حضرت علامہ عبد الخالق غجدوانی علیہ الرحمہ


 


آپ علیہ الرحمہ سلسلہ نقشبندیہ کے گروہ سلسلہ خواجگان کے عظیم صوفی بزرگ ہیں انھیں خواجہ ہردوجہاں بھی کہا جاتا ہے۔

ولادت باسعادت:

آپ علیہ الرحمہ  کی پیدائش بخارا کے ایک بڑے شہر غجدوان میں ہوئی۔ آپ کی ولادت 22؍شعبان 435ھ/ 1044ء کو غجدوان میں ہوئی۔آپ کے والد کا نام خواجہ عبد الجلیل یا خواجہ عبد الجمیل تھا جن کا وصال آپ کی پیدائش سے چند ماہ پہلے ہو گیا لہذا آپ علیہ الرحمہ  کی پرورش کا سارا اہتمام آپ کی نیک سیرت والدہ نے کیا۔ آپ کی والدہ نے آپ کو مدرسہ میں قرآن پاک پڑھنے کے لیے مشہور زمانہ بزرگ اور مفسر قرآن استاد صدر الدین کے حوالے فرمایا۔ پیدائش سے پہلے بشارت دی گئی کہ تمھارے گھر ایک چراغ روشن ہونے والا ہے جو ایک عالم کو پرنور بنائے گا۔ اس کا شمار خدا کے محبوبین اور مقربین میں ہوگا، میں اسے اپنی فرزندی میں قبول کرتا ہوں۔ اس کا نام عبد الخالق رکھنا۔ یہ بشارت دینے والے خضر علیہ السلام تھے جو اللہ کے ایک کامل بندے کی دنیا میں آمد آمد کی خوشخبری آپ کے والدین کو دے رہے تھے اس لیے کہ بچے کی پرورش بھی اسی نہج پر ہو۔ 

بیعت و خلافت:

آپ علیہ الرحمہ  نے بیعت و خلافت خواجہ ابو یوسف ہمدانی سے حاصل کی اور بخارا میں ریاضت و مجاہدہ میں مشغول ہو گئے۔ آپ اپنی روش و حالات کو اغیار کی نظروں سے پوشیدہ رکھتے تھے۔ بہت سے لوگوں نے آپ کے دست حق پرست پر بیعت کی۔ آپ علیہ الرحمہ  جب لوگوں کو تلقین فرماتے تو جذبہ و وجد کی کیفیت طاری ہوجاتی اور ’ہو حق‘ کا غلغلہ بلند ہوجاتا۔ آپ پر راز الٰہی منکشف ہونے لگے تھے، آپ کی شہرت دور دور تک پھیل گئی تھی اور ایک دنیا تھی کہ آپ کی طرف امنڈتی چلی آتی تھی۔

تصانیف جلیلہ:

·       رباعیات

·       رسالہ طریقت

·       وصیت نامہ

·       رسالہ صاحبیہ

·       اصطلاحات

آپ علیہ الرحمہ  نے سالکانِ طریقت فقراء کرام کی اصلاح نفس اور قربِ خداوندی کے حصول کے لیے لوگوں کو چند اصطلاحات بتائیں اور نصیحت فرمائی کہ انھیں ہمیشہ یاد رکھو اور انھیں سمجھو اور خلوص دل سے ان پر کاربند ہو جاؤ تاکہ دین و دنیا کی سرخروئی حاصل ہو۔ لوگوں نے اصطلاحات سے متعلق جب آپ سے استفسار کیا تو آپ نے جواب دیا کہ:

1۔ ہوش در دم، 2۔ نظر بر قدم، 3۔ سفر در وطن، 4۔ خلوت در انجمن، 5۔ یاد کرد، 6۔ باز گشت، 7۔ نگاہ داشت، 8۔ یادداشت 9۔ وقوف عددی، 10۔ وقوف زمانی، 11۔ وقوف قلبی۔

سننے والوں کے ہوش جاتے رہے، زبانیں گنگ ہوگئیں اور شعور نے جواب دے دیا۔ کسی نے ڈرتے ڈرتے عرض کیا حضرت ہم ناقص العقل ہیں، ذرا ان کی وضاحت بھی فرمادیجئے۔ آپ نے فرمایا کہ اگر تم وضاحت چاہتے ہو تو سنو کہ

