سید الطائفہ حضرت جنید بغدادی علیہ الرحمہ


اسم گرامی:

جنید۔

کنیت:

ابوالقاسم۔

القاب:

شیخ الاسلام والمسلمین، سلطان الاولیاء والمتقین ۔آپ علیہ الرحمہ  اہل سنت وجماعت کےعلماء و اولیاء کے امام ہیں۔ آپ کو گروہِ صوفیاء میں ’’سید الطائفہ‘‘ اور علماء میں ’’طاؤس العلماء‘‘ کے لقب سے پکارا جاتا ہے۔

سلسلۂ نسب:

حضرت جنید بغدادی بن شیخ محمد بن جنید علیہم الرحمہ۔ )نفحاتِ منبریۃ فی الشخصیات الاسلامیہ ص52(

تیسری صدی ہجری جو تصوف کی تدوین کی صدی ہے، اس پوری صدی کو حضرت جنیدی بغدادی علیہ الرحمہ  کی صدی قرار دیاجائے تو مبالغہ نہ ہوگا۔ تیسری صدی ہجری میں علماء و فقہا ،اُدبا و شعراء ، صوفیہ و عرفاء ،اولیاء کا مرجع حضرت جنید بغدادی علیہ الرحمہ  کی ذاتِ گرامی ہی تھی ۔ آپ کی حیات اس پوری صدی کو محیط اور ذاتِ بابرکت اہل صدی پر حاوی ہے،اس صدی کے اوائل میں ولادتِ باسعادت، اوراواخر میں وصال باکمال ہوا ۔

آپ علیہ الرحمہ  کے والد شیشہ اور کپڑےکی تجارت کیا کرتے تھے۔ وطنِ اصلی ’’نہاوند‘‘ ایران تھا۔ پھر بغداد کی طرف ہجرت فرمائی اور مستقل سکونت اختیار کرلی۔ (شریف التواریخ،ج1،ص522)

تاریخِ ولادت:

 آپ علیہ الرحمہ  کی ولادت باسعادت غالباً 216ھ یا 218ہجری  کو بغداد میں ہوئی۔

تحصیلِ علم:

 آپ  علیہ الرحمہ ابتدا سے ہی نہایت ذہین و فطین تھے۔ بہت قلیل عرصے میں ہی آپ نےتمام علوم ِعقلیہ و نقلیہ پر مہارتِ تامہ حاصل کرلی تھی۔ اکثر اپنے ماموں حضرت شیخ سری سقطی علیہ الرحمہ  کی خدمت میں حاضر ہوتے، اور فیض ِصحبت سے مستفیض ہوا کرتے، اور فقہ مشہور شافعی فقیہ شیخ ابو ثور ابراہیم بن خالد الکلبی(تلمیذ حضرت امام شافعی علیہ الرحمہ  )سے حاصل کی جو بغداد کے اجلہ فقہاء و مشاہیر علماء سے تھے۔ ان سے فقہ شافعی میں کمال حاصل کیا، اور ان کی زیر نگرانی فتویٰ جاری کیا۔ اس وقت آپ علیہ الرحمہ  کی عمر بیس سال تھی۔جوانی میں ہی آپ علیہ الرحمہ  کے علم کا چرچا عام ہوگیا تھا۔ حضرت سری سقطی علیہ الرحمہ  ، شیخ ابو ثور ابراہیم علیہ الرحمہ  ، شیخ حارث محاسبی علیہ الرحمہ  ، محمد بن ابراہیم بغدادی علیہ الرحمہ  ، ابو جعفر محمد بن علی قصاب علیہ الرحمہ  ، بشر بن حارث علیہ الرحمہ  ، کے علاوہ آپ علیہ الرحمہ  نے ایک سو بیس سے زائد علماء و شیوخ سے علمی و روحانی استفادہ فرمایا۔ نیز شیخ ابوبکر کسائی علیہ الرحمہ  اور آپ کے درمیان ہزار مسئلوں کا مراسلہ(خط و کتابت) ہوا تھا آپ علیہ الرحمہ  نے سب کے جواب لکھے، امام کسائی نے اپنے انتقال کے وقت فرمایا کہ ان مسئلوں کو میرے ساتھ قبر میں رکھ دینا، میں ان کو ایسا دوست رکھتا ہوں کہ چاہتا ہوں کہ یہ مسئلے مخلوق کے ہاتھ سے چھوئے بھی نہ جائیں۔(شریف التواریخ،ج1،ص530)

