کنیت :ابو حامد
اسم گرامی:
محمدبن محمدبن محمدبن احمد طوسی غزالی شافعی
علیہ الرحمہ
لقب: حجۃ الاسلام۔امام غزالی
کے نام سے معروف ہیں۔
سلسلۂ
نسب اسطرح ہے: حضرت حجۃ
الاسلام امام محمد بن محمد بن احمد طوسی غزالی شافعی رحمہم اللہ تعالیٰ
ولادت
باسعادت : آپ 450ہجری میں خرسان کے ضلع طوس کے علاقے طابران میں پیدا ہوئے۔
اولاد
کی تمنا: حضرت سیدنا شیخ تاج الدین سبکی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ آپ کے
والد ماجد بڑے نیک فعال متحرک شخصیت کے مالک تھے وہ اپنے ہاتھ کی کمائی کھانا پسند
کرتے تھے اسی لئے اون کات کر اسکوفروخت کیا کرتے تھے یعنی اون کے تاجر تھے فقہائے عظام
کی مجلس میں شریک ہوا کرتے ،اور ان کے ساتھ حسن سلوک سے پیش اتے،حتی الوسع ان پر خرچ
کیا کرتے ،ان کی محافل میں خشیت الہی سےگریہ وزاری کرتےاور اللہ تعالی سے دعاکرتے تھے
اللہ تعالی مجھے بیٹا عطا کرے اور اسے فقیہ بنائے کیوں کہ انھیں معلوم تھا کہ جس کے
ساتھ اللہ تعالی بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے اسے دین کا فقیہ بنا دیتا ہے رسول اکرم
صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں کہ” من یرد اللہ بہ خیرا یفقہ فی الدین “اللہ
تعالی جس کے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرماتا اسے دین کی سمجھ عطا فرماتا ہے پھر اسی مجالس
وعظ میں حاضر ہوتےتو رو رو کر دعا کرتے الہی بیٹا عطا کر اور اسے دین کا وعظ بنا اللہ
تعالی ان کی دونوں دعاؤں کو شرف قبولیت سے سرفراز فرمایا ۔
تاریخِ
ولادت:450 ہجری خراسان کے شہر طوس میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد ماجد دھاگے کی
تجارت کرتے تھے۔ اس مناسبت سے آپ کا خاندان غزالی کہلاتا ہے۔ ان علاقوں میں نسبت کا
یہی طریقہ مروج ہے، جیسے عطار کو عطاری اور قصار کو قصاری کہتے ہیں۔
حالات
زندگی : آپ کے والد برزگوار محمدبن محمد رحمہ اللہ شہر خراسان میں اون کات
کر فروخت کیا کرتے تھے پیشے کے اعتبار سے اون کے تاجرتھے اسی مناسبت سے آپ کا خاندان
غزالی سے مشہور ہوگیا حضرت امام غزالی اور آپ کے چھوٹے بھائی حضرت احمد غزالی رحمہا
اللہ کم سن ہی تھے کہ والد ماجد رحمہ اللہ وصال فرماگئے انتقال کے پہلے اپنے صوفی دوست
حضرت ابو حامد محمدبن احمد رازکانی کو وصیت کی تھی کہ میری تمام ملکیت ان دونوں بچوں
کی تعیلم وتربیت نشو ونماء پر صر ف کر دیا جائے وصیت کے مطابق ان کے والد ماجد کاتمام
سرمایہ تعلیم وتربیت اور کفالت پر صرف کردیا گیا۔
ابتدائی
تعلیم: ابتدائی طوس شہر میں حاصل کی کتب فقہ حضرت احمدبن رازکانی سے پڑھیں
ابھی عمر ۲۰ کی تھی تو جرجان تشریف لے گئے وہاں حضرت ابو نصر اسماعلی کے پاس کچھ عرصہ
رہے پھر اپنے شہر طوس لوٹ آئے نیشاپور میں حضرت سیدنا امام الحرمیں عبد الملک بن عبد
اللہ جوینی رحمہاللہ کی بارگاہ میں زانوئے ادب طے فرمایا ان سےاصول دین اختلافی مسائل
مناظرہ ‘حکمت میں مہارت تامہ کاملہ حاصل کی ایک مختصرعرصے میں تمام علوم فنون میں حاذق
و ماہر ہونا ایک عام ادمی کی لئے ممکن نہ تھا۔ایں سعادت بزور بازو نیست: تانبخشد خدائے
بخشندہ،یہ سعادت بزور بازو نھیں ملتی جب تک بخشنے والا خداوند تعالی نہ عطا
کر دے۔ترجمہ: کنزالایمان تو کیا وہ جس کا سینہ اللہ تعالی نے اسلام کے لیے کھول دیا
تو وہ اپنے رب کی طرف سے نور پر ہےیہ شرح صدر ہی تو ہے یہ سعادت بزور بازو نھیں ملتی
جب تک بخشنے والا خداوند تعالی نہ عطا کر دے اس عبقری شخصیت کے جس علوم وفنون کو ملاحظہ
کریں تو آپ کو معلوم ھوگا کہ وہ ھر فن کے امام تھےجس فن میں انھوں نے قلم اٹھا ہے
تو اس فن کاحق ادا فرما دیا ھے بہت سے ایسے بھی علوم و فنون ہیں جن میں کوئی ان کا
استاذ یا شیخ نھیں ہے اس کے باوجود وہ خدا دادصلاحیتوں کی بناء پراس فن میں بھی بحیثیت
امام دیکھتے ہیں ۔اوران کے تمام علوم وفنون میں معاصر علماء وفقہاء ہی کو نھیں بلکہ
عرب و عجم کے مقدس علماء کرام بھی سر تسلیم خم کرتے تھے علوم متداولہ کے متبحر عالم
تھےوہ کسی کی لعنت و ملامت کی کوئی پرواہ نہ کرتے تھے وہ تو صرف رضائے الہی اور عشق
مصطفے علیہ تحیۃ والثناء میں ساری زندگی گزار دتے تھے آپ رحمہ اللہ کی ایسی عہد ساز
شخصیت تھی جنھیں اپنے اساتذہ کیموجودگی شہرت حاصل تھی ۔
منصب
درس تدریس:478 ہجری حضرت امام الحرمین جوینی علیہ الرحمہ کے وصال کے بعد ان کی
جگہ منصب اعلی ہر فائز ہوئے 484 نظام الملک نے جامعہ نظامیہ میں شیخ الجامعہ کا منصب
پیش کیا جسے آپ نے قبول فرما یا چار سال بغداد میں تدریس و تصنیف کی مشغولیت کے بعد
جج کے ارادہ سے مکہ معظمہ روانہ یوئے علامہ عبد الرحمن ابن جوزی لکھتے ہیں کہ آپ کی
درس میں بڑے بڑے علماء حاضر ہوتے امام الحنابلہ حضرت ابو خطاب محفوظ بن احمد، عالم
العراق وشیخ الحنابلہ علی بن عقیل بغدادی رحمہم اللہ یہ وہ حضرات ہیں جو آپ سے اکتساب
فیض کرتے تھے آپ کے بیان ہر حیرت کا اظہار فرمایا کرتے تھے اور اپنی اپنی کتابوں میں
نقل کرتے تھے489 ھ میں دمشق پہنچے اورایک عرصہ بیت المقدس میں گزارا دوبارہ دمشق تشریف
لائے جامع دمشق کے مغربی کنارے پر ذکر وفکر اور مراقبے میں مشغول ہوگئے زیادہ تر اوقات
حضرت نصر مقدمی کے خانقاہ میں گزارتے ملک کے شام دس سال قیام فرمایا اسی دوران احیاء
العلوم 4 جلدیں جواہر القران تفسیر یاقوت التاویل 40 جلدیں اور مشکواۃ الانوار وغیرہ
تحریر کیں۔
بیعت
و خلافت: حضرت ابو علی فضل بن محمد بن علی فارمدی طوسی علیہم
