ولادت باسعادت :
خطیبِ پاکستان،
واعظِ شیریں بیان حضرت مولانا حافظ محمد شفیع اوکاڑوی بن شیخ کرم الٰہی علیہ
الرحمہ کی ولادت 1348ھ/1929ء کو کھیم کرن، مشرقی پنجاب (ہند) میں ہوئی۔آپ علیہ
الرحمہ 1947 ء میں قیام پاکستان کے موقع پر ہجرت کرکے اوکاڑہ آئے۔
بیعت و
ارادت:
آپ نے شیخ
المشائخ حضرت پیر میاں غلام اللہ شرقپوری رحمۃ اللہ علیہ کے ہاتھ پر
بیعت کی اور ان کے فیوض وبرکات سے مستفیض ہوئے ۔
تعلیم
وتربیت:
شیخ الحدیث
والتفسیر حضرت مولانا غلام علی اشرفی اوکاڑوی رحمۃ اللہ علیہ اور غزالیٔ دوراں
حضرت علامہ سید احمد سعیدکاظمی شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے علوم دینیہ حاصل کئے
اور اسناد حاصل کیں ْ
مختلف خدمات
دینیہ:
برلا ہائی اسکول اوکاڑہ میں دینیات کے ٹیچر رہے۔
1955ء میں کراچی
تشریف لائے اور کراچی کی مرکزی میمن مسجد (بولٹن مارکیٹ) میں امامت و خطابت کے
فرائض سرانجام دئیے، میمن مسجد کی امامت و خطابت کے بعد تقریباً تین برس جامع مسجد
عیدگاہ میدان اور سَوا دو سال جامع مسجد آرام باغ اور بارہ برس نور مسجد نزد جوبلی
مارکٹ میں بلامعاوضہ خطابت کے فرائض انجام دیتے رہے اور نماز جمعہ پڑھاتے رہے۔ ان
تمام مساجد میں تفسیرِ قراٰن کا درس دیتے رہے اور مجموعی طور پر تقریباً نو پاروں
کی تفسیر بیان کی۔ تین ہزار سے زائد افراد نے آپ کے ہاتھوں اسلام قبول کیا۔
1964ء میں، پی
ای سی ایچ سوسائٹی کراچی میں مسجد غوثیہ ٹرسٹ سے ملحق ایک دینی درس گاہ دار العلوم
حنفیہ غوثیہ قائم کی۔
خطابت:
آپ مسلسل
40سال تک تقاریر فرماتے رہے ہیں۔ آپ کی علمی استعداد ،حُسنِ بیان، خوش الحانی اور
شانِ خطابت نہایت منفرد اور ہر دل عزیز تھی۔ ماہِ محرم کی شبِ عاشورہ میں آپ کا
خطاب امتیازی حیثیت کا حامل ہوتا تھا۔
راہِ خدا میں
سفر:
آپ نے
دینِ متین کی خدمت کے لئے شرقِ اوسط، خلیج کی ریاستوں، ہند، فلسطین، جنوبی افریقہ
اور ماریشس سمیت کئی ممالک کے سفر کئے۔
تصنیفی
خدمات:
آپ نے وعظ و
بیان کے ساتھ ساتھ تحریروتصنیف کے ذریعے بھی خدمت دین کی، آپ کی تصانیف میں ذکرِ
جمیل،ذکرِ حسین، راہِ حق،درسِ توحید،شامِ کربلا، امام پاک اور یزید پلید، برکاتِ
میلاد شریف، مسلمان خاتون، انوارِ رسالت سمیت کئی کتب شامل ہیں۔
سیرت و خصائص:
اللہ تعالیٰ نے
آپکو حسنِ سیرت و صورت کے ساتھ حسنِ گفتار کا بھی خاص ملکہ عطا فرمایا تھا۔ آپ
نے اپنی خدا داد صلاحیتوں کو خدمتِ اسلام کے لئے بروئے کار لاتے ہوئے لوگوں کے