آپ علیہ الرحمہ قرآن وحدیث، تفسیر و فقہ اور عربی ادب میں مہارت تامہ رکھتےتھے۔بیس سال کی عمر میں فتویٰ نویسی شروع کردی تھی۔ آپ کا شمار بغداد کےاجلہ علماء میں ہوتا تھا۔ آپ ہمیشہ روزہ رکھتے تھے۔ تیس برس تک آپ کا معمول رہا کہ نماز عشاء پڑھ کر ایک پاؤں پر کھڑے ہوتے اور صبح تک ذکر اللہ کرتے، اور اسی وضو سے نمازِ فجر ادا فرماتے۔ آپ علیہ الرحمہ ابتدائی حالت سے لے کر دور آخر تک تمام جماعتوں کے محمود و مقبول تھےاور تمام لوگ آپ علیہ الرحمہ کی امامت پر متفق تھے۔ آپ علیہ الرحمہ کا سخن طریقت میں حجت ہےاور تمام زمانوں نے آپ کی تعریف رہی ہے، اور کوئی شخص بھی آپ کے ظاہر وباطن پر انگشت نمائی نہ کرسکا، سوائے اس شخص کے جو بالکل اندھا تھا۔ خواص نے آپ کو ’’لِسان القوم‘‘ کہا ہے اور آپ علیہ الرحمہ نے خود کو ’’عبدالمشائخ‘‘ لکھا ہے۔ طبقۂ علماء نے’’ طاؤس العلماء اور ’’سلطان المحققین‘‘ جانا ہے۔ اس لیے کہ آپ علیہ الرحمہ شریعت و طریقت میں انتہاء کو پہنچ چکے تھے۔ آپ علیہ الرحمہ عشق و زہد میں بے مثل اور طریقت میں مجتہد عصر تھے۔ بہت سے مشائخ آپ کے مذہب پر ہوئے۔ سب سے زیادہ معروف طریقہ طریقت میں اور مشہور تر مذہب مذاہب میں آپ ہی کا ہے۔ آب اپنے وقت میں تمام مشائخ کا مرجع تھے، آپ علیہ الرحمہ کی تصانیف بہت ہیں جو تمام ارشادات و معارف میں لکھی ہیں۔ باوجود ان عظیم خوبیوں کے دشمنوں اور آپ کے حاسدوں نے آپ کو زندیق کہا ہے۔

حضرت سری سقطی رحمۃ اللّٰہ علیہ سے لوگوں نے پوچھا کہ کسی مرید کا پیر سے بلند درجہ ہوا ہے؟

 تو حضرت نے فرمایا کہ ہاں! ایسا ہوتا ہے اور اس کی دلیل ظاہر ہے کہ جنید بغدادی مجھ سے بلند درجہ رکھتے ہیں۔

حضرت جنید بغدادی  علیہ الرحمہ فرماتے ہیں: "میرے پیر حضرت سری سقطی  علیہ الرحمہ نے مجھے دعا دی کہ ا ﷲتعالیٰ تمہیں حدیث دان بنا کر پھر صوفی بنائے اور حدیث داں ہونے سے پہلے تمہیں صوفی نہ کرے‘‘۔ اسی طرح فرماتے ہیں: جس نے نہ قرآن یاد کیا نہ حدیث لکھی یعنی جو علم شریعت سے آگاہ نہیں طریقت میں اس کی اقتداء نہ کریں اور اسے اپنا پیر نہ بنائیں کیونکہ ہمارا یہ علمِ طریقت بالکل کتاب و سنت کا پابند ہے‘‘۔نیز فرمایا:خلق پر تمام راستے بند ہیں مگر وہ جو رسول اﷲﷺکے نشانِ قدم (سنت) کی پیروی کرے‘‘۔(نفحاتِ منبریۃ فی الشخصیات الاسلامیہ ص53)

عادات و صفات:

حضرت جنید بغدادی علیہ الرحمہ سلوک کے اس عظیم منزل پر فائز ہونے کے ساتھ اخلاقِ حسنہ والی صفت سے مزیّن تھے اور اپنے سے کم درجہ کے لوگوں کے ساتھ بھی آپ خندہ پیشانی سے پیش آتے تھے۔ آپ علیہ الرحمہ ہمیشہ روزہ رکھا کرتے تھے، مگر جب کبھی آپ علیہ الرحمہ کے برادران طریقت آجاتے تو روزہ افطار کردیتے اور فرماتے کہ اسلامی بھائیوں کی خاطر و مدارات نفل روزوں سے افضل ہے۔غریبوں یتیموں مسکینوں اور بیواؤں کا سہارا بنتے، امیروں پر فقیروں اور غریبوں کو ترجیح دیتے تھے۔ کبھی کسی امیر و وزیر کی تعظیم نہیں کی۔آپ عالمانہ لباس زیب تن فرماتے تھے، ایک بار لوگوں نے عرض کیایا شیخ! کیا خوب ہو کہ آپ مُرقع (گدڑی) پہنیں۔  فرمایا اگر میں جانتا ہوتا کہ مرقع پر تصوف و معرفت منحصر ہے تو میں لوہے و آگ سے لباس بناتا اور پہنتا، لیکن ہر گھڑی باطن میں یہ ندا آتی ہے ’’ لیس الاعتبار بالخرقۃ انما الاعتبار بالحرقۃ ‘‘ یعنی معرفت میں خرقہ کا اعتبار نہیں بلکہ (محبتِ الہی میں) جان جلنے کا اعتبار ہے۔ (شریف التواریخ: جلد اول،ص528)

بیعت و خلافت:

 آپ علیہ الرحمہ  اپنے حقیقی ماموں حضرت شیخ سری سقطی  علیہ الرحمہ سے بیعت ہوئے اور خرقہ خلافت سے مشرف ہوئے۔

تجارت و عبادت:

آپ علیہ الرحمہ شیشے کی تجارت کرتے تھے اور اس وقت آپ کا معمول تھا کہ بلاناغہ اپنی دوکان پر تشریف لے جاتے اور سامنے پردے کو گرا کر چار سو رکعت نماز نفل ادا فرماتے یہاں تک کہ ایک مدت تک آپ علیہ الرحمہ نے اس عمل کو جاری رکھا۔ پھر آپ علیہ الرحمہ نے اپنی دوکان کو چھوڑ دیا اور اپنے شیخ طریقت کی بارگاہ میں حاضر ہوئے حضرت سری سقطی رحمۃ اللّٰہ علیہ کے مکان کی ایک کوٹھری میں خلوت گزیں ہو کر اپنے دل کی پاسبانی شروع کردی اور حالتِ مراقبہ میں آپ علیہ الرحمہ اپنے نیچے سے مُصلیٰ کو بھی نکال ڈالتے تاکہ آپ علیہ الرحمہ کے دل پر سوائے اللہ  اور اس کے رسول ﷺ کے خیال کے کوئی دوسرا خیال نہ آئے اور اس طرح آپ نے چالیس سال کا عرصہ گزارا۔ آپ خود فرماتے ہیں: کہ بیس برس تک تکبیر اولیٰ مجھ سے فوت نہیں ہوئی، اور نماز میں اگر دنیا کا خیال آجاتا تو میں اس نماز کو دوبارہ ادا کرتا اور اگر بہشت اور آخرت کا خیال آتا تو میں سجدہ سہو ادا کرتا۔ (تذکرہ مشائخِ قادریہ، 192)

مسندِ رشد و ہدایت:

 حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللّٰہ علیہ جب راہ ِسلوک میں کامل و اکمل ہوگئے اور آپ کی مقبولیت ہر چہار جانب پھیلنے لگی تو حضرت شیخ سِرّی سقطی رحمۃ اللّٰہ علیہ نے آپ کو حکم دیا جنید اب تم وعظ کہا کرو۔ آپ تردّد میں پڑگئے کہ شیخ الوقت کی موجودگی میں کس طرح تقریر کروں؟  کیونکہ یہ خلاف ادب ہے؟ اسی حالت میں رہے کہ ایک رات خواب میں نبی کریم ﷺ کی زیارت سے مشرف ہوئے تو سرکار دوعالمﷺ نے بھی آپ کو وعظ کہنے کے لیے ارشاد فرمایا۔ آپ علیہ الرحمہ جب صبح بیدار ہوئے تو اپنے شیخ طریقت سے خواب کو بیان کرنے کے لیے سوچا یہاں تک کہ آپ سری سقطی رحمۃ اللّٰہ علیہ کی بارگاہ میں پہنچے تو کیا دیکھتے ہیں کہ آپ علیہ الرحمہ کے شیخ پہلے ہی آپ کے انتظار میں دروازے پر کھڑے ہیں، جب آپ علیہ الرحمہ قریب ہوئے تو آپ سے ارشاد فرمایا: ’’لم تصدقناحتیٰ جاءک الامر من رسول اللہ‘‘ یعنی تم نے (بپاس ادب) ہماری بات نہ مانی؛ اب تو تمہیں رسول اللہﷺ نے حکم فرما دیا ہے۔(نفحاتِ منبریۃ، 54)

