حضرت
قاضی شہاب الدین دولت آبادی قد س سرہ
ملک
العلماء حضرت شہاب الدین دولت آبادی قدس سرہ اپنے وقت کے جید عالم اورصوفی گرزے
ہیں آپ سید اشرف جہانگیر سمنانی کے خلیفہ تھے ۔
علم و فضل میں اپنی مثال آپ تھے
اللہ تعالیٰ نے آپ کو بہت سی
خصوصیات سے نوازہ تھا بیک وقت عالم محقق، مصنف، مقرر، مدرس، اور اسی قسم کی
دیگر خصوصیات آپ کے اندر موجود تھیں اس زمانے میں شہرہ آفاق علماء و اکابر موجود
تھےاور علم وفضل کے بلند مرتبہ رکھتے تھے لیکن جو عزت و شہرت اور مقام عوام وخاص
میں آپ کو حاصل تھا وہ کسی اور کو حاصل نہ ہوسکا" آپ کی تصنیفات میں ایک
مشہور کتاب کافیہ کا حاشیہ ہے جو اپنی مثال آپ ہے اور وہ حاشیہ آپ کی زندگی ہی میں
تقریباً تمام جہان شہرت پذیر ہوگیاتھا اسی طرح علم نحو میں آپ کی ایک کتاب
بنام"ارشاد"ہے جس میں مسائل کے تحت امثلہ بھی بیان کی ہیں اور ایک
اچھوتے طرز پر کتاب لکھی ہے اس کی عبارت میں تسلسل اور نہایت عمدگی ہے ۔ نیز علم
بلاغت میں قرین اور بدیع البیان بھی لکھی ہے جس میں سجع کا بہت خیال رکھا گیا ہے
اسی طرح فارسی زبان میں قرآن کی تفسیر "بحرمواج" کےنام سے لکھی ہے جس
میں ترکیب اور معنی وصل وفراق ہیں اس میں بھی سجع کے تکلفات ہیں یہ نہایت عمدہ
کتابیں تحریر فرمائی ہیں آپ فارسی زبان کے
شاعر بھی تھے۔ ( حوالہ: اخبارالاخیار صفحہ 390)
آپ کی ایک
کتاب "مناقب السادات " بھی مشہور ہے اس میں اہل بیت کی فضیلت بڑی عقیدت
و محبت سے تحریر کی ہے آپ کی یہ تمام تصانیف آپ کی علمیت کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔ لطائف
اشرفی میں ہے کہ"دومہینہ تک حضرت محبوب یزدانی جونپور میں ٹھہرے اور بہت لوگ
خواص اور عوام ادنی واعلیٰ شرف بیعت سے مشرف ہوئے ۔ حضرت قاضی شہاب الدین کو آپ کے
ساتھ بیحد عقیدت پیدا ہوئی ۔ اگر روزانہ
نہ پہونچ سکتے تو دوسرے تیسرے دن
ضرور حاضر خدمت ہواکرتے اور ایک ایک اپنی تصانیف حضرت کی خدمت میں لاکر پیش کرتے
اور آپ سے قبولی کی دعا چاہتے اور حضرت ان کی قابلیت کی داد دیتے ۔ علم نحومیں آپ
کی کتاب ارشاد کو بہت پسند کیا اور فرمایا لوگ کہتے ہیں کہ سحرہندوستان میں ہے
تمہارے بیان سے صحیح معلوم ہوایہ سحر بیانی تمہارے حصہ میں آئی ہے اور علم بیان
میں کتاب بدیع البیان اور علم تفسیر میں تفسیر بحرمواج کو دیکھ کر فرمایا کہ قاضی
صاحب جامع علوم ہیں ۔ جس وقت نسخہ جامع الصنائع خدمت عالی میں پیش کیا حضرت نے
فرمایا کہ حضرت قاضی اس فن میں بھی دستگاہ کامل رکھتے ہیں۔
حضرت شیخ
