ہر
دور میں اسلام اور مسلمانوں کو مٹانے اور ان میں اختلاف و انتشار پیدا کرنے کی بھرپور
کوشش کی گئی اور مسلمانوں کے عقائد و اعمال کو بگاڑنے کے لیے طرح طرح کے فتنے اور فساد
برپا کیے گئے لیکن اللہ عزوجل نے ہر دور میں دین اسلام کی حفاظت و صیانت کے لیے اپنے
ایسے محبوب بندوں کو بھیجا جنہوں نے اپنی خداداد صلاحیت اور مساعی جمیلہ سے کفر و شرک
کی تیز تر آندھیوں کا مقابلہ کیا اور مسلمانوں کو آپسی انتشار سے بچا لیا اللہ کے انہیں
محبوب بندوں میں سےامام المتکلمین مجاہد جنگ ازادی علامہ فضل خیرآبادی چشتی علیہ الرحمہ کی ذات بابرکات ہے
جو نہ صرف ایک متبحر عالم دین، زبردست مفتی اور مستند مرجع خلائق تھے بلکہ ایک عظیم
حکیم و فلسفی شاعر و ادیب اور بہترین دینی و ملی قائد و رہنما بھی تھے ۔
ولادت
و نام نسب :
1212ھ مطابق 1797 ء میں اپنے آبائی وطن خیرآباد ضلع سیتاپور میں پیدا
ہوئے آپ کا نام فضل حق اور والد کا نام فضل امام ہے۔
سلسلۂ نسب :
فضل
حق چشتی علیہ الرحمہ بن مولانا
فضل امام بن شیخ محمد ارشد بن حافظ محمد صالح بن ملا عبدالواحد بن عبدالماجد بن قاضی
صدر الدین بن قاضی اسماعیل ہرگامی بن قاضی محمد عماد الدین بدایونی بن شیخ ارزانی البدایونی
بن شیخ منور بن شیخ خطیرالملک بن شیخ سالار شام بن شیخ وجیہ الملک اس طرح 32 واسطوں
سے آپ کا نسب امیر المومنین خلیفۃ المسلمین خلیفۂ دوم حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی
عنہ تک پہنچتا ہے۔(باغی ہندوستان)
تعلیم
و تربیت :
آپ
نے آنکھ کھولی تو گردو پیش علم و فضل اور امارت و ریاست کا جلوہ دیکھا ابتدائی تعلیم
اپنے والد ماجد مولانا فضل امام سے حاصل کی اس کے بعد والد نے درس حدیث وغیرہ کی تعلیم
کے لیے حضرت شاہ عبدالقادر محدث دہلوی کے سپرد کیا تو آپ نے ان سے علوم و فنون کے ساتھ
ساتھ فیوض و برکات حاصل کی ان کے علاوہ آپ نے وقت کے بہت سے علماء کرام سے استفادہ
کیا جن میں حضرت علامہ شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی کا نام سر فہرست ہے ۔
ذہانت
و فطانت :
آپ
علیہ الرحمہ بچپن ہی سے بہت ذہین و فطین تھے
آپ کی ذہانت و فطانت کا عالم یہ تھا کہ آپ نے چار ماہ اور چند دنوں میں حفظ قرآن مکمل
کیا اور تیرہ برس کی عمر میں تمام علوم دینیہ سے فارغ ہو گئے آپ کی ذہانت و فطانت کا
اندازہ اس سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ جب حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی نے رد شیعہ
میں تحفۂ اثنی عشرہ محققانہ انداز میں تحریر فرمائی تو ایران سے میر باقر داماد اونٹوں
پر کتب فریقین بار کر کے شاہ صاحب سے مناظرہ کے لیے دہلی پہنچا خانقاہ میں داخل ہونے
پر شاہ صاحب نے فرائض میزبانی ادا کی مولانا فضل حق حاضر ہوئے کیفیت معلوم کی پھر مجتہد