الرحمہ سے حاصل تھی۔ شیخ موصوف بہت عالی مرتبت ، فقہ شافعی کے زبردست عالم اور مذاہب
سلف سے باخبر تھے اور حضرت سیدنا امام ابوالقاسم قشیری علیہ الرحمہ کے جلیل القدر شاگردوں
میں سے ہیں۔
اساتذہ
کرام: آپ کے مشہور ومعروف اساتذہ کرام میں سے یہ ہیں حضرے شیخ احمد بن محمد راذکانی
حضرت امام الحرمین ابو المعالی جوینی حضرت ابو نصر آساعیلی تصوف حضرت شیخ ابو علی
فضل بن محمد بن علی فارمدی طوسی وحضرت یوسف سجاج حدیث میں حضرت شیخ ابو سہل محمد بن
احمد حفصی مروزی حضرت شیخ حاکم ابو الفتح نصر بن احمد حاکمی طوسی حضرت شیخ ابو محمد
عبد اللہ بن احمدبن محمد طوسی حضرت شیخ محمد بن یحی سجاعی زوزنی حضرت شیخ ابو فتیان
عمرو بن ابو الحسن روسی دیستانی اور حضرت شیخ نصر بن ابراھیم مقدسی علیہم الرحمۃ والر
ضون
تلامذہ
:حضور حجۃ الاسلام ابو حامد امام غزالی علیہ الرحمہ
والرضوان کے بے شمار تلامذہ ہیں ان میں سے اکثر فقیہ محدث متبحر مفکر مصنف سے معروف
ہیں بطور مثال چبد اسنائے گرامی ذکر کئے جارہے ہیں قاضی ابو نصر احمد بن عبد اللہ مقری
حضرت ابو الفتح احمد بن علی حضرت شیخ ابو منصور محمد بن علی سطاری ابو سید محمد بن
سعد نوقانی حضرت ابو عبد اللہ محمد بن تو مرت حضرت ابو حامد محمد بن عبد الملک جوزقانی
علیہم اکرحمہ والر ضوان
بیعت
و ارادت : حضرت امام غزالی دوران طالب علمی میں حضرت ابو علی فضل بن محمد بن
علی فارمدی طوسی علیہ الرحمہ کے ہاتھ پر 27 سال کی عمر بیعت کی حضرت شیخ عظیم عالی
مرتبت اور فقہ شافعی کے جلیل القدر عالم تھے اور سلف سے با خبر تھے۔
سیرت
و خصائص:امام الجلیل، شیخ الکبیر، حجۃ الاسلام، حکیم الامۃ، کاشف الغمۃ، عارف
باللہ، صاحبِ اسرار و معارف، امام الاولیاء، شیخ الاصفیاء، وارثِ علومِ مصطفیٰ ﷺ، صاحبِ
علم و تقویٰ، حضرت ابوحامد محمد بن محمد غزالی رحمۃ اللہ علیہ۔
علم
باطنی کی تلاش و جستجو:آپ 478 تا 884 ھ جامعہ نظامیہ نیشاہور میں امام الحرمیں
پھر 484 سے 488 تک جامعہ نظامیہ بغداد میں مدرس اعلی ریےسلطان زمانہ اور دینیا بھر
علماء فضلاء آپ کے تبحر علمی کے قائل تھےلوگوں کے دلوں پر بادشاہ سے زیادہ آپ کا
سکہ چلتا تھا سلطنت سلجوقیہ کا بادشاہ نظام الملک طوسی آپ کا برا عقیدتمند تھا اور
وہ بذات خود ہر امور ملکت میں مشورہ کرتے تھے امام الحرمیں مدرس اعلی شیخ الجامعہ کے
مقام منصب پر فائز ہونے جے باوجود جس باطنی روحانی سکون کی تلاش تھی وہ حاصل نہ ہوسکا
بغداد میں اس وقت فرقوں باطل مذاھب کے بے جا مناظروں مجادلوں اکھارہ بنا ہوا تھا دارالخلافہ
انتشار فتنہ وفساد کی زد میں تھا ہر گلی چورایے پر مناظرہ کم مجادلہ زیادہ ہوتا تھا
اس وقت چار فرق زیادہ مشہور تھے متکلمین باطنیہ فلاسفہ صوفیہ آپ ان فرقوں کےعلوم وعوائد
