محب النبی حضرت خواجہ فخر الدین فخرجہاں دہلوی علیہ الرحمہ

 


آپ علیہ الرحمہ کا نام والقابات:

حضرت شاہ فخر الدین فخر جہاں دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کا اسم گرامی ، فخرالدین، جب کہ محب النبی، فخرجہاں اوربرہان العارفین آپ علیہ الرحمہ کے القاب ہیں۔اس کے علاوہ قطب یگانہ، قطب منفرد، قطب وحدت، قطب حقیقت، قطب الاقطاب، پیشوائے محبوبیت و عشق،مقتدائے عارفاں، امام کاملاں، قطب الاولیاء، غوث وقت، فرد الافراد، قطب الافراد، اور محبوب یزداں بھی آپ علیہ الرحمہ کے القابات وخطابات ہیں۔

آپ  علیہ الرحمہ  کی ولادت با سعادت:

آپ علیہ الرحمہ کی ولادت 1126ہجری 1717ء کو اورنگ آباد(انڈیا) میں حضرت شاہ نظام الدین اورنگ آبادی چشتی نظامی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے دولت کدہ میں ہوئی۔حضرت خواجہ فخرالدین علیہ  الرحمہ  کا سلسلہ نسب والد ماجد کی طرف سے حضرت شیخ شہاب الدین سہروردی رحمۃ اللہ علیہ کے واسطے سے حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ تک پہنچتا ہےاور آپ کی والدہ ماجدہ حضرت خواجہ سید محمد گیسو دراز رحمۃ اللہ علیہ کے خاندان سے تھیں، جن کا سلسلہ نسب سیدنا امام زین العابدین علیہ السلام سے ہوتا ہواسیدناعلی المرتضیٰ شیر خدا کرم اللہ وجہہ الکریم تک جاملتاہے۔

آپ علیہ الرحمہ کی ولادت پرآپ کے دادا جان حضرت شاہ کلیم اللہ دہلوی علیہ الرحمہ نے بہت مسرت کا اظہار کیا اورآپ کا نام فخرالدین تجویز فرمایا اور ازراہ عنایت و کرم اپنا لباس خاص آپ علیہ الرحمہ کے لیے تحفہ ارسال کیا اور ساتھ ہی یہ بشارت دی کہ؛
یہ بچہ مستقبل میں ہدایت وار شاد کی شمع روشن کرے گا، جس سے مخلوق کے سینے منور ہوں گے اور شریعت و طریقت کے میخانے میں پھر سے بہار آجائے گی۔ یہ بچہ دین حنیف کے لیے باعث فخر ہوگا۔

تاریخ گواہ ہے کہ مستقبل میں خواجہ فخر الدین فخر جہاں علیہ الرحمہ اپنے عمل وکردار سے واقعی فخر العالم والدین کا عملی پیکر بنے۔ جس دور میں آپ علیہ الرحمہ کی ولادت ہوئی، سیاسی لحاظ سے وہ دور مسلمانوں کے زوال اور تنزلی کا دور تھا اور امارت دہلی پر انحطاط کے باقاعدہ آثار ظاہر ہوچکے تھے۔ ہندوستان کے اطراف و اکناف میں سکھ اور مرہٹے خوب لوٹ مار کررہے تھے اور نادر شاہ کی قتل و غارت بھی عام ہوچکی تھی۔ ان حالات میں دو جگہیں بڑی غیر معمولی نوعیت کی خدمات سرانجام دے رہی تھیں۔ ایک دہلی جس کے بارے میں شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا تھا؛دہلی میں جس سمت بھی نکلیں، مدارس ہی مدارس نظر آتے تھے، جن میں درس و تدریس کا باقاعدہ دور دورہ تھا۔ ان مدارس میں بھی دو مدارس بہت اہم تھے، ایک مدرسہ جس کی بنیاد شاہ عبدالرحیمؒ نے رکھی تھی اور اس کو عروج کی انتہائی بلندیوں تک حضرت شاہ ولی اللہ رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ لے گئے تھے اور دوسرا مدرسہ اجمیری دروازے میں تھا، جہاں لوگ بڑی دور دور سے علم کی پیاس بجھانے آتے تھے، اور یہ مدرسہ حضرت شاہ فخرالدین فخر جہاں رحمتہ اللہ علیہ کا مدرسہ تھا۔

آپ  علیہ الرحمہ  کو محب النبی کا لقب عطا ہونا:

روایات میں ہے کہ خواجہ فخر الدین فخر جہاں رحمۃ اللہ علیہ کو آقا کریم نبی اکرم ﷺ کی ذات سے بے بے پناہ محبت و عقیدت تھی اوراسی نسبت سے ایک روز حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری علیہ الرحمہ اور حضرت خواجہ شاہ چراغ دہلوی علیہ الرحمہ نے حالت خواب میں آپ کو محب النبی کے لقب سے مخاطب فرمایا۔

آپ  علیہ الرحمہ  کی ابتدائی تعلیم و تربیت

حضرت شاہ نظام الدین اورنگ آبادی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے ہونہار صاحبزادہ کی تعلیم و تربیت کا انتظام نہایت اعلیٰ پیمانہ پر کیا۔ پھر حضرت شاہ کلیم اللہ دہلوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے حکم پر انہوں نے وقت کے مشہور اور قابل ترین علماء سے خواجہ فخر الدین فخر جہاں علیہ الرحمہ کی تعلیم کی تکمیل کرائی۔

شاہ فخر الدین فخر جہاں رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے ابتدائی تعلیم کے علاوہ بہت سی کتب اپنے والدماجد سے پڑھیں اور اس کے ساتھ ساتھ اپنے وقت کے مشہور اور قابل ترین علماء سے علوم متداولہ میں استفادہ کرنے کے علاوہ مکمل فوجی تربیت، طب پر عبوراور گھڑ سوار ی سمیت سپاہ گری میں بھی مہارت حاصل کی۔

حضرت شاہ فخر الدین علیہ الرحمہ نے فصوص الحکم، صدرا اور شمس بازغہ جیسی نابغہ روزگار کتابیں میاں محمد جان علیہ الرحمہ سے پڑھیں اور ہدایہ مولانا عبدالحکیم علیہ الرحمہ سے پڑھی اور حدیث کی سند انہوں نے دکن کے مشہور محدث مولانا حافظ اسعد الانصاری المکی علیہ الرحمہ سے حاصل کی۔

