ایمان اور کفر کا بیان
سوال نمبر
1: ایمان کسے کہتے ہیں؟
جواب :محمد رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وسلم کو ہر بات میں سچا جاننا اور حضورصلی اللہ علیہ وسلم (کی حقانیت) کو سچے
دل سے ماننا ایمان ہے۔ جو اس بات کا اقرار کرے گا۔ اسے مسلمان جانیں گے۔
سوال
نمبر2: بغیر مطلب سمجھے صرف زبان سے کلمہ پڑھ لینے سے آدمی مسلمان ہو جاتا ہے یا
نہیں ؟
جواب :اگر کوئی کلمہ کے معنی
سمجھانے والا نہیں ہے یا ہے بھی تو وہ معنی سمجھتا نہیں۔ اگر وہ زبان سے اتنا
اقرار کرے کہ میں دین محمدی کو سچا جانتا اور اسے قبول کرتا ہوں تو وہ شخص مسلمان
ٹھہرے گا۔
سوال نمبر
3: جو لوگ اسلام کا اقرار نہ کریں وہ کون ہیں؟
جواب :ایسے لوگوں کو جو اسلام کو
سچا دین نہ مانیں ، کافر کہا جاتا ہے۔
ُُُُُسوال
نمبر4: مرتد کسے کہتے ہیں؟
جواب :اسلام کا کلمہ پڑھ کر جو
شخص زبان سے کلمہ کفر بکے اور اپنی بات کی پچ کرے۔ یعنی کفری بات پر نفرت نہ کرے
وہ مرتد کہلاتا ہے۔
سوال نمبر
5: اور منافق کون ہیں؟
جواب :جو لوگ زبان سے اسلام کا
کلمہ پڑھتے، اپنے آپ کو مسلمان کہتے اور پھر دل میں اس سے انکار کرتے ہیں وہ منافق
کہلاتے ہیں۔
سوال
نمبر6: مشرک کسے کہتے ہیں؟
جواب :جو لوگ خدا کے سوا کسی اور
کو پوجتے یا خدا کے سوا کسی دوسرے کو بندگی کے قابل سمجھتے ہیں یا خدا کی خدائی
میں کسی کو اس کا شریک ٹھہراتے ہیں ، وہ مشرک ہیں۔
سوال
نمبر7: دنیا کی کون کون سی قومیں مشرک ہیں؟
جواب :جیسے ہندو جو بتوں کی پوجا
پاٹ کرتے ہیں اور بتوں کو خدا کی خدائی میں شریک سمجھتے ہیں یا عیسائی اور یہودی
یا پارسی وغیرہ جو دو یا تین خدا مانتے ہیں ، یہ سب مشرک ہیں۔
سوال نمبر
8: کیا مسلمانوں میں مشرک ہوتے ہیں؟
جواب :توبہ توبہ! مسلمان کس طرح
مشرک ہو سکتا ہے ؟ مسلمان خدا کو ایک سمجھتا ہے اور مشرک دوسروں کو خدا کا شریک
ٹھہراتا ہے، تو جس طرح کسی مشرک کو مسلمان نہیں کہہ سکتے یونہی کسی مسلمان کو مشرک
نہیں کہہ سکتے۔
سوال
نمبر9: مسلمان کو مشرک کہنے والے کون لوگ ہیں؟
جواب :کچھ نئے فرقے ایسے پیدا ہو
گئے ہیں جو بات بات پر مسلمانوں کو مشرک اور بدعتی کہتے ہیں ، یہ گمراہ بددین ہیں،
ان کے سائے سے دور بھاگنا ضروری ہے۔
سوال نمبر
10: کیا کافر کو بھی کافر نہیں کہہ سکتے؟
جواب :مسلمان کو مسلمان اور کافر
کو کافر کہنا اور ماننا ضروری ہے۔ یہ بات محض غلط ہے کہ کافر کو بھی کافر نہیں
کہنا چاہیے۔ خود قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے کافروں کو کافر کہہ کر پکارا ہے۔
قل یایھا الکفرون ط یعنی اے کافرو
تقلید
سوال نمبر
1: تقلید کسے کہتے ہیں؟
جواب :تقلید کے شرعی معنی ہیں
کسی کے قول و فعل کو اپنے لیے حجت بنا کر دلیل شرعی پر نظر کئے بغیر مان لینا یہ
سمجھ کر کہ وہ اہل تحقیق سے ہے اور اس کی بات شرعاً محقق اور قابل اعتماد ہے۔ جیسا
کہ ہم مسائل شرعیہ میں امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قول و فعل اپنے
لیے دلیل سمجھتے ہیں اور دلائل شرعیہ میں نظر نہیں کرتے خواہ وہ قرآن ، حدیث یا
اجماع امت کو دیکھ کر مسئلہ بیان فرمائیں یا اپنے قیاس سے حکم دیں۔ تقلید کرنا
واجب ہے اور تقلید کرنے والے کو مقلد کہتے ہیں جیسے ہم لوگ امام اعظم ابو حنیفہ کے
مقلد ہیں۔
سوال نمبر
2: تقلید کن مسائل میں کن جاتی ہے؟
جواب :شرعی مسائل تین طرح کے
ہوتے ہیں:
۱۔ عقائد جن کا سمجھ لینا
اور قلب میں راسخ و محفوظ کر لینا ضروری ہے اور چونکہ یہ اصول دین ہیں اس لیے ان
میں کوئی ترمیم و تنسیخ او ر کمی بیشی بھی نہیں۔
۲۔ وہ احکام جو قرآن و حدیث
سے صراحۃً ثابت ہیں کسی مجتہد کے اجتہاد یا قیاس کو ان کے ثبوت میں کوئی دخل نہیں
مثلاً پنج وقتہ نماز اور روزئہ ماہِ رمضان ، حج ، زکوٰۃ وغیرہ فرائض اور ایسے ہی
دیگر احکام۔
۳۔ وہ احکام جو قرآن و حدیث
میں اجتہاد سے حاصل کئے جائیں ان میں سے اصول عقائد میں کسی کی تقلید جائز نہیں،
یونہی جو احکام قرآن و حدیث سے صراحۃً ثابت ہیں، ان میں کسی کی تقلید رو ا نہیں
یعنی ہم جو ان مسائل کو مانتے ہیں وہ اس لیے نہیں کہ امام اعظم نے فرمایا ہے بلکہ
اس لیے مانتے ہیں کہ قرآن و حدیث میں ان کا صراحۃً ذکر آیا ہے او ر تیسری قسم کے مسائل
جو قرآن و حدیث واجماع امت سے اجہتاد کرکے نکالے جائیں ان میں غیر مجتہدپر تقلید
واجب ہے او ر مجتہد کے لیے تقلید منع ۔
سوال نمبر
3: مجتہد کون ہوتا ہے؟
جواب :مجتہد وہ بالغ اور صحیح
العقل مسلمان ہے جس میں اس قدر علمی لیاقت اور قابلیت ہو کہ قرآنی اشارات و کنا
یات کو سمجھ سکے اور کلام کے مقصد کو پہچان سکے۔ ناسخ و منسوخ کا پورا علم رکھتا
ہو۔ علم صر ف و نحوو بلاغت وغیرہ میں اس کو پوری مہارت حاصل ہو، احکام کی تمام
آیتوں اور احادیث پر اس کی نظرہو، تمام مسائل جزئیہ کو قرآن و حدیث سے اخذ کرکے ہر
ہر مسئلہ کا ماخذ اور اس کی دلیل کو اچھی طرح جانتا ہو۔ کہ یہ مسئلہ اس آیت یا
فلاں حدیث سے ماخوذہے ۔ اس کے علاوہ ذکی اور خوش فہم ہو۔
سوال نمبر
4: فقہ کسے کہتے ہیں اور فقیہ کون ہے؟
جواب :وہ مسائل جزئیہ عملیہ اور
احکام شرعیہ جو قرآن و حدیث میں جا بجا پھیلے ہوئے تھے، ائمئہ مجتہدین نے لوگوں کی
آسانی کے لیے جس موقع سے اور جس طرح مفہوم ہوتے تھے ان کو اسی عنوان سے اخذ کیا،
اسی طرح جو مسائل اجماع امت اور قیاس سے ثابت ہوئے ان سب کو لے کر ہر قسم کے مسائل
کو جد ا جدا بابوں اور فصلوں میں کرکے اس مجموعہ کا نام فقہ رکھ دیا تو ان مسائل
میں عمل کرنا بعینہٖ قرآن و حدیث اور
اجماع امت پر عمل کرنا ہے۔ اور اس علم فقہ میں مہارت رکھنے والے علماء کو فقیہ یا
فقہاء کہا جاتا ہے۔
سوال نمبر
5: مذہب کسے کہتے ہیں؟
جواب :دین کے فروعی مسائل اور
احکام جزئیہ میںکسی امام مجتہد کا وہ آئین یا دستورالعمل جو انھوں نے قرآن وحدیث اور
اجماع امت سے اخذ کیا ، اسے مذہب کہتے ہیں یوںسمجھ لو کہ دین اصل ہے اور مذہب اس
کی شاخ۔
سوال نمبر
6: اس وقت دنیائے اسلام میں کتنے مذہب پائے جاتے ہیں؟
جواب :حدیث شریف کے ارشاد کے
مطابق دنیا و آخرت میں نجات پانے والا مسلمانوں کا بڑا گروہ جسے سواد اعظم فرمایا،
اہل سنت وجماعت کا ہے اوریہ ناجی گروہ اہل سنت و جماعت آج چار مذہب حنفی، مالکی،
شافی، جنبلی میں جمع ہو گیا ہے۔ تبع تابعین کے زمانہ سے آج تک ساری امت مرحومہ کاعمل یہی رہا ہے۔ کہ جو خودمجتہد نہ
ہو وہ کسی مجتہد کی تقلید کرے۔ یہی وجہ ہے کہ بڑے بڑے ماہرین فن جو علم وفن میں
یکتائے روزگار گزرے اور چوٹی کے علماء ، فضلاء ، محدثین، مفسرین حدیث و قرآن کے
علم میں مہارت رکھنے والے اپنی اپنی تحقیقات کو چھوڑ کر ان ہی چار اماموں میں سے
کسی امام کی تقلید ر پر مجبور ہوئے اور مقلد کہلائے۔
امام بخاری، امام مسلم اور
دوسرے ائمہ حدیث جن کی احادیث کی کتابیں آج تمام دنیائے اسلام میں مانی جاتی ہیں
تمام عمر تقلید ہی کرتے رہے۔ اسی طرح مشائخ میں سے حضرت غوث اعظم، خواجہ غریب نواز
اور غوث العالم محبوب یزدانی سید سلطان مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی وغیرہ جیسی بزرگ ہستیاں مقلد ہی گزریں۔ غرضیکہ
ان چار مذہبوں کے سوا کسی کی تقلید جائز نہیں اگرچہ وہ صحابہ کے قول اور صحیح حدیث
اور آیت کے موافق ہو جو ان چار مذہبوں سے باہر ہے وہ گمراہ اور گمراہ کرنے والا بد
مذہب اور بدعتی ہے کہ وہ تمام مسلمانوں سے الگ ایک راہ نکالتا ہے اور حدیث میں ہے
جو مسلمانوں کے بڑے گروہ سے الگ ہوا وہ جہنم میں الگ ہوا۔
جواب :جو شخص ان چاروں مذہبوں
میں سے کسی بھی ایک کا معتقدہو اور نہ اس کا تابع، وہ براہ فریب عوام بیچاروں کے
بے قیدی کی طرف بلاتا ہے۔ اس کا تو مطلب یہ نکلا کہ ائمہ اہل سنت کے سب مذہبوں میں
کچھ کچھ باتیں خلاف دین محمدی ہیں۔ لہٰذا ان میں سے تنہا ایک پرعمل ناجائز و حرام ہے لہٰذا ہر ایک
کے دینی مسائل چن لیے جائیں اور بے دینی کے چھوڑدئیے جائیں اور اس سے یہ بات لازم
آتی ہے۔ کہ تمام سردار ان امت اور پیشوا یا ان ملت گناہگار اور حرام کے مرتکب
ٹھہریں کہ وہ اپنی ساری عمر ایک ہی امام کی تقلید کرتے رہے اور اپنے پیروؤں کو بھی
تقلید کی تلقین کرتے رہے اور جو ایسی بات کہے جس سے ساری امت کا گمراہ ہونا لازم
آئے وہ خود گمراہ ، بددین اور دین اسلام کے دائرہ سے خارج ہونے والوں میں ہے۔
یہ تو وہی بات ہوئی کہ جسے
دربارِ شاہی تک چار سیدھے راستے معلوم ہوئے رعایا کو دیکھا کہ ان کا ہر گروہ ایک
راستہ پر ہو لیا اور اسی پر چلا جاتا ہے۔ مگر ان حضرات نے اسے بیجا حرکت سمجھا کہ
جب چاروں راستے یکساں ہیں تو وجہ کیا کہ ایک ہی کو اختیار کر لیجےئے۔ پکارتا رہا
صاحبو! ہر شخص چاروں راہ پر چلے مگر کسی نے نہ سنی ، نا چار آپ ہی تانا تننا شروع
کیا۔ کوس بھر اس راستے چلا، پھر اسے چھوڑا اور دوسرے راستے پر دوڑا، پھر اس سے منہ
موڑا اور تیسرے راستے کو پکڑا، پھر اس سے بھاگ کر چوتھے کو ہو لیا اور تیلی کے بیل
کی طرح یونہی چکر لگاتار ہا۔ اب ہر شخص فیصلہ کر سکتا ہے کہ یہ شخص مجنون و دیوانہ
ہے یا صحیح الحواس وفرازانہ۔
غرض ہر مسلمان پر فرض و
لازم ہے کہ وہ اپنے امام کے مذہب کا پابند ہو کر رہے۔ اگر اس کے مذہب سے عدول کرے
گا تو خدائے تعالیٰ کے یہاں اس کا کوئی عذر نہ سنا جائے گا بلکہ وہ جہنم کا مستحق
ٹھہرے گا، ہاںیہ ضرور ہے کہ ان چاروں مذہبوں کے اماموں کو امام اہل سنت جانے، سب
کی جناب میں عقیدت رکھے۔ سب کے مقلدوں کو راہ راست پر مانے اور یقین رکھے کہ جیسے
ائمہ اربعہ کا قول ضلالت وگمراہی نہیںہو سکتا ایسے ہی کسی مجتہد کا مذہب بدعت نہیں
ٹھہر سکتا اور جو اسے بدعت کہے وہ علمائے کرام کے نزدیک خود بدعتی ہے بد دین اور
عذاب و دوزخ کا مستحق ہے۔
سوال نمبر
8: اہل سنت میں اشاعرہ اور ماترید یہ کون ہیں؟
جواب :ہم پہلے بتاچکے ہیں کہ
اصول عقائد میں کسی کی تقلید جائز نہیں، ہاں بعض فروعی عقائد میں تقلید ہو سکتی ہے
اسی بناء پر خود اہل سنت میں دو گروہ ہیں ، ماترید یہ کہ حضرت امام ابومنصور
ماتریدی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے تابع ہیں اور اشاعر ہ کہ حضرت امام شیخ ابو الحسن
اشعری رحمتہ اللہ علیہ کے تابع ہیں اور یہ دونوں جماعتیں اہل سنت ہی کی ہیں اور
دونوں حق پر ہیں آپس میں صرف بعض فروع کا اختلاف ہے۔ ان کا اختلاف حنفی شافعی کا
سا ہے کہ دونوں اہل حق ہیں، کوئی کسی کو گمراہ یا بدمذہب بلکہ فاسق و فاجر بھی
نہیں کہہ سکتا۔
سوال نمبر
9: قرآن و حدیث میں جس تقلید کی برائی آتی ہے وہ کونسی ہے؟
جواب :بعض لوگ اپنے دادا کی
ایجاد کی ہوئی شادی غمی کی ان رسموں کی پابندی کرتے ہیں جو خلاف شریعت ہیں اور
کہتے ہیںکہ چونکہ ہمارے باپ دادا ایسا کرتے تھے ہم بھی ایسا کریں گے چاہے یہ کام
جائز ہو یا ناجائز ۔ قرآن و حدیث میں ایسی ہی تقلید کی مذمت (برائی) بیان کی گئی
ہے اور ایسی ہی تقلید سے روکا گیا ہے۔ ان آیتوں اور حدیثوں کی رو سے تقلید ائمہ کو
حرام یا شرک کہنامحض بے دینی ہے، بھلا ایسا کون سا مسلمان ہوگا جو قرآن و حدیث کو
چھوڑ کر خدا اور رسول کے احکام کے خلاف اماموں کے قول و فعل پر چلنے میں اپنی نجات
سمجھے ۔ سارے ہی مقلد مسائل جزئیہ میں اماموں کی تحقیق کے موافق قرآن و حدیث پرعمل کرتے ہیں اسی وجہ سے مقلد کہلاتے
ہیں۔
سوال نمبر
10: چاروں مذاہب کے اماموں کے نام اور لقب کیا ہیں؟
جواب :چار اما م یہ ہیں :
حضرت امام اعظم نعمان بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ
عنہٗ
آپ کا لقب ابو حنیفہ ہے۔
شہر کو فہ میں ۸۰ھ میں پیدا ہوئے۔ ابو
حنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فقہ کے بانی ہیں۔ آپ کے اجتہادی مسائل تقریباً بارہ
سوسال سے تمام اسلامی ملکوں میں پھیلے ہوئے ہیں اور چونکہ آپ کا مذہب اصول سلطنت
سے بہت مناسبت رکھتا ہے اس لیے بڑی بڑی عظیم اسلامی سلطنتوں میں آپ ہی کے مسائل ،
قانون سلطنت تھے اور آج بھی ہیں۔ اسلامی دنیا کا بیشتر حصہ آپ ہی کے مذہب کا پیرو
ہے۔ تما م ائمہ میں یہ خصوصیت اور شرف صرف آپ کو حاصل ہے کہ صحابہ رضی اللہ تعالیٰ
عنہم سے آپ کی ملاقات ہوئی۔
بغداد شریف میں ۱۵۰ھ میں آپ کا انتقال ہوا۔
مقبولیت کا عالم یہ تھا کہ پہلی بار نماز جنازہ میں کم و بیش پچاس ہزار کا مجمع
تھا۔ اس پر آنے والوں کا سلسلہ قائم تھا۔ یہاں تک کہ چھ بار نماز جنازہ پڑھی گئی۔
مزار شریف بغداد شریف میں مشہور اورمتبرک مقامات سے ہے۔ آپ کے شاگردوں کے شاگردوں
میں امام بخاری اور دوسرے بڑے بڑے محدثین کرام ہیں۔ آپ کے مقلد حنفی کہلاتے ہیں۔
حضرت امام محمد بن ادریس شافعی رضی اللہ تعالیٰ
عنہٗ
آپ کا لقب شافعی ہے۔ امام
اعظم ابو حنیفہ کا سال وفات اور حضرت امام شافعی کا سال ولادت ایک ہے یعنی آپ ۱۵۰ھ میں بمقام عسقلان پیدا
ہوئے آپ کا لقب ابو عبداللہ ہے۔ آپ ہاشمی قریشی مطلبی ہیں۔ علم فقہ، اصول، حدیث
اور دیگر علوم وفنون میں کوئی اور آپ کا ہم پایہ نہ تھا۔ زہد و تقویٰ و سخاوت اور
حسن سیرت میں آپ یکتائے روزگار تھے۔ ۵۴ سال کی عمر شریف میں ۲۰۴ھ میں انتقال فرمایا۔ مزار شریف قرانہ (مصر) میں ہے۔ آپ کے مقلد
شافعی کہلاتے ہیں۔
حضرت امام مالک بن انس رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ
مدینہ منورہ میں ۹۵ھ میںپیدا ہوئے۔ آپ کی
کنیت ابو عبداللہ ہے۔ فقہ و حدیث میں تمام اہل حجاز آپ کو امام تسلیم کرتے تھے۔
حضرت امام شافعی آپ ہی کے شاگردان رشید سے ہیں۔ آپ کے چشمہ علم سے بڑے بڑے ائمہ و
مجتہدین سیراب ہوئے۔ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ کو کمال عشق تھا۔ حضور کی
محبت میں ساری زندگی مدینہ شریف ہی میں گزاری۔ مدینہ طیبہ ہی میں ۱۷۹ھ میں انتقال فرمایا۔
یہیں مزار شریف ہے۔ عمر شریف ۸۴ سال کی ہوئی۔ آپ کے مقلد مالکی کہلاتے ہیں۔
حضرت امام احمد بن حنبل رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ
بغداد شریف میں ۱۶۴ھ میں پیدا ہوئے۔ وہیں آپ
نے پرورش پائی۔ آپ کے فضائل و واقعات زبان زدخواص و عوام ہیں۔ خلیفہ مامون رشید کے
زمانے میں جب خلق قرآن کا فتنہ اٹھا تو آپ نے کلمہ حق کا حق ادا کیا۔ ہزار مصائب
جھیلے لیکن دین پر آنچ نہ آنے دی۔ بغداد شریف ہی میں آپ نے ۲۴۱ھ میں وفات پائی۔ عمر شریف ۷۷ سال تھی۔ آپ کے مقلد حنبلی کہلاتے ہیں۔
No comments:
Post a Comment