حضور غوث اعظم رضی اللہ عنہ کا نام مبارک ’’عبدالقادر ‘‘ہے،
والد صاحب کا نام حضرت ابوصالح موسیٰ جنگی
دوست ہے۔ آپ رضی اللہ عنہ کی ولادت بغداد شریف کے قریب قصبہ جیلان میں ہوئی،
ایک قول پر آپ کی ولادت 470ہجری میں اور ایک قول پر471ہجری میں ہوئی۔
جائے ولادت:حضرت
غوث الاعظم رضی اللہ عنہ کا مولد مبارک اکثر روایات کے مطابق قصبہ نیف علاقہ گیلان
بلاد فارس ہے۔ عربی میں گیلان کے ’’گ‘‘ کو بدل کر جیلان لکھا جاتا ہے۔ اس طرح آپ
رضی اللہ عنہ کو گیلانی یا جیلانی کہا جاتا ہے۔ حضرت غوث الاعظم رضی اللہ عنہ نے
بھی قصیدہ غوثیہ میں اپنے آپ کو جیلی فرمایا ہے۔ فرماتے ہیں:انا
الجيلی محی الدين اسمی واعلامی
علی راس الجبال
کنیت والقاب : آپ رضی اللہ عنہ کی کنیت ابومحمداور القاب محی الدین، غوث اعظم
،پیران پیر ،محبوب سبحانی وغیرہ ہیں۔(بہجتہ الاسرار
صفحہ171)
آپ کا نسب مبارک:
حضور غوث اعظم رضی اللہ
عنہ نجیب الطرفین سید ہیں، آپ کا شجرہ نسب والد محترم کی طرف سے گیارہویں پشت میں
حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ سے اور والدہ ماجدہ کی طرف سے چودہویں پشت میں حضرت امام حسین رضی اللہ
عنہ سے ملتا ہے۔ (بہجتہ الاسرار صفحہ171)
مبارک خاندان:حضورغوث
اعظم رضی اللہ عنہ کا پورا خاندان اولیاء کا خاندان تھا آپ رضی اللہ عنہ کے والد
حضرت ابو صالح جنگی دوست، والدہ حضرت فاطمہ، نانا جان حضرت سید عبداللہ صومعی ،
پھوپھی حضرت سیدہ امِ عائشہ، آپ کی ازواج اور آپ کی اولاد وغیرہ سب کے سب متقی
،پرہیز گار اور باکرامت اولیاء تھے۔
"جنگی دوست" لقب کی وجہ: آپ رضی اللہ عنہ کے
والد محترم حضرت ابو صالح کا لقب جنگی دوست اس لئے ہوا کہ آپ رضی اللہ عنہ کے
والدمحترم خالصۃً اللہ عزوجل کی رضا کے
لئے نفس کشی اور ریاضت شرعی میں یکتائے زمانہ تھے، نیکی کے کاموں کا حکم کرنے اور
برائی سے روکنے کے لئے مشہور تھے، اس معاملہ میں اپنی جان تک کی بھی پروا نہ کرتے
تھے، چنانچہ ایک دن آپ رضی اللہ عنہ والدمحترم جامع مسجد کو جا رہے تھے کہ خلیفہ
وقت کے چند ملازم شراب کے مٹکے نہایت ہی احتیاط سے سروں پر اٹھائے جا رہے تھے، آپ
رضی اللہ عنہ والدمحترم نے جب ان کی طرف دیکھا تو جلال میں آگئے اور ان مٹکوں کو
توڑ دیا۔ آپ رضی اللہ عنہ والدمحترم کے رعب اور بزرگی کے سامنے کسی ملازم کو دم
مارنے کی جراءت نہ ہوئی تو انہوں نے خلیفہء وقت کے سامنے واقعہ کا اظہار کیا اور آپ
رضی اللہ عنہ والدمحترم کے خلاف خلیفہ کو ابھارا، تو خلیفہ نے کہا: “سید موسیٰ(رضی
اللہ عنہ ) کو فوراً میرے دربار میں پیش کرو۔“ چنانچہ حضرت سید موسیٰ رضی اللہ عنہ
دربار میں تشریف لے آئے خلیفہ اس وقت غیظ و غضب سے کرسی پر بیٹھا تھا، خلیفہ نے
للکار کر کہا: “آپ کون تھے جنہوں نے میری ملازمین کی محنت کو رائیگاں کر دیا ؟“
حضرت سید موسیٰ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
“میں محتسب ہوں اور میں نے اپنا فرض منصبی ادا کیا ہے۔“ خلیفہ نے کہا: “آپ کس کے
حکم سے محتسب مقرر کئے گئے ہیں ؟“
حضرت سید موسیٰ رضی اللہ عنہ نے رعب دار لہجہ
میں جواب دیا: “جس کے حکم سے تم حکومت کر رہے ہو۔“
حضرت سید موسیٰ جنگی دوست رضی اللہ عنہ کے اس ارشاد پر خلیفہ پر ایسی رقت
طاری ہوئی کہ سربزانو ہو گیا (یعنی گھٹنوں پر سر رکھ کر بیٹھ گیا) اور تھوڑی دیر
کے بعد سر کو اٹھا کر عرض کیا: “حضور والا ! امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے
علاوہ مٹکوں کو توڑنے میں کیا حکمت ہے ؟“
حضرت سید موسیٰ رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا:
“تمہارے حال پر شفقت کرتے ہوئے نیز تجھ کو دنیا اور آخرت کی رسوائی اور ذلت سے
بچانے کی خاطر۔“ خلیفہ پر آپ کی اس حکمت بھری گفتگو کا بہت اثر ہوا اور متاثر ہوکر
آپ کی خدمت اقدس میں عرض گزار ہوا: “عالیجاہ ! آپ میری طرف سے بھی محتسب کے عہدہ
پر مامور ہیں۔“
حضرت سید موسیٰ رضی اللہ عنہ نے اپنے
متوکلانہ انداز میں فرمایا: “جب میں حق تعالیٰ کی طرف سے مامور ہوں تو پھر مجھے
خلق کی طرف سے مامور ہونے کی کیا حاجت ہے۔“ اسی دن سے آپ “جنگی دوست“ کے لقب سے
مشہور ہو گئے۔ (سیرت غوث الثقلین، صفحہ52)
آپ کے والد ،نانا جان اور والدہ:آپ رضی اللہ عنہ کے والد حضرت سید ابوصالح موسیٰ جنگی رضی اللہ عنہ جوانی کے ایام میں ریاضات اور مجاہدات کے دوران
ایک مرتبہ شہرکے باہردریا کے کنارے جارہے تھے کئی روز سے کچھ کھایا پیا نہیں تھا،
اچانک کنارے کے قریب دریا میں تیرتے ہوئے ایک سیب پر نظر پڑی، اٹھاکر کھالیا،
کھانے کے بعد خیال پیدا ہوانجانے کس کا سیب تھا جو میں نے بغیر اجازت کھالیا، اسی
پریشانی کے عالم میں سیب کے مالک کی تلاش میں دریاکے کنارے چل پڑے، کچھ دور پہنچے
