Hazrat Adam Ki Tauba (Urdu)



فَتَلَقّٰی اٰدَمُ مِنْ رَّبِّهٖ كَلِمٰتٍ فَتَابَ عَلَیْهِ اِنَّهٗ هُوَالتَّوَّابُ الرَّحِیْمُ۝۳۷ قُلْنَا اهْبِطُوْا مِنْهَا جَمِیْعًافَاِمَّا یَاْتِیَنَّكُمْ مِّنِّیْ هُدًی فَمَنْ تَبِعَ هُدَایَ فَلَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَ لَا هُمْ یَحْزَنُوْنَ۝۳۸وَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْاوَكَذَّبُوْابِاٰیٰتِنَااُولٰٓىِٕكَ اَصْحٰبُ النَّارِهُمْ فِیْهَا  خٰلِدُوْنَ۝۳۹(بقرہ
ترجمہ:پھرآدم کو اس کے رب کی طرف سے بعض کلمات القا ہوئےجن پراللہ نے ان کی توبہ قبول کرلی،یقیناً وہ بہت زیادہ توبہ قبول کرنے والا رحم فرمانے والاہے۔ہم نے حکم دیاکہ تم سب جنت سے اترجاؤ ۔بعدمیں جب میری طرف سے تمہارے پاس کوئی پیغام ہدایت پہنچے گا،اس وقت تم میںسے جو شخص میری ہدایت قبول کرے گا اسے نہ کوئی خوف ہوگااور نہ اسے کوئی غم ہوگا۔اور وہ لوگ جو ہماری آیتوں کاانکار کریں گے ،ان کو جھٹلائیں گے،وہ جہنمی ہوں گے اورہمیشہ جہنم میں رہیں گے۔ انسان فرشتہ نہیں ہے،کیوںکہ اس کے خمیر میں امکان خطاہے اور وہ شیطان بھی نہیں ہے ،کیوںکہ اس کی فطرت میں توبہ وندامت ہے۔ایسے میں انسان اگر خطاؤں سے محفوظ رہاتو گویا وہ فرشتوںسے بھی آگے بڑھ گیاکہ امکان خطا ہوتے ہوئے بھی خطا سے محفوظ رہااور اگرخطاؤں پر اصرارکرتا رہا، خطاکےبعدبھی اس نے توبہ نہیں کی تو گویا وہ شیطان سے بھی نیچے گرگیاکہ اس کی فطرت میں جوہر توبہ وندامت ہوتے ہوئے بھی اس نے توبہ نہیں کی اور اپنی خطاپر مصر(Rigid)  رہا۔اس بات کو امام غزالی علیہ الرحمہ اپنے مخصوص لب ولہجے میں اس طرح لکھتے ہیں:  "صرف نیکی کا صدور مقرب فرشتوں کاخاصہ ہے اور صرف برائی پر قائم رہنا اورنیک عمل کرکے اس برائی کی تلافی نہ کرناشیطان کی فطرت، جب کہ غلطی ہوجانے کے بعداچھائی کی طرف رجوع ہوناانسانی خصوصیت ۔اس طرح خالص خیر کا انجام دینے والا بارگاہ الٰہی کامقرب فرشتہ ہوتاہے، فقط شر ہی شر پر عامل شیطان ہوتاہے اورخیر کی طرف رجوع ہوکر اپنے شر کی تلافی کرنے والا حقیقت میں انسان ہوتاہے۔گویا انسان کی فطرت میں دونوں صفات جمع ہیں اور ایک ساتھ اس کے اندر دونوں خصوصیتیں پائی جاتی ہیں۔ اس طرح ہر بندہ اپنا نسب یاتوفرشتوں سےملاتا ہے، یاآدم سےیا شیطان سے۔ توبہ کرنے والااپنا نسب حضرت آدم سے اپنا نسب جوڑتاہے اور اس پر دلیل وبرہان قائم کردیتا ہے ، کیوںکہ وہ انسان کی تعریف پر پوری طرح اترتا ہے اورجو شخص سرکشی وخودسری پر قائم رہ جاتا ہے گویاوہ شیطان کے ساتھ اپنانسب رجسٹرڈ کردیتا ہے۔"احیاءالعلوم،باب بیان توبہ،  مکتبۃ الصفا،قاہرہ،
توبہ کی تاریخ
انسانی دنیامیں بابائے انسانیت حضرت آدم علیہ الصلاۃ والسلام سے شروع ہوتی ہے ،ایک خاص حکمتکے تحت اللہ تبارک وتعالیٰ نے حضرت آدم کی تخلیق فرمائی، پھر ان کی عظمت کے اظہار کے لیے فرشتوں سے ان کا سجدہ کرایا۔ اس موقع پر ابلیس تکبراور خودپسندی کا شکارہوگیا اور سجدے سے انکارکردیا۔اس نےحکم ربانی کو بے چون وچرا تسلیم کرنے کے بجائے حضرت آدم سے اپنا تقابل کرناشروع کردیا،اس کا یہ تقابل بظاہر علمی منہج پر تھاکیوںکہ اس نے تجزیہ کرکے بتایاتھا کہ آدم کی تخلیق مٹی سے ہوئی ہے اور میری آگ سے اورمٹی پرآگ کو فضیلت ہونی چاہیے۔ لیکن اس کا وہ علم،ادب سے خالی تھا،اس لیے مردود ٹھہرا۔اس سے یہ حقیقت بھی معلوم ہوئی کہ اطاعت کے بالمقابل علمی منہج اختیار کرنا شیطانی طرزفکرہے،ملکوتی طرزفکریہ ہے کہ حکم ربانی کو بے چون و چرا تسلیم کرلیا جائے،اسلام دراصل تسلیم ہی کا دوسرانام ہے۔اس کے بعد حضرت آدم اپنی زوجہ حوا علیہا السلام کے ساتھ جنت میں رہنے لگے،انھیں اس بات کی اجازت تھی کہ ایک درخت کے سوا پوری جنت میں جہاں چاہیں جائیں اور جوچاہیں کھائیں۔یہ درخت کون سا تھا؟اس سلسلے میں مفسرین کا اختلاف ہے۔انگور،گیہوں،کھجور،انجیر وغیرہ مختلف الفاظ آئے ہیں۔اس سلسلے میں زیادہ صحیح بات وہ معلوم ہوتی ہے جسے امام ابن کثیر نے جعفر بن جریر سے نقل کیاہے کہ اللہ نے کسی متعین جنتی درخت سے قریب ہونے سے منع فرمایاتھا، وہ درخت کس چیز کا تھا،یہ بات ہمیں تحقیق سے نہیں معلوم ، کیوںکہ اس سلسلے میں نہ کوئی قرآنی آیت ہے،نہ کوئی صحیح روایت ہے اور نہ اس کو جاننا کوئی دینی یاعلمی حاجت ہے۔تفسیرابن کثیر،زیرآیت مذکورہ   
حضرت آدم کو سجدہ نہ کرکے ابلیس مردود بارگاہ ہوگیا ، لیکن اس کے ساتھ تاقیام قیامت اولاد آدم کو راہ حق سے گمراہ کرنے کے لیے خصوصی اجازت بھی حاصل کرلی ۔یہ سارے معاملات اللہ تعالیٰ کی خاص حکمت کے تحت عمل میں آئے۔ ان کے اسرار ورموز اورصحیح علل واسباب کیاہیں، ان کا علم صرف اور صرف اللہ کو ہے،یا ان کو ہے جنھیں اللہ نے حسب لیاقت ان اسرارورموز سے واقف کراناچاہا ۔جو بات ہمیں معلوم ہے وہ یہ کہ یہ سب کچھ انسان کی آزمائش وامتحان کے لیے ہوا۔اس کے سامنے خیروشر کا آپشن دےدیا گیا،ان میں سے جس کوچاہےوہ اختیار کرے،یہ اختیار اسے مل گیا، پھر شرکی طرف خواہش ونفس کامیلان کردیاگیا،نیز وسوسے ڈالنے والے شیاطین کو انسانوںپر مسلط کردیاگیا کہ وہ انسان کے اندروسوسے ڈالتےرہیں،یہ انسان کاکام ہےکہ وہ ان وسوسوں کوترک کرے اور حق کے حضور بے چون وچرا سرتسلیم خم کردے۔ شیطان نے اپنے معرکے کاآغاز حضرت آدم سے کیا، اس نے سب سے پہلے حضرت آدم علیہ الصلاۃ والسلام کولغزش دینے کی کوشش کی،شیطان نےان کو بتایاکہ تمھیں اس درخت سے اس لیے منع کیاگیاہےکہ کہیں تم ان کو کھاکر فرشتہ نہ بن جاؤ،یاحیات جاوید نہ پالو۔اس نے حلفیہ طورسے یہ کہاکہ وہ ان کا دشمن نہیں،خیر خواہ ہے۔ (اعراف:۲۱-۲۰ اللہ کاکرنادیکھئے کہ حضرت آدم علیہ الصلاۃ والسلام حکم ربانی بھول گئے اورغیرارادی طورپر شجر ممنوعہ کاپھل کھالیا، جس کی پاداش میں انھیں جنت سے باہر نکل جانے کا حکم آگیا۔وہ زمین پر آگئے اوراپنے رب کے حضورگریہ وزاری اورتوبہ و استغفار کرتے رہے۔ بالآخرانھیں رب کے حضورسے کچھ خاص کلمات ِدعاالہام کیے گئے،آپ نے ان کلمات کے ساتھ اللہ کے حضورتوبہ کی اورآپ کی توبہ قبول فرمالی گئی۔ وہ کلمات جو خصوصی  طورپر حضرت آدم علیہ الصلاۃ والسلام کوالہام فرمائے گئے تھے جن کے توسط سے آپ کی توبہ قبول کی گئی ،وہ کیاتھے؟اس سلسلے میں مختلف اقوال ہیں: ایک قول یہ ہے کہ یہ کلمات وہ الفاظ ہیں جوحضرت آدم وحواکی طرف سےبطورتوبہ سورۂ اعراف ،آیت:۲۳میں مذکور ہیں،وہ الفاظ یہ ہیں:
رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنْفُسَنَا وَإِنْ لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِيْنَ۔(اے ہمارے رب!ہم نے اپنی جانوںپر ظلم کیاہے،اگرتم نے معاف نہیں کیااوررحم نہیں فرمایاتو ہم خائب وخاسرہی رہیں گے۔قرآن کریم کی اس آیت سے کلمات توبہ کے ساتھ ہمیں آداب توبہ بھی حاصل ہوتے ہیں۔بہرکیف!حضرت آدم کی توبہ قبول ہوگئی اوروہ مقبول بارگاہ ہوگئے۔حضرت آدم علیہ الصلاۃ والسلام کے رجوع وتوبہ کے سلسلے میں اہل علم نے بہت سی بحثیں کی ہیں،اسی طرح توبہ کے اسرارورموز اورآداب وشرائط پر بھی بہت کچھ لکھاگیاہے۔ہم یہاں امام عبدالوہاب شعرانی اوران کے شیخ عارف ربانی حضرت علی خواص کاایک مکالمہ نقل کرتے ہیں،امام شعرانی لکھتے ہیں:’’ہم نے اپنے شیخ علی خواص علیہ الرحمہ سے ایک مرتبہ پوچھاکہ احکام شرعیہ کی مشروعیت کاسبب کیاہے؟ جب کہ اللہ تو پوری کائنات اور سب کی عبادتوں سے بے نیاز ہے۔شیخ نے فرمایا:اس کا سبب اولاد آدم کے لیے کمال توبہ کی راہ ہموار کرناہے کہ جب ان سے ممنوعات کا ارتکاب ہوجائے تو وہ توبہ ورجوع کریں۔اس طرح وہ تمام احکام وآداب جن کا اللہ نےاولادِآدم کومکلف بنایا ہے،ان کے لیے کفارے کا درجہ رکھتے ہیں۔
میں نے عرض کی:بعض اولادآدم توایسے ہیں جن سے احکام خداوندی کی مخالفت ممکن ہی نہیں ہے؟
شیخ نے فرمایا:اگرحکم شرع کی مخالفت ہوتو کفارہ ہوگا بصورت دیگررفع درجات کے لیے ہوگا،جیساکہ انبیاعلیہم الصلاۃ والسلام کے لیے ۔میں نے عرض کی:اگر انبیاکے لیے رفع درجات کامعاملہ ہے توپھراللہ تعالیٰ کے اس فرمان کے کیامعنی ہیں؟وَعَصٰى آدَمُ رَبَّهٗ فَغَوىٰ۔ (طہ:۱۲۱)اورآدم نے اپنے رب کی نافرمانی کی اوربھٹک گئے)۔ اس پر حضرت شیخ نے فرمایا:اے عزیز!یہ یادرکھوکہ اللہ تعالیٰ نے انبیاکے حوالے سے معصیت اور خطاکے  جو الفاظ بیان کیے ہیں وہ سب بطورمجاز ہیں،کیوں کہ کوئی پیغمبر لمحہ بھرکے لیے بھی مقام احسان سےنیچے نہیں آیا اور مقام احسان مشاہدۂ حق کامقام ہے،جس میں کسی کے لیے معصیت کا ارتکاب ممکن ہی نہیں ہے۔معصیت توان لوگوںسے سرزد ہوتی ہے جو مقام مشاہدہ سے محجوب ہوتے ہیں۔ الحاصل ،انبیا کے معاصی اورخطاصوری ہوتے ہیں، معنوی اورحقیقی نہیں ہوتے اورایسا اس لیے ہوتا ہے،تاکہ بالواسطہ ان کی گنہگار امتوں کے سامنے ان کی طرف سے اتمام حجت ہوجائے اور وہ نفوس قدسیہ اپنی گنہ گارامتوں کوتوبہ و استغفار کے ذریعے تقرب الی اللہ کے آداب سکھا سکیں اور وصل کی طرح ہجر کی لذت یافراق کی طرح وصال کی عظمت کو جان سکیں،کیوںکہ چیز یںاپنی ضدسے پہچانی جاتی ہیں۔
شیخ نے مزیدکہا:میرےعزیز!میں اس کی مزید وضاحت کرتا ہوں۔حضرت آدم علیہ الصلاۃ والسلام کے واقعے کی مثال ایک عظیم بادشاہ کی ہے،ایک دن اللہ تعالیٰ نے اپنی بارگاہ خاص میں موجودین سے کہا:میں ایک خاص دنیا آباد کرنا چاہتاہوں،اس میں کتابیں نازل کروںگااور اوامرو نواہی کے ساتھ اپنے پیغمبربھیجوںگا، جوان کی اطاعت کریں گے ، ان کے لیے ایک ٹھکانہ بناؤں گا جس کانام جنت ہوگااور جوان کی نافرمانی کریں گے ان کے لیے ایک ٹھکانہ بناؤں گا جس کا نام جہنم ہوگااورمیں اپنے بندے آدم کی پشت سے ایک نسل پیداکروںگا،جوزمین کو آبادکرے گی،میں آدم پر ایک درخت کاپھل کھانامقدر کردوں گا اور بظاہر اسے اس درخت سے قریب جانےسے منع کردوں گا۔اس کے بعدمیں اس کی نسل کو مختلف احکام کامکلف کردوںگا،پھر آدم اوراس کی معصوم اولاد پرمجازاًحجت قائم کردوںگا،اسی طرح آدم کی غیرمعصوم اولادپر مجازاً نہیں بلکہ حقیقتاًحجت قائم کردوں گا، پھر میں اسے اس جنت سے باہر نکال دوںگا جہاں اس نے شجرممنوعہ سے کھایاہوگااور اسے ایک دوسری جگہ آبادکروں گا  جس کا نام دنیاہوگااورمیں اس جگہ اس کے مقام کو کمال تک پہنچاؤں گا۔اب جس کی خواہش ہوکہ وہ مقام آدم پر فائز ہووہ آگے بڑھے۔اس وقت حضرت آدم علیہ الصلاۃ والسلام آگے بڑھے اورعرض کی:اس آزمائش کے لیے میں ہوں،اس کے لیے میںحاضرہوں۔ان کا مقصدیہ تھاکہ بندوں کے حوالے سے اللہ کی قضاوقدر نافذہو۔ اس مجلس اتفاق میں جوحاضرتھا وہ حضرت آدم کے حوالے سے خالص معصیت کی بات نہیں کرسکتا،بلکہ وہ یہ کہےگا کہ اس میں رب کی طاعت شامل تھی۔برخلاف اس کے جواِس مجلس سے غائب تھا وہ حضرت آدم کو معصیت سے متصف کرتاہے اورمحجوبین کایہ حال ہوتاہی ہے ۔گویااس واقعے میںسب سے بڑی مصلحت محجوبین کے لیےہے کہ قضائے الٰہی سے اگر وہ معصیت میں گرفتار ہوجائیں توان کے لیے رب کی عفوومغفرت کاظہورہو اوراگران کی فطرت سے اطاعت وتسلیم کاصدور ہوتووہ اللہ کی نوازش وعطاکا جلوہ دیکھیں۔ گویا حضرت آدم علیہ الصلاۃ والسلام نے ظاہری آہ وفغاں اور حزن وملال اپنی ان محجوب اولاد کے لیے کیاتھا جو حدودِالٰہی کی پامالی کرنے والی تھیں ۔گویا آپ نے اپنے واقعے کے ذریعے اپنی اولاد کے لیے باب مغفرت کھول دیا۔‘‘  میزان کبریٰ،خاتمہ،جلد:۲،دارالکتب      العلمیہ،بیروت۱۹۹۸ یہ تفصیل حضرت شیخ علی خواص کے کشف پر مبنی ہے، تاہم یہ بات نص قرآنی سےبھی واضح ہوتی ہے کہ اگرچہ بظاہر حضرت آدم علیہ السلام سے معصیت کاصدورہوا(وَعَصٰى آدَمُ رَبَّهٗ فَغَوىٰ۔(طہ:۱۲۱)لیکن ان کو ہم عاصی نہیںکہہ سکتے ، کیوںکہ ان پر نسیان طاری ہوگیاتھا۔ (فَنَسِیَ وَلَمْ نَجِدْ لَہٗ عَزْماً۔طہ:۱۱)اور بھولنے والے کو ہم گنہ گار نہیں کہتے،اسی لیے فقہا نے لکھا ہے کہ بھول کر کھانے پینے سے روزہ نہیں ٹوٹتا۔ 

No comments:

Post a Comment