ہوش در دم ’ہوش در دم‘ سے مراد یہ ہے کہ انسان کا ہر سانس یاد اللہ کے لیے وقف ہو، کسی بھی سانس کو ضائع نہ ہونے دیا جائے۔ جس سانس میں خدا کی یاد نہ ہوئی وہ لمحہ غفلت میں گذرا۔ سانس کے اندر جاتے اور باہر آتے دونوں میں اس بات کا خیال رکھا جائے کہ غفلت کا لمحہ نہ ملنے پائے۔

نظر بر قدم ’نظر بر قدم‘ کا مطلب یہ ہے کہ سالک راہ چلنے میں نگاہ اپنے پاؤں کی پشت پر رکھے تاکہ بیجا نظر اِدھر اُدھر نہ پڑے اور دل محسوسات متفرقہ سے پراگندہ نہ ہو۔ کیونکہ یہ بات مانع حصول مقصود ہے۔ یا اس بات کا مطلب یہ ہے کہ سالک کا قدم باطن اس کی نظر باطن سے پیچھے نہ رہے۔

سفر در وطن ’سفر در وطن‘ کا اصل مطلب یہ ہے کہ سفر در نفس۔ انسان کو دنیاوی سفر کی بجائے اپنے اندر کا سفر اختیار کرنا چاہیے۔ دنیاوی سفر اسی قدر اختیار کرے کہ پیر کامل تک رسائی حاصل ہو جائے، دوسری حرکت جائز نہیں۔ اگر اپنے پیر کی قربت اور محبت میسر ہو جائے تو انسان کو سفر سے گریز کرنا چاہیے۔

خلوت در انجمن ’خلوت در انجمن‘ سے مراد یہ ہے کہ انجمن جو تفرقہ کی جگہ ہے اس سے تعلق رکھنے کے باوجود ازراہ باطن حق تعالیٰ کے ساتھ خلوت رکھے اور غفلت کو دل میں راہ نہ دے۔ یعنی بازار سے گذرتے ہوئے ذکر میں اس قدر مشغول ہو کہ بازار کے شور و غل کو نہ سن سکے۔ شروع میں یہ معاملہ بتکلف ہوتا ہے اور آخر میں بے تکلف۔

یاد کرد ’یاد کرد‘ کا مطلب یہ ہے کہ ہر وقت ذکر میں مشغول رہے، ذکر خواہ زبانی ہو یا قلبی۔

باز گشت ’باز گشت‘ سے یہ مراد ہے کہ جب ذاکر کلمۂ توحید کا دل سے ذکر کرے تو ہر بار حکم توحید کے بعد اپنے دل کی زبان سے یہ کہے کہ خدایا میرا مقصود تو اور تیری رضا ہی ہے۔

نگاہ داشت ’نگاہ داشت‘ کا مطلب یہ ہے کہ قلب کو خطرات و حدیثِ نفس سے نگاہ رکھے، یعنی کلمہ طیبہ کی تکرار کرتے وقت دل کو تمام وسوسوں سے دور رکھے۔ اور بہتر یہ ہے کہ کلمہ طیبہ کا ورد حبس دم کے ساتھ ہو۔

یاد داشت ’یاد داشت‘ سے مراد یہ ہے کہ دوام آگہی بحق سبحانہ (یعنی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اللہ رب العزت کا ذکر قلب و روح میں سرایت کرجائے) اور یہ دوام آگہی اس حد تک غالب ہو کہ سالک کو اپنے وجود کا بھی شعور نہ رہے (اور جب اس بے شعوری کا بھی شعور نہ رہے تو یہ فنائے فناء کہلاتا ہے اور یہی یاد داشت ہے)۔ ایک خادم نے ادب سے اٹھ کر عرض کیا حضرت نگہداشت اور یادداشت میں کیا فرق ہے۔ فرمایا نگہداشت میں طالب اپنی کوشش سے رب کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور یادداشت میں بلا کوشش خود بخود قلب خدا کی طرف متوجہ و مشغول ہوجاتا ہے۔

