مسلک اہلسنت یا مسلک اعلیٰ حضرت
دور حاضر کی نئی اصطلاح ""مسلک اعلیٰ حضرت ""کے
استعمال پر ایک فکر انگیز
تحریر جسے سنجیدگی کیساتھ پڑھنا اہلسنت کے تمام خواص وعوام پر لازم ہے آپ نے
اگر ٹھنڈے دل سے پڑھا تو آپ سمجھ جا ئینگے کہ یہ نئی اصطلاح چند غیرمخلص اور ضدی مزاج
علماء ء کے ذہن کی پیدا وار ہے حضور فاضلِ بریلوی کا اس اصطلاح سے کوئی تعلق نہیں ہے وہ تو
اپنے بزرگوں کی قائم کی ہوئی یادگاروں کی حفاظت کےلئے تا عمر ساری قوت داؤ پر لگاتے
رہے ۔
محبان محترم احبابِ اہلسنت!!
یہ بات کون نہیں جانتا کہ حضور
ختمی مرتبت سیدنا محمد رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اور آپکے نائبین نے تمام
فرقہاےُ باطلہ کے درمیان بحیثیت گروہِ ناجیہ اہلسنت وجماعت کو ممتاز فرمایا اور خیر
القرون سے لیکر آج تک تمامی اہل اللہ اسی جماعتِ حقّہ کی ایک کڑی بن کر رہے اور تمام
اولیاء کاملین وعلماء ربَّا نیئین اپنے اپنے ادوار میں حتّٰی المقدور ا سی جماعت حقہ
کے عقائد و معمولات کی حفاظت واشاعت کے لئے سر بہ کفن نظر آئے تاریخ شاہد ہے کہ فقہاء
کرام و مجتہد ین عظام کے دور میں جب مذاہب
ومسالک کی شیرازہ بندی ہوئی تو اہلسنت وجماعت کے چار مذہب ومسلک وجود میں آےُ جنہیں چار عظیم المرتبت مجتہدینِ کرام کے ناموں
سے تشہير وتوسیع حاصل ہوئی بعدہ اکا برین اہلسنت نے یہ فیصلہ لکھا کہ وھذہ الطائفتہ الناجیتہ قد
اجتمعت ِ الیومَ فی مذاھبِ اربعة وھم الحنفیون والمالکیون والشا فعیون والحنبلیون رحمھم اللہ
تعالیٰ ومن کان خارجاً عن ھذہ الاربعة فی ھذا الزَّ مان فھوَ من اھلِ البد عة والنَّار یعنی
گروہ ناجیہ اب چار مذہب ومسلک میں منحصر ہوچکا ہے اور وہ حنفی مالکی شافعی حنبلی ھیں
ان میں سے اگر کوئی خارج ہو جاےُ تو وہ بدعتی اور جہنمی ہے پوری دیانت داری کیساتھ عرض ہے
کہ اسوقت سے لیکر آج تک تقریباً بارہ سو سالہ تاریخ اسلام میں اہلِ حق صرف اہل سنت وجماعت کے نام سے تمام گمراہ جماعتوں کے درمیان ممتاز ومنفرد رہے فرقہاےُ باطلہ کی کمی نہ تو کل تھی اور نہ آج
ہے صرف اپنے آپکو ہی متّبعِ رسول واصحاب رسول کہنے والی باطل جماعتیں ہر دور میں موجود رہیں اور انکا قلعہ قمع کر نے والے افراد بھی ایک
سے بڑھ کر ایک آتے رہے مگر بزرگوں کا دیا ہوا
یہ موروثی نشان کبھی بھی تبدیل وتحریف کا شکار نہیں ہوا ہمارے کسی بھی بزرگ نے اسکا متبادل جملہ ایجاد کرنے
کی جسارت نہیں کی باختلاف روایت شروع سے لیکر
آج تک انتیس یا ساٹھ سے زیادہ مجدد دین پیدا ہوےُ مگر پوری تاریخ مجددیت کی چھان بین
کرنے کے بعد بھی یہ کہیں نہیں ملتا کہ کسی مجدد کے پیرو کاروں نے مسلک اہلسنت کو چھوڑ
کر مسلک فلاں مسلک فلاں کی کوئی اصطلاح رائج کی ہوسبھوں نے صرف اہلسنت پر ہی اکتفاء
کیا اور اسی کو کافی وافی جانا۔
مگر ہاےُ رے جماعت کی حرما
ں نصیبی اس دور کے اہل سنت کے لئے اب نبوی اصطلاح ناقص ہوگئی اور اب اہل حق کے امتیاز
کے لئے ""مسلک اعلیٰ حضرت
"" ایک نئے نام کا اختراع کیا جانے