صاحب نے پوچھا :-میاں صاحبزادے کیا پڑھتے ہو" عرض کیا شرح اشارات شفا اور افق
المبین وغیرہا دیکھتا ہوں مجتہد صاحب کو بڑی حیرت ہوئی افق المبین کی کسی عبارت کا
مطلب پوچھ لیا آپ نے ایسی مدلل تقریر کی کہ متعدد اعتراضات صاحب افق المبین پر کر گئے
معزز مہمان نے اعتراضات کی جواب دہی کی کوشش کی تو ان کو جان چھڑانا اور بھی دوبھر
ہو گئی جب خوب عاجز کر لیا تو اپنے شبہات کے ایسے انداز میں جوابات دیے کہ تمام ہمراہ
علماء بھی انگشت بدنداں ہو گئے ۔آخر میں آپ نے یہ بھی اظہار کیا کہ حضرت شاہ صاحب کا
ادنی شاگرد اور کفش برادر ہوں اور اظہار معذرت کرتے ہوئے رخصت ہوئے۔
علمائے ایران نے اندازہ کر لیا
کہ اس خانقاہ کے بچوں کے علم و فضل کا جب یہ عالم ہے تو خود شیخ خانقاہ کا کیا حال
ہوگا اس وقت آپ کی عمر 12 سال تھی بارہا دیکھا گیا کہ جو لوگ آپ کو یگانۂ فن سمجھتے
تھے جب ان کی زبان سے ایک حرف سنا دعواۓ
کمال کو فراموش کر کے نسبت شاگردی کو اپنا فخر سمجھتے اس طرح آپ کی ذہانت و فطانت سے
متعلق مختلف واقعات ہیں غالب کا شعر ہے : "چہ نسبت خاک را با عالم پاک"
علامۃ
الہند مولانا معین الدین رام پور کے ایک اعلی عہدے دار کے متعلق روایت کرتے ہیں کہ
ان کا قول تھا میں اس وجہ سے مسلمان ہوں کہ حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی اور علامہ فضل
حق خیرآبادی مسلمان تھے غور کرنے کا مقام ہے کہ اول الذکر کے کمالت روحانیت اور ثانی
الذکر کی ذہانت و فطانت کا سکہ لوگوں کے دلوں پر کیسا جمع ہوا تھا ان کے عہدے دار کے
کہنے کا مقصد یہ تھا کہ فضل حق جیسا ذہین و فتین انسان جس مذہب کو حق جانے وہ یقینا
حق ہوگا۔
شعر
و شاعری :-
وطن
مالوف خیر آباد علم و ادب کا مرکز بنا ہوا تھا علمی و ادبی مجالس شعر و شاعری کی جلوہ
گری قدم قدم پر نظر آتی تھی ذہانتو جودت طبع خلق بے نیاز کی جانب سے پہلے ہی ودیعت
ہو چکی تھی جہاں تیرہ سال کی عمر میں سند تکمیل معقولات و منقولات حاصل کی تھی وہیں
فنون ادبیہ میں بھی مہارت تامہ پیدا کر لی تھی بچپن ہی سے شعر کہنا شروع کیا عربی فارسی
دونوں زبانوں میں شعر گوئی کی علامہ نے ادب عربی میں وہ کمال پیدا کیا کہ عرب کے معاصرین
شعرا سے کہیں زیادہ سبقت لے گئے نظم کی طرح نثر میں بھی شاعری کی ہے رسالہ "الثورۃ
الہندیہ" اور بعض خطباء خطبات اس کے شاہد و عادل ہیں علامہ نے پچاسوں قصیدے کہے
ہیں جن میں نعت کا حصہ زیادہ ہے ہزارہا اشعار مختلف بیاضوں میں (جو دست برد زمانہ سے
محفوظ ہیں) موجود ہیں ۔
عربی
قصائد کے چند نمونے پیش کیے جاتے ہیں :-
يا
سائلا عن شانه يغنيك عن تبيانه -دمع جرى في شانه هملا
و فراط انانه
قصیدۂ
نعتیہ :-
خفا
خفي فواه دمعه الجاري -لما خفا بارق باري
السنا شارى ۔
درس
و تدریس و تلامذہ :-
علوم
دینیہ سے فراغت کے بعد علامہ 13 برس کی عمر اور مسند تدریس پر رونق افروزی عجیب سا
واقعہ معلوم ہوتا ہے حلقہ درس میں معمر صاحب ریش و بروت تلامذہ اور قدماء کی کتابیں
زیر درس ،
ایں
سعادت بزور بازو نیست ،تا نہ بخشد خدائے بخشندہ
ہند
و بیرون ہند سے جو طلبہ مولانا فضل امام سے پڑھنے آتے مولانا کے ارشاد کے مطابق علامہ
انہیں بھی پڑھاتے 1809 ء سے لے کر 1858 ء تک مسلسل 50 برس تک تدریس کا سلسلہ جاری رہا
آپ کے فیض یافتہ بے شمار علماء آسمان علم و فضل پر مہر و ماہ بن کر چمکے اور ایک عالم
کو فیض یاب کیا آج ہندو پاک کا شاید ہی کوئی مدرسہ ایسا ہو جہاں آپ کا فیض جاری نہ
ہو۔
آپ
کے تلامذہ کے اسماء :
· علامہ عبدالحق خیر آبادی (فرزند ) علیہ
الرحمہ
· علامہ مولانا ہدایت اللہ خان جون پوری علیہ
الرحمہ استاد صدر الشریعہ مولانا امجد علی
اعظمی صاحب بہار شریعت
· محب الرسول مولانا شاہ عبدالقادر بدایونی علیہ
الرحمہ
· مولانا محمد عبداللہ بلگرامی علیہ الرحمہ
· مولانا عبدالعلی رام پوری استاد امام احمد رضا
خان علیہ الرحمہ
· مولانا فیض الحسن سہارنپوری علیہ الرحمہ
تصانیف :
-
علامہ
علیہ الرحمہ نے مختلف مصروفیات اور درس و تدریس
کے اشتغال کے باوجود تصنیف و تالیف کا سلسلہ ہمیشہ جاری رکھا خاص اور اہم مجبوریوں
کے سوا کبھی اس سے تساہل نہ برتا علامہ کی تصانیف درجنوں ہیں جن میں مشہور حسب ذیل
ہیں :-
الروضوالمجود فی تحقیق حقیقۃ الوجود،
حاشیہ افق المبین، حاشیہ تلخیص المفتاح ، رسالہ الثورۃ الہندیہ ،تحقیق حقیقۃ الاجسام
،امتناع النظر، تحقیق الفتوی فی ابطال الطغوی ، شرح تہذیب الکلام، الجنس الغالی شرح
جواہر المالی، حاشیہ شرح سلم قاضی مبارک اور ہدیۂ سعیدیہ یہ وہ کتاب ہے جس میں زمین
کی حرکت پر علامہ فضل حق خیر آبادی نے کافی دلائل قائم کر کے موجودہ سائنس کے تحقیقات
کو غلط ثابت کیا اور مخالفین کے دلائل کو پاش پاش کر دیا ہے۔
خلف
الرشید مولانا عبدالحق کو ریزی ڈنسی آتے جاتے وقت ہاتھ یا پالکی میں موجود جو سبق دیے
جاتے تھے ہد یہ سعیدیہ انہی کا مجموعہ ہے جزیر انڈمان میں بعض اسیر فرنگ علماء نے دریافت
کیا کہ ہندوستان میں کیا یادگار چھوڑی ہے ، فرمایا :دو یادگاریں چھوڑ کر آیا ہوں ایک
حاشیہ شرح سلم قاضی مبارک اور دوسری یادگار برخودار عبدالحق یہ تصانیف اپنے مصنف کے
علمی تبحر، قوت استدلال، زور بیان اور کمال فصاحت و بلاغت پر شاہد و عادل ہیں انہوں
نے اپنی نگارشات میں ایسی تحقیقات پیش کی ہیں جن کے مطالعہ اہل علم کو وجد آئے پھر
لطف یہ کہ وہ زیادہ تر اپنے ذہین رفیع کے نتائج قلم بند کرتے ہیں بعض لوگوں کی طرح
یہ نہیں کرتے کہ دوسروں کی عبارت نقل کر کے نیچے اپنا نام لکھ دیں ۔
بحث
و مناظرہ :
جب
اسماعیل دہلوی نے تقویۃ الایمان لکھی تو اس میں حد استدلال سے تجاوز کر گیا اس کا خود
مصنف کو احساس تھا جب حج کو جانے کا ارادہ کیا تو اپنے میرو مرشد سید احمد رائے بریلوی
مولانا عبدالحی، مولانا محمد اسحق ، مولانا محمد یعقوب کو جمع کر کے ایک مبسوط تقریر
کی آپ نے کہا میں جانتا ہوں کہ اس تقویۃ الایمان میں بعض جگہ ذرا تیز الفاظ بھی آگئے
ہیں اور بعض جگہ تشدد بھی ہو گیا ہے مثلا ان امور کو جو شرک خفی ہیں شرک جلی لکھ دیا
گیا ہے ان وجوہ سے مجھے اندیشہ ہے کہ سورش ضرور پھیلے گی۔ اس افراط و غلو کا نتیجہ
یہ ہوا کہ مولانا کے جذبہ اصلاح اور وعظ و ارشاد کی قدر کرنے والے اور پرانے ساتھی
بھی مولانا کی مخالفت کے بغیر نہ رہ سکے انہیں میں سے مولانا فضل حق خیرآبادی بھی تھے
علامہ کی دور بین نگاہوں نے تاڑ لیا تھا کہ یہ تو آسمان سے گر کر کھجور پر اٹکنا ہوا
تقریظ ہو گئی تو افراط پیدا ہو کر رہے گا ایسے مواقع پر پہلو تہی اور خاموشی عظیم گناہ
ہے۔
علامہ علیہ الرحمہ نے تو پہلی یہی کوشش کی کی دونوں طرف اس ہنگامہ اور
مسلمانوں کی باہم جنگ و جدال کو قانونی طور پر روک دیا جائے تاکہ ایک طرف عوام بھی
مطمئن ہو جائیں اور دوسری جانب شاہ صاحب کے لیے بھی بار خاطر نہ ہو اس میں مستقل طور
پر کامیابی نہ ہو سکی تو ایسے اختلافی مسائل کو علمی طریقہ پر باہمی طے کرنانا مناسب
سمجھاتاکہ عوام میں علمی مسائل کھلونا بن کر مزید گمراہی کا سبب نہ بنیں چنانچہ میدان
قرطاس پر اشبہانی قلم نے دوڑنا شروع کیا سمندہائے خامہ نے وہ جولانیہ دکھائیں کہ مخالف
و موافق سبھی داد روانی دیے بغیر نہ رہ سکے علمی موشگافیاں، فنی بارکیاں منشۂ شہود
پر جلوہ گر ہونے لگیں رفع یدین ،آمین بالجہر وغیرہما پر خامہ فرسانی ہونے لگی موافق
و مخالف علماء بھی میدان میں اتر آئے بڑا مسئلہ امکان نظیر اور امتناع نظیر کا چھڑ
گیا اس مسئلہ میں شاہ اسماعیل صاحب کی یہ رائے تھی کہ خاتم النبیین کا مثل ممکن بذات
اور ممتنع بالغیر ہے علامہ ممتنع بالذات مانتے تھے اس مسئلہ پر رسول کریم صلی اللہ
علیہ وسلم کی نظیر کے ممتنع بالذات ہونے پر جو دلائل و براہین قائم کیے ہیں انہیں دیکھ
کر بے ساختہ مرحبا و احسنت زبان پر اتا ہے اور اس مسئلہ پر علامہ کی ایک مستقل کتاب
مناظرانہ انداز پرشائع ہے علمی و فنی حیثیت سے وہ گلگاریاں ہیں کہ صفحات کتاب تحتۂ
چمنستان بن گئے ہیں اسی ایک کتاب پر کیا موقوف ہے تمام تصانیف کو دیکھ کر یہی کہنا
پڑتا ہے :-
و
ليس علي الله بمستنكر -ان يجمع العالم في
واحد
ملازمت
:-
علوم
دینیہ سے فراغت کے بعد ایک عرصہ تک بمقام جھجھر رہے پھر مہاراجہ الور نے بلا لیا کچھ
دن سہارن پور میں قیام رہا نواب ٹونک کے پاس بھی رہے اس کے بعد نواب یوسف علی خان نے
رامپور بلا لیا خود تلمذ اختیار کیا اور محکمہ نظامت اور مرافع عدالتین میں منسلک کر
دیے گئے آٹھ برس رام پور رہنے کے بعد لکھنؤ چلے گئے وہاں صدرالصدور بنائے گئے زمانہ
ملازمت میں تمام امور دیانت داری اور زیرکی سے انجام دیے حکام و رعایا دونوں خوش رہے