تو دریا کے کناے ایک باغ نظر آیا۔ جس کے درختوں سے پکے ہوئے سیب دریا کے پانی پر
لٹکے ہوئے تھے ، آپ سمجھ گئے کہ وہ سیب ان ہی درختوں کا تھا، دریافت کرنے پر معلوم
ہواکہ یہ باغ حضرت سید عبداللہ صومعی رضی اللہ عنہ کا ہے۔ لہذا ان کی خدمت میں حاضر ہوکر بلااجازت
سیب کھالینے کی معافی چاہی، حضرت عبداللہ صومعی رضی اللہ عنہ چونکہ خود خاصانِ خدا میں سے تھے، سجھ گئے کہ یہ
انتہائی صالح نوجوان ہے، چنانچہ فرمایا اتنا عرصہ باغ کی رکھوالی کروپھر معافی پر
غور کیا جائے گا،حضرت ابوصالح رضی اللہ عنہ نے مقررہ مدت تک بڑی دیانت داری کے ساتھ یہ خدمت
سرانجام دی اور پھر معافی کے طلبگار ہوئے، حضرت عبداللہ صومعی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ابھی ایک شرط باقی ہے، وہ یہ کہ
میری ایک بیٹی ہے کہ آنکھوں سے اندھی ہے، کانوں سے بہری ہے، منہ سے گونگی ہے، پاؤں
سے لنگڑی ہے ، اگر تم اس سے نکاح کرلو تو معافی دے دی جائیگی۔ حضرت ابو صالح نے
منظور کرلیا، نکاح کے بعد جب حجرہ عروسی میں قدم رکھا ، اپنی بیوی کو تمام ظاہری
عیوب سے مبرہ ہونے کے ساتھ ساتھ حسن ظاہری سے بھی متصف پایا تو خیال گزرا کہ یہ
کوئی اور لڑکی ہے ،گھبرا کر کمرے سے باہر نکل آئے، اسی وقت حضرت عبداللہ صومعی رضی
اللہ عنہ کے پاس پہنچے اور اپنی پریشانی بیان
کی تو حضرت عبداللہ صومعی رضی اللہ عنہ نے
فرمایا، اے شہزادے! یہی تمہاری بیوی ہے ،میں نے جو اس کی صفات بیان کی تھیں وہ سب
صحیح ہیں، یہ اندھی ہے اس لیے کہ کسی غیر محرم پر اس کی نظر نہیں پڑی، یہ بہری ہے
کہ کبھی خلاف شرع بات اس نے نہیں سنی، یہ لنگڑی اس لئے ہے کہ اس نے کبھی خلاف شرع
کام نہیں کیا، یہ لنگڑی اس لیے ہے کہ خلاف شرع کبھی گھر سے باہر قدم نہیں رکھا اور
یہ گونگی اس لیے ہے کہ اس نے کبھی خلاف شرع بات نہیں کی۔یہ تھے حضور غوث اعظم رضی
اللہ عنہ کے والد اور نانا جان اور ایسی صفات کے مالک تھے۔حضرت غوث پاک کی والدہ
حضرت اُم الخیر فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین۔
آپ رضی اللہ عنہ کی پھوپھی جان : ایک مرتبہ جیلان میں بارش نہ ہونے کی وجہ سے قحط سالی ہوگئی،
لوگوں نے طلبِ بارش کے لیے نمازِ استسقاء پڑھی مگر بارش نہ ہوئی، لوگ حضورغوث اعظم
رضی اللہ عنہ کی پھوپھی جان حضرت ام عائشہ رحمتہ اللہ علیہا کے گھر مبارک پر حاضر
ہوئے اور آپ سے بارش کی دعا کے لیے درخواست کی، آپ اپنے گھر کے صحن میں تشریف
لائیں اور زمین پر جھاڑو دے کر اس طرح دعا مانگی: اے میرے مالک! میں نے تو جھاڑو
دے دیا اب تو چھڑکاؤ فرمادے، کچھ ہی دیر میں اس قدر بارش ہوئی جیسے مشک کا منہ
کھول دیا گیا ہو، لوگ اس حال میں اپنے اپنے گھروں میں واپس آئے کہ سب کے سب بارش
سے بھیگے ہوئے تھے اور جیلان شہر خوشحال ہوگیا۔
آغاز تعلیم: جیلان
میں ایک مقامی مکتب تھا۔ جب حضرت غوث اعظم رضی اللہ عنہ کی عمر پانچ برس کی ہوئی
تو آپ کی والدہ محترمہ نے آپ کو اس مکتب میں بٹھادیا۔ حضرت کی ابتدائی تعلیم اسی
مکتب مبارک میں ہوئی۔ دس برس کی عمر تک آپ کو ابتدائی تعلیم میں کافی دسترس ہوگئی۔
(تذکرہ غوث اعظم رضی اللہ عنہ ، طالب ہاشمی، ص36،35)
اعلیٰ تعلیم کا حصول:حضرت
سیدنا غوث اعظم 488ہجری میں 18 سال کی عمر
میں حصول علم کی غرض سے بغداد شریف لائے تھے۔ یہ وہ وقت تھا جب حضرت امام غزالی
رضی اللہ عنہ نے راہ طریقت کی تلاش میں مسند تدریس سے علیحدگی اختیار کی اور بغداد
کو خیر باد کہا۔ گویا مشیت ایزدی یہ تھی کہ ایک سر بر آور دہ علمی شخصیت نے بغداد
کو چھوڑا ہے تو نعم البدل کے طور پر بغداد کی سر زمین کو ایک دوسری نادر روزگار
ہستی کے قدومِ میمنت لزوم سے مشرف فرمادیا جائے۔ بغداد میں پہنچنے کے چند دن بعد سیدنا غوث اعظم رضی اللہ عنہ
وہاں کے مدرسہ نظامیہ میں داخل ہوگئے۔ یہ مدرسہ دنیائے اسلام کا مرکز علوم و فنون
تھا اور بڑے بڑے نامور اساتذہ اور آئمہ فن اس سے متعلق تھے۔ حضرت غوث اعظم رضی
اللہ عنہ نہ صرف اس جوئے علم سے خوب خوب سیراب ہوئے بلکہ مدرسہ کے اوقات سے فراغت
پاکر اس دور کے دوسرے علماء سے بھی خوب استفادہ کیا۔ علم قرات، علم تفسیر، علم حدیث، علم فقہ، علم لغت، علم شریعت،
علم طریقت غرض کوئی ایسا علم نہ تھا جو آپ نے اس دور کے باکمال اساتذہ و آئمہ سے
حاصل نہ کیا ہو۔ غرض آٹھ سال کی طویل مدت میں آپ تمام علوم کے امام بن چکے تھے اور
جب آپ رضی اللہ عنہ نے ماہ ذی الحجہ 496ھ میں ان علوم میں تکمیل کی سند حاصل کی تو
کرہ ارض پر کوئی ایسا عالم نہیں تھا جو آپ کی ہمسری کا دعویٰ کرسکے۔ سیدنا غوث
اعظم رضی اللہ عنہ نے عمر بھر دینی علوم کی ترویج و اشاعت کا بھرپور کام کیا۔ آپ
