تذکرہ سیدتنا ام المومنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا
آج 17 رمضان المبارک یوم وصال حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا ہے
ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا افضل البشر بعد الانبیاء سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی ہیں۔
آپ کی والدہ محترمہ کا نام سیدتنا ام رومان رضی اللہ عنہا ہے ۔
عقد نکاح:
ہجرت سے قبل ماہ شوال المکرم میں حضور اکرم صلی اللہ علہد وسلم نے آپ سے نکاح فرمایا اور ایک ہجری مںں رخصتی ہوئی اس وقت آپ کی عمر مبارک 9 سال تھی۔
آپ کے علاوہ کسی اور بے بیاہی سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح نہیں فرمایا ۔
آپ کی کئی خصوصیات اور فضائل ہیں آپ بستر نبوت پر ہوتے اس حالت میں بھی نزول وحی ہوتا۔
آپ کی برأت اورپاکدامنی پر وحی نازل ہوئی ۔ صحیح بخاری ومسلم میں حدیث مبارک ہے :
حَدَّثَنِى أَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَنَّ عَائِشَةَ رَضِىَ اللهُ عَنْهَا زَوْجَ النَّبِىِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَتْ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم : يَا عَائِشَ هَذَا جِبْرِيلُ يُقْرِئُكِ السَّلاَمَ ۔قُلْتُ وَعَلَيْهِ السَّلاَمُ وَرَحْمَةُ اللَّهِ . قَالَتْ وَهْوَ يَرَى مَا لاَ نَرَى .
ترجمہ :حضرت ابوسلمہ بن عبد الرحمن رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ائے عائشہ! یہ جبریل ہیں تمہیں سلام کہتے ہیں تو میں نے جواب دیا کہ ان پر سلام اور اللہ کی رحمت ہو۔ اورآپ نے ارشاد فرمایا:حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم وہ دیکھتے ہیں جو ہم نہیں دیکھ سکتے۔
(صحیح بخاری ،کتاب الأدب، باب من دعا صاحبه فنقص من اسمه حرفا، حدیث نمبر: 6201۔ صحیح مسلم ، باب فى فضل عائشة رضى الله تعالى عنها. ،حدیث نمبر: 6457 )۔
ام المؤمنین رضی اللہ عنہا کا علمی مقام :
تقریباً دوہزار دوسو دس (2210) احادیث شریفہ آپ سے مروی ہیں ۔
جامع ترمذی شریف میں روایت ہے:
عَنْ أَبِى مُوسَى قَالَ مَا أَشْكَلَ عَلَيْنَا أَصْحَابَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدِيثٌ قَطُّ فَسَأَلْنَا عَائِشَةَ إِلاَّ وَجَدْنَا عِنْدَهَا مِنْهُ عِلْمًا. قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ.
ترجمہ: حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ،آپ فرماتے ہیںَ کہ ہم اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جب بھی کسی حدیث شریف سے متعلق (استنباط مسائل میں) مشکل ہوتی تو ہم حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھتے،اور آپ کے پاس اس کا علم پاتے .
(جامع ترمذی، باب فضل عائشة رضى الله عنها. حدیث نمبر: 4257) ونیز جامع ترمذی شریف میں مروی ہے :
عَنْ مُوسَى بْنِ طَلْحَةَ قَالَ مَا رَأَيْتُ أَحَدًا أَفْصَحَ مِنْ عَائِشَةَ۔
ترجمہ: حضرت موسیٰ ابن طلحہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے زیادہ کسی کو فصیح و بلیغ نہیں دیکھا۔
(جامع ترمذی، باب فضل عائشة رضى الله عنها. حدیث نمبر: 4258)
ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے،آپ فرماتی ہیں: جبرئیل علیہ السلام نے فرمایا میں نے مشرق و مغرب کا ہر حصہ دیکھ لیا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے افضل کسی کو نہیں پایا اور کسی خاندان کو بنی ہاشم سے بڑھ کر فضیلت والا نہ پایا۔ (معجم طبرانی ، بیقی )