آپ  علیہ الرحمہ  کا روحانی مقام و مرتبہ:

حضرت خواجہ فخر الدین فخر جہاں رحمۃ اللہ علیہ کے والد بچپن ہی سے آپ علیہ الرحمہ سے شفقت فرماتےتھے اور آپ کی اصلاح باطن پر خصوصی توجہ فرماتے تھے اور آپ علیہ الرحمہ نے اپنے والد گرامی حضرت شاہ نظام الدین اورنگ آبادی چشتی نظامی رحمۃ اللہ علیہ کے دست مبارک پر ہی بیعت کی اورسولہ سال کی عمر میں آپ علیہ الرحمہ کو خلافت عطا ہوئی۔

آپ شریعت و طریقت دونوں میں عالی مرتبت تھے۔ آپ کے بہن بھائی آپ کو بچپن سے ہی ملا کہہ کر پکارتے، اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ آپ علیہ الرحمہ ان کے ساتھ کھیل کود کی بجائے، ذات باری تعالیٰ سے اپنے آپ کو مربوط رکھتے۔ جب آپ علیہ الرحمہ  کی عمر مبارک 16برس ہوئی تو ایک دن آپ کے والد گرامی حضرت شاہ نظام الدین نے آپ کو اپنے پاس بلایا اور دیر تک سینے سے لگائے رکھا اور یوں تمام باطنی اور معنوی وراثت جو انہوں نے حضرت شاہ کلیم اللہ دہلوی علیہ الرحمہ  سے حاصل کی تھی، آگے منتقل کردی اور بعد ازیں وہ وصال فرماگئے۔

آپ  علیہ الرحمہ  کا ذریعہ معاش:

حضرت خواجہ فخرالدین فخر جہاں دہلوی علیہ الرحمہ  نے تعلیم سے فراغت کے بعد سجادگی کی بجائے فوج میں ملازمت اختیار کرلی۔آپ علیہ الرحمہ  کا پورا دن تیغ و تلوار اور سنان کی جھنکار میں گزرتا تھا اور رات کو آپ اللہ تعالیٰ کی بندگی میں رکوع و سجود میں مشغول رہتے تھے۔ آپ کی ظاہری وضع قطع ایسی تھی کہ کوئی پہچان نہیں سکتا تھا کہ یہ شخص کس قدر اعلیٰ و ارفع روحانی مراتب و مقام طے کرچکا ہے۔ آپ علیہ الرحمہ  کا وصف تھا کہ اپنے آپ کو مکمل اخفاء میں رکھتے تھے۔

اہل لشکر (فوج) میں جب آپ کی نیک نامی، شان و شوکت اور بزرگی کو ظہور ہونا شروع ہوا تو آپ نے ملازمت کو خیر آباد کہہ دیا اور اورنگ آباد میں اپنے والد ماجد کے سجادہ نشین کا عہدہ سنبھال لیا۔ اورنگ آبادمیں بھی خواجہ فخر الدین فخر جہاں دہلوی علیہ الرحمہ  نے اپنے احوال مخفی اور پوشیدہ رکھنے کی بھرپور کوشش کی لیکن روز بروز آپ کی نیک نامی اور شہرت کے چرچے زبان زدعام ہونے لگے۔ ان حالات کو دیکھ کر کئی بار آپ علیہ الرحمہ  نے وہاں سے ہجرت کرنے کا ارادہ فرمایا مگر ہر بار یہ خیال آڑھے آجاتا کہ یہاں سے کیسے ہجرت کرو، یہاں تو میرے پیرومرشد اور والد گرامی حضرت شاہ نظام الدین اورنگ آبادیؒ کی قبر مبارک ہے۔ اسی کشمکش میں ایک دن آپ کو خواب میں اپنے والد محترم کی زیارت ہوئی، اس کے بعد آپ علیہ الرحمہ نے وہاں سے کوچ کرکے دہلی کو اپنا مرکز بنایا۔

آپ  علیہ الرحمہ  کی خواجہ قطب الدین بختیار کاکی علیہ الرحمہ  کے مزار پر حاضری:

اورنگ آباد سے اپنے دو خادمین کے ساتھ خواجہ فخرالدین علیہ الرحمہ  دہلی کے لیے روانہ ہوئے اور مختلف جگہوں سے ہوتے ہوئے حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی رحمتہ اللہ علیہ کے مزار پر پہنچےاور مسجد میں اعتکاف کیا ۔ پھر سلسلہ چشتیہ کے دیگر مشائخ کے ہاں حاضری دی اور بالآخر اپنے داداجان حضرت شاہ کلیم اللہ دہلوی علیہ الرحمہ  کے مزار پر دہلی پہنچے اور تین دن وہاں بھی قیام فرمایا۔

آپ  علیہ الرحمہ  کا دہلی میں قیام اور تبلیغ دین:

خواجہ فخر الدین فخر جہاں دہلوی علیہ الرحمہ  نے دہلی میں قیام کے دوران ایک دینی درسگاہ کی بنیاد رکھی اور سلسلہ درس و تدریس کا آغاز کیا اور اسی جگہ پر حضرت خواجہ نور محمد مہاروی علیہ الرحمہ  ، آپ علیہ الرحمہ  کے حلقہ مریدین میں شامل ہوئے۔ آپ علیہ الرحمہ نے اپنےادارہ میں صرف درسی کتابیں پڑھانے پر اکتفانہ کیا، بلکہ حقائق و معارف کے وہ دریا بہائے کہ حضرت خواجہ محبوب الہٰی خواجہ نظام الدین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ کے دور کی طرح علم و عرفان کاچراغ پھرسے روشن کردیا۔
حضرت خواجہ فخرالدین فخرِ جہاں علیہ الرحمہ  کا اندازِ تبلیغ وہی تھا جو آپ علیہ الرحمہ  کے والد اور مرشد حضرت شاہ کلیم اللہ علیہ الرحمہ  کا تھا۔ آپ علیہ الرحمہ  فرماتے کہ غیر مسلموں کو بھی ذکر کرنے کی دعوت اور تلقین کرو، اس انتظار میں نہ رہو کہ پہلے وہ مسلمان ہوجائیں اور پھر ذکر کریں بلکہ جب وہ ذکر کریں گے تو کلمہ حق خودبخود انہیں اپنی طرف کھینچ لے گا۔