علم کو اپنے مرتبہ کی بلندی کا راز گردانتے۔ فرماتے ہیں:درست العلم حتی صرت
قطبا٭٭٭ونلت السعد من مولی الموالی ترجمہ: میں علم پڑھتے پڑھتے قطبیت کے اعلیٰ مقام پر فائز ہوگیا اور
تائید ایزدی سے میں نے ابدی سعادت کو پالیا۔
مسند تدریس:آپ رضی
اللہ عنہ کی پوری زندگی اپنے جدکریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمان: تعلموا
العلم وعلموا الناس۔ علم پڑھو اور لوگوں کو پڑھاؤسے عبارت تھی۔ تصوف و ولایت کے
مرتبہ عظمیٰ پر فائز ہونے اور خلق خدا کی اصلاح و تربیت کی مشغولیت کے باوصف آپ نے
درس و تدریس اور کار افتاء سے پہلو تہی نہ کی۔آپ تیرہ مختلف علوم کا درس دیتے اور
اس کے لئے باقاعدہ ٹائم ٹیبل مقرر تھا۔ اگلے اور پچھلے پہر تفسیر، حدیث، فقہ،
مذاہب اربعہ، اصول اور نحو کے اسباق ہوتے۔ ظہر کے بعد تجوید و قرات کے ساتھ قرآن
کریم کی تعلیم ہوتی۔ مزید برآں افتاء کی مشغولیت تھی۔
شیخ موفق الدین ابن قدامہ آپ کے
تدریسی انہماک کا حال یوں بیان کرتے ہیں:ہم 561ہجری میں
بغداد حاضر ہوئے۔ اس وقت حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ کو علم، عمل اور
فتویٰ نویسی کی اقلیم کی حکمرانی حاصل تھی۔ آپ کی ذات میں متعدد علوم ودیعت کئے
گئے تھے۔ علم حاصل کرنے والوں پر آپ کی شفقت کے باعث کسی طالب علم کا آپ کو چھوڑ
کر کسی دوسری جگہ جانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔
اتباع شریعت: سیدنا
غوث اعظم رضی اللہ عنہ نے تمام زندگی اپنے نانا جان حضور سیدنا محمد رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اتباع اور پیروی میں بسر کی۔ آپ جاہل صوفیوں اور نام نہاد پیروں
کی طرح طریقت و شریعت کو جدا نہیں سمجھتے تھے بلکہ ان کی نظر میں راہ تصوف و طریقت
کے لئے شریعت محمدیہ پر گامزن ہونا ضروری ہے، بغیر اس کے کوئی چارہ کار نہیں۔ سچ
یہ ہے کہ آپ کی ذات بابرکات شریعت و طریقت کی مجمع البحرین ہے۔
مسند وعظ و ارشاد: سرکار
غوثیت مآب رضی اللہ عنہ نے ظاہری و باطنی علوم کی تکمیل کے بعد درس و تدریس اور
وعظ و ارشاد کی مسند کو زینت بخشی۔ آپ رضی اللہ عنہ کی مجلس میں ستر ستر ہزار
افراد کا مجمع ہوتا۔ ہفتہ میں تین بار، جمعہ کی صبح، منگل کی شام اور اتوار کی صبح
کو وعظ فرماتے، جس میں زندگی کے تمام شعبوں سے تعلق رکھنے والے لوگ شرکت کرتے۔
بادشاہ، وزراء اور اعیان مملکت نیاز مندانہ حاضر ہوتے۔ علماء و فقہاء کا جم غفیر
ہوتا۔ بیک وقت چار چار سو علماء قلم دوات لے کر آپ کے ارشادات عالیہ قلم بند
کرتے۔حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی رضی اللہ عنہ رقمطراز ہیں:حضرت شیخ کی کوئی
محفل ایسی نہ ہوتی جس میں یہودی، عیسائی اور دیگر غیر مسلم آپ کے دست مبارک پر
اسلام سے مشرف نہ ہوتے ہوں اور جرائم پیشہ، بدکردار، ڈاکو، بدعتی، بد مذہب اور
فاسد عقائد رکھنے والے تائب نہ ہوتے ہوں۔
آپ رضی اللہ عنہ کے مواعظ حسنہ توحید،
قضا و قدر، توکل، عمل صالح، تقویٰ و طہارت، ورع، جہاد، توبہ، استغفار، اخلاص، خوف
و رجاء، شکر، تواضع، صدق وراستی، زہد و استغنا، صبرو رضا، مجاہدہ، اتباع شریعت کی
تعلیمات اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے آئینہ دار ہوتے۔آپ رضی اللہ عنہ
امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ ادا کرتے ہوئے حکمرانوں کو بلاخوف خطر
تنبیہ فرماتے۔ علامہ محمد بن یحییٰ حلبی رقمطراز ہیں:آپ رضی اللہ عنہ
خلفاء و وزراء، سلاطین، عدلیہ اور خواص و عوام سب کو امر بالمعروف اور نہی عن
المنکر فرماتے اور بڑی حکمت و جرات کے ساتھ بھرے مجمع اور کھلی محافل و مجالس میں
برسر منبر علی الاعلان ٹوک دیتے۔ جو شخص کسی ظالم کو حاکم بناتا اس پر اعتراض کرتے
اور اللہ تعالیٰ کے معاملہ میں ملامت کی پرواہ نہ کرتے۔ (سفر
محبت، محمد محب اللہ نوری، ص62تا 64)
علم فتوی:حضور
غوث اعظم رضی اللہ عنہ کی خدمت میں دنیائے اسلام کے ہرشہر سے استفتاء (سوالات) آتے
تھے، جن پر آپ کی آخری رائے طلب کی جاتی تھی، (جب سے آپ نے فتوی دینا شروع کیا)
ایک رات بھی ایسی نہ گزری ہوگی کہ جس رات آپ کے پاس دینی سوالات نہ آئے ہوں اور آپ
نے ان پر غور نہ کیا ہو اور پھر ان پر اپنی رائے نہ ثبت کی ہو۔(زبدۃالآثار صفحہ53)
آپ کی فقاھت: ایک
مرتبہ بلادِ عجم سے فتوی طلب کیا گیا، ایک شخص نے تین طلاقوں کی قسم اس طور پر
کھائی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی ایسی عبادت کرے گا کہ اس وقت کوئی دوسرا شخص وہ
عبادت نہ کررہا ہو، اگر وہ ایسا نہ کرسکا تو اس کی بیوی کو تین طلاقیں، تو اس صورت
میں وہ شخص کیا کرے؟ اس سوال سے علماء وفقہاءِ حیران رہ گئے اور کوئی جواب نہ دے
سکے، جب یہی سوال حضور غوث اعظم رضی اللہ عنہ کی بارگاہ میں پیش کیا گیا تو آپ نے