وقوف عددی ’وقوف عددی‘۔ اس سے مراد ذکر نفی اثبات میں عدد ذکر سے واقف رہنا ہے، یعنی ذاکر اس ذکر میں سانس کو طاق عدد پر چھوڑے نہ کہ جفت پر، جیسے 3، 5، 7، 11، 13۔ کیونکہ ارشاد ہے ”اللہ وتر یحب الوترخدا ایک ہے اور اکیلے کو دوست رکھتا ہے۔

وقوف زمانی ’وقوف زمانی‘ سے مراد ہے کہ واقف نفس رہے، پاس انفاس کو ملحوظ رکھے یعنی محاسبہ رکھے کہ سانس حضور میں گذرتا ہے یا غفلت میں۔ بصورت اطاعت شکر بجا لائے اور بصورت غفلت و معصیت میں عذر خواہی کرے اور استغفار کرے۔ یہ محاسبہ کہلاتا ہے۔

وقوف قلبی ’وقوف قلبی‘ سے مراد یہ ہے کہ سالک ہر آن ہر لحظہ اپنے قلب کی طرف متوجہ رہے اور قلب خدا کی طرف متوجہ رہے تاکہ سب طرف کی توجہ ٹوٹ کر معبود حقیقی کی طرف توجہ رہ جائے اور خطرات اور وسوسے قلب میں داخل نہ ہوں، خصوصًا ذکر کے وقت اس کا پورا پورا خیال رکھے۔ وقوف قلبی خواجہ عبد الخالق کے نزدیک بہت ضروری اور رکن عظیم ہے اور دارومدار طریقہ نقشبندیہ کا اسی پر ہے۔

آپ علیہ الرحمہ  کی اس تشریح و تقریر کا لوگوں پر زبردست اثر ہوا اور لوگوں کو آپ کی قدر و منزلت کا اندازہ ہوا۔ جو لوگ آپ کو ایک عام انسان کی نظر سے دیکھتے تھے ان کے دلوں میں آپ کی ہیبت اور رعب بیٹھ گیا اور مریدین کے دلوں میں آپ کی عزت و تکریم میں زیادہ اضافہ ہوا۔

وصال مبارک:

ایک مرتبہ آپ علیہ الرحمہ  نہایت علیل ہو گئے، اصحاب و مریدین چاروں طرف جمع تھے۔ یکدم آپ نے چشم مبارک وا فرمائی اور ارشاد فرمایا لوگو تمھیں مبارک ہو کہ حق سبحانہ و تعالیٰ نے مجھے اپنی رضامندی کی خوشخبری دی ہے۔ یہ سننا تھا کہ لوگوں کی آنکھوں سے آنسو رواں ہوئے، اس لیے کہ لوگوں کو یقین تھا کہ اب یہ ماہتاب کامل روپوش ہوا چاہتا ہے۔ آپ نے لوگوں کی جذباتی حالت کو ملاحظہ فرمایا کہ لوگ بار بار دعا کی خواہش کر رہے ہیں تو آپ نے ارشاد فرمایا دوستو تم کو مبارک ہو کہ حق تعالیٰ سبحانہ نے مجھے یہ خوشخبری دی ہے، اس طریقہ کو جو لوگ اختیار کریں گے اور آخر تک اس پر قائم رہیں گے میں ان سب کو بخش دوں گا اور سب پر اپنی رحمت نازل فرماؤں گا۔ پس بہت زیادہ کوشش کرو۔ یہ سننا تھا کہ لوگوں پر جوش و جذبہ اور گریہ کی کیفیت طاری ہو گئی۔ تھوڑی دیر کے بعد آواز آئی کہ اے نفس مطمئنہ اپنے رب کی طرف آ کہ تو اس سے راضی اور وہ تجھ سے راضی ہو“۔

یہ سن کر احباب و اصحاب نے دیکھا کہ آپ علیہ الرحمہ  واصل باللہ ہو چکے ہیں۔ ۱۲ ربیع الاول ۵۷۵ ہجری بخارا کے قریب غجدوان میں انتقال فرمایا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔

 

 

 

No comments:

Post a Comment