آپ علیہ
الرحمہ کی ولادت 407ہجری 1043ء میں طوس کے نواحی گاؤں فارمد میں ہوئی جس کی نسبت سے فارمدی کہا جاتا
ہے۔
نام و کنیت:
اسم گرامی
فضل بن محمد بن علی اور کنیت ابو علی اور فارمد کی طرف منسوب ہے جو طوس موجودہ ایران کے دیہات میں سے ایک گاؤں ہے۔ علم کا حصول فقہ کے امام ابو حامد
غزالی سے ہوا اور ابو عبد اللہ بن باکو شیرازی ابو منصور تمیمی، ابو عبد
الرحمن نیلی اور ابو عثمان صابونی سے حدیث کا سماع کیا۔
مقام و مرتبہ:
خراسان کے شیخ الشیوخ ہیں ا پنے وقت کے یکتا تھے۔ اوراپنی طریقت میں خاص تھے
وعظ و نصیحت میں ابو القاسم کے شاگرد تھے۔ ان کی نسبت تصوف میں دوطرف کی ہے۔ ایک
تو شیخ بزرگوار ابو القاسم گرگانی(جرجانی) علیہ الرحمہ کی طرف دوسری شیخ بزرگوار ابو الحسن خرقانی
علیہ الرحمہ کی طرف جو مشائخ کے پیشوا اور وقت کے قطب ہیں۔ طریقہ نقشبندیہ میں
خواجہ ابو القاسم گرگانی علیہ الرحمہ سے
بیعت ہوئے لیکن اویسی طور پر ابو الحسن خرقانی سے فیض یاب ہوئے۔ آپ کے صاحب کمال
ہونے کے لیے یہ دلیل کافی ہے کہ حجۃ الاسلام امام محمد غزالی آپ کے مرید اور تربیت یافتہ تھے۔
حصول علم
باطن:
آپ علیہ
الرحمہ فرماتے ہیں کہ میں شروع جوانی میں
نیشا پور میں طلب علم میں لگا تھا میں نے سنا کہ شیخ سعید ابوالخیر منہ سے آئے ہیں
اور وعظ کہتے ہیں میں گیا تاکہ ان کو دیکھوں جب میری آنکھ ان کے جمال پر پڑی تو
میں ان پر عاشق ہو گیااور صوفیہ کی محبت میرے دل میں بڑھ گئی۔ ایک مرتبہ شیخ کی
زیارت کی آرزو ہوئی لیکن وہ زیارت کا وقت نہ تھا ایسے ہی باہر نکلا تو شیخ کو کثیر
انبوہ میں دیکھا شیخ نے مجھے نہ دیکھا تھا میں چپکے سے پیچھے چل پڑا جب وہ سماع
میں پہنچے میں بھی چھپ کر بیٹھ گیا۔ جب شیخ پر وجد کی حالت طاری ہوئی کپڑے پھاڑ
دئے قمیص کا اگلا حصہ چاقو سے پھاڑا اور آواز دی اے ابو علی طوسی کہاں ہو میں
سمجھا کسی اور کو بلا رہے ہیں تین دفعہ بلانے پر میں نہ گیا تولوگ کہنے لگے تمھیں
بلاتے ہیں میں گیا تو شیخ نے وہ قمیص اور چاقو مجھے عنایت کیے اور فرمایا تم ہمیں
اس قمیص اور چاقو کی طرح ہومیں نے انھیں بڑی عزت سے رکھ لیا۔
استاد کی
خدمت:
دوران میں
طالب علمی ابو القاسم قشیری علیہ الرحمہ کی خدمت میں رہے جو حال مجھ پر ظاہر ہوتا انھیں عرض کرتا فرماتے علم
سیکھو لیکن ہر روز روشنائی بڑھنے لگی ایک دن قلم کو دیکھا وہ سفید ہوگیااستاد سے
عرض کی تو فرمایا جب علم نے تجھ سے علیحدگی کر لی تم بھی علاحدہ ہو جاؤریاضت میں
مشغول ہو جاؤ میں خانقاہ میں استاد امام ابو القاسم کی خدمت میں مشغول ہو گیا ایک
دن استاد حمام گئے میں نے پانی کے ڈول ان پر گرائے جب استاد ابو القاسم نماز سے
فارغ ہوئے پوچھا یہ پانی کس نے گرایا تھا میں سمجھا شاید یہ بیوقوفی کی ہے خاموش
رہا تیسری مرتبہ عرض کیا میں تھا تو استاد نے فرمایا اے بو علی جو کچھ ابو القاسم علیہ
الرحمہ نے ستر سال میں پایا تم نے ایک ہی
ڈول میں پا لیا۔ بوعلی فارمدی بڑے پر اثر خطیب اور شیریں گو واعظ تھے۔طائفہ نقشبندیہ
کے ایک بزرگ فرماتے ہیں کہ شیخ بو علی کو خطرات قلب پر واقفیت دی گئی مگر اس کے
اظہار کی اجازت نہ تھی۔
مبارک
ارشادات:
خواجہ ابو علی
فارمدی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ ؛ ” پیر
و مرشد کی خدمت میں حاضری دینے سے نورِ معرفت کی روشنی ملتی ہے بشرط یہ کہ خلوصِ
دل سے ہو۔
میں (ابو علی
فارمدی) اوائل عمری میں نیشا پور میں تعلیم حاصل کر رہا تھا تو کسی نے بتایا کہ
شیخ ابوسعید ابی الخیر تشریف لائے ہوئے ہیں اور وعظ فرما رہے ہیں ۔ میں شوقِ زیارت
سے بے تاب ہو کر ان کی خدمت میں حاضر ہوا۔ ان کے مقدس اور نورانی چہرے پر پہلی نظر
پڑتے ہی میں دل و جان سے شیدا ہو گیا اور حضرات صوفیہ کرام کی محبت میرے دل میں
پہلے سے بھی زیادہ ہو گئی۔ خواجہ ابو علی فارمدی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ ” آدمی کبھی خیالات کی قید سے
رہائی حاصل نہیں کر سکتا۔ اس کے لیے بندگی کرنا لازمی ہے۔
وصال مبارک:
آپ علیہ
الرحمہ کا وصال مؤرخہ ۴ ربیع الاول ۵۱۱
ہجری یا ۴۷۷ ہجری میں ایران کے مشہور شہر طوس جسے آجکل مشہد کہا جاتا ہے، میں ہوا۔
انا للہ وانا الیہ راجعون۔ آپ کا مزار طوس یعنی مشہد میں زیارت گاہ خاص و عام ہے۔(مراجع
و مصادر: تذکرہ مشائخ نقشبندیہ، محمد نور بخش توکلی/نفحات الانس، عبد الرحمن جامی
/مرآۃ الاسرار ، عبدالرحمن چشتی /ملفوظاتِ نقشبندیہ)
No comments:
Post a Comment