حضور امام الاولیاء، سرور انبیاء، باعث ایجاد عالم، فخر موجودات،
محبوب رب العالمين ، رحمۃ اللعالمین، شفیع المذنبين، منبع فیض انبیاء و مرسلین،
معدن علوم اولین و آخرین واسطہ پرفضل و کمال ، مظہر پر حسن و جمال اور خلیفہ مطلق
و نائب کل حضرت باری تعالیٰ جل جلالہ کے ہیں۔
آپ ﷺ کا نسب شریف:حضور سیدنا محمد ﷺبن عبد اللہ بن عبد المطلب بن
ہاشم بن عبد المناف بن قصی بن کلاب بن مرہ بن کعب بن لوی بن غالب بن فہربن مالک بن
نصر بن کنانہ بن خزیمہ بن مدریکہ بن الیاس بن مضر بن نزار بن معد بن عدنان اور
والدہ ماجدہ کی طرف سے حضور کا شجرہ شریف یہ ہے۔حضرت محمد ﷺ بن آمنہ بنت وہب بن
عبدالمناف بن زہرہ بن کلاب ۷ بن مرہ۔( صحيح
البخاری)
کنیت: ابو القاسم۔ وَالدہ کا نام: آمنہ بنت وہب۔
وِلادت باسعادت : بروز دوشنبہ ۱۲/ ربیع الاوّل عام الفیل۔
وَالدِ ماجد کا اِنتقال وِلادت سے قبل ہی بحالتِ سفر مدینہ منورَہ میں ہوچکا تھا۔
آپ ﷺ کی کفالت آپ کے دادا عبد المطلب نے کی اور حلیمہ سعدیہ نے دودھ پلایا۔ پھر
آپﷺ کی عمر مبارک چھ سال کی ہوئی تو آپ کی والدہ ماجدہ آپ کو مدینہ آپ کے ننہال لے
گئیں، واپسی میں بمقامِ ابوا اُن کا انتقال ہوا اور آپ کی پرورش اُمِّ ایمن کے
سپرد ہوئی۔ آٹھ سال کے ہوئے تو دادا کا سایہ بھی سر سے اُٹھ گیا، کفالت کا ذمہ آپ
کے چچا جنابِ ابو طالب نے لیا۔ نو سال کی عمر میں چچا کے ساتھ شام کا سفر
فرمایا۔آپ ﷺ یتیم پیدا ہوئے تھے اور ماحول و معاشرہ سارا بت پرست تھا؛ مگر آپ بغیر
کسی ظاہری تعلیم و تربیت کے نہ صرف ان تمام آلائشوں سے پاک صاف رہے؛ بلکہ جسمانی
ترقی کے ساتھ ساتھ عقل و فہم اور فضل و کمال میں بھی ترقی ہوتی گئی؛ یہاں تک کہ سب
نے یکساں و یک زبان ہوکر آپ کو صادق و امین کا خطاب دیا۔بچپن میں چند قیراط پر
اہلِ مکہ کی بکریاں بھی چرائیں؛ اور ۲۵ ؍سال کی عمر میں شام کا
دوسرا سفر حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کی تجارت کے سلسلہ میں فرمایا اور اس
سفر سے واپسی کے دو ماہ بعد حضرت خدیجہ الکبریٰ رضی اللہ عنہا سے عقد ہوا۔ ۳۵ سال کی عمر میں
قریش کے ساتھ تعمیرِ کعبہ میں حصہ لیا اور پتھر ڈھوئے، حجرِ اسود کے بارے میں قریش
کے اُلجھے ہوئے جھگڑے کا حکیمانہ فیصلہ فرمایا جس پر سبھی خوش ہوگئے۔ بعد میں آپ
کوخلوت پسند آئی؛ چنانچہ غارِ حرا میں کئی کئی راتیں عبادت میں گزر جاتیں۔اعلان
نبوت سے پہلے آپ ﷺ سچے خواب دیکھنے لگے، خواب میں جو دیکھتے ہو بہو وہی ہوجاتا۔جب
سنِ مبارک چالیس کو پہنچا تو اللہ تعالیٰ نے آپ کواعلان نبوت کرنے کا حکم فرمایا،
آپ صلی اللہ علیہ وسلم غارِ حرا میں تھے کہ جبرئیل علیہ السلام سورة اقرأ کی
ابتدائی آیتیں لے کر نازل ہوئے، اس کے بعد کچھ مدت تک وحی کی آمد بند رہی، پھر
لگاتار آنے لگی۔وحی آسمانی آپ تک پہنچانے کے لیے جبریلِ امین علیہ السلام کا
انتخاب ہوا جن کو ہمیشہ سے انبیاء علیہم السلام اور باری تعالیٰ کے درمیان واسطہ
بننے کا شرف حاصل تھا اور جن کی شرافت، قوت، عظمت، بلند منزلت اور امانت کی خود
اللہ نے گواہی دی ہے۔
اس وحی اِلٰہی کی روشنی میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایسی
تربیت ہوئی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہر اعتبار سے کامل بن گئے۔ اور آپ صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی کا ہر پہلو اْمت کے لیے ایک بہترین اْسوہ حسنہ بن کر
سامنے آگیا۔ امت کے ہر فرد کے لئے بالخصوص عامۃالناس کے لیے بھی آپ صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم کی حیات و ذات مبارکہ ایک اعلیٰ مثال ہے، جسے وہ سامنے رکھ کر زندگی کے
ہر شعبہ میں مکمل رہنمائی حاصل کرسکتاہے۔
پہلا دور: تین برس تک حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
پوشیدہ طور پر اور راز داری کے ساتھ دعوت و تبلیغ کا فریضہ ادا فرماتے رہے اس
درمیان میں سب سے پہلے ابتدائی دعوت پر عورتوں میں حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ
عنہا، مردوں میں حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ، بچوں میں حضرت علی رضی اللہ عنہ،
آزاد شدہ غلاموں میں حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ اور غلاموں میں حضرت بلال
رضی اللہ عنہ سب سے پہلے اِیمان لائے، ان کے بعد بہت سے آزاد اور غلام اس دولت سے
بہرہ مند ہوئے۔ سب سے پہلے اسلام لا نے والے جو سابقین اولین کے لقب سے سرفراز
ہوئے۔
دوسرا دور: تین سال کے بعد اس خفیہ دعوت سے مسلمانوں
کی ایک جماعت تیار ہو چکی تھی اس کے بعد اللہ تعالی ٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم پر سورۃ شعراء کی آیت مبارکہ نازل فرمائی: وَأَنذِرْ عَشِیرَتَکَ
الْأَقْرَبِینَ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو علانیہ دعوت و تبلیغ کا حکم ہوا
چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کوہ صفا کی چوٹی پر کھڑے ہو کر قبیلہ قریش
کو پکارا جب سب قریش جمع ہو گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ
تمہیں اللہ کے عذاب سے ڈراتا ہوں اگر ایمان نہیں لاؤ گے تو تم پر عذاب الہی اترے
گا۔ تمام قوم کو صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے اور بت پرستی چھوڑنے کی پوری قوت
سے دعوت دی یہ سن کر تمام قریش جن میں آپ کے چچا ابولہب بھی موجود تھا سخت ناراض
ہوئے شان رسالت کا انکار کیا۔
تیسرا دور:اب وقت آگیا کہ اعلان نبوت کے چوتھے سال سورۃ
حجر کی آیت: فَاصْدَعْ بِمَا تُؤْمَرُ وَأَعْرِضْ عَنِ الْمُشْرِکِینَ نازل
فرمائی اور محبوب حق صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ حکم فرمایا کہ اس دعوت حق کو
علی الاعلان بیان فرمائیے جب آپ علانیہ طور پردین مبین کی دعوت وتبلیغ حق بیان
فرمانے لگے۔ شرک وبت پرستی کی کھلم کھلا برائی فرمائی تمام قریش، اہل مکہ تمام
کفار مشرقین آپ کی مخالفت میں جمع ہو گئے اور ایذا رسانیوں کا ایک طولانی سلسلہ
شروع ہو گیا۔
کفار مکہ خاندان بنو ہاشم کے انتقام اورلڑائی بھڑک اٹھنے کے خوف سے
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو قتل کرنے کی ہمت تو نہ کر سکے مگر طرح طرح کی
تکالیف اور ایذا رسانیوں سے آپ پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑنے لگے۔ ہرکوچہء بازار
