Jamia Naeemia Muradabad U.P

مدرسۃ الحدیث دہلی
حضرت دہلی ، اکابراولیاء پروردگار اور علماء اخیار کا گہوارہ تھا اس کے چپہ چپہ پر روحانی  مراکز خانقاہیں اور علم و فضل کے ادارے قائم تھے مگر سن ستاون کے ہنگامہ رستاخیز نے کایا پلٹ دی تھی لیکن اس دورادبار میں بھی اس کا وجود تھا ، خانقاہیں انوارو برکات اور فیوض رسانی کا منبع تھیں، حضور پرنو ر اعلیٰ حضرت مخدوم الاولیاء محبوب ربانی مرشدالعالم قدس سرہ النورانی کا دہلی جانا بہت ہوتا تھاآپ نے محسوس فرمایا کہ  حضرت دہلی می صحیح العقیدہ اہل سنت کا صرف ایک مد رسہ محلہ فراش خانہ میں مدرسہ نعمانیہ ہے۔ اعلیٰ حضرت مخدوم الاولیا نے اس کمی کو شدت سے محسوس فرمایااور سید میر مرحوم کو قیام مدرسہ محلہ کے لئے آمادہ فرمایاچنانچہ ان کی حویلی میں مدرسۃ الحدیث قائم ہوگیا اور حضور کے حکم سے حضرت محدث اعظم ہند نے یہاں تشریف لاکر تدریس کو رونق دی ۔ بڑے حضرت صاحب کے روزنامچہ میں درج ہے کہ 11 ذی الحجہ 1334 ہجری شب سہ شبنہ 10/اکتوبر کو محدث صاحب دہلی کے لئے روانہ ہوئے بڑے صاحب  حضرت  اکبرپوراسٹیشن  تک پہونچانے تشریف لے گئے ۔ حضور محدث صاحب قبلہ  قدس سرہ نے حدیث پاک کا خصوصی درس جاری فرمایا علوم و فنون خصوصی توجہ سے پڑھائے۔


دارالعلوم نعمانیہ دہلی
دہلی کا یہ عظیم دارالعلوم  بھی حضور پرنور اعلیٰ حضرت مخدوم الاولیاء قدس سرہ کی خصوصی عنایات والطاف کا مرہون منت رہا ، اس کی تعمیری ترقیات کے سوا اس کے استحکام کی طرف بھی توجہ مبذول فرمائی ، اس دارالعلوم کے ایک جلسہ کی روئیداد راقم الحروف (شہزادہ امین شریعت)  کی نظر سےہفتہ وار الفقیہ امرتسر میں گذری تھی ، اس وقت دارالعلوم میں ریاست رام پور کے نامور عالم وجیہ الدین خاں صدرالمدرسین تھے  اور حضور دوردرازکا سفر فرماکر جلسہ ددستاربندی میں شرکت فرمائی اور ایک معقول تعداد میں روپیے طلبہ کے رہنے کے لئے حجرہ کی تعمیر کی مد میں عطا فرمائے اور حضور پرنور کے توجہ دلانے سے سلسلہ عالیہ اشرفیہ کے وابستگان ساکنان دہلی نے بھی حصہ لیا" اس مدرسہ میں مولانا عمادالدین حضرت مولانا وصی احمد محدث سورتی نے بھی صدارت تدریس کو رونق دی تھی۔

