شیخ الاسلام حضرت خواجہ سید عثمان ہاروَنی چشتی علیہ الرحمہ

 

نام و نسب:

آپ کا نام عثمان، کنیت ابو النور، لقب شیخ الاسلام، آپ ہارون یا ہرون کے رہنے والے تھے اس لیے آپ کو ہارونی کیا جاتا ہے۔ آپ کا سلسلہ نسب گیارہویں پشت میں حضرت مولا علی شیر خدا رضی ﷲ عنہ تک پہنچتا ہے۔

ولادت باسعادت:

حضرت خواجہ عثمان ہارونی علیہ الرحمہ کی ولادت باسعادت 536ھ کو قصبہ ہارون یا ہرون خراسان میں ہوئی۔(اہل سنت کی آواز، خانقاہ برکاتیہ مارہرہ مطہرہ)

ابتدائی تعلیم:

حضرت خواجہ عثمان ہارونی علیہ الرحمہ نے ابتدائی تعلیم اپنے والد ماجد کی بارگاہ میں رہ کر حاصل کی، قرآن شریف حفظ کیا، آپ کے والد ماجد جید عالم تھے۔

اعلیٰ تعلیم:

حضرت خواجہ عثمان ہارونی علیہ الرحمہ نے اعلیٰ تعلیم کے لیے اس زمانے کے علمی و فنی مرکز نیشاپور کا رخ کیا اور وقت کے مشاہیر علماء و فضلا سے اکتساب علم کر کے جملہ علوم مروجہ و متداولہ میں دسترس حاصل کی۔ جلد ہی آپ کا شمار وقت کے علماء و فضلاء میں ہونے لگا۔

بیعت و خلافت:

حضرت خواجہ عثمان ہارونی علیہ الرحمہ تحصیل علوم کی تکمیل کے بعد امام الاولیاء، قطب الاقطاب سرتاج سلسلہ عالیہ چشتیہ بہشتیہ حضرت خواجہ محمد شریف زندنی رحمہ اللہ کے دست حق پرست پرسلسلہ عالیہ چشتیہ میں بیعت ہوئے، اور سلسلہ عالیہ چشتیہ کی خلافت سے سرفراز ہوئے۔نیز حضرت خواجہ مودود چشتی رحمۃ اللہ علیہ سے بھی فیض یاب ہوئے۔

جس دن حضرت خواجہ عثمان رحمۃ اللہ علیہ کو خرقۂ خلافت ملا، تو آپ کے پیرو مرشد خواجہ شریف رحمۃ اللہ علیہ نے کلاہ چارترکی بھی آپ کے سر پر رکھا اور فرمایا کہ اس چار ترکی کلاہ سے مراد چار چیزوں کو ترک کرنا ہے۔ پہلے ترک دینا دوسرے ترک عقبیٰ (اللہ کی ذات کے سوا کوئی بھی مقصود نہ ہوگا) تیسرے ترک کھانا اور سونا (مگر اتنا جس سے زندگی باقی رہے) چوتھا ترکِ خواہشِ نفس (یعنی جو کچھ نفس کہے اُس کے خلاف کیا جائے)  جو شخص ان چار چیزوں کو ترک کردیتا ہے اُسے ہی چار تر کی کلاہ پہننا ترتیب دیتا ہے۔