صادقہ بنت صدیق(رضی اللہ عنہما)
حضرت مسروق رحمۃ اللہ علیہ جب حضرت ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے کوئی حدیث روایت کرتے تو یہ فرماتے:مجھے صادقہ بنت صدیق،حبیبہ حبیب اللہ نے بیان کیا ہے۔
قال الشعبی:کان مسروق اذا حدث عن عائشۃ رضی اللہ عنہا یقول:'' حدثتنی الصادقۃ ابنۃ الصدیق،حبیبۃ حبیب اللہ۔(مقدمۃ مسند ام المومنین عائشۃ رضی اللہ عنہا للیسوطی)
امام زہری رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ اگر تمام امہات المومنین اور دنیا بھر کی خواتین کا علم جمع کیا جائے تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا علم ان سب پر فوقیت لے جائے گا۔(مقدمۃ مسند ام المومنین عائشۃ رضی اللہ عنہا للیسوطی)
قال:لو جمع علم عائشۃ رضی اللہ عنہا الی علم جمیع امہات المومنین وعلم جمیع النساء لکان علم عائشۃ رضی اللہ عنہا افضل۔
واقعۂ افک اور صدیقہ کائنات رضی اللہ عنہا کی پاکی وبراءت:
منافقین اسلام کی روز افزوں ترقی سے بے حد پریشان ہونے لگے اور اہل اسلام سے ان کا حسد مزید بڑھتا چلا گیا وہ ہر وقت کوئی نہ کوئی فتنہ پیدا کرنے کی کوشش میں لگے رہتے ۔ غزوۂ مُرَیْسِیْعْ سے واپسی میں انہوں نے اپنی فتنہ انگیزی کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی عفت و عصمت اور پاکدامنی کے خلاف آواز اٹھائی اور تہمت و بہتان باندھا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام مبارک کے ذریعہ ام المؤمننن حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی عفت و پاکدامنی اور آپ کی براء ت و تقدس کا اعلان فرمایا، اس بہتان طرازی کی سخت مذمت فرمائی، تہمت لگانے والوں کے بدترین انجام کا ذکر ، سورۂ نور میں ام المؤمنین کی قدر و منزلت اور شان اقدس کے بارے میں دس آیات نازل فرمائی ۔ آیت تیمم کا نزول: ’’غزوہ بنی مُصْطَلِقْ‘‘ جس کو ’’ مُرَیْسِیْعْ ‘‘کہا جاتاہے ، اسی غزوہ میں ’’تیمم‘‘کا حکم نازل ہوا ۔ (صححا ابن حبان ،کتاب الطہارۃ،باب التیمم،حدیث نمبر:1334۔ فتح الباری،کتاب التیمم،حدیث نمبر:322،ج:2،ص:23)
ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بھی اس سفر میں شریک تھںیں ، جب قافلہ مقام ’’بَیْدَاء ‘‘یا مقام ’’ذات الجَیْش‘‘ پہنچا تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا ہار گم ہوگیا ، ہار تلاش کیا جانے لگا ، اس مقام پر پانی موجود نہ تھا، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے نبی اکرم صلی اللہ علہج وسلم کی خدمت مںیں عرض کیا کہ وضو کے لئے پانی نہیں ہے، تب اللہ تعالیٰ نے تیمم کا حکم نازل فرمایا، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اورصحابۂ کرام نے تیمم کیا اور فجر کی نماز ادا کی ۔ جب تیمم کی آیت نازل ہوئی تو صحابہ کرام مں خوشی کی لہر دوڑگئی ، انہوں نے کہا:مَاھِیَ بِاَوَّلِ بَرَکَتِکُمْ یٰا اٰلَ اَبِیْ بَکْرٍ ۔ ترجمہ:اے اٰلِ ابوبکر یہ تمہاری پہلی برکت نہیں ۔ (صحح بخاری،کتاب التیمم،حدیث نمبر:334 ۔صحح۔ مسلم،کتاب الطہارۃ،باب التیمم،حدیث نمبر:842)
شان سیدالمرسلین بزبانِ ام المومنین (صلی اللہ علہ وسلم ورضی اللہ عنہا) ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں.
کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم احسن الناس وجھاًوانورہم لوناً۔
حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لو گوں میں سب سے بڑھ کرحسین چہرہ والے اوررنگت میں سب سے بڑھ کر بارونق ہیں ۔
ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں :
کنت اخیط فی السحر فسقطت منی الابرۃ فطلبتھافلم اقدر علیھا فدخل رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فتبینت الا برۃ بشعاع نور وجھہ۔
میں رات کے وقت کچھ سی رہی تھی تو میرے ہاتھ سے سوئی گرگئی مں نے اس کوتلاش کی لیکن پانہ سکی پھر حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رونق افروز ہوئے تو آپ کے چہرہ انور کے نور کی شعاع سے سوئی چمک اُٹھی۔
(خصائص کبریٰ ج 1 ص62!63۔سبل الھدی والرشاد ج2ص40) حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا پسینۂ مبارک چہرہ انور پر موتیوں کی طرح معلوم ہوتا۔
ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں
کان عرق رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فی وجھہ مثل اللؤ لؤ اطیب ریحا من المسک الاذفر۔
حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا پسینۂ مبارک آپ کے چہرہ انور پر آبدار موتیوں کی طرح ہوتا اور اس کی مہک مشک سے زیادہ خوشبودار ہوتی۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم قضائے حاجت سے فارغ ہوتے توزمین فضلات مبارک کو اپنے اندر لے لیتی اور اس مقام پر مشک کی خوشبومہکتی جیسا کہ حدیث پاک میں ہے:
عن عائشۃ قالت قلت یارسول اللّٰہ انی اراک تدخل الخلاء ثم یجیٔ الذی بعدک فلایری لما یخر ج منک اثرا فقال یاعائشۃ أما علمت انّ اللّٰہ امر الارض ان تبتلع ماخرج من الانبیاء۔
ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہاسے روایت ہے فرماتی ہیں کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں نے آپ کودیکھا آپ حاجت کے لئے تشریف لے جاتے ہیں اور وہ شخص جو آپ کے تشریف لانے کے بعد اس مقام پر آتا تو کوئی اثر نہیں پاتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اے عائشہ ! کیا تم نہیں جانتی کہ اللہ تعالیٰ نے زمین کو حکم فرمادیا کہ وہ انبیاء کرام کے فضلات کو نگل جائے۔(خصائص کبری ج 1ص71۔کنزالعمال ج14ص117) ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا نے فرمایا:حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق تو قرآن کریم ہیں ۔ حضرت سعد بن ہشام بن عامر سے روایت ہے ، فرمایا: میں نے ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے پاس حاضر ہوکر عرض کیا : مجھے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کریمانہ سے متعلق بتائے ! آپ نے فرمایا: حضور صلی اللہ علہک وسلم کے اخلاق قرآن شریف ہے کیا تم قرآن نہیں پڑھتے؟ اللہ تعالی کا یہ فرمان ہے :اور بے شک آپ اخلاق کی بلندیوں پر فائز ہیں (مسند احمد ، حدیث السداہ عائشہ ، حدیث نمبر:25338) ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے ، انہوں نے کہا : حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: تم میں سب سے اچھا وہ ہے جو اپنے اہل خانہ کے لئے اچھا ہو اور میں اپنے گھر والوں کے لئے سب سے اچھا ہوں ۔ (جامع ترمذی ، باب فضل ازواج النبی ، حدیث نمبر:4269) حضرت اسود بن یزید سے روایت ہے ، انہوں نے کہا: میں نے ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا سے پوچھا ، حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب کاشانۂ اقدس میں تشریف لاتے تو آپ کا عمل کیا ہوتا؟ فرمایا:حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اہل خانہ کے کام میں تعاون فرمایا کرتے پھر جب نماز کا وقت آتا تو مسجد میں کھڑے ہوتے اور نماز ادا فرماتے ۔
(جامع ترمذی ، باب صفۃ القایمۃ ، حدیث نمبر:2677) ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا نے فرمایا: حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی دو چیزوں کے درمیان اختیار نہیں دیا گیا مگر آپ نے آسان ترین چیز کو اختیار فرمایا جب تک کہ وہ گناہ نہ ہو ، جب وہ گناہ ہوتو آپ اُس سے سب سے زیادہ دور رہتے ، اللہ کی قسم ! آپ نے کبھی کبھی اپنی ذات کے لئے کسی بات کا انتقام نہیں لیا یہاں تک کہ اللہ تعالی کی حرمتوں کو پامال نہ کیا جائے ، اگر اللہ تعالی کی حرمتوں کو پامال کیا جاتا تو آپ اللہ کے لئے انتقام لیتے۔ (صحح بخاری ، کتاب الحدود، باب اقامۃ الحدود والانتقام لحرمات اللہ ، حدیث نمبر:6786)
وصال مبارک:
حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال مبارک کے وقت آپ کی عمر شریف اٹھارہ 18 سال تھی
آپ کا وصال اٹھاون 58 ہجری مں ہوا۔ نماز جنازہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے پڑھائی اور جنت البقیع میں تدفین عمل میں آئی ۔
Tazkira Hazrat Ayesha Siddiqah
•Blogger | •Independent | •Journalist | •Writter | •Teacher | •Social Activities & •Motivator Rts are not endorsement.
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment