حضرت سید ابوصالح موسیٰ جنگی دوست علیہ الرحمہ

 

نام ونسب: سید موسیٰ

 کنیت: ابو صالح

لقب: جنگی دوست

 سلسلہ نسب :

سید ابوصالح موسیٰ جنگی دوست بن سید ابو عبد اللہ الجیلانیبن سید یحییٰ زاہدبن سید محمدبن سید داؤدبن سید موسیٰ ثانیبن سید عبد اللہبن سید موسیٰ الجونبن سید عبداللہ المحضبن سید حسن المثنیٰبن سیدنا امام المتقین سیدنا امام حسن علیہ السلام بن امیرالمؤمنین سیدنا علی کرم اللہ وجہ الکریم

تاریخِ ولادت:

آپ  علیہ الرحمہ کی ولادت بروز اتوار 27/رجب المرجب 400ھ، بمطابق 9/اپریل 1048ء کو گیلان عربی میں ("جیلان" ایران کے صوبوں میں سے ایک صوبہ ہے،جو آذربائیجان کے ساتھ ہے) میں ہوئی۔

تحصیل علم:

آپ علیہ الرحمہ تمام علوم وفنون میں کامل و اکمل تھے۔ علوم کی تحصیل و تکمیل اور اسی طرح روحانی تعلیم وتربیت اپنے والدِ گرامی سید عبد اللہ الجیلانی رحمۃ اللہ تعالیٰ سے ہوئی۔ آپ علیہ الرحمہ اپنے وقت علما ِ ربانیین میں سے تھے۔

بیعت وخلافت:

آپ علیہ الرحمہ اپنے والد گرامی سید عبد اللہ جیلانی کے مرید و خلیفہ تھے۔

 

جنگی دوست کی وجہ تسمیہ:

"جنگی دوست" لقب ہونے کی وجہ "قلا ئد الجواہر" میں یہ ہے کہ آپ جہاد فی سبیل اللہ کو دوست رکھتے تھے۔" ریاض الحیات "میں اس لقب کی تشریح یہ بتائی گئی ہے کہ آپ اپنے نفس سے ہمیشہ جہاد فرماتے تھے اور نفس کشی کو تزکیۂ نفس کا مدار سمجھتے تھے۔ چنانچہ اس مجاہدہ نفس میں مکمل ایک سال تک قطعی کھانا پینا ترک فرما دیا تھا۔ ایک سال گذر جانےکے بعد جب ذرا کھانے کی خواہش محسوس ہوئی ،تو ایک شخص نے عمدہ غذا اور ٹھنڈا پانی لاکر پیش کیا آپ نے اس ہدیہ کو قبول فرما لیا لیکن فوراًٍٍ فقر اء ومساکین کو بلا کر اسے تقسیم کر دیا اور اپنے نفس کو مخاطب کرکے فرمایا !

اے نفس تیرے اندر ابھی غذا کی خواہش باقی ہے؟ تیرے واسطے تو جو کی روٹی اور گرم پانی بہت ہے۔ اسی کیفیت میں حضرت خضر علیہ السلام تشریف فرما ہوئے اور فرمایا آپ پر سلام ہو۔ خدائے قدیر نے آپ کے قلب کو جنگی

(نفس و کفار سے لڑنے والا ) اور آپکو اپنا دوست بنالیا ہے اور مجھے یہ حکم دیا گیا ہے کہ میں آپ کے ساتھ افطار کروں ۔ حضرت خضر علیہ السلام کے پاس جس قدر کھانا تھا اسی کو دونوں حضرات نے تناول فرمایا۔ تب سے آپ کا لقب " جنگی دوست" ہو گیا۔

دیگر کتب تواریخ میں یہ بھی درج ہے کہ آپ رحمۃ الله تعالیٰ علیہ کا لقب جنگی دوست اس لئے ہوا کہ آپ رحمۃ الله تعالیٰ علیہ خالصۃً الله عزوجل کی رضا کے لئے نفس کشی اور ریاضت ِشرعی میں یکتائے زمانہ تھے، نیکی کے کاموں کا حکم کرنے اور برائی سے روکنے کے لئے مشہور تھے، اس معاملہ میں اپنی جان تک کی بھی پروا نہ کرتے تھے، چنانچہ ایک دن آپ رحمۃ الله علیہ جامع مسجد کو جا رہے تھے کہ خلیفہ وقت کے چند ملازم شراب کے مٹکے نہایت ہی احتیاط سے سروں پر اٹھائے جا رہے تھے، آپ رحمۃ الله علیہ نے جب ان کی طرف دیکھا تو جلال میں آگئے اور ان مٹکوں کو توڑ دیا۔ آپ رحمۃ الله تعالیٰ علیہ کے رعب اور بزرگی کے سامنے کسی ملازم کو دم مارنے کی جرأت نہ ہوئی تو انہوں نے خلیفۂ وقت کے سامنے واقعہ کا اظہار کیا اور آپ رحمۃ الله علیہ کے خلاف خلیفہ کو ابھارا،