حضرت خواجہ عثمان ہارونی نے اپنے پیر کی اجازت سے دنیا کی بڑی سیر و سیاحت کی۔ ایک دن ایسے علاقے میں جا پہنچے جہاں کے تمام لوگ آتش پرست تھے، اُنہوں نے ایک بہت بڑا آتش کدہ روشن کیا ہوا تھا، آپ اُسی شہر میں ٹھہر گئے اور اپنےخادم فخرالدین کو کہا کہ کہیں سے تھوڑی سی آگ لے آؤ تاکہ کھانا پکالیں، فخرالدین آتش پرستوں کے پاس گیا اور تھوڑی سی آگ مانگی لیکن انہوں نے آگ دینے سے انکار کردیا اور کہا کہ آتش تو ہمارا معبود ہے۔ اس آگ سے آگ دینا ہمارے مذہب میں جائز نہیں۔ خادم نے وہیں آکر حضرت خواجہ کی خدمت میں صورتِ حال پیش کی۔ حضرت خواجہ بذاتِ خود تشریف لے گئے، اور آتش پرستوں کو مخاطب کرکے فرمایا کہ معبود حقیقی تو اللہ کی ذات ہے آگ اس کی مخلوق ہے اور اُسی نے بنائی ہے اس کی عبادت کرنا درست نہیں۔ اگر تم آتش پرستی سے توبہ کرلو تو دوزخ کی آگ سے رہائی پاؤ گے، انہوں نے کہا اگر آتش پرستی سے توبہ کرنا آگ سے رہائی کی دلیل ہے تو پہلے تم آگ میں چلے آؤ، اگر آگ نے تم پر اثر نہ کیا تو ہم توبہ کرلیں گے، حضرت خواجہ نے یہ بات سن کر وضو کیا دو رکعت نماز ادا کی اور آتش پرستوں کا ایک سات سالہ بچا اٹھاکر بڑی تیزی سے آگ میں داخل ہوگئے، دو گھنٹے تک آگ میں رہے لیکن آگ نے حضرت خواجہ اور اُس چھوٹے بچے پر اثر نہ کیا اور صحیح سلامت باہر آگئے آتش پرستوں نے آپ کی یہ کرامت دیکھی تو کلمہ پڑھ کر مسلمان ہوگئے اور حضرت خواجہ کے مرید بن گئے حضرت خواجہ نے ان آتش پرستوں کے سردار کا نام عبداللہ رکھا اور چھوٹے بچے کا نام ابراہیم رکھا اور اُنہیں مدارج اعلیٰ تک پہنچا دیا۔

 

عبادت و ریاضت:

حضرت خواجہ عثمان ہارنی علیہ الرحمہ صاحب ریاضت و مجاہدہ تھے۔قرآن مجید کے حافظ تھے۔ روزانہ ایک قرآن شریف کی تلاوت کرتے۔سترسال کی مدت تک کسی وقت نفس کو پیٹ بھر کھانا پانی نہ دیا۔رات کو نہ سوئے، تین چار روز کے بعد روزہ رکھتے، کبھی کبھی چار پانچ ہی لقمے پر اکتفا کرلیتے۔

حضرت میر عبد الواحد بلگرامی علیہ الرحمہ ان کا تذکرہ یوں فرماتے ہیں:خواجہ عثمان ہارونی رحمۃ اللہ علیہ نے دس سال تک خود کو کھانا نہ دیا۔ آپ سات روز کے بعد ایک گھونٹ پانی پیتے، اور عرض کرتے: خدایا! ہمیں نفس کے ظلم سے بچا، نفس مجھ پر غالب آنا چاہتا ہے۔ مجھ سے پانی مانگتا ہے تو میں ایک گھونٹ منہ بھر دیتا ہوں۔خواجہ عثمان ہارونی سماع میں بہت روتے کبھی کبھی زرد پڑ جاتے۔ آنکھوں کا پانی خشک ہو جاتا، جسم مبارک میں خون نہ رہتا۔ ایک زوردار نعرہ لگاتے اور آپ پر وجد طاری ہو جاتا۔

ہندوستان آمد:

 حضرت خواجہ عثمان ہارونی علیہ الرحمہ سیر و سیاحت کرتے ہوئے ایک مرتبہ خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کے پاس دہلی تشریف لائے اور یہاں تقریباً دو ڈھائی سال قیام فرمایا۔ دہلی میں قیام کے دوران جب سلطان التمش کو آپ کی آمد کا علم ہوا تو خدمت میں حاضر ہوئے اور دعاء کی درخواست کی۔شیخ نے دعا فرمائی اور خواجہ معین الدین چشتی اجمیری سے سلطان التمش کیلئے کتاب مرتب فرمانے کا حکم دیا۔

بارگاہ الٰہی میں مقبولیت:

حضرت خواجہ عثمان ہارونی علیہ الرحمہ جب نماز ادا کر لیتے تو غیب سے آواز آتی کہ ہم نے تمہاری نماز پسند کی۔ مانگو کیا مانگتے ہو؟ خواجہ صاحب عرض کرتے: خدایا!میں تجھے چاہتا ہوں۔آواز آتی کہ عثمان! میں نے جمال لا زوال تمہارے نصیب کیا، کچھ اور مانگو کیا مانگتے ہو؟ عرض کرتے: الٰہی! مصطفیٰﷺ کی امت سے گناہ گاروں کو بخش دے۔آواز آتی کہ امت محمدﷺ کے تیس ہزار ۳۰۰۰۰ گناہ گار تمہاری وجہ سے بخشے، آپ کو پانچوں وقت یہ بشارت ملتی۔

سیرت و خصائص:

قطب الاقطاب، ناصرالاسلام، عارف اسرار رحمانی، واصل ذات باری، محبوب صاحب لامکانی، شیخ الاسلام حضرت خواجہ محمد عثمان ہارونی رحمۃ اللہ علیہ کا شمار اکابرین امت اور کبار اولیاءکرام و مشائخ عظام میں ہوتا ہے۔ علوم ظاہریہ و علوم باطنیہ ،شریعت و طریقت، تصوف و معرفت میں مجمع البحرین تھے۔ تاریخ مشائخ چشت میں ہے: در علم شریعت و طریقت و حقیقت اعلم بود۔(بہار چشت)

کافروں کا قبول اسلام:

حضرت میر عبد الواحد بلگرامی رضی اللہ عنہ تحریر فرماتے ہیں: ایک دفعہ خواجہ عثمان ہارونی آدھی رات کے وقت گھر میں تشریف فرما تھے کہ 79 کافروں نے مشورہ کیا کہ آدھی رات کو خواجہ عثمان ہارونی کے پاس چلیں اور کہیں کہ ہم بھوکے ہیں۔ ہر ایک کو نئے طباق میں علاحدہ علاحدہ کھانا دیجیے اور ہر ایک کو جدا گانہ نوع کا۔ اس باہمی مشورے کے بعد جب وہ آپ کی خدمت میں آئے تو خواجہ صاحب نے فرمایا: اے آدم و حوا کے بیٹو! بیٹھ جاؤ اور ہاتھ دھو لو۔ پھر خودبسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھ کر آسمان کی جانب ہاتھ اٹھائے اور ہر جنس کے مختلف کھانوں سے بھرے طباق جیسا کہ وہ لوگ سوچ کر آئے تھے غیب سے لیتے اور ان کے سامنے رکھ دیتے۔ وہ لوگ بھی مسلسل نظریں جمائے ہوئے دیکھتے رہے کہ طباق غیب سے آ رہے ہیں۔ خیر جب وہ کھانے سے فارغ ہوئے تو آپ نے فرمایا: خداے تعالیٰ کی نعمت کھا لی؟ اب اس پر ایمان لاؤ۔ انھوں نے کہا: اگر ہم تمہارے خدا و رسول پر ایمان لے آئیں اور مسلمان ہو جائیں تو کیا خدائے تعالیٰ ہمیں بھی تمہاری طرح کر دے گا؟ فرمایا: میں غریب کس گنتی میں ہوں؟ خدائے تعالیٰ تو اس پر قادر ہے کہ مجھ سے ہزار درجے تمہیں بلند فرمائے۔ وہ سب ایمان لے آئے اور خواجہ صاحب کی مبارک صحبت میں رہ کر ان میں سے ہر ایک اللہ کا ولی ہو گیا، ان کی نظروں میں عرش بریں سے لے کر تحت الثریٰ تک سب منکشف ہو گیا۔

