حجۃ الاسلام امام محمد غزالی الشافعی علیہ الرحمہ


 کنیت :ابو حامد

  اسم گرامی:  محمدبن محمدبن محمدبن احمد طوسی غزالی شافعی  علیہ الرحمہ

لقب: حجۃ الاسلام۔امام غزالی کے نام سے معروف ہیں۔

سلسلۂ نسب اسطرح ہے:  حضرت حجۃ الاسلام امام محمد بن محمد بن احمد طوسی غزالی شافعی رحمہم اللہ تعالیٰ

ولادت باسعادت :  آپ 450ہجری  میں خرسان کے ضلع طوس کے علاقے طابران میں پیدا ہوئے۔

اولاد کی تمنا: حضرت سیدنا شیخ تاج الدین سبکی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ آپ کے والد ماجد بڑے نیک فعال متحرک شخصیت کے مالک تھے وہ اپنے ہاتھ کی کمائی کھانا پسند کرتے تھے اسی لئے اون کات کر اسکوفروخت کیا کرتے تھے یعنی اون کے تاجر تھے فقہائے عظام کی مجلس میں شریک ہوا کرتے ،اور ان کے ساتھ حسن سلوک سے پیش اتے،حتی الوسع ان پر خرچ کیا کرتے ،ان کی محافل میں خشیت الہی سےگریہ وزاری کرتےاور اللہ تعالی سے دعاکرتے تھے اللہ تعالی مجھے بیٹا عطا کرے اور اسے فقیہ بنائے کیوں کہ انھیں معلوم تھا کہ جس کے ساتھ اللہ تعالی بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے اسے دین کا فقیہ بنا دیتا ہے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں کہ” من یرد اللہ بہ خیرا یفقہ فی الدین “اللہ تعالی جس کے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرماتا اسے دین کی سمجھ عطا فرماتا ہے پھر اسی مجالس وعظ میں حاضر ہوتےتو رو رو کر دعا کرتے الہی بیٹا عطا کر اور اسے دین کا وعظ بنا اللہ تعالی ان کی دونوں دعاؤں کو شرف قبولیت سے سرفراز فرمایا ۔

تاریخِ ولادت:450 ہجری خراسان کے شہر طوس میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد ماجد دھاگے کی تجارت کرتے تھے۔ اس مناسبت سے آپ کا خاندان غزالی کہلاتا ہے۔ ان علاقوں میں نسبت کا یہی طریقہ مروج ہے، جیسے عطار کو عطاری اور قصار کو قصاری کہتے ہیں۔

حالات زندگی : آپ کے والد برزگوار محمدبن محمد رحمہ اللہ شہر خراسان میں اون کات کر فروخت کیا کرتے تھے پیشے کے اعتبار سے اون کے تاجرتھے اسی مناسبت سے آپ کا خاندان غزالی سے مشہور ہوگیا حضرت امام غزالی اور آپ کے چھوٹے بھائی حضرت احمد غزالی رحمہا اللہ کم سن ہی تھے کہ والد ماجد رحمہ اللہ وصال فرماگئے انتقال کے پہلے اپنے صوفی دوست حضرت ابو حامد محمدبن احمد رازکانی کو وصیت کی تھی کہ میری تمام ملکیت ان دونوں بچوں کی تعیلم وتربیت نشو ونماء پر صر ف کر دیا جائے وصیت کے مطابق ان کے والد ماجد کاتمام سرمایہ تعلیم وتربیت اور کفالت پر صرف کردیا گیا۔

ابتدائی تعلیم: ابتدائی طوس شہر میں حاصل کی کتب فقہ حضرت احمدبن رازکانی سے پڑھیں ابھی عمر ۲۰ کی تھی تو جرجان تشریف لے گئے وہاں حضرت ابو نصر اسماعلی کے پاس کچھ عرصہ رہے پھر اپنے شہر طوس لوٹ آئے نیشاپور میں حضرت سیدنا امام الحرمیں عبد الملک بن عبد اللہ جوینی رحمہاللہ کی بارگاہ میں زانوئے ادب طے فرمایا ان سےاصول دین اختلافی مسائل مناظرہ ‘حکمت میں مہارت تامہ کاملہ حاصل کی ایک مختصرعرصے میں تمام علوم فنون میں حاذق و ماہر ہونا ایک عام ادمی کی لئے ممکن نہ تھا۔ایں سعادت بزور بازو نیست: تانبخشد خدائے بخشندہ،یہ سعادت بزور بازو نھیں ملتی جب تک بخشنے والا خداوند تعالی نہ عطا کر دے۔ترجمہ: کنزالایمان تو کیا وہ جس کا سینہ اللہ تعالی نے اسلام کے لیے کھول دیا تو وہ اپنے رب کی طرف سے نور پر ہےیہ شرح صدر ہی تو ہے یہ سعادت بزور بازو نھیں ملتی جب تک بخشنے والا خداوند تعالی نہ عطا کر دے اس عبقری شخصیت کے جس علوم وفنون کو ملاحظہ کریں تو آپ کو معلوم ھوگا کہ وہ ھر فن کے امام تھےجس فن میں انھوں نے قلم اٹھا ہے تو اس فن کاحق ادا فرما دیا ھے بہت سے ایسے بھی علوم و فنون ہیں جن میں کوئی ان کا استاذ یا شیخ نھیں ہے اس کے باوجود وہ خدا دادصلاحیتوں کی بناء پراس فن میں بھی بحیثیت امام دیکھتے ہیں ۔اوران کے تمام علوم وفنون میں معاصر علماء وفقہاء ہی کو نھیں بلکہ عرب و عجم کے مقدس علماء کرام بھی سر تسلیم خم کرتے تھے علوم متداولہ کے متبحر عالم تھےوہ کسی کی لعنت و ملامت کی کوئی پرواہ نہ کرتے تھے وہ تو صرف رضائے الہی اور عشق مصطفے علیہ تحیۃ والثناء میں ساری زندگی گزار دتے تھے آپ رحمہ اللہ کی ایسی عہد ساز شخصیت تھی جنھیں اپنے اساتذہ کیموجودگی شہرت حاصل تھی ۔