آپ کی اس قدر انصاف پروری وہ ہر دل عزیزی کی وجہ سے بلند اقبال عبدالحق کی پیدائش پر
رعایہ نے اور بالخصوص برادران وطن نے تحفے تحائف کے علاوہ لاکھوں روپے نظر کیے ۔
جنگ
آزادی میں اہم کردار :-
مرد
مجاہد حضرت علامہ فضل حق خیر آبادی رحمۃاللہ تعالی علیہ آزادی کا سب سے پہلے سنگ بنیاد
رکھنے والے تھے ہندوستان کی سرزمین پر فرنگی نصرانیوں کی آمد عہد جہاں گیری میں شروع
ہوئی جب کی اس کے لیے اکبری دور میں راہ ہموار ہو چکی تھی دولت ہندوستان کے طمع نے
برطانیہ کے انگریزوں فرانسیسوں اور پرتگالیوں کو ایشیا کے اس خطۂ بر صغیر کی طرف متوجہ
کیا انگریزوں نے تجارت کی آڑ میں ایسٹ انڈیا کمپنی قائم کی اور اپنی مفادات کے اہداف
کا دائرہ وسیع کرتے کرتے پہلے جنوبی ہندوستان کے مغل فرمان رواؤں کی خاموشی سے فائدہ
حاصل کرتے ہوئے دیگر ریاستوں کے حکمرانوں (جن میں ہندو اور مسلمانوں دونوں شامل ہیں)
سے دوستی شروع کی ولی صفت مغل فرمان روا حضرت مجدد مائۃ اثنا عشرہ محی الدین اورنگ
زیب عالم گیر علیہ الرحمہ کے وصال کے بعد انگریزوں کی ریشہ دوانیوں اور مکاریوں کا
دائرہ وسیع ہو گیا اورنگ زیب عالم گیر علیہ الرحمہ کے جانشینوں کی کمزوری کے باعث مغل
سلطنت سمٹنے لگی دیگر ہندو راجاؤں اور مسلمان نوابوں کو انگریزوں نے آپس میں ایک دوسرے
سے برسر پیکار کر دیا اور ہر دو فریق مسلمانوں اور ہندوؤں کو جدید وسائل کے لالچ میں
مکارانہ دوستی اختیار کرنے کی تلقین کرنے لگے ایسے ہی موقع پر اللہ تعالی نے سلطان
حیدر علی علیہ الرحمہ سلطان ٹیپو شہید علیہ الرحمہ کو اسلامیان بر صغیر کی قیادت سپرد
کی لیکن نظام دکن راجہ پونا ، نواب اور اراکاٹ اور مغلوں کی عدم توجہ سلطنت عثمانیہ
کے اپنے مسائل اور بعض غداران وطن ( میر جعفر میر صادق وغیرہ )کہ باعث پورے ہندوستان
پر انگریزوں کا غاصبانہ قبضہ ہو گیا ازاں بعد ہندوستان کے وسائل سے اہل ہندوستان کو
محروم رکھا جانے لگا ظلم و ستم سے عوام و خواص نواب حکام اور دانش ور علماء کوئی بھی
محفوظ نہ رہے سلطنت مغلیہ کے آخری تاجدار بہادر شاہ ظفر کو ایک صبح ناشتے میں ان کے
شہزادگان کے کٹے ہوئے سر پیش کیے ایسے موقع پر اسلامیان ہندوستان کی قوت کو ایک مرکز
پر مجتمع کرنے کے لیے اور روح جہاد پھونکنے کے لیے علماء اہل سنت کا ایک گروہ بطل حریت
امام المتکلمین علامہ فضل حق خیرآبادی کی قیادت میں انگریزوں کے خلاف صف آرا ہوا ہندو
فطرتا بزدل واقع ہوئے ہیں لہذا ان سے کسی خیر کی توقع نہ تھی اس لیے مسلمانوں میں جذبہ
حریت بیدار کرنے کے لیے علامہ فضل خیرآبادی علیہ الرحمہ نے انگریزوں کے خلاف جہاد کا
فتوی دیا ہندوستان کے تمام اجلہ و مقتدر علمائے کرام نے اس کی تائید و توثیق فرمائی
اور اس کے بعد علامہ فضل حق خیرآبادی علیہ الرحمہ نے دیکھا کہ یہ انگریز ہمارے ذہنوں
