرتے ہیں۔ امام زید رضی اللہ عنہ نے ان کو رافضی کا خطاب دیا۔
بقول حافظ ابن کثیر کے آپ کے ساتھ صرف 218 آدمی رہ گئے، سخت مقابلہ ہوا امام
زید رضی اللہ عنہ اور آپ کے چند ساتھیوں نے یوسف ثقفی کی کئی ہزار فوج کا مقابلہ کیا
آخر میں ایک تیرآپ (رضی اللہ عنہ ) کی پیشانی میں لگا جس سے امام زید سے شہید ہوگئے۔
آپ کے ساتھیوں نے ایک نہر میں آپ کی قبر کھو دی اور دفن کر کے اوپر سے پانی بہا دیا
جب یوسف ثقفی کامیاب ہو گیا تو اس نے امام زید رضی اللہ عنہ کی قبر کا پتہ لگانا شروع
کر دیا۔ آخر میں ایک غلام نے اس کو بتایا کہ امام زید رضی اللہ عنہ کو وہاں دفن کیا
گیا ہے چنانچہ اس نے امام زید رضی اللہ عنہ کو قبر سے نکال کر آپ کا سر مبارک کاٹ کر
ہشام بن عبدالملک کے پاس بھیجا اور آپ کا جسم سولی پر لٹکا دیا ۔ چار ساک تک آپ کا
جسم مبارک سولی پر لٹکتا رہا ۔
ابن عمار حنبلی لکھتے ہیں جب آپ کو سولی پر چڑھایا گیا تو جسم کو دشمنوں نے
ننگا کردیا اس وقت عنکبوت (مکڑی) نے آپ کے جسم پر جالا تن دیا ۔ چار سال کے بعد آپ
کا جسم سولی اتارا گیا کیا اور اس کو جلایا گیا اور اس کی راکھ دریائے فرات میں ڈال
دی گئی ۔(البدایہ والنہایہ 9/330،
شذرات المذہب 1/159)
حضور اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ فرماتےہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو
بعض صالحین نے دیکھا کہ امام مظلوم زید شہید (رضی اللہ عنہ ) کی سولی سے پشت اقدس
لگائےکھڑے ہیں اور فرمارہے ہیں کہ یہ کچھ کیا جاتا ہے میرے بیٹوں کے ساتھ (فتاویٰ رضویہ جلد5)
امام زید رضی اللہ عنہ نے جب ہشام بن عبدالملک کے خلاف 122 ہجری میں خروج کیا
تو امام اعظم ابو حنیفہ علیہ الرحمہ نے فتویٰ دیا تھا خروجہ یصنامی خروج رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم یوم بدر"امام زید رضی اللہ عنہ کا خروج" بدرمیں حضور
ﷺ کی جنگ سے مشابہ ہے اور کہا کہ امام زید برحق امام ہیں۔ امام اعظم ابوحنیفہ علیہ
الرحمہ نے دس ہزار درہم امام زیدکی خدمت میں روانہ کیےخود بیمار ہونے کی وجہ سے جنگ
میں شرکت نہ کرسکے۔
امام اعظم ابو حنیفہ علیہ الرحمہ
چونکہ شاگرد بھی تھےکہتے تھےکہ میں نے زید بن علی کے خاندان کے دوسرے افراد کو
دیکھا ہے مگر میں ان سے زیادہ فقیہ، زیادہ فصیح و بلیغ اور حاضر جواب کسی کو نہ پایا
حقیقت یہ ہےکہ علم میں ان کی کوئی مثال نہیں تھی۔
امام اعظم ابو حنیفہ نے زندگی کے 52سال اموی دور میں گزارے اور 18 سال عباسی
عہد میں، انہوں نے دونوں حکومتوں کا زمانہ پایا اموی حکومت کا جاہ و جلال اور زوال
و انحطاط دیکھا، زیرزمین عباسی تحریک کو ملاحظہ کیا پھر عباسیوں کا اقتدار اور غلبہ
بھی دیکھا امام اعظم ابو حنیفہ علیہ الرحمہ نے یہ سارے انقلابات دیکھے نیزان دونوں