منصب درس تدریس:478 ہجری حضرت امام الحرمین جوینی علیہ الرحمہ کے وصال کے بعد ان کی جگہ منصب اعلی ہر فائز ہوئے 484 نظام الملک نے جامعہ نظامیہ میں شیخ الجامعہ کا منصب پیش کیا جسے آپ نے قبول فرما یا چار سال بغداد میں تدریس و تصنیف کی مشغولیت کے بعد جج کے ارادہ سے مکہ معظمہ روانہ یوئے علامہ عبد الرحمن ابن جوزی لکھتے ہیں کہ آپ کی درس میں بڑے بڑے علماء حاضر ہوتے امام الحنابلہ حضرت ابو خطاب محفوظ بن احمد، عالم العراق وشیخ الحنابلہ علی بن عقیل بغدادی رحمہم اللہ یہ وہ حضرات ہیں جو آپ سے اکتساب فیض کرتے تھے آپ کے بیان ہر حیرت کا اظہار فرمایا کرتے تھے اور اپنی اپنی کتابوں میں نقل کرتے تھے489 ھ میں دمشق پہنچے اورایک عرصہ بیت المقدس میں گزارا دوبارہ دمشق تشریف لائے جامع دمشق کے مغربی کنارے پر ذکر وفکر اور مراقبے میں مشغول ہوگئے زیادہ تر اوقات حضرت نصر مقدمی کے خانقاہ میں گزارتے ملک کے شام دس سال قیام فرمایا اسی دوران احیاء العلوم 4 جلدیں جواہر القران تفسیر یاقوت التاویل 40 جلدیں اور مشکواۃ الانوار وغیرہ تحریر کیں۔

بیعت و خلافت: حضرت ابو علی فضل بن محمد بن علی فارمدی طوسی علیہم الرحمہ سے حاصل تھی۔ شیخ موصوف بہت عالی مرتبت ، فقہ شافعی کے زبردست عالم اور مذاہب سلف سے باخبر تھے اور حضرت سیدنا امام ابوالقاسم قشیری علیہ الرحمہ کے جلیل القدر شاگردوں میں سے ہیں۔

اساتذہ کرام: آپ کے مشہور ومعروف اساتذہ کرام میں سے یہ ہیں حضرے شیخ احمد بن محمد راذکانی حضرت امام الحرمین ابو المعالی جوینی حضرت ابو نصر آساعیلی تصوف حضرت شیخ ابو علی فضل بن محمد بن علی فارمدی طوسی وحضرت یوسف سجاج حدیث میں حضرت شیخ ابو سہل محمد بن احمد حفصی مروزی حضرت شیخ حاکم ابو الفتح نصر بن احمد حاکمی طوسی حضرت شیخ ابو محمد عبد اللہ بن احمدبن محمد طوسی حضرت شیخ محمد بن یحی سجاعی زوزنی حضرت شیخ ابو فتیان عمرو بن ابو الحسن روسی دیستانی اور حضرت شیخ نصر بن ابراھیم مقدسی علیہم الرحمۃ والر ضون

تلامذہ :حضور حجۃ الاسلام ابو حامد امام غزالی علیہ الرحمہ والرضوان کے بے شمار تلامذہ ہیں ان میں سے اکثر فقیہ محدث متبحر مفکر مصنف سے معروف ہیں بطور مثال چبد اسنائے گرامی ذکر کئے جارہے ہیں قاضی ابو نصر احمد بن عبد اللہ مقری حضرت ابو الفتح احمد بن علی حضرت شیخ ابو منصور محمد بن علی سطاری ابو سید محمد بن سعد نوقانی حضرت ابو عبد اللہ محمد بن تو مرت حضرت ابو حامد محمد بن عبد الملک جوزقانی علیہم اکرحمہ والر ضوان

بیعت و ارادت : حضرت امام غزالی دوران طالب علمی میں حضرت ابو علی فضل بن محمد بن علی فارمدی طوسی علیہ الرحمہ کے ہاتھ پر 27 سال کی عمر بیعت کی حضرت شیخ عظیم عالی مرتبت اور فقہ شافعی کے جلیل القدر عالم تھے اور سلف سے با خبر تھے۔

سیرت و خصائص:امام الجلیل، شیخ الکبیر، حجۃ الاسلام، حکیم الامۃ، کاشف الغمۃ، عارف باللہ، صاحبِ اسرار و معارف، امام الاولیاء، شیخ الاصفیاء، وارثِ علومِ مصطفیٰ ﷺ، صاحبِ علم و تقویٰ، حضرت ابوحامد محمد بن محمد غزالی رحمۃ اللہ علیہ۔

علم باطنی کی تلاش و جستجو:آپ 478 تا 884 ھ جامعہ نظامیہ نیشاہور میں امام الحرمیں پھر 484 سے 488 تک جامعہ نظامیہ بغداد میں مدرس اعلی ریےسلطان زمانہ اور دینیا بھر علماء فضلاء آپ کے تبحر علمی کے قائل تھےلوگوں کے دلوں پر بادشاہ سے زیادہ آپ کا سکہ چلتا تھا سلطنت سلجوقیہ کا بادشاہ نظام الملک طوسی آپ کا برا عقیدتمند تھا اور وہ بذات خود ہر امور ملکت میں مشورہ کرتے تھے امام الحرمیں مدرس اعلی شیخ الجامعہ کے مقام منصب پر فائز ہونے جے باوجود جس باطنی روحانی سکون کی تلاش تھی وہ حاصل نہ ہوسکا بغداد میں اس وقت فرقوں باطل مذاھب کے بے جا مناظروں مجادلوں اکھارہ بنا ہوا تھا دارالخلافہ انتشار فتنہ وفساد کی زد میں تھا ہر گلی چورایے پر مناظرہ کم مجادلہ زیادہ ہوتا تھا اس وقت چار فرق زیادہ مشہور تھے متکلمین باطنیہ فلاسفہ صوفیہ آپ ان فرقوں کےعلوم وعوائد کی تحقیق شروع کر دی اس کی تحقیق کے بعد اضطراب و بے چینی اور بڑھ گئی پھر تصوف کی کتابوں کا رخ کیا تو احساس یوا کہ علم علاوہ عمل کی بھی ضرورت ہے۔

