حضرت خواجہ شیخ نظام الدین اورنگ آبادی چشتی علیہ الرحمہ

 

 ولادت باسعادت:

حضرت شاہ نظام الدین اورنگ آبادی چشتی علیہ الرحمہ 1060ھ میں قصبہ نگراؤں (کاکوری) میں پیدا ہوئے ۔آپ کے بزرگ باہر سے آ کر یہاں آباد ہوئے تھے۔آپ کی "نسبی" نسبت "حضرت شہاب الدین سہروردیؒ" کے واسطے سے "حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ" تک پہنچتی ہے۔

اسم گرامی:

والدین نے آپ کا نام نظام الدین رکھا۔

تعلیم و تربیت:

آپ علیہ الرحمہ کا گھرانا علمی و روحانی گھرانا تھا۔ اس لیے آپ کی تعلیم و تربیت اپنے وطن ہی میں ہوئی۔اس کے بعد دہلی کے اہل کمال کی شہرت سن کر باقی تعلیم کے لیے آپ علیہ الرحمہ دہلی پہنچے۔ دہلی اس وقت بھی برصغیر پاک و ہند کا پایۂ تخت تھا۔ حضرت شاہ نظام الدین اورنگ آبادی چشتی علیہ الرحمہ حصول علم کے لیے دہلی پہنچے تو آپ نے حضرت شیخ کلیم اﷲ شاہ جہاں آبادی علیہ الرحمہ کا بڑا شہرہ سنا۔ آپ علیہ الرحمہ کے دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی کہ حضرت شیخ کلیم ﷲ شاہ جہاں آبادی علیہ الرحمہ کی خدمت میں حاضر ہو کر فیض حاصل کریں۔ ایک دن آپ علیہ الرحمہ حضرت شیخ کلیم ﷲ شاہ جہاں آبادی علیہ الرحمہ کی خانقاہ میں حاضر ہوئے۔ دروازہ پر دستک دی۔ اس وقت محفل سماع گرم تھی۔ دروازہ بند تھا۔ حضرت کا یہ دستور تھا کہ کسی اجنبی کو محفل سماع میں شرکت کی اجازت نہیں دیا کرتے تھے۔

دستک کی آواز سن کر حضرت نے ایک شخص کو حکم دیا!

’’دروازے پر کون ہے معلوم کرو۔‘‘

وہ شخص دروازے پر گیا اور آپ علیہ الرحمہ کے بارے میں تمام معلومات لے کر حضرت شیخ کلیم ﷲ شاہ جہاں آبادی علیہ الرحمہ کی خدمت میں عرض کردیں۔

حضرت شیخ کلیم ﷲ شاہ جہاں آبادی علیہ الرحمہ نے فرمایا! کہ انھیں اندر لے آئیں۔ حاضرین کو بڑی حیرت ہوئی، انھوں نے عرض کیا۔ حضور یہ تو آپ کا طریقہ ہی نہیں ہے کہ کسی اجنبی کو محفل سماع میں آنے کی اجازت دیں۔ آپ نے فرمایا،’’وہ اجنبی نہیں ہے بلکہ آشنائے راز ہے۔‘‘ آپ علیہ الرحمہ جب حضرت شیخ کلیم ﷲ شاہ جہاں آبادی علیہ الرحمہ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آداب بجا لائے۔ حضرت شیخ کلیم ﷲ شاہ جہاں آبادی علیہ الرحمہ نے آپ کے سلام کا جواب دیا۔ اور آمد کا سبب پوچھا۔ آپ نے کہا حصول علم کی خواہش آپ کے قدموں میں لائی ہے۔ حضرت شیخ کلیم ﷲ شاہ جہاں آبادی علیہ الرحمہ نے آپ کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے آپ کی درخواست قبول فرمائی اور آپ کو خانقاہ میں رہنے کی اجازت دے دی۔حصول علم کے ساتھ ساتھ آپ طالبان حق کے قلبی واردات کا بھی بغور مشاہدہ کرتے رہتے۔

بیعت و خرقہ خلافت :

آپ کی حضرت شیخ کلیم اﷲ شاہ جہاں آبادی ؒ سے بیعت کی تفصیل اس طرح بھی بیان کی جاتی ہے ایسے ہی حالات و واقعات دیکھتے ہوئے علوم باطنی کی طرف راغب ہوگئے آپ کے افکار و خیالات میں تبدیلی آئی۔ یہ شوق جب حد سے بڑھا تو اپنے استاد محترم حضرت شیخ کلیم اﷲ شاہ جہاں آبادی سے ذکر کیا۔ آپ نے حضرت شیخ کی خدمت میں بصد عجز و احترام عرض کیا؎
سپردم بتگو مایۂ خویش را۔تودانی حسابم کم و بیش را ترجمہ: ’’میں نے اپنا سرمایۂ حیات آپ کے سپرد کر دیا ہے۔ اب میرے حساب کی کمی بیشی کو آپ جانتے ہیں۔

حضرت شیخ کلیم اﷲ شاہ جہان آبادی نے یہ شعر سنا تو آپ کو اپنے دستِ حق پرست پر بیعت کر لیا۔ اس کی خاص وجہ یہ تھی کہ جب حضرت شیخ کلیم اﷲ شاہ جہاں آبادی علیہ الرحمہ مدینہ منورہ میں اپنے پیرو مرشد حضرت یحییٰ مدنی علیہ الرحمہ سے بیعت و خلافت و اجازت سے سرفراز ہو کر مدینہ منورہ سے روانہ ہوئے تو حضرت یحییٰ مدنی علیہ الرحمہ سے حضرت شیخ سے فرمایا تھا کہ اس شکل و صورت کا ایک شخص آپ کی خدمت میں آئے گا اور عین دعوت الیٰ اﷲ کے وقت مندرجہ بالا شعر پڑھے گا اور وہ ہماری نسبت کا مالک ہے۔ یوں آپ نے حضرت شیخ کے ہاتھ پر بیعت کی اور پورے خلوص سے اس علم کے حصول میں مصروف ہوگئے۔ حضرت شیخ نے تکمیل علم پر آپ کو خرقہ خلافت سے نوازا۔