حضرت جنید بغدادی علیہ الرحمہ  ایک مرتبہ محفل میں بیٹھے ہوئے تھے تو کسی مرید نے دریافت کیا کہ انسان خود میں کیا اوصاف پیدا کرے کہ اسے اللہ کی بارگاہ میں قرب حاصل ہوجائے؟

آپ نے فرمایا، آٹھ اوصاف رکھنے والا شخص اللہ کی بارگاہ میں قرب حاصل کرسکتا ہے۔سخاوت، رضا، صبر، خاموشی،  غربت، سیاحت،گدڑی اور فقر۔یہ آٹھ اوصاف آٹھ برگزیدہ انبیاء میں سے ہیں۔

وضاحت:

سخاوت حضرت ابراہیم علیہ السلام  سے کہ آپ نے اپنے فرزند حضرت اسماعیل علیہ السلام  کو اللہ کی راہ میں قربان کرنے کے لیے پیش کیا۔

صبر حضرت ایوب علیہ السلام  کی طرف سے کہ آپ نے انتہائی مصائب پر صبر فرمایا اور اللہ کی جانب سے آزمائش پر ثابت قدم رہے۔

خاموشی حضرت زکریا علیہ السلام  سے کہ آپ نے تین دن تک لوگوں سے اشارے سے کلام کیا اور اپنے رب کو آہستہ پکارا۔

غربت حضرت یحییٰ علیہ السلام  سے کہ اپنے وطن میں مسافروں کی مانند رہے اورخاندان میں رہتے ہوئے اپنوں سے بیگانہ رہے۔

سیاحت حضرت عیسیٰ علیہ السلام  سے کہ آپ نے یکہ و تنہا زندگی گزاری،سوائے ایک پیالے اور کنگھی کے اپنے پاس کچھ نہیں رکھا۔جب آپ نے دیکھا کہ کسی نے اپنے دونوں ہاتھوں کو ملاکر پانی پیا تو آپ نے اپنا پیالہ توڑدیا،جب کسی نے انگلیوں سے بالوں کو کنگھی کی تو آپ نے کنگھی بھی توڑ دی۔

گدڑی حضرت موسیٰ  علیہ السلام  سے کہ آپ نے قیمتی لباس کے بجائے معمولی لباس پہنا۔

اور فقر سید عالم ﷺ سے ہے کہ جنہیں کائنات کے تمام خزانوں کی کنجیاں عطا کی گئیں اور ارشاد ہوا کہ آپ ﷺ خود کو مشقت میں نہ ڈالیے،بلکہ ان خزانوں کو استعمال کیجیے، لیکن آپ ﷺ نے عرض کیا کہ اے میرے رب،مجھے اس کی حاجت نہیں ،میری خواہش یہ ہے کہ ایک روز شکم سیر ہوں تو دو روز فاقے میں رہوں۔

حضرت جنید بغدادی علیہ الرحمہ  فرماتے ہیں کہ جس میں یہ آٹھ صفات ہوں ،سمجھ لو کہ وہ اللہ کی بارگاہ میں سرخ رو ہوا اور اللہ کا مقرب بندہ بن گیا۔

خلفاء و تلامذہ:

1.   حضرت سیدنا  شیخ ابوبکر شبلی علیہ الرحمہ

2.    حضرت سیدنا  شیخ ابو محمد الجریری علیہ الرحمہ

3.   حضرت سیدنا  شیخ ابن الاعرابی احمد بن محمد علیہ الرحمہ

4.    حضرت سیدنا  شیخ علی بن بندارابوالحسن الصیرفی علیہ الرحمہ

5.   حضرت سیدنا  شیخ عبد اللہ بن محمد الشعرانی علیہ الرحمہ

6.    حضرت سیدنا  شیخ محمد بن اسود دینوری علیہ الرحمہ

وصال پرملال :

 بروز جمعۃ المبارک 27 رجب المرجب 297ہجری  کو واصل بااللہ ہوئے۔ مزار مبارک مقامِ ’’شونیزیہ‘‘ بغدادِ معلیٰ میں مرجعِ خلائق ہے۔ (بشکریہ: کریم پاشاہ سہروردی قادری حفظہ اللہ )

1 comment:

  1. ماشاءاللہ سبحان اللہ

    ReplyDelete