المنقذ من الضکال المفضح عن الاحوال میں خو د فرماتے ہیں کہ ان واقعات سے یہ تحریک ہیدا یوئی سب کو ترک کر کے نکل جاؤں نفس کسی طرح بھی ترک تعلقات پر امادہ نہیں ہوتا تھا کیوں اس کو شہرت عامہ شان و شوکت حاصل تھی رجب ۸۸ میں یہ خیال پیدا ہوا لیکن نفس کے ٹال مٹول کے سبب اس عمل پیرا نہ یوسکا اسی ذہنی اور نفسانی کشمکش میں باکل بیمار یو گیا اور حالت ایسی ہوگئی کہ زبان کو یارائے گویائی نہ رہا قوت ہضم باکل ختم ہو گئی طبیبوں نے بھی صاف جواب دی دیا ایسی حالت میں علاج سے کوئی فائدہ نہ ہوگا اخر کار میں سفر کاارادہ کر لیا باشاہ امراء سلطنت اورعلمائے خوشامد و اکرام سے روکا لیکن میں ان کی ایک نہ مانی سب چھوڑ کر شام کی راہ لی پہر ایک وقت ایسا ایا کہ ابائی وطن لوٹ آیا۔ روحانی سکون کے لئے تمام مقام و مرتبہ چھوڑدیا شاہی لباسوں کی جگہ کمبل اور شاہی لذیذ کھانوں کی جگہ ساگ پر قناعت فرماتے تھے

فقیہ ابن رزازابو منصور سعید بن محمد لکھتے ہیں کہ پہلی مرتبہ امام غزالی عالمنہ شان و شوکت کے ساتھ بغداد میں داخل ہوئے تھے ہم نے ان کے لباس اور سواری کی قیمت لگائی تھی تو پانس سو دینار بنی پہر آپ رحمہ اللہ نے زھد وتقوی اختیار کیا اور بغداد چھوڑ دیا مختلف مقامات کا سفر کرتے رہے اور دوبارہ جب بغداد میں داخل ہوئے تو اس وقت ہم نے ان کے لباس کی قیمت لگائی وہ پندرہ قیراط کے معمولی سکے کے تھے ۔

حضرت امام غزالی علیہ الرحمہ  ملت اسلامیہ کا فخر ہیں۔ آپ کی تعلیمات کے اثرات آج تک محسوس کیے جاتے ہیں۔ آپ کی کتب سالکین و عارفین، علماء و فاضلین کے لئے بنیادی حیثیت رکھتی ہیں۔بعض حضرات آپ کو دنیا سے الگ تھلگ اور ایک گوشہ نشین صوفی تصور کرتے ہیں۔ بس جس کا کام صرف اللہُ کی ضربیں لگانا ہو۔ ایسا ہرگز نہیں ہے۔ یہ کیسے ہو سکتا ہےکہ وقت کا مجدد ہو، فلسفیِ اسلام ہو، اور اپنے وقت کا عظیم امام ہو، وہ حالات سے کیسے صرفِ نظر کر سکتا ہے۔ آپ کی حالات پر پوری نظر تھی۔ شاہانِ وقت آپ کی ہیبت سے کانپتے تھے، غیر شرعی امور اور رعایا پر ظلم کے خلاف آپ کی آواز ایک اثر رکھتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ شاہِ سلجوق جس کی سلطنت چین سے یورپ تک تھی آپ نے اس کو للکارا اور فرمایا:افسوس! کہ مسلمانوں کی گردنیں مصیبت اور تکلیف سے ٹوٹی جاتی ہیں، اور تیرے گھوڑوں کی گردنیں سونے اور چاندی کے طوقوں سے جھکی ہوئی ہیں "۔

تاریخِ وصال: 14/جمادی الثانی 505ہجری، بروز پیر کو عالمِ اسلام کا یہ سورج غروب ہوگیا۔آپ کا مزار شریف "طوس" ایران میں ہے۔(ماخذ و مراجع: طبقات الشافعیہ۔ خزینۃ الاصفیاء۔ مقدمہ مکاشفۃ القلوب۔ مقدمہ احیاء العلوم)

فقیہ اعظم حضرت حافظ ابوالوفا افعانی علیہ الرحمہ


 

 پورا نام : سید محمود شاہ  قادری حنفی علیہ الرحمہ

والد کا نام :سید مبارک شاہ قادری حنفی علیہ الرحمہ

ولادت باسعادت: آپ 10 ذی الحجہ 1310 ہجری کو قندھار میں افغانستان (اس وجہ سے امام افغانی سے ملقب ہوئے) پیدا ہوئے۔ آپ نے اپنی ابتدائی تعلیم اپنے والد کے زیر سایہ ہی حاصل کی۔  نوجوانی میں آپ بھارت آ گئے

پیدائش اور تعلیم:آپ نے رام پور میں تعلیم حاصل کی، پھر گجرات میں اور بعد ازاں حیدرآباد پہنچے اور جامعہ نظامیہ مین داخلہ لیا۔ آپ نے 1330 ہجری میں یہاں سند حاصل کی۔

اساتذہ کرام : جامعہ نظامیہ میں حضرت ابو الوفا نے وقت کے عظیم علما جیسا کہ بانی جامعہ نظامیہ و دائرۃ المعارف العثمانیہ شیخ الاسلام امام محمد انواراللہ فاروقی، شیخ عبد الصمد، شیخ عبد الکریم، شیخ محمد یعقوب، شیخ مرقی محمد ایوب، شیخ رکن الدین اور دوسرے علما سے تعلیم حاصل کی۔

تدریسی دور: جامعہ نظامیہ سے سند تکمیل کے حصول کے بعد ابو الوفا کی وہاں بطور مدرس تقرری ہو گئی۔ وہاں آپ نے کافی لمبے عرصہ تک تدریس فرمائی اور بہت سے طلبہ نے آپ سے فیض حاصل کیا۔

احیاء المعارف النعمانیہ کا قیام: حضرت ابو الوفا  علیہ الرحمہ علم اسلامی خصوصاً فقہ حنفی کی ترویج و اشاعت کی بہت لگن رکھتے تھے۔ انھوں نے احیاء المعارف النعمانیہ قائم کیا تاکہ علوم اسلامیہ اور خصوصاً فقہ حنفی کی نایاب کتب کی اشاعت کی جا سکے۔جب انھیں کسی مسودہ اور نایاب کتاب کی ضرورت ہوتی، وہ اپنے جاننے والے عالم کو خط لکھ کر ان سے تعاون کی درخواست کرتے۔ اس طرح حضرت ابو الوفا علیہ الرحمہ نے فقہ حنفی، حدیث اور اس کے راویوں، تاریخ اور دوسرے علوم اسلامیہ کی کتب کا ایک بڑا ذخیرہ جمع کر لیا۔

احیاء المعارف النعمانیہ کی جانب سے شائع کردہ کتب:اس ادارے کی جانب سے بہت سی کتب کی اشاعت کی گئی ہے جن میں شامل چند کتب یہ ہیں :

·         کتاب الآثار ابوحنیفہ ، بروایت امام ابو یوسف علیہ الرحمہ

·         الرد الاسير الأوزاعی ، امام ابو یوسف علیہ الرحمہ

·         اختلاف ابی حنیفہ و ابن ابی لیلی ، امام ابو یوسف علیہ الرحمہ

·         کتاب الاصل (المبسوط) ، امام محمد بن حسن شیبانی علیہ الرحمہ

·         الجامع الکبیر ، امام محمد بن حسن شیبانی علیہ الرحمہ

·         کتاب الآثار ابوحنیفہ ، بروایت امام محمد بن حسن شیبانی   تحقیق تصحیح تخریج تعلیق و شرح ، مولانا ابوالوفاء افغانی علیہ الرحمہ

مولانا ابوالوفاء علیہ الرحمہ نہایت عمدہ تحقیق و شرح لکھ رہے تھے جو (باب زیارۃ القبور  حدیث 268 ) تک ہی پہنچ سکی اور مولانا افغانی  علیہ الرحمہ کا انتقال ہو گیا۔

·         اس کے علاوہ مزید

جن کتب پر کام کیادرج بالا کام کے علاوہ شیخ نے درج ذیل کتب پر تفسیری و تحقیقی کام کیا:

·         مختصر الطحاوی۔ ایک ضخیم جلد میں

·         تاریخ الکبیر ، امام بخاری کی تیسری جلد پر تحقیق

·         النفقات ، امام خصاف علیہ الرحمہ

·         اصول الفقہ ، امام سرخسی علیہ الرحمہ

·         شرح الزیادات - دو جلدیں۔

·         مناقب ابی حنیفہ و اصحابہ یوسف و محمد - امام ذہبی علیہ الرحمہ

·         الحجہ علی اہل المدینہ - امام محمد بن حسن الشیبانی علیہ الرحمہ : اس کتاب پر مفتی مہدی حسن نے تحقیق کی تھی۔ یہ کتاب حضرت ابو الوفا کے زیر نگرانی 4 جلدوں میں شائع ہوئی تھی۔

·         اخبار ابی حنیفہ و اصحابہ - امام محدث صیمری ابی عبد اللہ علیہ الرحمہ

·         عقود الجمان فی مناقب ابی حنیفہ النعمان - حافظ محدث محمد بن یوسف صالحي شافعی دمشقی علیہ الرحمہ

امام افغانی علیہ الرحمہ کا حج: آپ  علیہ الرحمہ نے حج کیا اور سرزمین پاک میں کچھ عرصہ قیام فرمایا۔ وقت کے بہت سے علما نے ان سے سند اجازت حاصل کی۔ اس سے حضرت ابو الوفا علیہ الرحمہ کی شہرت دور دور تک پھیل گئی۔

نجی زندگی : آپ  علیہ الرحمہ نے شادی نہیں کی۔ شیخ عبد الفتاح ابوغدۃ  علیہ الرحمہ نے ان سے ملاقات کی، لکھتے ہیں : ان کے گھر میں کتابوں، مسودات اور تحریروں کے سوا کچھ نہیں تھا۔ یہ کتابیں ان کے ارد گرد بکھری پڑی تھیں۔آپ  علیہ الرحمہ رات کو بہت کم خوراک لیا کرتے اور اپنی راتیں اللہ تعالیٰ  سے دعاؤں میں گزارتے تھے۔

 محدث دکن علیہ الرحمہ  سے نسبت: آپ  علیہ الرحمہ محدث دکن، مصنف زجاجۃ المصابیح حضرت ابو الحسنات سید عبد اللہ شاہ نقشبندی مجددی قادری علیہ الرحمہ  کے بہت قریب تھے۔ محدث دکن کے خلیفہ اور تذکرہ محدث دکن کے مصنف حصرت ابو الفدا عبد الستار خان نقشبندی مجددی قادری لکھتے ہیں : آپ علیہ الرحمہ  نے مجھے بتایا کہ میں بلا شبہ یہ میری خوش قسمتی ہے کہ مجھے حضرت ابو الحسنات علیہ الرحمہ  کی صورت میں مرشد کامل میسر ہے۔ بصورت دیگر مجھے شیخ کامل کی تلاش میں سفر کرنا پڑ سکتا تھا۔

آپ  علیہ الرحمہ کا انتقال:  آپ علیہ الرحمہ نے اپنی ساری زندگی ترویج علوم اسلامی کی کوششوں میں صرف کی۔ آپ 13 رجب 1395ہجری کی صبح وفات پا گئے۔

حضرت خواجہ شمس الدین حافظ شیرازی علیہ الرحمہ

 

اسم گرامی :  محمد،

لقب: شمس الدین

  تخلص:  حافظ

المعروف: حافظ شیرازی

ولادت باسعادت:   تذکرہ و سوانح کی تمام کتب میں اُن کے سن ولادت سے متعلق اختلاف منقول ہے۔ عمومی طور پر مؤ رخین نے حافظ شیرازی کا سالِ ولادت726ہجری اور 729ھ کے درمیان قرار دیا ہے۔ تاہم، زیادہ تر محققین نے726ہجری ہی تحریر کیا ہے۔ 