اورنگ آباد دکن کی ولایت :

تکمیل علم اور حصول خلافت کے بعد آپ کچھ عرصہ مرشد کی خدمت میں رہ کر ریاضت و مجاہدے میں مشغول رہے۔ پھر مرشد نے دیکھا کہ آپ درجہ کمال کو پہنچ گئے تو دکن کی ولایت آپ کو سپرد کی اور ہدایت فرمائی کہ اورنگ آباد میں جا کر مستقل سکونت اختیار کریں۔ مرشد کے حکم کے مطابق آپ اور اورنگ آباد چلے آئے۔ وہاں ذکر و فکر مراقبہ میں مشغول ہوگئے اور زندگی بھر وہیں رہ کر مخلوق خدا کی خدمت اور رشد و ہدایت کا کرتے رہے۔ یہی مرشد کا حکم تھا اور یہی کاردرویشی۔ آپ علیہ الرحمہ نے اس کام کو اپنے مقام و مرتبے کے مطابق بحسن و خوبی نبھایا اور مرشد کا نام روشن کیا۔

 بحسن و خوبی خلق خدا کی خدمت:

آپ علیہ الرحمہ جامع علوم ظاہری و باطنی تھے ۔ سنت رسول ﷺ کے سخت پابند تھے۔ ریاضت مجاہدہ اور مراقبہ میں زیادہ وقت گزارتے تھے۔ جب آپ علیہ الرحمہ استغراق میں ہوتے تو کسی بھی بے شغل آدمی کو نہیں پہنچانتے تھے خواہ وہ آپ کا مرید ہی کیوں نہ ہو۔ ہر کسی کے ساتھ خندہ پیشانی سے پیش آتے تھے اور ہر کسی کی کھڑے ہو کر تعظیم کرتے تھے آپ علیہ الرحمہ کا لباس سادہ اور صاف ستھرا ہوتا تھا قیمتی لباس کا کوئی شوق نہ تھا اکثر لباس پیوند لگے ہوتے تھے ۔ خوراک بہت کم اور سادا ہوا کرتی تھی، جہاں تک ممکن ہوتا ہر حاجت مند کی حاجت روائی کی کوشش کرتے، کیوں کہ یہ درویشی کی بنیاد ہے۔ رخصت ہوتے وقت ہر کسی کو کچھ نہ کچھ ضرور دیتے۔ جمعہ کے علاوہ جو نذرانہ آتاوہ آپ علیہ الرحمہ محتاجوں کو دے دیتے تھے۔

 تحریر و تصنیف:

آپ علیہ الرحمہ نے کئی کتابیں تصنیف کیں۔ جن میں "نظام القلوب" مشہور ہوئی،آپ علیہ الرحمہ کی کتاب ’’نظام القلوب‘‘ اذکار و اشغال کے متعلق ہے۔

خلفائے کرام :آپ علیہ الرحمہ کے خلفاء میں سے جنھوں نے کافی شہرت پائی۔

·      حضرت مولانا فخر الدین فخر جہاں علیہ الرحمہ

·      خواجہ مگار خان علیہ الرحمہ

·      سید شاہ شریف علیہ الرحمہ

·      شاہ عشق اﷲ علیہ الرحمہ

·      شاہ محمد علی خواجہ نور الدین علیہ الرحمہ

·      غلام قادر خان علیہ الرحمہ

·      محمد یار بیگ علیہ الرحمہ

·      محمد جعفر علیہ الرحمہ

·      شیر محمد علیہ الرحمہ

·      کرم علی شاہ علیہ الرحمہ

·       

خلیفہ ا کبر:

آپ کے صاحبزادے حضرت مولانا فخر الدین فخر جہاں علیہ الرحمہ آپ کے اولین سجادہ نشین بالاتفاق مقرر کئے گئے۔حضرت مولانا فخر الدین فخر جہاں علیہ الرحمہ آپکے خلیفہ اکبر بھی تھے۔

وصال مبارک:

حضرت شاہ نظام الدین اورنگ آبادی چشتی علیہ الرحمہ نے بیاسی(82) سال کی عمر میں 12 ذیقعد 1242ہجری کو عشاء کی نماز کے بعد جوار رحمت میں جگہ پائی۔ آپ کا مزار اورنگ آباد دکن میں زیارت گاہ خاص و عام ہے آپ کے ایک لاکھ سے زیادہ مرید تھے۔
 
اولاد وامجاد :

آپ علیہ الرحمہ کی اہلیہ محترمہ کا تعلق حضرت سید بندہ نواز گیسو دراز علیہ الرحمہ کے خاندان سے تھا۔ آپ علیہ الرحمہ کی اولاد میں پانچ صاحبزادے اور ایک صاحبزادی تھی۔آپ علیہ الرحمہ کے صاحب زادوں کے نام یہ ہیں۔

·      محمد اسمعٰیل علیہ الرحمہ

·      غلام معین الدین علیہ الرحمہ

·      غلام بہاء الدین علیہ الرحمہ

·      غلام کلیم اﷲ علیہ الرحمہ

·      حضرت محب النبی مولانا فخرالدین دہلوی علیہ الرحمہ

یہ پانچوں ہی اہل اﷲ میں سے تھے، مگر اس حوالے سے "حضرت مولانا فخر الدین فخر جہاں" نے شہرت پائی۔ حضرت مولانا فخر الدین فخر جہاں علیہ الرحمہ آپکے خلیفہ ا کبر تھے۔

حضرت خواجہ نظام الدین اورنگ آبادی علیہ الرحمہ کے بے شمار خلفاء تھے ان میں سے چند کے اسم گرامی درج ذیل ہیں:

·      شیخ کامگار خان علیہ الرحمہ

·      شیخ محمد علی علیہ الرحمہ

·      شیخ خواجہ نور الدین علیہ الرحمہ

·      شیخ خواجہ مولانا فخر الدین علیہ الرحمہ

·      شیخ سید شاہ شریف علیہ الرحمہ

·      شیخ شاہ عشق اللہ علیہ الرحمہ

·      شیخ غلام قادر خان علیہ الرحمہ

·      شیخ محمد یار بیگ علیہ الرحمہ (جو ولایت توران میں سے تھے )