میں پراپیگنڈا شروع کردیا کفار مشرکین نے آپ پر اور اسلام قبول کرنے والے مسلمانو
ں پر اتنے مظالم ڈھائے کہ جن کے تصور سے روح کانپ اٹھتی ہے کفار ومشرکین کا اس بات
پر مُصّر تھے کہ مسلمانوں کو اتنا تنگ کرو کہ وہ اسلام کو چھوڑ کر پھر شرک و کفر
میں مبتلا ہو جائیں اس لئے قتل کرنے کے بجائے ہر طرح کے ظلم وستم سزاؤں اور ایزا
رسانیوں اور جاںسوز عذابوں کے ساتھ ستاتے تھے مگر خدا کی قسم! محبوب خدا نے انہیں
شراب توحید کے وہ جام پلا رکھے تھے کہ ان فرزندان توحید نے استقلال، استقامت کا وہ
منظر پیش کردیا کہ پہاڑوں کی چوٹیا ں سر اٹھا کر حیرت سے ان بلا کشان اسلام کے
جذبہ، قوت ایمانی کے ساتھ استقامت کا نظارہ کرتی رہیں بے رحم، سنگدل، درندہ صفت
کافروں نے ان غریب، بے کس مسلمانوں پر جبرو کراہ ظلم وستم کا کوئی دقیقہ باقی نہ
چھوڑا مگر ایک بھی مسلمان کے پائے استقلال میں تزلزل نہیں آیا۔اعلان نبوت کے
ساتویں سال کفار مکہ نے جب دیکھا کہ اسلام روز بروز پھیلتا جارہا ہے تو غیض و غضب
میں آپے سے باہر ہوگئے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خاندان کے ساتھ مکمل سوشل
بائیکاٹ کردیا گیا اور قریش نے بنی ہاشم اور بنی عبد المطلب کے خلاف ایک معاہدہ پر
دستخط کیے کہ جب تک یہ لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہمارے حوالے نہیں
کرتے اُس وقت تک ان سے ہر قسم کا مقاطعہ کیا جائے اس کے نتیجے میں آپ صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم اپنے خاندان اورچچا ابو طالب کے ساتھ شعب ابی طالب میں تین سال
محصور رہے۔ تین سال کا زمانہ اتنا سخت اور کٹھن تھا کہ سنگدل اور ظالم کفار نے ہر
طرف پہرہ بٹھا دیا تھا کہ کہیں سے بھی گھاٹی کے اندر کھانے پینے کا سامان جانے نہ
پائے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اورخاندان بنو ہاشم ان ہوش ربا مصائب کو
جھیلتے رہے معاہدہ کی دستاویز ات کو دیمک نے کھالیا حضرت ابو طالب نے لوگوں کو
آگاہ کیا کہ میرا بھتیجا کہتا ہے۔ معاہدہ کی دستاویزات کو دیمک کھا گئی ھے جہاں
خدا کا نام لکھا ہوا تھا وہ حصہ بچ گیا ہے۔ یہ سن کر معطم بن عدی کعبہ کے اندر گیا
اور دستا ویز اتار لایا واقعی بجز اللہ کے نام کے ساری دستاویز کیڑوں نے کھالی تھی
اس کے بعد یہ محاصرہ ختم ہوا منصور بن عکرمہ جس نے یہ دستاویز لکھ تھی اس پر قہر
الہی ٹوٹ پڑا اس کا ہاتھ شل ہوکر ناکارہ ہو گیا۔اسی سال آپ صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم کے چچا ابوطالب شعب ابی طالب سے نکل کر گھر جب آئے تو حضرت ابو طالب شدید
علالت کے بعدانتقال کر گئے چچا ابو طالب کی وفات کے بعد آپ بہت مغموم رہنے لگے
اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی غم گسار زوجہ مطہرہ حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی
اللہ عنہا کی وفات ہوئی۔ ابھی ابو طالب کے انتقال کا زخم تازہ تھا مکہ میں ابو
طالب کے بعد جس ہستی نے رحمت عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نصرت اور حمایت میں
تن من دھن سب کچھ لوٹا دیا وہ حضرت خدیجہ تھیں جس وقت دنیا میں آپ کا کوئی مخلص و
