اما
م احمدرضامحدث بریلوی
کے
بارے میں تاثرات و جذبات
🔸امام احمد رضا
خاں محدث بریلوی 10 شوال المکرم 1272 ھ /14جون 1856ء کو بریلی میں پیدا ہوئے۔آپ عہدِ
جدید کے عظیم عبقری تھے، جس پر ان کی علمی تحقیقات و تصنیفات شاہد اور زمانہ خود گواہ
ہے۔ زمانے نے ان کو جانچا،پرکھا اور پھر آفتاب،ماہتاب بنا دیا۔ ان کی روشنی دور دور
تک پھیلی۔ ان کی آواز دور دور پہنچی۔🔸علمائے عرب نے ان کے فضل وکمال کی کھلے دل سے داد دی اور خوب خوب سراہا۔چنانچہ
شیخ عبدالرحمٰن دھان مکی فرماتے
ہیں:-
"وہ جس کے متعلق مکہ معظمہ کے علماے کرام گواہی دے رہے ہیں کہ
وہ سرداروں میں یکتا ویگانہ ہے"۔
شیخ عبداللّٰہ نابلسی مدنی فرماتے ہیں:-
"وہ نادر روزگار،اس وقت اور اس زمانے کا نور۔ معزز مشائخ اور فضلا
کا سردار، بلا تامل وہ زمانے کا گوہر یکتا"۔
شیخ محمد عارف بن محی الدین ابن احمد فرماتے ہیں:-
" ان کا کلام ان کے کمال علم پر دلالت کرتا ہے"۔
📎اور دمشق ہی
کےعلامہ شیخ محمد القاسمی تحریر فرماتے ہیں:-
"فضائل و کمالات کے ایسے جامع ہیں جن کے سامنے بڑے سے بڑا ہیچ
ہے،وہ فضل کے باپ اور بیٹے ہیں. ان کی فضیلت کا یقین دشمن و دوست دونوں کو ہے،ان کا
علمی مقام بہت بلند ہے،ان کی مثال لوگوں میں بہت کم ہے"۔پاک و ہند کے
فضلا و محققین میں ان کی دھوم ہے.چنانچہ
پروفیسر ڈاکٹر غلام مصطفیٰ خاں صاحب (سندھ یونیورسٹی) فرماتے ہیں:-
"اعلٰی حضرت مولانا احمد رضا خاں علیہ الرحمہ اپنے دور کے بے مثل
علما میں شمار ہوتے ہیں،ان کے فضل وکمال،ذہانت و فطانت،طبّاعی و درّاکی کے سامنے بڑے
بڑے علما، فضلا، یونی ورسٹیوں کے اساتذہ، محققین اور مستشرقین نظروں میں نہیں جچتے"۔
امام احمد رضاکے فضل وکمال کے ساتھ ساتھ ان کی وسعت علم کے بھی فضلا
و دانش ور قائل نظر آتے ہیں۔چنانچہ
پروفیسر غیاث الدین قریشی (نیو کاسل یونیورسٹی،انگلینڈ) لکھتے ہیں:-
"انہوں نے اپنے وسیع اور عمیق علم کے طفیل اپنی ذات میں ایک اسلامی
یونی ورسٹی کی بلندیاں جمع کر لی ہیں"۔
📎عہدِ جدید کے
مشہور مصنف مولانا ابوالاعلیٰ مودودی لکھتے ہیں:-
"مولانا احمد رضاخاں صاحب کے علم وفضل کا میرے دل میں بڑا احترام
ہے.فی الواقع وہ علومِ دینی پر بڑی وسیع نظر رکھتے تھے اور ان کی اس فضیلت کا اعتراف
ان لوگوں کو بھی ہے جو ان سے اختلاف رکھتے ہیں"۔
مولانا ابوالحسن علی ندوی (ندوۃ العلماء لکھنو) امام احمد رضا کے ہم خیال نہ ہوتے ہوئے بھی یہ
اظہار خیال فرماتے ہیں:-
"جزئیات فقہ پر جو ان کو عبور حاصل تھا،ان کے زمانے میں اس کی
نظیر نہیں ملتی"۔
📎اور جسٹس پیر محمد کرم شاہ ازہری (جج سپریم کورٹ آف پاکستان،شریعت بینچ) فرماتے ہیں:-
"علومِ دینیہ،فقہ،حدیث،تفسیر وغیرہ میں آپ کو جو عدیم النظیر مہارت
حاصل تھی اس میں تو کسی کو کلام نہیں"۔
📎ہندوستان کا
مشہور عالم شہرت یافتہ مجلّہ "معارف" (اعظم گڑھ) فتاویٰ رضویہ اور امام احمد رضا پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتا
ہے:-
"دینی علوم خصوصاً فقہ و حدیث پر ان کی نظر وسیع اور گہری تھی.مولانا
جس دقتِ نظر اور تحقیق کے ساتھ علما کے استفسارات کے جواب تحریر فرماتے ہیں اس سے ان
کی جامعیت،علمی بصیرت، فقہی جز رسی ، استحضار، ذہانت،طبّاعی کا پورا پورا اندازا ہوتا