میں چھا جائے گا مسلمان کی نسل کشی کرے گا ہمارے مذہب اور تشخص کو تباہ و برباد کر
دے گا علامہ فضل حق خیرآبادی نے خلاف جہاد فتوی دیا جس کو علامہ مشتاق احمد نظامی نے
اسے ان الفاظ میں بیان کیا ہے کہ" آخر علامہ فضل حق علیہ الرحمہ نے ترکش سے آخری تیر نکالا بعد نماز جمعہ جامع مسجد
میں علماء کے سامنے تقریر کی اور استفتا پیش کیا مفتی صدرالدین خاں علیہ الرحمہ ، مولوی عبدالقادر قاضی فیض اللہ، مولانا فیض احمد
بدایونی، وزیر خان اکبر آبادی، سید مبارک حسین رامپوری نے دستخط کر دیے انگریزوں کے
دلوں میں یہ بات تھی کہ اگرچہ ہم نے اس تحریک کو بظاہر کچل دیا ہے مگر مسلمانوں کے
دلوں سے جذبۂ جہاد نہیں نکال سکتے یہ بہت مشکل کام ہے ملکہ وکٹوریا نے ایک چال چلی
وہ چال یہ تھی کہ ہندوستان میں یہ اعلان کر دیا جائے کہ جتنے بھی باغی ہیں سب کو معاف
کر دیا جائے سب کو معاف کر دیا ہے آپ اس وقت مجاہدین کی دہلی میں تربیت کر رہے تھے
دہلی سے آپ علی گڑھ تشریف لے گئے علی گڑھ میں آپ کچھ عرصے رہے وہاں مجاہدین کی مدد
کرتے رہے جبکہ انگریز نے یہ اعلان کیا کہ باغیوں کو معاف کر دیا گیا ہے سارے مجاہدین
باہر آگئے علامہ فضل حق خیرآبادی صاحب بھی اپنے وطن خیرآباد تشریف لے آئے، آپ خیر آباد
پہنچے ہی تھے کہ کچھ دنوں کے بعد کسی نے یہ مخبری کر دی کہ یہ وہی علامہ فضل حق صاحب
ہیں جنہوں نے انگریز کے خلاف جہاد کا پہلا فتویٰ دیا تھا چنانچہ سازش کے تحت آپ کو
لکھنو لے جایا گیا وہاں آپ پر بغاوت کا مقدمہ چلا جس جج کے سامنے آپ پیش ہوئے اس جج
نے بھی آپ سے کچھ کتابیں پڑھی تھیں وہ جج بھی یہی چاہتا تھا کہ علامہ صاحب کسی طرح
مقدمے سے نکل آئیں اور سزا سے بچ جائیں جب آپ کے رہا ہونے کی منزل قریب آئی تو جج نے
آپ کے کان میں کہا کہ علامہ صاحب آپ صرف اتنا کہہ دیں کہ یہ فتویٰ میں نے نہیں دیا
آپ سزا سے بچ جائیں گے جج یہ کہہ کر اپنی کرسی پر بیٹھ گیا جب جج نے آپ سے پوچھا کہ
آپ نے انگریز حکومت کے خلاف جہاد کا فتوی دیا ہے آپ نے گرج دار لہجے میں کہا کہ میں
نے ہی انگریزوں کے خلاف جہاد خلاف فتویٰ دیا ہے اور اس کے عوض مجھے جو سزا ملے گی میں
اس کو قبول کروں گا
آئین جواں مرداں حق گوئی و بے باکی- اللہ کے شیروں کو آتی نہیں
روباہی
اسلامیان
ہند کی سیاسی آزادی کے محاذ کے علاوہ علامہ فضل حق خیرآبادی علیہ الرحمہ نے مسلمانوں
کے عقیدہ کی حفاظت و صیانت کی جنگ بھی لڑی اپنی کتب و رسائل کے ذریعہ آپ نے دین و ملت
اور علم و فن کی عظیم الشان خدمات انجام دیں امتناع النظیر اور تحقیق الفتوی نے اس
بھیانک سیلاب کے آگے بند باندھ دیا جس نے امکان کذب باری تعالی و امکان نظیر محمد خفیف
شان رسالت کے عقیدہ فاسدہ کے ساتھ مسلم آبادیوں کو طرح طرح کے خطرات سے دوچار کر دیا
تھا علامہ فضل حق خیرآبادی سرتا پا غرق بحر علم و حکمت اور سرچشمہ فضل و کمال تھے اس
