خانقاہ
اشرفیہ حسنیہ سرکارکلاں
مخدوم
الاولیاء سید علی حسین اشرفی الجیلانی المعروف اعلیٰ حضرت اشرفی میاں
کچھوچھوی نے سید اشرف جہانگیر سمنانی کی درگاہ سے کچھ فاصلے ہر اپنی الگ ایک
خانقاہ قائم کی اس کا نام"خانقاہ اشرفیہ حسنیہ سرکارکلاں" رکھا آپ نے
یہاں رشدوہدایت کا سلسلہ شروع کیا ذکر و فکر مراقبہ اور دیگر معمولات مشائخ طریقت
اس میں جاری کئے آپ ہر سال 28،29 محرم الحرام کو سید اشرف جہانگیر سمنانی کے عرس
کی تقریبات اسی خانقاہ میں ادا فرماتے رہے۔
وظائف
اشرفی میں لکھا ہے " اعلیٰ حضرت قبلہ وکعبہ 1297 ہجری میں مسند نشینی پر
متمکن ہوئے اور سال مذکورہ کی 28 محرم الحرام کو خرقہ خاندانی جو حضرت مخدوم سلطان
سید اشرف جہانگیر سمنانی قدس سر ہ کا عطیہ ہے زیب تن فرمایا ۔ (بحوالہ: وظائف اشرفی حصہ اول صفحہ7)
جامع
اشرف کچھوچھہ مقدسہ
خانقاہ
اشرفیہ حسنیہ سرکارکلاں سےہی ملا ہو اایک بہت بڑا ادارہ ہے جس
کانام "جامع اشرف" ہے ۔ یہ اہلسنت وجماعت کا عظیم ادارہ ہے۔ 1978
عیسوی سے اسلامی تعلیمات کی نشرو اشاعت میں بہترین کردارادا کرتا آرہا
ہےاب تک بے شمار علماء ، فضلاء، حفاظ وقراء فارغ ہوکر ہند
وبیرون ہند میں اپنے خدمات میں دے رہے ہیں ۔اس ادارہ سے فارغ ہونے والے
علماء اور فضلاء کو " جامعی" کہا جاتاہے۔
27
محرم الحرام 1398 ہجری بمطابق 1978 عیسوی تعلیمی کنونشن جامع اشرف کے
موقع پر غوث الوقت سرکارکلاں سید مختار اشرف اشرفی الجیلانی نے تاریخی خطبہ دیا ،
جس میں آپ نے علم کی فضیلت ، قرآن و حدیث اور تاریخ کے حوالے سے دل نشین انداز میں
بیان کیا ۔ اس جامع اشرف کے قیام پر اپنی بے پناہ مسرت کا اظہار فرمایا ہے ،
جامع اشرف کو عصری تقاضوں کے مطابق جدید تعلیم سے آراستہ کرنے کی زور ترغیب دلائی
گئی اور اس کے فروغ و ارتقاء کے لئے عوام کو ایک پیغام بھی دیا گیا ہے۔ ملاحظہ
فرمائیے غوث الوقت سرکارکلاں سید محمد مختاراشرف اشرفی الجیلانی کے
خطبۂ صدارت کا ایک اقتباس:
"مخدوم
سید اشرف جہانگیر سمنانی رضی اللہ المولیٰ عنہ کے آستانۂ عالیہ میں جامع اشرف کا
قیام اسی مخدومی فیضان مسلسل کی ایک کڑی ہے جو میری نے پناہ مسرت اور انبساط کا
باعث ہے اورمیری دیرینہ آرزؤں کی تکمیل ہے ۔ مخدوم اشرف کے آستانہ سے بہتر علمی
اور روحانی تربیت گاہ دوسری جگہ کیسے میسر آسکتی تھی ۔
آپ
نے معتدد جگہوں پر الجمیعۃ الاشرفیہ کی شاخیں قائم کیں۔
شاخ
ماچھی پور2 جون 1972عیسوی
شاخ
تارتیری 6 مئی 1972 عیسوی
شاخ
سلطانپور 23 جون 1973 عیسوی
شاخ
رجولی گیا بہار 2 ستمبر 1972 عیسوی
شاخ
بلاری ضلع مرادآباد 20 جولائی 1972 عیسوی
شاخ
شہررامپور 11 جولائی 1972 عیسوی
شاخ
ٹنکاریہ ضلع بھروچ 19 جولائی 1972 عیسوی
شاخ
کالوپور احمد آباد گجرات 30 ستمبر 1972 عیسوی