حکومتوں کا آل علی رضی اللہ عنہ پر تشدد اور ظلم ملاحظہ کیا اور اپنے نظر سے امام زید
رضی اللہ عنہ اور ان کے بعد ان کے بیٹے یحیٰ کو خراسان 125 ہجری میں پھر عبداللہ بن
یحیٰ کو 130 ہجری میں امویوں نے کی تلوار سے قتل ہوتا دیکھا۔ لیکن ابو حنیفہ نے ان
تمام حالات میں آل علی کا ساتھ ہی نہیں چھوڑا بلکہ اہل بیت کی حمایت میں متعدد مرتبہ
قابل تحسین موقف اختیار کیا، جس کی بنا پر سن سہو لت میں حکومت کی طرف سے ان پر عتاب
نازل ہوا اور آخرکار حق کے ساتھ تمسک اور نہایت بے نیازی کی حالت میں عترت نبوی کی
محبت میں مقام شہادت حاصل کیا۔ چنانچہ جب حکومت خاندان عباسیہ منتقل ہوئی تو عبداللہ
سفاح (المتوفی 136) کے بعد اس کا بیٹا ابو جعفر منصور بادشاہ بنا تو اس نے امام حسن
رضی اللہ عنہ کی اولاد کو قید کرکے ان کو لوہے کی زنجیریں پہنائیں اور ان کو عراق بھیج
دیا وہاں ان کو جیل خانے میں قید کر دیا۔ اس سلسلہ میں امام حسین رضی اللہ عنہ کی اولاد
میں سے ایک آدمی منصور کے پاس آیا، منصور نے پوچھا، کیسے آنا ہوا تو اس نے کہا کہ میں
امام حسین رضی اللہ عنہ کے اولاد سے ہوں میرے اہل و عیال تمہارے ہاتھ قیدی ہیں۔ مجھے
بھی ان کے ساتھ قید کردو۔ منصور نے ان کو بھی قید کر دیا ان کا نام علی بن حسن بن حسن
رضی اللہ عنہ تھا جو حضرات قید میں تھے اکثر قید میں ہی فوت ہو گئے۔
قیدیوں میں محمد بن ابراہیم بن عبداللہ بن حسن بن علی بن ابی طالب بھی تھے۔
یہ بہت خوبصورت تھے۔ خوبصورت ہونے کی وجہ سے دیباج اصفر ( زرد ریشم) کہا جاتا تھا۔
منصور نے ان کو بلایا اور کہا تو دیباج اصفر ہے انہوں نے کہا کہ لوگ ایسا کہتے ہیں۔
منصور نے کہا میں تجھے بری طرح قتل کروں گا میں نے اس سے پہلے کسی کو اس
طرح قتل نہیں کیا، پھر منصور نے حکم دیا کہ ان کو زندہ ایک ستون میں چنوا دیا جائے۔
یوں ہی ہوا کہ وہ دم گھٹ کر فوت ہوگئے۔ (البدایہ
والنہایہ 10/82)
اسلام
میں سکے کی ابتدا:
مؤرخ شہیر ذاکرحسین تاریخ اسلام جلد ۱ ص ۴۲ میں
لکھتے ہیں کہ عبدالملک بن مروان نے ۷۵ ہجری میں امام محمدباقر رضی اللہ عنہ کی
صلاح سے اسلامی سکہ جاری کیا اس سے پہلے روم و ایران کا سکہ اسلامی ممالک میں بھی
جاری تھا۔
اس واقعہ کی تفصیل علامہ دمیری کے
حوالہ سے یہ ہے کہ ایک دن علامہ کسائی سے خلیفہ ہارون رشید عباسی نے پوچھا کہ
اسلام میں درہم ودینارکے سکے، کب اورکیونکر رائج ہوئے انہوں نے کہا کہ سکوں کا
اجراخلیفہ عبدالملک بن مروان نے کیا ہے لیکن اس کی تفصیل سے نا واقف ہوں اور مجھے
نہیں معلوم کہ ان کے اجراء اور ایجاد کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی،ہارون الرشیدنے کہا
کہ بات یہ ہے کہ زمانہ سابق میں جو کاغذ وغیرہ ممالک اسلامیہ میں مستعمل ہوتے تھے
وہ مصر میں تیارہوا کرتے تھے جہاں اس وقت نصرانیوں کی حکومت تھی،اور وہ تمام کے