فوراً اس سوال کا جواب ارشاد فرمایا کہ وہ شخص مکۃ المکرمہ چلا جائے اور طواف کی
جگہ اپنے لیے خالی کرائے اور تنہا طواف کرکے اپنی قسم کو پورا کرلے، اس کی بیوی کو
طلاقیں نہیں ہوں گی ۔ اس جواب سے علماء حیران رہ گئے۔
تیرہ علوم :بہجتہ
الاسرار میں ہے کہ حضورغوث اعظم رضی اللہ عنہ تیرہ علوم میں کلام فرماتے تھے، حضور
غوث اعظم رضی اللہ عنہ کے مدرسے میں درسِ تفسیر، درسِ حدیث ، درسِ علمِ الکلام اور
درسِ مناظرہ ہوا کرتا۔ حضور غوث اعظم رضی اللہ عنہ دن کے دونوں حصوں میں تفسیر ،
علومِ حدیث ، علم الکلام،علمِ مناظرہ، علمِ اصول، علمِ نحو پڑھاتے اور دوپہر کے
بعد قراء تیں پڑھاتے تھے۔
علم لدنی:ایک
دفعہ شیخ بزار رحمتہ اللہ علیہ حضور غوث اعظم رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے،
آپ اس وقت دودھ نوش فرمارہے تھے۔ تھوڑاساآرام کیا اور چپ رہے ، پھرفرمانے لگے:
اللہ تعالیٰ نے علمِ لدنی کے ستردروازے میرے لیے کھول دئیے ہیں اور ہردروازہ زمین
و آسمان کی پہنائیوں سے بھی زیادہ وسیع ہے۔ پھر آپ نے معارف وخواص پر گفتگو شروع
کی جس سے اہلِ مجلس مدہوش ہوگئے۔
علمِ حقیقت:سیدنا
احمد رفاعی علیہ الرحمہ سے مروی ہے کہ انہوں نے فرمایا: شیخ عبدالقادر رضی اللہ
عنہ وہ ہیں کہ شریعت کا سمندر ان کے دائیں ہاتھ ہے اور حقیقت کا سمندر ان کے بائیں
ہاتھ، جس میں سے چاہیں پانی لیں، ہمارے اس وقت میں سید عبدالقادر رضی اللہ عنہ کا
کوئی ثانی نہیں۔(بہجتہ الاسرار صفحہ225،226،444)
عبادت وریاضت:حضور
غوث اعظم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ’’اربعین سنۃ اصلی الصبح بوضو ء العشاء‘‘ میں
چالیس سال تک عشاء کے وضو سے صبح کی نماز اداکرتا رہا۔ مزید فرماتے ہیں : پندرہ
سال تک یہ حالت رہی کہ عشاء کی نماز پڑھتا، ایک پاؤں پر کھڑا ہوجاتا اور قرآن پڑھنا
شروع کردیتا یہاں تک کہ سحری کے وقت قرآن پاک مکمل ہوجاتا۔
شیخ ابوعبد اللہ محمدبن ابوالفتح ہروی
رحمتہ اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت شیخ محی الدین سید عبدالقادر
جیلانی، قطب ربانی رضی اللہ عنہ کی چالیس سال تک خدمت کی۔ اس مدت میں آپ عشاء کے
وضو سے صبح کی نماز پڑھتے تھے۔ (یعنی ساری رات عبادت میں گزارتے ) اور آپ کا معمول
تھا کہ جب بے وضو ہوتے تھے تو اسی وقت وضو فرماکر دورکعت نمازِ نفل پڑھ لیتے تھے۔
آپ عشاء پڑھ کر خلوت میں تشریف لے جاتے اور طلوع فجرتک عبادت میں مصروف رہتے، اس
دوران کوئی آپ سے ملاقات نہ کرسکتا، اس دوران بعض اوقات خلیفہٗ بغداد بھی ملنے آیا
مگر آپ سے ملاقات نہ ہوسکی۔
حضور غوث اعظم رضی اللہ عنہ فرماتے
ہیں۔ میں پچیس سال عراق کے جنگلوں میں ریاضت کرتا رہا، میں لوگوں کو پہچانتا تھا
مگر لوگ مجھے نہیں پہچانتے تھے، میرے پاس رجال الغیب اور جنوں کی جماعتیں آتیں اور
میں انہیں خداشناسی کا راستہ دکھایا کرتا، چالیس سال تک میں نے عشاء کے وضو سے فجر
کی نمازادا کی، پندرہ سال تک نمازِ عشاء کے بعد ایک پاؤں پر کھڑا ہوکر قرآن پاک
ختم کرتا رہا، میرا ہاتھ دیوار میں گڑے ہوئے کیل کی طرح رہتا تاکہ مجھے نیند نہ
آئے حتیٰ کہ سحری کے وقت تک سارا قرآن پاک ختم کرلیتا، کبھی کبھی تین دن سے چالیس
دن تک صرف گری پڑی چیزوں پر گزارا کرتا، میں بسلسلہٗ ریاضت گیارہ سال تک برج عجمی
پر قیام پذیر رہا، میری اقامت کی وجہ سے ہی اس برج کا نام برجِ عجمی پڑگیا ،
بسااوقات یوں ہوتا کہ میں اپنے اللہ سے عہد کرلیتا کہ میں اس وقت تک کھانا نہیں
کھاؤں گا جب تک مجھے کھلایا پلایا نہیں جائیگا۔ چنانچہ میں اسی حالت میں چالیس روز
تک رہا، چالیس دن کے بعد ایک شخص آیا، میرے سامنے اس نے کھانا لگادیا اور خود چلا
گیا۔ شدتِ بھوک کے عالم میں یہ کوئی بڑی بات نہ تھی کہ میں کھانے کی طرف ہاتھ
بڑھاتا مگر مجھے اپنی قسم یاد آگئی اور میں نے کھانے سے ہاتھ روک لیا۔ بھوک کی
بیتابی سے میرے پیٹ سے ایک آواز آئی جوالجوع الجوع (بھوک بھوک) پکاررہی تھی میں نے
اس آواز کی بھی کچھ پروا نہ کی۔ پھر میرے پاس شیخ ابوسعید مخزومی رحمۃ اللہ علیہ
تشریف لائے اور میری اس آواز کو سنتے ہی فرمانے لگے:عبدالقادر !یہ کیسی آواز ہے؟
میں نے عرض کیا: یا حضرت! یہ میرے نفس کے قلق واضطراب کی شورش ہے لیکن میری روح
میرے اللہ کے پاس پُرسکون ہے۔ پھر آپ نے فرمایا: آؤ بابِ ازج کی طرف چلیں ۔ آپ نے
وہاں پہنچ کر مجھے اپنی حالت پر چھوڑ دیا اور خود چلے گئے اس کے بعد حضرت خضر علیہ
السلام میرے پاس آئے اور کہنے لگے : اٹھو اور ابوسعید المخزومی کی طرف چلیں، میں
آپ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ کے سامنے کھانا رکھا تھا، میں نے پوچھا یا حضرت !