لگا اور ا پنی ضد وہٹ کے پیش نظر اسی جملہُ غیر شرعیہ کو اہل حق کی پہچان بتایا
جانے لگا ہے اور اس پر جراءت بیجا یہ کہ اگر کوئی اس جدید لیبل
کا انکاری ہوجاےُ تو بیک جنبش زبان وقلم جماعت حقّہ سے خارج اب خانہُ اہل حق میں اسکے لئے پیر رکھنے کی بھی
جگہ نہیں۔ الآمان الآمان
محبَّانِ اہلسنت!! یہ دہشت گردانہ
اور آتنکی ماحول ہمارے ان احباب کا مرہون منت ہے جو اپنے آپکو ناشرِ اہلسنت تر جمانِ
حنفیت فقیہ سنیت حضور فاضلِ بریلوی کا شیدائی اور وفادار گردانتے ہیں اسلام وسنیت کی
پوری زریں تاریخ سامنے رہنے کے باوجود ایک
عالم ربّانی کے ساتھ عقیدت ومحبت کا یہ بَد تر مظاہرہ قابل افسوس مسُلہ ہے کسی بھی مذہبی
شخصیت کے ساتھ کوئی منفی عقیدت جوڑدینا سنّی دنیا
پر ظلم ہے ۔
حضرت فاضل بریلوی کی دینی وفقہی خدمات سر آنکھوں پر آپکا علم وفضل بسروچشم
قبول آپکے جذبہُ تحفظِ سنیت کو سلام آپکی جلالتِ
علمی کا انکار آفتا بِ نصف النہار کے انکار کے مترادف مگر اس کلمہُ غیر شرعیہ سے اسے
کیا نسبت کیارشتہ کیسی مناسبت؟؟؟ اور دوسری
بات یہ کہ اہلسنت میں حضورفاضل ہی کوئی اکلوتے
فقیہ ومفتی نہیں ہوئے ان سے قبل ان سے بڑےبڑے صاحب بصیرت فقہاےُ عظام علماےُ اسلام
محدثین کرام پیداہوےُ جنکی کتابوں کی خوشہ چینی نے ہی حضرت والا محترم کو مفتی و فقیہ
بنایا مگر ان میں سے کسی کے نام کے ساتھ مسلک کا انتساب نہیں کیا گیا تو پھر آخر ہمارے دور کے بعض علماء کو حضورفاضل
بریلوی کے نام کے ساتھ مسلک کے انتساب کی جراءت کہاں سے ملی؟؟
ایک صاحب سے اس بابت گفتگو ہونے لگی تو انھوں نے اس کلمہُ غیر مقبولہ
کو اسطرح سے مبرہن کیا کہ چونکہ ذاتِ اعلیٰ
حضرت اس دور میں علامت اہلسنت بن چکی ہے اس منا سبت سے ہم مسلک اعلیٰ حضرت کہتے ہیں۔
ہم نے کہا مِرے عزیز!! تمہاری عقل وسوچ پر مجھے بے پناہ افسوس ہے تمہیں اس خدائے قہَّار وجبَّار کا واسطہ جسکے خوف سے پہا ڑوں کو بھی پسینہ آتا ہے سچ
بولنے میں کسی کی رعایت نہ کر نا ایمانداری کیساتھ بتاؤ کہ کیا دور حاضرہ میں آٹھ سوسال گزرنے کے باوجود اہلسنت وجماعت کی جتنی
بڑی اور بھاری بھرکم علامت سیدنا سرکار غریب نواز خواجہ معین الدین چشتی قدس سرہ کی
ذات والا صفات کو جانا جاتا ہے کیا اسی طرح
حضرت فاضلِ بریلوی کو بھی جانا جاتا ہے؟؟؟
کیا کڑوروں سنّی مسلمان جس انداز فرزانگی کا مظاہرہ آستانہ غریب نوازسے ظاہر کرتے ہیں کیا یہی حال آستانہ سرکار فاضل بریلوی کا بھی ہے؟؟؟ میں نے کہا جناب!! جواب باصواب یہی ہے کہ ہزار اشتہار وپرچار کے باوجودآج بھی حضرت فاضل بریلوی
کو اس مقبو لیت خداداد کا ایک حصہ بھی نہیں حاصل ہے اور نہ کبھی حاصل ہو سکے گا اوراسی طرح صدہا اولیا ےُ کاملین
علماء ربَّانیئین ہیں جنہیں حضور فاضل بریلوی سے کہیں زیادہ شہرت ومرجعیت ومقبولیت
نصیب مگر انتساب مسلک انکے ناموں سے بھی نہیں
نہ جانے یہ حماقت کس بازار سے خریدی گئی۔
بھائیو!! کیا سرکار مخدوم سالار
غازی
مخدوم سرکار صابر کلیری
مخدوم شرف الدین احمد یحیٰ منیری
