تاج الشریعہ حضرت مفتی محمد اختررضاخاں قادری ازہری علیہ الرحمہ


 

ولادت باسعادت:

حضور تاج الشریعہ علیہ الرحمہ کی ولادت باسعادت 24ذیقعدہ 1362ھ /23 نومبر 1943ء بروز منگل ہندوستان کے شہر بریلی شریف کے محلہ سوداگران میں ہوئی۔

اسم گرامی:

آپ کااسم گرامی ’’محمداسماعیل رضا‘‘ جبکہ عرفیت ’’اختر رضا‘‘ہے۔ آپ ’’اخترؔ‘‘تخلص استعمال فرماتے ہیں۔آپ کے القابات میں تاج الشریعہ، جانشین مفتی اعظم،شیخ الاسلام و المسلمین زیادہ مشہور ہیں۔

شجرہ نسب:

اعلیٰ حضرت امام اہلسنّت تک آپ کا شجرہ نسب یوں ہے۔ تاج الشریعہ  حضرت مفتی محمد اختررضاخاں قادری ازہری بن مفسر اعظم ہند حضرت علامہ مفتی محمد ابرہیم رضا خاں قادری جیلانی بن حجۃ الاسلام حضرت علامہ مفتی محمدحامد رضا خاں قادری رضوی بن اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خاں قادری برکاتی بریلوی (رضی اللہ عنہم)

 آپ کے4 بھائی اور3بہنیں ہیں۔2بھائی آپ سے بڑے ہیں۔ ریحان ملت مولانا ریحان رضا خاں قادری اورتنویر رضا خاں قادری(آپ پچپن ہی سے جذب کی کیفیت میں غرق رہتے تھے بالآخر مفقود الخبرہوگئے)اور2 آپ سے چھوٹے ہیں۔ڈاکٹر قمر رضا خاں قادری اور مولانا منان رضا خاں قادری۔

تعلیم و تربیت:

جانشین مفتی اعظم حضور تاج الشریعہ علیہ الرحمہ کی عمر شریف جب سال ماہ اور دن ہوئی توآپ کے والد ماجد مفسر اعظم ہندحضرت ابراہیم رضا خاں جیلانی علیہ الرحمہ نے تقریب بسم اللہ خوانی منعقد کی۔اس تقریب سعید میں یاد گار اعلیٰ حضرت’’دار العلوم منظر الاسلام‘‘ کے تمام طلبہ کو دعوت دی گئی۔ رسم بسم اللہ نانا جان تاجدار اہلسنّت سرکار مفتی اعظم ہندمحمد مصطفیٰ رضاخاں نور ی علیہ الرحمہ نے ادا کرائی۔ حضور تاج الشریعہ علیہ الرحمہ نے ’’ناظرہ قرآن کریم‘‘اپنی والدہ ماجدہ شہزادی مفتی اعظم سے گھر پرہی ختم کیا۔والدماجد سے ابتدائی اردو کتب پڑھیں۔ اس کے بعد والد بزرگوار نے ’’دار العلوم منظرالاسلام‘‘ میں داخل کرا دیا۔ درس نظامی کی تکمیل آپ نے’’منظر الاسلام‘‘ سے کی۔ مروجہ دنیاوی تعلیم ’’اسلامیہ انٹر کالج‘‘بریلی شریف سے حاصل کی۔ اس کے بعد 1963ء میں حضورتاج الشریعہ علیہ الرحمہ ’’جامعۃ الازہر‘‘ قاہرہ،مصرتشریف لے گئے۔ وہاں آپ نے ’’کلیہ اصول الدین‘‘ میں داخلہ لیااورمسلسل تین سال تک ’’جامعہ ازہر‘‘ مصر، کے فن تفسیر و حدیث کے ماہر اساتذہ سے اکتساب علم کیا۔ تاج الشریعہ 1966ء / 1386ھ میں جامعۃ الازہر سے فارغ ہوئے۔ اپنی جماعت میں اول پوزیشن حاصل کرنے پر آپ ’’جامعہ ازہر ایوارڈ‘‘سے نوازے گئے۔ ایوارڈ اور سند فراغت مصرکے اس وقت کے صدر کرنل جمال عبدالناصر نے دی۔ (بحوالہ: مفتی اعظم ہند اور ان کے خلفاء /صفحہ:150)

