مبارکپور
اور جامعہ اشرفیہ
تحریر:
عامر فہیم ،مبارکپور اعظم گڑھ
ضلع
اعظم گڑھ کا سب سے بڑا قصبہ مبارکپور جو کہ لاکھوں کی آبادی پر مشتمل ہے اور اکثریتی
آبادی مسلمانوں کی ہے ۔یوں تو مبارکپور اپنی صنعت و حرفت کے اعتبار سے بھی عالمی شہرت
یافتہ قصبہ رہا ہے جہاں کی تیار کردہ ریشمی ساڑیاں دنیاکے گوشے گوشے میں پہنچتی ہیں
ساتھ ہی ساتھ مبارکپور میں ہر مکتب فکر کے مرکزی اداروں کا ہونا بھی اس کی شہرت میں
چار چاند لگاتے ہیں ۔کثیر تعداد میں مسلم طلباء مختلف جگہوں سے مبارکپور کا سفر کرکے
عالمیت کی فراغت حاصل کرتے ہیں اور پوری دنیا میں اسلام کی تبلیغ میں مشغول رہتے ہیں
۔ان اداروں میں الجامعۃ الاشرفیہ سر فہرست ہے جو عالمی شہرت یافتہ بھی ہے اور اہلسنت
والجماعت کا مرکزی ادارہ بھی ہے ۔
گولہ
بازار کی مسجد میں شروع ہونے والا مدرسہ مصباح العلوم آج ترقی کی ان منزلوں پر ہے جسے
پوری دنیا جامعہ اشرفیہ کے نام سے جانتی ہے ۔مدرسہ مصباح العلوم میں مکتبی تعلیم کے
ساتھ ہی کچھ عربی تعلیم کا بھی انتظام تھا ۔مدرسہ کے مختلف حالات پیدا ہوئے کچھ سازشوں
کا شکار بھی اسے ہونا پڑا چنانچہ یہ کچھ دن بند بھی ہوا پھر ۱۳۲۹ ھ میں غوث العالم محبوب
یزدانی سید سلطان حضور مخدوم اشرف جہانگیرسمنانی رضی اللہ عنہ اور شاہ عبد الطیف ستھنی رحمۃ اللہ علیہ کی نسبت سے مدرسہ لطیفیہ اشرفیہ مصباح العلوم کے
نام سے اسے نئی پہچان ملی ۔اسے چلانے کیلئے مدرسہ کے ذمہ داران جھولیاں گلے میں ڈال
کر گلی گلی اور دروازوں پر دستک دیتے اور چندہ اکٹھا کرتے، باہر دیہاتوں میں اناج جمع
کرتے طلباء اور مدرسین کے اخراجات کا وہی ایک ذریعہ تھا ۔بعد میں مدرسہ کے نام سے لطیفیہ
لفظ کو علیحدہ کردیا گیا اور اسکا نام مدرسہ اشرفیہ مصباح العلوم کردیا گیا ۔ ۱۹۲۲ ء میں
محلہ پرانی بستی میں اس مدرسہ کا قیام کیا گیا جسے اعلی حضرت محبوب ربانی سید علی حسین اشرفی کچھوچھوی کی سرپرستی حاصل تھی جس عمارت میں
مدرسہ کا قیام ہوا وہ مبارکپور کے ہی مشہور تاجر خانوادہ سے تعلق رکھنے والے شیخ عبد
الوہاب انصاری گرہست، جناب الحاج عبد الرحمان رحمان صاحب اور جناب حافظ عبد الواحد
صاحب نے ۲۰ مارچ
۱۹۲۲ کو
مدرسہ کے نام وقف کیا پھر کچھ دنوں کے بعد معیار تعلیم کو بلند کرنے کی ضرورت محسوس
ہوئی ۔اس وقت مبارکپور کی ایک بہت ہی بااثر اور ہر دلعزیز شخصیت جناب شیخ محمد امین
انصاری نے عوام کے مشورہ سے یہ طے پایا کہ مدرسہ ایک کشادہ اور مرکزی جگہ پر قائم کیا