تمام بادشاہ روم کے مذہب پرتھے وہاں کے کاغذ پر جو ضرب یعنی (ٹریڈمارک) ہوتا
تھا،اس میں بزبان روم(ابن،روح القدس لکھاہواتھا، فلم
یزل ذلک کذالک فی صدرالاسلام کلہ بمعنی علوما کان علیہ،الخ)وغیرہ۔ اوریہی چیز اسلام میں جتنے دور گذرے تھے
سب میں رائج تھی یہاں تک کہ جب عبدالملک بن مروان کازمانہ آیا، تو چونکہ وہ بڑا
ذہین اورہوشیار تھا،لہذا اس نے ترجمہ کرا کے گورنر مصر کو لکھاکہ تم رومی ٹریڈمارک
کو موقوف و متروک کردو،یعنی کاغذ کپڑے وغیرہ جو اب تیارہوں ان میں یہ نشانات نہ
لگنے دو بلکہ ان پر یہ لکھوادو ”شہداللہ
ان لاالہ الاھو“ چنانچہ
اس حکم پر عمل درآمد کیاگیا جب اس نئے مارک کے کاغذوں کا جن پر کلمہ توحید ثبت
تھا، رواج پایا تو قیصرروم کوبے انتہا ناگوار گزرا اس نے تحفہ تحائف بھیج کر
عبدالملک بن مروان خلیفہ وقت کو لکھاکہ کاغذ وغیرہ پر جو”مارک“ پہلے تھا وہی
بدستورجاری کرو، عبدالملک نے ہدایا لینے سے انکار کردیا اور سفیر کو تحائف وہدایا
سمیت واپس بھیج دیا اور اس کے خط کاجواب تک نہ دیا قیصرروم نے تحائف کو دوگنا کرکے
پھر بھیجااور لکھاکہ تم نے میرے تحائف کو کم سمجھ کر واپس کردیا،اس لیے اب اضافہ
کرکے بھیج رہاہوں اسے قبول کرلو اور کاغذ سے نیا”مارک“ ہٹادو، عبدالملک نے پھر
ہدایا واپس کردیا اورمثل سابق کوئی جواب نہیں دیااس کے بعدقیصرروم نے تیسری مرتبہ
خط لکھااورتحائف وہدایابھیجے اورخط میں لکھاکہ تم نے میرے خطوط کے جوابات نہیں
دئیے ،اورنہ میری بات قبول کی اب میں قسم کھا کر کہتاہوں کہ اگرتم نے اب بھی رومی
ٹریڈمارک کوازسرنو رواج نہ دیا اور توحیدکے جملے کاغذ سے نہ ہٹائے تو میں تمہارے
رسول کو گالیاں،سکہ درہم ودینار پرنقش کراکے تمام ممالک اسلامیہ میں رائج کردوں گا
اورتم کچھ نہ کرسکو گے ۔دیکھو اب جو میں نے تم کولکھاہے اسے پڑھ کر ارفص جبینک
عرقا،اپنی پیشانی کاپسینہ پوچھ ڈالواور جومیں کہتاہوں اس پرعمل کرو تاکہ ہمارے
اورتمہارے درمیان جورشتہ محبت قائم ہے بدستورباقی رہے۔
عبدالملک ابن مروان نے جس وقت اس خط کوپڑھا اس کے پاؤں تلے سے زمین نکل گئی
،ہاتھ کے طوطے اڑگئے اورنظروں میں دنیاتاریک ہوگئی اس نے کمال اضطراب میں علماء
فضلاء اہل الرائے اورسیاست دانوں کوفورا جمع کرکے ان سے مشورہ طلب کیا اورکہاکہ
کوئی ایسی بات سوچو کہ سانپ بھی مرجائے اورلاٹھی بھی نہ ٹوٹے یا سراسر اسلام
کامیاب ہوجائے، سب نے سرجوڑکر بہت دیرتک غورکیا لیکن کوئی ایسی رائے نہ دے سکے جس
پرعمل کیاجاسکتا”فلم یجد
عنداحدمنھم رایایعمل بہ“ جب بادشاہ ان کی کسی رائے سے مطمئن نہ ہوسکا تواور زیادہ پریشان ہوا
اوردل میں کہنے لگا میرے پالنے والے اب کیا کروں ابھی وہ اسی تردد میں بیٹھا تھاکہ
اس کا وزیراعظم” روح ابن
زنباع“ بول