آپ  علیہ الرحمہ  کی حضرت فریدالدین گنج شکر علیہ الرحمہ  کے مزار پر حاضری:

دہلی میں کچھ عرصہ قیام کے بعد حضرت خواجہ فخر الدین فخر جہاں رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے دہلی سے پاک پتن شریف میں حضرت باوا صاحب خواجہ فریدالدین گنج شکر علیہ الرحمہ  کے مزار اقدس پر حاضری کا ارادہ فرمایااور اپنے مرید خاص حضرت خواجہ نور محمد مہاروی علیہ الرحمہ  کو اپنے ساتھ لیا اور پاک پتن شریف کی طرف روانہ ہوئے۔ آپ علیہ الرحمہ  کا یہ سفر، عقیدت و محبت کی اپنی مثال آپ ہے کہ آپ علیہ الرحمہ نے میلوں پیدل سفر کیا، یہاں تک کہ آپ علیہ الرحمہ کے پاؤں میں ورم آگئے اور آبلے پڑگئے اور جب چلنے سے مجبور ہوجاتے تو پاؤں میں مہندی لگا لیتے تاکہ کچھ راحت مل سکے اور پھر محوسفر ہوجاتے۔
پاکپتن سے کچھ دور ایک مقام پرشاہ فخر الدین دہلوی علیہ الرحمہ  نے رات کوقیام کیا۔ جب صبح ہوئی تو خواجہ نور محمد مہاروی علیہ الرحمہ  نے آپ علیہ الرحمہ کو نہ پایا، جب آپ علیہ الرحمہ کی تلاش شروع کی تو آپ علیہ الرحمہ کے پاپوش (جوتے)مل گئے۔ کافی تگ و دو اور جستجو کے بعد پتہ چلا کہ آپ علیہ الرحمہ حضرت باوا صاحب خواجہ فرید الدین گنج شکر علیہ الرحمہ  کے مزار شریف پر پہنچ چکے ہیں اور باوا صاحب علیہ الرحمہ  کے احترام کی وجہ سے ہی اپنے پاپوش اسی جگہ پر چھوڑ آئے تھے۔

پاکپتن میں قیام کے دوران آپ علیہ الرحمہ حضرت باوا صاحب علیہ الرحمہ  کے مزار کے قریب ایک حجرہ میں ٹھہرے اور مسلسل عبادت و ریاضت میں مشغول رہتے۔ آپ علیہ الرحمہ کا معمول یہ تھا کہ آپ علیہ الرحمہ روزانہ شب کو 1000 نوافل اداکرتے۔حضرت خواجہ فریدالدین گنج شکر علیہ الرحمہ  کے مزار پرحاضری سے واپسی پرآپ علیہ الرحمہ کو خبر ملی کہ نواب نظام الدولہ ناصرجنگ کو شہید کردیا گیا ہے۔آپ علیہ الرحمہ اس خبر غم سےکافی رنج ہوا کیونکہ آپ کا نواب نظام الدولہ ناصر جنگ سے گہرا روحانی تعلق تھا۔

آپ  علیہ الرحمہ  کی پاکپتن سے دہلی واپسی

دہلی واپس پہنچنے پر خواجہ فخر الدین فخر جہاں دہلوی علیہ الرحمہ  نے اجمیری دروازے کو اپنا مسکن بنایا اور درس و تدریس کا سلسلہ پھر شروع کردیا۔ آپ علیہ الرحمہ حدیث، تفسیر اور مسائل تصوف پر درس دیا کرتے تھے۔ آپ علیہ الرحمہ کی خانقاہ میں جوبھی آتا، وہ متاثر ہوئے بغیر نہ رہتا۔ آپ علیہ الرحمہ کا معمول تھا کہ کوئی نہ کوئی کتاب ہر وقت زیر مطالعہ رکھتے، خاص طور پر عوارف المعارف اور فوائد الفواد سے آپ علیہ الرحمہ کی بہت رغبت تھی۔

آپ  علیہ الرحمہ  کی تصانیف

حضرت شاہ فخرالدین دہلوی علیہ الرحمہ  نے تین کتب خود بھی تصنیف فرمائیں۔

·      نظام العقائد

·      رسالہ مرجیہ

·      فخرالحسن

·      سیرت محمد یہ ﷺ

 آپ علیہ الرحمہ نے اپنی کتاب فخرالحسن، حضرت شاہ ولی اللہ علیہ الرحمہ  کے ایک بیان کی تردید میں لکھی جو انہوں نے سلسلہ چشتیہ کے بارے میں دیا تھا کہ حضرت خواجہ حسن بصری علیہ الرحمہ  کی سیدنا علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم سے ملاقات ہی ثابت نہیں۔
خواجہ فخر الدین فخر جہاں دہلوی علیہ الرحمہ  کی تصنیف فخرالحسن کو بہت شہرت ملی اور جب یہ کتاب مولانا عبدالعلی بحر العلوم علیہ الرحمہ  نے دیکھی تو فرمایا: احسن اعتقاد کے ساتھ ہم جانتے ہیں کہ جو کچھ بزرگوں نے لکھا ہے وہ حق ہے لیکن یہ جو تحقیق اور گہرائی خواجہ فخرالدین دہلوی علیہ الرحمہ  نے کی ہے، ہم کو پہلے معلوم نہ تھی۔

آپ  علیہ الرحمہ  کا سفر حجاز مقدس میں ایک عورت کی داد رسی کرنا:

ایک مرتبہ خواجہ فخرالدین دہلوی نے حج کا ارادہ کیا اور جب جہاز میں سوار ہونے لگے تو ایک بڑھیا نے عرض کیا: اے حضرت! میری بیٹی کی شادی ہے اور میرا یہ حال ہے کہ فاقے کرتی ہوں ، میں اپنی بیٹی کی شادی کرنے سے قاصر ہوں، میری کچھ مدد کیجیے۔ آپ علیہ الرحمہ نے یہ بات سنتے ہی جہاز سے اپنا سامان اتار لیا اورجو کچھ زاد راہ تھا سب اس بڑھیا کو دے کر حج کا اراداہ ملتوی کرکے واپس آگئے۔

آپ  علیہ الرحمہ  کی اعلیٰ ظرفی:

ایک بار ایک شخص خواجہ فخر الدین فخر جہاں دہلوی علیہ الرحمہ  کی خانقاہ میں آیا اور آپ علیہ الرحمہ پر حملہ آور ہونے لگا کہ آپ علیہ الرحمہ کے خادم نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔ آپ علیہ الرحمہ نے اپنے خادم سے فرمایا: اس کا ہاتھ چھوڑ دو۔ آپ علیہ الرحمہ نے اپنا سر زمین پر رکھا اور فرمایا: ہم حاضر ہیں، جو کچھ تمہارے جی میں ہے کرلو، اس پر وہ شخص بہت شرمندہ ہوا اور باہر نکل گیا۔
تھوڑی دیر بعد وہ شخص اپنے ساتھ دو اور آدمیوں کو لے کر پھر آپ علیہ الرحمہ کی خانقاہ میں حاضر ہوا۔ آپ علیہ الرحمہ نے اس سے پوچھا: صاحب! بخیر و عافیت ہو؟۔ آپ علیہ الرحمہ کی اعلیٰ ظرفی دیکھ کر وہ شخص اس قدر متاثر ہوا کہ فوراً آپ علیہ الرحمہ کے قدموں میں گر گیا اور رو ،رو کر معافی مانگنے لگا اور آپ کا عقیدت مند بن گیا۔

خواجہ فخر الدین فخر جہاں علیہ الرحمہ  کا جذبہ خدمت خلق

آپ علیہ الرحمہ  کا معمول مبارک تھا کہ اگر کسی مفلوق الحال شخص کے ہاں کوئی خوشی یا غمی ہوتی تو خود بھی جاتے اور اپنے مریدین اور معتقدین کو باقاعدہ ہدایت کرتے کہ وہاں جائیں اور بعض اوقات تو بیمار کے لیے طبیب بھی اپنی طرف سے ہی مقررفرماتے۔
ایک مرتبہ آپ علیہ الرحمہ  کا ایک ملازم پیر محمد دو روز نہ آیا، تو آپ بہت فکر مند ہوئے۔ جب معلوم ہوا کہ وہ بیمار ہے تو فوراً اس کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے۔ بہت محبت سے اس کا حال دریافت کیا اور حکیم میر حسن کو اس کے علاج کے لیے مقرر کیااور کچھ نقد رقم دینے کے بعد فرمایا؛


میاں پیر محمد! تم دوروز نہیں آئے اور فقیر کو اس زمانے میں پرسش احوال میں تاخیر ہوئی، اس کو معاف فرمادو۔

آپ علیہ الرحمہ  کا انداز گفتگو:

آپ علیہ الرحمہ  کا معمول تھا کہ آپ علیہ الرحمہ طالب علم کے ساتھ علم کے بارے میں، سپاہی سے فنون سپاہ گری پر، حکماء سے طب پر اور عام آدمی سے اس کی دلچسپی اوررحجان کے مطابق گفتگو فرماتے۔ آپ علیہ الرحمہ  نے اپنی ایک مجلس میں ارشاد فرمایا:میرے پاس مختلف الخیال لوگ آتے ہیں۔ بعض مجھے عالم جان کرآتے ہیں، بعض صوفی، بعض کیمیا گر اور بعض اوراد و وظائف کے لیے اور کچھ میرے اخلاق سے متاثر ہوکر۔ پس میں بھی ہر ایک کے اعتقاد اور طبیعت کے موافق ان سے گفتگو کرتا ہوں۔

آپ علیہ الرحمہ  کی حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلوی علیہ الرحمہ سے رفاقت

آپ علیہ الرحمہ  کا حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلوی  علیہ الرحمہ سے بہت گہرا تعلق تھا۔جب دہلی کے حالات خراب ہو ئے تو شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی علیہ الرحمہ  کو آپ علیہ الرحمہ  نے ہی اپنی حویلی میں رکھا اور ان کی خوب خدمت کی۔

آپ علیہ الرحمہ  کا سنت رسول ﷺ کی پیروی کرنا

آپ علیہ الرحمہ  کی ذات اقدس سنت نبویﷺ کا کامل اور عملی نمونہ تھی۔ آپ خود بھی سنت نبویﷺ پر سختی سے عمل پیراں ہوتے اور مریدوں کو بھی اتباع سنت کی تاکید فرماتے تھے۔

آپ علیہ الرحمہ  کا عفو و درگزر:

آپ علیہ الرحمہ  کے عفو ودرگزر اور پردہ پوشی کا یہ عالم تھا کہ اکثر ایسا بھی ہوا کہ کچھ لوگ آپ علیہ الرحمہ کے کتب خانے سے کتابیں چراکر لےگئے اور پھر کسی اجنبی شخص کے ہاتھ وہی کتابیں آپ علیہ الرحمہ کو ہی فروخت کے لیے بھیج دیں۔ لیکن آپ علیہ الرحمہ نے کبھی ان سے یہ نہیں پوچھا کہ یہ کتاب انہیں کہاں سے اور کیسے ملی؟

 بلکہ پھر سے خرید لیتے اور اپنے مریدین کو بھی حکم دیتے کہ عفو و درگزر سے کام لیا کریں۔

آپ علیہ الرحمہ   کی عجز و انکساری:

عجز اور تقویٰ کا یہ عالم تھا کہ ایک مرتبہ ایک بادشاہ آپ علیہ الرحمہ  کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے آپکو اپنے شاہی محل میں تشریف لانے کی دعوت دی۔ بادشاہ کی دعوت پر آپ چلے گئے اور وہاں مجبوراً آپ علیہ الرحمہ کو کھانا بھی کھانا پڑا۔ اس بات کا تدارک آپ علیہ الرحمہ نے یوں کیا کہ واپسی پر آپ علیہ الرحمہ فوراً غرباء و مساکین کے ہاں گئے اور ان کے ساتھ بیٹھ کر بھی کھانا کھایا۔

آپ علیہ الرحمہ  کے خلفاء و مریدین:

آپ علیہ الرحمہ  کے مریدین خاص میں سب سے پہلا نام خواجہ نور محمد مہاروی رحمۃ اللہ علیہ کا آتا ہے۔سر سید احمد خانؒ لکھتے ہیں کہ جتنے بھی امراء، اہل اقتدار اور سلطان عہد تھے، سب آپ علیہ الرحمہ  کی بیعت سے مشرف تھے اور آپ علیہ الرحمہ کی خاک در کو وسیلہ آبرو اور آپ علیہ الرحمہ کے غبارآستاں کو تاج و عزیمت سمجھتے تھے۔

دہلی کے نامور اور بڑے بڑے شاعر و ادیب حضرات آپ علیہ الرحمہ کے مرید تھے۔ خواجہ احسن اللہ دہلوی،  مرزا مظہر جانِ جاناں علیہ الرحمہ کے شاگرد ہونے کے باوجود آپ علیہ الرحمہ  کے مرید تھے۔ اس کے علاوہ نواب مصطفیٰ خان شیفتہ اور عنایت اللہ جام، مرزا سودا کے شاگرد ہونے کے باوجود آپ علیہ الرحمہ کے مرید تھے۔

فخر الطالبین میں درج ہے کہ آپ علیہ الرحمہ  اپنے مریدوں کو ہدایت فرماتے تھے کہ ہرروز سونے سےقبل دن بھر کے حالات کا محاسبہ کریں اوردیکھیں کہ بندہ ہونے کی حیثیت سے اپنے خالق کا حق ادا کیا کہ نہیں۔ آپ علیہ الرحمہ  اپنے مریدوں کو اس بات کی بھی سختی سے ہدایت فرماتے تھے کہ وقت کا کوئی لمحہ کسی فضول کام میں ضائع نہ ہو اور ہر دم یاد الٰہی میں گزارو۔

آپ علیہ الرحمہ  کی حق گوئی و بے باکی:

آپ علیہ الرحمہ  کے زمانے میں سکھوں کے مظالم حد سے بڑھ گئے تھے جس سے دہلی کاہر خاندان ان سے ہراساں اور پریشان تھا۔ بڑے بڑے خاندانوں کی عزت خطرے میں تھی، شاہ صاحب قتل و غارت کے یہ منظر دیکھتے تو سخت بے چین اور مضطرب ہوتے۔ مسلمانوں کے خون کی یہ ارزانی دیکھ کر ان کا دل تڑپنے لگتا۔ ان کو بادشاہ پر سخت غصہ آتا کہ وہ اس فتنہ کے انسداد سے کیوں غافل ہے۔
انہی ایام میں ایک روز بادشاہ (اکبر شاہ ثانی) ان کی خدمت میں حاضر ہوا اور درخواست کی کہ اپنے مبارک قدموں سے قلعہ کو نوازیں۔ آپ علیہ الرحمہ  نے اخلاق کریمانہ سے یہ دعوت منظور فرمالی اور جب شاہی قلعہ میں کھانا کھاچکے تو آپ علیہ الرحمہ  نے بادشاہ سے مخاطب ہوکر کہا؛

کو ئی بادشاہ جب تک امورمملکت میں خود محنت اور مشقت سے کام نہ لے، اس کا بندوبست بہتر نہیں ہوسکتا۔ آپ نے ملک امیروں کے سپرد کر رکھاہے اور خود اس کے انتظام سے غافل ہیں۔ یہ بات ملک کے لیے بہتر نہیں ہے مناسب یہی ہے کہ آپ خود انتظام سلطنت کے سلسلے میں محنت کے لیے مستعد ہوجائیں۔ سکھوں کانا ہنجار فرقہ جو اسلام کا مخالف ہے ، ملک کےاہم حصوں پر قابض ہے۔ آپ کے امراء آپس میں لڑ رہے ہیں آپ کو چاہیے کہ ان میں محبت اور میل جول پیدا کریں اور ان سب کو تسلی دےکر اپنے ساتھ رکھیں کہ رعایہ کی فلاح و بہبود پر کام کریں کہ دینی اور دنیوی فلاح اسی میں ہے۔

آپ علیہ الرحمہ  کے معمولات:

آپ علیہ الرحمہ  اپنے معمولات پر سختی سے پابندتھے۔ آپ کا معمول مبارک تھا کہ فجر کی نماز کےبعد اپنے حجر سے میں تشریف لے جاتے اور دن نکلنے تک وہیں رہتے اور اس وقت کسی کو اندر آنے کی اجازت نہ ہوتی تھی۔ اس کےبعدآپ حجرے سے باہر مجلس میں آکر بیٹھتے، جہاں تمام یاران ومخلصان حاضر خدمت ہوتے ۔ اس وقت حدیث شریف کا درس شروع ہوتا اور قاعدے کے مطابق کوئی مرید حدیث شریف کی عبارت پڑھتا اور آپ اس پر درس فرماتے۔پھر کھانے کاوقت ہوجاتا اور قیلولہ کے وقت امیر کلویا نتھو موجود ہوتے اور آپ علیہ الرحمہ  سینہ پر کوئی کتاب رکھ کر مطالعہ میں مصروف ہوجاتے، یہ کتاب عام طور پر فوائد الفوائد ہوتی۔
اس کے بعد آپ علیہ الرحمہ  نماز ظہر باجماعت ادا فرماتے۔ تمام یاران مدرسہ نماز باجماعت میں شریک ہوتے اور نماز کے بعد آپ ہر ایک سے خندہ روئی اور بشاشت سے گفتگو فرماتے۔ جمعہ اور سہ شنبہ کو مولوی عظمت اللہ صاحب سے مثنوی مولانا روم سنتے۔ رمضان شریف کے مہینے میں آپ کے زیرسایہ لوگوں کا ذوق عبادت بہت بڑھ جاتا۔ آپ کا معمول تھا کہ ۲۷ رمضان کو سرائے عرب چلے جاتے اور قطب صاحب یا نظام الدین صاحب میں معتکف ہوجاتے۔

آپ علیہ الرحمہ  کی حضرت خواجہ نور محمد مہاروی  علیہ الرحمہ پر خاص عنایات:

ایک مرتبہ آپ علیہ الرحمہ  کی محفل لگی تھی، آپ علیہ الرحمہ  نے اپنے پیارے مرید اور خلیفہ قبلہ عالم حضرت خواجہ نور محمد مہاروی علیہ الرحمہ  کی طرف اشارہ کر کے فرمایا : ہمارے پنجابی کے پاس جو بھی صدق دل سے حاضر ہوگا یہ اس کو اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے ملوا دے گا ۔