سیدسلطان مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی
حضور نظام
الدین اولیاء محبوب الہی
خواجہ قطب الدین بختیار کاکی
حضور سیدی بابا فرید الدین گنج شکر
حضور سیدی سرکار غوث اعظم حضور سیدی سرکار مدار اعظم قدس اللہ اسرارہم سے بڑے خادم دین تھے فاضل بریلوی ؟؟؟
کیا مذکورہ بزرگان دین سے زیادہ
خدمتیں ہیں حضور فاضل بریلوی کی؟؟؟
بھائیو!! زیادہ تو دور کی بات ایک حصَّہ بھی نہیں ہیں پھر کیا وجہ ہے کہ آپ اپنے حلقوں میں مسلک اعلیٰ
حضرت کا نعرہ تو لگا تے ہو مگر ان بزرگواروں
کے مسلک کا نعرہ نہیں لگاتے
ہمیں تو لگتا ہے کہ دال میں ضرور کچھ کالا ہے ورنہ حضرت
امام محمد امام ابی یوسف امام زفر امام طحاوی صاحب قدوری صاحب شرح وقایہ صاحب ہدایہ
صاحب کنز الدقائق صاحب بحرالرائق رضی اللہ عنہم
جیسے عظیم فقہا ء کے ناموں سے کبھی انتساب مسلک نہیں ہوا صرف حضرت فاضل بریلوی
ہی کی شخصیت اس لا ئق ہے کہ انتساب مسلک انکے نام سے کیا جائے؟؟؟
ایک صاحب کہنے لگے چونکہ دیوبندی بھی اپنے آپکو کبھی کبھی اہلسنت کہدیتے
ہیں اسلئے ان سے امتیاز کے لئے ہمیں مسلک اعلیٰ حضرت کہنا پڑتا ہے ۔
ہم نے کہا بدھّو !! اگر تمہاری
دلہن کو کوئی اپنی دلہن کہدے تمہارے مکان کو اپنا مکان کہدے تمہاری دوکان کو اپنی دوکان
کہدے تو کیا کروگے سب اسکے حوالے کرکے اپنے لئے دوسرا انتظام کروگے؟؟؟
یا اسے جوتے مار کر بھگاؤگے؟؟؟
سارے بد عقیدہ فرقے اللہ تعالیٰ
کو بھی اپنا معبود کھتے ہیں بولو آپ اپنے لئے کوئی دوسرا خدا تراشو گے؟؟؟
اگر یہی فکر ہے تو پھر آپکو دوسرا نبی دوسرا قرآن بھی تلاش کر نا پڑےگا نمازوں کی تعداد میں بھی کمی بیشی کر نی
پڑےگی تمام معمولات زندگی کو درہم برہم کرنے والی فکر کو لات مارواور ببانگ دہل کہو
کہ اہلسنت کی اصطلاح ہماری آبائی اور موروثی اصطلاح ہے یہ اصطلاح ہمیں اپنے اسلاف سے
ورثے میں ملی ہے کسی بھی باطل جماعت کا اس اصطلا ح سے کوئی رشتہ نہیں ہے۔
یہ نہ تو حضورفاضل بریلوی سے بغاوت ہے اور نہ ہی دشمنی حضور فاضل بریلوی کی گونا گوں فضائل وکمالات کا
اس اصطلاح جدید یعنی """مسلک
اعلیٰ حضرت """ سے کوئی تعلق
نہیں ہے بعض لوگ اسے حضرت فاضل بریلوی کے آن
بان کا مسُلہ بنارہے ہیں جو سراسر دھوکہ اور فریب ہے البتہ انکی آن بان ضرور داؤ پر لگی ہوئی ہے جو اس
اصطلاح جدیدہ کے موجد ہیں بعض حضرات برادران
اہلسنت کو فریب دینے کے لئے کہتے ہیں کہ مسلک
اعلیٰ حضرت مسلک اہلسنت ہی ہے ایسے لوگوں سے میرا سوال ہے کہ عالی قدر!! آپ اپنی
اس جراءتِ بے جا کو عملِ سلف وخلف سے مبرہن
کب کروگے؟؟ کیا امام ربَّانی مجدد الف ثانی قدس سرہ النورانی اور دیگر سلف وخلف کے
دور کے حامیان اہلسنت بھی آپکی طرح مسلک اہلسنت کو اپنے دور کے اکابر کی طرف منسوب
کرکے مسلک فلاں حضرت زندہ باد مسلک فلاں حضرت زندہ باد کا نعرہ لگاتے تھے؟؟
بھائیو!!! خدا کے واسطے ترس
کھاؤ سنیت پر سنیت کو اپنی ضد کی بھیٹ مت چڑھاؤ
مشاہدے کی بات ہے کہ آج آپکی اس ضد
نے درمیانِ اہلسنت اختلاف وانتشار کا ایک طوفان