اٹھا،بادشاہ تو یقیناجانتاہے کہ اس اہم موقع پراسلام کی مشکل کشائی کون کرسکتاہے
،لیکن عمدا اس کی طرف رخ نہیں کرتا،بادشاہ نے کہا”ویحک من“ خداتجھے سمجھے،توبتاتوسہی وہ کون ہے؟
وزیراعظم نے عرض کی ”علیک بالباقرمن اھل بیت النبی“ میں فرزند رسول امام محمدباقررضی اللہ عنہ کی
طرف اشارہ کررہاہوں اور وہی اس آڑے وقت میں تیرے کام آسکتے ہیں ،عبدالملک بن مروان
نے جونہی آپ کانام سنا قال
صدقت کہنے
لگا خداکی قسم تم نے سچ کہا اورصحیح رہبری کی ہے۔
اس کے بعداسی وقت فورااپنے عامل مدینہ کولکھا کہ اس وقت اسلام پرایک سخت
مصیبت آگئی ہے اوراس کادفع ہوناامام محمدباقرکے بغیرناممکن ہے،لہذا جس طرح ہوسکے
انھیں راضی کرکے میرے پاس بھیجدو،دیکھواس سلسلہ میں جو مصارف ہوں گے،وہ بذمہ حکومت
ہوں گے۔عبدالملک نے درخواست طلب کی، مدینہ ارسال کرنے کے بعدشاہ روم کے سفیرکو نظر
بندکردیا،اورحکم دیاکہ جب تک میں اس مسئلہ کوحل نہ کرسکوں اسے پایہ تخت سے جانے نہ
دیاجائے۔
حضرت امام محمدباقررضی اللہ عنہ کی
خدمت میں عبدالملک بن مروان کاپیغام پہنچااورآپ فوراعازم سفرہوگئے اوراہل مدینہ سے
فرمایاکہ چونکہ اسلام کاکام ہے لہذا میں تمام اپنے کاموں پراس سفرکو ترجیح دیتاہوں
الغرض آپ وہاں سے روانہ ہوکرعبدالملک کے پاس جاپہنچے، بادشاہ چونکہ سخت پریشان
تھا،اس لیے اسے نے آپ کے استقبال کے فورا بعدعرض مدعاکردیا،امام رضی اللہ عنہ نے
مسکراتے ہوئے فرمایا”لایعظم ھذاعلیک
فانہ لیس بشئی“ اے
بادشاہ سن، مجھے بعلم امامت معلوم ہے کہ خدائے قادر وتوانا قیصرروم کواس فعل قبیح
پر قدرت ہی نہ دے گا اور پھرایسی صورت میں جب کہ اس نے تیرے ہاتھوں میں اس سے عہدہ
برآہونے کی طاقت دے رکھی ہے بادشاہ نے عرض کی یاابن رسول اللہ ! وہ کونسی طاقت ہے
جومجھے نصیب ہے اورجس کے ذریعہ سے میں کامیابی حاصل کرسکتاہوں۔
تو امام باقر رضی اللہ عنہ نے فرمایا تم اس وقت کاریگروں کو بلاؤ اور اس سے
درہم و دینار کے سکے ڈھلوا اور بنوا کر تمام ممالک اسلامیہ میں رائج کردو۔ عبدالملک
نے عرض کیا کہ ان کی شکل و صورت کیا ہوگی اور کس طرح دھلیں گے؟
امام باقر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ سکہ کے ایک طرف کلمہ توحید اور دوسری طرف
رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا نام نامی اور سکہ جس شہر میں بنا اس کا نام اور
سکے بنانے کا سن لکھا جائے نیز امام باقر نے اس کے اوزان بیان فرمائے کہ اس وقت درہم
کے تین سکے جاری ہیں۔ ایک بغلیہ جو دس مثال کے ہوتی ہیں اور دوسرے سمری خفاف جو مثقال
کےدس ہوتے ہیں اور تیسرے پانچ مثقال کے دس ہوتے ہیں، یہ کل 21 مثقال ہوئے اور 21 کو
تین پر تقسیم کرنے سے حاصل سات ہوئے، اسی سات مثقال کےدس درہم بنوائے جائیں اور
اسی سات مثقال کی قیمت سونے کا دینار بنوایا جائے(جس کا خوردودس درہم ہو) سکہ درہم