ایک بار بادشاہِ وقت نے حضرت خواجہ کو سماع سننے سےمنع کردیا بلکہ شہر کے تمام قوالوں کو حکم دیا کہ اگر کوئی قوال کسی مجلس میں سماعکرے گا، اسے قتل کردیا جائے گا، حضرت خواجہ نے بادشاہ کو کہا کہ سماع ایسی چیز ہےجو ہمارے پیروں کی سنت ہے ہمیں سماع سے کوئی نہیں روک سکتا۔ سلطان نے کہا کہ پہلےسماع کے جواز میں علماء کرام کے ساتھ مناظرہ کریں، پھر دیکھا جائے گا، چنانچہ شہرکے علماء کی ایک مجلس برپا کی گئی جس میں بادشاہ بھی شریک ہوا، حضرت خواجہ اُس محفل میں تشریف لائے، علماء نے چاہا کہ سماع کے متعلق حضرت خواجہ سے بات کریں، مگروہ تمام کے تمام اپنے آپ کو بے علم محسوس کرنے لگے جو کچھ وہ جانتے تھے ان کےحافظے سے محو ہو چکا تھا حتی کہ الف سے لے کر یا تک تمام حروف بھول گئے۔ بادشاہ نےبڑا زور لگایا کہ علماء بات کریں مگر وہ گفتگو سے عاجز نظر آتے تھے آخر اس کے بغیرچارۂ کار نہ تھا انہیں اپنی شکست کا اعتراف کرنا پڑا، وہ آہ و زاری کرنے لگے۔خدارا ہماری عمر کا حاصل شدہ علم برباد نہ کیا جائے آپ بزرگ ہیں اور سخی ہیں ہمارےحال پر رحم کریں اور اپنی نظرِ عنایت سے ہمارے علوم کو زندہ کردیں، حضرت خواجہ نےان کے گم شدہ علوم کو تو لوٹا دیا بلکہ ان پر باطنی علوم کے دروازے کھول دیے اسواقعہ کو دیکھ کر تمام علماء حضرت خواجہ کے مرید ہوگئے، بادشاہ بھی پشیماں ہوا اور معذرت کرنے لگا اور اُس کے بعد کبھی سماع کی ممانعت نہ کی۔

معین الدین اجمیری رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ ایک دن اپنے پیر و مرشد خواجہ عثمان ہارونی کے ہمرقاب ہوکر دریا کے کنارے پہنچا۔ اتفاقاً اس وقت کوئی کشتی نہ تھی۔ حضرت خواجہ نے مجھے فرمایا کہ آنکھیں بند کرو۔ پھر ایک لحظے کے بعد فرمایا کہ اب کھول لو، جب میں نے آنکھیں کھولیں میں اور حضرت خواجہ دریا کے دوسرے کنارے کھڑے تھے۔ حضرت خواجہ معین الدین نے ایک اور واقعہ بیان کیا ہے کہ ایک شخص حضرت خواجہ عثمان رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی کہ اتنا عرصہ ہوا کہ میرا لڑکا گم ہوگیا ہے مجھے کوئی خبر نہیں کہ وہ کہاں ہے مہربانی فرماکر توجہ فرمائیں، حضرت خواجہ نے یہ بات سنی اور مراقبے میں چلے گئے، تھوڑی دیر بعد سر اٹھایا اور فرمایا کہ تمہارا لڑکا گھر پہنچ گیا ہے، وہ شخص گھر گیا لڑکے کو گھر پر موجود پایا وہ خوشی میں لڑکے کو ساتھ لے کر اُسی وقت حضرت خواجہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور شکریہ ادا کیا حاضرین نے لڑکے سے دریافت کیا کہ تم کیسے گھر پہنچ گئے، اس نے کہا میں جزائر الہند کے ایک جزیرے میں موجود تھے۔ آج ایک ایسے بزرگ جن کی صورت حضرت خواجہ سے ملتی جلتی ہے میرے پاس تشریف لائے مجھے کہا اُٹھو، میرے پاؤں پر پاؤں رکھو اور آنکھیں بند کرلو، میں نے ایسا ہی کیا، جب میری آنکھیں کھلیں میں گھر میں موجود تھا۔