·      شیخ محمد جعفر علیہ الرحمہ

·      شیخ شیر محمد علیہ الرحمہ

·      شیخ سید کرم علی شاہ علیہ الرحمہ

لیکن جیسا سلسلہ آپ کے خلیفہ و صاحبزادہ حضرت محب النبی مولانا فخر الدین دہلوی علیہ الرحمہ سے جاری ہوا ایسا کسی اور خلیفہ سے جاری نہیں ہوا ۔

ارشادات حضرت خواجہ نظام الدین اورنگ آبادی چشتی علیہ الرحمہ

ویسے تو آپ کے بہت سے ارشادات ہیں لیکن چند ارشادات جو کہ کتاب اقوال اولیاء سے نقل کرکے درج ذیل ہیں:

·      خدا کی اطاعت رسول نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عملی زندگی کو اپنانے میں پنہاں ہے۔

·      علم کے بعد عملی زندگی بسر کرو کیونکہ اس سے بڑھ کر اور کوئی زندگی نہیں ہو سکتی۔

·      علمی زندگی معراج انسانیت ہے اس میں خداوند نے اپنا راز مضمر کیا ہے۔

·      علم بنی نوع انسان کا زیور ہے۔

·      جسے خدا چاہے ساری مخلوق اسے چاہنے لگتی ہے ۔

·      کسی کا دل نہ دکھا ہو سکتا ہے وہ تمہارے سے زیادہ خدا کو عزیز ہو۔

·      عاشق صبح سے صبح تک ذکر الہی میں محو رہتا ہے۔

·      دوسروں کو اچھے اصول سیکھاؤ۔

·      تم خدا کی مخلوق کے کام کرو خدا تمہارے کام کرے گا۔

·      اچھے معاشرہ کی تشکیل اچھے نظریات پر ہے۔

وصال مبارک:

آپ کا وصال 12 ذیعقدہ 1142 ہجری بمطابق 29 مئی 1730ء بروز منگل کو ہوا آپ کی عمر مبارک تقریبا" بیاسی برس تھی ۔ جب آپ کا وصال ہوا اس وقت آپ کے پیرمرشد کے وصال کو چھ ماہ اٹھارہ دن ہوئے تھے ۔آپ کا مزار اقدس اورنگ آباد شریف دکن انڈیا میں مرجع الخلائق ہے۔


حضرت مخدوم محمود براق لنگر جہاں گیتی نورد سہروردی علیہ الرحمہ


 

اسم شریف :

آپ کا نام نامی اسم گرامی حضرت سید شاہ محمود علیہ الرحمہ ہے ۔

القاب :

 مخدوم،براق،لنگر جہاں،گیتی نورد وغیرہ آپ کے القاب ذیشان ہیں جو حضور قطب اعظم سرکار سخی شاہ رکن عالم علیہ الرحمہ نے آپ کو عطا فرمائے تھے۔

والد گرامی :

آپ علیہ الرحمہ کے والد محترم کا اسم شریف حضرت سید شاہ خواجہ بدر علیہ الرحمہ ہے آپ اپنے وقت کے قطب تھے آپ سے ایک جہاں نے فیض پایا۔

ولادت با سعادت :

آپ علیہ الرحمہ 577 ہجری میں بغداد معلا میں تولد پزیر ہوے آپ کی پیدائش سے پورا خاندان منور و مجلیٰ ہو گیا اور اطراف و اکناف روش ہو گئے۔

نسب : آپ اہل بیت نبوت ﷺ کے چشم و چراغ ہیں آپ کا سلسلئہ نسب سرکار اقدس حضور نبئ کریم رسول امین نور مجسم شاہ بنی آدام ﷺ کے محترم و محبوب چچا ساقی الحرمین الشرفین خاتم المہاجرین معزز اہل بیت خیرالناس حضرت ابوالفضل عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے جا ملتا ہے ۔

 حکومت :

 حضرت خواجہ مخدوم محمود براق لنگر جہاں سہروردی علیہ الرحمہ نے کامل 61 سال عدل و انصاف کے ساتھ شیستان کی شاندار حکومت فرمائی۔

ترک حکومت :

61 سال شیستان کی طویل حکومت کرنے کے بعد اچانک آپ کے دل میں عشق الٰہی ﷻ جوش مارا اور آپ نے 656 ہجری میں حکومت ترک فرما کر فقیری اختیار کر لی ۔

ریاضت و مجاہدہ :

حکومت چھوڑ نے کے بعد آپ چراں شریف کے ایک ولئ کامل قطب زمانہ حضرت خواجہ تاج الدین چراں علیہ الرحمہ کی خدمت با برکت میں حاضر ہوے اور 12 سال سخت ریاضت و مجاہدے کیے

ملتان شریف جانے کا حکم :

جب آپ کو ریاضت و مجاہدہ اور سلوک کی منازل طے کرتے ہوے مکمل 12 سال کا عرصہ گزر گیا تو ایک دن قطب زمانہ حضرت خواجہ تاج الدین چراں علیہ الرحمہ نے ارشاد فرمایا " اے مخدوم آپ کی تعلیم یہاں مکمل ہوئی اور میں نے جو کچھ عطا کرنا تھا کر دیا اب آپ اپنی آخری منزل کی طرف جائیں ملتان شریف میں قطب اعظم حضرت سیدنا سخی شاہ رکن الدین و العالم علیہ الرحمہ آپ کی آخری منزل ہیں۔

مرشد گرامی کی بارگاہ میں :

آپ علیہ الرحمہ حضرت خواجہ تاج الدین چراں علیہ الرحمہ کے حکم سے ملتان شریف حضرت شاہ رکن عالم علیہ الرحمہ کی بارگاہ فیض بار میں حاضر ہوے اور آپ کے دست مبارک پر مرید ہوگئے جس وقت آپ حضرت شاہ رکن عالم سہروردی علیہ الرحمہ کی بارگاہ میں حاضر باش ہوے اس وقت آپ کے مرشد گرامی تقریباً 35 سالہ نو جوان تھے جبکہ آپ علیہ الرحمہ 91 سالہ بزرگ تھے۔آپ علیہ الرحمہ کئ سال اپنے مرشد گرامی کی خانقاہ غوثیہ میں رہ کر اکتساب فیض کرتے رہے

