حضرت سید عبداللطیف کاظمی المعروف امام بری سرکار رضی اللہ عنہ


 حضرت سید عبداللطیف کاظمی  المعروف امام بری سرکار رضی اللہ عنہ

نام ونسب:

اسمِ گرامی:شاہ عبدالطیف۔

لقب:امام بری سرکار(خشکی کےامام)۔لقب سے ہی معروف ہیں۔

نسب و حسب:

سلسلہ نسب اسطرح ہے:حضرت سیدعبدالطیف امام برّی بن سیدمحمود بن سید حامد بن سید بودلہ بن سید شاہ سکندر ۔الی ٰ آخرہ۔آپ کا سلسلۂ نسب حضرت امام موسیٰ کاظم رضی اللہ عنہ سے ملتا ہے۔آپ کےوالدِ ماجدسیدسخی محمود کاظمی علیہ الرحمہ اپنے وقت کے ولیِ کامل تھے۔(ان کا مزار پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں آبپارہ کے مقام پر ہے)۔(علیہم الرحمۃ اولرضوان)

تاریخِ ولادت:

آپ کی ولادت 1026ہجری ،مطابق 1617ء کو موضع کرسال تحصیل چکوال ضلع جہلم(پاکستان) میں ہوئی۔

تحصیلِ علم:

ابتدائی تعلیم وتربیت والدِگرامی کے زیرِ سایہ ہوئی۔مزید علم حاصل کرنے کے لیے آپ کوغورغشتی ضلع کیمل پور بھیجا گیا۔ جو اس زمانے میں علم کا مرکز تھا۔ وہاں آپ نےتفسیر، حدیث، فقہ، منطق اور ریاضی وغیرہ علوم کی مکمل تحصیل کی۔ اس کے علاوہ علم ِطب بھی حاصل کیا۔ ظاہری علوم حاصل کرنے کے بعد آپ کشمیر، بدخشاں، مشہد، نجف اشرف،کربلامعلیٰ،بغداد،بخارا،مصر،دمشق کی سیروسیاحت کرتے رہے پھر وہاں سے مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ تشریف لے گئے اور حج بیت اللہ کی سعادت حاصل کی۔

بیعت وخلافت:

سلسلہ عالیہ قادریہ میں حضرت حیات المیر رحمۃاللہ علیہ کےدست پر بیعت ہوئےاورمجاہدات کےبعدخلافت سےمشرف کیے گئے۔

سیرت وخصائص:

قطب الاقطاب، امام الاولیاء،قدوۃ الصلحاء،شیخ الاتقیاء،عارفِ شریعت وطریقت وحقیقت،واصل باللہ حضرت شاہ عبداللطیف المعروف امام بری سرکار رحمۃ اللہ علیہ۔حضرت امام بری اپنے عہد کے عظیم اور مشہور اولیاء میں سے ہیں۔ آپ کا تعلق سلسلہ قادریہ سے ہےآپ کی زندگی میں زہد اور جذب بہت نمایا ں ہے آپ کی بزرگی اور عظمت کا چرچا عام ہے۔اللہ جل شانہ کچھ بندوں کو خصوصی نوازتا ہے،اور ان کوشروع سے ہی اپنی ذات کے لئے منتخب فرمالیتا ہے۔ان ہستیوں میں سے ایک عظیم ہستی حضرت امام بری علیہ الرحمہ کی ذاتِ گرامی ہے۔آپ پر بچپن سے ہی ولایت کے آثار نمایاں تھے۔آپ کا بچپن عام بچوں سے قطعاً مختلف تھا۔ بچپن ہی میں آپ کا رحجان زہد وتقویٰ ترکِ دنیا اور مذہب کی طرف مائل تھا۔ گاؤں کے دیگر بچوں سے مل کر نہیں کھیلتے تھے، بلکہ اپنے مویشیوں کو لےکر گاؤں سے دور نکل جاتے تھے، اور علیحدگی میں بیٹھ کر عبادت ِالہٰی میں مشغول ہوجاتے اور مویشی ادھر ادھر چرتے رہتے اور اشام کو انہیں جمع کرکے واپس گھر لے جاتے۔بچپن میں کبھی جھوٹ نہیں بولا، نہ کسی کوگالی دی ،اور نہ کبھی غیبت کی، اور شرارت سے ہمیشہ دور رہتے تھے۔ آپ کے اس رحجان اور مالکِ حقیقی سےعشقِ صادق کا نتیجہ یہ ہوا کہ آپ چھوٹی سی عمر میں اللہ کےمحبوب بن گئے اور آپ کی زبان میں ایسی تاثیر پیدا ہوگئی تھی جو بات منہ سے نکالتے پوری ہوجاتی تھی۔
حالت ِجذب سے پہلے آپ نے "چور پور" میں قیام کی جو بعد میں آپ کی برکت سے"نورپور شاہاں" کے نام سے مشہور ہوا۔یہاں آپ نے رشد و ہدایت کا سلسلہ احسن طریقہ سے شروع کیا۔ دینِ مبین کو منظم انداز میں جاری کرنے کے لیے دروس کا سلسلہ شروع کیا۔آپ کی روحانیت و علم کی شہرت سن کر دور درازسے لوگ آپ کے درس میں شرکت کے لیے آیا کرتے تھے۔ آپ نے اپنی درسگاہ میں طلباء کے لیے ان کی خوردنوش کا بھی انتظام کررکھا تھا۔ جس کےاخراجات اللہ تعالیٰ اپنے خزانوں سے پورے کرتا تھا۔ آپ ایک عالم باعمل تھے۔ حقیقت و طریقت آپ پر روز روشن کی طرح عیاں تھی۔ نوجوانوں کی زندگی او ر ان کے تخیل کی رفعت و پابندی آپ کی تربیت پر منحصر تھی۔

آپ کی زندگی اتباع رسولﷺ کا کامل نمونہ تھی۔ آپ نے پوٹھوہار کے خطہ میں رشد وہدایت کے و ہ چراغ روشن کیےکہ تمام علاقے کی کایا ہی پلٹ گئی۔ آپ نے بے لوث دینی خدمات سرانجام دیں۔ آپ کے دمِ قدم سے کفر اور ظلمتوں کے بادل چھٹ گئے ۔ آپ نے لوگوں کوجہاں اخلاقی، اسلامی اور مذہبی تعلیم دی۔ وہاں تصوف اور روحانیت کے جام بھی لٹائے ۔آپ ایک انقلاب آفریں ہستی تھے۔ آپ کی نادر روزگار درسگاہ نے اسلام کو بہت ترقی دی، آپ نے اسلام کی حقیقی خدمت کرکے خدا کی رضا حاصل کی۔ آپ کی تبلیغ سےسینکڑوں غیرمسلم دولتِ اسلام سے مشرف ہوئے۔اسی طرح اس وقت کے حکمرانوں کے عوام پرظلم وستم کے خلاف آپ کی آوازایک اثر رکھتی تھی۔اورنگ زیب عالمگیر آپ سےملاقات کے لئے حاضر ہواتھا، اس وقت آپ درسِ قرآن دے رہے تھے۔لیکن آپ نے اپنے درس کو جاری رکھا۔وہ کھڑےہوکر سنتارہا۔اس نے آپ کواپنی طرف متوجہ کرنے کےئے پڑھا:اطیعو اللہ واطیعوالرسول والی الامرمنکم۔آپ نے جواب میں ارشاد فرمایا: ہم اللہ جل شانہ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت میں مستغرق ہیں،ہمیں "اولی الامر "کی فرصت ہی نہیں ہے۔شہزادہ عالمگیر آپ کی خودداری،اور دینداری سے متاثرہوئے۔آپ نے اسے پورے ہندوستان کے بادشاہ بننے کی خوشخبری دی،اور ساتھ یہ نصیحت بھی فرمائی کہ اللہ کی زمین پر اللہ کانظام قائم کرنا ،اور مخلوقِ خداپر ظلم نہ کرنا،رزقِ حلال کھانا حرام سے بچنا۔(بادشاہ بننے کے بعدعالمگیر نےان تمام باتوں پر عمل کیا) آخر میں جب وہ نذرانہ دینے لگے،تو آپ نے فرمایا: ہمیں ان سکوں کی ضرورت نہیں ہے،اس ملک میں بھوکے بہت ہیں ان کو دےدینا۔یہ تھے ہمارے اسلاف اولیا اللہ جن کی زندگی کاایک ایک باب روشن ہے۔لیکن اس وقت بقول مفکرِ اسلام علامہ محمد اقبال علیہ الرحمہ ؎ زاغوں کے تصرف میں ہیں عقابوں کے نشیمن۔جو شاہینوں کے نشیمن تھے ،آج وہاں پہ گرگسوں نے قبضے جمالیے ہیں۔