لیے ہر چیز میں ان کی نگاہ انتخاب جوہر علم پر جا کر ٹھہر جاتی تھی
اخلاق و عادات
:۔
آپ
علیہ الرحمہ بڑے فیاض، سخی اور رحم دلو واقع
ہوئے تھے دوسروں کی تکلیف دیکھ نہ سکتے تھے دادو دہش کا سلسلہ ہمیشہ جاری رہتا دوستوں
اور ساتھیوں کے ساتھ حسن سلوک آپ کا طرہ امتیاز تھا ایک بار حکیم مومن خاں مومن شطرنج
کھیلنے سے کسی بات پر ناخوش ہو کر اٹھ کر چلے گئے تو دوسرے وقت ان کے یہاں جا کر انہیں
منا لائے مومن اس واقعہ کے متعلق لکھتے ہیں سو جان سے بلائیں تو جائیں نہ ہم کبھی
مومن نہیں جو ربط رکھیں بدعتی سے
ہم
ٹھانی تھی دل میں اب نہ ملیں گے
کسی سے ہم
پر کیا کریں ہو گئے ناچار جی سے
ہم ۔
زہد و تقوی
:-
علامہ
علیہ الرحمہ ظاہری شان و شوکت اور علمی فضیلت
کے باوجود شریعت مطہرہ اور سنت مبارکہ پر عمل پیرا اور عابد شب زندہ دار تھے مولانا
عبداللہ بل گرامی فرماتے ہیں اللہ کے دیے ہوئے طاقتور ہاتھی اور عمدہ گھوڑے انہیں اللہ
تعالی کے امرونواہی کی اطاعت سے باز نہیں رکھ سکتے تھے وہ ان لوگوں میں سے تھے جنہیں
بیع اور تجارت اللہ تعالی کے ذکر سے نہیں روک سکتی ان کا جسم بادشاہ کی صحبت میں اور
دل یاد الہی میں مصروف ہوتا ہر ہفتہ باقاعدگی سے قرآن عظیم ختم کیا کرتے تھے رات کے
وقت نوافل میں مصروف ہوتے جب دوسرے لوگ سو رہے ہوتے تھے جس شخص کے نوافل کا یہ حال
ہو اس کے فرائض کا اندازہ کیا جا سکتا ہے علامہ فضل حق کو اللہ تعالی نے دل درد مند
اور بیدار عقل عطا فرمائی تھی آپ تمام علوم و فنون سے فارغ ہو کر 1225 ھ مطابق
1809 ء میں سلسلہ عالیہ چشتیہ میں حضرت دھومن شاہ دہلوی کے دست مبارک پر بیعت ہوئے
مولوی فیض الحسن کہتے تھے کہ میرے استاد مولوی فضل حق رام پوری کا بیان ہے کہ علامہ
فرماتے تھے کہ میں مجدد صاحب کے سلسلے کا زیادہ معتقد نہ تھا لیکن جب سے میں نے شاہ
عبدالقادر صاحب کو دیکھا اس سلسلہ کا بہت معتقد ہو گیا کیونکہ اگر وہ سلسلہ فی الواقع
ناقص ہوتا تو ایسے لوگ اس سلسلے میں داخل نہ ہوتے ۔
عقد
و اولاد : -
آپ
نے دو شادیاں کیں پہلا عقد بی بی وزیرن دختر منشی فضل احمد بن حسین میاں صدر پوری کے
ساتھ ہوا ان سے تین صاحبزادیاں اور ایک صاحبزادہ ہوا، دوسرا عقد دہلی کی ایک صاحبزادی
سے ہوا ان سے دو صاحبزادے ہوئے۔
وصال مبارک : جب مجاہد آزادی علامہ فضل خیرآبادی علیہ الرحمہ نے ہندوستان کے باشندوں پر ظلم و تشدد کرنے والے انگریزوں کے خلاف جہاد کا فتوی دیا تو انہیں اس کی پاداش میں انگریز حکومت نے کالا پانی( جزیرہ انڈمان) کی سزا سنا دی وہیں تین برس کے بعد قید ہی کی حالت میں 12 صفر المظفر 1278 ہجری بروز پیر بمطابق 19 اگست 1861 ء کو امام الحریت نے ایک عالم کو فیض یاب فرمانے کے بعد جام شہادت نوش فرمایا (انا لله وانا الیہ راجعون )
No comments:
Post a Comment