والدماجد کا نام: بعض تذکرہ نگاروں نے بہاءلدین اور بعض نے کمال لدین تحریر کیا ہے۔

آپ   علیہ الرحمہ کے والد، بہاؤالدین تجارت پیشہ تھے اور اصفہان میں قیام پذیرتھے، بسلسلۂ تجارت شیراز آئے، تو یہیں کے ہوکر رہ گئے۔ حافظ شیرازی کے والد اُن کے بچپن ہی میں فوت ہوگئے تھے، چنانچہ اُن کا بچپن یتیمی کی حالت میں گزرا۔ والد نے جو کچھ پس انداز کیا تھا، جلد ہی ختم ہوگیا، تو حافظ شیرازی کے دونوں بھائی تلاشِ معاش میں شیراز سے ہجرت کرگئے۔ تاہم، حافظ اپنی والدہ کے ساتھ وہیں قیام پذیر رہے۔ بچپن میں خود کو سخت کوشی کا عادی بنایا اور ایک تنور پر آٹا گوندھنے کی مزدوری کرنے لگے۔ اگرچہ اُن کے اپنے حالات ناگفتہ بہ تھے، لیکن دل کے بے حد غنی تھے۔ مزدوری میں ملنے والی رقم کے تین حصے کرتے۔ ایک، والدہ کی خدمت میں پیش کرتے، دوسرا، اساتذہ کرام کی خدمت میں اور تیسرا حصّہ، اللہ کی راہ میں خیرات کردیتے۔

 تعلیم و تربیت : انہوں نے اپنے دور کے جید اساتذہ سے علوم متداولہ حاصل کیے، اسی دوران قرآنِ مجید بھی حفظ کیا، اسی نسبت سے ’’حافظ‘‘ تخلص اپنایا۔ انھیں علمِ ہندسہ اور موسیقی سے بھی بہت لگاؤ تھا۔ اُن کے معاصر اور ہم درس، اُنھیں مولانا الاعظم، استاد تحاریرالادباء اور فخرالعلماء کے ناموں سے یادکیا کرتے تھے۔ اُن کے زمانے میں ایران عام طور پر، جب کہ شیراز خاص طور پر شعر و ادب کا مرکز تھا۔ کئی نامور شعراء شیراز میں قیام پذیر تھے، پورے ملک میں اُن کے کلام کا طوطی بولتا تھا۔اس ماحول میں حافظ شیرازی نے شاعری شروع کی۔ ابتدائی طور پر وہ دربارِ شاہی سے قربت رکھتے تھے اور اس وقت کے دستور کے مطابق بادشاہوں کے قصیدے بھی نظم کیا کرتے۔ یہی وجہ ہے کہ اُس وقت کے بادشاہ نہ صرف اُن کی شاعری کے قائل تھے، بلکہ مختلف اوقات میں اُنھیں انعام و اکرام سے بھی نوازتے۔

 حافظ شیرازی علیہ الرحمہ  نے چار بادشاہوں کا زمانہ دیکھا۔ شیخ جمال الدین ابواسحاق اُن کا بڑاقدردان تھا۔ آپ اُس کے دربار سے وابستہ رہے۔ اس کے انتقال کے بعد مبارزالدین پانچ سال تک سریرآرائے مملکت رہنے کے بعد وفات پاگیا، تو اُس کا بیٹا جلال الدین شاہ شجاع مسندِ اقتدار پر فائز ہوا، اور پھر 1384ء میں اُس کے راہئ ملکِ عدم ہونے کے بعد شاہ منصور بن شرف الدین نے عنانِ حکومت سنبھالی۔ 

حافظ شیرازی نے ان تمام بادشاہوں کی تعریف و توصیف کی اور اُن کے درباروں سے خاص قُربت رہی۔ یوں اُن کے کلام کی شہرت سرحدوں کی قیود سے نکل کر چہار دانگِ عالم پھیل گئی۔ مختلف بادشاہوں نے اُنھیں اپنی مملکت میں مدعو کیا اور انعام و اکرام سے نوازا۔ سلطان احمدبن شیخ اویسی، والئ بغداد نے حافظ شیرازی کو بغداد آنے کی دعوت دی۔ محمود شاہ بہمنی نے اُنھیں دکن بلایا، غیاث الدین بن سکندرنے بنگال آنے کی دعوت دی اور زادِ راہ بھی بھجوایا، لیکن حافظ نے اپنا کلام تو بھیج دیا، مگر شیراز چھوڑنا پسند نہ کیا، بلکہ ایک دفعہ دکن جانے کےلیے بندرگاہ پہنچے، جہاز پر سوار بھی ہوگئے، لیکن بادِ مخالف کے باعث ارادہ ترک کردیا اور واپس شیراز آگئے۔

حافظ محمد اسلم جے راج پوری نے اپنی کتاب ’’حیاتِ حافظ‘‘ میں اُن کی ذاتی زندگی کے حالات کچھ یوں بیان کیے ہیں:’’خواجہ کی زندگی درویشانہ اور فقیرانہ تھی۔ ان کے تمام اوقات علمی مشاغل، عبادت اور ریاضت میں صرف ہوتے۔ سیر چشمی اور فیاضی جو بزرگوں کا خاصّہ ہے، ان میں بدرجہ کمال موجود تھی اور دنیاوی جاہ و مال کی خواہش سے ان کا رُتبہ بہت بلند تھا۔ اُن کی تمام آمدنی فقراء اور درویشوں کے لیے وقف تھی اور بیگانوں اور آشنائوں سب کے لیے اُن کا دروازہ ہر وقت کُھلا رہتا تھا۔ 

اُن کی روزی بادشاہوں اور امراء کی فیاضی پر منحصر نہ تھی، بلکہ وہ مدرسے میں تعلیم دیتے اور اُسی کی آمدنی سے گزارہ کرتے۔ اُن کی ایک بہن، وفات پاگئیں، تو ان کے کم سِن بچّوں کی کفالت بھی حافظ نے کی۔ وہ مجذوب، صوفی یا آزاد مجرّد نہ تھے۔ انہوں نے شادی بھی کی تھی اور اُن کے دو بیٹے تھے۔ ایک بیٹا نوعُمری میں فوت ہوگیا۔ اُس کے مرثیے میں ایک غزل لکھی۔ اُن کی اہلیہ جو کہ ایک نیک سیرت اور انتہائی حسین و جمیل خاتون تھیں، عین شباب میں انتقال کرگئیں۔ حافظ کو اُن کی موت سے ایسا صدمہ ہوا کہ عُمر بھر دوسرا نکاح نہیں کیا۔ دوسرے بیٹے کا نام شاہ نعمان تھا۔ ان کا انتقال برہان پور،بھارت میں ہوا۔ قبر بھی وہیں قلعہ آسیر کے قریب ہے۔ ہر شخص میں فطری طور پر وطن کی محبت کا جذبہ موجود ہوتا ہے۔ جہاں انسان پیدا ہو، اپنے والدین اور بھائی بہنوں کے ساتھ وقت گزارے، اردگرد کے ماحول سے آشنا ہو اور جہاں بچپن اور جوانی کے شب و روز گزرے ہوں، اُس جگہ سے گہری وابستگی ہوہی جاتی ہے، لیکن حافظ کی شیراز سے محبّت اس قدر مثالی تھی کہ عُمر بھر کہیں اور جانے کا قصد نہ کیا۔ ایک بار یزد کے لوگوں کے بے حد اصرار پر وہاں تشریف لے گئے، تو دل نہیں لگا۔ ہر وقت اُداس رہتے اور شیراز کی یاد اور تعریف میں غزلیں لکھتے رہتے، لہٰذا جلدہی اپنےمحبوب شہر واپس لوٹ آئے۔