شاخ
پاچھور سیا دیناجپور 26 شعبان 1392 ہجری
شاخ
بھیونڈی 12 مارچ 1973 عیسوی
شاخ
گڑیا 19 مئی 1973 عیسوی
شاخ
جامعہ نعیمیہ مرادآباد 22 جولائی 1972 عیسوی
شاخ
رائے بریلی 15 اپریل 1973 عیسوی
شاخ
پرتاپ گڑھ 17 اپریل 1973 عیسوی
یہ
چند وہ مقامات ہیں جس میں خود حضرت سرکارکلاں نے دورہ فرمایا اور آپ کی سرپرستی
میں ان شاخوں کا قیام عمل میں آیا ۔
(بحوالہ: ماہنامہ غوث العالم اگست 2006 صفحہ 12)
کتب
خانہ اشرفیہ
حاجی
محمد زبیرصاحب نائب ناظم کتب خانہ مسلم یونیورسٹی عیلگڑھ اپنی مؤقر نصنیف
"اسلامی کتب خانہ میں" میں رقمطراز ہیں:
"تیرہویں
صدی ہجری کے ابتدائی سالوں میں حضرت مولانا سید علی حسین اشرفی سجادہ نشین
سرکارکلاں نے ایک بار پھر خاندانی وقار کو بلند کیا اور حضرت مخدوم کی سنت عالیہ
کو زندہ کرنے میں پوری تندہی کے ساتھ دلچشپی لی ، بقول میر غلام بھیک نیرنگ
مرحوم حضرت اشرفی میاں کی تاریخی اہمیت خانوادہ اشرفیہ میں وہی ہے جو بنی امیہ میں
حضرت عمر ابن عبدالعزیز کو حاصل تھی ۔
اس
میں شک نہیں کہ ، حضرت اشرفی میاں نے خاندانی اختلال و جمودکو دور کرنے کے لئے جو
عملی منصوبے بنائے، اور جس طرح عوام النا س کوصراط مستقیم پر لانے کے
لئے ان کی قیادت و رہنمائی کی اور جس انداز سے انہوں نے قومی کرداراور سیرت
کی تعمیر و تخلیق میں حصہ لیا ، وہ مقدمہ لطائف اشرفی ، وظائف اشرفی، صحائف اشرفی اور
مجلہ اشرفی کے مختلف شماروں کو پڑھنے والوں سے پوشیدہ نہیں ، آپ نے تحصیل علم کے
لئے ......................جامعہ اشرفیہ .............کی بنیاد رکھی اور لوگوں میں
دینی تعلیم کا جذبہ پیداکیا ۔ اس سلسلے میں آپ نے
کتب
خانہ اشرفیہ
کی
بھی اصلاح فرمائی اور مختلف مقامات سے نادرات منگوائے تاکہ علم سے
فیضیاب ہونےکے لئے علماء کرام اور طلباء کو مشقتوں کا سامنا نہ
کرنا پڑے۔اعلیٰ حضرت اشرفی میاں نے اپنی ذاتی مصارف سے
اشرفی پریس
قائم کیا ۔ جس میں بعض نادر کتابیں طبع ہوئیں اور 1923
عیسوی تا 1928 عیسوی اسی پریس سے مجلہ اشرفی نکلتا رہاجس کی ادارات کے فرائض حضرت
مولانا ابوالمحامد سید محمد محدث (محدث اعظم ہند) کے بحسن خوبی انجام
دیئے، اسی مجلہ کے ذریعہ لطائف اشرفی کا اردوترجمہ بالاقشط پیش کیا گیا۔
حضرت
اشرفی میاں نے والیان ریاست کو بھی کتابوں کی طباعت و اشاعت کی جانب متوجہ کیا
چنانچہ انہیں کی تحریک پر نواب کلب علی خاں ریاست رامپور نے 1292 ہجری میں لطائف
اشرفی کی طباعت کرائی اور نواب میر عثمان علی خاں نظام حیدرآباد نے چند نادر
کتابوں کی طباعت کی ذمہ داری اپنے سر لی ، غرض کتابوں کی اصلاح و نقل اور طباعت سے
کتب خانہ اشرفیہ میں ایک قابل اضافہ ہوا۔
حضرت اشرفی میاں کا ایک کارنامہ یہ بھی ہے کہ انہوں نے عربی