اُمّت کے گنہگاروں کی بخشش کا وعدہ

نقل ہے کہ جب حضرت اقدس نماز شروع کرتے تھے تو غیب سے آواز آتی تھی کہ اے عثمان میں نے تجھے قبول کیا ہے اور پسند کیا ہے اب مانگو جو کچھ مانگو تاکہ تجھے عطا کروں۔ جب حضرت اقدس نماز سے فارغ ہوتے تو عرض کرتے کہ یا الٰہی میں تجھے دیا۔ خاطر جمع رکھو اور اس کے علاوہ جو کچھ طلب کرو مل جائے گا آپ جواب دیتے تھے کہ یاالٰہی محمد مصطفیٰﷺ کی اُمّت کے گنہگاروں کو بخش دے۔ آوازآتی تھی کہ میں نے امت محمدیہﷺ کے تیس ہزار گنہگاروں کو تمہاری بدولت بخش دیا۔ حضرت اقدس ہر نماز کے بعد یہی دعا کرتے تھے اور ہر بار یہی جواب سنتے تھے۔

سیر الاقطاب میں لکھا ہے کہ جب الہام ربانی سے آپ حضرت خواجہ حاجی شریف زندنی قدس سرہٗ کی خدمت میں پہنچے تو سر پاؤں میں رکھ کر عرض کہ بندہ عثمان یہ چاہتا ہے کہ اپنے غلاموں میں شامل فرمالیں حضرت خواجہ بڑے لطف و کرم سے پیش آئے اور کلاہ چار ترکی اُن کے سر پر رکھی۔ بیعت کیا اور سر پر قینچی چلائی اس کے بعد فرمایا کہ عثمان چار ترکی کا مطلب یہ ہے کہ اوّل ترک دنا کرو، اہل دنیا کو اہل دنیا سے اجتناب کرو۔ اور اُن کو نزدیک نہ آنے دو۔ دوم یہ کہ خواہشات نفسانی ترک کرو۔ سوم جو کچھ نچس چاہے اس کے برعکس کرو۔ چہارم راتوں کو جاگو اور ذکر خدا میں مشغول رہو۔ ہمارے مشائخ نے فرمایا ہے کہ جو شخص کلاہِ چار ترکی سر پر رکھے ؟؟؟؟؟؟

اللہ سے اٹھالے۔ اور جو کچھ حق تعالیٰ کے سوا ہے اُسے چھوڑ دے محبت کا بیچ اپنے دل میں بوئے اس وجہ سے حضرت سرور کائنات علیہ الصلواۃ والسلام نے جب یہ کلاہ چار ترکی زیب تن فرمائی تو فقر و فاقہ اختیار فرمایا۔ اور جب حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے یہ کلاہ سر پر رکھی تو اس شیر میدان نے بھی کمال فقر و فاقہ اختیار کیا یہی وجہ ہے کہ ہمارے مشائخ ان کااتباع کرتے ہیں تم بھی ان کی پیروی کرو۔ تاکہ قیامت کے دن اُن سے شرمندہ نہ ہونا پڑے۔ نیز تم ہر شخص کو اپنے سے بہتر سمجھو تاکہ سب میں بہتر بن جاؤ۔ خلق، تواضع اور عاجزی اختیار کرو تاکہ مقام درویشی تک پہنچ سکو۔ جو شخص یہ کام نہیں کرتا اس خرقہ کےلائق نہیں ہوتا۔ یہ خرقہ اس پر حرام ہوتا ہے۔ وہ اس طریق کا قطع کرنے والا ہے اور ہمارے مشائخ اس سے بیزار ہوجاتے ہیں۔ حضرت اقدس نے یہ تمام نصیحتیں قبول کرلیں۔ اور ریاضت و مجاہدہ میں مشغول ہوگئے۔ حتیٰ کہ تین چار سال کے بعد خلافت حاصل کرلی۔ نیز حضرت شیخ نے اسم اعظم جو مشائخ سے سیکھا تھا ان کو تعلیم کیا جس سے ظاہری وباطنی علوم آپ پر مکشوف ہوگئے۔ اور جو کچھ چاہتے تھے مل گیا۔