اس میں یقیناً اہل و عیال کی محبّت بھی کارفرما تھی۔ شیراز کے مشرقی سمت دو میل کے فاصلے پر ایک خوش نما مرغزار کا نام خاکِ مصلّٰے ہے، وہاں فرصت کے لمحات میں چلے جاتے، دل بہلاتے اور شاعری کرتے تھے۔ شیراز کے اکثر باغات اور سیرگاہیں اُسی جانب ہیں۔ یہ ایک نہایت سرسبز اور پُر فضا مقام ہے۔ وہ جگہ قدرتی مناظر اور تنہائی حافظ کی شاعرانہ طبیعت کے عین موافق تھی، اسی لیے تمام دنیا پر اُسے ترجیح دیتے۔  اس میں ہر طرف قدرتی سبزے کی بہار نظر آتی، خُوب صُورت رنگوں کے اتنے پُھول کِھلتے کہ لگتا گوشۂ جنّت ہے۔ وہاں رُکنا باد کے چشمے کا پانی اس قدر شفّاف اور شیریں ہے کہ حافظ کہتے ہیں؎ نمی دہند اجازت مرا بہ سیر و سفیر.....نسیم باد مصلی و آب رُکنا باد: ترجمہ (باغِ مصلّٰے کی نسیم اور رکنا باد کا چشمہ دونوں کہیں مجھے آنے جانے کی اجازت نہیں دیتے)۔ پھر اُس کی مدح میں مزید کہتے ہیں؎ بدہ ساقی می باقی کہ در جنّت نخواہی یافت.....کنارِ آب رُکنا باد گلگشت مصلی را۔ ترجمہ (اے ساقی باقی شراب بھی دے دے اس لیے کہ تُو جنّت میں نہ پاسکے گا۔ رُکنا باد کی نہر اور مصلے کی سیر گاہ۔‘‘

حضرت خواجہ حافظ شیرازی قدس سرہ غوث العالم محبوب یزدانی سلطان سید مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی علیہ الرحمہ  کے معاصرین میں سے تھے ان دونوں حضرات کی ملاقات شیراز میں ہوئی ۔لطائف اشرفی میں ہے کہ حضرت قدوۃ الکبریٰ فرماتے ہیں کہ جب میں شیراز پہونچا اور وہاں کے اکابرسے ملاقات کی تو خواجہ حافظ شیرازی سے ملاقات ہوئی پہلے ان کا یہ شعر مجھ تک پہونچ چکا تھا :حافؔظ بھی معتقد ہورکھوں میں تم کو عزیز۔۔۔۔ہیں اس پہ ایک روح مکرم کی بخششیں

میں نے اس شعر سے سمجھ لیا کہ وہ اویسی ہیں جب ملاقات ہوئی تو ہم دونوں میں بڑی محرمانہ باتیں ہوئیں ایک عرصہ تک ہم دونوں ایک ساتھ شیراز میں رہے ان کا مشرب میں نے بہت بلند پایا اس زمانے میں جس کو ان کی نیابت جاننے کی خواہش ہوتی وہ ان کی طرف رجوع کرتا تھا ۔ ان کے اشعار سے معارف کا اظہار اور حقائق کی پردہ کشائی ہوتی تھی اکابر روزگار نے ان کے اشعار کو لسان الغیب کہاہے کہ بلکہ ایک بزرگ نے تو یہاں تک کہاہے کہ کوئی دیوان حافؔظ کے دیوان سے بڑھ کر نہیں ہے مردصوفی اسے سمجھ سکتا ہے۔(حوالہ:لطائف اشرفی حصہ دوم 370)

اس عبارت سے پتہ چلتاہے کہ ان دونوں ہستیوں میں بڑی قربت رہی اور رازونیازکی باتیں بھی ہوتی رہیں سید اشرف جہانگیر سمنانی  علیہ الرحمہ نے خواجہ حافظ شیرازی علیہ الرحمہ کا جس انداز سے ذکر کیا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ بلند پایہ صوفی تھے اکثر نے یہ بھی لکھا ہے کہ وہ مجذوب تھے کیونکہ ہروقت جذب کی کیفیت میں رہتے تھے ان کے اشعار ان کی قلبی کیفیات کے آئینہ دار ہیں جن میں طریقت کے بڑے اسرارورموز بیان کئے گئے ہیں یہی وجہ ہے کہ مشائخ وقت نے آپ کے اشعار کو لسان الغیب سے تعبیر کیا ۔

لطائف اشرفی میں متعدد مقامات میں پر حضرت خواجہ حافظ شیرازی کا ذکر خیر ملتا ہے ۔ سید اشرف جہانگیر سمنانی السامانی نے یہ بھی فرمایا ہے کہ وہ اویسی تھے یعنی حضرت اویس قرنی رضی اللہ عنہ کے مشرب پر تھے ایک مقام پر یہ بھی فرمایا کہ جب حقائق و معارف پر گفتگو ہوتی تھی تو آپ اہل محفل دنگ رہ جاتے اور آپ کی عملیت و روحانیت کے قائل ہوجاتے ۔

تصنیفات : قدوة المحققین حضرت عبد الرحمان جامی علیہ الرحمہ  لکھتے ہیں کہ صوفی اگر مرد ہے تو پھر دیوانِ حافظ اس کے لیے بہترین مَنفع ہے۔ اس کے علاوہ حافظ نے تفسیر قرآن بھی تحریر کی تھی۔ محمد گل اندام کے بقول حافظ شیرازی نے کشاف اور مصباح کے حواشی بھی تحریر کیے۔