اور فارسی کی طرح اردوسیکشن کو بھی ترقی دی ، چنانچہ اردوشعراء کے دواوین کے علاوہ
مذہب تصوف ، فلسفہ، کلام ، تاریخ اور طب کا بھ جس قدر سرمایہ انہیں اردوزبان میں
دستیاب ہوا وہ سب کتب خانہ کی زینت بن گیا............. کتب خانہ اشرفیہ میں
مطبوعہ اور غیر مطبوعہ کتابوں کی مجموعی تعداد کم و بیش دس ہراز سے زیادہ ہے۔ قلمی
کتابوں کی ساڑھے سات ہراز کے لگ بھگ ہے ، جن میں اکثرنہایت نادر ہیں، عربی فارسی
اور اردو تینوں زبانوں میں تفسیر ، حدیث ، فقہ ، کلام ، تاریخ ادب اور طب کا گراں
قدر ذخیرہ موجود ہے اور ان حقائق کی روشنی میں اس بات کا بخونی اندازہ لگایا
جاسکتاہے کہ مشائخ کرام نے اپنی خانقاہی زندگی میں دین و مذہب کی تبلیغ و اشاعت کے
ساتھ علم وادب کی کیسی حیرت انگیر خدمات انجام دی ہیں " ۔
(بحوالہ
: اسلامی کتب خانے "مطبوعہ ندوۃ المصنفین دہلی صفحہ 304تا306)
کتب
خانہ اشرفیہ اعلیٰ حضرت عظیم البرکت حضرت سید شاہ علی حسین اشرفی میاں کچھوچھوی
قدس سرہ النورانی کی گراں قدر جد وجہد کا ثمرہ ہے ، اس وقت آپ کے پر پوتے حضرت
صدرالمشایخ شیخ اعظم سید اظہار اشرف اشرفی الجیلانی قدس سرہ
النورانی کی ہمت ،محنت وجدوجہد سےدرجہ عروج پر پہونچ چکا ہے ۔شیخ اعظم نے
خابقاہ اشرفیہ سرکارکلاں میں کتب خانہ کے لئے ایک وسیع وعریض شاندار فلک نما عمارت
تعمیرکرادی ہے جس کا نام حضرت عالم ربانی سلطان الواعظین کے نام نامی پر
حضرت
مولانا احمد اشرف ہال
ہے اور غوث الوقت مخدوم المشائخ قدس سرہ کے نا م نامی سے
برکت لینے کے لئے کتب خانہ کا نام
حضرت مختار اشرف لائبریری
خانوادہ اشرفیہ کے تبرکات وملبوسات اور قلمی نواردکے لئے
ایک مخصوص حصہ
حضرت اشرف حسین میوزیم
بھی
بن گیا ہے۔لاکھوں روپیوں کے سرمایہ سے دوردور سے بلند پایہ مصنفین کی مطبوعہ و
قلمی کتابوں کا ذخیرہ بھی جمع کیا جارہا ہے۔ وہ وقت قریب آرہا ہے ، جب کتب خانہ
علم و تحقیق کے تشنگان کے لئے سیرابی کا انتظام کردے گا۔
مشہور
عالمی مبلغ اسلام اور دیدہ وراسلامی و سیاسی رہبر و رہنما الحاج سید میر غلام بھیک
نیرنگ اشرفی وکیل انبالہ نے ان برکات و انوار کو قریب سے ملاحظہ فرماکر تحریر
فرمایا تھا،
"اگر چہ اعلیٰ حضرت قبلہ و کعبہ کا گھرانا خاندان
اشرفیہ میں علم کے اعتبار سے ہمیشہ مشہور و ممتاز رہا ہے مگر حضورقبلہ و کعبہ کی برکت
سے اس زمانہ میں دولت علم و کمال سے یہ گھرانا اس قدر مالامال ہواکہ اس کی نظیر
نہیں پائی
جاتی"۔
(بحوالہ:مقدمہ حضرت میر نیرنگ قبلہ صفحہ 47)
ماہنامہ اشرفی کا اجراء
اہل
باطل نے مطابع کے وجود سے فائدہ اٹھایا اور رسائل و اخبار کے سہارے اپنے نظریات کی
نشریات کی طرف دھیان دیا ، چنانچہ ہر فرقہ اور ہر گروہ کا اخبار ، رسالہ تھا ، اہل
