یزید پلید کے شیطانی کارنامے
عظیم
مؤرخ حضرت علامہ طبری رحمۃ اللہ علیہ اپنے
مشہور کتاب "التاریخ طبری " میں لکھتے ہیں کہ یزید نے ابن زیاد کو کوفہ
کا حاکم مقرر کیا اور اسے حکم دیا کہ حضرت
مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہ کو جہاں
پاؤ قتل کردو یا شہر سے نکال دو۔
(تاریخ
طبری ، 4/176)
پھر جب
حضرت مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہ اور ہانی کو شہید کردیا گیا تو ابن زیاد نے ان
دونوں کے سرکاٹ کر یزید پلید کے پاس دمشق بھیجے ۔ اس پر یزید خبیث نے ابن زیاد کو خط لکھ کر اس کا شکریہ اداکیا۔
تاریخ
کامل ، 6/36)
یہ بھی
لکھا ، جو میں چاہتاتھا تونے وہی کیا تونے عاقلانہ کا م اور دلیر انہ حملہ کیا ۔
(تاریخ
کامل4/173)
علامہ
ابن جریر طبری رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ ابن زیاد نے امام حسین رضی اللہ عنہ کا
سراقدس آپ کے قاتل یزید کے پاس بھیج دیا ۔اس نے وہ سر اقدس یزید لعین کے سامنے رکھ
دیا ۔ اس وقت وہاں صحابی رسول حضرت سیدنا ابوبرزۃ الاسلمی رضی اللہ عنہ بیٹھے ہوئے
تھے۔ یزیدمردود نے ایک چھڑی امام حسین رضی اللہ عنہ کے مبارک لبوں پر مارنے لگے اور اس نے یہ شعر
پڑھے:
"انہوں
نے ایسے لوگوں کی کھوپڑیوں کو پھار دیا جو ہمیں عزیز تھے لیکن وہ وہ نافرن اور
ظالم تھے۔"
حضرت
سیدنا ابوبرزۃ الاسلمی رضی اللہ عنہ سے برداشت نہ ہوسکا اور انہوں نے فرمایا: اے
یزید! اپنی چھڑی ہٹالو۔ خداکی قسم ! میں نے بارہا دیکھا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ
علیہ والہ وسلم اس مبارک منہ کو چومتے
تھے۔
(
تاریخ طبری ،4/181)
(البدایہ
والنہایہ ، 8/197)
مشہورمؤرخین
علامہ ابن کثیر نے البدایہ والنہایہ میں اور علامہ ابن اثیر رحمۃ اللہ علیہ نے
تاریخ کامل میں اس واقعہ کو تحریر
فرمایا ہے۔
اب آپ
خود ہی فیصلہ کیجئے کہ سیدنا امام حسین
رضی اللہ عنہ کی شہادت پر یزید کتنا خوش
ہوا ہوگاارے وہ سنگدل ،ظالم، فاسق، فاجر، بدکار ، شرابی ، مردود ، ملعون، ہے جو
نواسہ رسول اعظم کے سراقدس کو اپنے سامنے رکھ کر متکبرانہ شعر پڑھتا تھا اور ان
مبارک لبوں پر اپنی چھڑی مارتا ہے جو حبیبِ خداعزوجل سیدنا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ والہ واصحابہ
وسلم اکثر چوما کرتے تھے، کیا وہ لعنت
وملامت کا مستحق نہیں ہے؟
جب اہل
بیت نبوت کا یہ مصیبت زدہ قافلہ ابن زیاد
نے یزید لعین کے پاس بھیجاتو اس نے
ملک شام کے امراء اور درباریوں کو جمع کیا پھر بھرے دربار میں خانوادۂ نبوت کی
خواتین اس کے سامنے پیش کی گئیں اور اس کے سب درباریوں نے یزید کو اس فتح پر
مبارکباد دی۔ (طبری،4/181)
(البدایہ
والنہایہ ،8/197)
اس عام
دربار میں ایک شامی شیطان نما انسان کھڑا ہوا اور اہل بیت میں سے سیدہ فاطمہ بنت حسین رضی اللہ عنہا کی طرف اشارہ
کرکے یہ کہنے لگے یہ مجھے بخش دو۔معصوم سیّدہ یہ سن کر لزرگئی اور اس نے اپنی بہن