غمخوار نہیں تھا یہ دونوں ہستیاں آپ کے ساتھ جانثار اور مدد گار رہے۔ اب دونوں اس
دنیا میں نہ رہے آپ قلب مبارک پر اتنا صدمہ گزرا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
نے اس سال کا نام عام الحزن رکھ دیا۔ قریش کی اِیذا رسانی اور بڑھ گئی۔ آپ صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم اہل طائف کی تبلیغ کے لیے تشریف لے گئے۔ اْنہوں نے ایک نہ سنی
بلکہ اْلٹا درپے ایذاء ہوئے اس لئے یہ سال عام الحزن (غم کا سال)کہلاتا ہے۔
11 نبوت: اسی سال آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو
معراج ہوئی۔ پنج گانہ نماز فرض ہوئی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حج کے موقع پر
عرب کے مختلف قبائل کو دعوت دی چنانچہ مدینہ کے قبیلہ خزرج کے 6 آدمی مسلمان
ہوئے۔
12 نبوت: اس سال اوس و خزرج کے 12 افراد نے آپ صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بیعت کی۔ یہ بیعت عقبہ اولیٰ کہلاتی ہے۔
13 نبوت: اس سال مدینہ کے 70 مردوں اور 20 عورتوں
نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بیعت کی۔ یہ بیعت عقبہ ثانیہ کہلاتی ہے۔ مدینہ میں اسلام کی
روشنی گھر گھر پھیل چکی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کرام علیہم
الرضوان ہجرتِ مدینہ کا حکم فرمایا۔ قریش کو پتہ چلا تو انہوں نے دار الندوۃ میں
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو قتل کرنے کا ناپاک منصوبہ بنایا اور آپ صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم کے گھر کا محاصرہ کرلیا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کا یہ منصوبہ خاک میں
ملادیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہجرت کا حکم ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم کافروں کے گھیرے سے بااطمینان نکلے اورحضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے گھر
پہنچے، ان کو ساتھ لے کر غارِ ثور تشریف لے گئے، یہاں 3 دن رہے، پھر ہجرت فرمائی
اور مدینہ کی نواحی بستی قُبا پہنچے۔یہاں سے اِسلام کا ایک نیا دور شروع ہوتا ہے۔
قبا میں 14 دن قیام رہا وہاں ایک مسجد بنائی، وہاں سے مدینہ طیبہ منتقل ہوئے۔ حضرت
ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کے گھر قیام فرمایا۔ مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم کی تعمیر فرمائی، اذان شروع ہوئی اور جہاد کا حکم ہوا حضور صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم اور آپ کے اصحاب اپنا سب کچھ مکہ میں چھوڑ کر بے سروسامانی کی حالت میں
مدینہ آگئے تھے اس پر بھی کفار مکہ راضی نہ ہوئے۔ مدینہ میں بھی سکھ کا سانس نہ
لینے دیا۔ اہل مدینہ کے بھی جان کے دشمن ہو گئے اب تک حضور صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم کو اللہ کی طرف سے یہ حکم تھا کہ لوگو ں کو اسلام کی دعوت دیجئے اور کفار و
مشرقین کی ایذاؤں پر صبر و تحمل، برداشت کا حکم تھا اسی لئے مسلمانوں پر کفار نے
بڑے بڑے پہاڑ توڑ دئیے مگر مسلمانوں نے کبھی اپنے دفاع میں ہتھیار نہیں اٹھایا