 تو خلیفہ نے کہا: سید موسیٰ (رحمۃ الله علیہ) کو فوراً میرے دربار میں پیش کرو۔چنانچہ حضرت سید موسیٰ رحمۃ الله علیہ دربار میں تشریف لے آئے خلیفہ اس وقت غیظ و غضب سے کرسی پر بیٹھا تھا۔

خلیفہ نے للکار کر کہا: آپ کون تھے جنہوں نے میرے ملازمین کی محنت کو رائیگاں کردیا؟

حضرت سید موسیٰ رحمۃ الله علیہ نے فرمایا:

میں محتسب ہوں اور میں نے اپنا فرض منصبی ادا کیا ہے۔

خلیفہ نے کہا: آپ کس کے حکم سے محتسب مقرر کئے گئے ہیں؟

حضرت سید موسیٰ رحمۃ الله علیہ نے رعب دار لہجہ میں جواب دیا: جس کے حکم سے تم حکومت کر رہے ہو۔

آپ رحمۃ الله علیہ کے اس ارشاد پر خلیفہ پر ایسی رقت طاری ہوئی کہ سر بزانو ہوگیا (یعنی گھٹنوں پرسررکھ کر بیٹھ گیا) اور تھوڑی دیر کے بعد سر کو اٹھا کر عرض کیا:

حضور والا! امر بالمعروف اورنہی عن المنکر کے علاوہ مٹکوں کو توڑنے میں کیا حکمت ہے؟

حضرت سید موسیٰ رحمۃ الله علیہ نے ارشاد فرمایا: تمہارے حال پر شفقت کرتے ہوئے نیز تجھ کو دنیا اور آخرت کی رسوائی اور ذلت سے بچانے کی خاطر۔

خلیفہ پر آپ کی اس حکمت بھری گفتگو کا بہت اثر ہوا اور متاثر ہوکر آپ کی خدمت اقدس میں عرض گزار ہوا: عالیجاہ!

آپ میری طرف سے بھی محتسب کے عہدہ پر مامور ہیں۔

حضرت سید موسیٰ رحمۃ الله تعالیٰ علیہ نے اپنے متوکلانہ انداز میں فرمایا: جب میں حق تعالیٰ کی طرف سے مامور ہوں تو پھر مجھے خلق کی طرف سے مامور ہونے کی کیا حاجت ہے۔اُسی دن سے آپ جنگی دوست کے لقب سے مشہور ہوگئے۔(سيرت غوث الثقلين صفحہ: ۵۲)

سیرت وخصائص:

عالم ربانی، والد غوث الاعظم سیدنا شیخ عبدالقادر الجیلانی حضرت سیدنا ابوصالح موسیٰ جنگی دوست علیہ الرحمہ ۔ آپ اپنے وقت کے ولیِ کامل تھے۔ہر وقت ذکر و اذکار ، وعظ و نصیحت ، مجاہدۂ نفس ، اور دینِ متین کی نشرواشاعت اور جہاد فی سبیل اللہ میں مشغول رہتے تھے۔ آپکا چہرہ مبارک انوار بانی کا مرقع تھا ۔ جسے دیکھ کر اللہ یاد آتا تھا۔ جس محفل میں آپ رونق افروز ہوتے تووہ محفل منور ہو جاتی تھی۔ زبان میں بلا کی فصاحت اور شیرنی تھی ۔ جب تک آپ وعظ کا سلسلہ جاری رکھتے تھے، حاضرین سوائے انتہائی مجبوری کے مجلس وعظ سے جنبش بھی نہیں کرتے تھے۔

آپ کا تقویٰ اور مشہور واقعہ:

منقول ہے کہ حضرت سیدنا ابوصالح موسیٰ جنگی دوست علیہ الرحمہ دریا کے کنارے بیٹھے تھے کہ ایک سیب بہتا ہوا آیا ، آپ نے اسےکھا لیا ۔ سیب کھانے کے بعد آپ پر خوفِ خدا کا غلبہ ہوا اور آپ  اپنا محاسبہ کرنے لگے کہ نہ جانے یہ سیب کس کا تھا ؟ اور کیا اس طرح نا معلوم سیب کھانا میرے لئے حلال ہوسکتا ہے؟ یہ خیال پیدا ہوتے ہی آپ اپنا قصور مُعاف کروانے کیلئے سیب کے مالک کی تلاش میں دریا کے کِنارے کِنارے چل دئیے۔ ایک لمبا سفرکرنےکےبعد آپ علیہ الرحمہ کو دریا کے قریب ایک نہایت عظیم الشان عمارت نظرآئی، جس میں سیب کا ایک بہت بڑا درخت لگا ہوا تھا، جس کی شاخوں پر پکے ہوئے سیب لگے ہوئے تھے اور سیبوں سے بھری یہ شاخیں پانی پر پھیلی ہوئی تھیں۔آپ کو یقین ہوگیا کہ جو سیب میں نے کھایا تھا ،وہ اسی درخت کا ہے ،چنانچہ آپ نے لوگوں سے اس درخت کے مالک کے بارے میں پوچھا تو پتہ چلا کہ اس باغ کے مالک تو اپنے زمانے کے مشہور عابد و زاہد حضرت سیدنا عبداللہ صومعی علیہ الرحمہ ہیں۔

حضرت سیدنا عبداللہ صومعی علیہ الرحمہ کا مقام و مرتبہ:

حضرت علامہ شیخ ابو محمدالداربانی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ حضرت سیدنا عبداللہ صومعی علیہ الرحمہ کی دعائیں بہت جلد قبول ہوجاتی تھیں ۔آپ کا مقام و مرتبہ بارگاہِ الٰہی میں اتنا بلند و بالا تھا کہ اگر آپ کسی شخص سے(کسی شرعی وجہ کے سبب کبھی )ناراض ہوجاتےتو اللہ کریم اس شخص سے بدلہ لیتا اور جس سےآپ علیہ الرحمہ خوش ہوجاتے تو اللہ پاک اس کو انعام و اکرام سےنوازتا ۔آپ کا جذبہ جوانوں سے زیادہ پُر جوش تھا جسمانی کمزوری کے باوجود بھی آپ کثرت سے نوافل ادا فرماتے اور ذکرو اَذکار میں مشغول رہتےتھے ۔اللہ پاک کی عطا سے آپ علیہ الرحمہ ،نبی کریم ﷺ کے وسیلے سے اکثر  غیب کی خبریں بتا دیا کرتے تھے اور جیسا آپ علیہ الرحمہ نے فرمایا ہوتا حقیقت میں بھی ویسا ہی ہو جایا کرتا تھا، بِلاشبہ یہ آپ علیہ الرحمہ کی ایک شاندار کرامت تھی۔)بہجۃ الاسرار ،ذکر نسبہ وصفتہ، ص۱۷۲ملخصاً(

بہرحال جب حضرت سیدنا موسیٰ جنگی علیہ الرحمہ کو باغ کے مالک حضرت سیدنا عبداللہ صومعی علیہ الرحمہ کے متعلق علم ہوگیا تو آپ  علیہ الرحمہ بغیر کسی تاخیر کےان کی خِدمتِ بابرکت میں حاضر ہوگئے اور سارا ماجرا عَرض کرنےکےبعدان سےمُعافی چاہی۔حضرت عبداللہ صومعی علیہ الرحمہ چونکہ ولایت کے اعلیٰ مرتبے پر فائز تھے، لہٰذا آپ بھانپ گئے کہ یہ شخص اللہ کریم کےمقبول بندوں میں سے ایک بندہ ہے، جبھی تو اپنا قصور معاف کروانے کی خاطر اتنا لمبا سفر کرکے یہاں تک آیا ہے۔ چنانچہ حضرت سیدنا عبداللہ صومعی علیہ الرحمہ نے آ پ کی بات سُن کر فرمایا:بارہ (12)برس ہماری خدمت میں رہو گے، تب ہی معافی ملے گی ،قربان جائیے! حضرت سیدنا ابوصالح موسیٰ جنگی دوست علیہ الرحمہ پر جنہوں نے بغیر کسی بحث و تکرار کئے،اس شرط کو بخُوشی منظور فرما لیا اگر چہ شرعاً اس طرح قصور مُعاف کروانا لازم نہ تھا اوربارہ(12)سال تک آپ  علیہ الرحمہ کی صحبت ِ بابرکت میں رہ کر آپ کی خدمت کرتے رہے۔جب 12سال پورے ہوگئے تو اگلا امتحان آپ کا استقبال کرنے کے لئے تیار تھا اور اس دفعہ کا امتحان شاید پچھلے امتحان سے عجیب اور سخت تھا، وہ یہ کہ ولیِ کامل حضرت سیدنا عبداللہ صومعی علیہ الرحمہ نے آپ سےفرمایا ! ایک خِدمت اور بھی ہے اور وہ یہ کہ میری ایک لڑکی ہے، جس میں چار(4)عیب ہیں:

(1)آنکھوں سے اندھی ہے

(2)کانوں سے بہری ہے،

(3) ہاتھوں سے معذور ہے اور

(4)پاؤں سے لنگڑی(اپاہج)ہے،

تمہیں اس سے نکاح بھی کرنا ہوگا اور دو سال تک مزید میری خدمت بھی کرنی ہوگی، اس کے بعد جہاں تمہارا جی چاہے چلے جانا۔

حضرت سیدنا ابو صالح موسیٰ جنگی دوست علیہ الرحمہ  چونکہ اسلامی تعلیمات سے آگاہ خوف خدا کے پیکر اور مذہبی سوچ رکھنے والے تھے،لہذا آپ رحمۃ اللہ علیہ نے اس شرط کو بھی قبول فرمالیا، اب آپ کا دوسرا امتحان بهی شروع ہوگیا، حضرت سیدنا عبداللہ صومعی رحمہ اللہ علیہ نے اپنی شہزادی کا نکاح آپ علیہ الرحمہ  سے کر دیا، نکاح کے بعد جیسے ہی اپنی زوجہ سے آپ کا آمنا سامنا ہوا تو آپ رحمۃ اللہ علیہ ایک عجیب سی کشمکش میں مبتلا ہوگئے کیونکہ نگاہوں کے سامنے جو منظر دکھائی دے رہا تھا وہ بنائی گئی۔ صورت حال کے بالکل ہی الٹ تھا، کیا دیکھتے ہیں کہ آپ رحمۃ اللہ علیہ کی زوجہ محترمہ کے تو تمام ہی اعضا صحیح و سالم ہیں اور ان کے حسن و جمال کے آگے چودہویں رات کا چاند بھی شرما رہا ہے۔ یہ منظر دیکھ کرآپ رحمۃ اللہ علیہ اپنی نئی نویلی دلہن کے قریب تک نہ گئے بلکہ وہیں سے واپس پلٹ آنے اور حضرت سیدنا عبداللہ صومعی رحمۃ اللہ علیہ سے ماجرا بیان کیا۔

انہوں نے فرمایا: پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔تمہاری زوجہ  وہی ہے جسے تم ابھی ابھی دیکھ کر آرہے ہو بات دراصل یہ ہے کہ میں نے اپنی لڑکی کی جو جو باتیں تم سے بیان کی تھیں وہ سب کی سب اس میں موجود ہیں۔

"وه انکھوں سے اندھی ہے"اس سے مراد یہ ہے کہ نامحرم کے لئے اس کی آنکھیں اندھی ہیں۔

"کانوں سے بہری ہے "اس سے مراد یہ ہے کہ ناحق بات سننے کے لئے اس کی کانیں بہرے ہیں ۔

"ہاتھوں سے معذور ہے" اس سے مراد یہ ہے کہ غیر مردوں کو چھونے کیلئے اس کے ہاتھ معذور ہیں"

"پاؤں سے معذور ہے"اس سے میری مراد یہ تھی کہ اپنے شوہر کے حکم کے خلاف قدم اٹھانے کیلئے اس کے پاؤں لنگڑے ہیں۔

جب آپ علیہ الرحمہ  نے حضرت سیدنا عبداللہ صومعی رحمۃ  اللہ علیہ کی زبانی اپنی نئی نویلی دلہن کے منطق وضاحتیں سنیں تو آپ کے دل کو قرار آگیا، آپ کے دل میں اپنی زوجہ کی اہمیت اجاگر ہو گئی اور اللہ پاک کے فضل وکرم سے آپ کو اپنے زمانے کے زبردست ولی اللہ کی بہت سی اچھی خوبیوں سے آراستہ خوبصورت اور خوب سیرت بیٹی کا شوہر بننے کا شرف نصیب ہوا۔(سیرت غوث اعظم ، ص ۳۶ ملخصا)

وصال مبارک:

بروز جمعۃ المبارک11/ذوالقعدہ 489ھ، بمطابق 30/اکتوبر 1096ء کو آپ کاوصال ہوا۔آپ کامزار "گیلان" (ایران) میں ہے۔(حوالہ جات: سیرتِ غوث الاعظم، سیرتِ غوث الاعظم۔تذکرہ قادریہ۔تذکرہ مشائخِ قادریہ۔تذکرہ مشائخ قادریہ)


No comments:

Post a Comment