مجھے کھانا کون دے رہا ہے آپ نے بتایا یہ کھانا اللہ تعالیٰ نے بھیجا ہے۔ آپ مجھے
کھلاتے گئے حتیٰ کہ میں سیر ہوگیا پھر آپ نے مجھے اپنے ہاتھ خرقہ پہنایا۔ (بہجتہ الاسرار صفحہ118،119،164)
تبلیغ وارشاد:حضرت
بزاز علیہ الرحمہ فرماتے ہیں میں نے حضور غوث اعظم رضی اللہ عنہ سے سنا کہ آپ کرسی پر بیٹھے فرمارہے تھے کہ میں نے حضور سید
عالم، نورمجسم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کی زیارت کی تو آپ صلی اللہ تعالیٰ
علیہ والہ وسلم نے مجھے فرمایا بیٹا تم بیان کیوں نہیں کرتے؟ میں نے عرض کیا اے
میرے نانا جان (صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم)! میں ایک عجمی مرد ہوں بغداد میں
فصحاء کے سامنے بیان کیسے کروں؟ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے مجھے فرمایا
بیٹا اپنا منہ کھولو۔ میں نے اپنا منہ کھولا تو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم
نے میرے منہ میں سات دفعہ لعاب مبارک ڈالا اور مجھ سے فرمایا کہ ’’لوگوں کے سامنے
بیان کیا کرو اور انہیں اپنے رب عزوجل کی طرف عمدہ حکمت اور نصیحت کے ساتھ بلاؤ۔
پھر میں نے نمازِ ظہر اداکی اور بیٹھ
گیا میرے پاس بہت سے لوگ آئے اور مجھ پر چلائے اس کے بعد میں نے حضرت علی ابن ابی
طالب کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم کی زیارت کی کہ میرے سامنے مجلس میں کھڑے ہیں
اور فرماتے ہیں کہ اے بیٹے تم بیان کیوں نہیں کرتے؟ میں نے عرض کیا اے میرے والد
!لوگ مجھ پر چلاتے ہیں پھر آپ نے فرمایا اے میرے فرزند !اپنا منہ کھولو۔میں نے
اپنا منہ کھولا تو آپ نے میرے منہ میں چھ دفعہ لعاب ڈالا میں نے عرض کیا کہ آپ نے
سات دفعہ کیوں نہیں ڈالا؟
تو انہوں نے فرمایا رسول اللہ ﷺ کے ادب کی وجہ
سے پھر وہ میری آنکھوں سے اوجھل ہوگئے۔ پھرکیا تھا دورونزدیک سے لوگ آپ کا وعظ
سننے کیلئے حاضر ہونے لگے، بڑے بڑے اجتماعات ہونے لگے۔ آپ رضی اللہ عنہ کی مجلس
مبارک میں شرکاء کا اجتماع بہت زیادہ ہوتا تھا لیکن آپ رضی اللہ عنہ کی آواز مبارک
جیسی نزدیک والوں کو سنائی دیتی تھی ویسی ہی دوروالوں کو سنائی دیتی تھی یعنی دور
اور نزدیک والوں کے لیے آپ رضی اللہ عنہ کی آواز مبارک یکساں تھی۔(بہجتہ الاسرار صفحہ58،181)
شیخ
محقق شیخ عبدالحق محدث دہلوی علیہ الرحمہ فرماتے
ہیں حضور غوث اعظم رضی اللہ عنہ کی مجلس شریف میں کل اولیاء علیہم الرحمتہ اور
انبیاء کرام علیہم السلام جسمانی حیات اور ارواح کے ساتھ نیز جن اور ملائکہ تشریف
فرما ہوتے تھے اور حبیب رب العالمین صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم بھی تربیت
وتائید فرمانے کیلئے جلوہ افروز ہوتے تھے اور حضرت سیدنا خضر علیہ السلام تو اکثر
اوقات مجلس شریف کے حاضرین میں شامل ہوتے تھے اور نہ صرف خود آتے بلکہ مشائخ زمانہ
میں سے جس سے بھی آپ علیہ السلام کی ملاقات ہوتی تو ان کو بھی آپ رضی اللہ عنہ کی
مجلس میں حاضر ہونے کی تاکید فرماتے ہوئے ارشاد فرماتے کہ ’’جس کو بھی فلاح
وکامرانی کی خواہش ہو اس کو حضور غوث اعظم رضی اللہ عنہ کی مجلس شریف کی ہمیشہ
حاضری ضروری ہے۔ (اخبارالاخبار صفحہ 13)
حضور غوث اعظم رضی اللہ عنہ فرماتے
ہیں میرے ہاتھ پر پانچ سو سے زائد یہودیوں اور عیسائیوں نے اسلام قبول کیا اور ایک
لاکھ سے زیادہ ڈاکو ،چور ،فساق وفجار ،فسادی اور بدعتی لوگوں نے توبہ کی۔
سلطان صلاح الدین ایوبی کی فتوحات کا راز: حضرت سلطان صلاح الدین ایوبی الشافعی علیہ الرحمہ نے جب القدس
فتح کیا تو جس لشکر کے ذریعے بیت المقدس
فتح کیا، اس آرمی میں شامل لوگوں کی بھاری اکثریت حضور غوث الاعظم ص کے تلامذہ کی
تھی۔ گویا آپ کے مدرسہ سے فارغ التحصیل ہونے والے طلبہ صرف متہجد ہی نہیں تھے بلکہ
عظیم مجاہد بھی تھے۔آپ علیہ الرحمہ کی
آدھی سے زائد فوج حضور غوث الاعظم کے عظیم مدرسہ کے طلبہ اور کچھ فیصد لوگ فوج میں
وہ تھے جو امام غزالی کے مدرسہ نظامیہ کے فارغ التحصیل طلبہ تھے۔ آپ علیہ الرحمہ کے چیف ایڈوائزر امام ابن قدامہ المقدسی الحنبلی
حضور سیدنا غوث الاعظم کے شاگرد اور خلیفہ ہیں۔ آپ براہِ راست حضور غوث پاک کے
شاگرد، آپ کے مرید اور خلیفہ ہیں۔ گویا تاریخ کا یہ سنہرا باب جو سلطان صلاح الدین
ایوبی نے رقم کیا وہ سیدنا غوث الاعظم ص کا فیض تھا۔
امام ابن قدامہ المقدسی الحنبلی اور ان کے کزن امام عبد
الغنی المقدسی الحنبلی دونوں حضور غوث الاعظم کے تلامذہ میں سے ہیں۔ یہ دونوں فقہ