جامعہ نعیمیہ مرادآباد
حضورپرنورمخدوم الاولیاء مرشدالعالم محبوب ربانی سید علی حسین اشرفی میاں کچھوچھوی قدس سرہ النورانی کے مبارک قدوم سے روہیل کھنڈ کا علاقہ بھر پور فیض یاب ہوا۔ حضور کے مبارک قدوم سے مرادآباد بھی فیض یاب ہوا، مرادآباد اہل علم کا شہر تھا، خانوادہ اشراف میں بڑے بڑے عالم گذرے ، مدارس بھی قائم تھے ، مگر دیوبندیت اور وہابیت پسندی کے جراثیم سے متاثر تھے،مدرسہ امدادیہ میں حضرت  استاذالعلماء سید گل محمد صاحب ولایتی کا فیض علمی جاری تھا۔استاذالعلماء مدرسہ امدادیہ میں مہتم بھی تھے اور شیخ الحدیث بھی تھے ، نہایت درجہ صحیح العقیدہ اور سلیم الطبع اور وسیع المشرب اور صاحب نسبت بزرگ تھے ، حضورپرنورمخدوم الاولیاء مرشدالعالم محبوب ربانی سید علی حسین اشرفی میاں کچھوچھوی قدس سرہ النورانی جب مرادآباد تشریف لے جاتے استاذ العلماء ملاقات و زیارت کے لئے تشریف لاتے، ایک دن وہ اپنے شاگردرشید مولانا نعیم الدین صاحب  (صدرالافاضل) کو جو نوجوان تھے اپنے ہمراہ لائےاور حضور کی خدمت میں پیش کرکے عرض کیاکہ اس فرزند کو قبول فرماکر کرم کی نظر سے سرفرازفرمائیں اور اپنی بیعت میں لے ان کی تکمیل فرمائیں بس وہ دن تھا اور اس کے بعد حضور پرنور کےبحرجودکرم سے مولانا نعیم الدین صاحب خوب خوب فیضیا ب ہوئے۔دربار اشرفی کے" خسرو "کا خطاب پانے والے صدرالافاضل،  فخرالاماثل،   استاذالعلماء ، امام اہلسنت مولانا الحاج حکیم سید نعیم الدین فاضل  مرادآبادی  نےحضورپرنور مخدوم الاولیاء  مرشدالعالم محبوب ربانی سید علی حسین اشرفی میاں کچھوچھوی قدس سرہ النورانی کی دعاؤں کے سایہ میں تدریس کے مدرسہ انجمن اہلسنت 1329 ہجری میں قائم فرمایا۔اس مدرسہ کے ہر تقریب اور تقریباً ہر جلسہ کو نےحضورپرنور مخدوم الاولیاء  مرشدالعالم محبوب ربانی سید علی حسین اشرفی میاں کچھوچھوی قدس سرہ النورانی اپنے وجود بافیض سے نوازتے رہے خوش ہوکر فارغ التحصیل کے سروں پر فضیلت کی دستارباندھتے، ان دستار بند فضلاء میں کثیر تعداد افراد کو حضور سے غلامی کی نسبت بھی حاصل ہوئی ، ایک خاص حقیقت جس کی معرفت راقم سطور کو حاصل ہوئی وہ یہ ہے کہ جن طلبہ کے سروں پر حضور نے خاص جذبہ سے فضیلت کی دستار باندھی، ان کو کمال ضرور حاصل ہوا، زمانہ میں ان سے علم دین کی رونق قائم ہوئی ، چنانچہ جامعہ نعیمیہ کے علماء میں حضرت علامہ ابوالبرکات علامہ ابوالحسنات ، مولانا نوراللہ نعیمی ، مولانا عبدالعزیز خاں ، مولانا عبدالرشید خاں ، مولانا اجمل شاہ ، مولانا احمد یار خاں، مولانا یونس ، مولانا آل حسن سنبھلی ، مدرسہ عین العلوم شاہ جہاں پو ر میں علامہ سید احمد سعید کاظمی اور مدرسہ منظر حق نانڈا میں مولانا عبدالحفیظ حقانی کے سروں پر دستارباندھی ، یہ چند اسماء ہیں یہاں لکھے گئے ، ان کے علاوہ بھی بہت ہیں۔
1353 ہجری میں مدرسہ انجمن اہل سنت کا جلسہ تھا اس موقع پر حضرت علامہ سید ابوالبرکات اشرفی  مفتی اعظم پاکستان و شیخ الحدیث دارالعلوم حزب الاحناف لاہور نے اپنی تقریر میں فرمایا کہ
"الحمد للہ اس مدرسہ کا فیض بہت عام ہوگیا ، ملک کے صدہا فاضل اسی سرچشمہ علوم سے فیض یاب ہوئے ہیں اور اہل سنت کے تقریباًتمام مدارس باستثناء ایک دوکے ۔ اس مدرسہ سے متلق ہیں اور ہرصوبہ میں اس مدرسہ کی شاخیں اعلیٰ کام کررہی ہیں ، اس عظیم الشان درسگاہ کو یہ کرامت حاصل ہوتے ہوئے اگر مرجع اہل سنت نہ قرار دیا جائے تو یہ ہماری بے ادراکی ہوگی اس لئے میں تحریک کرتا ہوں کہ آج سے مدرسہ عالیہ اہل سنت وجماعت مرادآباد کا نام
"جامعہ نعیمیہ"
 رکھاجائے، کیونکہ یہ تمام فیوض و برکات صدرالافاضل دامت برکاتہم کی ذات بابرکات کے ہیں اس لئے اس نام کا شامل کرنا ہماری فرض شناشی اور رتبہ دانی کی دلیل بھی ہے، اور اس نام سے ہمیں اور مدرسہ کو کافی فائدہ بھی متصور ہے، حضرت کانام نامی آنے سے کسی علمی ادارہ کا جو اعتماد سامع کے دل میں آتاہے وہ لمبی تقریروں اور بلیغ خطبوں سے نہیں ہوسکتا ، اس مدرسہ کو جو مرکزیت حاصل ہے وہ مرادآباد شہر کی وجہ سے نہیں ، یہاں کی آب و ہوا کی وجہ سے نہیں ، باشندگان شہر کی فیاضی کی وجہ سے نہیں ، ایک ذات بابرکا ت کے علم و فضل اور اخلاص کا یہ زور ہے جس نے تسخیر کر لیا ہے ، اس لئے اس نام کا شامل ہونا مدرسہ کی عزت اور اسکی مرکزیت کا محافظ ہے ، جہاں یہ نام مبارک آتاہے ، سنی جماعتیں اور ان کے تمام طبقے اس طرف جھک پڑتے ہیں "
حضرت مولانا کے ایک ایک حرف کی تصدیق مجمع نے کرکے تائید کی اور حضور محدث اعظم ہند نے فرمایا :
جامعہ نعیمیہ کی سنگین کتبہ تیار کراکے نصب کرنا میں اپنے ذمہ لیتاہوں یہ وعدہ حضر ت موصوف کو یادرہا اور بغیر کسی یاد دہانی کے امسال جلسہ میں حضر ت نے وہ کتبہ سنگ مرمر پر نہایت خوشخط اور واضح کندہ کراکے کلکتہ سے منگایا اور جلسہ کے آخر دن  فخرالاکابر ، عز المفاخر، مقتدائے عارفین ، پیشوائے کاملین، منبع الفیوض  الروحانیہ فاتح الکنوزالعرفانیہ شیخ المشائخ الکرام ، السید الجلیل من انباء سیدالانام علیہ وعلیٰ الہ واصحابہ الصلواۃ والسلام  مرشدی ومرشد العالم جامع الطریقین مولانا الحاج السید ابو احمد محمد علی حسین صاحب کے دست مبارک سے مس کراکر یہ کتبہ شریفہ مدرسہ عالیہ کے بلند داہنی جانب نصب کیا گیا۔