سیّدہ زینب رضی اللہ عنہا کا دامن مضبوطی سے پکڑ لیا۔
حضرت سیدتنا
رینب رضی اللہ عنہا نے گرج کر کہا، تو جھوٹ بکتا ہے یہ نہ تجھے مل سکتی ہے اور نہ
اس یزید کو
یزیدلعین
یہ سن کر طیش میں آگیا اور بولا، تم جھوٹ بولتی ہو ۔ خداکی قسم! یہ میرے قبضے میں
ہے اور اگر میں اسے دینا چاہوں تو دے سکتا ہوں۔
سیدہ
زینب رضی اللہ عنہا نے گرجدار آواز میں کہا ، ہرگز نہیں ۔ خداکی قسم! تمہیں
ایساکرنے کا اللہ تعالی نے کوئی حق نہیں دیا
ہے ۔
(طبری
،4/181)
(البدایہ
والنہایہ ، 8/197)
بعض
لوگ یزید لعین کی حمایت میں افسوس و ندامت کا ذکر کرکے اسے بے قصور ثابت کرنےکی
کوشش کرتے ہیں اس کی ندامت کی حقیقت علامہ ابن اثیر رحمۃ اللہ علیہ کے قلم سے
پڑھیئے:
جب
امام عالی مقام کا سراقدس یزید کے پاس پہونچا تو یزید کے دل میں ابن زیاد کی قدر و
منزلت بڑھ گئی اور جو اس نے کیا تھا اس پر یزید بڑاخوش ہوا لیکن جب اسے یہ خبر یں ملنے لگیں کہ اس وجہ سے
لوگ اس سے نفرت کرنے لگے ہیں اس پر لعنت بھیجتے ہیں اور اسے گالیاں دیتےہیں تو پھر
وہ امام حسین رضی اللہ عنہ کے قتل پر نادم ہوا۔ (تاریخ کامل ، 4/87)
یزید
کی ندامت و پیشمانی کی وجہ آپ نے پڑھ لی ہے ۔ اس ندامت کا عدل و انصاف سے ذرا بھی
تعلق نہیں ہے ورنہ ایک عام مسلمان بھی قتل
کردیا جائے تو قاتل سے قصاص لینا حاکم پر فرض ہوتا ہے ۔ یہاں تو خاندان نبوت کے
قتل عام کا معاملہ تھا ۔ ابن زیاد، ابن سعد، شمرمعلون وغیرہ سے قصاص لینا تو
درکنار کسی کو اس کے عہدہ سے برطرف تک نہ کیا گیا اور نہ ہی کوئی تادیبی کاروائی
ہوئی بلکہ خوشی کا اظہار کیا بعد میں حالات بے قابو ہونے کے خوف سے وقتیہ طور سے
سیاسی انداز میں رنج و ملال کا اظہار کیا ۔
قتل حسین
رضی اللہ عنہ کایزید نے حکم دیا
ابن زیاد بدنہاد کا اقراری بیان
ابن
زیاد بدنہاد نے خود اقرار کیا کہ یزید پلید نے اسے سید الشہداء سیدنا امام حسین
رضی اللہ عنہ کو شہید کرنے کا حکم دیا ورنہ خود اسے قتل کرنے کی دھمکی دی
تھی۔جیساکہ ابن اثیر ،تاریخ کامل میں ابن زیاد کا قول نقل کرتے ہیں : اما قتلی
الحسین فانہ اشار علی یزید بقتلہ اوقتلی فاخترت قتلہ۔
اب رہا
امام حسین رضی اللہ عنہ کو میرا شہید کرنا تو بات دراصل یہ ہے کہ یزید نے مجھے اس
کا حکم دیا تھا بصورت دیگر اس نے مجھے قتل کرنے کی دھمکی دی تھی تو میں نے انہیں
شہید کرنے کو اختیار کیا ۔ (التاریخ
الکامل ،4/474)
مدینہ
منورہ و مکہ مکرمہ پر حملہ
جب 63
ہجری میں یزید پلید کو یہ خبر ملی کہ اہل مدینہ نے اس کی بیعت توڑدی ہے تو اس نے
ایک عظیم لشکر مدینہ منورہ پر حملہ کے لیے روانہ کیا ۔علامہ ابن کثیر رحمۃ اللہ
علیہ اس لشکر کے سالار اور اس کے سیا ہ کارناموں کے متعلق لکھتے ہیں :۔
مسلم
بن عقبہ جسے اسلام مسرف بن عقبہ کہتے ہیں ، خدا اس ذلیل و رسوا کرے ، وہ بڑا جاہل
اور اجڈ بوڑھا تھا ۔ اس نے یزید کے حکم