دیوانِ حافظ:حافظ شیرازی  علیہ الرحمہ نے زیادہ کتب تحریر نہیں فرمائیں، اُن کے سوانح نگاروں کے مطابق، اُن کا سارا کلام محفوظ بھی نہیں ہے۔ جو کلام کتابی شکل میں موجود ہے، وہ اُن کے ایک شاگرد محمد گل اندام نے مرتّب کیا تھا۔اسی کو ’’دیوانِ حافظ‘‘ کہا جاتا ہے۔ دیوانِ حافظ میں500غزلیں، رباعیاں، قصیدے اور قطعات شامل ہیں۔ دیوان کے خطی نسخے ایران، ہندوستان، افغانستان، پاکستان اور ترکی کے کتب خانوں میں بھی موجود ہیں۔ ’’دیوانِ حافظ‘‘ اپنی ضخامت کے اعتبار سے کم، جب کہ معنوی حُسن کے اعتبار سے زیادہ شہرت کا حامل اور اُن کی پوری زندگی کا حاصل ہے، جو ہر دَور میں مقبول اور زبان زدِ خاص و عام رہا ہے۔ انہوں نے کمال بلاغت اور ایجاز سے عاشقانہ اور عارفانہ کیفیات کو ایک ساتھ جمع کیا۔ حافظ شیرازی کے متعلق کہا جاتا ہے کہ اُن کی شاعری عشقِ مجازی سے متاثر تھی، لیکن بعد میں جب راہِ سلوک پر سفر شروع کیا، تو اُس پر عشقِ حقیقی کا رنگ غالب آگیا۔ اُن کے کلام میں جہاں مولانا روم کی حکمت کے موتی ملتے ہیں، وہیں سعدی کا درسِ عشق بھی ملتا ہے۔ انھوں نے بعض مقامات پر سعدی و رومی کی پیروی بھی کی۔ دیوانِ حافظ کی20سے زائد غزلیات سعدی کی بحر میں ہیں، ان غزلیات میں سعدی کا رنگ نمایاں نظر آتا ہے۔ بعض غزلیات میں مولانا روم کی جھلک نظر آتی ہے، مگر الفاظ کے انتخاب، تراکیب کے استعمال، معنی خیزی اور دل آویزی میں اُن کا اپنا ہی رنگ ہی نمایاں ہے۔پھر اُن کے کلام میں ایک خاص طرح کی شیرینی بھی ہے۔ اکثر شعراء کے دیوان میں چند ایک غزلیات یااشعار ایک خاص رنگ میں ہوتے ہیں، تاہم ’’دیوانِ حافظ‘‘ کا ہر شعر پہلے سے بڑھ کر ہے، ہر غزل دوسری غزل سے بڑھ کر لُطف دیتی ہے۔ کلام میں ایساسحر ہے کہ جو قاری کو اپنے حصار میں جکڑ لیتا ہے۔

معروف انگریزی ادیب، ہنری کلارک کے مطابق:’’دنیا کے کسی ملک میں کبھی کوئی ایسا عالی دماغ اور طباع شاعر پیدا نہیں ہوا۔‘‘ 

انگریزی زبان کے نام ور شاعر، ایمرسن نے حافظ شیرازی کو شاعروں کا شاعر قرار دیا ہے۔ جرمنی زبان کے عظیم فلسفی اور شاعر، گوئٹے نے انھیں ’’لاثانی‘‘ کہا ہے۔ اُس نے حافظ کی تقلید میں200غزلیں کہیں اور ایسی دل آویز کہیں کہ اُس کے مجموعے کو ’’ویسٹ ایسٹرن دیوان‘‘ کہا گیا۔ مغرب میں حافظ کا یہ ایسا تعارف ہے، جس نے اُن کی شہرت کو چار چاند لگا دیے۔اسی طرح فارسی ادب کو انگریزی میں مقبول بنانے والے ایڈورڈ فٹزجیرالڈ نے حافظ کو ’’الفاظ کا بہترین موسیقار، کہا ہے۔

حافظ پر کئی کتابوں کے مصنف اور شاعر ڈینیل لیڈنسکی اپنی ایک کتاب میں لکھتے ہیں:’’مجھے لگتا ہے کہ حافظ ’’روشنی کی افادیت‘‘ یا ’’سورج‘‘ کو بیان کرنے والے ایک نادر ماہر ہیں۔ وہ فن کی افادیت کے بھی ماہر ہیں۔ ان کی شاعری ضرورت مندوں کو راحت بخشنے، جِلا بخشنے اور مالا مال کرنے کی صلاحیتوں سے معمور ہے۔ 

دیوانِ حافظ سے فال:کلامِ حافظ میں دیوان کو وہ مقبولیت حاصل ہے کہ اس سے لوگ فال تک نکالتے ہیں۔ دیوانِ حافظ سے فال نکالنے کے مختلف طریقے رائج رہے ہیں۔ بعض صاحبان ’’بسم اللہ،، پڑھ کر دیوانِ حافظ کھولتے ہیں اور پھر کسی شعر پر اُنگلی رکھ کر اس شعر کے مطلب سے فال نکالتے ہیں۔بعض صاحبان، دیوانِ حافظ کھول کر صفحے کے ساتویں شعر سے فال نکالتے ہیں۔ اس طرح فال نکالنے کے کئی اور طریقے بھی رائج ہیں۔

کلامِ حافظ اور فال نکالنے سے متعلق مولانا محمد میاں صاحب قمر دہلوی، مسجد فتح پوری دہلی لکھتے ہیں: ’’حافظ کا کلام جس طرح رندانِ قدح خوار کے لیے سرمستی اور خوش عیشی کا ذریعہ ہے۔ اسی طرح ہمیشہ سے اہلِ باطن بھی اس سے استفادے کے قائل رہے ہیں۔ اہلِ صفا کی مجالس، حافظ کے زمزموں سے گونجتی رہی ہیں اور ان پر حافظ کے اشعار سے وجدو حال کی کیفیتیں طاری ہوتی رہی ہیں۔‘‘