دارالعلوم حزب الاحناف

پاکستان کا مرجع علماء و فضلاء دارالعلوم ہے تمام علمائے اہلسنت اسی دارالعلوم کے فیض یافتگان ہیں ، اس دارالعلوم کو حضور پرنور کے خلیفہ امجد حضرت استاذ المحدثین مولانا الامام سید علی دیدار شاہ قبلہ قدس سرہ نے قائم فرمایا تھا ان کے صاحبزادگان عالی قدر استاذ العلماء علامہ سید ابوالبرکات اشرفی مفتی اعظم پاکستان اور حضرت علامہ ابوالحسنات اشرفی صدر جمیعۃ علمائے پاکستان خطیب مسجد وزیر خان نے پروان چڑھایا حضور پرنور کی عنایات اور ان تینوں باپ بیٹوں پر حد سے فزوں تھی ،اس کے جلسوں میں شرکت فرماتے لا ہور تشریف لےجاتے تو دارالعلوم حزب الاحناف میں دودو ماہ قیام فرماتے اس دارالعلوم کے بھی اکثر فارغین حضور پرنورمخدوم الاولیاء کے سلسلے میں داخل ہوئے اور آج جبکہ ان سطور کو لکھا جارہاہے ، یہ مرجع مشائخ کرام اور مرکز علماء کبار کی حیثیت اختیار کرچکے ہیں۔

No comments:

Post a Comment