بھوج پور یو۔پی جانے کا حکم :

ایک دن آپ کے مرشد گرامی حضرت شاہ رکن عالم سہروردی علیہ الرحمہ نے آپ سے ارشاد فرمایا "اے مخدوم آپ بھوج پر ہند جائیں وہاں کی ولایت میں نے آپ کو عطا کی ہے وہاں کے باشندوں کو آپ کی ضرورت ہے آپ وہاں پہنچ کر ہدایت خلق کا فریضہ سر انجام دیں ۔

بھوج پور میں آمد :

آپ علیہ الرحمہ اپنے مرشد کے حکم سے بھوج پور یو۔پی ہند تشریف لائے آپ کی آمد سے اس علاقے میں ایمان و اسلام کے اجالے پھیلے ہنود و غیرہ آپ کی تبلیغ سے جوق در جوق داخل اسلام ہونے لگے۔آپ اپنے مرشد کے فرمان کے مطابق آخری دم تک دین اسلام کی خدمات جلیلہ سر انجام دیتے رہے اور گمگشگان راہ کی ہدایت و رہنمائی فرماتے رہے بے شمار لوگوں نے آپ سے فیض پایا اور سینکڑوں کو آپ نے ولایت کی منزل پر فائز فرمایا آپ کا چرچہ دور دور تک ہونے لگا آپ کا فیضان چاروں طرف جاری ہو گیا درو افتاد علاقوں سے لوگ آتے اور آپ سے تحصیل فیوض و برکات کرتے

وصال با کمال :

حضرت خواجہ مخدوم محمود براق لنگر جہاں سہروردی علیہ الرحمہ نے 169 سال کی عمر مبارک میں 17 جمادی الآخر 746 ہجری میں اس دار فانی سے عالم جاودانی کی طرف وصال فرمایا۔

مزار اقدس :

آپ کا دربار درربار شیخ پور،فرخ آباد،یو۔پی,ہند میں زیارت گاہ خواص و عوام ہے آپ کے روضہ انور پر ایک عالی شان گنبد بنا ہوا ہے جو ہر خاص و عام سے خراج عقیدت وصول کرتا ہے اور دور سے ہی اپنے ارادت مندوں کو خوش آمدید کہتا نظر آتا ہے۔آپ کا سالانہ عرس سراپا قدس ہر سال 12 تا 18 جمادی الآخر سجادہ نشین حضرت سید عزیزالحق غالب میاں سہروردی صاحب کی سرپرستی میں بڑے ہی ادب و احترام کے ساتھ عالی شان پیمانے پر منعقد ہوتا ہے جس میں دور دور سے عوام خواص شرکت کرتے ہیں اور حضرت مخدوم پاک کے سہروردی فیض و کرم سے مالا مال ہوتے ہیں۔ (بشکریہ : سید محمد نذیر میاں سہروردی آستانئہ عالیہ غوثیہ سہروردیہ داہود شریف انڈیا)

شیخ الاسلام حضرت خواجہ سید عثمان ہاروَنی چشتی علیہ الرحمہ

 

نام و نسب:

آپ کا نام عثمان، کنیت ابو النور، لقب شیخ الاسلام، آپ ہارون یا ہرون کے رہنے والے تھے اس لیے آپ کو ہارونی کیا جاتا ہے۔ آپ کا سلسلہ نسب گیارہویں پشت میں حضرت مولا علی شیر خدا رضی ﷲ عنہ تک پہنچتا ہے۔

ولادت باسعادت:

حضرت خواجہ عثمان ہارونی علیہ الرحمہ کی ولادت باسعادت 536ھ کو قصبہ ہارون یا ہرون خراسان میں ہوئی۔(اہل سنت کی آواز، خانقاہ برکاتیہ مارہرہ مطہرہ)

ابتدائی تعلیم:

حضرت خواجہ عثمان ہارونی علیہ الرحمہ نے ابتدائی تعلیم اپنے والد ماجد کی بارگاہ میں رہ کر حاصل کی، قرآن شریف حفظ کیا، آپ کے والد ماجد جید عالم تھے۔

اعلیٰ تعلیم:

حضرت خواجہ عثمان ہارونی علیہ الرحمہ نے اعلیٰ تعلیم کے لیے اس زمانے کے علمی و فنی مرکز نیشاپور کا رخ کیا اور وقت کے مشاہیر علماء و فضلا سے اکتساب علم کر کے جملہ علوم مروجہ و متداولہ میں دسترس حاصل کی۔ جلد ہی آپ کا شمار وقت کے علماء و فضلاء میں ہونے لگا۔

بیعت و خلافت:

حضرت خواجہ عثمان ہارونی علیہ الرحمہ تحصیل علوم کی تکمیل کے بعد امام الاولیاء، قطب الاقطاب سرتاج سلسلہ عالیہ چشتیہ بہشتیہ حضرت خواجہ محمد شریف زندنی رحمہ اللہ کے دست حق پرست پرسلسلہ عالیہ چشتیہ میں بیعت ہوئے، اور سلسلہ عالیہ چشتیہ کی خلافت سے سرفراز ہوئے۔نیز حضرت خواجہ مودود چشتی رحمۃ اللہ علیہ سے بھی فیض یاب ہوئے۔

جس دن حضرت خواجہ عثمان رحمۃ اللہ علیہ کو خرقۂ خلافت ملا، تو آپ کے پیرو مرشد خواجہ شریف رحمۃ اللہ علیہ نے کلاہ چارترکی بھی آپ کے سر پر رکھا اور فرمایا کہ اس چار ترکی کلاہ سے مراد چار چیزوں کو ترک کرنا ہے۔ پہلے ترک دینا دوسرے ترک عقبیٰ (اللہ کی ذات کے سوا کوئی بھی مقصود نہ ہوگا) تیسرے ترک کھانا اور سونا (مگر اتنا جس سے زندگی باقی رہے) چوتھا ترکِ خواہشِ نفس (یعنی جو کچھ نفس کہے اُس کے خلاف کیا جائے)  جو شخص ان چار چیزوں کو ترک کردیتا ہے اُسے ہی چار تر کی کلاہ پہننا ترتیب دیتا ہے۔