لیکن ہجرت کے بعدجب کفار و مشرقین مسلمانوں کے جانی دشمن ہو گئے اور ان کا جینا
دوبھر کردیا اب رب ذولجلا ل نے مسلمانوں کو یہ اجازت دی کہ جو لوگ تم سے جنگ کی
ابتدا ء کریں تم بھی ان سے لڑسکتے ہو۔اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان (یعنی نظام
عالم) کو جس حالت پر پیدا کیا تھا زمانہ اپنے حالات و واقعات کا دائرہ مکمل کرنے
کے بعد پھر اس مقام پر دوبارہ آگیا ہےگویا زبان نبوت اس امر کا اعلان فرما رہی تھی
کہ نظام عالم کے ایک دور کا خاتمہ ہو چکا ہے اور آج سے دوسرے دور کا آغاز ہو رہا
ہے اور دنیائے انسانیت کو نظام عالم کے نئے دور کے آغاز پر خطبہ حجۃ الوداع کے
ذریعے بالخصوص اور اپنی تعلیمات و ہدایات کے ذریعے بالعموم نیا عالمی نظام عطا کر
رہا ہوں۔ضروری تھا کہ اس موقع پر آپ پچھلے نظام اور اس کے جاہلانہ امور کو منسوخ
کرنے کا اعلان بھی فرماتے سو ارشاد فرمایا:خبردار؛ جاہلیت کا سارا (ظالمانہ اور
استحصالی) نظام میں نے اپنے پاؤں سے روند ڈالا ہے اور آج سے نظام جاہلیت کے سارے
خون (قصاص، دیت اور انتقام)کالعدم قرار دیئے جاتے ہیں اور آج سے نظام جاہلیت کے
سارے سودی لین دین بھی ختم کیے جاتے ہیں۔ان دو اعلانات کے بعد اس امر میں کسی شک
کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہ جاتی کہ خطبہ حجۃ الوداع فی الحقیقت. ایک نئے نظام کا
اعلان تھا۔حضور کے فرامین سے یہ امر واضح ہے کہ اسلام دین امن، محبت اور رحمت ہے۔
آپ نے حجۃ الوداع کے موقع پر ارشاد فرمایا:آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
اللہ تعالیٰ نے تم پر تمہارے خون؛ تمہارے مال اور تمہاری آبروئیں حرام کر دی ہیں
اور ان چیزوں کو ایسی عزت بخشی ہے جو عزت تمہارے اس شہر میں اس مہینہ اس دن کو
حاصل ہے۔کیا میں نے پیغام حق پہنچا نہیں دیا؟ سبھی نے بیک زبان جواباً عرض کیا جی
ہاں ضرور۔اس واضحیت کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سب حاضرین کو تلقین
فرمائی۔ سنو جو لوگ یہاں موجود ہیں انہیں چاہیے کہ یہ احکام اور یہ باتیں ان لوگوں
تک پہنچا دیں جو یہاں اس وقت موجود نہیں ہیں ہوسکتا ہے کہ کوئی جو یہاں موجود نہیں
تم سے زیادہ سمجھنے اور محفوظ رکھنے والا ہو۔حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی
حیات طیبہ کے آخری اور نمایاں موقع پر عالم انسانیت کو پیغام امن دیا اور اس امر
کی پابندی پر زور دیاکہ اپنے عمل و کردار سے قیام امن کو ہر سطح پر ممکن بنائیں۔
معاشرے کو پرامن بنانے کے لیے فروغ و ابلاغ کا مجسم بن جائیں یہ ایک حقیقت ہے۔ آج
کرہ ارضی کو امن وامان کا مرکز بنانے کے لئے مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے
عطاکردہ منشور سے زیادہ مؤثر اور جامع ضابطہ کہیں اور دستیاب نہیں۔ ہجرت کے گیارہویں سال
12 ربیع الاول بروزپیر بمطابق 12جون632عیسوی کو63 سال کی عمر میں آپﷺکا وصال ظا
ہری ہوگیااور حضرت سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے حجرے( گھر)میں
تدفین ہوئی ۔ ( ماخوذ ازسیرت سیدالانبیاء ، سیرت مصطفیٰ/سیرت
النبی ﷺ/ہادی عالمﷺ و دیگرکتب سے ماخذ )
No comments:
Post a Comment