واحدی نے جو حاضر تھے حضرت محبوب یزدانی
کی شان میں ایک قصید ہ لکھ کر پیش کیا۔ آپ نے بغور ملاحظہ کرکے ہنس کر قاضی صاحب
کی طرف مخاطب ہوکر فرمایا : جب تم نے تمام علوم حاصل کئے فارسی کو واحدی کے لئے
چھوڑدو۔
دوسری آمد
میں حضرت قاضی شہاب الدین صاحب کو خرقہ خلافت اور مثال ارشاد عطا کرکے کتاب ہدایہ
جو ولایت سے ہمراہ آئی تھی عنایت فرمائی۔ (حوالہ:صحائف اشرفی حصہ اول صفحہ97-98)
سید اشرف
جہانگیرسمنانی سے آپ کے بڑے گہرے مراسم تھے اور اکثر علمی مسائل میں یہ دونوں
حضرات تبادلہ خیال کرتے تھے اور ایک دوسرے کی رائے کو تسلیم کرتے تھے ۔ ان حضرات
میں خط و کتابت بھی تھی اس کے بھی تبادلہ
خیال کرتے تھے۔
قاضی شہاب
الدین دولت آبادی نے مکتوبات میں سید اشرف جہانگیر سمنانی سے فرعون کے ایمان کے بارے میں سوال کیا تھا
کیونکہ فصوص الحکم میں بھی اس کا ذکر ہے
اسی حوالے سے آپ نے چند حقائق معلوم کرنے کے لئے خط لکھا سید اشرف جہانگیر
سمنانی نے قاضی صاحب کو تفصیلی جواب دیا اور دلائل کے ساتھ اپنے موقف کو واضح کیا
عجیب و غریب حقائق بیان فرمائےآپ کے اس مکتوب کا ذکر شیخ محقق حضرت عبدالحق محدث
دہلوی نے اخبارالاخیار میں کیا ہے اس سے پتہ چلاکہ قاضی صاحب سے آپ کی مراسلت بھی
رہی اور دونوں نے ایک دوسرے کے علمی فیضان سے استفادہ کیا ۔
قاضی شہاب
الدین دولت آبادی اپنے وقت کے عظیم بزرگ اور جید عالم دین ہونے کے باوجودغوث
العالم محبوب یزدانی سید اشرف جہانگیر سمنانی سے مسائل دریافت فرماتے تھے اور ان
کی علمی عظمت کو تسلیم کرتے تھے اسی طرح سید اشرف جہانگیرسمنانی بھی ان سے بڑی
محبت کرتے تھے اور ان پر خصوصی توجہ فرماتے تھے ۔
محبوب
ربانی اعلیٰ حضرت اشرفی میاں علیہ الرحمہ صحائف
اشرفی میں لکھتے ہیں:
" کتاب سنوات الاتقیا جو تصنیف شیخ ابراہیم سرہندی کی ہے اس کو جناب حاجی
مولانا سید اسماعیل حسن صاحب قادری مارہروی نے فقیراشرؔفی کو دکھلایا ۔ اس میں
لکھا ہے کہ ایک دن قاضی شہاب الدین ملک العلماء خدمت عالی حضرت محبوب یزدانی میں
اس خیال سے حاضر ہوئے کہ حضور مجھ کو میرے لائق خطاب عطافرمائیں اور وہ چیز
کھلائیں جو میں نے کبھی نہ کھائی ہو جیسے ہی خیمے مبارک کے قریب آئے طناب خیمہ سے
الجھ کر قاضی صاحب کی پگڑی گرپڑی۔
حضرت
محبوب یزدانی نے فرمایا : ملک العلماء دستار سرپہ رکھو۔
جب خدمت
عالی میں بعد شرف پابوس مؤدب دوزانو ہو بیٹھے حضرت نے باورچی سے فرمایا کہ طعام
ماحضر قاضی صاحب کے لئے لاؤ۔
باورچی نے
ایک پیالہ کھیر کا قاضی صاحب کے سامنے پیش کیا ۔
قاضی صاحب