حضرت خواجہ عثمان ہارونی نے اپنے پیر کی اجازت سے دنیا کی بڑی سیر و سیاحت کی۔ ایک دن ایسے علاقے میں جا پہنچے جہاں کے تمام لوگ آتش پرست تھے، اُنہوں نے ایک بہت بڑا آتش کدہ روشن کیا ہوا تھا، آپ اُسی شہر میں ٹھہر گئے اور اپنےخادم فخرالدین کو کہا کہ کہیں سے تھوڑی سی آگ لے آؤ تاکہ کھانا پکالیں، فخرالدین آتش پرستوں کے پاس گیا اور تھوڑی سی آگ مانگی لیکن انہوں نے آگ دینے سے انکار کردیا اور کہا کہ آتش تو ہمارا معبود ہے۔ اس آگ سے آگ دینا ہمارے مذہب میں جائز نہیں۔ خادم نے وہیں آکر حضرت خواجہ کی خدمت میں صورتِ حال پیش کی۔ حضرت خواجہ بذاتِ خود تشریف لے گئے، اور آتش پرستوں کو مخاطب کرکے فرمایا کہ معبود حقیقی تو اللہ کی ذات ہے آگ اس کی مخلوق ہے اور اُسی نے بنائی ہے اس کی عبادت کرنا درست نہیں۔ اگر تم آتش پرستی سے توبہ کرلو تو دوزخ کی آگ سے رہائی پاؤ گے، انہوں نے کہا اگر آتش پرستی سے توبہ کرنا آگ سے رہائی کی دلیل ہے تو پہلے تم آگ میں چلے آؤ، اگر آگ نے تم پر اثر نہ کیا تو ہم توبہ کرلیں گے، حضرت خواجہ نے یہ بات سن کر وضو کیا دو رکعت نماز ادا کی اور آتش پرستوں کا ایک سات سالہ بچا اٹھاکر بڑی تیزی سے آگ میں داخل ہوگئے، دو گھنٹے تک آگ میں رہے لیکن آگ نے حضرت خواجہ اور اُس چھوٹے بچے پر اثر نہ کیا اور صحیح سلامت باہر آگئے آتش پرستوں نے آپ کی یہ کرامت دیکھی تو کلمہ پڑھ کر مسلمان ہوگئے اور حضرت خواجہ کے مرید بن گئے حضرت خواجہ نے ان آتش پرستوں کے سردار کا نام عبداللہ رکھا اور چھوٹے بچے کا نام ابراہیم رکھا اور اُنہیں مدارج اعلیٰ تک پہنچا دیا۔

 

عبادت و ریاضت:

حضرت خواجہ عثمان ہارنی علیہ الرحمہ صاحب ریاضت و مجاہدہ تھے۔قرآن مجید کے حافظ تھے۔ روزانہ ایک قرآن شریف کی تلاوت کرتے۔سترسال کی مدت تک کسی وقت نفس کو پیٹ بھر کھانا پانی نہ دیا۔رات کو نہ سوئے، تین چار روز کے بعد روزہ رکھتے، کبھی کبھی چار پانچ ہی لقمے پر اکتفا کرلیتے۔

حضرت میر عبد الواحد بلگرامی علیہ الرحمہ ان کا تذکرہ یوں فرماتے ہیں:خواجہ عثمان ہارونی رحمۃ اللہ علیہ نے دس سال تک خود کو کھانا نہ دیا۔ آپ سات روز کے بعد ایک گھونٹ پانی پیتے، اور عرض کرتے: خدایا! ہمیں نفس کے ظلم سے بچا، نفس مجھ پر غالب آنا چاہتا ہے۔ مجھ سے پانی مانگتا ہے تو میں ایک گھونٹ منہ بھر دیتا ہوں۔خواجہ عثمان ہارونی سماع میں بہت روتے کبھی کبھی زرد پڑ جاتے۔ آنکھوں کا پانی خشک ہو جاتا، جسم مبارک میں خون نہ رہتا۔ ایک زوردار نعرہ لگاتے اور آپ پر وجد طاری ہو جاتا۔

ہندوستان آمد:

 حضرت خواجہ عثمان ہارونی علیہ الرحمہ سیر و سیاحت کرتے ہوئے ایک مرتبہ خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کے پاس دہلی تشریف لائے اور یہاں تقریباً دو ڈھائی سال قیام فرمایا۔ دہلی میں قیام کے دوران جب سلطان التمش کو آپ کی آمد کا علم ہوا تو خدمت میں حاضر ہوئے اور دعاء کی درخواست کی۔شیخ نے دعا فرمائی اور خواجہ معین الدین چشتی اجمیری سے سلطان التمش کیلئے کتاب مرتب فرمانے کا حکم دیا۔

بارگاہ الٰہی میں مقبولیت:

حضرت خواجہ عثمان ہارونی علیہ الرحمہ جب نماز ادا کر لیتے تو غیب سے آواز آتی کہ ہم نے تمہاری نماز پسند کی۔ مانگو کیا مانگتے ہو؟ خواجہ صاحب عرض کرتے: خدایا!میں تجھے چاہتا ہوں۔آواز آتی کہ عثمان! میں نے جمال لا زوال تمہارے نصیب کیا، کچھ اور مانگو کیا مانگتے ہو؟ عرض کرتے: الٰہی! مصطفیٰﷺ کی امت سے گناہ گاروں کو بخش دے۔آواز آتی کہ امت محمدﷺ کے تیس ہزار ۳۰۰۰۰ گناہ گار تمہاری وجہ سے بخشے، آپ کو پانچوں وقت یہ بشارت ملتی۔

سیرت و خصائص:

قطب الاقطاب، ناصرالاسلام، عارف اسرار رحمانی، واصل ذات باری، محبوب صاحب لامکانی، شیخ الاسلام حضرت خواجہ محمد عثمان ہارونی رحمۃ اللہ علیہ کا شمار اکابرین امت اور کبار اولیاءکرام و مشائخ عظام میں ہوتا ہے۔ علوم ظاہریہ و علوم باطنیہ ،شریعت و طریقت، تصوف و معرفت میں مجمع البحرین تھے۔ تاریخ مشائخ چشت میں ہے: در علم شریعت و طریقت و حقیقت اعلم بود۔(بہار چشت)

کافروں کا قبول اسلام:

حضرت میر عبد الواحد بلگرامی رضی اللہ عنہ تحریر فرماتے ہیں: ایک دفعہ خواجہ عثمان ہارونی آدھی رات کے وقت گھر میں تشریف فرما تھے کہ 79 کافروں نے مشورہ کیا کہ آدھی رات کو خواجہ عثمان ہارونی کے پاس چلیں اور کہیں کہ ہم بھوکے ہیں۔ ہر ایک کو نئے طباق میں علاحدہ علاحدہ کھانا دیجیے اور ہر ایک کو جدا گانہ نوع کا۔ اس باہمی مشورے کے بعد جب وہ آپ کی خدمت میں آئے تو خواجہ صاحب نے فرمایا: اے آدم و حوا کے بیٹو! بیٹھ جاؤ اور ہاتھ دھو لو۔ پھر خودبسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھ کر آسمان کی جانب ہاتھ اٹھائے اور ہر جنس کے مختلف کھانوں سے بھرے طباق جیسا کہ وہ لوگ سوچ کر آئے تھے غیب سے لیتے اور ان کے سامنے رکھ دیتے۔ وہ لوگ بھی مسلسل نظریں جمائے ہوئے دیکھتے رہے کہ طباق غیب سے آ رہے ہیں۔ خیر جب وہ کھانے سے فارغ ہوئے تو آپ نے فرمایا: خداے تعالیٰ کی نعمت کھا لی؟ اب اس پر ایمان لاؤ۔ انھوں نے کہا: اگر ہم تمہارے خدا و رسول پر ایمان لے آئیں اور مسلمان ہو جائیں تو کیا خدائے تعالیٰ ہمیں بھی تمہاری طرح کر دے گا؟ فرمایا: میں غریب کس گنتی میں ہوں؟ خدائے تعالیٰ تو اس پر قادر ہے کہ مجھ سے ہزار درجے تمہیں بلند فرمائے۔ وہ سب ایمان لے آئے اور خواجہ صاحب کی مبارک صحبت میں رہ کر ان میں سے ہر ایک اللہ کا ولی ہو گیا، ان کی نظروں میں عرش بریں سے لے کر تحت الثریٰ تک سب منکشف ہو گیا۔

ایک بار بادشاہِ وقت نے حضرت خواجہ کو سماع سننے سےمنع کردیا بلکہ شہر کے تمام قوالوں کو حکم دیا کہ اگر کوئی قوال کسی مجلس میں سماعکرے گا، اسے قتل کردیا جائے گا، حضرت خواجہ نے بادشاہ کو کہا کہ سماع ایسی چیز ہےجو ہمارے پیروں کی سنت ہے ہمیں سماع سے کوئی نہیں روک سکتا۔ سلطان نے کہا کہ پہلےسماع کے جواز میں علماء کرام کے ساتھ مناظرہ کریں، پھر دیکھا جائے گا، چنانچہ شہرکے علماء کی ایک مجلس برپا کی گئی جس میں بادشاہ بھی شریک ہوا، حضرت خواجہ اُس محفل میں تشریف لائے، علماء نے چاہا کہ سماع کے متعلق حضرت خواجہ سے بات کریں، مگروہ تمام کے تمام اپنے آپ کو بے علم محسوس کرنے لگے جو کچھ وہ جانتے تھے ان کےحافظے سے محو ہو چکا تھا حتی کہ الف سے لے کر یا تک تمام حروف بھول گئے۔ بادشاہ نےبڑا زور لگایا کہ علماء بات کریں مگر وہ گفتگو سے عاجز نظر آتے تھے آخر اس کے بغیرچارۂ کار نہ تھا انہیں اپنی شکست کا اعتراف کرنا پڑا، وہ آہ و زاری کرنے لگے۔خدارا ہماری عمر کا حاصل شدہ علم برباد نہ کیا جائے آپ بزرگ ہیں اور سخی ہیں ہمارےحال پر رحم کریں اور اپنی نظرِ عنایت سے ہمارے علوم کو زندہ کردیں، حضرت خواجہ نےان کے گم شدہ علوم کو تو لوٹا دیا بلکہ ان پر باطنی علوم کے دروازے کھول دیے اسواقعہ کو دیکھ کر تمام علماء حضرت خواجہ کے مرید ہوگئے، بادشاہ بھی پشیماں ہوا اور معذرت کرنے لگا اور اُس کے بعد کبھی سماع کی ممانعت نہ کی۔

معین الدین اجمیری رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ ایک دن اپنے پیر و مرشد خواجہ عثمان ہارونی کے ہمرقاب ہوکر دریا کے کنارے پہنچا۔ اتفاقاً اس وقت کوئی کشتی نہ تھی۔ حضرت خواجہ نے مجھے فرمایا کہ آنکھیں بند کرو۔ پھر ایک لحظے کے بعد فرمایا کہ اب کھول لو، جب میں نے آنکھیں کھولیں میں اور حضرت خواجہ دریا کے دوسرے کنارے کھڑے تھے۔ حضرت خواجہ معین الدین نے ایک اور واقعہ بیان کیا ہے کہ ایک شخص حضرت خواجہ عثمان رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی کہ اتنا عرصہ ہوا کہ میرا لڑکا گم ہوگیا ہے مجھے کوئی خبر نہیں کہ وہ کہاں ہے مہربانی فرماکر توجہ فرمائیں، حضرت خواجہ نے یہ بات سنی اور مراقبے میں چلے گئے، تھوڑی دیر بعد سر اٹھایا اور فرمایا کہ تمہارا لڑکا گھر پہنچ گیا ہے، وہ شخص گھر گیا لڑکے کو گھر پر موجود پایا وہ خوشی میں لڑکے کو ساتھ لے کر اُسی وقت حضرت خواجہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور شکریہ ادا کیا حاضرین نے لڑکے سے دریافت کیا کہ تم کیسے گھر پہنچ گئے، اس نے کہا میں جزائر الہند کے ایک جزیرے میں موجود تھے۔ آج ایک ایسے بزرگ جن کی صورت حضرت خواجہ سے ملتی جلتی ہے میرے پاس تشریف لائے مجھے کہا اُٹھو، میرے پاؤں پر پاؤں رکھو اور آنکھیں بند کرلو، میں نے ایسا ہی کیا، جب میری آنکھیں کھلیں میں گھر میں موجود تھا۔