کی تحقیق شروع کر دی اس کی تحقیق کے بعد اضطراب و بے چینی اور بڑھ گئی پھر تصوف کی
کتابوں کا رخ کیا تو احساس یوا کہ علم علاوہ عمل کی بھی ضرورت ہے۔
المنقذ
من الضکال المفضح عن الاحوال میں خو د فرماتے ہیں کہ ان واقعات سے یہ تحریک ہیدا یوئی
سب کو ترک کر کے نکل جاؤں نفس کسی طرح بھی ترک تعلقات پر امادہ نہیں ہوتا تھا کیوں
اس کو شہرت عامہ شان و شوکت حاصل تھی رجب ۸۸ میں یہ خیال پیدا ہوا لیکن نفس کے ٹال
مٹول کے سبب اس عمل پیرا نہ یوسکا اسی ذہنی اور نفسانی کشمکش میں باکل بیمار یو گیا
اور حالت ایسی ہوگئی کہ زبان کو یارائے گویائی نہ رہا قوت ہضم باکل ختم ہو گئی طبیبوں
نے بھی صاف جواب دی دیا ایسی حالت میں علاج سے کوئی فائدہ نہ ہوگا اخر کار میں سفر
کاارادہ کر لیا باشاہ امراء سلطنت اورعلمائے خوشامد و اکرام سے روکا لیکن میں ان کی
ایک نہ مانی سب چھوڑ کر شام کی راہ لی پہر ایک وقت ایسا ایا کہ ابائی وطن لوٹ آیا۔
روحانی سکون کے لئے تمام مقام و مرتبہ چھوڑدیا شاہی لباسوں کی جگہ کمبل اور شاہی لذیذ
کھانوں کی جگہ ساگ پر قناعت فرماتے تھے
فقیہ
ابن رزازابو منصور سعید بن محمد لکھتے ہیں کہ پہلی مرتبہ امام غزالی عالمنہ شان و شوکت
کے ساتھ بغداد میں داخل ہوئے تھے ہم نے ان کے لباس اور سواری کی قیمت لگائی تھی تو
پانس سو دینار بنی پہر آپ رحمہ اللہ نے زھد وتقوی اختیار کیا اور بغداد چھوڑ دیا مختلف
مقامات کا سفر کرتے رہے اور دوبارہ جب بغداد میں داخل ہوئے تو اس وقت ہم نے ان کے لباس
کی قیمت لگائی وہ پندرہ قیراط کے معمولی سکے کے تھے ۔
حضرت امام غزالی علیہ الرحمہ ملت اسلامیہ کا فخر ہیں۔ آپ کی تعلیمات کے اثرات
آج تک محسوس کیے جاتے ہیں۔ آپ کی کتب سالکین و عارفین، علماء و فاضلین کے لئے بنیادی
حیثیت رکھتی ہیں۔بعض حضرات آپ کو دنیا سے الگ تھلگ اور ایک گوشہ نشین صوفی تصور کرتے
ہیں۔ بس جس کا کام صرف اللہُ کی ضربیں لگانا ہو۔ ایسا ہرگز نہیں ہے۔ یہ کیسے ہو سکتا
ہےکہ وقت کا مجدد ہو، فلسفیِ اسلام ہو، اور اپنے وقت کا عظیم امام ہو، وہ حالات سے
کیسے صرفِ نظر کر سکتا ہے۔ آپ کی حالات پر پوری نظر تھی۔ شاہانِ وقت آپ کی ہیبت سے
کانپتے تھے، غیر شرعی امور اور رعایا پر ظلم کے خلاف آپ کی آواز ایک اثر رکھتی تھی۔
یہی وجہ ہے کہ شاہِ سلجوق جس کی سلطنت چین سے یورپ تک تھی آپ نے اس کو للکارا اور
فرمایا:افسوس! کہ مسلمانوں کی گردنیں مصیبت اور تکلیف سے ٹوٹی جاتی ہیں، اور
تیرے گھوڑوں کی گردنیں سونے اور چاندی کے طوقوں سے جھکی ہوئی ہیں "۔
تاریخِ
وصال: 14/جمادی الثانی 505ہجری، بروز پیر کو عالمِ اسلام کا یہ سورج غروب
ہوگیا۔آپ کا مزار شریف "طوس" ایران میں ہے۔(ماخذ و مراجع: طبقات الشافعیہ۔
خزینۃ الاصفیاء۔ مقدمہ مکاشفۃ القلوب۔ مقدمہ احیاء العلوم)