حضرت امام
عبداللہ یافعی یمنی قدس سرہ
حضرت امام عبداللہ
یافعی قدس سرہ النورانی (متوفی 755) جلیل
القدر محدث فقیہ اور علم وفضل میں اپنا
ثانی نہیں رکھتے تھے کیونکہ آپ علوم ظاہری وباطنی کے جامع تھے اسی لیے غوث العالم
محبوب یزدانی سید اشرف جہانگیر سمنانی نے آپ سے علمی وروحانی فیوض وبرکات حاصل کئے
آپ کا نام عبداللہ کنیت ابوسعادت عفیف الدین تھا آپ کے والد محترم کا نا م سعد
یافعی تھا آپ یمن کے رہنے والے تھے لیکن حرمین شریفین میں زیادہ قیام فرمایا آپ
مسلکاً شافعی اور مشرباً قادری تھے۔
علوم
ظاہری وباطنی میں اپنے زمانے کے علماء و فضلاء میں ممتاز درجہ رکھتے تھے آپ کو
نسبت ارادت چندواسطوں سے حضرت غوث الاعظم سے حاصل ہے۔ (حوالہ: خزینۃ
الاصفیاء صفحہ 187)
امام عبداللہ یافعی قدس سرہ العزیز جامع کمالات شخصیت تھے
آپ نے بہت سے بزرگوں سے فیض حاصل کیا اور متعدد مقامات اور سلسلوں سے آپ کو اجازت
و خلافت تھی ۔ آپ حضرت نصیر الدین روشن
چراغ دہلوی کے ہم عصر تھے آپ کے علم و فضل اور طریقت میں بلند مقام کو دیکھتے ہوئے
وقت کے عظیم بزرگوں نے آپ کے سامنے زانوئے تلمذ طے کئے اور علمی وروحانی فیوض
برکات حاصل کئے ان ہستیوں میں حضرت مخدوم سید جلال الدین جہاں جہانیاں گشت بخاری
اور غوث العالم محبوب یزدانی سلطان مخدوم سید اشرف جہانگیر جہاں جہانیاں گشت سمنانی جیسے شاہباز طریقت شامل ہیں سید اشرف جہانگیر سمنانی
السامانی نے ظاہری باطنی دونوں علوم میں کسب کیا ۔
حضرت مولانا ابولفضائل نظام الدین یمنی علیہ الرحمۃ ملفوظات
سید مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی (لطائف اشرفی) میں یہ عبارت نقل کرتے ہیں جس میں سیدمخدوم اشرف جہانگیر سمنانی نے حضرت
امام عبداللہ یافعی کےلئے چمکتے القابات استعمال کئے ہیں وہ لکھتے ہیں ۔" شیخ
ربانی ، بازل نافع صمدانی امام عبداللہ یافعی الیمنی رحمۃ اللہ علیہ"۔ (
حوالہ : لطائف اشرفی فارسی صفحہ 20)
مکتوبات اشرفی میں ہے کہ سید اشرف جہانگیر سمنانی سامانی نے
تصوف کی مشہور کتاب "عوارف المعارف " حضرت امام عبداللہ یافعی سے پڑھی۔ (مکتوبات اشرفی صفحہ 28)
جب
پڑھانے والے حضرت امام عبداللہ یافعی ہوں اور پڑھنے والے تارک السلطنت سلطان مخدوم
سید اشرف جہانگیر سمنانی ہوں تو
پھر علم و فضل کا کون اندازہ کرسکتاہے کیا
انہوں نے پڑھایا ہوگا اور کیا کیا انہوں نے ان سے سیکھا ہوگا یقینا ً علوم و معارف
کے دریا بہادیئے ہونگے اور سیدمخدوم اشرف جہانگیر سمنانی نے انہیں اپنے سینہ میں محفوظ
کرلیا ہوگا ۔آپ صاحب تصانیف بزرگ تھے مختلف موضاعات پر آپ نے بڑی بڑی اہم کتب تصنیف فرمائیں جن کے نام یہ
ہیں :
ê تاریخ مراۃ
الجنان وعبرۃ الیقظان فی معرفۃ حوادث الزمان
ê روضۃ الریاحین فی حکایات الصالحین
ê وردالنظیم فی بیان فضائل القرآن العظیم
ê نشرالمحاسن الغالیہ فی فضل المشائخ الصوفیہ
واصحاب المقامات العالیہ
ê امنی المفاخر فی مناقب شیخ عبدالقادر
ممکن
ہے کہ ان کتب کے علاوہ بھی آپ نے کتابیں
تصنیف فرمائی ہوں ۔ (واللہ اعلم ورسولہ اعلم)
وصال مبارک: حضرت امام
عبداللہ یافعی قدس سرہ النورانی کے سن وصال میں اختلاف ہے کسی نے 767 ہجری کسی نے
764 ہجری لکھا ہے ۔ صاحب مراۃ الاسرار نے سن وصال لکھا ہی نہیں وہ فرماتے ہیں۔
"امام عبداللہ یافعی کا سن وفات نظر سے نہیں گزرا لیکن کتاب" تاریخ مراۃ
الجنان" میں انہوں نے 750 ہجری تک کے واقعات لکھے ۔ وفات نظر سے نہیں گزرا
معلوم نہیں کہ اس کے بعد کتنے سال زندہ رہے لیکن سیرۃ العارفین کی عبارت سے معلوم
ہوتا ہے کہ آپ شیخ نصیرالدین چراغ دہلوی
کے ہم عصر تھے کیونکہ آپ نے حضرت مخدوم سید جلال الدین جہانیاں جہاں گشت رحمۃ اللہ
علیہ کو حضرت نصیرالدین روشن چراغ دہلوی
کی خدمت میں بھیجا تھا جب شیخ نصیرالدین روشن
چراغ دہلوی کا سن وفات 757 ہجری ہے
ہوسکتا ہے کہ اس کے قریب ہی کا کوئی سن ہو البتہ صاحب خرینۃ الاصفیاء نے آپ کا سن وصال 755 ہجری لکھا ہے وہ لکھتے ہیں امام صاحب نے 21
جمادی الآخر 6-755 ہجری میں وفات پائی مرقد مکہ معظمہ میں حضرت فضیل بن عیاض رحمۃ
اللہ علیہ کے مزار کے متصل ہے۔
No comments:
Post a Comment