اُمّت کے گنہگاروں کی بخشش کا وعدہ

نقل ہے کہ جب حضرت اقدس نماز شروع کرتے تھے تو غیب سے آواز آتی تھی کہ اے عثمان میں نے تجھے قبول کیا ہے اور پسند کیا ہے اب مانگو جو کچھ مانگو تاکہ تجھے عطا کروں۔ جب حضرت اقدس نماز سے فارغ ہوتے تو عرض کرتے کہ یا الٰہی میں تجھے دیا۔ خاطر جمع رکھو اور اس کے علاوہ جو کچھ طلب کرو مل جائے گا آپ جواب دیتے تھے کہ یاالٰہی محمد مصطفیٰﷺ کی اُمّت کے گنہگاروں کو بخش دے۔ آوازآتی تھی کہ میں نے امت محمدیہﷺ کے تیس ہزار گنہگاروں کو تمہاری بدولت بخش دیا۔ حضرت اقدس ہر نماز کے بعد یہی دعا کرتے تھے اور ہر بار یہی جواب سنتے تھے۔

سیر الاقطاب میں لکھا ہے کہ جب الہام ربانی سے آپ حضرت خواجہ حاجی شریف زندنی قدس سرہٗ کی خدمت میں پہنچے تو سر پاؤں میں رکھ کر عرض کہ بندہ عثمان یہ چاہتا ہے کہ اپنے غلاموں میں شامل فرمالیں حضرت خواجہ بڑے لطف و کرم سے پیش آئے اور کلاہ چار ترکی اُن کے سر پر رکھی۔ بیعت کیا اور سر پر قینچی چلائی اس کے بعد فرمایا کہ عثمان چار ترکی کا مطلب یہ ہے کہ اوّل ترک دنا کرو، اہل دنیا کو اہل دنیا سے اجتناب کرو۔ اور اُن کو نزدیک نہ آنے دو۔ دوم یہ کہ خواہشات نفسانی ترک کرو۔ سوم جو کچھ نچس چاہے اس کے برعکس کرو۔ چہارم راتوں کو جاگو اور ذکر خدا میں مشغول رہو۔ ہمارے مشائخ نے فرمایا ہے کہ جو شخص کلاہِ چار ترکی سر پر رکھے ؟؟؟؟؟؟

اللہ سے اٹھالے۔ اور جو کچھ حق تعالیٰ کے سوا ہے اُسے چھوڑ دے محبت کا بیچ اپنے دل میں بوئے اس وجہ سے حضرت سرور کائنات علیہ الصلواۃ والسلام نے جب یہ کلاہ چار ترکی زیب تن فرمائی تو فقر و فاقہ اختیار فرمایا۔ اور جب حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے یہ کلاہ سر پر رکھی تو اس شیر میدان نے بھی کمال فقر و فاقہ اختیار کیا یہی وجہ ہے کہ ہمارے مشائخ ان کااتباع کرتے ہیں تم بھی ان کی پیروی کرو۔ تاکہ قیامت کے دن اُن سے شرمندہ نہ ہونا پڑے۔ نیز تم ہر شخص کو اپنے سے بہتر سمجھو تاکہ سب میں بہتر بن جاؤ۔ خلق، تواضع اور عاجزی اختیار کرو تاکہ مقام درویشی تک پہنچ سکو۔ جو شخص یہ کام نہیں کرتا اس خرقہ کےلائق نہیں ہوتا۔ یہ خرقہ اس پر حرام ہوتا ہے۔ وہ اس طریق کا قطع کرنے والا ہے اور ہمارے مشائخ اس سے بیزار ہوجاتے ہیں۔ حضرت اقدس نے یہ تمام نصیحتیں قبول کرلیں۔ اور ریاضت و مجاہدہ میں مشغول ہوگئے۔ حتیٰ کہ تین چار سال کے بعد خلافت حاصل کرلی۔ نیز حضرت شیخ نے اسم اعظم جو مشائخ سے سیکھا تھا ان کو تعلیم کیا جس سے ظاہری وباطنی علوم آپ پر مکشوف ہوگئے۔ اور جو کچھ چاہتے تھے مل گیا۔