آپ علیہ الرحمہ  فرمایا کرتے تھے کہ پنجابی (خواجہ نور محمد مہاروی علیہ الرحمہ ) پورا پنجاب ہی لے جائے گا اور تاریخ گواہ ہےکہ قبلہ عالم خواجہ نور محمد مہاروی علیہ الرحمہ  کی وجہ سے سلسلہ چشتیہ نظامیہ پنجاب میں پھیلا۔

آپ علیہ الرحمہ  بطور مجددچشتیہ نظامیہ:

آپ علیہ الرحمہ  کو سلسلہ چشتیہ نظامیہ کا مجدد کہا جاتا ہے، کیونکہ آپ علیہ الرحمہ نے اور آپ کے مریدین بالخصوص خواجہ نور محمد مہارویؒ پنجاب میں، شاہ نیاز احمدؒ نے یوپی میں، حاجی لعل احمدؒ نے دہلی کے اطراف، مولانا جمال الدین علیہ الرحمہ نے رام پور میں، میر ضیاء الدین علیہ الرحمہ نے جے پور میں اور میر شمس الدین علیہ الرحمہ نے اجمیر شریف میں بہت محنت اور جدوجہد کی اور سلسلہ چشتیہ نظامیہ کو ملک کے دور دراز حصوں تک پھیلایا اور خانقاہیں قائم کیں۔

مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کی آپ علیہ الرحمہ  سےعقیدت

مغلیہ دور کے آخری بادشاہ بہادر شاہ ظفر کو بھی آپ علیہ الرحمہ  سے بہت عقیدت تھی۔ مغل فرماں رواں بہادر شاہ ظفر نے اپنے دیوان میں جگہ جگہ حضرت شاہ فخرالدین دہلویؒ سےاظہار عقیدت کیا ہے؛

اے فخرجہاں، فخر زماں، فخر دوعالم

ہے لطف ترا حق میں، دل ریش کے مرہم

ایک اور جگہ پر بہادر شاہ ظفر کہتے ہیں

کیونکر نہ تو سر بفلک کھینچے کہ فخر الدین نے

دی ہے دستار تیرے سر پہ ظفر کھینچ کے باندھ

بہادر شاہ ظفر کی ولادت 1189 ہجری  میں ہے جبکہ آپ علیہ الرحمہ  کا وصال 1199 میں ہوا۔ اس سے معلوم ہوا کہ بہادر شاہ ظفر نے حضرت خواجہ صاحب کو بچپن میں ہی دیکھا اور مرید ہو گیا۔


آپ علیہ الرحمہ  کے ایک صاحبزادے کا نام قطب الدین تھا۔ بہادر شاہ ظفر کے بعض اشعار سے لگتا ہے کہ وہ آپ علیہ الرحمہ  کے وصال کےبعد ان کا عقیدت مند ہو گیا تھا۔ ایک جگہ پر بہادر شاہ ظفر یوں بیان کرتے ہیں ؛

مرید قطب دین ہوں، خاکپائے فخر الدین ہوں

اگرچہ شاہ ہوں ، ان کا غلام کم تریں ہوں

انہی کے فیض سے ہے نام روشن میرا عالم میں

وگرنہ یوں تو بالکل روسیہ مثل نگیں ہوں میں

نہ کعبہ سے غرض مجھ کو ، نہ میخانے سے کچھ مطلب

ہمیشہ گھستا ان کے آستانے پر جبیں ہو میں ۔

آپ علیہ الرحمہ  کا وصال مبارک:

آپ علیہ الرحمہ  کا وصال مبارک تقریباً 73 برس کی عمر میں27 جمادی الثانی 1199ھ کوہوا۔ آپ کا مزار دہلی (انڈیا)میں مرجع خاص وعام ہے۔

وصال سے ایک دن پہلے آپ علیہ الرحمہ  کی زبان پر یہ شعر جاری تھا ؛

وقت آن آمد کہ من عریاں شوم

چشم بگذارم سراسر جاں شوم

آپ علیہ الرحمہ  کے اقوال

·      وقت کی قدر کرو اور اس کا کوئی لمحہ بھی کسی فضول کام میں ضائع مت کرو۔

·      اپنے انداز بیان کو اس قدر مستند بنا لو کہ اگر کوئی بندہ تجھ سے اللہ کا نام بھی سیکھ لے تو اس کا یہ عمل تیرے نامہ اعمال میں اضافہ کر دے گا۔

·      حرام مال کی مالداری سے غربت بہتر ہے۔

·      اللہ تعالیٰ کے ذکر کو ہمیشہ خشوع و خضوع سے کرو نہ کے تنگ دلی سے ۔

·      انسان کی زندگی میں اس کے ہم نشینوں کی صحبت کا بہت گہرا اثر ہوتا ہے لہٰذا تنگ نظر لوگوں کی محفل میں مت بیٹھا کرو ۔

·      طالب حق کو چاہیئے کہ رات کو سونے سے قبل اپنے پورے دن کا محاسبہ کرے اور یہ دیکھے کہ اس نے بندہ ہونے کا حق ادا کیا ہے کہ نہیں ؟

·      فرماں بردار بن کر زندگی گزارو گے تو فلاح پاؤ گے اور اگر مخدوم بن کرناز و نخرے والی زندگی گزارنا چاہو گے تو پریشانیوں کو دعوت دو گے۔

·      اے نادان ! دنیا سے دل مت لگا یہ عارضی ٹھکانہ ہے۔

(مآخذ:تذکرہ حضرت فخر جہاں دہلوی/مناقب فخریہ/تاریخ اولیائے چشت/تذکرہ مشائخ چشت)

 

 


قدوۃ الدین حضرت خواجہ ابو احمد ابدال ابن سلطان فرسنافہ چشتی علیہ الرحمہ

 

 والد گرامی: سلطان فرسنانہ یا فرغانہ
 
ولادت باسعادت:  6 رمضان المبارک 260ہجری
بمقام ولادت : چشت شریف صوبہ ہرات،افغانستان
 وصال مبارک:  یکم ماہ جمادی الثانی ۳۵۵ہجری
 ظاہری حیات مبارکہ:  95 سال
 