غرض یہ کہ ایک بہت بڑا طبقہ ہے، جو اپنی مہمّات اور پیش آنے والے واقعات میں حافظ کے کلام سے فال نکال کر اپنے قلب کو مطمئن کرتا رہا ہے اور حافظ کی صدا کو ایک غیبی آواز یقین کرکے اپنے کاموں کی اس کو بنیاد بتاتا رہا ہے اور حافظ و کلامِ حافظ کو لسان الغیب کا درجہ دیتا رہا ہے۔ تیموری بادشاہ اپنے تمام مہمّات میں دیوانِ حافظ سے رہنمائی حاصل کرتے رہے ہیں۔ مغل سلاطین، ہمایوں، اکبر اور جہانگیر ہی نہیں، بلکہ عالم گیر بھی دیوانِ حافظ سے فال لے کر پیش قدمیاں کرتارہا ہے۔

حافظ کے تذکرہ نگاروں نے ایسے سیکڑوں واقعات نقل کیے ہیں، جن سے فال نکالنے والوں کو حافظ کے کلام سے محیرّ العقول اشارے حاصل ہوتے ہیں۔ تذکرۂ حسینی میں مذکور ہے: ’’ایک شخص کا بیٹا گم ہوگیا، بہت تلاش اور جستجو کی گئی، لیکن بیٹے کا کچھ پتا نہ چلا۔ بالآخر اس نے دیوانِ حافظؔ سے فال نکالی، تو یہ شعر سامنے آیا:فاش می گویم و از گفتہ خود دل شادم .....بندۂ عشقم و از ہر دو جہاں آزادم ۔ (کُھلم کُھلا کہتا ہوں اور اپنے کہے سے خوش ہوں، مَیں عشق کا بندہ ہوں اور دونوں جہان سے آزاد ہوں)۔ اس شعر میں جو اشارہ تھا، وہ نہ سمجھ سکا۔ کچھ عرصے بعد اُسے اُس کا بیٹا ایک خانقاہ میں فقیرانہ لباس میں ملا، فوراً فرطِ مسرّت سے اُس کی جانب لپکا اوربیٹے سے احوال دریافت کیا، تو اس نے بتایا کہ ’’مَیں نے فرقہ آزاداں اختیار کرلیا ہے اور شاہ عشق اللہ کا مرید ہوگیا ہوں۔‘‘ 

باپ نے شاہ عشق اللہ سے درخواست کی، تو انہوں نے بیٹے کو باپ کے حوالے کردیا۔ تب اس پر دیوانِ حافظ کے شعر کا مطلب واضح ہوا۔‘‘ ایک شخص کا بھائی قید تھا۔ اس نے دیوانِ حافظؔ سے فال نکالی، تو یہ مصرع سامنے آیا:کہ دمِ ہمّتِ ما کرد ز بند آزاد ست۔ اسی روز اُس کا بھائی قید سے رہائی پا کر گھر آگیا۔ مغل بادشاہ، ہمایوں نے جب ایرانی فوج لے کر ہندوستان پر حملے کا ارادہ کیا اور دیوانِ حافظ سے فال نکالی، تو یہ شعر سامنے آیا: عزیز مصر بہ رغم برادرانِ غیور.....ز قعر چاہ برآمد بہ اوج ماہ رسید۔ ترجمہ (عزیز ِمصر اپنے حاسد بھائیوں کی خواہش کے برعکس کنویں کے تہہ سے نکل کر چاند کی بلندی پرپہنچ گیا)۔ مغلیہ تاریخ میں درج ہے کہ اس حملے میں سب بھائیوں کو شکست دے کر وہ ہندوستان پر قابض ہوا۔اسی طرح جہانگیر جب بنگال کی مُہم پر جا رہا تھا، تو اس نے دیوانِ حافظ سے فال نکالی، تو یہ شعر سامنے آیا؎ خوردہ ام تیرِ فلک بادہ بدہ تا سرمست.....عقدہ در بندِ کمر ترکشِ جوزا فکنم۔ 

اس میں پیشانی پر تیر لگنے کی بات تھی اور اس مہم میں ان کے مقابل عثمان کی پیشانی پر تیر لگا اور اُس کی موت واقع ہوگئی، جس کے نتیجے میں جہانگیر کو بنگال پر فتح نصیب ہوئی۔ ایک موقعے پر جہانگیر، اکبر کی ناراضی کی وجہ سے الٰہ آباد میں مقیم تھا اور آگرہ کا سفر کرنے میں متردّد تھا۔ دیوانِ حافظؔ سے فال نکالی، تو غزل کا یہ شعر برآمد ہوا:چرا نہ در پی عزمِ دیارِ خود باشم.....چرا نہ خاکِ سر کوی یارِ خود باشم۔ جہانگیر فال نکالتے ہی آگرہ پہنچا، باپ سے ملا، تعلقات استوار ہوئے اور چند روز بعد اکبر کی وفات ہوگئی، جس کے بعد جہانگیر تخت و تاج کا وارث بنا۔

وصال پر ملال: آپ علیہ الرحمہ 8 شعبان المعظم 791  ہجری میں وفات پائی اور اپنے محبوب مقام ’’مصلی‘‘ میں دفن ہوئے ۔

اپنی قبر سے متعلق پیش گوئی : وفات کے تقریباً 65سال بعد اُن کی قبر پر ایک مقبرہ تعمیر کیا گیا، جو ’’حافظیہ‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔ ایرانی کیلنڈر کے مطابق، ہر سال 12 اکتوبر کو ملک بھر میں ’’یومِ حافظ‘‘ منایا جاتا ہے۔ اس دن ایران کےشہر شیراز میں دنیا بھر کے محقّقین کی موجودگی میں حافظ کی یاد میں تقریبات منعقد کی جاتی ہیں۔واضح رہے ،حافظ شیرازی نے اپنی قبر کے بارے میں ایک شعر میں جس طرح پیش گوئی کی تھی، وہ درست ثابت ہوئی اوران کی قبر آج ایک مشہور زیارت گاہ ہے؎ برسرِ تربت چوں گزری ہمّت خواہ.....کہ زیارت گہ رندان جہاں خواہد بود۔(ہماری قبر پر جب تمہارا گزر ہو، تو دعا مانگو، کیوں کہ ہماری قبر دنیا بھر کے رِندوں کی زیارت گاہ ہے)۔(بشکریہ ویکیپڈیا و دیگر کتب سے مآخوذ)