حنبلی کے جلیل القدر امام اور تاریخ اسلام کے جلیل القدر محدث ہیں۔
امام ابن قدامہ مقدسی علیہ الرحمہ کہتے ہیں کہ جب میں اور میرے کزن
(امام عبدالغنی المقدسی) حضور غوث الاعظم کی بارگاہ میں کسبِ علم و فیض کے لئے
پہنچے تو افسوس کہ ہمیں زیادہ مدت آپ کی خدمت میں رہنے کا موقع نہ ملا۔ اس وقت آپ
رضی اللہ عنہ کی عمر 90 برس تھی، یہ آپ کی حیات ظاہری کا آخری سال تھا۔ اسی سال ہم
آپ کی خدمت میں رہے، تلمذ کیا، حدیث پڑھی، فقہ حنبلی پڑھی، آپ سے اکتساب فیض کیا
اور خرقہ خلافت و مریدی پہنا۔
امام الذہبی نے سیر اعلام النبلاء میں لکھا ہے کہ امام
ابن قدامہ الحنبلی المکی المقدسی فرماتے ہیں
کہ سیدنا غوث الاعظم رضی اللہ عنہ کی کرامات جتنی تواتر سے ہم تک پہنچی ہیں اور
جتنی متواتر النقل ہیں، ہم نے پہلے اور بعد میں آج تک روئے زمین کے کسی ولی اللہ
کی کرامتوں کا اتنا تواتر نہیں سنا۔ ہم آپ کے شاگرد تھے اور آپ کے مدرسہ کے حجرہ
میں رہتے تھے۔ سیدنا غوث الاعظم رضی اللہ عنہ اپنے بیٹے یحییٰ بن عبد القادر کو بھیجتے اور وہ
ہمارے چراغ جلا جاتا تھا۔ یہ تواضع، انکساری، ادب، خلق تھا کہ بیٹا چراغ جلا جاتا
اور گھر سے درویشوں کے لیے کھانا پکا کر بھیجتے تھے۔ نماز ہمارے ساتھ آ کر پڑھتے
اور ہم آپ سے اسباق پڑھتے تھے۔
شیخ شہاب الدین عمر سہروردی رحمۃ اللہ علیہ نے بیان کیا
کہ اوائل عمر میں ہی علوم کی کتب پڑھ لینے کے بعد میں علم الکلام، فلسفہ، منطق
وغیرہ پڑھنا چاہتا تھا۔ اس حوالے سے میں متردد تھا کہ کس کتاب سے آغاز کروں؟ امام
الحرمین الجوینی کی کتاب ’’الارشاد‘‘ پڑھوں یا امام شھرستانی کی کتاب ’’نہایۃ
الاقدام‘‘ پڑھوں؟ یا اپنے شیخ ابو نجیب سہروردی (اپنے وقت کے کامل اقطاب اور
اولیاء میں سے تھے، یہ ان کے چچا بھی تھے اور شیخ بھی تھے) کی کتاب پڑھوں؟ میری یہ
متردد صورتِ حال دیکھ کر میرے شیخ امام نجیب الدین سہروردی مجھے شیح عبد القادر
جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کی بارگاہ میں لے کر حاضر ہوئے۔ میرے شیخ حضرت ابو نجیب
سہروردی، حضور غوث پاک کی بارگاہ میں جا کر ان کی اقتداء میں نماز ادا کرتے۔ خیال
تھا کہ نماز سے فارغ ہو کر جب مجلس ہوگی تو ہم حضور غوث الاعظم سے عرض کریں گے اور
رہنمائی لیں گے اور پھر آپ جو فرمائیں گے وہ کتاب میں شروع کروں گا۔ ابھی ہم حاضر
ہی ہوئے تھے، نماز بھی نہ ہوئی تھی اور مجلس بھی نہ ہوئی تھی، صرف خیال دل میں
تھا۔ فرماتے ہیں کہ مجھے دیکھتے ہی غوث الاعظم میری طرف متوجہ ہوئے اور مجھے
فرمایا:يا عمر ما هو من
زاد القبر ما هو من زاد القبر. جو کتابیں تم پڑھنے کا
ارادہ رکھتے ہو کیا یہ قبر میں بھی کام نہیں آئیں گی۔ یعنی جو علم الکلام، منطق،
فلسفہ، کلام کی کتابیں تم پڑھنے کا ارادہ رکھتے ہو اور تم پوچھنے آئے ہو، یہ قبر
میں کام نہیں آئیں گی۔
شيخ سہروردی فرماتے ہيں:فرجعت
عن ذالک.میں سمجھ گیا کہ
حضور غوث الاعظم کو کشف ہوگیا ہے اور میرے قلب کا حال جان کر تصحیح کر دی۔ پھر میں
نے اس علم کے حصول سے توبہ کرلی۔ اس واقعہ کو روایت کرنے کے بعد علامہ ابن تیمیہ
لکھتے ہیں:ان الشيخ کاشفه
بما کان فی قلبه."جو ان کے دل میں تھا، شیخ عبد القادر
جیلانی کو اس کا کشف ہوگیا‘‘۔
محدثین اور آئمہ سیدنا غوث اعظم ص کی مجلس میں بیٹھ کر
آپ سے تلمذ کرتے۔ ستر ہزار حاضرین ایک وقت میں آپ کی مجلس میں بیٹھتے۔ امام ابن
حجر عسقلانی نے ’مناقب شیخ عبدالقادر جیلانی میں لکھا ہے کہ ستر ہزار کا مجمع
ہوتا، (اس زمانے میں (لاؤڈ سپیکر نہیں تھے) جو آواز ستر ہزار کے اجتماع میں پہلی
صف کے لوگ سنتے اتنی آواز ستر ہزار کے اجتماع کی آخری صف کے لوگ بھی سنتے۔ اس مجلس
میں امام ابن جوزی (صاحبِ صفۃ الصفوہ اور اصول حدیث کے امام) جیسے ہزارہا محدثین،
آئمہ فقہ، متکلم، نحوی، فلسفی، مفسر بیٹھتے اور اکتسابِ فیض کرتے تھے۔
سیدنا غوث الاعظم رضی اللہ عنہ ایک مجلس میں قرآن مجید
کی کسی آیت کی تفسیر فرمارہے تھے۔ امام ابن جوزی بھی اس محفل میں موجود تھے۔ اس
آیت کی گیارہ تفاسیر تک تو امام ابن جوزی اثبات میں جواب دیتے رہے کہ مجھے یہ
تفاسیر معلوم ہیں۔ حضور غوث الاعظم نے اس آیت کی چالیس تفسیریں الگ الگ بیان کیں۔
امام ابن جوزی گیارہ تفاسیر کے بعد چالیس تفسیروں تک ’’نہ‘‘ ہی کہتے رہے یعنی پہلی
گیارہ کے سوا باقی انتیس تفسیریں مجھے معلوم نہ تھیں۔ امام ابن جوزی کا شمار
صوفیاء میں نہیں ہے بلکہ آپ جلیل القدر محدث ہیں، اسماء الرجال، فن اسانید پر بہت