مزار مبارک چشت شریف صوبہ ہرات،افغانستان
           آپ علیہ الرحمہ پانچ واسطوں سے آپ نائب رسول فی الہند، سلطان الہند، عطائے رسول، غریب نواز، ہندالولی، خواجہ خواجگان، خواجہ اجمیر، سلطان سنجرحضرت معین الدین حسن چشتی اجمیری علیہ الرحمہ  کے شیخ طریقت ہیں۔

 حضرت خواجہ ابواسحاق شامی علیہ الرحمہ کی آپ  علیہ الرحمہ کی ولادت باسعادت کی پیش گوئی:

           آپ علیہ الرحمہ کے والد محترم سلطان فرسنافہ کی ایک نہایت ہی صالحہ ہمشیرہ (بہن) تھیں، جو ولیہ اور عفیفہ خاتون تھیں، حضرت خواجہ ابواسحاق شامی علیہ الرحمہ سے بے پناہ عقیدت رکھتی تھیں۔ بسا اوقات حضرت خواجہ ابواسحاق شامی علیہ الرحمہ ان کے گھرتشریف لے جاتے تھے۔ایک دن حضرت خواجہ ابواسحاق شامی علیہ الرحمہ نے انہیں آپکی (پھوپھی محترمہ) سے فرمایا کہ تمہارے بھائی کو اللہ تعالیٰ عنقریب ایک فرزند عظیم الشان جو صاحب ولایت ہوگا عطا فرماۓ گا اور اس کی تم پرورش کرنا، کوئی چیزمشکوک و مشتبہ انکے شکم میں نہ جانے دینا۔ آپکی پھوپھی محترمہ کو جب یہ معلوم ہوا کہ ان کی بھابھی امید سے ہیں تو ان کی نگہداشت میں کسی قسم کی کوئی کمی نہ چھوڑی ۔یہاں تک کے خود چرخہ کات کر اپنی حلال کمائی سے ضروریات پوری فرماتیں۔
ولادت باسعادت:  6رمضان المبارک 260ہجری میں چشت شریف میں پیدا ہوئے یہ دور خلیفہ معتصم باللہ کا تھا۔

پیدائشی ولی:

جیسا کہ حضرت خواجہ ابواسحاق شامی علیہ الرحمہ نےآپ کی ولادت باسعادت کی پیش گوئی فرمائی تھی ۔ آپ شکم مادر محترم سے ہی صاحب کرامت تھے ۔آپ کا منور چہرہ دور سے روشن نظر آتا، جس شخص کی نگاہ آپ کے چہرہ پر پڑتی دل و جاں سے محبت کرنے لگتا تھا، آپ کی جبیں نور افشاں سے نور الٰہی کی کرنیں پھوٹتی تھیں۔ رات کو گھر میں روشنی کے بغیر تشریف لاتے تو سارا گھر روشن ہوجاتا تھا آپ اندھیرے میں بیٹھتے تو قرآن پاک کے حروف اعراب سمیت نمایاں نظر آتے ۔

 اسم گرامی:

آپ  علیہ الرحمہ کا اسم گرامی "خواجہ ابو احمد ابدال چشتی علیہ الرحمہ" ہے۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ کا لقب "قدوۃ الدین" تھا۔ آپکے والد محترم کا نام سلطان فرسنانہ یا فرغانہ تھا  ۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ فرمانروائے فرغانہ کے بیٹے تھے آپ رحمۃ اللہ علیہ کا نسب چند واسطوں سے حضرت امام حسن مجتبیٰ رضی اللہ  عنہ سے ملتا ہے۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ حسنی حسینی سادات عظام میں سے تھے ۔

 سلسلہ نسب:

آپ کا نسب نامہ یوں ہے:ابو احمد رحمۃ اللہ علیہ ابدال بن سلطان فرغانہ سید ابراہیم رحمۃ اللہ علیہ بن سید یحییٰ بن سید حسن بن سید مجدالمعالی المعروف بہ ابوالمعالی بن سید ناصر الدین بن سید عبدالسلام بن سید حسن مثنیٰ بن سید اما م حسن مجتبیٰ بن علی ابن ابی طالب۔
تعلیم و تربیت:

اپنی پھوپھی محترمہ کے زیرتربیت رہے ۔ جب آپ کی عمر سات سال ہوئی تو حضرت خواجہ ابواسحاق شامی علیہ الرحمہ کی مجلس میں حاضر ہوئے۔ ظاہری باطنی تعلیم لی اور حضرت خواجہ ابواسحاق شامی علیہ الرحمہ سے مستفیض ہوتے رہے ۔

شرف بیعت:

آپ علیہ الرحمہ  سولہ سال کی عمر میں ظاہری علوم سے فارغ ہوئے ۔ تو حضرت خواجہ ابواسحاق شامی علیہ الرحمہ نے بیعت فرمالیا۔

ریاضت و مجاہدات:

حضرت خواجہ ابواسحاق شامی علیہ الرحمہ نے خلوت کدہ میں ریاضت میں لگا دیا، بڑے مجاہدے کیے چنانچہ سات روز بعد کھانا کھاتے، وضو کرتے اور تین لقموں سے زیادہ نہ کھاتے۔ چالیس دنوں بعد حاجت انسانی کے لیے باہر جاتے۔ریاضت اور مجاہدہ میں بے مثال خوارق و کرامات میں لاثانی تھے ۔ایک دن خواجہ ابو احمد چشتی اپنے والد گرامی کے ہمراہ پہاڑوں پر شکار کھیلنے چلے گئے اتفاقاً والد اور ان کے ساتھیوں سے جدا ہوگئے اور پہاڑوں میں راستہ بھول گئے۔ رجال الغیب سے چالیس افراد ایک چٹان پر کھڑے تھے اور خواجہ ابو اسحاق شامی بھی انہی کے درمیان کھڑے تھے۔ حضرت خواجہ کو پہچان کر گھوڑے سے اُتر آئے۔ قدم بوسی کی اسلحہ اور گھوڑا تن سے علیحدہ کیے اور خواجہ کی رکاب پکڑ کر پیدل چلنے لگے، آپ کے والد محترم نے اور ان کے لشکر نے پہاڑوں میں آپ کو بڑا تلاش کیا، مگر نوجوان ابواحمد کا کہیں پتہ نہ چلا، چند دنوں بعد خبر ملی کہ ابو احمد فلاں موضع میں حضرت خواجہ ابو اسحاق شامی قدس سرہ کی خدمت میں موجود ہے۔ بادشاہ نے چند آدمیوں کو بھیجا کہ انہیں لے آئیں، مگر ان کی ساری پند و نصیحت کے باوجود ابو احمد نے حضرت شامی کی مجلس سے جانا پسند نہ کیا آٹھ سال تک محنت شاقہ سے گزرے خرقہ خلافت حاصل کیا، تیس سال تک کبھی بستر پر آرام نہیں کیا۔