حق نے بھی رسائل جاری کررکھے تھے ، احقاق حق اور ابطال باطل کا فریضہ پوری طاقت سے
جاری تھا۔ کچھوچھامقدسہ کا آستانہ معرفت وعلم کے امتزاج کا مرکزتھا۔ یہا ں کے
اکابر واولیاء بھی تصنیف و تالیف کا ذوق رکھتے تھے مگر طباعت واشاعت کی طرف توجہ
نہیں فرماتھے ۔ اعلیٰ حضرت قدسی منزلت حضورپرنور مخدوم الاولیاء مرشدالعالم محبوب
ربانی سید علی حسین اشرفی میاں قدس سرہ النورانی کے دو ارشاد اور عہد بابرکت میں
مجلہ علمیہ روحانیہ کا اجراء بھی شامل ہے۔ حاجی محمد زبیر صاحب ناظم مسلم
یونیورسٹی علیگڑھ لائبریری رقمطراز ہیں:
"حضرت اشرفی میاں نے اپنی ذاتی مصارف سے اشرفی پریس
قایم کیاجس میں بعض نادر کتابیں طبع ہوئیں ۔ 1932 عیسوی تا 1298عیسوی اسی پریس سے
مجلہ اشرفی نکلتا رہا جس کی ادارات کے فرائض حضرت مولانا ابوالمحامد دسید محمدمحدث
نے بحسن و خوبی انجام دیے اسی مجلہ کے ذریعہ لطائف اشرفی کا اردو ترجمہ بالاقسط
پیش کیا گیا"۔
جنوری
1923 جمادی الاول 1341 ہجری میں ماہنامہ اشرفی کا اجراء ہوا صفحہ 3 /پر
اعلیٰ حضرت دقدسی منزلت حضورپرنورمخدوم الاولیاء مرشدالعالم محبوب ربانی سید علی
حسین اشرفی میاں کچھوچھوی قدس سرہ النورانی کا دعاء نامہ فرمان شائع ہوا، کلمہ
کلمہ اور جملہ جملہ سے حضور پرنور کی دلی دعاؤں اور قلبی خواہشات کا آبشار جاری
ہے۔ تحریر فرماتے ہیں:
" میں اپنے رب تبارک و تعالیٰ سے بصد عجزو نیاز دعاء
کرتا ہوں کہ جس طرح اپنے پیارے محبوب یزدانی حضور غوث العالم تارک السلطنت مخدوم
سلطان سید اشرف جہانگیر سمنانی رضی اللہ عنہ وارضاہ عنی کے نام نامی و اسم گرامی
کا عرب و عجم ، چار دانگ عالم میں سکہ جمادیااور ان کی بارگاہ میں عالم پناہ کو
مرجع خلائق فرمادیا، اور ان کے فیوض و برکات سے لاکھوں تشنہ کاموں کو سیراب کردیا
اور ان کی نظر کیمیا اثرسے مس دل کو سیم و زر ، محتاج کو صاحب ثروت بلکہ جوہری اور
مفلس کو صاحب دولت بلکہ اشرفی بنا دیا اسی طرح اس نام پاک کی طرف شرف انتساب کو وہ
کرامت عطافرمائے کہ رسالہ اشرفی کا پسندیدہ اہل ایمان فرماکر قلوب میں اس کا سکہ
جمادے ، مسلمان اس کی طرف جھلک پڑیں اور فیوض و برکات سے مالامال ہوتے رہیں ،
پیاسے سیراب ہوں اور
"اشرفی " اشرفی ہوجائے۔
اے
میرے رب اس نا چیز کی اس دعاء کو شرف قبولیت عطاء فرما ، یہ رسالہ ومدیر و مطبع
خریدار کا دعاء گو ہے اور ہمیشہ دعا کرتا رہے گا ، جن لوگوں کو فقیر سے نسبت ارادت
ہے ان کا فرض ہے کہ اس رسالہ کی خریداری ضرورکریں اور دوسروں کو ترغیب دیں ، یہ
میرا تاکیدی حکم ہے دیکھنا ہے کہ اس کی عزت کو ن مخلص کرتا ہے، یقیناًیہ
رسالہ"شجرہ" سے زیادہ نفع بخش ہے۔
قفیر
ابواحمد المدعو محمد علی حسین اشرفی جیلانی
No comments:
Post a Comment