بڑے امام اور اتھارٹی ہیں۔ سیدنا غوث الاعظم رضی اللہ عنہ چالیس تفسیریں بیان کر
چکے تو فرمایا:الآن نرجع من
القال إلی الحال."اب ہم قال کو چھوڑ کر حال کی تفسیروں
کی طرف آتے ہیں۔‘‘جب حال کی پہلی
تفسیر بیان کی تو پورا مجمع تڑپ اٹھا، چیخ و پکار کی آوازیں بلند ہوئیں۔ امام ابن
جوزی بھی تڑپ اٹھے۔ محدث زماں نے اپنے کپڑے پکڑ کر پرزے پرزے کر دیئے اور وجد کے
عالم میں تڑپتی ہوئی مچھلی کی طرح تڑپتے ہوئے نیچے گر پڑے۔ یہ امام ابن جوزی کا
حال ہے۔
امام یافعی علیہ الرحمہ (جن کی کتاب کی امام ابن حجر عسقلانی
نے التلخیص الخبیر کے نام سے تلخیص کی) فرماتے ہیں کہ شرق تا غرب پوری دنیا سے
علماء، فقہاء، محدثین، صلحا اور اہل علم کی کثیر جماعت اطراف و اکناف سے چل کر آتی
اورآپ کی مجلس میں زندگی بھر رہتے، علم حاصل کرتے۔ حدیث لیتے، سماع کرتے اور دور
دراز تک علم کا فیض پہنچتا۔ امام یافعی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ سیدنا غوث الاعظم رضی اللہ عنہ کا قبول عام اتنا وسیع تھا اور آپ کی کراماتِ
ظاہرہ اتنی تھیں کہ اول سے آخر کسی ولی اللہ کی کرامات اس مقام تک نہیں
پہنچیں۔امام یافعی علیہ الرحمہ شعر میں اس
انداز میں حضور غوث پاک کی بارگاہ میں ہدیہ عقیدت پیش کرتے ہیں کہ غوث الوراء، غيث
النداء نور الهدی٭٭٭بدر الدجی شمس الضحی بل الانور( يافعی،
مرأة الجنان، 3: 349)
نتیجہ: بعض لوگ نادانی میں کہتے ہیں کہ آپ شیخ
عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کو غوث الاعظم کہتے ہیں، یہ ناجائز ہے۔ غوث، اللہ
کے سوا کوئی نہیں ہوتا۔ غور کریں کہ امام، محدث اور امام فقہ ان کو غوث کہتے تھے۔
غوث الوریٰ کا مطلب ہے ساری خلق کے غوث۔ اسی طرح غیث النداء، نور الہدیٰ بدر
الدجیٰ، شمس الضحیٰ یہ تمام الفاظ ان آئمہ کی حضور غوث الاعظم سے عقیدت کا مظہر
ہیں۔
علامہ ابن تیمیہ کے شاگرد، حافظ ابن کثیر اپنی کتاب
البدایہ والنہایہ جلد 12 ص 252 پر کہتے ہیں کہ حضور غوث اعظم سے خلقِ خدا نے اتنا
کثیر نفع پایا جو ذکر سے باہر ہے۔ پھر فرماتے ہیں کہ آپ کے احوال صالحہ تھے اور
مکاشفات و کرامات کثیرہ تھیں۔
امام ابن قدامہ اور ابن رجب حنبلی وہ علماء ہیں جو
علامہ ابن تیمیہ اور علامہ ابن القیم کے اساتذہ ہیں اور ان کو سلفی شمار کیا جاتا
ہے۔ یہ سلفی نہیں بلکہ غوث پاک کے مرید ہیں۔ لوگوں کے مطالعہ کی کمی ہے جس کی وجہ
سے یہ غلط مباحث جنم لیتی ہیں۔ امام ابن رجب الحنبلی کو بھی پوری سلفیہ لائن کا امام
سمجھا جاتا ہے۔ آپ نے زیل الطبقات الحنابلہ میں سیدنا غوث اعظم کے حوالے سے بیان
کیا کہ:کان هو زاهد شيخ
العصر وقدوة العارفين وسلطان المشائخ وسيد اهل الطريقه محی الدين ابو محمد صاحب
المقامات والکرامات والعلوم والمعارف والاحوال المشهوره.
(ابن رجب الحنبلی، زيل الطبقات الحنابلہ، 2:
188) یہ صرف نام کے القاب نہیں بلکہ یہ حضور غوث الاعظم
کا مقام ہے جسے امام ابن رجب حنبلی نے بیان کیا ہے۔
امام ذہبی (جلیل القدر محدث) سیر اعلام النبلاء میں
بیان کرتے ہیں کہ:ليس في کبائر
المشائخ من له احوال وکرامات اکثر من الشيخ عبد القادر الجيلانی."کبائر مشائخ اور اولیاء میں اول تا آخر
کوئی شخص ایسا نہیں ہوا جس کی کرامتیں شیخ عبد القادر جیلانی سے بڑھ کر ہوں‘‘۔
شافعی
مذہب میں امام العز بن عبد السلام بہت بڑے امام اور اتھارٹی ہیں۔ سعودی عرب میں
بھی ان کا نام حجت مانا جاتا ہے۔ یہ وہ نام ہیں جن کو رد کرنے کی کوئی جرأت نہیں
کرسکتا۔ امام العز بن عبد السلام کا قول امام ذہبی نے سیر اعلام النبلاء میں بیان
کیا کہ وہ فرماتے ہیں: ما نقلت إلينا کرامات أحد
بالتواتر إلا شيخ عبد القادر الجيلانی"آج
تک اولیاء کرام کی پوری صف میں کسی ولی کی کرامتیں تواتر کے ساتھ اتنی منقول نہیں
ہوئیں جتنی شیخ عبد القادر الجیلانی کی ہیں اور اس پر اتفاق ہے‘‘۔
جلیل
القدر علماء آپ کی بارگاہ میں حاضر ہوتے اور آپ کی خدمت میں حاضر ہوکر تائب ہوتے۔
ابو البقا بیان کرتے ہیں کہ میں نے نحو، شعر، بلاغت اور ادب میں اپنے وقت کے امام
یحییٰ بن نجاح الادیب سے سنا کہ میں حضرت شیخ عبد القادر جیلانی کی مجلس میں گیا،
ہر کوئی اپنے ذوق کے مطابق جاتا تھا، میں گیا اور میں نے چاہا کہ میں دیکھوں کہ
غوث الاعظم اپنی گفتگو میں کتنے شعر سناتے ہیں۔ وہ چونکہ خود ادیب تھے لہذا اپنے
ذوق کے مطابق انہوں نے اس امر کا ارادہ کیا۔ صاف ظاہر ہے حضور غوث الاعظم اپنے درس
کے دوران جو اشعار پڑھتے تھے وہ اپنے بیان کردہ علم کی کسی نہ کسی شق کی تائید میں