ہے...ان کے عالمانہ اور محققانہ فتاویٰ مخالف و موافق ہر طبقے کے مطالعہ کے لائق ہیں"۔
شیخ ابوالفتاح ابوغدہ (پروفیسر
کلیۃالشریعہ محمد بن سعود یونیورسٹی) نے فتاویٰ رضویہ کا صرف ایک عربی فتویٰ مطالعہ
کیا تو وہ حیران رہ گئے،خود فرماتے ہیں:-
"عبارت کی روانی اور کتاب و سنت واحوال سلف سے دلائل کے انبار
دیکھ کر میں حیران ہوگیا اور شش در رہ گیا اور اس ایک فتوے کے مطالعہ کے بعد میں نے
یہ رائے قائم کر لی کہ یہ شخص کوئی عالم اور اپنے وقت کا زبردست فقیہ ہے"۔
مشہور محقق و قلم کار اور امام احمد رضا کے معاصر مولانا وحید احمد بدایونی نے بڑی دل لگتی بات فرمائی ہے، وہ لکھتے ہیں:-
"حضرت مولانا بریلوی رحمۃ اللّٰہ علیہ کا علم نافع ان کی فقاہت
پر منتہی تھا...اسی سے انھیں مقبولیت حاصل ہوئی اور اسی سے ان کا نام زندہ ہے"۔
یہ وہ فضلا ہیں جو دل کی آواز پر لبیک کہتے ہیں...نفس کے اشاروں پر
نہیں چلتے...جو روزِ روشن میں آنکھیں بند نہیں رکھتے....وہی کہتے ہیں،جو ان کا دل کہتا
ہے۔
سراج الفقہا مولانا سراج احمد(مفتی سراج العلوم،خان پور) امام احمد رضا کے معاصرین میں تھے،ان کے
اساتذہ نے ان کو باور کرایا تھا کہ امام احمد رضا کو علم و تحقیق سے کوئی علاقہ نہیں،ان
کی کتابیں پڑھنا بے سود ہے لیکن جب سراج الفقہا منصب افتا پر فائز ہوئے اور میراث کے
ایک مسئلے میں ان کو الجھن پیش آئی تو مجبوراً انھوں نے امام احمد رضا سے رجوع کیا،امام
احمد رضا نے ایسا تشفی بخش جواب عنایت فرمایا کہ سراج الفقہا حیران رہ گئے اور امام
احمد رضا کی علمی عظمت کا نقش ان کے دل پر مرتسم ہو گیا...
انھیں ایام میں ان کی ملاقات 📎ایک غیر مقلد عالم مولانا نظام الدین (احمد پور) سے ہو گئی جو ان کے مخلصین میں تھے۔ سراج الفقہا نے امام احمد رضا کا رسالہ "الفضل الموہبی"
ان کو دکھایا،تو وہ حیران رہ گئے اور عالم حیرت میں فرمایا:-
🔸"یہ سب منازل فہم حدیث
مولانا کو حاصل تھے؟... افسوس کہ میں ان کے زمانے میں رہ کر بے خبر و بے فیض رہا...علامہ
شامی اور صاحب فتح القدیر،مولانا کے شاگرد ہیں...یہ تو امام اعظم ثانی معلوم ہوتے ہیں"۔
📎برکلے یونیورسٹی
(امریکہ) کے شعبئہ تاریخ کی فاضلہ ڈاکٹر باربرا-ڈی-مٹکاف اپنی کتاب (ہندوستان میں مسلم علماء کی مذہبی قیادت) میں لکھتی ہیں:-
احمد رضا کی نگارشات کا انداز مدلل تھا جس میں بے شمار حوالوں کے ڈھیر
ہوتے تھے جس سے ان کی علمی اور عقلی فضیلت کا اندازا ہوتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ان
کے مخالفین کی کوتاہیوں کا علم بھی ہوتا ہے"۔
ڈاکٹر محی الدین الوائی (پروفیسر
مدینہ یونی ورسٹی) جو مسلکاً اہل حدیث ہیں لیکن حق گو ہیں.وہ امام احمد رضا کی خدمات
کو سراہتے ہوئے لکھتے ہیں:-
"جن علماے ہند نے مروجہ علوم عربیہ و دینیہ کی خدمت میں اعلٰی
قسم کا حصہ لیا ہے ان میں مولانا احمد رضا خان صاحب کا نام سر فہرست نظر آتا ہے....علوم
عربیہ اسلامیہ کو آراستہ کرنے میں اپ کا بہترین ریکارڈ ہے"۔
حوالہ جات:-
رئیس الفقہاء امام احمد رضا
محدث بریلوی از:-پروفیسر ڈاکٹر محمد مسعود احمد
نقشبندی
یاد گار رضا 2012-2013
رضا اکیڈمی-ممبئی
شوال جشن یوم رضا مبارک
اخذ کردہ:-
محمد سبطین رضا
No comments:
Post a Comment