اساتذہ کرام:

آپ کے اساتذہ کرام میں حضور مفتی اعظم الشاہ مصطفیٰ رضاخاں نوری بریلوی، بحر العلوم حضرت مفتی سید محمد افضل حسین رضوی مونگیری، مفسر اعظم ہند حضرت مفتی محمد ابراہیم رضا جیلانی رضوی بریلوی،فضیلت الشیخ علامہ محمد سماحی،شیخ الحدیث و التفسیر جامعہ ازہر،قاہرہ، حضرت علامہ مولانا محمود عبدالغفار،استاذالحدیث جامعہ ازہر قاہرہ، ریحان ملت، قائد اعظم مولانا محمد ریحان رضا رحمانی رضوی بریلوی، استاذ الاساتذہ مولانا مفتی محمد احمد عرف جہانگیر خاں رضوی اعظمی،صدرالعلماء علامہ تحسین رضا خان بریلوی،حافظ انعام اللہ خاں تسنیم حامدی رحمہم اللہ کے اسمائے گرامی شامل ہیں۔ (مفتی اعظم ہند اور ان کے خلفاء 1:150)

ازدواجی زندگی:

جانشین مفتی اعظم کا عقد مسنون ’’حکیم الاسلام مولانا حسنین رضا بریلوی علیہ الرحمہ‘‘ کی دختر نیک اخترکے ساتھ 3?نومبر1968ء/ شعبان المعظم1388ھ بروز اتوار کو محلہ ’’کا نکر ٹولہ، شہر کہنہ بریلی‘‘ میں ہوا۔

اولادامجاد:

آپ کے ایک صاحبزادہ مخدوم گرامی مولانامفتی محمد منور ضا محامد المعروف عسجدرضا خان قادری بریلوی اور پانچ (5) صاحبزادیاں ہیں۔

درس وتدریس:

حضور تاج الشریعہ علیہ الرحمہ نے تدریس کی ابتدا ’’دار العلوم منظر اسلام،بریلی‘‘ سے 1967ء میں کی۔1978ء میں آپ دار العلوم کے صدر المدرس اور ’’رضوی دارالافتاء‘‘ کے صدر مفتی کے عہدے پر فائز ہوئے۔ درس و تدریس کا سلسلہ مسلسل بارہ سال جاری رہا لیکن حضور تاج الشریعہ علیہ الرحمہ کی کثیر مصروفیات کے سبب یہ سلسلہ مستقل جاری نہیں رہ سکا۔لیکن یہ سلسلہ مکمل ختم بھی نہ ہوا،آپ بعد میں بھی ’’مرکزی دارالافتاء، بریلی شریف‘‘میں ’’تخصص فی الفقہ‘‘ کے علمائے کرام کو ’’رسم المفتی،اجلی الاعلام‘‘ اور ’’بخاری شریف‘‘ کا درس دیتے رہے۔

بیعت وخلافت:

حضورتا ج الشریعہ علیہ الرحمہ کو بیعت و خلافت کا شرف سرکار مفتی اعظم سے حاصل ہے۔ سرکار مفتی اعظم ہند علیہ الرحمہ نے بچپن ہی میں آپ کوبیعت کا شرف عطا فرمادیا تھااور صرف 19 سال کی عمر میں15نوری1962ء/8شعبان المعظم1381 ھ کوایک خصوصی محفل میں تمام سلاسل کی خلافت و اجازت سے نوازا۔ علاوہ ازیں آپ کوخلیفہ اعلیٰ حضرت برہان ملت حضرت مفتی برہان الحق جبل پوری، سید العلماء حضرت سید شاہ آل مصطفیٰ برکاتی مارہروی، احسن العلماء حضرت سید حیدر حسن میاں برکاتی،والد ماجد مفسر اعظم علامہ مفتی ابراہیم رضا خاں قادری علیہم الرحمہ سے بھی جمیع سلاسل کی اجازت و خلافت حاصل ہے۔(تجلیّات تاج الشریعہ  صفحہ: 149)

بارگاہ مرشد میں مقام:

حضور تاج الشریعہ علیہ الرحمہ کو اپنے مرشد برحق،شہزادہ اعلیٰ حضرت تاجدار اہلسنّت امام المشائخ مفتی عظم ہند ابو البرکات آل رحمن حضرت علامہ مفتی محمد مصطفیٰ رضاخاں نوری علیہ الرحمہ کی بارگاہ میں بھی بلند مقام حاصل تھا۔ سرکار مفتی اعظم علیہ الرحمہ کو آپ سے بچپن ہی سے بے انتہا توقعات وابستہ تھیں جس کا اندازہ ان کے ارشادات عالیہ سے لگایا جاسکتاہے جو مختلف مواقع پر آپ نے ارشاد فرمائے:’’اس لڑکے (حضور تاج الشریعہ) سے بہت اُمید ہے۔‘‘ سرکار مفتی اعظم ہند علیہ الرحمہ نے دارالافتاء کی عظیم ذمہ داری آپ کو سونپتے ہوئے فرمایا: ’’اختر میاں اب گھر میں بیٹھنے کا وقت نہیں، یہ لوگ جن کی بھیڑ لگی ہوئی ہے کبھی سکون سے بیٹھنے نہیں دیتے، اب تم اس کام کو انجام دو، میں تمہارے سپرد کرتا ہوں۔‘‘لوگوں سے مخاطب ہو کر مفتی اعظم علیہ الرحمہ نے فرمایا:’’آپ لوگ اب اختر میاں سلمہٗ سے رجوع کریں انہیں کو میرا قائم مقام اور جانشین جانیں۔‘‘حضور مفتی اعظم رضی اللہ عنہ نے اپنی حیات مبارکہ کے آخری دور میں حضورتاج الشریعہ علیہ الرحمہ کوتحریراًاپنا قائم مقام و جانشین مقرر فرمایا تھا۔

تصنیف و تالیف :

حضور تاج الشریعہ دام ظلہ، علینا اپنے جد امجد مجدد دین ملت سیدنا اعلی حضرت رضی اللہ تعالی عنہ کے مظہر اتم اور پر تو کامل ہیں ۔ اعلیٰ حضرت کی تحریری خدمات اور طرز تحریر محتاج تعارف نہیں ہے۔ حضور تاج الشریعہ دام ظلہ، علینا میدان تحریر میں بھی اعلیٰ حضرت کا عکس جمیل نظر آتے ہیں۔ آپ کی تصانیف و تحقیقات مختلف علوم و فنون پر مشتمل ہیں۔تحقیقی انداز ،مضبوط طرزا ستدال ، کثرت حوالہ جات، سلاست وروانی آپ کی تحریر کو شاہکار بنا دیتی ہے۔ آپ اپنی تصانیف کی روشنی میں یگانہئ عصر اور فرید الدہر نظر آتے ہیں۔حضرت محدث کبیر علامہ ضیاء المصطفیٰ اعظمی دامت برکاتہم العالیہ فرماتے ہیں: ”تاج الشریعہ کے قلم سے نکلے ہوئے فتاویٰ کے مطالعہ سے ایسا لگتا ہے کہ ہم اعلیٰ حضرت امام احمد رضا کی تحریر پڑھ رہے ہیں، آپ کی تحریر میں دلائل اور حوالہ جات کی بھر مار سے یہی ظاہر ہوتا ہے ۔”(حیات تاج الشریعہ/صفحہ :٦٦)

حضور تاج الشریعہ دام ظلہ، علینا افتاء و قضا، کثیر تبلیغی اسفار اوردیگر بے تحاشہ مصرفیات کے باوجود تصنیف و تالیف کا سلسلہ بھی جاری رکھے ہوئے ہیں۔آپ کی تصانیف کی فہرست درج ذیل ہے۔

اردو تصانیف :

١۔۔۔۔۔۔ ہجرت رسول

٢۔۔۔۔۔۔ آثار قیامت

٣۔۔۔۔۔۔ ٹائی کا مسئلہ

٤۔۔۔۔۔۔ حضرت ابراہیم کے والد تارخ یا آزر

٥۔۔۔۔۔۔ ٹی وی اور ویڈیوکا آپریشن مع شرعی حکم

٦۔۔۔۔۔۔ شرح حدیث نیت

٧۔۔۔۔۔۔ سنو چپ رہو

٨۔۔۔۔۔۔ دفاع کنز الایمان (2جلد)