دل میں سوچنے لگے کہ کھیر کوئی نایاب نہیں ۔ میں بارہا کھیر کھائی ہے ۔
حضرت
محبوب یزدانی نے فرمایا کہ فقیر کے ساتھ گائے ، بھینس نہیں رہتی ہیں جہاں فقیر
جاتا ہے جنگل کے ہرن ، نیل گاؤآکر دودھ دے جاتے ہیں بھلا ایسی کھیر آپ کو کب میسر
ہوگی۔
یہ سن کر
قاضی صاحب دل ہی دل میں پیشمان ہوئے۔ (حوالہ:
صحائف اشرفی حصہ اول صفحہ 208)
قاضی شہاب
الدین دولت آبادی سلطان ابراہیم شرقی کے زمانے میں تھے اس وقت کے علماء میں آپ کا
بڑا مقام تھا سلطان ابراہیم شرقی نیک دل انسان تھا اور علماء صوفیاء کے بڑے
قدرکرتاتھا اس نے عہد سلطنت میں اہل علم کو بہت نوازا۔
تاریخ
فرشتہ میں لکھا ہے " ابراہیم شرقی کے عہد حکومت کے علماء وفضلاء میں قاضی
شہاب الدین جونپوری بڑی اہمیت رکھتے تھے قاضی صاحب کا آبائی وطن تو غزنی تھالیکن
ان کی نشودنما دولت آباد دکن میں ہوئی ابراہیم شرقی قاضی صاحب کے علم و فضل کا بڑا
قدرداں تھا اور ان کا بہت خیال کرتا تھا قاضی صاحب کی توقیر و تعظیم کا یہ عالم
تھا کہ مقدس دنوں میں قاضی صاحب شاہی مجلسوں میں چاندی کی کرسی پر بیٹھتے تھے
کہاجاتا ہے کہ ایک بارقاضی صاحب سخت بیمار
ہوگئے ابراہیم شرقی ان کی مزاج پرسی کے
لئے گیا ادھر ادھر کی باتوں کے بعد بادشاہ نے ایک پیالہ پانی کا طلب کیا جب پانی
آگیا تو ابراہیم شرقی نے اس کو قاضی صاحب کے سرپر تصدق کرکے خود پی لیا اور کہا :
اے خدا !
جو مصیبت قاضی صاحب کے سر پر پڑی ہے اس سے انہیں نجات دے اور مجھ کو اس مصیبت میں
ڈال دےتاکہ قاضی صاحب صحتیاب ہوجائیں۔
(حوالہ:
تاریخ فرشتہ جلد دوم صفحہ 877-878)
صاحب
تاریخ فرشتہ کی اس تحریر سے پتہ چلتا ہے کہ سلطان ابراہیم کو علماء کرام سے کتنی
محبت وعقیدت تھی اس نے قاضی صاحب کی صحت کی خاطر اپنے آپ کو پیش کردیا ۔ یہی وہ
سلطان ابراہیم شرقی ہے جسے سید اشرف جہانگیر سمنانی نے خطوط تحریر فرمائے تھے جو
مکتوبات اشرفی میں موجود ہے۔
قاضی صاحب
کی تصانیف کا ذکر ہم کر چکے ہیں لیکن جن مزید کتب کا ذکر صاحب تاریخ فرشتہ نے کیا وہ یہ ہیں ۔
ê حاشیہ
ہندی
ê بدیع
البیان
ê فتاویٰ
ابراہیم شاہی
ê رسالہ
شہابیہ
وصال
مبارک: آپ کے سن وصال کے
متعلق دیگر کتب خاموش ہیں تاریخ فرشتہ میں لکھاہے" قاضی صاحب کو بھی ابراہیم
سے بہت خلوص تھا اس کی وفات سے وہ اس حد تک مغموم ہوئے کہ اسی سال 840 ہجری کو سفر
آخرت اختیار کیا ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ قاضی صاحب کا انتقال ابراہیم کی وقات
کے دوسال یعنی 842 ہجری میں ہوا۔
No comments:
Post a Comment