مطابق مدینہ طیبہ کو تین دن کے لئے مباح کردیا ۔اللہ تعالیٰ کو جزائے نہ دے ، اس
لشکر نے بہت سے بزگوں اور قاریوں کو قتل کیا اموال لوٹ لئے ۔ ( البدایہ ج8/220)
مدینہ
طیبہ کو مباح کرنے کا مطلب یہ ہے وہاں جس کو چاہو قتل کرو، جو مال چاہولوٹ ہواور
جس کو چاہوآبرویزی کرو ۔ (العیاذباللہ) یزیدی لشکر کے کرتوت پڑھ کر ہر مومن خوف
خدا سے کانپ جاتا ہے اور سکتہ میں آجاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کی
حرام کی ہوئی چیزوں کو اس شخص نے حلال کردیا جسے آج لوگ امیر المومین بنانے پر تلے
ہوئے ہیں ۔
علامہ
ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں ، یزیدی لشکر نے عورتوں کی عصمتیں پامال کیں
اور کہتے ہیں کہ ان ایا م میں ایک ہزارکنواری عورتیں حاملہ ہوئیں ۔ (البدایہ ج 8/221)
تاریخ
میں اس واقعہ کو واقعہ حرہ کہا جاتا ہے۔
اعلیٰ
حضرت محدث بریلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں، شک نہیں کہ یزید کہ نے والی ملک ہوکر
زمین میں فساد پھیلایا، حرمین طیبین وخود کعبہ معظمہ وروضہ طیبہ کی سخت بے حرمتیاں
کیں، مسجد کریم میں گھوڑے باندھے، ان کی لید اور پیشاب منبر اطہر پر پڑے،
تین دن مسجد نبوی بے و نماز رہی ، مکہ ومدینہ و حجاز صحابہ وتابعین بے گناہ
شہیدکئے گئے۔
کعبہ
معظمہ پر پھینکے، غلاف شریف پھاڑا اور جلایا ، مدینہ طیبہ کی پاک دامن پارسائیں
تین شبانہ روز اپنے خبیث لشکر پر حلال کردیں۔ (عرفان شریعت)
حضرت
سعید بن مسیب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، ایام حرہ میں مسجد نبوی میں تین تک اذان
واقامت نہ ہوئی ۔ جب بھی نماز کا وقت آتا تو میں قبر انور سے اذان اور اقامت آواز
سنتا تھا۔
(دارمی،
مشکوۃ ، وفاالوفاء)
علامہ
سیوطی الشافعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں
کہ جب مدینہ پر لشکر کشائی ہوئی تو وہاں کا کوئی ایسا شخص نہ تھا جو اس لشکر سے
پناہ میں رہا ہو۔ یزیدی لشکر کے ہاتھوں ہزاروں صحابہ کرام علیہم الرضوان شہید ہوئے
، مدینہ منورہ کو خوب لوٹا گیا ، ہزاروں کنواری لڑکیوں کی آبروریزی کی گئ۔
مدینہ
منورہ تباہ کرنے کے بعد یزیدملعون نے اپنا لشکر حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ
سے جنگ کرنے کے لیے مکہ معظمہ بھیج دیا
اس لشکر نے مکہ مکرمہ پہونچ کر ان
کا محاصرہ کرلیا اور ان پر منجنیق سے پتھر برسائے ۔
ان
پتھر وں کی چنگاریوں سے کعبہ شریف کا پردہ جل گیا ، کعبہ کا چھت اور اس دنبہ کا سینگ
جو حضرت اسماعیل علیہ السلام کے فدیہ میں جنت سے بھیجا گیا تھا اور وہ کعبہ کی چھت
میں آویزاں تھا، سب کچھ جل گیا ۔
یہ
واقعہ 64 ہجری میں ہوا اور اس کے اگلے ماہ یزید لعین مرگیا۔
جب یہ
خبر مکہ مکرمہ پہونچی تو یزیدی لشکر بھاگ کھڑا ہوا اور لوگوں نے حضرت عبداللہ بن
زبیر کے ہاتھ پر بیعت کرلی۔ ( تاریخ الخلفاء ص 307)
No comments:
Post a Comment