٩۔۔۔۔۔۔ الحق المبین

١٠۔۔۔۔۔۔ تین طلاقوں کا شرعی حکم

١١۔۔۔۔۔۔ کیا دین کی مہم پوری ہوچکی ؟

١٢۔۔۔۔۔۔ جشن عید میلاد النبی

١٣۔۔۔۔۔۔ سفینہ بخشش (نعتیہ دیوان)

١٤۔۔۔۔۔۔ فضیلت نسب

١٥۔۔۔۔۔۔ تصویر کا مسئلہ

١٦۔۔۔۔۔۔ اسمائے سورۃ فاتحہ کی وجہ تسمیہ

١٧۔۔۔۔۔۔ القول الفائق بحکم الاقتداء بالفاسق

١٨۔۔۔۔۔۔ سعودی مظالم کی کہانی اختر رضا کی زبانی

١٩۔۔۔۔۔۔ العطایاالرضویہ فی فتاویٰ الازہریہ المعروف ازہرالفتاویٰ (زیر ترتیب 5جلد)

 عربی تصانیف:

١۔۔۔۔۔۔ الحق المبین

٢۔۔۔۔۔۔ الصحابۃ نجوم الاھتداء

٣۔۔۔۔۔۔ شرح حدیث الاخلاص

٤۔۔۔۔۔۔ نبذۃ حیاۃ الامام احمد رضا

٥۔۔۔۔۔۔ سد المشارع

٦۔۔۔۔۔۔ حاشیہ عصیدۃ الشہدہ شرح القصیدۃ البردہ

٧۔۔۔۔۔۔ تعلیقاتِ زاہرہ علی صحیح البخاری

٨۔۔۔۔۔۔ تحقیق أن أباسیدنا إبراہیم ں (تارح)لا(آزر)

٩۔۔۔۔۔۔ مراۃ النجدیہ بجواب البریلویہ (2جلد)

۱۰۔۔۔۔۔۔ نهاية الزين في التخفيف عن أبي لهب يوم الإثنين

۱۱۔۔۔۔۔۔ الفردۃ فی شرح قصیدۃ البردۃ

تراجم

١۔۔۔۔۔۔ انوار المنان فی توحید القرآن

٢۔۔۔۔۔۔ المعتقد والمنتقد مع المعتمد المستمد

٣۔۔۔۔۔۔ الزلال النقیٰ من بحر سبقۃ الاتقی

تعاریب

١۔۔۔۔۔ ۔برکات الامداد لاہل استمداد

٢۔۔۔۔۔۔ فقہ شہنشاہ

٣۔۔۔۔۔۔ عطایا القدیر فی حکم التصویر

٤۔۔۔۔۔۔ اہلاک الوہابین علی توہین القبور المسلمین

٥۔۔۔۔۔۔ تیسیر الماعون لسکن فی الطاعون

٦۔۔۔۔۔۔ شمول الاسلام لاصول الرسول الکرام

٧۔۔۔۔۔۔ قوارع القھارفی الردالمجسمۃ الفجار

٨۔۔۔۔۔۔ الہاد الکاف فی حکم الضعاف

٩۔۔۔۔۔۔ الامن والعلی لناعیتی المصطفی بدافع البلاء

۱۰۔۔۔۔۔۔ سبحان السبوح عن عيب كذب المقبوح

۱۱۔۔۔۔۔۔ حاجز البحرين الواقي عن جمع الصلاتين

 وصال پر ملال :

 آپ علیہ الرحمہ  کا وصال 6 ذو القعدہ الحرام 1439ہجری بمطابق 20 جولائی 2018ء بروز جمعہ، بوقت مغرب ہوا آپ کے جنازے میں ملک و بیرون ملک سے کروڑں لوگوں نے شرکت کی آپ کی نماز جنازہ آپ کے صاحبزادے علامہ مفتی عسجد رضا خان بریلوی نے پڑھائی اور تدفین ازہری مہمان خانہ مقابل درگاہِ اعلیٰ حضرت میں ہوئی ۔

No comments:

Post a Comment