کافروں کا مسلمان ہونا اور ولی اللہ بن جانا

اس کتاب میں یہ بھی لکھا ہےکہ ایک دفعہ آدھی رات کے وقت چند کافروں نے جمع ہوکر آپس میں کہا کہ ہم ابھی خواجہ عثمان ہارونی رحمتہ اللہ علیہ کے پاس چل کر ان کو آزمائیں۔ اگر وہ ہمیں مطمئن کردیں تو ہمیں یقین ہوجائے گا کہ آج اُن کے برابر کوئی نہیں ہے۔ چنانچہ ہر شخص نے اپنے دل میں کھانے کی کوئی نہ کوئی قسم کی تمنا دل میں رکھ لی اور حضرت اقدس کی خدمت مین پہنچ گئے۔ آپ گھر میں بیٹھے ہوئے تھے ان کو دیکھ کر فرمایا کہ آگے آؤ۔ فرزندان آدم، خدا تعالیٰ عالم الغیب ہے اور جس شخص پر کرم فرماتا ہے اُسے بھی غیب سے مطلع فرماتا ہے۔ آپنے فرمایا بیٹھ جاؤ۔ اور خادم کو حکم دیا کہ ان کے ہاتھ دھلاؤ خادم نے حکم کی تعمیل کی۔ آپ نے بسم اللہ الرحمٰن الرحیم پڑھی اور ہر مرتبہ آسمان کی طرف ہاتھ بڑھاکر عالم غیب سے طعام کا ایک طبق لیا۔ اور اُن میں سے ہر ایک کے سامنے ایک سرے سے رکھتے گئے اور جس شخص نے جس چیز کی خواہش کی تھی۔ اس کے سامنے پہنچ گئی۔ آپ نے فرمایا خدا تعالیٰ کین عمت کھاؤ۔ جب انہوں نے طعام کھایا تو اس قدر لذیز تھا کہ پہلے کبھی نہیں کھایا تھا۔ انہوں نے طعام کھاکر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا اور سخت حیران ہوئے کچھ دیر کے بعد انہوں نے عرض کیا کہ اے خواجہ یہ بات تو ہم کو معلوم ہوگئی کہ آپ جیسا باعظمت اور ان کمالات کا مالک کوئی بزرگ نہیں ہے اب یہ فرمادیں کہ اگر ہم خدا عزوجل کی وحدانیت کے قائل ہوکرمسلمان ہوجائیں آپ کا خدائے بزرگ ہم کو بھی آپ کی طرح صاحب نعمت کردے گا یا نہیں۔ آپ نے فرمایا میں بیچارہ کیا ہوں اور کس شمار میں ہوں۔ اگر وہ لطف و کرم کی نگاہ فرمائے تو مجھ سے ہزار مرتبہ زیدہ بزرگ بنا سکتا ہے۔ یہ سنکر وہ سب مسلمان ہوگئے اور مرید ہوکر آپ کی خدمت میں رہنے لگے۔ حتیٰ کہ ان میں سے ہر ایک پر عرش سے تحت الثریٰ تک مکشوف ہوگیا۔ اور تھوڑے عرصہ میں اولیائے کامل بن گئے۔

کتاب گنج الاسرار کی عیادت سے تویہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت خواجہ عثمان قدس سرہٗ کو اپنے مرید حضرت خواجہ بزرگ خواجہ معین الدین اجمیری قدس سرہٗ سے اس قدر محبت تھی۔ کہ ان کو ملنے کی خاطر آپ دہلی تشریف لائے اور چند روز دونوں بزرگ اکٹھے رہے۔ لیکن یہ روایت بہت ضعیف ہے اس وجہ سے کہ کتاب گنج الاسرار کو بعض مجاوروں نے جمع کیا ہے، جو غیر معتبر ہیں۔ حضرت شیخ نصیر الدین محمود نے اس روایت سے انکار کیا ہے۔ قول صحیح یہ ہے۔ کہ حضرت خواجہ عثمان ہارونی طویل مسافت کے بعد مکہ معظمہ چلے گئے اور معتکف ہوگئے۔ وہاں آپ نے حضرت رب العزت سے دو مقاصد کے لیے دعا کی۔ ایک یہ کہ میری قبر مکہ معظمہ میں ہو۔ اور اس کا نشان بر قرار رہے تاکہ لوگ فاتحہ پڑھتے رہیں کیونکہ مکہ معظمہ میں یہ رسم ہے کہ وہاں کسی کی قبر کا نشان نہیں رکھا جاتا۔ اور برابر کردیتے ہیں۔ دوسری دعا یہ تھی کہ میرے فرزند معین الدین جس نے مدت تک مقام تجرید و تفرید میں اس بندہ کی خدمت کی ہے اس کو اس قسم کی ولایت ملے جو کسی اور عطا نہ ہوئی۔ ہو۔ ہاتف نے آواز دی کہ تمہاری قبر مکہ میں ہوگی اور اس کا نشان بر قرار رہے گااور معین الدین کو ہم نے ہندوستان کی ولایت عطا فرمائی ہے جو اس وقت تک کسی اہل اسلام نہیں ملی۔ لیکن پہلے وہ مدینہ جائے اور محمد مصطفیﷺ سے اجازت لے کرآجائے۔ اس پر خواجہ عثمان ہارونی نے سجدہ شکر ادا کیا اور اپنے تمام مشائخ کی امانت اور اسمائے عظام اور خرقہ خلافت خواجہ بزرگ معین الدین کو دیکر مدینہ منورہ کی جانب رُخصت فرمایا۔ آنحضرتﷺ کمال شفقت سے ولایت ہندوستان آپ کو عطا فرمائی جس کی تفصیل آپ کے ذکر خیر میں آرہی ہے۔ آپ کو یہ بھی فرمایا گیا کہ تمہارا مسکن اجمری ہوگا۔ تم وہاں جاکر رہو۔ تمہارے وجود سے ہندوستان میں دین اسلام استقامت پذیر ہوگا۔ چنانچہ اسی طرح ہوا۔ اور حضرت خواجہ بزرگ نے ہندوستان کے راجہ رائے پھتوار کی بیخ نکال دی اور اس کی جگہ سلطان معز الدین سام (شہاب الدین غوری) کو استقامت بخشی۔ اُس وقت سے آج تک کوئی ہندو وحکمران نہیں ہوا۔ اور اسلام کو وہ ترقی حاصل ہوئی کہ تاریخ گواہ ہے۔

وصال و مدفن:

حضرت خواجہ عثمان ہارونی قدس سرہٗ نے بقیہ عمر مکہ معطمہ میں بسر فرمائی اور باطن میں حضرت خواجہ بزرگ کے احوال کی طرف متوجہ رہے اور حق تعالیٰ سے ہمیشہ اُن کے لیے دعا مانگتے رہے جب ان کی طرف سے خاطر جمع ہوئی حضرت خواجہ عثمان ہارونی علیہ الرحمہ کا وصال 5 شوال المکرم 617ھ مطابق 3 ستمبر 1220ء کو مکۃ المکرمہ میں ہوا۔

آپ علیہ الرحمہ  کو مکہ مکرمہ کے قبرستان جنت المعلیٰ کے قریب سپرد خاک کیا  گیا۔اور آج تک مرجع خلائق ہے۔