کافروں کا مسلمان ہونا اور ولی اللہ بن جانا

اس کتاب میں یہ بھی لکھا ہےکہ ایک دفعہ آدھی رات کے وقت چند کافروں نے جمع ہوکر آپس میں کہا کہ ہم ابھی خواجہ عثمان ہارونی رحمتہ اللہ علیہ کے پاس چل کر ان کو آزمائیں۔ اگر وہ ہمیں مطمئن کردیں تو ہمیں یقین ہوجائے گا کہ آج اُن کے برابر کوئی نہیں ہے۔ چنانچہ ہر شخص نے اپنے دل میں کھانے کی کوئی نہ کوئی قسم کی تمنا دل میں رکھ لی اور حضرت اقدس کی خدمت مین پہنچ گئے۔ آپ گھر میں بیٹھے ہوئے تھے ان کو دیکھ کر فرمایا کہ آگے آؤ۔ فرزندان آدم، خدا تعالیٰ عالم الغیب ہے اور جس شخص پر کرم فرماتا ہے اُسے بھی غیب سے مطلع فرماتا ہے۔ آپنے فرمایا بیٹھ جاؤ۔ اور خادم کو حکم دیا کہ ان کے ہاتھ دھلاؤ خادم نے حکم کی تعمیل کی۔ آپ نے بسم اللہ الرحمٰن الرحیم پڑھی اور ہر مرتبہ آسمان کی طرف ہاتھ بڑھاکر عالم غیب سے طعام کا ایک طبق لیا۔ اور اُن میں سے ہر ایک کے سامنے ایک سرے سے رکھتے گئے اور جس شخص نے جس چیز کی خواہش کی تھی۔ اس کے سامنے پہنچ گئی۔ آپ نے فرمایا خدا تعالیٰ کین عمت کھاؤ۔ جب انہوں نے طعام کھایا تو اس قدر لذیز تھا کہ پہلے کبھی نہیں کھایا تھا۔ انہوں نے طعام کھاکر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا اور سخت حیران ہوئے کچھ دیر کے بعد انہوں نے عرض کیا کہ اے خواجہ یہ بات تو ہم کو معلوم ہوگئی کہ آپ جیسا باعظمت اور ان کمالات کا مالک کوئی بزرگ نہیں ہے اب یہ فرمادیں کہ اگر ہم خدا عزوجل کی وحدانیت کے قائل ہوکرمسلمان ہوجائیں آپ کا خدائے بزرگ ہم کو بھی آپ کی طرح صاحب نعمت کردے گا یا نہیں۔ آپ نے فرمایا میں بیچارہ کیا ہوں اور کس شمار میں ہوں۔ اگر وہ لطف و کرم کی نگاہ فرمائے تو مجھ سے ہزار مرتبہ زیدہ بزرگ بنا سکتا ہے۔ یہ سنکر وہ سب مسلمان ہوگئے اور مرید ہوکر آپ کی خدمت میں رہنے لگے۔ حتیٰ کہ ان میں سے ہر ایک پر عرش سے تحت الثریٰ تک مکشوف ہوگیا۔ اور تھوڑے عرصہ میں اولیائے کامل بن گئے۔