ذوق سماع:

حالت سماع میں جس کسی پر بھی آپکی نظر رحمت پڑ جاتی وہ صاحب کرامت بن جاتا تھا ۔ اور اگر کافر آجاتا تو مسلمان ہوجاتا تھا ۔ ایسی حالت میں آپکی پیشانی مبارک سے ایک نور روشن و تاباں ظاہر ہوتا جسکی روشنی و چمک آسمان تک پہنچ کر تمام افق میں پھیل جاتی تھی۔ یہ علامت دیکھ کر لوگ جوق در جوق والہانہ آپکی محفل میں حاضر ہو کر فیضان رحمت و انوار الہی سے مستفید ہوتے ۔
 
آپ کی مجالس سماع پر اعتراضات:

 حضرت ابو احمد علیہ الرحمہ کی کرامات کی شہرت مشرق و مغرب میں پھیلی، تو علما ۓعصر کو آپ سے حسد ہونے لگا، آپ علیہ الرحمہ کے سماع کی مجالس کے خلاف فتوی بازی ہونے لگی، ایک محضرنامہ تیار کیا گیا، اور امیر نصیر جو حاکم عادل بھی تھے ۔ انکی خدمت میں پیش کیا گیا ۔ حضرت خواجہ کی مجلس سماع کی برائیاں بیان کی گئیں ۔ امیر نے ملک بھر کے جید ترین علماء کی ایک مجلس بلائی جس میں کئی ہزار علماء جمع ہوئے ۔ حضرت ابو احمد علیہ الرحمہ کو بھی اس مجلس میں پیش کیا گیا ۔ حضرت ابو احمد علیہ الرحمہ یہ خبر سن کر خرقہ خلافت پہنے گھوڑے پر سوار ہوکر امیر کے دربار میں پہنچے آپ کے ساتھ ایک خادم محمد خدا بندہ نامی تھے۔ جنھیں سورۃ فاتحہ اور سورۂ اخلاص کے علاوہ قرآن سے کچھ یاد نہیں تھا، امیر نصیر کی بارگاہ میں پہنچے ۔ آپ کی تشریف آوری سے پہلے تمام علماء اور حاسدین کا یہ ارادہ تھا کہ جب خواجہ ابو احمد آئیں تو کوئی شخص نہ استقبال کے لیے جائے اور نہ احترام میں اٹھے مگرایسا ہوا کہ جب خواجہ مجلس کے پاس آئے تو تمام علماء تعظیم کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے۔ بعض نے آگے بڑھ کر استقبال بھی کیا مجلس میں لاکر ایک بلند مسند پر بٹھایا گیا، اور مسئلہ سماع پر گفتگو شروع کردی، جب علماء کرام اپنا نکتہ نظر بیان کرچکے اور اپنے اپنے اعتراضات کی تفصیل سنا چکے تو حضرت خواجہ ابو احمد نے اپنے خادم محمد بند ہ کو اشارہ فرمایا کہ ان علماء کرام کے اعتراضات کا جواب دو، خادم ان پڑھ تھا، مگر اسے یوں محسوس ہوا جیسے آج وہ سب سے زیادہ عالم اور فاضل ہے، اس نے علماء کے ایک ایک اعتراض کا جواب قرآن و احادیث سے دینا شروع کیا۔ بزرگان سلف کے طریقہ کو بھی بیان کرنے لگا تمام علماء اس کے جوباات سن کر دنگ رہ گئے بعض تو شرمندگی سے سر جھکائے بیٹھے رہے۔

 حضرت خواجہ ابو احمد ابدال چشتی رحمۃ اللہ علیہ  کا فیضان کرم:

حضرت خواجہ ابو احمد ابدال چشتی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ایک سفر میں ایسے ملک میں جا پہنچے جہاں کوئی بھی مسلمان نہیں تھا۔ اور ہر طرف کافر ہی کافر تھے یہ ایسے سخت کافر تھے کہ انہیں کوئی مسلمان نظر آتا تو اسے پکڑ کر آگ میں پھینک دیتے، انہوں نے حضرت خواجہ ابو احمد ابدال چشتی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو دیکھا توپہچان لیا کہ یہ مسلمان ہے، بڑی سختی کرنے لگے، حضرت خواجہ ابو احمد ابدال چشتی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو جلانے کے لیے ایک جگہ آگ جلائی گئی اور حضرت خواجہ ابو احمد ابدال چشتی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو اس میں پھینکنے کے لیے تدبیریں کرنے لگے، حضرت خواجہ ابو احمد ابدال چشتی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے انہیں کہا، تم لوگ مجھے آگ میں پھینکنے کی تکلیف نہ کریں میں خود ہی آگ میں کود پڑتا ہوں، آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے مصلی کندھے پر رکھا، اور آگ کے شعلوں میں کود پڑے، آگ سرد ہوگئی، آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے انگاروں پر مصلی بچھا دیا، اور دو رکعت نماز شکرانہ ادا کی، ان دشمننانِ اسلام نے آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی کرامت دیکھی تو کلمہ پڑھ کر مسلمان ہوگئے اور دل و جان سے آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے ہاتھ پر بیعت ہوگئے، جو "شہر کفر" تھا، آپ کی برکت سے"شہر اسلام" بن گیا۔

وصال مبارک: 

یکم ماہ جمادی الثانی ۳۵۵ہجری کو  قدوۃ الدین حضرت خواجہ ابو احمد ابدال ابن سلطان فرسنافہ چشتی رحمتہ ﷲ علیہ واصل بحق ہوئے۔
 
مزار پر انوار:

حضرت خواجہ ابو احمد ابدال ابن سلطان فرسنافہ چشتی رحمتہ ﷲ علیہ کا مزار مبارک, چشت شریف صوبہ ہرات,افغانستان میں واقع ہے ۔