دلوں کو نورِ ایمان و ایقان اور سرورِ عالمﷺ اور آپکے صحابہ و اہلِ بیت اور اولیاء
اللّٰه (علیہم الرحمۃ والرضوان) کے عشق و محبت سے بھر دیا۔تحریک ختمِ نبوت میں قید
و بند کی صعوبتیں برداشت کیں، اور تحریک نظامِ مصطفیٰﷺ میں بھر پور کردار ادا کیا۔
مخالفینِ مسلکِ اہلِ سنت نے بوکھلاہٹ کا شکار ہوکر آپ پر قاتلانہ حملہ بھی کیا، لیکن
آپ اپنے مشن سے ایک قدم بھی پیچھے نہ ہٹے۔ تادمِ زیست زبان قلم سے لادین، ملحدین ،بدعقیدہ
و بدمذاہب کے خلاف بھر پور جہاد کرتے رہے۔ گمراہوں کو راہِ حق دکھائی ،اور ایسے
دلوں میں شمع ِ ایمان روشن کی جو ظلمت کی گمراہ وادیوں میں ٹامک ٹوئیاں مار رہے
تھے،جو روشنی کی ایک ایک کرن کو ترس رہے تھے،وہی لوگ جو اسلام کے نام سے کانوں پر
ہاتھ دھر لیتے تھے وہی آذان کے لیئے ہاتھ اٹھانے لگے۔ آپ کی آواز صاف فصیح و
بلیغ، اورانداز منفر د ہوا کرتا تھا۔ جس موضوع پر بات کرتے عقلی و نقلی دلائل سے
عام سامع کو بات سمجھانے کا طریقہ بہت دلپزیر ہوا کرتا تھا ۔آپ نے چالیس سال کے
عرصہ میں تقریبا اٹھارہ ہزار سے زائد اجتماعات سے خطاب کیا ،جو کہ ایک عالمی
ریکارڈ ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کی کاوشوں کو اپنی بارگاہ میں شرفِ قبولیت عطاء
فرمائے۔ (آمین)
قاتلانہ حملہ:
16اکتوبر
1962ء میں کراچی کے علاقہ کھڈا مارکیٹ میں دَورانِ تقریر مخالفین نے آپ پر چُھریوں
اور چاقوؤں سے قاتلانہ حملہ کِیا جس کے سبب آپ شدید زخمی ہوئے اور کئی دن تک کراچی
کے سِوِل اسپتال میں زیرِ علاج رہے۔ لیکن آپ نے حملہ آوروں کو معاف کردیا۔
وصال پر ملال :
20 اپریل
1984ء کو آخری خطاب جامع مسجد گلزار حبیب میں نمازِ جمعہ کے اجتماع سے کیا۔ اسی شب
تیسری بار دل کا شدید دَورہ پڑا اور قومی ادارہ برائے امراضِ قلب کراچی میں داخل
ہوئے۔ تین دن بعدمنگل، 21 رجب المرجب 1404 ہجری مطابق 24 اپریل 1984ء کی صبح 55 برس کی عمر میں
اذانِ فجر کے بعد دُرود و سلام پڑھتے ہوئے خالقِ حقیقی سے جاملے ۔
25 اپریل کو
نشتر پارک، کراچی میں علامہ سید احمد سعید کاظمی شاہ صاحب رحمۃ اللہ
علیہ کی امامت میں ظہر کی نماز کے بعد کثیر افراد نے آپ کی نمازِ جنازہ ادا
کی۔ آپ کا مزارمبارک گلستانِ اوکاڑوی سولجر بازار کراچی میں واقع مسجد گلزارِ حبیب
سے متصل ہے۔ آپ کا عرس ہرسال 21رجب المرجب کو منعقد ہوتاہے۔(ماخوذ از: خطیب
پاکستان ، ص 9 تا 15)
No comments:
Post a Comment