کتاب گنج الاسرار کی عیادت سے تویہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت خواجہ عثمان قدس سرہٗ کو اپنے مرید حضرت خواجہ بزرگ خواجہ معین الدین اجمیری قدس سرہٗ سے اس قدر محبت تھی۔ کہ ان کو ملنے کی خاطر آپ دہلی تشریف لائے اور چند روز دونوں بزرگ اکٹھے رہے۔ لیکن یہ روایت بہت ضعیف ہے اس وجہ سے کہ کتاب گنج الاسرار کو بعض مجاوروں نے جمع کیا ہے، جو غیر معتبر ہیں۔ حضرت شیخ نصیر الدین محمود نے اس روایت سے انکار کیا ہے۔ قول صحیح یہ ہے۔ کہ حضرت خواجہ عثمان ہارونی طویل مسافت کے بعد مکہ معظمہ چلے گئے اور معتکف ہوگئے۔ وہاں آپ نے حضرت رب العزت سے دو مقاصد کے لیے دعا کی۔ ایک یہ کہ میری قبر مکہ معظمہ میں ہو۔ اور اس کا نشان بر قرار رہے تاکہ لوگ فاتحہ پڑھتے رہیں کیونکہ مکہ معظمہ میں یہ رسم ہے کہ وہاں کسی کی قبر کا نشان نہیں رکھا جاتا۔ اور برابر کردیتے ہیں۔ دوسری دعا یہ تھی کہ میرے فرزند معین الدین جس نے مدت تک مقام تجرید و تفرید میں اس بندہ کی خدمت کی ہے اس کو اس قسم کی ولایت ملے جو کسی اور عطا نہ ہوئی۔ ہو۔ ہاتف نے آواز دی کہ تمہاری قبر مکہ میں ہوگی اور اس کا نشان بر قرار رہے گااور معین الدین کو ہم نے ہندوستان کی ولایت عطا فرمائی ہے جو اس وقت تک کسی اہل اسلام نہیں ملی۔ لیکن پہلے وہ مدینہ جائے اور محمد مصطفیﷺ سے اجازت لے کرآجائے۔ اس پر خواجہ عثمان ہارونی نے سجدہ شکر ادا کیا اور اپنے تمام مشائخ کی امانت اور اسمائے عظام اور خرقہ خلافت خواجہ بزرگ معین الدین کو دیکر مدینہ منورہ کی جانب رُخصت فرمایا۔ آنحضرتﷺ کمال شفقت سے ولایت ہندوستان آپ کو عطا فرمائی جس کی تفصیل آپ کے ذکر خیر میں آرہی ہے۔ آپ کو یہ بھی فرمایا گیا کہ تمہارا مسکن اجمری ہوگا۔ تم وہاں جاکر رہو۔ تمہارے وجود سے ہندوستان میں دین اسلام استقامت پذیر ہوگا۔ چنانچہ اسی طرح ہوا۔ اور حضرت خواجہ بزرگ نے ہندوستان کے راجہ رائے پھتوار کی بیخ نکال دی اور اس کی جگہ سلطان معز الدین سام (شہاب الدین غوری) کو استقامت بخشی۔ اُس وقت سے آج تک کوئی ہندو وحکمران نہیں ہوا۔ اور اسلام کو وہ ترقی حاصل ہوئی کہ تاریخ گواہ ہے۔

وصال و مدفن:

حضرت خواجہ عثمان ہارونی قدس سرہٗ نے بقیہ عمر مکہ معطمہ میں بسر فرمائی اور باطن میں حضرت خواجہ بزرگ کے احوال کی طرف متوجہ رہے اور حق تعالیٰ سے ہمیشہ اُن کے لیے دعا مانگتے رہے جب ان کی طرف سے خاطر جمع ہوئی حضرت خواجہ عثمان ہارونی علیہ الرحمہ کا وصال 5 شوال المکرم 617ھ مطابق 3 ستمبر 1220ء کو مکۃ المکرمہ میں ہوا۔

آپ علیہ الرحمہ  کو مکہ مکرمہ کے قبرستان جنت المعلیٰ کے قریب سپرد خاک کیا  گیا۔اور آج تک مرجع خلائق ہے۔

 


No comments:

Post a Comment