جائے اس کیلئے قصبہ کے قلب میں حسب ضرورت ایک زمین موجود تھی اور یہ زمین بھی اسی خاندان
کی تھی جو ان لوگوں نے ۲۷؍ ستمبر ۱۹۳۴ کو وقف کی ۔
شیخ
محمد امین انصاری نہایت جری ،ہوش مند پرجوش اور متھور تھے جن کی پرجوش قیادت نے تقریباً
چوتھائی صدی پورے مبارکپور کو زندہ اور متحرک رکھا ۔۴۳ھ کے لگ بھگ جناب شیخ محمد امین
انصاری مدرسہ ہی نہیں بلکہ پورے مبارکپور کے سنیوں کے صدر قرار پائے ۔شیخ محمد امین
انصاری برٹش دور حکومت میں آنریری مجسٹریٹ بھی تھے اور ٹاؤن ایریا کے چیئر مین بھی
رہے ۔ان کی پرجوش و ولولہ انگیز قیادت میں مدرسہ کی نئی تعمیر کا کام شروع ہوا ، مبارکپور
کے عوام نے انتہائی جذبہ و اخلاص کے ساتھ ہر طرح کا تعاؤن کیا ۔یہ وہی زمانہ تھا جب
معیار تعلیم بلند کرنے کیلئے کمیٹی کی درخواست اور صدر الشریعہ علیہ الرحمہ کے حکم
پر علامہ شاہ عبد العزیز مرادآبادی مباررکپور تشریف لائے ،آپ ایک بہت بڑے عالم اور
غیر معمولی عزم و حوصلہ کے مالک تھے ان کی رہنمائی میں لوگوں کے اندر مذہبی جو ش و
جذبہ غیر معمولی حد تک بڑھ گیا ۔ مدرسہ کی تعمیر کیلئے چندہ کا سلسلہ شروع ہوا علامہ
مظفر حسن ظفر ادیبی رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب اسلام کا نظریہ حیات و ممات میں رقم طراز
ہیں ’’زمین حاصل کرنے کا مرحلہ ختم ہوگیا اب دشوار تر مرحلہ اس کی تعمیر کا پیش آیا
اس وقت کے حالات کا نقشہ لفظوں میں بیان نہیں کیا جا سکتا ،جب چندہ کا قافلہ یہاں کے
مفلس و نادار نان شبینہ کے محتاج سنی مسلمانوں کے گھروں پر پہونچتا تو اہل خانہ پر
ایک دیوانگی سی طاری ہو جاتی آنکھیں ڈبدبا جاتیں پھر اپنے گھروں کے موجودہ سارے سامان
حتیٰ کہ پرانے برتن بھی حاضر کردیتے اور عورتیں اپنے جسموں سے زیورات اتارکر مدرسہ
پر نچھاور کردیتیں ،کیا ان جذبات کا کوئی مقابلہ کرسکتا ہے؟‘‘چندہ کے دوران کا ہی ایک
واقعہ بہت مشہور ہے کہ ایک غریب عورت جو بڑی دیر سے دروازہ کھولے ہوئے ایک ٹمٹماتا
دیا رکھے اپنی باری کا انتظار کررہی تھی لوگوں کو آگے بڑھتا دیکھ کر لاٹھی ٹیکتی ہوئی
باہر آئی اور ایک آدمی کو پکڑ کر بولی ’’بھیا ہو! کیا مدرسہ مالداروں کا ہی ہے غریبوں
کا نہیں ؟جواب میں اس بوڑھی عورت سے کہاگیا نہیں غریب تو مالدار سے زیادہ حق دار ہیں
۔اس بوڑھی عورت نے پھر پوچھا آخر میرے گھر چندہ مانگنے کیوں نہیں آئے ؟ظاہر ہے اس کا
جواب کسی کے پاس نہیں تھا ۔سننے والا تڑپ اٹھا اور تڑپنے والی بات بھی تھی وہ جاتا
