حضرت بابا کمال
الدین کی بلی
حضرت
سلطان سید اشرف جہانگیرسمنانی قد س سرہ فضائل
و کمالا ت شیخ نجم الدین کبریٰ فرمارہےتھے کہ انکی نگاہ تصرف سے کتا ولی ہوگیا تھا
۔ حضرت کے خلیفہ قاضی رفیع الدین کے دل میں خطرہ گزرا کہ آیا اس زمانہ میں بھی
کوئی ایسا ولی ہوگا جس کی تاثیر نظر سے سے جانور ولی ہو جائیں۔
حضرت کے
قلب مبارک پر ان کا یہ خطرہ ظاہر ہوگیا ۔ مسکرا کر فرمایا کہ شاید اس عالم میں ہو
۔
حضرت کے
مرید کمال جوگی کے یہاں ایک بلی پلی ہوئی
تھی ۔ کبھی کبھی حضرت کی نظر اس پر پڑجاتی تھی۔ فرمایا کہ کمال جوگی کی بلی کہاں
ہے۔میرے سامنے لاؤ۔
جس وقت
اس بلی کو حضرت کے سامنے لائے۔ حضرت محبوب یزدانی کچھ اسرار معرفت بیان فرمارہے
تھے ۔ کہتے کہتے ایک حالت گرم پر جوش طاری ہوگئی اورچہرۂ مبارک کا رنگ بدل گیا ۔
حاضرین پر ایک ہیبت چھا گئی ۔ معلوم ہوتاتھا کہ حضور کے قلب مبارک سے روح پرواز
کیا چاہتی ہے۔ کمال جوگی کا بلی کان لگا کر حضرت کے کلمات معرفت کو سن رہی
تھی یہاں تک کہ اس کی حالت یہ ہوگئی کہ
زمین سے قدآدم اچھل گئی اور ازخود رفتہ ہو گئی۔ ایک پہر تک بیہوش پڑی رہی ۔ جب ہوش میں آئی حضرت محبوب یزدانی کے
قدموں پر بوسہ دنیے گی اور آپ کے اردگرد گھومنے لگی اس کے بعد جب کچھ کلام معرفت بیان فرماتے تو
حضور کی مجلس میں آکر بیٹھتی اور سنتی اور
جب کوئی مہمان خانقاہ عالی میں آتے تو ان کی تعداد کے موافق آواز دیتی۔ باورچی اسی
قدر مہمانوں کا کھانا پکاتا اور بی بی گربہ کو باقاعدہ دسترخوان بچھاکر ہر قسم کا
کھانا پیش کیا جاتا۔ حضرت اگر کسی اصحاب کو بلانا چاہتے تو بلی سے فرمادیتے ۔ وہ
ان کے مکان ہر جاکر آواز دیتی ۔ وہ سمجھ
جاتے کہ حضرت نے بلایا ہے۔
ایک دن
حضورکی حضور کی خانقاہ میں جماعت درویشاں مسافر آئے ۔ بلی نے بعادت معمولہ تعداد
درویشاں کے موافق آواز دی ۔ مگر کھانا
بھیجنے کے وقت ایک شخص زیادہ نکلا۔
حضرت محبوب
یزدانی نے بلی کی طرف دیکھ کر فرمایا کہ آج بلی نے کیوں کر خطاکی اور ایک مہمان
زیادہ کی خبر کیوں نہیں کی ؟
بلی فوراً
باہر گئی ان مہمانوں کی جماعت میں پہونچی ۔ ہر شخص کو سونگھتی تھی اور چھوڑ دیتی
تھی۔ ایک شخص اس جماعت کا سرحلقہ تھا جب اس کو سونگھا تو اس کے زانوں پر جاکر
بیٹھی اور پیشاب کردیا۔
حضرت نے
جب معائنہ کیا تو فرمایا کہ غریب بلی کا
کچھ قصور نہیں ۔ یہ مرد بے گانہ تھا ۔ وہ درویش کھڑا ہوا اور حضرت کے قدموں پر
گرپڑا اور عرض کرنے لگاکہ بارہ سال سے میں مذہب دہریہ رکھتا ہوں اور مسلمانوں کے
لباس میں رہتاہوں اور بزرگوں کی خانقاہوں میں پھرتا ہوں اس نیت سے کہ کوئی میر ا
نفاق ظاہر کرے تو میں اس کے ہاتھ مسلمان ہوجاؤں ۔ آج حضرت کی بلی نے مجھے پہچان
لیا ۔ اب میں توبہ کرتا ہوں اور مسلمان ہوجاتا ہوں ۔
سبحان اللہ
! کیا فضل و کمال حق تعالےٰ نے حضرت غوث
العالم محبوب یزدانی سلطان سید اشرف
جہانگیر سمنانی قد س سرہ کوعطا فرما یا
تھا کہ جس کی تاثیر نظر سے بلی ولیہ ہوگئی اور حق و باطل میں فرق کردیتی تھی۔
حضرت نے
اس دہریہ کو کلمہ پڑھاکر مسلمان کیا اس کے بعد اس کو ضیافت اور مجاہدہ میں مشغول
رکھا ۔ جب تصفیہ باطن میں کامل ہوگیا تو
تاج خلافت دے کر بندگان خدا کی ہدایت کے واسطت شہر استنبول بھیج دیا ۔ بعد وصال
حضرت محبوب یزدانی کے چند سال بی بی گربہ
حضرت نورالعین صاحب سجادہ مخدوم زادہ کی خدمت میں رہی۔
ایک دن باورچی خانہ میں دیگ میں دودھ گرم ہورہا
تھا اس کی بھاپ جو چھت تک پہونچی ایک کالاسانپ دیگ میں میں گرگیا ۔ باورچی کو اس
کی خبر نہ تھی ۔ بی بی گربہ باربار دیگ کے کنارے پھر کر اشارہ کرتی۔ بارورچی کہتا کہ
جب دودھ تیار ہوگا تجھے ملے گا تو کیوں گھبراتی ہے۔ یہاں تک کہ باورچی نے بی بی
گربہ کو جھڑک دیااوروہ سمجھی کہ باروچی میرا اشارہ نہیں سمجھتا۔ اگر یہ دودھ فقراء
میں تقسیم ہوگا اس کے زہر سے لوگوں کی ہلاکت ہوگی ۔ اس لئے ایک ہی مرتبہ میں کودکر دیگ میں جاگری اور شہید
محبت ہوگئیں۔ جب دودھ پھینکا گیا تو کالا اور زہریلا سانپ نکلا۔
حاجی الحرمین
حضرت سید عبدالرزاق نورالعین رضی اللہ عنہ
نے کہا کہ اس غریب بلی نے اپنی جان فقیروں پر قربان کردی ۔ اس کو ایک قبر کے اندر
دفن کردواور اس کا روضہ تیار کردو۔
چنانچہ مزار
بی بی گربہ آستانۂ عالیہ سے پورب جانب مقام دارالامان میں موجود ہے اور ا ن کی
مزار پر یہ تصرف ہے کہ اگر کسی کو جن یا شیاطین ستائے اور بی بی گربہ کے مزار پر
جائے تو وہ آسیب زدہ چیختا ہے اور شور کرتا ہے کہ بی بی گربہ مجھ کو پنچہ مارتی ہے ۔میں توبہ کرتا ہوں کہ اب
اس کو نہیں ستاؤں گا۔
No comments:
Post a Comment