اسلام آباد:

قطب الاقطاب حضرت سید شاہ عبدالطیف کاظمی المعروف امام بری نے آج (1438ہجری)سے تین سو اکیس سال پہلے ارشاد فرمایا تھا کہ نور پور پوٹھوہار (موجودہ اسلام آباد )کا یہ خطہ ایک دن نہ صرف فرزندانِ توحید کا مرکز بلکہ عالی شان چمکتا دمکتا شہر بن جائے گا اور اس کا چرچا پوری دنیا میں ہوگا ۔ حضرت امام بری سرکار کی یہ پیش گوئی سچ ثابت ہوئی اور یہاں اسلام آباد کے نام سے ایک شہر آبادہوگیا جو آج مملکت خداداد پاکستان کا دار الحکومت ہی نہیں بلکہ اقوام متحدہ کی سطح پر ایک ارب سے زائد مسلمانوں کے ترجمان کے عظیم شرف سے ہمکنار بھی ہے ۔رب ذوالجلال سے دعاہے کہ پروردگارِعالم !اسلام آباد کو اسم با مسمیّٰ بناکراس مملکتِ خدادادکو نظام ِمصطفیٰﷺ کا گہوارہ بنائے۔(آمین )

آپ علیہ الرحمہ کی کرامات:

جب ایران و عراق کے بارہ سال کے طویل سفر کے بعد آپ سید کسران میں واپس آئے تو آپ کی کشف و کرامات کا تذکرہ ہر طرف ہونے لگا جس کی وجہ سے آپ کی شہرت ہر سو پھیل گئی لوگ دور دراز علاقوں سے بری سرکار کی خدمت اقدس میں حاضری دیتے اور آپ کی تعلیم و تبلیغ ٗ و عظ و نصیحت اور پند و نصائح سے فیض یاب ہوتے ۔ کچھ عرصہ یہاں گزارنے کے بعد بری سرکار نے اس وقت کے ضلع راولپنڈی کے شمالی علاقے کا رخ کیا اور باغ کلاں ( موجودہ آبپارہ مارکیٹ اسلام آباد ) میں اقامت پذیر ہوئے ۔باغ کلاں کے باشندوں نے عزت و احترام کے ساتھ آپ کا خیر مقدم کیا اور کچھ اراضی بطور نذرانہ عقیدت پیش کی ۔ بری امام کاظمی علیہ الرحمہ نے کچھ عرصہ یہاں قیام کیا اور تبلیغ دین میں مصروف رہے یہاں بسنے والے سب لوگ آپ کے حلقہ ارادت میں شامل ہوگئے یہاں پر آپ سے کئی کرامات ظاہر ہوئیں ۔ ان ہی دنوں کا واقعہ ہے کہ ایک روز آپ عبادت الہی میں مشغول تھے ٗ توجہ کے ارتکاز کی وجہ سے آپ کو پتہ ہی نہ چل سکا کہ کس وقت آپ کے مویشی زمیندار کے کھیت میں گھس گئے اور انہوں نے ساری فصل تباہ کر دی ۔ فصل کا مالک شکایت لے کر آپ کے والد بزرگوار سید محمود شاہ علیہ الرحمہ کے پاس آیا ۔ آپ کے والد زمیندار کے ہمراہ آپ کے پاس آئے اور سرزنش کی کہ آپ کی بے توجہی کی وجہ سے زمیندار کی ساری فصل برباد ہوگئی ہے اس پر تھوڑی دیر آپ خاموش رہے ۔ آپ کے والد نے انہیں مزید ڈانٹا جب آپ کے والد نے اچھی طرح سرزنش کرنے کے بعد خاموشی اختیارکی تو آپ نے بڑے سکون کے ساتھ آہستہ سے سر اوپر اٹھایا اور نہایت ٹھہرے ہوئے انداز میں گویا ہوئے ۔ابا جی ذرا فصل کی طرف تو دیکھئے ٗ جونہی آپ کے والد محترم نے فصل کی طرف دیکھا وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ چند لمحے پہلے جو فصل تہس نہس تھی اب ایک سر سبز و شادات کھیت کی صورت میں لہلہاتی ہوئی نظر آ رہی تھی ۔ یہ دیکھنا تھا کہ زمیندار کی حالت عجب ہوگئی وہ آپ کے قدموں میں گر کر گڑگڑا کر معافی مانگنے لگا ۔

