حضرت
خواجہ حافظ شیرازی قدس سرہ
حضرت
خواجہ حافظ شیرازی قدس سرہ اکابر طریقت
میں اہم مقام رکھتے ہیں آپ ایک صوفی شاعر تھے آپ نے شاعری کے ذریعے تصوف کے بہت سے اہم نکات کو بیان کیا
ہے ان کے اشعار حقیقت و معرفت ہر مبنی ہے ۔ حضرت خواجہ حافظ شیرازی قدس سرہ غوث العالم محبوب یزدانی کے معاصرین
میں سے تھے ان دونوں حضرات کی ملاقات شیراز میں ہوئی ۔
لطائف
اشرفی میں ہے کہ حضرت قدوۃ الکبریٰ فرماتے
ہیں کہ جب میں شیراز پہونچا اور وہاں کے اکابرسے ملاقات کی تو خواجہ حافظ شیرازی
سے ملاقات ہوئی پہلے ان کا یہ شعر مجھ تک پہونچ چکا تھا :
حافؔظ بھی معتقد ہورکھوں میں تم کو عزیز
ہیں اس پہ ایک روح مکرم کی بخششیں
میں نے اس
شعر سے سمجھ لیا کہ وہ اویسی ہیں جب ملاقات ہوئی تو ہم دونوں میں بڑی محرمانہ
باتیں ہوئیں ایک عرصہ تک ہم دونوں ایک ساتھ شیراز میں رہے ان کا مشرب میں
نے بہت بلند پایا اس زمانے میں جس کو ان کی نیابت جاننے کی خواہش ہوتی وہ ان کی
طرف رجوع کرتا تھا ۔ ان کے اشعار سے معارف کا اظہار اور حقائق کی پردہ کشائی ہوتی
تھی اکابر روزگار نے ان کے اشعار کو لسان الغیب کہاہے کہ بلکہ ایک بزرگ نے تو یہاں
تک کہاہے کہ کوئی دیوان حافؔظ کے دیوان سے بڑھ کر نہیں ہے مردصوفی اسے سمجھ سکتا
ہے۔ (حوالہ:لطائف اشرفی حصہ دوم 370)
اس عبارت
سے پتہ چلتاہے کہ ان دونوں ہستیوں میں بڑی قربت رہی اور رازونیازکی باتیں بھی ہوتی
رہیں سید اشرف جہانگیر سمنانی نے خواجہ حافظ شیرازی کا جس انداز سے ذکر کیا ہے اس
سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ بلند پایہ صوفی تھے اکثر نے یہ بھی لکھا ہے کہ وہ مجذوب
تھے کیونکہ ہروقت جذب کی کیفیت میں رہتے تھے ان کے اشعار ان کی قلبی کیفیات کے
آئینہ دار ہیں جن میں طریقت کے بڑے اسرارورموز
بیان کئے گئے ہیں یہی وجہ ہے کہ مشائخ وقت نے آپ کے اشعار کو لسان الغیب سے
تعبیر کیا ۔
لطائف
اشرفی میں متعدد مقامات میں پر حضرت خواجہ حافظ شیرازی کا ذکر خیر ملتا ہے ۔ سید
اشرف جہانگیر سمنانی السامانی نے یہ بھی فرمایا ہے کہ وہ اویسی تھے یعنی حضرت اویس قرنی رضی اللہ عنہ کے مشرب پر
تھے ایک مقام پر یہ بھی فرمایا کہ جب حقائق و معارف پر گفتگو ہوتی تھی تو آپ اہل
محفل دنگ رہ جاتے اور آپ کی عملیت و
روحانیت کے قائل ہوجاتے ۔
وصال
مبارک: حضرت خواجہ حافظ شیرازی کے سن وصال میں اختلاف ہے بعض نے
792 ہجری لکھاہے تاریخ اسلام میں 791 ہجری درج ہے وہ لکھتے ہیں 791 ہجری میں سلطان
مراد خاں بروصہ میں مقیم تھا سی سال حضرت خواجہ حافظ شیرازی اور خواجہ بہاؤالدین
نقشبند نے وفات پائی۔
حضرت نظام
یمنی نے لطائف اشرفی میں 800 ہجری لکھا ہے اور اکثر حضرات نے اسی کو درست قرار دیا
ہے ان کا سن وصال 800 ہجری ہی صحیح ہے ۔ واللہ اعلم و رسولہ اعلم
No comments:
Post a Comment