پڑھتے تھے۔ درس کے دوران اکابر، اجلاء، ادبا اور شعراء کو پڑھنے سے مقصود بطور
اتھارٹی ان کو بیان کرنا تھا تاکہ نحو دین، فقہ، بلاغت، لغت، معانی کا مسئلہ دور
جاہلیت کے شعراء کے شعر سے ثابت ہو، یہ بہت بڑا کام ہے۔
امام
النحو والادب یحییٰ بن نجاح الادیب بیان کرتے ہیں کہ میں آپ کی مجلس میں گیا اور
سوچا کہ آج ان کے بیان کردہ اشعار کو گنتا ہوں۔ کہتے ہیں کہ میں دھاگہ ساتھ لے گیا
کہ ہاتھ پر گنتے گنتے بھول جاؤں گا۔ جب آپ ایک شعر پڑھتے تو میں دھاگہ پر ایک
گانٹھ دے دیتا تاکہ آخر پر گنتی کر لوں۔ جب آپ اگلا شعر پڑھتے تو پھر دھاگہ پر
گانٹھ دے لیتا۔ اس طرح میں آپ کے شعروں پر دھاگہ پر گانٹھ دیتا رہا۔ اپنے کپڑوں کے
نیچے میں نے دھاگہ چھپا کر رکھا ہوا تھا۔ جب میں نے دھاگہ پر کافی گانٹھیں دے دیں
تو سیدنا غوث اعظمص ستر ہزار کے اجتماع میں میری طرف متوجہ ہوئے اور مجھے دیکھ کر
فرمایا:انا احل و انت تاکد."میں گانٹھیں کھولتا ہوں
اور تم گانٹھیں باندھتے ہو‘‘۔(ذہبی، سير اعلام النبلاء،
20: 448)
یعنی
میں الجھے ہوئے مسائل سلجھا رہا ہوں اور تم گانٹھیں باندھنے کے لیے بیٹھے ہو۔ کہتے
ہیں کہ میں نے اسی وقت کھڑے ہو کر توبہ کر لی۔ اندازہ لگائیں یہ آپ رضی اللہ عنہ
کی مجلس میں آئمہ کا حال تھا۔
امام الحافظ عبد الغنی المقدسی بیان کرتے ہیں کہ میں نے
اس دور کے بغداد کے نحو کے امام ابو محمد خشاب نحوی سے کہتے ہوئے سنا کہ میں نحو
کا امام تھا، غوث اعظم کی بڑی تعریف سنتا تھا مگر کبھی ان کی مجلس میں نہیں گیا
تھا۔ یہ نحوی لوگ تھے، اپنے کام میں لگے رہتے تھے۔ ضرب یضرب میں لگے رہتے ہیں،
انہیں ایک ہی ضرب آتی ہے، دوسری ضرب یعنی ضرب قلب سے دلچسپی نہیں ہوتی۔ کہتے ہیں
کہ ایک دن خیال آیا آج جاؤں اور سنوں تو سہی شیخ عبد القادر جیلانی کیا کہتے
ہیں؟میں گیا اور ان کی مجلس میں بیٹھ کر انہیں سننے لگا۔میں نحوی تھا، اپنے گھمنڈ
میں تھا لہذا مجھے ان کا کلام کوئی بہت زیادہ شاندار نہ لگا۔ میں نے دل میں کہا:"آج کا دن میں نے ضائع کر دیا‘‘۔بس اتنا
خیال دل میں آنا تھا کہ منبر پر دوران خطاب سیدنا غوث الاعظم ص مجھے مخاطب ہو کر
بولے:اے محمد بن خشاب
نحوی! تم اپنی نحو کو خدا کے ذکر کی مجلسوں پر ترجیح دیتے ہو۔ یعنی جس سیبویہ
(امام النحو، نحو کے موضوع پر ’’الکتاب‘‘ کے مصنف) کے پیچھے تم پھرتے ہو، ہم نے وہ
سارے گزارے ہوئے ہیں۔ آؤ ہمارے قدموں میں بیٹھو تمہیں نحو بھی سکھا دیں گے۔ امام
محمد بن خشاب نحوی کہتے ہیں کہ میں اسی وقت تائب ہو گیا۔ آپ کی مجلس میں گیا اور
سالہا سال گزارے۔ خدا کی قسم ان کی صحبت اور مجلس سے اکتساب کے بعد نحو میں وہ
ملکہ نصیب ہوا جو بڑے بڑے آئمہ نحو کی کتابوں سے نہ مل سکا تھا۔ان حوالہ جات کو
بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ پتہ چلے کہ آئمہ حدیث و فقہ نے حضور غوث الاعظم کے
علمی مقام و مرتبہ کو نہ صرف بیان کیا بلکہ آپ کو علم میں اتھارٹی تسلیم کیا ہے۔
مذکورہ جملہ بیان سے یہ بھی معلوم ہوا کہ کل امام کرامتوں کو ماننے والے تھے،
اولیاء کو ماننے والے تھے اور سیدنا غوث الاعظم کے عقیدت مند تھے۔ یہ کہنا کہ حضور
غوث الاعظم کے مقام و مرتبہ اور ان کے القابات کو اعلیٰ حضرت نے یا ہم نے گڑھ لیا
ہے، نہیں، ایسا ہرگز نہیں ہے بلکہ حدیث، فقہ، تفسیر اور عقیدہ کے کل آئمہ نو سو
سال سے ان کی شان اسی طرح بیان کرتے چلے آئے ہیں۔ (ماخوذ
از ماہنامہ منہاج القرآن، جنوری 2017)
حضرت شیخ امام ابوالحسن علی بن الہیتی
رحمتہ اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں میں نے حضور غوث اعظم رضی اللہ عنہ اور شیخ
بقابن بطو کے ساتھ حضرت سیدنا امام احمد بن حنبل رضی اللہ عنہ کے روضہ اقدس کی
زیارت کی ، میں نے دیکھا کہ حضرت سیدنا امام احمد بن حنبل رضی اللہ عنہ قبر سے
باہر تشریف لائے اور حضور غوث اعظم رضی اللہ عنہ کو اپنے سینے سے لگالیا اور انہیں
خلعت پہنا کر ارشاد فرما یا اے شیخ عبدالقادر !بے شک میں تمہارے علم شریعت ،علم
حقیقت ،علم حال اور فعل حال میں محتاج ہوں۔
محبوب سبحانی حضرت سیدنا شیخ عبد
القادر جیلانی الحسنی والحسینی رضی اللہ
عنہ نے طالبین ِ حق کے لیے گرانقدر کتابیں تحریرکیں، ان میں سے کچھ کے نام درج ذیل
ہیں:
غنیۃ الطالبین
الفتح الربانی والفیض الرحمانی
ملفوظات
فتوح الغیب
جلاء الخاطر
ورد الشیخ عبد القادر الجیلانی
بہجۃ الاسرار
الحدیقۃ المصطفویہ
الرسالۃ الغوثیہ
آدابِ سلوک و التوصل الی ٰ منازل ِ
سلوک
جغرافیۃ الباز الاشہب