موجودہ پاکستان کے ایک علاقہ جسے چوروں اور رہزنوں کی بدولت چور پور کا نام دے دیا گیا آپ کا گزر ہو رہا تھا۔ ابھی چار کلومیٹر کا فاصلہ ہی طے کیا ہو گا کہ اچانک جنگل سے چند ڈاکو نکلے اور انہوں نے لوٹنے کی غرض سے آپ علیہ الرحمہ  کا راستہ روک لیا۔ قدم رک گئے، ڈاکوئوں نے چاروں طرف سے گھیر لیا۔ آپ علیہ الرحمہ  نے چہرہ مبارک جیسے ہی اوپر اٹھایا ڈاکوئوں کی ٹانگیں کانپنے لگ گئیں، آپ علیہ الرحمہ  نے نرمی کے ساتھ گفتگو کا سلسلہ شروع کیا، آپ کی و نصیحت جاری رہی اور ڈاکوئوں کے دل پگھلتے گئے، دل کی دنیا بدل گئی۔ وہ جو کل تک کشت و خون ، لوٹ مار پر خوش ہوتے، اپنے سابقہ گناہوں پر نادم تھے، آنکھوں سے آنسوئوں کی جھڑیاں جاری ہوجھڑیاں جاری ہو گئیں، گناہوں سےتائب ہونے کے بعد ڈاکوئوں نے آپ کے ہاتھ پر بیعت کر لی اور آپ علیہ الرحمہ کے مریدین میں شمار ہو گئے۔یہ ولی کامل کوئی اور نہیں بلکہ حضرت امام بری سرکار علیہ الرحمہ  تھے اور چور پور کے نام سے مشہور یہ علاقہ آج پاکستان کا وفاقی دارالحکومت اسلام آباد ہے۔یہ بری امام سرکار علیہ الرحمہ  کی کرامت ہی تھی کہ چور پور سے نور پور شاہاں اور پھر وفاقی دارالحکومت کا درجہ حاصل کرنے کے بعد یہ علاقہ اسلام آباد کہلایا جانے لگا۔یہ علاقہ چوروں اور اسلام دشمنوں سے آباد تھا لیکن آپ علیہ الرحمہ  کے رشد وہدایت سے چور گناہوں سے تائب ہوگئے۔یہ روایت بہت معروف ہے کہ اسلام آباد کے نام کی وجہ تسمیہ آپ علیہ الرحمہ  کی دعا کی قبولیت بنی حضرت بری امام سرکارعلیہ الرحمہ  نے 17ویں صدی میں جب یہاں ولایت کا پودا نصب کیا توارشاد فرمایا تھا کہ لوگو جان لو کہ نور پور پوٹھوہار ایک دن توحید کا مرکز بنے گا۔وقت نے آپ علیہ الرحمہ کی پیش گوئی سچ کر دکھائی اور آج یہاں پاکستان کا نواں بڑا شہر آباد ہوچکاہے ۔