کا نقش چونکہ فارسی میں ہے اسے فارسی میں رہنے دیا جائے اور دینار کا سکہ رومی
حرفوں میں ہے لہذا اسے رومی میں رہنے دیا جائے۔ڈھالنے کی مشین (سانچہ) شیشے کا ہونا
چاہیے تاکہ سب ہم وزن ہو سکیں۔
عبد المالک نے آپ کے حکم کے مطابق تمام سکے ڈھلوالئے اور سب کام درست کرلیا،
اس کے بعد امام باقر کی خدمت میں عرض کیا اب کیا کروں، آپ نے حکم دیا کہ ان سکوں کو
تمام اسلامی ملکوں میں رائج کردیا جائے اور لوگوں کو حکم دیا جائے وہ ان سکوں کے
ساتھ کاروبار کرے اور جو ان کو چھوڑ کر کسی دوسرے سکے کے ساتھ کاروبار کرے اس کو قتل
کی دھمکی دی جائے اور رومی سکے کے خلاف قانون قرار دئے جائیں۔
عبدالملک نے امام باقر کے فرمان پر عمل کرنے کے بعد سفیر روم کو اجازت دی کہ
وہ اپنے بادشاہ کے پاس چلا جائے اور بادشاہ سے کہے ہم نے اپنے تمام ممالک اسلامیہ
میں اپنے سکے رائج اور جاری کر دیے ہیں اور تمہارے تمام سکوں کو غیر قانونی قرار
دے دیا ہے۔ اب تم سے جوہوسکتا ہے وہ کر لو۔ سفیر جب اپنے بادشاہ کے پاس پہنچا اور اسے
سارا واقعہ سنایا تو وہ حیران ہوا۔ رومی لوگوں نے شاہ روم کو کہا کہ تم کو وہ سکہ
جاری کرنا چاہیے جس پر مسلمانوں کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں ہوں تو بادشاہ
نے کہا کہ جب مسلمانوں نے اپنا سکہ جاری کر لیا ہے اور ہمارا سکہ وہاں غیر قانونی
قرار دے دیا گیا ہے تو ہمارا ان سے لین دین ہی نہ رہا تو اب گالیوں والا سکہ
بنانےکا کیا فائدہ ہے۔ (حیاۃ
الحیوان الکبریٰ 1/63)
امام
باقر رضی اللہ عنہ کی وصال :
حضرت سیدنا امام باقر رضی اللہ عنہ کی وفات میں اختلاف ہے آپ کا انتقال
حمیمہ (یہ ملک شام میں دمشق کے قریب ایک بستی تھی جس میں بنوامیہ کے زمانہ میں
حضرت علی بن عبداللہ بن عباس کی اولاد رہا کرتی تھی) کے مقام پر ہوا تھا اوربعض نے
لکھا ہے کہ آپ اگرچہ اپنے علمی فیوض و برکات کی وجہ اسلام کو برابر فروغ دے رہے
تھے لیکن اس کے باوجود ہشام بن عبدالملک نے ابراہیم بن ولید حاکم مدینہ منورہ کے ذریعے
امام باقر رضی اللہ عنہ کو زہر دیا جس سے آپ شہید ہوئے ۔ ( اسعاف الراغبین صفحہ 229، نورالابصار 2/61،صواعق محرقہ صفحہ668 تاریخ
یعقوبی، 2/289، مروج الذہب 3/ 219،بارہ امام /مفتی غلام رسول نقشبندی علیہ الرحمہ
صفحہ397)
آپ رضی اللہ عنہ کا انتقال شریف7ذوالحجۃ الحرام114یا 117ہجری کو ہوا۔(جامع کرامات الاولیا،1/164) آپ رضی اللہ عنہ کو جنت البقیع میں اپنے والد کے چچاامام حسن مجتبیٰ رضی اللہ عنہ اور والد امام زین العابدین رضی اللہ عنہ کے پہلو میں سپرد خاک کئے گئے۔ (وفیات الاعیان 4/174، اعلام الوری 259، تذکرة الخواص 306 ، روضۃ الشہداء 434)آپ کی وصیت کے مطابق آپ کو آپ کےنماز والےلباس میں کفن دیا گیا۔
No comments:
Post a Comment