ہے اور ذمہ داران سے بیان کرتا ہے اور چندہ کا قافلہ اس بوڑھی عورت کے گھر جاتا ہے
۔بوڑھی عورت نے مرغی کے تین انڈے جمع کر رکھے تھے ،پورے حوصلہ کے ساتھ نظم پڑھوائی
اور وہی انڈے چندہ میں دیا اور وہ انڈا مجمع کے اصرار پر نیلام ہوا اور اس دوران ۱۵۰ روپے
اس کی قیمت دیکر اس انڈے کو نیلام کیا گیا ۔چندہ کے اختتام کے بعد مرحلہ سنگ بنیاد
کا آیا جس کی ترتیب کچھ اس طرح تھی پہلے اعلیٰ حضرت سید علی حسین اشرفی میاں علیہ الرحمہ
نے بنیاد رکھی انکے بعد سرپرست مدرسہ حضرت محدث اعظم ہند کچھوچھوی رحمۃ اللہ علیہ پھر ان کے بعد مربئ مدرسہ حضرت مولانا امجد علی
صاحب رحمۃ اللہ علیہ ۔ان حضرات کے بعد حضرت
حافظ ملت رحمۃ اللہ علیہ اور دوسرے علماء کرام نے سنگ بنیاد رکھا ۔پھر اہل مبارکپور
میں سب سے پہلے صدر مدرسہ جناب شیخ محمد امین صاحب انصاری اور حضرت علامہ ظفر ادیبی
رحمۃ اللہ علیہ نےاس مقدس کام میں حصہ لیا
۔اس کے بعد مبارکپور کے دوسرے حضرات نے رقت آمیز جذبات کے ساتھ سنگ بنیاد کا فریضہ
انجام دیا ۔ مدرسہ میں جمع ہونے والے طلبہ کے طعام کے انتظام کیلئے مبارکپور کے سنی
مسلمانوں نے ایک ایک طلباء کو اپنے گھروں کیلئے تقسیم کرلیا جس کیلئے ’’جاگیر ‘‘کھلانے
کی روایت قائم کی سنی مسلمان خود بھوکے تو رہ لیتے مگر اس طالب علم کو جو کہیں اور
سے مبارکپور میں تعلیم حاصل کرنے آیا ہے بھوکا نہیں رہنے دیتے گھر میں جوکچھ ہوتا اس
کیلئے نچھاور کردیتے ۔ان کے رہنے کا انتظام شیخ محمد امین انصاری کے مکان اور مختلف
دالانوں ،امام باڑوں ،،مسجدوں کے حجروں اور مختلف جگہوں پر کیا گیا ۔
یوں
تو مبارکپور کو سید راجہ مبارک شاہ نے آباد کیا لیکن دینی تعلیم کا آغاز خانوادہ کچھوچھہ
مقدسہ نے کیا ۔مبارکپور کے مسلمان اہل کچھوچھہ مقدسہ کے عظیم احسانات کو کبھی فراموش
نہیں کرسکتے ۔الجامعۃ الاشرفیہ دن بہ دن ترقی کے منازل طے کررہا ہے اور اس کے فارغین
دنیا کے گوشے گوشے میں پہونچکر مختلف شعبوں میں اہم خدمات انجام دے رہے ہیں۔
بانئ
الجامعۃ الاشرفیہ مبارکپور
تحریر:
اٰلِ رسول احمد الاشرفی القادری ( ریاض سعودی
عرب)
سالک
مسالک شریعت وطریقت واقف اسرارحقیقت ومعرفت منبع برکات کا پیکرانواروتجلیات حاجی
الحرمین الشریفین محبوب ربانی ہم شبیہ غوث
اعظم سید شاہ ابواحمد المدعومحمد علی حسین اشرفی میاں الجیلانی رضی
اللہ تعالیٰ عنہ کچھوچھہ شریف ہندوستان
اور انکے مشہور خلفاء کرام
فخرالعلماءحضرت
علامہ سید شاہ محمد فاخر اٰلہ آبادی علیہ الرحمہ
استادالعلماء
حضرت محمد نعیم الدین اشرفی مرادآبادی علیہ الرحمہ
مبلغ
اسلام حضرت سید میر محمد غلام بھیک میر نیرنگ اشرفی علیہ الرحمہ
حضرت
علامہ مولانا سید شاہ امیر ہمزہ اشرفی علیہ الرحمہ
حضرت
مولانا خلیل الدین اشرفی خلیل اللہ شاہ بریلوی
علیہ الرحمہ
حضرت
مولاناغلام قطب الدین اشرفی برہمچاری علیہ الرحمہ
قطب
ربانی مولانا سید شاہ طاہر اشرف دہلوی علیہ الرحمہ
امام
المحدثین سید دیدارعلی شاہ اشرفی محدث الواری علیہ الرحمہ
تاج
العلماء مولانا مفتی محمد عمر اشرفی نعیمی مرادآبادی علیہ الرحمہ
بحرالعلوم
حضرت علامہ مفتی عبدالحفیظ حقانی حفظ اللہ شاہ
اشرفی علیہ الرحمہ
مفتی
اعظم پاکستان علامہ سید شاہ ابوالبرکات
اشرفی لاہوری علیہ الرحمہ
مفسرقرآن علامہ سید شاہ ابوالحسنات احمد قادری
اشرفی لاہوری علیہ الرحمہ
مبلغ
اسلام حضرت مولانا شاہ عبدالعلیم میرٹھی
اشرفی صدیقی مدنی علیہ الرحمہ
خطیب
اعظم مولانا شاہ عارف اللہ اشرفی میرٹھی علیہ الرحمہ
مجاہد
ملت علامہ شاہ حبیب الرحمن اشرفی اڑیسوی علیہ الرحمہ
مفسرشہیر
حکیم الامت حضرت علامہ مفتی محمد احمد یار خاں نعیمی اشرفی علیہ الرحمہ
سلطان
الواعظین حضرت سید شاہ احمد اشرف اشرفی الجیلانی علیہ الرحمہ
حجۃ
الاسلام حضرت علامہ مولانا شاہ حامد رضاؔ خاں اشرفی بریلوی علیہ الرحمہ
استاد
العلماء حضرت مولانا مفتی محمد عبدالرشید خان اشرفی ناگپوری علیہ الرحمہ
استاد
العلماء حضرت مولانا محمد یونس اشرفی
سنبھلی علیہ الرحمہ
امین
شریعت حضرت مولانا شاہ محمدرفاقت حسین اشرفی
کانپوری علیہ الرحمہ
قطب
الوقت حضرت مولانا الشیخ محمد ضیاء الدین مدنی
اشرفی مدینہ شریف علیہ الرحمہ
رئیس
المحققین حضرت مولانا سید سلیمان اشرف اشرفی بہاری علیہ الرحمہ
صدرالعلماء
امام النحو حضرت غلام جیلانی میرٹھی اشرفی علیہ الرحمہ
جلالۃ
العلم حافظ ملت حضرت مولانا عبدالعزیز
اشرفی محدث مرادآبادی
حضرت
علامہ سید محمد مجتبیٰ اشرف اشرفی الجیلانی علیہ الرحمہ
حضرت
مولانا الشیخ سید شاہ عبدالعزیز اشرفی
مدینہ منورہ علیہ الرحمہ
حضرت
علامہ مولانا محمد علی حسین اشرفی مدنی علیہ الرحمہ
سرکار
کلاں حضرت سید شاہ مختار اشرف اشرفی الجیلانی علیہ الرحمہ
انکے
علاوہ سینکڑوں کی تعداد میں خلفائے کرام
ہیں جنہوں نے اسلام اور سنیت کا پرچم دیناکے کونے کونے تک پہونچایا آج جو ہماری پہچان بنی ہوئی ہیں یہ انہیں مقدس
ہستیوں کا احسان ہے اللہ ہمیں بھی انکے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
No comments:
Post a Comment