کھڑا کردیا ہے درمیانِ اہلسنت باضابطہ گروہ بندی کروا رکھا ہے غالباً
شہزادہُ ابو البرکات حضرت علامہ سید سبطین حیدر مارہروی مد ظلہ العالی کا لکھا ہوا یہ شعر ہے کہ
مسلک پتہ چلے
گا گر کھل کے
بات ہو
میں تو علی کے ساتھ ہوں تم کس کے ساتھ ہو
عرض کرتا ہوں کہ راقم الحروف
محمد قیصررضا ضلع فتح پور کے ایک گاؤں کے ایک جلسے میں حاضر ہوا تو ایک عالم ہلسنت جو نظامت فرما رہے تھے انھوں نے جب میری تقریر
کا اعلان کیا تو یہ شعر پڑھا کہ
مسلک کی
بات ہے تو یہ صاف بات ہے
میں تو رضا کے ساتھ ہوں تو کس کے
ساتھ ہے
بتائیے صاحب! یہ ہورہا ہے آجکل پہاڑ جیسی بلند وبالا فکر کا جواب خدمتِ سنیت کے
زعم میں رائی جیسی فاسد فکر کیساتھ ہمارے علماء
دے رہے ہیں مشاہدہ ہےکہ کچھ ضدی قسم کے لوگ
اپنی حماقتوں کے بل بو تے یہ کہتے نظر آتے
ہیں کہ مسلک اعلیٰ حضرت سنّیوں کی پہچان
ہے ایسے حضرات جوشِ عقیدت میں یہ حقیقت کیونکر
بھول جاتے ہیں کہ دنیا کے پچّاس سے زیادہ ممالک ایسے ہیں جہاں برادرانِ اہلسنت بفضلِ
مولیٰ تعالیٰ موجود ہیں اور ان میں سے چندممالک کو چھوڑ کر اکثر ممالک کے سنّی مسلمان
حضور فاضلِ بریلوی کو ہی نہیں جانتے اب بتائیے
کہ اس صورتِ حال میں ان تمام ممالک کے حامیانِ
اہلسنت کی پہچان کس ٹائٹل اور لیبل سے کی جائے؟؟؟
احبابِ کرام بھی خوب مزے کے ہیں طرح طرح کے حیلے بہانے پیش کرکے اس جملے کو شرعی
لبا س پہنانے کی کوشش میں ایڑی چوٹی کا زور
لگاےُ ہوےُ ہیں ایک مرتبہ بہرائچ شریف کے ایک
سفر کے دور ان کچھ علماء اہلسنت ٹرین میں اسی موضوع پر باہم تبادلہُ خیال
فرما رہے تھے ایک صاحب نے کہا کہ جناب!! اب
تو ایک بڑی دقت درپیش ہوگئی اور وہ یہ کہ سنّی
دعوتِ اسلامی اور دعوتِ اسلامی اور علماء اشرفیہ
مبارکپور بھی مسلک اعلیٰ حضرت کے قائل تھے لیکن بریلی شریف سے ان حضرات پر بھی صلحکلیت وگمرہیت کے فتوے لگ گئے لہذا
اب تو خاص ٹناٹن اہلسنت کی پہچان کے لئے مسلک اعلیٰ حضرت والی اصطلاح بھی نا کا فی ہوگئی پاسبانانِ اہلسنت آناً فاناً
اب کسی دوسرے شناختی کارڈ کا انتظام فرمائیں تقریباً تین سال قبل میں نے اجمیر شریف کلیر شریف رودولی شریف جھونسی شریف
خانقاہ صابریہ پتیسرشریف کچھوچھہ شریف بدایوں شریف خانقاہ فردوسیہ
منیر شریف خانقاہ ابوالعلائیہ میتن گھاٹ شریف
اہلسنت کا قدیمی دارالافتاء فرنگی محل جامعہ
نظامیہ حیدر آباد دائرہ شاہ اجمل الہ آباد خانقاہ قادریہ سنگم نیر وغیرہ سے اس اصطلاح جدیدہ کے بابت رابطہ کیا تھا چنانچہ ان
تمام مقامات کے قائدین اہلسنت نے یہ جواب دیا
تھا کہ مسلک اعلیٰ حضرت کہنے کی کوئی شرعی ضرورت نہیں ہے اور نہ ہی اس کا استعمال درست
ہے آج بہی ہمارے پاس کچھ حضرات کی تحریریں موجود ہیں ہمارا ماننا تو یہ ہے کہ بلا تفریق سب اہلسنت ہمارے ہیں ""صرف"" والا نظریہ ہی اختلاف
وانتشار کا جنم داتا ہے۔
اللہ پاک ہم سب کو دین کی سمجھ عطا فرماےُ آمین
ازقلم: محمد قیصررضا خادم سنّی دارالافتاء
دائرة الاشراف سدھارتھ نگر یوپی
No comments:
Post a Comment