ولادت باسعادت:
حضرت شاہ نظام الدین
اورنگ آبادی چشتی علیہ الرحمہ 1060ھ میں قصبہ نگراؤں (کاکوری) میں پیدا ہوئے ۔آپ
کے بزرگ باہر سے آ کر یہاں آباد ہوئے تھے۔آپ کی "نسبی" نسبت "حضرت
شہاب الدین سہروردیؒ" کے واسطے سے "حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ"
تک پہنچتی ہے۔
اسم گرامی:
والدین نے آپ کا نام نظام
الدین رکھا۔
تعلیم و تربیت:
آپ علیہ الرحمہ کا گھرانا
علمی و روحانی گھرانا تھا۔ اس لیے آپ کی تعلیم و تربیت اپنے وطن ہی میں ہوئی۔اس کے
بعد دہلی کے اہل کمال کی شہرت سن کر باقی تعلیم کے لیے آپ علیہ الرحمہ دہلی پہنچے۔
دہلی اس وقت بھی برصغیر پاک و ہند کا پایۂ تخت تھا۔ حضرت شاہ نظام الدین اورنگ
آبادی چشتی علیہ الرحمہ حصول علم کے لیے دہلی پہنچے تو آپ نے حضرت شیخ کلیم اﷲ شاہ
جہاں آبادی علیہ الرحمہ کا بڑا شہرہ سنا۔ آپ علیہ الرحمہ کے دل میں یہ خواہش پیدا
ہوئی کہ حضرت شیخ کلیم ﷲ شاہ جہاں آبادی علیہ الرحمہ کی خدمت میں حاضر ہو کر فیض
حاصل کریں۔ ایک دن آپ علیہ الرحمہ حضرت شیخ کلیم ﷲ شاہ جہاں آبادی علیہ الرحمہ کی
خانقاہ میں حاضر ہوئے۔ دروازہ پر دستک دی۔ اس وقت محفل سماع گرم تھی۔ دروازہ بند
تھا۔ حضرت کا یہ دستور تھا کہ کسی اجنبی کو محفل سماع میں شرکت کی اجازت نہیں دیا
کرتے تھے۔
دستک کی آواز سن کر حضرت
نے ایک شخص کو حکم دیا!
’’دروازے پر کون ہے
معلوم کرو۔‘‘
وہ شخص دروازے پر گیا اور
آپ علیہ الرحمہ کے بارے میں تمام معلومات لے کر حضرت شیخ کلیم ﷲ شاہ جہاں آبادی علیہ
الرحمہ کی خدمت میں عرض کردیں۔
حضرت شیخ کلیم ﷲ شاہ جہاں
آبادی علیہ الرحمہ نے فرمایا! کہ انھیں اندر لے آئیں۔ حاضرین کو بڑی حیرت ہوئی،
انھوں نے عرض کیا۔ حضور یہ تو آپ کا طریقہ ہی نہیں ہے کہ کسی اجنبی کو محفل سماع
میں آنے کی اجازت دیں۔ آپ نے فرمایا،’’وہ اجنبی نہیں ہے بلکہ آشنائے راز ہے۔‘‘ آپ علیہ
الرحمہ جب حضرت شیخ کلیم ﷲ شاہ جہاں آبادی علیہ الرحمہ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو
آداب بجا لائے۔ حضرت شیخ کلیم ﷲ شاہ جہاں آبادی علیہ الرحمہ نے آپ کے سلام کا جواب
دیا۔ اور آمد کا سبب پوچھا۔ آپ نے کہا حصول علم کی خواہش آپ کے قدموں میں لائی ہے۔
حضرت شیخ کلیم ﷲ شاہ جہاں آبادی علیہ الرحمہ نے آپ کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے
آپ کی درخواست قبول فرمائی اور آپ کو خانقاہ میں رہنے کی اجازت دے دی۔حصول علم کے
ساتھ ساتھ آپ طالبان حق کے قلبی واردات کا بھی بغور مشاہدہ کرتے رہتے۔
بیعت و خرقہ خلافت :
آپ کی حضرت شیخ کلیم اﷲ
شاہ جہاں آبادی ؒ سے بیعت کی تفصیل اس طرح بھی بیان کی جاتی ہے ایسے ہی حالات و
واقعات دیکھتے ہوئے علوم باطنی کی طرف راغب ہوگئے آپ کے افکار و خیالات میں تبدیلی
آئی۔ یہ شوق جب حد سے بڑھا تو اپنے استاد محترم حضرت شیخ کلیم اﷲ شاہ جہاں آبادی
سے ذکر کیا۔ آپ نے حضرت شیخ کی خدمت میں بصد عجز و احترام عرض کیا؎
سپردم بتگو مایۂ خویش را۔تودانی حسابم کم و بیش را ترجمہ:
’’میں نے اپنا سرمایۂ حیات آپ کے سپرد کر دیا ہے۔ اب میرے حساب کی کمی بیشی کو آپ
جانتے ہیں۔
حضرت شیخ کلیم اﷲ شاہ
جہان آبادی نے یہ شعر سنا تو آپ کو اپنے دستِ حق پرست پر بیعت کر لیا۔ اس کی خاص
وجہ یہ تھی کہ جب حضرت شیخ کلیم اﷲ شاہ جہاں آبادی علیہ الرحمہ مدینہ منورہ میں
اپنے پیرو مرشد حضرت یحییٰ مدنی علیہ الرحمہ سے بیعت و خلافت و اجازت سے سرفراز ہو
کر مدینہ منورہ سے روانہ ہوئے تو حضرت یحییٰ مدنی علیہ الرحمہ سے حضرت شیخ سے
فرمایا تھا کہ اس شکل و صورت کا ایک شخص آپ کی خدمت میں آئے گا اور عین دعوت الیٰ
اﷲ کے وقت مندرجہ بالا شعر پڑھے گا اور وہ ہماری نسبت کا مالک ہے۔ یوں آپ نے حضرت شیخ کے ہاتھ پر بیعت
کی اور پورے خلوص سے اس علم کے حصول میں مصروف ہوگئے۔ حضرت شیخ نے تکمیل علم پر آپ
کو خرقہ خلافت سے نوازا۔
اورنگ آباد دکن کی ولایت :
تکمیل علم اور حصول خلافت
کے بعد آپ کچھ عرصہ مرشد کی خدمت میں رہ کر ریاضت و مجاہدے میں مشغول رہے۔ پھر
مرشد نے دیکھا کہ آپ درجہ کمال کو پہنچ گئے تو دکن کی ولایت آپ کو سپرد کی اور
ہدایت فرمائی کہ اورنگ آباد میں جا کر مستقل سکونت اختیار کریں۔ مرشد کے حکم کے
مطابق آپ اور اورنگ آباد چلے آئے۔ وہاں ذکر و فکر مراقبہ میں مشغول ہوگئے اور
زندگی بھر وہیں رہ کر مخلوق خدا کی خدمت اور رشد و ہدایت کا کرتے رہے۔ یہی مرشد کا
حکم تھا اور یہی کاردرویشی۔ آپ علیہ الرحمہ نے اس کام کو اپنے مقام و مرتبے کے
مطابق بحسن و خوبی نبھایا اور مرشد کا نام روشن کیا۔
بحسن
و خوبی خلق خدا کی خدمت:
آپ علیہ الرحمہ جامع علوم
ظاہری و باطنی تھے ۔ سنت رسول ﷺ کے سخت پابند تھے۔ ریاضت مجاہدہ اور مراقبہ میں زیادہ
وقت گزارتے تھے۔ جب آپ علیہ الرحمہ استغراق میں ہوتے تو کسی بھی بے شغل آدمی کو
نہیں پہنچانتے تھے خواہ وہ آپ کا مرید ہی کیوں نہ ہو۔ ہر کسی کے ساتھ خندہ پیشانی
سے پیش آتے تھے اور ہر کسی کی کھڑے ہو کر تعظیم کرتے تھے آپ علیہ الرحمہ کا لباس
سادہ اور صاف ستھرا ہوتا تھا قیمتی لباس کا کوئی شوق نہ تھا اکثر لباس پیوند لگے
ہوتے تھے ۔ خوراک بہت کم اور سادا ہوا کرتی تھی، جہاں تک ممکن ہوتا ہر حاجت مند کی
حاجت روائی کی کوشش کرتے، کیوں کہ یہ درویشی کی بنیاد ہے۔ رخصت ہوتے وقت ہر کسی کو
کچھ نہ کچھ ضرور دیتے۔ جمعہ کے علاوہ جو نذرانہ آتاوہ آپ علیہ الرحمہ محتاجوں کو
دے دیتے تھے۔
تحریر
و تصنیف:
آپ علیہ الرحمہ نے کئی
کتابیں تصنیف کیں۔ جن میں "نظام القلوب" مشہور ہوئی،آپ علیہ
الرحمہ کی کتاب ’’نظام القلوب‘‘ اذکار و اشغال کے متعلق ہے۔
خلفائے کرام :آپ
علیہ الرحمہ کے خلفاء میں سے جنھوں نے کافی شہرت پائی۔
·
حضرت
مولانا فخر الدین فخر جہاں علیہ الرحمہ
·
خواجہ
مگار خان علیہ الرحمہ
·
سید
شاہ شریف علیہ الرحمہ
·
شاہ
عشق اﷲ علیہ الرحمہ
·
شاہ
محمد علی خواجہ نور الدین علیہ الرحمہ
·
غلام
قادر خان علیہ الرحمہ
·
محمد
یار بیگ علیہ الرحمہ
·
محمد
جعفر علیہ الرحمہ
·
شیر
محمد علیہ الرحمہ
·
کرم
علی شاہ علیہ الرحمہ
·
خلیفہ ا کبر:
آپ کے صاحبزادے حضرت
مولانا فخر الدین فخر جہاں علیہ الرحمہ آپ کے اولین سجادہ نشین بالاتفاق مقرر کئے
گئے۔حضرت مولانا فخر الدین فخر جہاں علیہ الرحمہ آپکے خلیفہ اکبر بھی تھے۔
وصال مبارک:
حضرت شاہ نظام الدین
اورنگ آبادی چشتی علیہ الرحمہ نے بیاسی(82) سال کی عمر میں 12 ذیقعد 1242ہجری کو
عشاء کی نماز کے بعد جوار رحمت میں جگہ پائی۔ آپ کا مزار اورنگ آباد دکن میں زیارت
گاہ خاص و عام ہے آپ کے ایک لاکھ سے زیادہ مرید تھے۔
اولاد
وامجاد :
آپ علیہ الرحمہ کی اہلیہ
محترمہ کا تعلق حضرت سید بندہ نواز گیسو دراز علیہ الرحمہ کے خاندان سے تھا۔ آپ علیہ
الرحمہ کی اولاد میں پانچ صاحبزادے اور ایک صاحبزادی تھی۔آپ علیہ الرحمہ کے صاحب
زادوں کے نام یہ ہیں۔
·
محمد
اسمعٰیل علیہ الرحمہ
·
غلام
معین الدین علیہ الرحمہ
·
غلام
بہاء الدین علیہ الرحمہ
·
غلام
کلیم اﷲ علیہ الرحمہ
·
حضرت
محب النبی مولانا فخرالدین دہلوی علیہ الرحمہ
یہ پانچوں ہی اہل اﷲ میں
سے تھے، مگر اس حوالے سے "حضرت مولانا فخر الدین فخر جہاں" نے شہرت
پائی۔ حضرت مولانا فخر الدین فخر جہاں علیہ الرحمہ آپکے خلیفہ ا کبر تھے۔
حضرت خواجہ نظام الدین
اورنگ آبادی علیہ الرحمہ کے بے شمار خلفاء تھے ان میں سے چند کے اسم گرامی درج ذیل
ہیں:
·
شیخ
کامگار خان علیہ الرحمہ
·
شیخ
محمد علی علیہ الرحمہ
·
شیخ
خواجہ نور الدین علیہ الرحمہ
·
شیخ
خواجہ مولانا فخر الدین علیہ الرحمہ
·
شیخ
سید شاہ شریف علیہ الرحمہ
·
شیخ
شاہ عشق اللہ علیہ الرحمہ
·
شیخ
غلام قادر خان علیہ الرحمہ
·
شیخ
محمد یار بیگ علیہ الرحمہ (جو ولایت توران میں سے تھے
)
·
شیخ
محمد جعفر علیہ الرحمہ
·
شیخ
شیر محمد علیہ الرحمہ
·
شیخ
سید کرم علی شاہ علیہ الرحمہ
لیکن جیسا سلسلہ آپ کے
خلیفہ و صاحبزادہ حضرت محب النبی مولانا فخر الدین دہلوی علیہ الرحمہ سے جاری ہوا
ایسا کسی اور خلیفہ سے جاری نہیں ہوا ۔
ارشادات حضرت خواجہ نظام
الدین اورنگ آبادی چشتی علیہ الرحمہ
ویسے تو آپ کے بہت سے
ارشادات ہیں لیکن چند ارشادات جو کہ کتاب اقوال اولیاء سے نقل کرکے درج ذیل ہیں:
·
خدا
کی اطاعت رسول نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عملی زندگی کو اپنانے میں
پنہاں ہے۔
·
علم
کے بعد عملی زندگی بسر کرو کیونکہ اس سے بڑھ کر اور کوئی زندگی نہیں ہو سکتی۔
·
علمی
زندگی معراج انسانیت ہے اس میں خداوند نے اپنا راز مضمر کیا ہے۔
·
علم
بنی نوع انسان کا زیور ہے۔
·
جسے
خدا چاہے ساری مخلوق اسے چاہنے لگتی ہے ۔
·
کسی
کا دل نہ دکھا ہو سکتا ہے وہ تمہارے سے زیادہ خدا کو عزیز ہو۔
·
عاشق
صبح سے صبح تک ذکر الہی میں محو رہتا ہے۔
·
دوسروں
کو اچھے اصول سیکھاؤ۔
·
تم
خدا کی مخلوق کے کام کرو خدا تمہارے کام کرے گا۔
·
اچھے
معاشرہ کی تشکیل اچھے نظریات پر ہے۔
وصال مبارک:
آپ کا وصال 12 ذیعقدہ
1142 ہجری بمطابق 29 مئی 1730ء بروز منگل کو ہوا آپ کی عمر مبارک تقریبا"
بیاسی برس تھی ۔ جب آپ کا وصال ہوا اس وقت آپ کے پیرمرشد کے وصال کو چھ ماہ اٹھارہ
دن ہوئے تھے ۔آپ کا مزار اقدس اورنگ آباد شریف دکن انڈیا میں مرجع الخلائق ہے۔