حضرت امام بری سے متعلق ایک واقعہ کافی مشہور ہے امام سرکار جن دنوں ندی نیلاں میں چلہ کشی کر رہے تھے۔ اتنے کمزور ہو چکے تھے کہ کچھ کھا پی نہیں سکتے تھے۔ صرف دودھ پیا کرتے تھے ٗ گوجر قوم کا ایک عقیدت مند روزانہ آپ کو دودھ دینے آتا تھا جس بھینس کا دودھ وہ گوجر آپ کے پاس لاتا وہ مر جاتی ہے ٗ گوجر دھن کا پکا تھا اپنی زبان سے یہ بات بری امام سرکار کو نہیں بتائی آخر کار ایک ایک کرکے تمام ختم ہوئیں تو اگلے روز دودھ کی خاطر تمام گائوں میں پھرا مگر ہر طرف سے مایوس ہوا چنانچہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اپنی داستان سنائی ۔آپ مسکرائے اور فرمایا جائو ندی کے کنارے چلتے جائو اور اپنی بھینسوں کے نام پکارتے جائو سب تمہارے پیچھے چلی آئیں گی مگر خیال رکھنا کہ پیچھے مڑ کر نہ دیکھنا چنانچہ اس گوجر نے ایسا ہی کیا جب آخری بھینس کا نام لیا جو کہ ندی سے نکل رہی تھی تو گوجر نے پیچھے موڑ کر دیکھ لیا بھینس اسی جگہ پتھر کی بن گئی ۔ گوجر پہلے تو پریشان ہوا مگر باقی بھینسوں کو دیکھ کر خوشی خوشی گھر چلا آیا ۔ علاوہ ازیں ایک روز آپ نور پور شاہاں کے جنگل میں عبادت الہی میں مصروف تھے کہ ہندوئوں کا ایک گرہ وسیع سازو سامان سے دا پھندا آپ کے قریب سے گزرا آپ نے ان سے پوچھا کہ آپ لوگ کہاں جا رہے ہیں انہوں نے ہم اپنے گناہوں کو دھونے کیلئے گنگا میں نہانے کیلئے جا رہے ہیں تو حضرت بری امام ؒ نے فرمایا کہ انسانوں کے گناہ دریائو میں نہانے سے نہیں دھلتے بلکہ یہ گناہ عبادت الہی اور اعمال صالح سے جھڑتے ہیں اس پر ہندئوں کے پنڈت نے کہا کہ اگر آپ کی بات درست ہوتی تو آپ جو یہاں سالہا سال سے عبادت الہی میں مصروف ہیں اس کا کچھ تو اثر ظاہر ہوتا کم از کم اتنا ہی ہو جاتا کہ جس درخت کے نیچے بیٹھ کر آپ عبادت کر رہے ہیں وہی سر سبز و شاداب ہو جاتا تاکہ آپ سکون سے عبادت تو کر سکتے ۔ بارش دھوپ اور دوسری موسی سختیوں سے آپ عبادت کرتے ہوئے محفوظ رہتے ۔ اس پر حضرت بری امام ؒ نے فرمایا اس کے قبضہ قدرت میں تو سب کچھ ہے ہم نے اس سے کچھ مانگا ہی نہیں اس کے بعد آپ نے درخت کی طرف رخ کرکے دعا کیلئے ہاتھ اٹھا دیئے اور دیکھتے ہی دیکھتے درخت سر سبز و شاداب ہوگیا ۔ ہندئووں نے جب یہ دیکھا تو اس قدر متاثر ہوئے کہ اسی وقت سارا گروہ آپ کے ہاتھ پر مسلمان ہو کر آپ کے حلقہ ارادت میں شامل ہوگیا۔

وصال مبارک:

آپ رحمۃ اللہ علیہ نے 1117ہجری ، میں وفات پائی۔ آپ کامزارشریف اسلام آباد میں زیارت گاہ خاص و عام ہے۔ (تذکرہ اولیائے پاکستان۔تذکرہ مشائخِ قادریہ۔فیضانِ بری امام)

No comments:

Post a Comment